کردار سازی

کردار سازی
علم و آگہی سے آراستہ ہونے کے بعد شخصیت میں جاذبیت تو ضرور پیدا ہو جاتی ہے لیکن بات کی تکمیل تب ہی ہوسکتی ہے جب فرد کا کردار ایسا ہو کہ وہ حاصل ہونے والے علم و عرفان کو صرف اور صرف تعمیر ہی کے لئے استعمال کرنے پر کمر بستہ رہے۔ اگر کوئی فرد  سیکھے ہوئے علم کا محدود طرزوں میں ہی استعمال ہوا۔ اور اگر کہیں فرد کی طرزِ فکر میں تخریب ہو تو وہ اپنے علم کو دوسروں کو نقصان پہنچا کر اپنا بھلا کرنے میں استعمال کرنے سے شاید ہی گریز کرسکے۔
انسان اپنی سیکھی ہوئی باتوں کو جس انداز میں اپنا تا اور اُن کو جس طرح سے عملی طور پر برتتا ہے وہ اُس کا کردار کہلاتی ہیں۔ کردار کی اصل بنیاد طرزِ فکر ہوتی ہے۔ ایک انسان کی جیسی طرزِ فکر ہوتی ہے ویسا ہی اُس کا کردار تشکیل پاتا ہے۔ اگر انسان کی طرزِ فکر اپنی ذات سے محبت ایک حد سے برھی ہوئی ہوگی یا اُس میں لالچ اور  حرص و ہوا ہوگی تو وہ علم سے آراستہ ہونے، خوشگوار اور جاذب نظر شخصیت رکھنے کے باوجود ایسے کام سرانجام دے بیٹھے گا جن پر خود اُس کا ضمیر  اس کو ملامت کرتا اور لوگ اس کو بُرا سمجھتے اور کہتے ہیں۔ اس کی مثال وہ ڈاکٹر ہے جو کسی مریض کا گردہ نکال کر بھیج  دے۔  اب کیا وہ طب کے علوم سے آراستہ نہیں، اُس نے کسی اچھے تعلیمی ادارے میں بہترین ماحول میں تعلیم نہیں پائی، وہ اپنی پڑھائی میں کمزور تھا یا اُس کی شخصیت میں کوئی کمی تھ۔ ایسا نہیں تھا۔ اُس کو سب کچھ و افر میسر تھا لیکن جس بات کی اپس کو تربیت نہیں دی گئی تھی ۔  وہ یہ تھی کہ اپنی طرزِ فکر کو اُس سانچے میں کیسے ڈھالنا ہے جس میں دور اندیشی ہو، دوسروں کا حق نہ مارنے کا عزم راسخ ہو، وہ لالچ سے اس لئے باز آچکا ہو کہ اُس کو لالچ کے ہاتھوں ہونے والے اصل نقصان کا مشاہدہ حاصل ہو۔ اسی طرح اُس انجنیئر میں کیا کمی رہ چکی ہوتی ہے جو کسی عمارت کی تعمیر میں استعمال والے ناقص سامان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی بجائے اس میں حصہ دار بنا پسند کر لیتا ہے؟ اگر اُس کو اُس   کی تعلیم کے دوران اپنی طرزِ فکر کو قابو میں رکھنے کی تربیت دی گئی ہوتی، اُس میں ترغیب گیاہ کے خلاف ایک مدافعتی نظام پیدا کر دیا گیا ہوتا تو وہ ایسی کسی بھی کاروائی میں سانجھے داری کی جرات نہ کرتا جس کے نتیجے میں کوئی پُل بہہ جاتا، عمارت گر پڑتی یا سڑک اپنی عمر کے ابتدائی ایام میں ہی مٹ جاتی۔
ہمارے نظامِ تعلیم میں گناہ اور ثواب کی بابت تو بہت کچھ نہایت تفصیل سے  بتا دیا جاتا ہے لیکن نہیں بتایا جاتا تو یہ کہ اُس گناہ کی ترغیب سے عملاً کس طرح بچا جاتا ہے اور کس طرح بچنا چاہئے۔ اگر اساتذہ کرام اپنے تلامذہ کو یہ بات سمجھا سکتے کہ منفی خیال کا آنا اتنا بُرا نہیں جتنا اُس خیال کا شکار ہو کر اُس پر عمل پیرا ہو جاتا ہے اور یہ کہ کسی منفی سوچ اور غیر اخلاقی خیال کو اپنے ذہن میں جگہ بنانے سے کس طرح روکا جا سکتا ہے، تو یقیناً کوئی بھی شاگرد شیطان کی کسی بھی چال کو نا کام بنا سکنے پر پوری طرح قادر ہوسکتا ہے۔
اب صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ کم ہی اساتذہ ایسے ہوں گے جن کو اس بات کا شعور ہے کہ ذہن میں آنے والے خیالات میں اچھے اور بُرے کی پہچان کس طرح کی جاتی ہے اور غلط اور بُرے خیالات میں  جڑ پکڑنے سے کس طرح روکا جاتا ہے۔ اگر طلباء کو اس فن میں طاق کر دیا جائے کہ وہ کس خیال کو نظر انداز کریں اور کس خیال پہ عمل پیرا ہو جائیں  تو شاید  ہی کبھی کوئی شاگرد کبھی اخلاق سے گری ہوئی، غیر شائستہ اور کسی مذ موم حرکت  کا مرتکب ہونا گوارا کرے۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کسی خیال کے ذہن میں جڑ پکڑنے کے عمل کو اچھی طرح سے جان لیں۔ جب انسان کے ذہن میں کوئی خیال آتا ہے تو دنیا کی کسی بھی دوسری چیز  کی مانند اُس کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ علمائے باطن کے مطابق  ذہن میں آنے والے کسی بھی خیال کی عمر پندرہ  سیکنڈ ہوتی ہے۔  یعنی ایک خیال ذہن میں پندرہ سیکنڈ تک رہتا ہے۔ اس کی عمر میں اس سے زیادہ کمی تو نہیں ہوسکتی البتہ اس کو طول ضرور دیا جاسکتا ہے۔
ذہن میں کسی خیال کو جب بار بار دُہرایا جاتا ہے تو اُس کی عمر اور طاقت دونوں میں ہر تکرار سے اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یعنی اگر کسی خیال کو بار بار دُہرایا جائے اور اُس کی تکرار ہو تو اُس خیال میں اتنی قوت اور طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ذہن کو اپنی گرفت میں لے کر ا پر عمل کروا لیتا ہے۔ خیال کی تکرار ایک ایسا قانون ہے جس کو اچھے کاموں کو عملی صورت دینے اور بُرے کاموں  سے بچنے کے لئے دونوں طرح سے برتا جاسکتا ہے۔
خیال کی تکرار ارادی اور غیر اختیاری دونوں طور پر ہوتی ہے۔  انسان کو اپنے ذہن کی اس نہج پر تربیت کرنا ہوتی ہے کہ وہ اچھے خیالات کی تکرار ارادی طور پر کرے اور بُرے خیال کی تکرار غیر ارادی طور پر بھی نہ ہونے دے تاکہ اس سے اچھے اعمال کا ظہور تو ہوتا رہے لیکن بُرے افعال سرزد نہ ہونے پائیں۔ اس بات کی مشق کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انٹر اور گریجویشن کے طلبا ء سے ، خواہ کوئی بھی مضمون پڑھ رہے ہوں، یہ کہا جائے کہ مسلمان قرآن حکیم اور دیگر مذاہب کے طلباء اپنی اپنی مذہبی کتب کے اوامر و نوا ہی  (Dos and Don’ts)  کی ایک فہرست خود تیا ر کریں اور اس بات پہ غور کریں کہ ہر امر اور ہر نہی میں کی حکمت چھپی ہوئی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہر روز رات کو سونے سے پہلے خود اپنا احتساب کریں کہ آج انہوں نے کس امر یا حکم کی خلاف ورزی کی اور کس نہی سے خود  کو نہیں روک سکے۔ اس مشق کے آغاز  میں ذہن کو فقط نوا ہی میں مستور حکمت کو سمجھنے اور اُن پہ عمل سے بچنے پہ مرکوز رکھا جاسکتا ہے۔
مثلاً شک مت کریں، غصہ مت کریں اور غیبت مت کریں وغیرہ یہ سب نوا ہی ہیں۔ رات کو سونے سے پہلے بستر پر لیٹ کر تمام دن کی مصروفیات  پہ  ایک نظر ڈال کر خود اپنا  محاسبہ کیا جائے کہ آج میں نے کسی پہ شک کیا، غصہ کیا یا غیبت کی یا نہیں۔ اگر یاد آ جائے کہ آج فلاں صاحب سے بات کرتے وقت مجھے غصہ  آگیا تھا تو دل میں اس عہد کو تازہ کرے کہ آئندہ ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ یہ عہد ایک طرف کی گئی غلطی پہ توبہ ہوگا اور دوسری طرف ضمیر کے اطمینان کا باعث بھی ہوگا۔ اس طرح کچھ ہی  عرصے کی مشق کے بعد آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ آپ نوا ہی کی خلاف ورزی کے کم سے کم مرتکب ہو ہے ہیں۔ جوں جوں  نوا ہی سے بچنے میں کامیابی ہوتی چلی جائے اور ساتھ ساتھ اور امر کی پابندی پہ قائم ہونے کا آغاز کر دیا جائے تو  ایک دو سال کی اس سادہ سی مشق سے ہی اُس طرزِ فکر کی بنیادیں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں جو انبیاء کی طرزِ فکر سے مماثل ہوتی ہے اور پھر جیسے جیسے اس مشق میں استحکام اور اوامر اور نوا ہی  کی پابندی اور پختگی آتی چلی جاتی ہے، یہ  طرزِ فکر ذہن میں راسخ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

اس طرزِ فکر کے حصول کے لئے اس بات کو سمجھنے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونا اور اس عمل پر قائم اور کار بند رہے بغیر کسی کامیابی کی امید رکھنا اور یہ سمجھنا کہ انبیاء کی عطا کردہ طرزوں پر استوار معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے  اور تشکیل پانے کے بعد   اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے تو یقیناً یہ ایک غیر منطقی سوچ ہوگی۔

تعمیر و تنظیم شخصیت

تعمیر و تنظیم شخصیت
انسان اس دنیا میں آتا ہے تو اپنے ساتھ اس دنیا کو محسوس کر نے والی حسیات  کا ایک ایسا پلندہ بھی ہمراہ لے کر آتا ہے جس کو برتنے اور استعمال کرنے پر وہ رفتہ رفتہ قادر ہوتا ہے۔ ان حسیات کو برتنے اور استعمال کا سلیقہ کسی حد فطری اور  جبلی ہوتا ہے اور بہت حد تک اکتسابی یعنی کچھ  حسیات کا استعمال  وہ ایک حد تک جبلی طور پر کرنا جانتا ہے اور پھر اکتساب یعنی سیکھنے کے عمل سے ان کے استعمال میں مہارت پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ اس اکتساب سے ایک طرف تو حسیات کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے اور دوسری طرف وہ ان حسیات کے دائرہ استعمال میں توسیع کرتا ہے۔ عام طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حواس فقط پانچ ہی ہیں یعنی دیکھنے، سننے ، سونگھنے، چھونے ا ور چھکنے سے متعلق حواس  جن کو عرف عام میں حواسِ خمسہ کہ کر متعارف کروایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں انسانی حسیات کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے اور ابھی ان کی بابت انسانی علم بہت ہی محدود ہے۔ اس کی چند ایک مثالیں وقت کا احساس ہونا، بھوک پیاس کا  احساس ہونا، گرمی سردی کو محسوس کرنا، ہوا میں رطوبت کی کمی زیادتی کو محسوس کرنا آنکھیں بند ہونے کے باوجود اپنے اندازِ نشست میں تبدیلی کو محسوس کر لینا، کسی ہونے والے واقعہ کی بابت پیشگی احساس ہو جانا وغیرہ ۔ اس قسم کی تمام حسیات کو ہم نے چھٹی حس کہ کر ان کو در خور اعتنا تک نہیں گر دانا۔ اب چونکہ حسیات انسانی حصولِ علم کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں اس لئے خود حسیات کی بابت نہ جاننا ہمارے علم کو محدود کرنے کا ایک بہت بڑا سبب بن جاتا ہے۔
انسان ان تمام حسیات کے استعمال سے اپنے شعوری ذخیرہ علم میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ اس علم کی روشنی میں وہ مختلف اعمال اور افعال سرانجام دیتا ہے۔ ہر شخص ان اعمال و افعال کو اپنے ایک مخصوص انفرادی انداز میں سرانجام دیتا ہے۔ اس مخصوص  انفرادی انداز کو ہم اس شخص کی خاصیت تعبیر کرتے ہیں۔ ہر فرد اپنی مخصوص  خصوصیات  کے  سبب اپنی ذات کو منفرد انداز اور مختلف طرزوں پر ظاہر  کرتا ہے۔ اپنی ذات کے اظہار کا یہ انداز اس فرد کی شخصیت کہلاتا ہے۔ چونکہ ہر فرد اپنی ذات کے اظہار کے لئے ایک منفرد اور جداگانہ انداز اختیار کرتا ہے، اِس لئے ہر فرد کی شخصیت کسی بھی دوسرے فرد کی شخصیت سے مماثلت رکنے کے باوجود کچھ نہ کچھ انفرادی پہلو بھی رکھتی ہے۔
انسان کی شخصیت کے بننے میں وہ ماحول بھی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے جس ماحول میں انسان پلتا، بڑھتا، رہتا اور بستا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اثرات مورثی بھی ہوتے ہیں اور اکتسابی بھی۔ یعنی انسان کی شخصیت میں تعلیم و تربیت کے ذریعے ایسی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں جن کے سبب کسی فرد کی شخصیت کی ناگوار اور ناپسندیدہ باتوں کو ختم یا کم کیا جاسکتا ہے اور خوشگوار اور پسندیدہ باتوں کو اختیار کرایا اور بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی فرد کی شخصیت میں مطلوبہ تبدیلیاں لانے کے لئے تربیت اور تبدیلی ماحول بنیادی اہمیت   کے حامل ہوتے ہیں۔ لیکن ان دونوں باتوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ضروری اور اہم چیز ہوتی ہے فرد کی اپنی خواہش اور ارادہ۔
اگر ایک فرد کی اپنی کوئی خواہش اور تمنا ہی نہیں ہے کہ اُس کی شخصیت میں کیا، کتنی اور کونسی تبدیلی آنا چاہئے تو اُس کی شخصیت میں کبھی کوئی تبدیلی یا بہتری نہیں لائی جاسکتی۔ اس امر کا فیصلہ ہر فرد کو خود ہی کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت میں کیا اور کتنی تبدیلی چاہتا ہے اور اس خواہش کو پورا کرنے میں وہ کس حد تک مخلص اور پرعزم ہے۔ اگر وہ اپنی شخصیت میں بہت سی مثبت خوبیوں کو پیدا کرنے کی خواہش تو بہت رکھتا ہے لیکن اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے کسی قسم کے عملی اقدامات سے گریزاں ہی رہتا ہے تو ظہر ہے کہ محض خواہش کے زور پر ایسی تبدیلیاں پیدا نہیں ہو جایا کرتیں ہیں۔ خواہش کے ساتھ ساتھ اس خواہش کو پرا کرنے کے لئے عملی اقدامات کرنا  ہی لازم آتا ہے۔
اکثر یہی سمجھا جاتا ہے کہ انسانی شخصیت میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی اور یہ تو محض ایک خد ادا چیز ہوتی ہے۔ ایسا ہرگز بھی نہیں ہے۔ انسان کی شخصیت  خود اُس  کے اپنے ارادے اور عزم کے تابع ہوتی ہے۔ انسان اپنی ذات کے اظہار کا جو بھی انداز اپنانا چاہتا ہے وہ اپنا سکتا ہے۔ اس کے لئے اُس کے اپنے ارادے کی طاقت اور یقین کی قوت کو بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ اساتذہ کرام اپنے تلامذہ کی اپنے ارادے اور یقین کی قوتوں کا درست استعمال کرنے میں معاونت کرکے ان کی شخصیت کو خوشگوار اور مقناطیسی بنانے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ بعض لوگ دوروں کے لئے کچھ زیادہ ہی پسندیدہ ہوتے ہیں جبکہ وہی افراد بعض دیگر افراد کو اتنے زیادہ اچھے نہیں لگتے۔ ہم اِس بات عموماً شخصیت کا ٹکراؤ کہ کر اس بات پر کوئی زیادہ غور نہیں کرتے اور جو 'جیسا ہے اس کو ویسا رہنے دو' کی پالیسی اپنائے رہتے ہیں۔ حالانکہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ناپسندیدہ لگنے والا فرد  اور  ناپسند کرنے والا 'جس کو وہ فرد اچھا نہیں لگ رہا' دونوں اپنا اپنا مخصوص اندازِ اظہار  ذات رکھتے  ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو اس لئے پسند نہیں کر پا ہے کہ ان کی پسند کے معیار الگ الگ ہیں۔ جو بات ایک کو اچھی لگ رہی ہے اور اُ س نے اس کو اپنا لیا ہوا ہے، وہی بات دورے کے لئے نا پسندیدگی  کا سبب بن رہی ہوتی ہے۔ یہی ناپسندیدگی اکثر اوقات انتہا پسندی کی حدوں کو چھونے لگتی ہے اور بڑے بڑے تنازعات کو جنم دینے کا باعث بن جاتی ہے۔
اگر انسان میں غور و فکر کی عادت ہو تو وہ اس بات کو ویسا  ہی نہیں رہنے دے سکتا۔ وہ اس بات پہ سوچ بچار کرکے اپنی شخصیت کے اُس پہلو کو جو دوسرے کو بھلا نہیں لگ رہا، اُس کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے یا پھر کم از کم اُس سے پہلو تہی کا انداز اپنانے کی کشش کرتا ہے جس کو اُس کی شخصیت سے پھیلتی لہروں سے کوفت ہو رہی ہوتی ہے۔ اس کوفت کی بے شمار وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اگر اس کوفت کی وجہ محسوس کرنے والے فرد کا اپنا حسد یا کوئی ذاتی عناد ہو تو پھر اپنی شخصیت میں تبدیلی کا سوچنے کی بجائے پہلو تہی ہی بہتر رہتی ہے۔ لیکن اگر دوسرے کی کوفت کا اصل سبب حسد یا  ذاتی عناد نہیں ہے تو پھر اپنی شخصیت میں اس بات کو تلاش کرنا اور ُس کو دور کرنے کا اہتمام ہونا چاہئے جو دوروں کے لئے باعث کوفت بن رہی ہوتی ہے۔
بعض لوگوں کے نزدیک فیصلہ کن انداز نہ اپنا سکنا، کمزور قوتِ ارادی، غیر متاثر کن شخصیت کا سبب ہوتا ہے۔ اس کا ازالہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی شخصیت کے ان دو اجزاء یعنی قوتِ ارادی اور قوتِ فیصلہ کو بہتر  نہیں بنا لیتے۔ جب یہ دو اجزاء   اپنی اصل آب و تاب سے جزؤ شخصیت بن جاتے ہیں تو بہت سی نفسیاتی پیچیدگیوں اور بیماریوں کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ احساسِ کمتری ہو یا احساسِ برتری ، خوف اور خوبیاں ہو یا  شیزد  فرینیا اور  دوہری شخصیت کے مسائل ، خود اعتمادی کی کمی ہو یا ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کے تحت ہونے والی غلطیاں ان تمام باتوں کے پس پردہ جو واحد  کمزوری ہوا کرتی ہے وہ یقین کی کمی ہوا کرتی ہے۔ خود اپنی صلاحیتوں پہ یقین کرنے سے لے کر اپنے خالق اور رب پہ یقین کرنے کی تمام تعلیمات کے پیچھے اصل حکمت یہی مستور ہے کہ انسان ان تمام مذکورہ ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرکے خود اپنا بھلا بھی کرے اور دوسروں کے کام بھی آئے۔
کہنے کو تو یقین ایک ایسا عقیدہ ہے جس میں کوئی شک نہیں ہوتا لیکن اس کی اسل بیت اور ماہیت کیا ہوتی ہے اس بات پہ بہت کم غور کیا گیا ے۔ مذاہب کی زبان میں اس کو ایمان کہا جاتا ہے۔ اس کی جو جہت مذاہب کی تشریح کرنے والوں نے بیان کی ہے، اس بحث سے دامن بچاتے ہوئے اتنا کہنا بہت کافی ہے کہ یقین ایک ایسے قوت اور توانائی ہے جو موجودات کو عدم سے وجود  میں لانے کی بنیاد فراہم  کرتی ہے۔ جب ایک بچہ دریافت کرنے پر  یہ بتاتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر ایک ڈاکٹر یا انجنیئر بنے گا تو اس بات کو عملی زندگی میں مظہر بننے کے لئے جس طاقت اور توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اس کو یقین کہا جاتا ہے۔ اگر ایک بچہ کہتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بنے گا لیکن اُس کو اس بات کا یقین نہ ہو کہ وہ ایسا کر سکتا ہے تو کبھی ڈاکٹر نہیں بن سکتا۔ اسی طرح جب کوئی بچہ کسی کام کو کرنے کا اقرار کرتا ہے تو  وہ اُس کام کو اس وقت تک کر ہی نہیں سکتا جب تک اُس کے اندر یہ یقین نہ ہو کہ وہ یہ کام کر سکتا ہے۔ یقین کی اس قوت کی کار فرمائی کا دائرہ صبح وقت پہ اٹھنے ، سکو کالج یا دفتر جانے سے لے کر زندگی میں کچھ بننے تک ہر سطح تک پھیلا ہوا ہے۔
صبح جس وقت اٹھنا ہو اسی وقت اٹنے کے لئے بھی قوت ارادی کو ہی کام لایا جاتا ہے۔قوت ارادی سے انسان تبھی کام لے سکتا ے جب ُس کے اندر یقین کی روشنی ہو۔ جب کسی آدمی کو زندگی میں کوئی ایسا  انسان مل جاتا ہے جو اُس کو اپنے اندر یقین کی شمع کو فروزاں کرنے، اپنی قوت ارادی اور قوت فیصلہ کو درست انداز میں استعمال کرنا سکھا  دیتا ہے تو وہ اپنی زندگی میں کسی بھی منزل تک رسائی حاصل کر لینے کے قابل ہوسکتا ہے۔ جب زندگی کی شاہراہ یقین کی روشنی سے منور ہو تو سفر حیات میں سہولت ہی نہیں ہوتی بلکہ مزہ بھی آتا ہے۔
جن اساتذہ کرام کے اندر یقین کی روشنی جگمگاتی ہے، اُن کے تلامذہ میں بھی یہ روشنی نفوذ کر جاتی ہے اور وہ اس دولتِ بے بہا سے منور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جس انسان میں یقین کی روشنی فروزاں ہو اس کی شخصیت میں ایسی خوبیاں خود بخود پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں جو اُس کو عزیزِ جہاں اور محبوب خلائق بنا دیتی ہیں۔ یقین  کی دولت سے مالا مال فرد کو اپنے اندر ایک ایک کرکے خوبیاں اُگانے اور ان کی پرورش کرنے کے خصوصی اہتمام کرنے کے لئے زیادہ تگ و دو بھی نہیں کرنی پڑتی۔ اُس کی شخصیت کی سب سے بڑی دلآویزی کا سبب اس کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ کہتا ہے اُس کو کرکے دکھا سکتا ہے۔ ایسا انسان اپنی شخصیت کے حوالے سے ایک سحر طرازی اور مقناطیسیت کا حامل ہو جاتا ہے ۔
شخصیت میں دلآویزی  کے لئے قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اصل صورت حال کچھ یوں ہے کہ یہ قوت ہوتی تو سب ہی کے اندر ہے لیکن اس کا درست اور برمحل استعمال کرنا کم ہی استعمال کرنا کم ہی لوگوں کو آتا ہے۔ اساتذہ کرام اپنے تلامذہ کو اس قوت کے درست استعمال کے انداز کی تربیت دینے کو انہیں یہ بتا سکتے ہیں کہ بڑی بڑی باتوں کے لئے وہ ا قوت کا استعمال تبھی کر سکیں گے جب وہ اس کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں بر تنا سیکھیں گے۔ اس کا آغاز وہ صبح سویرے سورج طلوع ہونے سے پہلے اٹھنے کی مشق سے کرسکتے  ہیں۔ اس کے لئے ایک مجرب طریقہ یہ بھی بتایا جاسکتا ہے کہ وہ رات کو، سونے سے پہلے ، اپنا نام لے کر خود سے کہیں کہ آپ کو صبح اتنے بجے اُٹھنا ہے۔ یہ جملہ فقط تین بار دہرا کر سونے کے لئے آنکھیں بند کرلیں۔ صبح جب اس مقررہ وقت پر آنکھ کھل جائے تو اس کے بعد سستی نہیں ہونے دینا اور قوتِ ارادی سے کام لے کر اٹھ کر طے کئے گئے کاموں میں مصروف ہو جانا  ہے۔ اس مشق کے فوائد گنوانے کی بجائے یہ کہ دینا ہی کافی  رہتا ہے کہ جب آپ اس کو آزمائیں گے تو اس کے اور بھی بہت سے فوائد آپ کو خود ہی معلوم ہو جائیں گے۔
اس مشق سے جہاں ایک طرف قوت ارادی کو توانائی ملتی ہے وہاں دوسری  طرف سحر خیزی کے تمام تر فوائد بشمولِ جسمانی اور ذہنی صحت  اور تندرستی بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس بات پہ دعوت فکر دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوگا کہ آخر ہر مذہب میں صبح سویرے اٹھنے کی تعلیم میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟
اس بات کو زیادہ دلچسپ بنانے کے لئے شخصیت میں مقناطیسیت پیدا کرنے کے حوالے سے چار تا چھ ماہ کے لئے یہ مشق بھی تجویز کی جاسکتی ہے۔
۱۔ صبح سویرے اٹھنے کے لئے رات کو دوہرا انتظام یوں کریں کہ ایک تو خود کو اپنا نام لے کر ہدایت دے کر سوئیں ۔ یہ کہ محمود آپ نے صبح پانچ بجے اٹھنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ گھڑی پہ سوا پانچ بجے کا الارم بھی لگا لیں۔ تکہ اگر شعور نہ بھی ساتھ دے تو بھی آپ طلوعِ آفتاب سے پہلے اٹھ سکیں۔
۲۔ سورج نکلنے سے  پہلے اُٹھ کر کھلی ہوا دار جگہ پہ کم گردن اور سر کو ایک سیدھ میں رکھ کر ، فرش، تخت  یا کرسی پر بیٹھ جائیں ۔ آنکھیں بند کرکے پانچ سے دس منٹ تک آہستہ آہستہ  گہرے گہرے  سانس اس طرح سے لیں کہ سانس ناک کے راستے لی لیا جائے اور منہ کے راستے نکالیں۔ سانس نکالتے وقت ہونٹوں کو سیٹی بجانے کے انداز میں سکیڑ کر گول کرلیں۔ اس دوران ذہن کو آزاد اور ڈھیلا چھورے رکھیں۔
۳۔ اس کے بعد فرش پر دری یا چٹائی بچھا کر اس طرح چت لیٹ جائیں کہ آپ کے پاؤں جنوب کی طرف اور سر شمال کی طرف ہو۔ اس حالت میں نہایت آہستہ آہستہ سانس ناک کے راستے لیتے ہوئے یہ تصور کریں کہ زمین میں بہنے والی مقناطیسی لہریں، جنوب سے بہتی ہوئی، آپ کے پیروں کے راستے آ پ کے اندر سے ہوکر ، آپ کے جسم کو گزر گاہ بناتے ہوئے، آپ کے سر سے ہوتی ہوئی شمال کی طرف  جا رہی ہیں۔ جب پھیپھڑے ہوا سے اتنے بھر جائیں کہ مزید سانس نہ لیا جا سکے تو سانس کو نہایت آہستگی  سے منہ کے راستے خارج کرنا شروع کر دیں اور اب یہ تصور کریں کہ زمین کی مقناطیسی لہریں فضا میں بہتی ہوئی واپس جنوب کی طرف جا رہی ہیں۔ یعنی یہ تصور کرنا ہوتا ہے کہ واپسی پہ یہ لہریں آپ کے جسم سے ہوکر نہیں گزر رہی ہیں  بلکہ باہر ہی سے واپس قطبِ جنوبی کی طرف جا رہی ہیں۔ جب سانس پوری طرح خارج ہو جائے گا تو یہ ایک چکر مکمل ہوگیا۔ اسی طرح سے گیارہ چکر مکمل کر لیں۔

اس مشق سے جسم میں آکسیجن کی کمی بھی پوری ہونا شروع ہوجاتی ہے اور قوت ارادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ کی شخصیت میں ایسی جاذبیت اور کشش پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگ آپ کی طرف کھنچتے چلے آئیں گے۔ اساتذہ  کرام کو اس مشق سے خصوصی فائدہ یہ ہوگا  کہ اُن کے تلامذہ ان کی بات ماننے پر زیادہ مستعدی اور سہولت سے آمادہ ہوں گے ۔

مجموعہِ اضداد

مجموعہِ اضداد
جب انسان غور و فکر پر مائل ہو تو اس کے ارد گرد موجود مختلف مظاہر فطرت سے لیکر مختلف لوگوں اور انسانوں تک بے شمار باتیں اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہیں۔وہ اپنے فطری تجسس اور اشتیاق کے ہاتھوں اُن میں دلچسپی لیتا ہے، اُن باتوں پہ غور و فکر کرتا ہے، اُن کی بابت کوئی رائے قائم کرتا ہے اور کوئی نتیجہ نکال کر مطمئن ہو جاتا ہے یا کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کی صورت میں بے اطمینانی اور خلش کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس بے اطمینانی  اور خلش سے نجات پانے کی خواہش ایک تقاضا بن کر اُس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اس بات پہ مزید غور کرے اور سوچ بچار سے کوئی قابلِ اطمینان نتیجہ اخذ کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ اگر پھر بھی کوئی اطمینان بخش بات ذہن میں نہ آئے تو وہ دوسروں سے راہنمائی اور مدد کا طلب ہو جاتا ہے۔ جب کوئی دوسرا اُس کی فکر اور سوچ کو ایسی راہ پہ ڈال دیتا   ہے جس پر چل کر وہ کسی اطمینان بخش حل تک پہنچ جاتا ہے تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے ورنہ یہ سفر جاری رہتا ہے۔
اس سوچ بچار اور غور و فکر کے دوران بعض اوقات انسان کو کچھ ایسی صورت  حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اُس کا اخذ کردہ نتیجہ اس کو پہلے معلوم باتوں کے بالکل برعکس اور الٹ ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر وہ الجھ کر رہ جاتا ہے۔ اس وقت وہ یا تو اپنے اخذ کردہ نتیجے کو غلط قرار دے کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس ضمن میں مزید سوچ بچار سے باز آجاتا ہے۔ معدودے چند افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو  ڈٹ جاتے ہیں اور وہ پہلے سے معلوم نتائج اور اپنے ذہن میں آنے والے خیال دوتوں کو ہی پرکھنے اور جانچنے میں جت جاتے ہیں اور اگر اُن کو یہ تسلی ہو جائے کہ اُن کے ذہن میں آنے والا خیال یا نتیجہ ہی درست ہے تو وہ اپنے علم میں پہلے سے موجود بات کی تصحیح کر لیتے ہیں ورنہ بصورت دیگر اُس کو رد کر دیتے ہیں۔
اپنے ذہن میں آنے والے خیال کو جانچنے اور پرکھنے کے دو طریقے عام طور  پر زیادہ معروف ہیں۔ ایک یہ کہ کسی صاحب علم اور صائب الرائے دوت یا  استاذ سے اپنے ذہن میں آنے والے خیال کے بارے میں بات کی جائے یا اُس  موضوع پر تبادلہ خیال   کر لیا جائے اور اس خیال کو مختلف زاویوں سے خود ہی سوچ کر دیکھا جائے اور کسی تسلی بخش نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ ہاں یہ بات البتہ طے ہے کہ یہ دوسرا طریقہ علم میں اضافے اور  اس طریقہ ء کار کی مشق کرنے سے ہی آتا ہے کیونکہ اس تمام عمل کے دوران متضاد اور باہم متصادم خیالات پہ کڑی نظر رکھی جانی ضروری ہوتی ہے ورنہ یہ متصادم اور متضاد افکار انسان کو مجموعہ اضداد بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ جب انسان آپس میں متصادم اور متضاد خیالات و افکار کو آپس میں باہم مر بو ط و ہم آہنگ  نہیں کر پاتا تو وہ ایسے الجھاؤ کا شکار ہو جاتا ہے کہ اُس کی شخصیت کی پوری  دیوار ہی کج ہوکر رہ جاتی ہے۔
دیکھا جائے تو کارخانہ قدرت میں ہر شے دو رخوں یا دو مخالف جنسوں کی صورت میں جلوہ گر ہے۔ زمین اور آسمان  ، زمین کے دو قطب شمالی اور قطب جنوبی ، گرمی سردی، آگ اور برف، پانی اور پیاس ، نر اور مادہ، دن اور رات، خالق اور مخلوق، اچھا اور بُرا، سیاہ اور سفید، نیکی اور بدی،ظاہر اور باطن، کشش اور گریز، مادی اور غیر مادی وجود، انفس اور آفاق، خیر اور شر وغیرہ ان دو رخوں کی چند ایک مثالیں ہیں۔ شاید اسی وجہ سے بعض مفکرین نے اس کائنات کو مجموعہ اضداد ہی جانا ہے اور بتایا ہے کہ یہاں یہ دونوں مخالف اور متضاد رخ باہم برسرِ پیکار ہیں اور کائنات انہی دونوں کے آپس میں برسرِ پیکار قوتوں کو اہر من اور یزدان کے نام  دیئے گئے۔
اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے بتایا کہ خالق ارض و سما ء نے اس کائنات کو دو رخوں کا حامل بنایا ہے اور دونوں رخ اس کی تخلیق ہیں اور ان کی باہم آویزش سے جو کچھ بھی تخلیق ہو رہا ہے اور دونوں رخ اس کی تخلیق ہیں اور ان کی باہم آویزش سے جو کچھ بھی تخلیق ہو رہا ہے وہ اسی کے پروگرام کے ہو رہا ہے۔ اسی واسطے یہاں  ثنویت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور مسلمانوں کو توحید کے مرکزی نکتے سے بندھا رہنا چاہئے تاکہ وہ اپنے خالق کے قریب ہو سکیں۔
انسان کے ارد گرد ہی نہیں خود انسان کے اپنے اندر بھی یہی دو رخ موجود ہیں۔ قرآن میں ان دو رخوں کی طرف داہنے والے اور بائیں والے کہ کر متوجہ کیا گیا ہے۔ آجکل  کے ماہرین نفسیات اس بات کو شعور اور لاشعور کے ناموں سے متعارف  کروا رہے ہیں۔ علمائے باطن بتاتے ہیں کہ انسان کے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں۔ ایک وہ دماغ جو انسان کو اسفل میں مقید اور محبوس رکھنا چاہتا ہے اور دوسرا وہ جو انسان کو اسفل سے نکال کر اعلیٰ علیوں تک لے جانا چاہتا ہے۔ ایک دماغ کلاک وائز اور دوسرا انٹی کلاک وائز حرکت کا حامل ہوتا ہے۔ ایک دماغ انسان کو زمان اور مکاں کی جکڑ بندیوں میں گرفتار رکھتا ہے اور دوسرا انسان کو ٹائم اور اسپیس کی حدود سے آزاد کروا کر لامحدودیت سے روشناس کرواتا ہے۔
اپنی روزمرہ زندگی میں بھی ہم ان دونوں دماغوں کی کارکردگی سے باری باری مستفیض ہوتے رہتے ہیں۔ جب ہم جاگ ہے ہوتے ہیں تو ہم بیداری کے حواس کو ایک دماغ کے ذریعے استعمال کرتے ہیں اور جب ہم سو جاتے ہیں تو ہم انہی حواسوں کو خواب کے حواسوں کی صورت دوسرے دماغ سے برت رہے ہوتے ہیں۔ کبھی ہم ایک کام کو کرنے کی شدید خواہش محسوس کرتے ہیں اور کبھی اسی کام سے گریز کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ ایک وقت میں ایک کام کو کرنا مضر خیال کیا جاتا ہے اور دوسرے وقت اُسی کام کو کرنا ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ ایک وقت میں ایک  چیز پسندیدہ کہلاتی ہے اور دوسرے وقت میں وہی بات ناگوار اور باعث کراہت ہو جاتی ہے۔ یہ سب انہی دو دماغوں کے سبب ہوتا ہے۔
ان باتوں کو اگر مناسب طور پر نہ سمجھا جائے تو انسان نہ صرف خود اضد اد کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ اس کو دوسروں کے اعمال اور افعال میں بھی تضاد نظر آتے ہیں۔ اس نا سمجھی کے سبب وہ الٹے سیدے افکار کو حرزِ  جاں بنا کر غیر جانبدارانہ طرزِ فکر سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ غیر جانبدار اندازِ نظر کو حاصل کرنے کے لئے یہ امر  ناگزیر ہے کہ انسان اپنے اور دوسروں کے اندر موجود اضداد کی حقیقت اور کنہ تک پہنچ سکتا ہو۔ اس بات سے جہاں ایک طرف انسان کو غیر جانبدار ہونے  میں مدد ملتی ہے وہاں دوسری طرف یہی بات غیر جانبدار اندازِ فکر کو مزید جلا بخشنے کا باعث اور سبب بھی بنتی ہے۔
بچوں پہ شفقت کرنے کی اہمیت اور ضرورت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے لیکن اس شفقت اور محبت کا بے جا استعمال بچوں کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اسی طرح اس بات کو دلیل بنا کر بچوں کو صرف شیر ہی کی نظر سے دیکھتے رہنے سے ان میں خوف اور ڈر پیدا کرکے اُن کو خو د اعتمادی سے محروم کر دینا بھی درست نہیں مانا جاسکتا ہے۔ اس صورت حال کو بہت دھیان سے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی بہت لاڈ پیار اور کبھی نہایت کڑا روّیہ بھی کوئی  مناسب بات نہیں۔ اس سے بچوں میں ایسا روّیہ رکھنے والے کی بابت کوئی مثبت تاثر قائم نہیں ہوسکتا اس لئے میانہ روی اور توازن کا روّیہ اپناتے ہوئے، متضاد روّیے کو اختیار کرنے سے بچنا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔
بلا وجہ کبھی ہنسنا اور کبھی رونا دماغی صحت پہ شبہ کرنے کا جواز مانا جاتا ہے لیکن  ایک بات پہ ایک وقت خوشی کا اظہار کرنا اور دوسرے وقت اسی بات پہ ناراضگی اور غصے کا اظہار شخصیت اور افکار میں اضداد کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس قسم کے اضداد سے بچنے کے لئے ایسا روّیہ رکھنا چاہئے کہ اظہار پسندیدگی اور نا پسندیدگی کی وجوہ بالکل واضح ہوں۔ جو بات آپ کے نزدیک درست ہو اس کی بابت آپ کی رائے میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے۔ ذہن میں جس قدر ابہام ہوگا شخصیت اور کردار میں اسی قدر تضادات محسوس ہوتے ہیں۔
انہی اضداد کی ایک صور منافقت کہلاتی ہے۔ جو بات دل میں ہو اس کے برعکس کہنا اور کرنا منافقت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ جو لوگ غور و فکر اور سوچ بچار کرنا جانتے ہیں وہ اس موذی بیماری سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ قرآنِ حکیم میں نفاق پہ بہت سخت پکڑ کی وعید اسی وجہ سے کی گئی  ہے کہ قول دفعل کا تضاد ایک طرف شخصیت اور کردار کی پوری عمارت ٹیڑھی کرنے کا باعث ہوتا ہے اور دوسری طرف تمام معاشرتی خرابیاں بھی اسی کے سبب فروغ پاتی ہیں۔
آجکل ہم سبب کہنے کو ایک اللہ کو مانتے ہیں اور کسی کو اُس کا شریک نہیں ٹھہراتے لیکن عملی طور پر مال و دولت کو ہی کام بنانے والا جانتے ہیں اور اکثر کہتے ہیں کہ اگر پیسہ نہیں تو کچھ نہیں یا یہ کہ اگر آدمی کے پاس پیسہ ہو تو وہ کیا نہیں کرسکتا۔ غور کیا جائے اس قسم کی باتیں دولت پرستی کے ذیل میں ہی آتی ہیں۔ اب غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روپیہ پیسہ، مال و دولت وسائل کا حصہ تو ہوسکتے ہیں، ان سے کچھ دیگر وسائل خریدے بھی جاسکتے ہیں لیکن کسی کام کو بنانے یا بگاڑنے کی طاقت ان میں نہیں ہے۔ آپ ان سے مہنگی ترین دوا خرید سکتے ہیں لیکن صحت اور تندرستی نہیں کیونکہ اگر صحت اور تندرستی بھی خریدی جاسکتی تو ہر امیر انسان  صحت اور تندرستی کا شہکار ہوتا اور ہر غریب آدمی اس نعمت سے محروم ہی نظر آتا۔ ا طرح غور کرنے سے ایسی بہت سی نعمتوں کی فہرست تیار کی جاسکتی ہے جن کو روپیہ پیسہ کسی قیمت پہ نہیں خرید سکتے۔
اسی طرح ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ ہمارے نبی کی تعلیمات یہ ہیں کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ لیکن عملی طور پر ہر مسلمان دوسرے مسلمان سے خوفزدہ، ڈرا اور سہا ہوا ہی۔ بھئی اگر سب آپس میں بھائی ہیں تو پھر یہ ایک دوسرے  سے خوف اور ڈر کا کیا مقام۔ اب یا تو ڈرنے والا مسلمان نہیں اور یا پھر ڈرانے والا اور یا پھر دونوں ہی۔ اور اگر دونوں ہی اپنے اپنے دعویٰ اسلام میں کھرے اور مخلص ہیں تو ایک دوسرے کو بھائی ماننے اور جاننے میں جو قباحتیں درپیش رہتی ان کو ہم کیوں دور نہیں کر پا رہے۔
جب انسان اپنے کہنے اور کرنے کے تفاوات کو دور کرنے کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تو وہ نہ صرف منافقت جیسی بیماری سے محفوظ ہوتا ہے بلکہ اس  کی شخصیت اور کردار میں ایک ایسا نکھار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے لئے باعثِ رشک اور قابل تقلید بن جاتا ہے۔ کہی اور کی جانے والی بات میں تفاوت ایک حد تک تو انفرادی سطح تک رہتا ہے لیکن جب کسی طبقے، محکمے، گروہ اور معاشرے میں اکثر افراد اس تفاوت اور تضاد کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں تو یہ اجتماعی صورت اختیار کر لیتا ہے اور افراد کے ذہنوں کو اس حد تک اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ کسی کو یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ وہ کیسے کیسے تضادات کا مجموعہ بن چکا ہے۔
اس قسم  کے تضادات  کی مثالیں قدم قدم پر بکھری ملتی ہیں۔ امیر لوگ سکون اور صحت کی تلاش میں رہنے کے باوجود ہر ایسا کام کر رہے ہوتے ہیں جو بے سکونی تناؤ کا باعث ہوتا ہے اور ہر وہ چیز بطور خوراک استعمال کر رہے ہوتے ہیں جو خون میں چکنائی کی مقدار کو بڑھانے کا سبب ہوتی ہے۔ کہنے کی حد تک انسان سکون کا طلب گار ہوتا ہے لیکن سب سے زیادہ قیمت ایسی جگہوں کی لگاتا ہے جو انتہائی پر شور اور پر ہنگام ہوں۔ اس بات کی طرف اگر انہیں متوجہ کیا بھی جائے تو کہا یہ جاتا ہے کہ یہاں رونق زیادہ ہے اس لئے اس جگہ کی قیمت اتنی زیادہ ہے۔ اسی طرح اگر اُن کو یہ بتایا جائے کہ خون میں چری سے نقصان ہوتا ہے تو محنت اور مشقت کرکے خون کی چربی کو جلانے اور اس کو استعمال کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں ہلانے کی بجائے اپنی خوراک میں تبدیلیاں اور کمی کرنے کا غلط طریقہ اپنا لیتے ہیں۔ اب اگر وہ چربی جسم میں موجود رہتی ہے اور دماغ اور آنکھوں پر چڑھ جاتی ہے تو اس میں اچنبھا کیسا؟
اسی طرح غریب لوگ اپنی غربت کا رونا روتے نہیں تھکتے، حکومت اور معاشرے کو بُرا بھلا کہنے میں اپنی پوری توانائی صرف کر دیتے ہیں، لیکن معاش اور روزگار کو بہتر بنانے کے درست انداز کو اختیار کرتے ہوئے، محنت اور جہد کی راہ اپنانے پر بالکل مائل نہیں ہوتے۔ وقت کی کمی کا رونا رونے والوں کو اپنا وقت درست طور پر منظم (Manage)     کرنے کا شاذ ہی خیال آتا ہے۔ ٹی وی اور فلمیں دیکھنے یا یار  دوستوں کے ساتھ گھنٹوں کرنے کا وقت نکال لیں گے لیکن کرنے کا کام یہ کہ کر کل پر ڈال دیں گے کہ میرے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ کہنے کو ہر آدمی دوسرے کو پوچھتا ہے کہ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں لیکن بات  ماننے پر کم ہی آمادہ ہوتا ہے چاہے اس بات کا فائدہ خود کو ہی کیوں نہ ہو رہا ہو۔

اگر کوئی انسان مجموعہ اضداد بننے سے بچنا چاہتا ہو تو اس کے لئے سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہوتی ہے کہ وہ ان تضادات کو سمجھے۔ تضادات کو سمجھنے اور ان پر تنقید کرنے میں جو فرق ہے اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کو سمجھے۔ ان پر تنقید کرنے کی روش اپنانے کی بجائے ان سے بچنے کی راہ کو اپنائے  اور جو کہے اس کو سمجھ کر کہ اور پھر جیسا کہے ویسا ہی کرنے کی پالیسی کو اپنائے۔

سوچنا اور سمجھنا



سوچنا اور سمجھنا



یوں   تو ہر انسان یہی سمجھتا ہے ۔ لیکن کتنے لوگ ایسے ہیں جو غور و فکر کرنا حقیقتاً جانتے ہیں اور اُس کو مناسب طور پر بروئے کار بھی لاتے ہیں۔ کسی فلاسفر کا یہ قو ایک دور میں بہت مقبول ہوا تھا کہ چونکہ میں سوچ  سکتا ہوں اس لئے میں ہوں۔ یعنی فطرت نے ہر انسان کو یہ صلاحیت و دیعت  کی ہے کہ وہ سوچ سکتا ہے۔ اور اُس کا اپنے وجود میں ایک دماغ اور ذہن رکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کو ایک ایسی صلاحیت سے متصف کیا گیا ہے جو اس کو غور و فکر کرنے کی اہلیت عطا کرتی ہے۔ خالقِ کائنات نے انسان کو غور و فکر کی جو دعوت دی ہے اس کا اصل منشاء  انسان کو تحقیق اور ریسرچ کی راہ پر ڈالنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن لوگوں کا عام طور پر سمجھنا تو یہ ہے کہ یہ سوچ سکنا، یہ غور و فکر کرنا اور یہ تحقیق اور ریسرچ  کی باتیں عام طور پر خاص ہی لوگوں کے کرنے کا کام ہے اس لئے ان باتوں کو انہی کے لئے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔
اگر ہم یہ جائزہ لیں کہ یہ غور و فکر  کیا ہے؟ کسی بات کو سوچنا ہو تا اس پہ کیسے سوچا  جاتا ہے؟ یا یہ کہ کسی بات پہ سوچنے اور غور و فکر کا اصل طریقہ کیا ہونا چاہئے؟ یہ بات تو ہم سب کے علم میں ہے کہ ہمارے ذہن میں خیالات آتے ہیں۔ یہ خیالات کیوں آتے ہیں اور کہاں سے آتے ہیں؟  اس کی بابت ابھی بہت سی باتیں انسان کے علم میں آنا باقی ہیں۔ مختصراً یوں سمجھ لیں کہ انسان کے اندر ایک کمپیوٹر نما مشین نصب ہے۔ اس مشین کا کام ہے کہ کائناتی نظام کو فیڈ کی جانے والی اطلاعات  کو وصول کر کے اُن اطلاعات کو خیالات کی صورت میں انسان کے ذہن کی سکرین پر نشر کرتی رہے۔ انسان ان خیالات کو وصول کرنے اور ان کو مطلب پہنانے میں آزاد رکھا گیا ہے۔ وہ موصول  شدہ خیالات کو جس زاویہء نظر سے دیکھتا ہے، یہ اس کا طرزِ فکر کہلاتی ہے۔ اگر طرزِ فکر میں ہمدردی اور ایثار ہے تو وہ ذہن میں آنے والے ہر خیال کو مثبت انداز میں لیتا ہے اور اگر طرزِ فکر میں خود غرضی اور لالچ ہے تو انسان ہر خیال کو منفی اور محدود طرزوں میں لیتا اور اپناتا ہے۔
انبیاء نے انسان کو جن تعلیمات سے نوازا، اُن کا واحد مقصد انسان کو اس طرزِ فکر سے آراستہ کرنا تھا جو ہمدردی، ایثار، محبت اور بھائی چارے جیسی مثبت  خوبیوں سے مالا مال ہوتی ہے۔ ایسی طرزِ کا ایک پہلو پہ بھی ہوتا ہے کہ وہ تعمیری سوچوں کی حامل ہوتی ہے اور تعمیر کے خوگر بندے کو کسی بھی قسم کی تخریب سے کوئی علاقہ نہیں ہوسکتا۔
ہمارے نظامِ تعلیم میں ذہن کی جن چند ایک صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا اہتمام کیا گیا ہے اُن میں یاداشت اور حافظے کو بہت اہمیت حاصل ہوچکی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حافظے اور یاداشت کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلّمہ مگر صرف انہی کو اہمیت دیئے جانا دیگر ذہنی صلاحیتوں کو نظر انداز کرنے کا مترادف بن چکا ہے۔ اس صورت حال کی اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔
جب تک غور و فکر سکھانے کا باقاعدہ اہتمام نہیں ہوگا، اس وقت تک  کسی فرد میں  اس صلاحیت  کے ابھرنے کے امکانات کی امید رکھنے میں کوئی حرج تو نہیں ہے  لیکن ایسی امیدیں کم ہی پوری ہوا کرتی ہیں۔ اس با قاعدہ اہتمام کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کو پہلے خود سمجھیں کہ یہ سوچنے کا عمل ہوتا کیا ہے ؟ یہ کس طرح  وقوع پذیر ہوتا ہے اور اس کو کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے؟
اگر اس بات کو نہایت آسان الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ جب ہم کسی نکتے پہ اپنا ذہن مرکوز کرتے ہیں تو اس نکتے کی بابت خیالات ہمارے ذہن میں آنا شروع ہو جاتے ہیں اور ہم اُن خیالات کو اپنے سابقہ علم اور تجربے کی روشنی میں چھان پھٹک کر چن لیتے ہیں۔ اس انتخاب کے عمل سے گزر کر جو خیالات ہمیں پسند آ جاتے ہیں، ہم اُن کو اپنی یا داشت کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس سے انسان کا ایک ذہن بنتا چلا جاتا ہے۔ اب وہ جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے وہ اس بنے ہوئے ذہن سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ اب اس کے تمام تر اعمال اور افعال کا دارومدار بھی ذہن کی اسی بناوٹ اور ساخت پر ہو جاتا ہے۔
اس لئے جب ہم غور و فکر کی بات کرتے ہیں تو اس میں سب سے پہلی چیز جو ہماری توجہ میں آتی ہے وہ ہے ذہن کو کسی ایک نکتے پہ مرتکز کرنے کی صلاحیت کا ہونا۔ جب کسی  فرد میں اپنے  ذہن کو کسی نکتے پہ مرکوز کرنے کی صلاحیت نہیں ہوگی تو وہ اس نکتے کی بابت خیالات کہاں سے لائے گا؟ ظاہر ی بات ہے کہ ارتکاز توجہ ہی سے ذہن میں خیالات کا بہاؤ قائم ہوسکتا ہے تو اس کی ضرورت کی زیادہ ہوئی۔ باقی باتوں کی اہمیت اور ضرورت تو تبھی ہوگی جب ذہن میں خیالات کا بہاؤ تیز تر ہوتا چلا جائے گا۔ جتنی زیادہ ارتکاز توجہ کی مشق ہوتی ہے ذہن میں اتنی ہی گہرائی سے خیالات ابھرتے ہیں اور یہ خیالات جتنی زیادہ گہرائی کے حامل ہوتے ہیں اتنی ہی اُن کی وقعت اور اہمیت بھی ہوتی ہے اور وہ حقیقت کے بھی اتنے ہی زیادہ قریب ہوتے ہیں۔
ارتکاز توجہ کے بعد دوسری چیز جو غور و فکر کے عمل میں بہت ہی اہم ہے، وہ ہے ذہن میں سکت ہونا۔ یعنی دماغ  میں اتنی سکت ہو کہ وہ ذہن میں آنے والے خیالات کے بہاؤ قائم کرتی  ہے تو دوسری طرف ذہن کو وہ توانائی بھی فراہم کرتی ہے جو اس کی سکت میں اضافے کا موجب بنتی ہے۔ ذہنی سکت میں اضافے کے لئے ارتکاز توجہ کے ساتھ گہرائی میں سانس لینے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔سانس کی ایک آدھ مشق باقاعدگی سے کرتے رہنے سے دماغ کو آکسیجن کی  فراہمی ممکن ہونے کے ساتھ ساتھ قوتِ ارادی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔
ان دو چیزوں کے بعد جو تیسری چیز درکار ہوتی ہے وہ ہے طرزِ فکر۔ یعنی ذہن کس سانچے یا پیٹرن میں ڈھلا ہوا ہے۔ اب اگر خیالات ذہن میں آبھی جائیں اور ذہن میں ان کے بہاؤ اور رفتار کا ساتھ دینے کی قوت و سکت بھی ہو لیکن جس پیٹرن میں ذہن ان کو ڈھال رہا ہو وہ بُرا یا خراب ہو تو سیدھی سی بات ہے کہ انسان اُن خیالات کو غلط اور منفی معنیٰ بھی پہنا سکتا ہے جو اُس نے اتنی محنت اور ریاضت سے  موصول کئے تھے۔ اس لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ جس سانچے یا طرزوں پہ ذہن میں آنے والے خیالات کو ڈھلنا ہوتا ہے، اس ذہنی سانچے کو درست رکھنے کا اہتمام بھی ساتھ ہی ساتھ ہو۔
علمائے باطن کے نزدیک انسان تفکر سے ہم رشتہ رہ کر ، فطرت کے مقاصد کی تکمیل کے پیشِ نظر بنایا گیا ہے۔ جب تک تفکر کے اس پیٹرن یعنی انسان کا رشتہ کائناتی تفکر سے قائم نہیں ہو جاتا، انسان کی تخلیق کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ ہر مذہب کی تعلیمات کا مرکز و محور اصل میں تفکر کے اس پیٹرن کو سمجھنا اور درست رکھنا ہی تو رہا ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم کے مقاصد کا اگر اس حوالے سے جائزہ لیا جائے تو یہ دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ انسان کی تخلیق کے اصل مقصد کا شعور اجاگر کرنے کی طرف بالکل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے بھی توجہ دی جائے۔
ذہنی سانچے کی ساخت کو درست رکھنے کے لئے دو معروف انداز یہ ہیں کہ یا تو انسان اپنے ضمیر کی آواز پہ چلنا سیکھ لے اور یا  پھر یہ کہ وہ کسی ایسی شخصیت کو اپنے  لئے مثال بنا لے جو اُس کو، بالواسطہ یا بلاواسطہ، زندگی کی راہوں پر راہنمائی فراہم کرسکے۔ جو اساتذہ اپنے تلامذہ کے لئے ایسا آئیڈیل بن جاتے ہیں جن کی پیروی میں بچے اپنے ذہن کے سانچے کو منظم اور مرتب کرنا چاہتے ہیں، بے شک ایسے اساتذہ کرام ہی روحانی والدین اور قابلِ تکریم راہبر کہلاتے ہیں۔ ایسے اساتذہ کرام درحقیقت ہی تو کرتے ہیں کہ وہ اپنے تلامذہ کو ان کے ضمیر کی آواز کو درست انداز  میں  سننے اور اس پہ عمل کرنے کا سلیقہ سکھا دیتے ہیں۔ اسی عمل کو انسان کا اپنے باطن کی طرف متوجہ ہونا بھی کہا جاتا ہے۔ ضمیر انسانی کو روحانی سائنسدانوں نے اسی لئے نورِ باطن کہا ہے کہ یہ انسان کی راہنمائی کا ایک الو ہی انتظام ہے۔
اس انتظام سے استفادے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ انسان اپنے دل میں آنے والے ہر خیلا کے تعاقب میں اندھا دھند جت جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے انسان غیر  جانبدار اندازِ فکر و نظر کا حامل بنے۔ کیونکہ غیر جانبدار انداز حاصل کئے بغیر کسی بھی معاملے کی درست تفہیم حاصل نہیں ہوسکتی۔ اگر ذہن میں غیر جانبداری نہیں ہوگی تو لامحالہ تنگ نظری اور تعصب کے جا لے فکر و  آگہی کی ضیاء  پاشیوں کو دھند لاتے رہیں گے۔
سوچ بچار کے ان بنیادی اجزائے ترکیبی کے اس تعارف کے بعد یہ دیکھا جائے کہ کسی بات پہ سوچ بچار یا غور فکر کیسے کیا جاسکتا ہے؟ یوں تو سوچ بچار یا غور و فکر کرنے کا ہر ذہن کا اپنا ایک طریقہ اور انداز ہوتا ہے۔ بعض لوگوں میں فطری طور پر یہ صلاحیت زیادہ ہوتی ہے کہ ادھر اُن کے سامنے کوئی سوال آتا ہے اور اُدھر اُن کے ذہن میں اُ کا درست جواب عود کر آجاتا ہے۔ اس کے برعکس بعض لوگوں کو کافی دیر تک اپنے ذہن کو ایک نکتے پہ مرتکز و مرکوز رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب  کہ اکثر لوگوں کے ذہن میں بات قسطوں اور درجوں میں کھلتی ہے۔ ایک وقت میں ایک حد تک ہی بات اُن کی سمجھ میں آتی ہے اور پھر جب وہ مزید غور جاری رکھتے ہیں تو اسی بات کا ایک اور زاویہ یا ایک اور درجہ اُن کے ذہن میں آ جاتا ہے۔
رہا یہ سوال کہ غور و فکر کیسے کیا جانا چاہئے؟ تو اس کا نہایت سادہ سا جواب تو یہ بنتا ہے کہ جب انسان کسی سوال کو اپنے ذہن میں دہرانا شروع کرتا ہے، سوچ بچار  اور غور و فکر کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اب یہ بھی تو ایک سوال ہی تھا کہ سیب زمین پر کیوں گرا؟ جب نیوٹن کا ذہن اس سوال کی گردان کرنے لگ گیا تو اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ سیب نے زمین کا رُح اس لئے کیا تھا کہ اُس کو کسی غیر محسوس قوت نے زمین کا رُح کرنے مجبور کیا تھا۔ اُس نے اس بات کو ذہن میں آنے کے بعد اس پر مزید غور کرنے کی بجائے اس قوت کا نام کشش ثقل تجویز کر دیا اور کہ دیا کہ زمین میں ایک ایسی قوت تجاذب ہے جو چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اب اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے تو پہلی نظر میں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ نیوٹن نے بھلا کیسی مہمل بات کو پکڑا کہ سیب زمین  پر کیوں گرا۔ ایسا نہیں ہے۔ سوچ بچار کے لئے کبھی کوئی بات نہ تو مہمل ہوتی ہے اور نہ ہی لا یعنی ۔ یہ انسان کا ذہن ہے جو کسی بات کو مہمل ، لا یعنی اور فضول کہتا ہے یا اس  کو ضروری اور اہم گر دانتا ہے۔
قرآن حکیم میں لگ بھگ ساڑھے سات سو  مقامات  ایسے ہیں جہا انسان کو تفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے، اس کو غور و فکر پہ ابھارا گیا ہے اور سوچ بچار کی طرف مائل کیا گیا ہے۔ اساتذہ کرام اپنے تلامذہ کو آیاتِ قرآنی سے لے کر کارخانہء قدرت کے کسی بھی مظہر پہ غور و فکر کی دعوت دیکر اُن کو غور و فکر کی مشق کروا سکتے ہیں۔ مثلاً ایک ہفتے تک بچوں کو مسلسل اس بات پہ غور کروایا جاسکتا ہے کہ پانی عام طور پر اوپر سے نیچے کی طرف بہتا ہے لیکن درختوں  میں یہ نیچے ج سے اوپر کی طرف بہتا ہے اور درخت کی پھنگ تک پہنچنے کو دس بیس فٹ نہیں بلکہ سو سوفٹ تک چڑھتا ہے، آخر کیوں اور کیسے؟ غور کرنے کے لئے وہ اور کچھ بھی نہ کریں فقط اپنے ذہن میں اس بات کی تکرار کریں، آپس میں اس پر بات چیت کریں۔ بحث و مباحثہ نہ کریں۔ صرف ایک دوسرے کو اس موضوع پہ اپنے ذہن میں آنے والے خیالات بتائیں۔ ایک ہفتے تک مسلسل غور و فکر کے بعد وہ جس بھی نتیجے پر پہنچ جائیں اُن سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اُس کو لکھ کر دکھائیں۔
غور و فکر دراصل ذہن کی اُس صلاحیت کا  استعمال  ہے جس کو تجسس کہا جاتا ہے۔ جب انسان اپنے ذہن میں کسی سوال کی تکرار کرتا ہے تو وہ درحقیقت اپنی اسی صلاحیت کو بروئے کار  آنے  کا موقع فراہم کر رہا ہوتا ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس  سے ہم عام روز مرہ زندگی میں آشنا نہیں ہیں۔ گھریلو خواتین جب خود سے یا اپنے گھر کے لوگوں سے یہ دریافت کرتی ہیں کہ آج کیا پکایا جائے؟ تو ان کا ذہن اُس روز کی خوراک کا انتخاب کرنے کی سوچ میں منہمک ہوتا ہے۔
کسی بھی سوال کی اپنے ذہن میں بار بار تکرار سے توجہ اس نکتے پہ مرکوز ہو جاتی ہے۔ ارتکازِ توجہ کے قانون کے تحت اس  نکتے سے متعلق خیالات ذہن میں آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ذہن میں جتنی زیادہ جستجو اور تجسس ہوتا ہے، اتنی زیادہ اُن خیالات کے بہاؤ کی رفتار اور رسائی بن جاتی ہے۔ ذہن اپنی قوت اور سکت کے  مطابق ان خیالات کو اپنی گرفت میں لے کر حافظے میں محفوظ کرتا چلاتا ہے۔
یہاں پہ اس بات کا تذکرہ کر دینا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ کسی سوال پہ غور کرنے کے اس عم میں بعض اوقات کچھ یوں ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن میں کچھ ایسے خیالات آنا شروع ہو جاتے ہیں جو پہلے سے بنے ہوئے عقائد سے متصادم ہی نہیں  بلکہ بعض اوقات بالکل ہی الٹ محسوس ہوتے ہیں۔ اکثر و بیشتر لوگ اس مقام پر الجھن کا شکار ہو کر سوچ بچار ہی ترک کر جاتے ہیں اور اگر وہ سوچنا ترک نہیں کرتے  اور کسی سے اس ضمن میں مشورہ کرتے ہیں تو اُن کو یہ کہ کر ایسا سوچنے سے ہی منع کر دیا جاتا ہے کہ ایسا سوچنا بُری بات ہے۔ اب اس مسلئے کو حل کرنے کا درست طریقہ تو یہ ہے کہ انسان اپنے عقائد کا تجزیہ کرنے کی اہلیت پیدا کرے، نہ کہ غور و فکر کی عادت سے ہی توبہ کرلے۔
اس ضمن میں گلیلیو کی مثال دینا غلط نہ ہوگا۔ جب کائناتی نظام کے بارے میں سوچ بچار  کے دوران اُس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ سورج زمین  کے گرد نہیں گھومتا بلکہ زمین سورج کے گرد گردش کر رہی ہے تو اُس کو ایک زور دار جھٹکا سا لگا کہ اُس نے یہ کیا سوچا۔ لیکن جب اُ س نے اس بات پہ مزید غور کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اُس کے ذہن میں آنے والا یہ خیال غلط نہیں ہے۔ جب اُس کو اپنے مشاہدات سے یہ یقین ہوگیا کہ اُس کا اخذ کردہ نتیجہ درست ہے تو اُس نے اپنے خیال کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ بات پھیلی۔ اُس کی بات سے کلیسا کے پرچار کئے جانے  والے صدیوں پرانے نظریے کی تکذیب ہو رہی تھی، اس لئے ان کو اپنے مذہب کی بنیادیں ہلتی ہوئی محسوس ہونے لگیں اور انہوں نے گلیلیو کو اپنے خیال سے تائب ہونے کا کہا۔ اور گلیلیو نے یہ کہ کر معافی نامہ داخل کرکے جان چھڑائی کہ میرے یہ کہ دینے سے کہ زمین سورج کے گرد حرکت نہیں کر ہی، زمین کی حرکت رکنے سے تو رہی ، وہ اگر سورج کے گرد گردش کر رہی ہے تو میرے ایسا لکھ دینے سے وہ بھلا کیوں باز آنے لگی۔
اس مثال سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ غور و فکر کے دوران بعض اوقات ایسے مراحل پیش آتے ہیں جہاں کسی دانا اور بینا استاذ کی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اساتذہ اس حقیقت کا کچھ ادراک رکھتے ہیں اور خود ان کے اپنے ذہن میں غور و فکر کا پیٹرن بنا ہوا ہوتا ہے، وہ اپنے تلامذہ کی حوصلہ افزائی کرنے سے نہیں گھبراتے لیکن وہ اساتذہ جو اپنے اندر سوچ بچار کا حوصلہ نہیں رکھتے وہ اپنے تلامذہ کو بھی ان راہوں پر چلنے سے صاف صاف منع کردیتے ہیں۔
غور و فکر کی عادت اور سلیقہ ہو تو عام روز مرہ زندگی کے مسائل حل کرنے سے لے کر زندگی کے اہم فیصلے کرنے تک ہر ہر مرحلے میں انسان کو ایک تو سہولت رہتی ہے اور دوسرے وہ اپنی زندگی میں ایک کامیاب انسان بنتا چلا جاتا ہے۔ سوچ بچار کی عادت کو پروان چڑھانے کے لئے بڑی بڑی باتوں پہ غور و فکر کرنے کی بجائے چھوٹی چھوٹی باتوں کو مرکز توجہ بنانا زیادہ بہتر رہتا ہے۔ بچوں کو پہلیاں اور بجھاتیں مزہ بھی دیتی ہیں اور ایک طرح کی ذہنی مشق کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ قدرے بڑے بچوں کو ریاضی اور جیومیٹری کے سوال دے کر بھی یہی مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ میٹرک اور اُس کے بعد طلباء کو واقعاتی اشکال دے کر اُن کو اس بات پر ابھارا جاسکتا کہ وہ ان کے حل تجویز کریں۔ کسی مفروضہ صورت  حال کو اُن کے سامنے پیش کرکے اس کا تجزیہ اور حل کروانا بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔
سوچ بچار ابھارنے کے اس قسم کے تمام طریقے شعور کو حرکت میں لاتے ہیں اور اُس کو ہی پروان چڑھاتے ہیں۔ شعوری غور و فکر کے ساتھ ساتھ ایک اور طریقہ لاشعور تک رسائی حاصل کرنے کا بھی ہے۔ عام طور پر اس طریقہ تفکر کو ما بعد الطبعیاتی علوم کی کھوج کے لئے مخصوص سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ اگر اس کو عام زندگی کے معمولات کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کے دوہرے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ شعوری تفکر کو  کتنا بھی بڑھا لیں، اُس کو کتنا بھی پھیلا لیں، وہ محدود ہی رہتا ہے۔ لیکن وہ طرزِ تفکر جو انسان کا رابطہ لاشعور سے جوڑ دیتا ہے وہ انسان کو لامحدودیت سے آشنا اور ہم کنار کر دیتا ہے۔
غور و فکر کے اعلیٰ ترین مدارج میں انسان اپنے لاشعور سے واقف اور آگاہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ شعوری غور و فکر کے نتیجے میں انسان طبعی علوم سے آگاہ ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ شعوری غور و فکر کے نتیجے میں انسان طبعی علوم سے آگاہ ہوتا ہے، اپنے مسائل کا حل دریافت کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کو اس اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اس اطمینان کا تعلق چونکہ فانی اور ناپائیدار اشیائے  دنیا سے جڑا ہوتا ہے اس لئے وہ بھی ناپائیدار اور  فانی ہوتا ہے اور اس کو محفوظ اور پائدار بنانے کی تگ و دو ایک الگ سے جوکھم بن جاتی ہے۔ دنیاوی شعور اس سے آگے کی منزلوں کو پانے سے محروم ہی رہتا ہے۔
اس سے آگے کی منزلوں کے راہی کو وہاں تک کے سفر کے لئے اپنے لاشعور تک رسائی حاصل کرنا پڑتی ہے۔ لاشعور تک رسائی حاصل کرلینے والا بندہ نہ سرف اپنے مسائل کو حل کرتا ہے بلکہ وہ مسائل کے حل کے لئے درکار وسائل تک بھی اُس کی دسترس میں آجاتے رکھتا ہے۔ وہ طبعی علوم کے ساتھ ساتھ  ما بعد الطبعیاتی علوم  میں بھی درک رکھتا ہے۔ اس کا اپنے لاشعور سے تعلق اس کے اندر ایک ایسے اطمینان کا سبب بن جاتا ہے جو نہ تو فنا ہوتا ہے اور نہ ہی خراب۔ یہ طمانیتِ قلب انسان کے اعمال  و افعال کی اصل جزا بن کر  اس کو سکون آشنا کر دیتی ہے اور وہ زندگی کے اُس رخ سے واقف ہو جاتا ہے جہاں موت بھی اُس کو ممتا کی نظر سے دیکھتی ہے۔
علمائے باطن اپنے لاشعور تک رسائی کا جو طریقہ تعلم کرتے ہیں وہ انبیاء کی  سنت مراقبہ ہے۔ مراقبہ غور و فکر کا ایک ایسا رفیع الشان طریقہ ہے جو انسان کو قدم قدم چلا کر اُس کو اس کے لاشعور سے ہم کنار کر دیتا ہے۔ مراقبہ میں شعوری طریقہ تفکر کے انداز میں غور کا آغاز کرنے کے بعد ذہن کو ڈھیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ذہن میں خیالات آتے ہیں تو اُن کو آنے دیا جاتا ہے۔ کسی خیال سے کوئی تعرض نہیں کیا جاتا۔ خیالات آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ مراقبہ کی مشق کرنے والا خاموش بیٹھا ان کو آتے اور اُن کی جگہ نئے خیالات اپنے ذہن میں آتے دیکھتا رہتا ہے۔ حتٰی کہ وہ اس مشق کو کرتے کرتے اُس حالت کو پا لیتا ہے جب ذہن میں شعوری خیالات کی رو مد ہم پڑتے پڑتے بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ اب اس حالت میں جب ذہن کسی گہری جھیل کے پانی کی مانند ساکت ہو جاتا ہے تو اس کی سطح پہ ان تورات اور خیالات کے خاکے ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں جو لاشعور سے نشر ہو رہے ہوتے ہیں۔
اس قسم کی کسی بھی مشق کے دوران کوئی پر تکلف اہتمام کرنے اور نہ کسی لمبے چوڑے سازو سامان کی ضرورت پڑتی ہے۔ ضرورت ہوتی ہے تو ایک پر خلوص خواہش اور ارادے کی ۔ اگر اساتذہ کرام ایک وقت مقرر کرکے بیس تا تیس منٹ اس قسم کی کوئی مشق کرنا اپنا معمول بنا لیں تو نہ صرف یہ کہ اُن کی اپنی ذہنی سکت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا بلکہ وہ اپنے فرائض منصبی کو بھی زیادہ بہتر اور احسن طریقے پر سرانجام دے سکیں گے۔ آنے والی نسلوں کی راہنمائی کا پیغمبری کام کرنے کیلئے خود کو تیار تو کرنا ہی ہوگا۔
کہا جاتا ہے کہ انسانی دماغ میں دو کھرب خلیے ہوتے ہیں اور ہر خلیہ کسی نہ کسی ایک حس یا صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔ عام انسان جو شعوری سطح پہ زندگی گزارتا ہے  ان دو کھرب خلیوں میں سے ساری زندگی فقط سو ڈیڑھ سو خلیوں کا ہی استعمال کر پاتا ہے۔ جن لوگوں کو ہم جینیئس گردانتے ہیں وہ بھی ان میں سے صرف دو، سوا دو سو خلیے ہی استعمال کرنے پہ قادر ہو پاتے ہیں۔ اس بات سے اس امر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انسانی ذہن کی صلاحیتوں کا کتنا بڑا ذخیرہ استعمال میں آئے بغیر ضائع ہو جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس خدا داد ذخیرے کو جس قدر ممکن ہوسکے اپنے استعمال میں لانے کی کوشش اور جدوجہد کرتے رہیں۔ وہ لوگ جو اپنے اندر خفتہ صلاحیتوں کا کھوج لگا کر اُن کو اپنے اور بنی نوع انسان کے کام لانے پہ کمر بستہ ہو جاتے ہیں اگر زیادہ نہیں اور فقط لاکھ، دس لاکھ یا کروڑ ڈیڑھ کروڑ خلیوں کو ہی کام میں لانا سیکھ لیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے انسان سے جس نے زندگی میں کل ڈیڑھ، دو سو خلیوں کا استعمال ہی کرنا سیکھا ہو، کس قدر زیادہ قابلیت اور اہلیت کا حامل ہو سکتا ہے۔
اب رہی بات کہ ہم اپنے دماغی خلیوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو کس طرح بروئے کار لا سکتے ہیں اور اپنی  خفتہ صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ  کس طرح بیدار کرسکتے ہیں تو اس کا طریقہ سوائے غور و فکر اور سوچ بچار کی عادت کو پختہ اور راسخ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اگر سوچ بچار  شعوری کیفیات کو ابھار دے تو اس سے دماغ کی گہرائی میں واقع خلیوں کو بھی کام کرنے کا موقع ملتا ہے اور انسان عام سطح سے کہیں زیادہ خلیوں  کے استعمال پر قادر ہو جاتا ہے۔ اس بات میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہو سکتا کہ نت نئی ایجادات اور دریافتوں کا سہرا صرف انہی لوگوں کے  سر بندھتا رہا ہے جنہوں نے غور و فکر اور سوچ بچار کی عادت کو اپنائے رکھا۔
تاریخ میں ایسی  مثالوں کی کمی نہیں ہے جن سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچائی جاسکتی ہے کہ غور و فکر کرنے کے خو گر افراد نے کس طرح لایخل  مسلوں کا حل دریافت کیا اور نوعِ انسانی کی ترقی اور ذہنی ارتقاء میں اپنا کردار ادا کیا لیکن ایک بہت ہی منفرد مثال اُس مفکر کی ہے جس نے نوعِ انسانی کو نا معلوم مقداروں کو معلوم کرنے کا طریقہ سکھایا۔ محمد بن موسیٰ الخوارزمی نوعِ انسانی کا ایک ایسا منفرد اور ممتاز فرد تھا جس نے علم کی ایک مکمل شاخ اکیلے اور تن تنہا دریافت کی۔ علم کی کسی بھی برانچ یا کسی بھی مضمون کا جائزہ لے کر دیکھ لیں وہ ایک دو نہیں دس بیس بلکہ سینکڑوں ہزاروں افراد کی دماغ سوزی، کاوش فکر اور کوششوں کے یک جا ہونے سے وجود میں آیا ہوتا ہے لیکن الجبرا ریاضی کی وہ برانچ ہے جو محمد بن موسیٰ الخوارزمی کے اکیلے ذہن کی پیداوار ہے۔ اُس نے کسی بھی نامعلوم مقدار کو معلوم کرنے کا ایک ایسا کلیہ دریافت کیا جس کو آج کی تمام تر ترقی کی بنیاد قرار دیا جاسکتا ہے۔ آج سائنس اپنی معراج کے جس بھی مقام پر ہے وہ اسی دریافت کے سبب ہے جو ایک بہت ہی گہری سوچ رکھنے والے بندے نے کی تھی۔ اُس نے اتنی گہری سوچ اور اتنا عمیق تفکر کہاں سے سیکھا؟
کہا جاتا ہے کہ ایک شخص نے الخوارزمی  کے علم کو آزمانے کو اس سے کہا کہ تم اتنے بڑے عالم ہونے کا دعویٰ کرتے ہو ذرا یہ تو بتاؤ کہ میری جیب میں کتنے سکے ہیں؟َ الخوارزمی نے اس سے کہا میں اس طرح کا علم تو نہیں رکھتا جس طرح کا تم سمجھے ہو لیکن پھر بھی اگر تم کوئی اشارہ دو تو میں ضرور بتا  دوں گا۔ اس پر اُس شخص نے کہا کہ میرے پاس جو سکے ہیں اگر ان کو اسی تعداد سے ضرب دے کر اُن کا دو چند اُن میں جمع کر دیا جائے تو وہ اصل کے دس گنا ہو جائیں گے۔ الخوارزمی نے ہاتھ میں پکڑے عصا سے زمین پر کچھ لکیریں لگائیں کچھ خانے بنائے اور کہا تمہارے کہنے کے مو جب تمہاری جیب میں کل آٹھ سکے ہیں۔
اب وہ لوگ جو الجبرا کی جان کاری رکھتے ہیں، جان سکتے ہیں کہ درحقیقت الخوارزمی نے  (Quadratic Equation)  یعنی دو درجی مساوات کا کلیہ استعمال کیا ہوگا۔ لیکن کیا اُس وقت کوئی دو درجی مساوات کا استعمال جانتا تھا اور الخوارزمی نے اُس سے سیکھا تھا؟ تو ایسا ویسا  کچھ نہیں تھا۔ الخوارزمی نے اُس وقت اس مسلئے کو مصری علم  ہندسہ اور یونان کے مشہور فلسفی کے دریافت کردہ مسئلہ فیثا  غورث کی مدد سے حل کیا تھا اور پھر بعد میں وہ جبر و مقابلہ  نامی کتاب لکھ کر ریاضی میں الجبرا نام کی علم کی ایک منفرد، مکمل اور مفید شاخ آنے والی نسلوں کے استفادے کے لئے چھوڑ گی۔ اس کتاب سے مغربی دنیا نے کتنا استعفادہ کی اور مشرق دنیا نے اُس نابغہ روزگار کی کیا گت بنائی، اِس بات پہ تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سوال اپنی جگہ رہا جاتا ہے کہ اس نے اتنا علم کہاں سے سیکھا؟ اس سوال کے بہت سے ممکنہ جواب ہو سکتے ہیں۔ ان بہت سے جوابوں میں سے ایک یہ بھی ہونا چاہئے کہ قرآن جیسے نصاب کے تحت تعلیم پانے کے سبب اس کے اندر غور و فکر کا ایک  ایسا پیٹرن بن گیا تھا کہ جب اُس سے ایک نامعلوم مقدار کو تلاش کرنے کی فرمائش کی گئی تو اس کا ذہن گہرائی میں اتر تا چلا گیا اور اس نے نہ صرف یہ کہ دریافت کئے گئے سوال کا جواب دے دیا بلکہ دوسروں کے استفادے کے لئے اور انہیں نا معلوم مقداروں تک پہنچنے کا ایک کلیہ اور فارمولہ بھی وضع کر دیا۔ اس کلیے ہی کی طفیل جب سائنس دانوں نے ہر نامعلوم مقدار کو معلوم کرنا شروع کیا تو وہ اس قابل ہوگئے کہ انہوں نے انسان کو اٹھا خلا میں پہنچا دیا۔

آج ہم ترقی یا فتہ قوموں کی تقلید پر مجبور ہیں کیونکہ ہم نے تحقیق اور ریسرچ سے منہ ہی نہیں موڑا بلکہ دامن بھی چھڑایا ہوا ہے اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم نے تفکر ، غور و فکر اور سوچ بچار کے دروازے خود اپنے  ہاتھوں  خود پہ بند کئے ہوئے ہیں۔ ہم غور و فکر سے اس لئے گھبراتے ہیں کہ ہمارے بڑے ہمیں اس کام سے صریح الفاظ میں منع کرتے ہیں اور یہ کہ کر ڈراتے ہیں کہ زیادہ سوچنے سے دماغ خراب ہو جاتا ہے، انسان پاگل ہو جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں تو سوچ سوچ کر پاگل ہونا روز مرہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں یہ روش بدلنا ہی  ہوگی۔ نقالی اور تقلید کرنے میں کتنی بھی آسان اور سہل لگے، اس کا انجام انسان کی ذلت اور اہانت کے سوا اور کچھ نہیں ہوا کرتا۔ یہ عمل انفرادی ہو تو بھی گوارا نہیں ہو سکتا چہ جائے کہ یہ اجتماعی صورت میں اپنا لیا جائے۔ اس صورت حال سے چھٹکارے کا صرف ایک ہی طریقہ بنتا ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پہ سوچ بچار اور غور و فکر کی عادت کو فروغ دیں۔

معاشرتی رویّے

معاشرتی رویّے
جب بھی کوئی صاحب بیرونِ ملک جاتے ہیں اور خصوصاً کسی مغربی ملک تو سب سے زیادہ وہ جس بات سے متاثر ہوتے ہیں، وہ اُن ممالک کے لوگوں کی قانون پسندی اور اُن کے معاشرتی رویوں کا بہت ہی گہرا تاثر لیتے ہیں اور اکثر اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں ہم ویسے کیوں نہیں ہیں؟ وہ اصول پسندی، احترامِ انسانیت، سچ بولنا، قانون کی پاسداری اور قانون کا ڈر اُس کے خوف کی بجائے قانون کے احترام کا جذبے کے تحت ، صفائی، سلیقہ اور ایک معاشرتی نظم و ضبط جیسی باتیں ہم میں کیوں پیدا نہیں ہوسکیں؟
ان سب باتوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو تان یہاں آکر توڑ دی جاتی ہے کہ یہ سب باتیں انہوں نے اسلام  کے زریں اصولوں سے اخذ کی ہیں۔ یہ سن کر ہم سب  اس سے آگے سوچنا بند کر دیتے ہیں اور اس فخر کا شکار ہو کر بے سدھ ہو جاتے ہیں کہ کچھ بھی ہو وہ ہیں تو ہم سے کمتر کہ انہوں نے سب کچھ ہم سے ہی تو سیکھا ہے۔ لیکن جب غیر جانبداری اور خلوصِ نیت سے اس بات کا تجزیہ کیا جائے کہ اس لفظ 'ہم' سے کیا مراد ہے، تو یہ دیکھ کر بہت عجیب سا لگتا ہے کہ اس سے مراد ہمارے وہ آباؤ اجداد  جنہوں نے کبھی اسلام کے زریں اصولوں کو اپنا کر تحقیق اور ریسرچ کا ایسا علم بلند لیا تھا کہ پوری دنیا کو رنگوں  کر لیا تھا۔ اسلام کے اصولوں کی جس کسی نے جب بھی کبھی پاسداری کی وہ سرخ رو ہوا۔ آج ہم محض اسلام کے نام لیوا تو ضرور ہیں لیکن اس کے عامل نہیں۔ اسلام کے اصول آفاقی سچائیوں کے حامل ہیں۔ جس کسی نے بھی ان پر عمل کیا چاہے اسلام کے اصولوں سے  پہلو تہی اور اجتناب کی روشن اپنائی وہ دوسروں کا دستِ نگر اور باجگز  اربن کر ہی زندہ رہ سکا۔
اسلام کی تعلیمات کو اپنی محدود سوچوں، بے عملی کی بڑھی ہوئی حد اور اپنے کام سے کام رکھنے کی بجائے ایک دوسرے کی کاٹ میں قوت اور وقت کا زیان کرنے کی عادت بد کے ہاتھوں ہم نے کتابوں میں مقید اور محبوس  کرکے کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا ہے۔ یہ تین بنیادی کمزور یاں ہیں جو ہمارے معاشرتی رویوں کی پوری دیوار کو ٹیڑھا کئے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنی سوچوں کو محدود طرزوں سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں، زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی کام کو فوقیت دینا سیکھ جائیں اور دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے اور بے مقصد نکتہ چینی کے بجائے ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کو اپنا چلن بنالیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے معاشرتی رویے درست نہ ہوسکیں۔
معاشرتی رویوں کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ ہم سے ہر ایک ان تین باتوں کو اپنے اندر پختہ اور راسخ کرلے اور اپنی پوری توانائی اس امر کو یقینی بنانے  میں صرف کرے کہ ہم اپنی سوچوں کو محدود نہیں رہنے دیں گے، اپنی توانائی کو مثبت طرزوں میں صرف کرنے کو شعار بنائیں گے اور غیبت اور نکتہ چینی کی بجائے اگر ہو سکا تو کوئی مفید مشورہ دے دیں گے ورنہ خاموش رہنے کی مشق کر بڑھائیں گے۔
اب یہ کہ دینے سے کہ ہم سب کو ایسا کرنا چاہئے، ایسا ہونے سے تو رہا۔  ایسا ویسا تب ہی ہوسکتا ہے جب اس پر عمل پیرا ہو جائے۔ استقامت اور ثابت قدمی سے ان باتوں کو اپنانے کی راہ پر گامزن رہا جائے۔ انتہائی نا مساعد حالات میں بھی اپنے عمل کو ترک نہ کی جائے تو تب کہیں جا کر یہ ممکن ہوگا  کہ ان باتوں کے مثبت اثرات ہمارے معاشرتی رویوں میں نظر آنا شروع ہو جائیں۔ ورنہ تو یہ خواب ہے اور اس کو عملی صورت دینے کی محض خواہش ہی کافی نہیں ہوسکتی اس کے لئے ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانا ہی ہوگی۔
ہمارا نظامِ تعلیم اور درس گاہیں اس ضمن میں جو کردار ادا کرسکتے ہیں وہ بہت مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ اساتذہ کرام اپنے شاگردوں کے اندر ان باتوں کو پختہ کرنے کی ابتدا کرسکتے ہیں۔ وہ اُن میں اس بات کا شعور اجاگر کریں، درس گاہ اور کلاس روم میں نظم و ضبط اور ڈسپلن کو فروغ دیں اور انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لائیں۔ اب کہنے اور سننے میں تو یہ بات بہت ہی خوش کن محسوس ہوتی ہے لیکن اس کو اساتذہ کرام عملی طور پر کیسے کریں گے؟ بنیادی طور پر تو یہ بات خود اساتذہ کرام ہی کے طے کرنے کی ہے کہ وہ اس کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں اور بعض اداروں کے اساتذہ تو ایسا کر بھی رہے ہیں۔ اب ایچی سن کالج، کا کول ملٹری اکیڈمی اور سول سروسز کے تربیتی اداروں کے فارغ التحصیل طلباء  کے معاشرتی رویے عام سکولوں اور کالجوں کے سٹوڈنٹس سے اسی لئے  تو اتنے مختلف ہوتے ہیں کہ وہاں پہ اساتذہ اس بات کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں کہ اُن کے یہاں تعلیم پانے والے ان باتوں سے آگاہ رہیں جن پہ آگے جا کر اُن کو کار بند رہنا چاہئے ۔ آخر وہ بھی تو اساتذہ ہی ہیں اور پھر اسی ملک کے اساتذہ۔
فرق ہے تو صرف اتنا کہ اُن اساتذہ کو ان اداروں کی انتظامیہ کی طرف سے جیسا کرنے کی ہدایات ملتی ہیں وہ ویسا ہی کرتے ہیں اور دوسرے اداروں کی انتظامیہ ان باتوں پہ زیادہ دھیان نہیں دیتی لہٰذہ وہاں پہ ان باتوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس لئے یہ سکولوں کی انتظامیہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کرام سے اس بات کی فرمائش کرے کہ وہ اپنے شاگردوں میں ان باتوں کا شعور اجاگر کرنے پہ  مناسب توجہ دیں۔
ان باتوں کا آغاز عملاً اُس وقت ہی ہو جاتا ہے جب ایک استاذ پہلی بار کلا س روم میں داخل ہوتا ہے ۔ بچے اس پہلی ملاقات پہ ہی یہ بات طے کر لیتے ہیں کہ اس استاذ کے ساتھ اُن کا آئندہ برتاؤ کیسا ہوگا اور وہ خود کو کس حد تک اُس کے حوالے کرنے پر آمادہ ہیں۔ وہ سمجھدار استاذ جن کو اپنے کام پر عبور حاصل ہوتا ہے اس موقعے کا پورا فائدہ اٹھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے ۔ وہ اپنا تعارف کروانے کے بعد براہ راست کتاب نکال کر پڑھانے کی بجائے اس بات کی وضاحت کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے تلامذہ سے کن کن باتوں کو توقع کرتے ہیں؟ پڑھانے کے لئے وہ کیسا ماحول چاہتے ہیں؟ اس ماحول کو بنانے میں انہیں اپنے طلباء سے کیا کیا تعاون درکار ہیں۔
اگر ایک استاذ سبق کا آغاز کرنے سے پہلے پانچ دس منٹ ایسی چند ایک باتوں کی وضاحت کر دے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہوتا ہے کہ بچے سبق کے لئے ذہنی طور پر آمادہ و تیار ہو جاتے ہیں اور انہیں یہ اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ یہ استاذ مزاجاً کس طبیعت کا ہے۔
اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کا ایک انداز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ استاذ طلباء سے صاف صاف کہ دے۔ "ایک استاذ ہونے کے ناطے میرا فرض ہے کہ میں اپنے شاگردون کی مدد کروں، اُن کو جو بات سمجھنے میں مشکل ہو اُس کو سمجھنے میں میں اُن کی مدد کروں۔ میں آپ کو پڑھانا تو سکھا سکتا ہوں لیکن پڑھنا تو خود آپ ہی کو ہوگا۔ اس لکھنا پڑھنے سیکھنے کے لئے ایک خاص قسم کے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ وہ ماحول کلاس کے اندر بنائے رکھیں گے تو آپ کو لکھنا پڑھنا سیکھنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوگی۔ جب آپ لکھنا پڑھنا سیکھ جائیں گے تو آپ ان کتب کا مطالعہ کریں گے۔ ان میں درج باتوں کو سمجھیں گے، اُن کو یاد کریں گے۔ پھر ہم آپ کو امتحان کے لئے تیاری کروائیں گے تاکہ آپ اچھے نمبروں سے امتیازی شان سے امتحان  میں کامیاب ہوسکیں۔ اس کے لئے آپ کو مجھ سے یہ عہد کرنا ہوگا کہ جو کچھ میں آپ سے کہوں گا آپ اُس پر خلوصِ دل سے عمل کریں گے اگر آپ کو اُس پر عمل پیرا ہونے میں کوئی دشواری ہو تو بلا جھجک مجھ سے پوچھیں گے۔ ہاں اس پوچھنے کو بھی ایک طریقہ ہونا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ سب ہی ایک ساتھ پوچھنا شروع کردیں۔ اس سے تو کلاس میں شور مچ جائے گا اور میں کسی کی بات بھی سن نہیں سکوں گا۔ اس لئے بھئی پہلا قانون یہ طے کر لیتے ہیں کہ جس نے کچھ پوچھنا ہو وہ ہاتھ کھڑا کرے گا اور اجازت  ملنے پر ہی بولے گا۔ کیوں بھئی ٹھیک ہے نا؟
اسی ماحول کو بنانے کے لئے ایک بہت ہی کار آمد بات یہ ہے کہ جب آپ کلاس میں بیٹھے ہوں تو کرسی  پہ اسی طرح بیٹھیں کہ آپ کی کمر سیدھی رہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ دیر تک بیٹھ کر کام کرنے کے باوجود تھکیں گے نہیں۔ کمر کو سیدھا رکھیں لیکن اس کو زیادہ اکڑانا بھی ٹھیک نہیں۔ جب چلیں تو کندھے ڈھلکے ہوئے نہیں ہونے چاہئیں اور پاؤں گھسیٹ کر تو بالکل بھی نہیں چلنا چاہئے۔ کرسی پہ  بیٹھے ہوں تو آپ کے گھنٹے آپ کے اپنے سامنے رہنے بہت ضروری ہیں کیونکہ میں کلاس میں ادھر اُدھر چلتے پھرتے آپ کے پیروں سے ٹکرایا تو یہ بہت بُرا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ مجھے چوٹ لگ جائے۔
سوال ضرور پوچھی۔ سوال پوچھنے میں شرم نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن سوال پوچھنے کا سلیقہ ہونا بہت ہی ضروری ہے۔ باری باری پوچھیں۔ ذاتی مسائل کے حل تو آپ مجھ سے کلاس کے بعد سٹاف روم میں آکر بھی پوچھ  سکتے ہیں۔ اب تک میں نے جو کچھ کہا اس کی مزید وضاحت کی کوئی ضرورت ہے یا میں آگے چلوں؟"
اس طرح جب استاذ یہ واضح کر دیتا ہے کہ وہ بچوں کے مسائل کو حل کرنے وہاں آیا ہے اور یہ کام وہ خوش مزاجی سے کر سکتا ہے تو بچے اُس کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ تیار ہو جاتے ہیں اور استاذ کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ بچوں کو کلاس میں ڈسپلن کی عادت پڑتی ہے اور رفتہ رفتہ نظم  و ضبط   ان کی عادت بنتا چلا جاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب تک اساتذہ کرام اس بات کو اپنے اندر راسخ نہیں کرلیتے کہ وہ اتنا ہی کہیں جس پر وہ  عمل کرا سکیں اور جتنا کہیں اس پر عمل کروانے کی پوری  کوشش کریں، تو اس وقت تک ایسی ویسی کسی بھی بات کا کچھ بھی مطلب نہیں نکل سکتا۔ یہ محض ایک ایسی ہی بات بن کر رہ جائے گی جس کو بچے ایک کان سے سن کر دوسرے سے اُڑا  دیا کرتے ہیں۔
جب بچے میں خود سپردگی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو اُس وقت استاذ اُس کے معاشرتی رویوں میں بہتری لانے کی بات تجویز کرسکتا ہے۔ لیکن جب تک بچے میں تسلیم و رضا کے جذبات ابھر نہیں آتے اس وقت تک ہوتا یہ ہے کہ اساتذہ کرام بچے کے ذہن میں ڈالتے ہیں کہ جھوٹ نہیں بولنا اور بچہ جب گھر جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کے ارد گرد  اکثر لوگ جھوٹ بولنے کو بُرا تو  کجانا روا بھی نہیں سمجھتے تو وہ الجھ کر رہ جاتا ہے اور اپنے ذہن میں ٹھان لیتا ہے کہ یہ سب منافقت کے شاخسانے ہیں ۔ اب اگر اس کو اپنے استاذ سے ذہنی ہم آہنگی ہو تو اس موضوع پر اُس سے کھل کر بات کر لے گا۔ جب بات کرے گا و استاذ اس کے ذہن کی الجھن یہ کہ کر رفع کرسکتا ہے کہ بھئی جھوٹ تو جھوٹ ہی ہے چاہئے سب ہی اسی روش پہ چلیں لیکن اگر صداقت  اور سچائی کو اپنایا ہی نہیں جائے گا تو بھلا اس کے فوائد کیسے حاصل ہو سکیں گے۔ اب حضورﷺ بھی تو ایک ایسے معاشرے میں حق و صداقت پہ قائم ہوگئے تھے جہاں سب ہی جھوٹ اور کفر بولتے تھے۔ جب اس قدر جھوٹے معاشرے نے انہیں ان کی سچائی کی بدولت صادق اور امین کے خطاب دے دیئے تو اس بات پہ بہت غور ہونا چاہئے کہ حضورﷺ کو لوگوں نے تکلیفیں سچ بولنے پر دی تھیں یا اس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ سچ بولنے پہ تو اُن کو کفار تک نے صادق اور امین ہی کہا تھا۔ وہ تو جب انہوں نے اللہ کے حکم کے مطابق ان کو ایک خدا کی پرستش اور اس  کے ساتھ کسی کو شریک نہ  کرنے کا کہا تو اُن کو لگا کہ حضورﷺ کی بات ماننے سے اُن کی چودھراہٹ ختم  ہو  جائے گی اس لئے انہوں نے پہلے تو انہیں لالچ دیئے لیکن جب حضورﷺ اپنی بات پہ ڈٹے رہے تو وہ اُن کے دشمن بن گئے۔ دیکھو بھئی میں تمہیں ایک راز  کی بات بتاؤں ۔ دراصل جھوٹ بولنے سے اور تو کچھ ہوتا ہے یا  نہیں لیکن اس سے انسان کے اندر ذخیرہ شدہ توانائی بہت ضائع ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر نبی اور ہر پیغمبر نے جھوٹ بولنے سے منع ہی فرمایا ہے۔
اس طرح جب عقلی دلائل کے ساتھ بات بچوں کو سمجھائی جاتی ہے تو اُس بات پہ قائم ہونے میں انہیں زیادہ وقت نہیں ہوتی۔ اور اگر کسی استاذ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ اساتذہ کیسا معاشرتی انقلاب لا سکتے ہیں۔ اساتذہ کرام کو اپنے معمار قوم ہونے کا مطلب سمجھنا ہی ہوگا ورنہ تو زمانہ قیامت کی چال چل ہی رہا ہے۔



امتحانی نظام

امتحانی نظام
درس و تدریس کے نظام میں یہ دیکھنے کے لئے کہ تعلیم پانے والوں نے اپنے اساتذہ سے کیا کچھ سیکھا ہے، اُن کا امتحان لیا جاتا ہے۔ امتحان لینے کے یوں تو کئی طریقے ہیں، لیکن معروف طریقہ یہی بن چکا ہے کہ طالب علم سے اس کی قابلیت جانچنے کے لئے کچھ سوال پوچھے جاتے ہیں۔ یہ سوال جواب زبانی بھی پوچھے جاسکتے ہیں اور تحریری طور پر بھی۔ اس کے علاوہ ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ شاگرد کو کوئی کام کرنے کو کہا جاتا ہے اور اُس اسائنمنٹ کی تکمیل پر یہ جانچا جاتا ہے کہ اُس نے وہ کام کیسے اور کس معیار کا کیا ہے۔ عام طور پر یہ طریقہ خاص خاص فنون جیسے میڈیکل یا انجنیئرنگ جیسے علوم میں زیادہ آزمایا جاتا ہے۔ اُن سوالوں سے جو امتحان میں پوچھے جاتے ہیں، اس بات کا بہت گہرا تعلق ہے کہ ہم کیا جانچنا چاہتے ہیں۔
اگر بچے کی یاداشت کو جانچنا ہو تو ایک قسم کے سوال پوچھے جاتے ہیں اور اگر یہ دیکھنا ہو کہ بچے کو بتائی گئی بات کی کتنی سمجھ آئی ہے اور ا س کے ذہن نے بتائی گئی بات کو کتنا اور کیسا جذب کیا ہے، تو دوسری قسم کے سوال پوچھ جاتے ہیں اور اگر یہ دیکھنا ہو کہ بچے کا ذہن کتنا کام کرتا ہے اور وہ اپنی بات کو کس حد تک منطقی دلائل سے ثابت کر سکتا ہے یا یہ کہ وہ کسی غیر متوقع صورت حال کا سامنا کرنے کی کتنی اہلیت رکھتا ہے تو ایک تیسری ہی قسم کا سوال پوچھا جاتا ضروری ہو جاتا ہے۔ یعنی پوچھے گئے سوال کا مقصد ہمارے امتحانی نظام کے معیار کا براہ راست تعلق ان پوچھے جانے والے سوالوں کی کوالٹی سے بنتا ہے۔ دوسری چیز جو امتحان کے معیار کی ضامن بنتی ہے ، وہ ہے ان سوالوں کے جوابات کو جانچنے کا طریقہ اور انداز۔ اگر یہ جانچنا ژرف نگاہی اور غیر جانبداری سے ہو تو بچوں کی قابلیت کو درست انداز سے جانچا جاسکتا ہے لیکن اگر کوئی عدیم  الفرصت صاحب  اس کو بیگار جان کر بے دلی سے کر رہے ہوں تو یہ جانچ کاری درست نتائج کی حامل نہیں ہوسکتی۔ علاوہ دیگر مضمرات کے اس کے نتیجے میں طلباء میں اضطراب پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے۔
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ بچے امتحان سے بہت گھبراتے ہیں۔ یہ کہنا کہ امتحان سے گھبراہٹ ہونا ایک فطری امر ہے، کسی حد تک تو درست ہوسکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس گھبراہٹ کی بہت سی اور وجوہات بھی ہوا کرتی ہیں۔ اُن میں سے سب سے بڑی وجہ تو یہی ہوتی ہے کہ بچہ امتحان کے لئے پوری طرح تیار نہیں ہوتا۔ اب اُس کی تیاری میں کیا اور کتنی کمی ہوتی ہے، اس بات کو جانچنا اور اُس کمی کو پورا کروانے کی ذمہ داری تو اساتذہ کرام ہی کے سر جاتی ہے لیکن اس کمی کو پورا کرنا تو بہر حال طلباء کا ہی فرض بنتا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے اور کروانے میں اساتذہ کو کیا کیا اقدامات لینے چاہئیں اور طلباء کو کیسے تیاری کرنی چاہئے، اس کا بھر پور جائزہ لینا  بہت ضروری ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ طلباء اور اساتذہ  اس کام پر آمادہ ہوں۔ جب تک طلباء پہ امتحان کی غرض و  غائیت  واضح کئے بغیر امتحان دلوائے جاتے رہیں گے وہ گائیڈز، خلاصے اور گیس پیپرز کا ہی سہارا لیتے رہیں گے۔ اور جب تک طلباء خود میں امتحان کا درست شعور اجاگر نہیں کر پائیں گے، وہ مجبوراً نقل ، میل ملاپ، سفارش اور زور زبردستی کے طریقے اختیار کرتے رہیں گے۔
اس ضمن میں سب سے پہلا کام جو حکومت کے کرنے کا بنتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ خلاصوں، گائیڈوں اور گیس پیپرز کی طباعت اور اشاعت پر کڑی پابندی عائد کر دے۔ دوسرا کام جو اس کے بس میں ہے اور اُس ہی کے کرنے سے ہوگا وہ یہ کہ اساتذہ کرام کو بچوں کو امتحان کی تیاری کروانے کی تیکنیک سیکھانے کے لئے خصوصی پروگرامز مثلاً شارٹ کورسز اور تربیتی ورکشاپ  کا اہتمام کیا جائے۔ کتابیں پڑھانا اور امتحان کی تیاری کروانا دو بالکل الگ نوعیت کے کام ہیں اور یہ سمجھنا کہ محض ایک دو بار کتاب پڑھا دینے سے بچہ امتحان دینا بھی سیکھ جائے گا تو یہ ایک لحاظ سے ک فہمی ہی ہو سکتی ہے۔
جب تک حکومت تعلیمی بورڈوں کے ذریعے اس کام کو آغاز نہیں کر  پاتی اُس وقت تک اس صورت حال کو بہتر کرنے کے لئے سکولوں اور کالجوں کی انتظامیہ اس قسم کے پروگرام خود مقامی سطح پر کر سکتی ہے۔ اس کے نہ کرنے سے جو نقصان ہو رہا ہے،  اُس کا تذکرہ کرنے سے بہتر ہے کہ اس کام سے ہونے والے سب سے بڑے فائدے کی بات کی جائے۔ سب سے بڑا فائدہ یہی ہوگا کہ بچوں کا رزلٹ سچ مچ بہتر ہوتا چلا جائے گا اور انہیں ناجائز امتحانی ذرائع بھی اختیار نہیں کرنا پڑیں گے۔
ہمارے موجودہ نظام میں امتحان دینا اس لئے ایک تیکنیک کا درجہ اختیار کر گیا  ہے کیونکہ امتحان لینے والوں نے امتحانی سوالوں کی تیاری اور اُن کی جانچ کاری کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ اُس سانچے اور پیٹرن کو سمجھے بغیر امتحان دینے بیٹھ جانے کا انجام یہی ہوتا ہے کہ بہت سے بچے تو بچے اُن کے والدین اور اساتذہ بھی یہی کہتے ملتے ہیں کہ بچہ یوں تو بہت لائق تھا، نہ جانے اس کو کیا ہوا کہ وہ امتحان میں اتنے اچھے نمبر ہیں آسکے۔ اور پھر اُس کے بعد امتحانی مراکز اور بورڈوں کی اندرونی حالتِ زار پہ تبصرے کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس بات کا کھوج لگانے کی ضرورت تھی کہ آخر وہ کیا کمی رہ گئی تھی کہ ایک لائق بچہ بھی امتحان میں حسبِ دلخواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔
کتاب پڑھ لینے، اُس کو سمجھ لینے اور اُس کے مندرجات کو یاد کرلینے کے بعد اگر اُس کتاب کی بابت کوئی بات دیافت کی جائے تو اُس کو زبانی طور پر بیان کرنا اتنا دشوار نہیں ہوا کرتا جتنا اُس کو لکھ کر بیان کرنا دشوار محسوس  ہوتا ہے۔ اس لئے پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنے کی مشق ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لکھنے کی مشق کروانے کے لئے  اساتذہ  کو چاہئے کہ وہ بچوں کو خوشخطی اور تیز رفتاری سے لکھنے کی عادت کو پختہ کروائیں۔ یہ کام اساتذہ کی مسلسل نگرانی اور اعانت کے بغیر ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اساتذہ کو اس سمت میں اپنا کردار بھرپور انداز میں انجام دینا ہی ہوگا۔
جب بچوں کو کتاب پڑھا دی جائے تو امتحان کی مشق کے نکتہ نظر سے بچوں کو بار بار ٹیسٹ دیا جائے۔ اس طرح سے اساتذہ اپنے بچوں سے اُن کے کلاس روم بار  بار امتحان لیں۔ اُن کے لئے بورڈ کے تیار کئے جانے والے پرچوں کی طرز پر سوالوں کے پرچے مرتب کریں۔ جب بچے حل کریں تو اُن کو پرچے حل کرنے کی تیکنیک بتائیں۔ یہ بھی بتائیں کہ دیئے گئے وقت میں ہی پرچے کو مکمل حل کرنے کے لئے وقت کو مطلوبہ سوالوں پہ کس طرح تقسیم کرنا چاہئے۔ ایک جواب کو کم سے کم کتنا اور زیادہ سے زیادہ کتنا لکھنا چاہئے۔ پرچوں میں لکھنے سے پہلے کاغذ کے دونوں طرف حاشیے لگانا کتنا ضروری ہے۔ نفسِ مضمون میں موجود نکات کو سرخیوں  اور ذیلی سرخیوں سے کیسے ابھارا جاتا ہے۔ اساتذہ بچوں کو اس پہ قائل کریں کہ تحریر کو لاگا تار لکھنے کی بجائے ہر ایک دو پیرا گرافس کے بعد  ایک آدھ سرخی لگانے سے تحریر کس طرح سج جاتی ہے۔ سرخیوں سے نکات واضح کر دینے سے ممتحن کو کیا سہولت رہتی ہے اور اس سے زیادہ نمبر کیوں ملتے ہیں۔
جب اساتذہ کرام پرچوں میں محض نمبر لگانے کی بجائے بچوں کے حل کئے ہوئے پرچوں میں موجود غلطیوں کی نشاندہی کریں گے کریں گے اور اس بات پہ اصرار کریں گے کہ آئندہ یہ غلطیاں دہرائی نہیں جانی چاہیں تو بچوں کو اس بات کی عملی طور پر آگاہی حاصل ہوگی کہ امتحانی پرچوں کو حل کرنے میں کیا کیا باتیں ضروری ہیں۔ تجربہ شاہد ہے کہ ان خطوط پر تیاری کرنے والے بچے امتحانوں میں نمایاں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔
اس طرح سے تیاری کروانے کا ایک مزید فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بچوں کو تین گھنٹوں تک لگا تار لکھنے کی مشق ہوتی ہے اور جب امتحان کے وقت انہیں لگاتار تین گھنٹے لکھنا پڑنا ہے تو ایسا کرنے میں انہیں کوئی وقت ہیں ہوتی۔ ورنہ تو امتحان گاہ میں یہ منظر ہر نگر ان کے مشاہدے میں رہتا ہے کہ اکثر بچے اِدھر اُدھر تانک جھانک کرنے اور لکھنے میں مصروف نظر آنے کی ایکٹنگ ہی کرتے رہتے ہیں۔
ممتحن حضرات کا پرچوں کو جانچنے کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟ اگر اساتذہ کرام بچوں کو اس کی بابت بتائیں تو اس سے بچوں  میں اپنے پرچے کو ممتحن کے نکتہ نظر سے پیس کرنے میں سہولت پیدا ہوسکتی ہے۔ ممتحن حضرات جب ایک پرچے کو ہاتھ میں لیتے ہیں تو اُن کا تجربہ ایسا ذہن بنا چکا ہوتا ہے کہ وہ یا تو پرچے میں موجود خوبیوں کے نمبر لگاتے ہیں یا پھر خامیوں اور کمی کے نمبر کاٹنے کی پالیسی اپنا کر نمبر لگاتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ کوئی بھی یہ اندازہ تو ر نہیں سکتا کہ اُس کا ممتحن اُس کے پرچے کی خوبیوں کو زیادہ سرا ہے گا یا  اُس کی خامیوں پہ پکڑ زیادہ کرے گا۔ اس لئے اساتذہ کرام کو چاہئے کہ وہ بچوں پہ یہ امر بالکل واضح فرما دیں کہ ان دونوں ہی صورتوں سے عہدہ برآ ہونے کی بہترین حکمت عملی یہی بنتی ہے  کہ وہ اپنے پرچے میں پوچھے گئے سوال کے جواب کو بہترین انداز میں پیش کرنے کی مشق اور مزید مشق کرتے رہیں اور اس مشق کے لئے جیسے تیسے بھی بن پرے وقت نکالیں۔
اساتذہ کرام بچوں کو اس امر پہ قائل کرنے کو کہ  انہیں محنت کرکے امتحان  دینا سیکھنا چاہئے اس قسم کی دلیل دے سکتے ہیں کہ صرف اس ہی طرح وہ نقل اور دیگر ناجائز ذرائع پہ کسی بھی قسم کا کوئی انحصار کرنے کی سوچ کو ترک کر سکتے ہیں۔ اساتذہ کرام بچوں کو یہ دلائل دے کر تبھی قائل کرسکتے ہیں جب خود اُن کو پوری طرح واضح ہو کہ انہوں نے کیا کرنا ہے اور پانے بچوں سے کیا کروانا ہے۔ کیونکہ اس نصیحت کا کوئی بھی اثر وہ تبھی لیں گے جب انہیں کلاس روم میں پوری تن دہی اور توجہ سے محنت کرنا پڑ ے گی ورنہ تو اُن کی فطرت کا وہ رخ ہی زیادہ متحرک رہے گا جو تن آسانی اور سہل پسندی کو اُن کے لئے پر کشش بنا کر دکھاتا ہے۔ اساتذہ کرام ہر ہر قدم پہ اُن کے اس رحجان پہ نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بچوں کی توجہ زیادہ سے زیادہ اس امر کی طرف مبذول رہے کہ انہوں نے محنت کرکے اپنی اُن کمی کو پورا کرنا جس کی نشاندہی اُن کے اساتذہ نے کی ہے۔

علاوہ اور باتوں کے اس سے یہ بھی ہوتا ہے پورے سکول میں ایک خاص ماحول بن سکتا ہے۔ بچے اُس ماحول میں آکر خود بخود اُس کے زیرِ اثر آتے چلے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو محنت کرتے دیکھتے ہیں تو اُن میں بھی یہ شوق پیدا ہوتا کہ وہ بھی کچھ کریں۔ اگر بچہ کچھ ایسا کرنے پر آمادہ ہوگیا جس سے اُس کا اپنا بھلا ہو سکتا ہو تو ایک استاذ اور ماں باپ کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔

Featured Post

Chief Executive Officer (CEO) – Job Description

The Noor International  School and College System Mardan   Chief Executive Officer (CEO) – Job Description   Position Overview:   Th...