Posts

کردار سازی

کردار سازی علم و آگہی سے آراستہ ہونے کے بعد شخصیت میں جاذبیت تو ضرور پیدا ہو جاتی ہے لیکن بات کی تکمیل تب ہی ہوسکتی ہے جب فرد کا کردار ایسا ہو کہ وہ حاصل ہونے والے علم و عرفان کو صرف اور صرف تعمیر ہی کے لئے استعمال کرنے پر کمر بستہ رہے۔ اگر کوئی فرد  سیکھے ہوئے علم کا محدود طرزوں میں ہی استعمال ہوا۔ اور اگر کہیں فرد کی طرزِ فکر میں تخریب ہو تو وہ اپنے علم کو دوسروں کو نقصان پہنچا کر اپنا بھلا کرنے میں استعمال کرنے سے شاید ہی گریز کرسکے۔ انسان اپنی سیکھی ہوئی باتوں کو جس انداز میں اپنا تا اور اُن کو جس طرح سے عملی طور پر برتتا ہے وہ اُس کا کردار کہلاتی ہیں۔ کردار کی اصل بنیاد طرزِ فکر ہوتی ہے۔ ایک انسان کی جیسی طرزِ فکر ہوتی ہے ویسا ہی اُس کا کردار تشکیل پاتا ہے۔ اگر انسان کی طرزِ فکر اپنی ذات سے محبت ایک حد سے برھی ہوئی ہوگی یا اُس میں لالچ اور  حرص و ہوا ہوگی تو وہ علم سے آراستہ ہونے، خوشگوار اور جاذب نظر شخصیت رکھنے کے باوجود ایسے کام سرانجام دے بیٹھے گا جن پر خود اُس کا ضمیر  اس کو ملامت کرتا اور لوگ اس کو بُرا سمجھتے اور کہتے ہیں۔ اس کی مثال وہ ڈاکٹر ہے جو کسی مریض کا گردہ

تعمیر و تنظیم شخصیت

تعمیر و تنظیم شخصیت انسان اس دنیا میں آتا ہے تو اپنے ساتھ اس دنیا کو محسوس کر نے والی حسیات  کا ایک ایسا پلندہ بھی ہمراہ لے کر آتا ہے جس کو برتنے اور استعمال کرنے پر وہ رفتہ رفتہ قادر ہوتا ہے۔ ان حسیات کو برتنے اور استعمال کا سلیقہ کسی حد فطری اور  جبلی ہوتا ہے اور بہت حد تک اکتسابی یعنی کچھ  حسیات کا استعمال  وہ ایک حد تک جبلی طور پر کرنا جانتا ہے اور پھر اکتساب یعنی سیکھنے کے عمل سے ان کے استعمال میں مہارت پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ اس اکتساب سے ایک طرف تو حسیات کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے اور دوسری طرف وہ ان حسیات کے دائرہ استعمال میں توسیع کرتا ہے۔ عام طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حواس فقط پانچ ہی ہیں یعنی دیکھنے، سننے ، سونگھنے، چھونے ا ور چھکنے سے متعلق حواس  جن کو عرف عام میں حواسِ خمسہ کہ کر متعارف کروایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں انسانی حسیات کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے اور ابھی ان کی بابت انسانی علم بہت ہی محدود ہے۔ اس کی چند ایک مثالیں وقت کا احساس ہونا، بھوک پیاس کا  احساس ہونا، گرمی سردی کو محسوس کرنا، ہوا میں رطوبت کی کمی زیادتی کو محسوس کرنا آنکھیں بند ہونے کے باوجود اپنے اند

مجموعہِ اضداد

مجموعہِ اضداد جب انسان غور و فکر پر مائل ہو تو اس کے ارد گرد موجود مختلف مظاہر فطرت سے لیکر مختلف لوگوں اور انسانوں تک بے شمار باتیں اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہیں۔وہ اپنے فطری تجسس اور اشتیاق کے ہاتھوں اُن میں دلچسپی لیتا ہے، اُن باتوں پہ غور و فکر کرتا ہے، اُن کی بابت کوئی رائے قائم کرتا ہے اور کوئی نتیجہ نکال کر مطمئن ہو جاتا ہے یا کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کی صورت میں بے اطمینانی اور خلش کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس بے اطمینانی  اور خلش سے نجات پانے کی خواہش ایک تقاضا بن کر اُس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اس بات پہ مزید غور کرے اور سوچ بچار سے کوئی قابلِ اطمینان نتیجہ اخذ کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ اگر پھر بھی کوئی اطمینان بخش بات ذہن میں نہ آئے تو وہ دوسروں سے راہنمائی اور مدد کا طلب ہو جاتا ہے۔ جب کوئی دوسرا اُس کی فکر اور سوچ کو ایسی راہ پہ ڈال دیتا   ہے جس پر چل کر وہ کسی اطمینان بخش حل تک پہنچ جاتا ہے تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے ورنہ یہ سفر جاری رہتا ہے۔ اس سوچ بچار اور غور و فکر کے دوران بعض اوقات انسان کو کچھ ایسی صورت  حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اُس کا اخذ کردہ نتیجہ اس کو پہلے معل

سوچنا اور سمجھنا

سوچنا اور سمجھنا یوں    تو ہر انسان یہی سمجھتا ہے ۔ لیکن کتنے لوگ ایسے ہیں جو غور و فکر کرنا حقیقتاً جانتے ہیں اور اُس کو مناسب طور پر بروئے کار بھی لاتے ہیں۔ کسی فلاسفر کا یہ قو ایک دور میں بہت مقبول ہوا تھا کہ چونکہ میں سوچ  سکتا ہوں اس لئے میں ہوں۔ یعنی فطرت نے ہر انسان کو یہ صلاحیت و دیعت  کی ہے کہ وہ سوچ سکتا ہے۔ اور اُس کا اپنے وجود میں ایک دماغ اور ذہن رکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کو ایک ایسی صلاحیت سے متصف کیا گیا ہے جو اس کو غور و فکر کرنے کی اہلیت عطا کرتی ہے۔ خالقِ کائنات نے انسان کو غور و فکر کی جو دعوت دی ہے اس کا اصل منشاء  انسان کو تحقیق اور ریسرچ کی راہ پر ڈالنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن لوگوں کا عام طور پر سمجھنا تو یہ ہے کہ یہ سوچ سکنا، یہ غور و فکر کرنا اور یہ تحقیق اور ریسرچ  کی باتیں عام طور پر خاص ہی لوگوں کے کرنے کا کام ہے اس لئے ان باتوں کو انہی کے لئے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہم یہ جائزہ لیں کہ یہ غور و فکر  کیا ہے؟ کسی بات کو سوچنا ہو تا اس پہ کیسے سوچا  جاتا ہے؟ یا یہ کہ کسی بات پہ سوچنے اور غور و فکر کا اصل طریقہ کیا ہونا چاہئے؟

معاشرتی رویّے

معاشرتی رویّے جب بھی کوئی صاحب بیرونِ ملک جاتے ہیں اور خصوصاً کسی مغربی ملک تو سب سے زیادہ وہ جس بات سے متاثر ہوتے ہیں، وہ اُن ممالک کے لوگوں کی قانون پسندی اور اُن کے معاشرتی رویوں کا بہت ہی گہرا تاثر لیتے ہیں اور اکثر اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں ہم ویسے کیوں نہیں ہیں؟ وہ اصول پسندی، احترامِ انسانیت، سچ بولنا، قانون کی پاسداری اور قانون کا ڈر اُس کے خوف کی بجائے قانون کے احترام کا جذبے کے تحت ، صفائی، سلیقہ اور ایک معاشرتی نظم و ضبط جیسی باتیں ہم میں کیوں پیدا نہیں ہوسکیں؟ ان سب باتوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو تان یہاں آکر توڑ دی جاتی ہے کہ یہ سب باتیں انہوں نے اسلام  کے زریں اصولوں سے اخذ کی ہیں۔ یہ سن کر ہم سب  اس سے آگے سوچنا بند کر دیتے ہیں اور اس فخر کا شکار ہو کر بے سدھ ہو جاتے ہیں کہ کچھ بھی ہو وہ ہیں تو ہم سے کمتر کہ انہوں نے سب کچھ ہم سے ہی تو سیکھا ہے۔ لیکن جب غیر جانبداری اور خلوصِ نیت سے اس بات کا تجزیہ کیا جائے کہ اس لفظ 'ہم' سے کیا مراد ہے، تو یہ دیکھ کر بہت عجیب سا لگتا ہے کہ اس سے مراد ہمارے وہ آباؤ اجداد  جنہوں نے کبھی اسلام کے زریں اصولوں کو اپنا کر تحق

امتحانی نظام

امتحانی نظام درس و تدریس کے نظام میں یہ دیکھنے کے لئے کہ تعلیم پانے والوں نے اپنے اساتذہ سے کیا کچھ سیکھا ہے، اُن کا امتحان لیا جاتا ہے۔ امتحان لینے کے یوں تو کئی طریقے ہیں، لیکن معروف طریقہ یہی بن چکا ہے کہ طالب علم سے اس کی قابلیت جانچنے کے لئے کچھ سوال پوچھے جاتے ہیں۔ یہ سوال جواب زبانی بھی پوچھے جاسکتے ہیں اور تحریری طور پر بھی۔ اس کے علاوہ ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ شاگرد کو کوئی کام کرنے کو کہا جاتا ہے اور اُس اسائنمنٹ کی تکمیل پر یہ جانچا جاتا ہے کہ اُس نے وہ کام کیسے اور کس معیار کا کیا ہے۔ عام طور پر یہ طریقہ خاص خاص فنون جیسے میڈیکل یا انجنیئرنگ جیسے علوم میں زیادہ آزمایا جاتا ہے۔ اُن سوالوں سے جو امتحان میں پوچھے جاتے ہیں، اس بات کا بہت گہرا تعلق ہے کہ ہم کیا جانچنا چاہتے ہیں۔ اگر بچے کی یاداشت کو جانچنا ہو تو ایک قسم کے سوال پوچھے جاتے ہیں اور اگر یہ دیکھنا ہو کہ بچے کو بتائی گئی بات کی کتنی سمجھ آئی ہے اور ا س کے ذہن نے بتائی گئی بات کو کتنا اور کیسا جذب کیا ہے، تو دوسری قسم کے سوال پوچھ جاتے ہیں اور اگر یہ دیکھنا ہو کہ بچے کا ذہن کتنا کام کرتا ہے اور وہ اپنی بات ک