تعمیر و تنظیم شخصیت

تعمیر و تنظیم شخصیت
انسان اس دنیا میں آتا ہے تو اپنے ساتھ اس دنیا کو محسوس کر نے والی حسیات  کا ایک ایسا پلندہ بھی ہمراہ لے کر آتا ہے جس کو برتنے اور استعمال کرنے پر وہ رفتہ رفتہ قادر ہوتا ہے۔ ان حسیات کو برتنے اور استعمال کا سلیقہ کسی حد فطری اور  جبلی ہوتا ہے اور بہت حد تک اکتسابی یعنی کچھ  حسیات کا استعمال  وہ ایک حد تک جبلی طور پر کرنا جانتا ہے اور پھر اکتساب یعنی سیکھنے کے عمل سے ان کے استعمال میں مہارت پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ اس اکتساب سے ایک طرف تو حسیات کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے اور دوسری طرف وہ ان حسیات کے دائرہ استعمال میں توسیع کرتا ہے۔ عام طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حواس فقط پانچ ہی ہیں یعنی دیکھنے، سننے ، سونگھنے، چھونے ا ور چھکنے سے متعلق حواس  جن کو عرف عام میں حواسِ خمسہ کہ کر متعارف کروایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں انسانی حسیات کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے اور ابھی ان کی بابت انسانی علم بہت ہی محدود ہے۔ اس کی چند ایک مثالیں وقت کا احساس ہونا، بھوک پیاس کا  احساس ہونا، گرمی سردی کو محسوس کرنا، ہوا میں رطوبت کی کمی زیادتی کو محسوس کرنا آنکھیں بند ہونے کے باوجود اپنے اندازِ نشست میں تبدیلی کو محسوس کر لینا، کسی ہونے والے واقعہ کی بابت پیشگی احساس ہو جانا وغیرہ ۔ اس قسم کی تمام حسیات کو ہم نے چھٹی حس کہ کر ان کو در خور اعتنا تک نہیں گر دانا۔ اب چونکہ حسیات انسانی حصولِ علم کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں اس لئے خود حسیات کی بابت نہ جاننا ہمارے علم کو محدود کرنے کا ایک بہت بڑا سبب بن جاتا ہے۔
انسان ان تمام حسیات کے استعمال سے اپنے شعوری ذخیرہ علم میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ اس علم کی روشنی میں وہ مختلف اعمال اور افعال سرانجام دیتا ہے۔ ہر شخص ان اعمال و افعال کو اپنے ایک مخصوص انفرادی انداز میں سرانجام دیتا ہے۔ اس مخصوص  انفرادی انداز کو ہم اس شخص کی خاصیت تعبیر کرتے ہیں۔ ہر فرد اپنی مخصوص  خصوصیات  کے  سبب اپنی ذات کو منفرد انداز اور مختلف طرزوں پر ظاہر  کرتا ہے۔ اپنی ذات کے اظہار کا یہ انداز اس فرد کی شخصیت کہلاتا ہے۔ چونکہ ہر فرد اپنی ذات کے اظہار کے لئے ایک منفرد اور جداگانہ انداز اختیار کرتا ہے، اِس لئے ہر فرد کی شخصیت کسی بھی دوسرے فرد کی شخصیت سے مماثلت رکنے کے باوجود کچھ نہ کچھ انفرادی پہلو بھی رکھتی ہے۔
انسان کی شخصیت کے بننے میں وہ ماحول بھی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے جس ماحول میں انسان پلتا، بڑھتا، رہتا اور بستا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اثرات مورثی بھی ہوتے ہیں اور اکتسابی بھی۔ یعنی انسان کی شخصیت میں تعلیم و تربیت کے ذریعے ایسی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں جن کے سبب کسی فرد کی شخصیت کی ناگوار اور ناپسندیدہ باتوں کو ختم یا کم کیا جاسکتا ہے اور خوشگوار اور پسندیدہ باتوں کو اختیار کرایا اور بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی فرد کی شخصیت میں مطلوبہ تبدیلیاں لانے کے لئے تربیت اور تبدیلی ماحول بنیادی اہمیت   کے حامل ہوتے ہیں۔ لیکن ان دونوں باتوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ضروری اور اہم چیز ہوتی ہے فرد کی اپنی خواہش اور ارادہ۔
اگر ایک فرد کی اپنی کوئی خواہش اور تمنا ہی نہیں ہے کہ اُس کی شخصیت میں کیا، کتنی اور کونسی تبدیلی آنا چاہئے تو اُس کی شخصیت میں کبھی کوئی تبدیلی یا بہتری نہیں لائی جاسکتی۔ اس امر کا فیصلہ ہر فرد کو خود ہی کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت میں کیا اور کتنی تبدیلی چاہتا ہے اور اس خواہش کو پورا کرنے میں وہ کس حد تک مخلص اور پرعزم ہے۔ اگر وہ اپنی شخصیت میں بہت سی مثبت خوبیوں کو پیدا کرنے کی خواہش تو بہت رکھتا ہے لیکن اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے کسی قسم کے عملی اقدامات سے گریزاں ہی رہتا ہے تو ظہر ہے کہ محض خواہش کے زور پر ایسی تبدیلیاں پیدا نہیں ہو جایا کرتیں ہیں۔ خواہش کے ساتھ ساتھ اس خواہش کو پرا کرنے کے لئے عملی اقدامات کرنا  ہی لازم آتا ہے۔
اکثر یہی سمجھا جاتا ہے کہ انسانی شخصیت میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی اور یہ تو محض ایک خد ادا چیز ہوتی ہے۔ ایسا ہرگز بھی نہیں ہے۔ انسان کی شخصیت  خود اُس  کے اپنے ارادے اور عزم کے تابع ہوتی ہے۔ انسان اپنی ذات کے اظہار کا جو بھی انداز اپنانا چاہتا ہے وہ اپنا سکتا ہے۔ اس کے لئے اُس کے اپنے ارادے کی طاقت اور یقین کی قوت کو بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ اساتذہ کرام اپنے تلامذہ کی اپنے ارادے اور یقین کی قوتوں کا درست استعمال کرنے میں معاونت کرکے ان کی شخصیت کو خوشگوار اور مقناطیسی بنانے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ بعض لوگ دوروں کے لئے کچھ زیادہ ہی پسندیدہ ہوتے ہیں جبکہ وہی افراد بعض دیگر افراد کو اتنے زیادہ اچھے نہیں لگتے۔ ہم اِس بات عموماً شخصیت کا ٹکراؤ کہ کر اس بات پر کوئی زیادہ غور نہیں کرتے اور جو 'جیسا ہے اس کو ویسا رہنے دو' کی پالیسی اپنائے رہتے ہیں۔ حالانکہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ناپسندیدہ لگنے والا فرد  اور  ناپسند کرنے والا 'جس کو وہ فرد اچھا نہیں لگ رہا' دونوں اپنا اپنا مخصوص اندازِ اظہار  ذات رکھتے  ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو اس لئے پسند نہیں کر پا ہے کہ ان کی پسند کے معیار الگ الگ ہیں۔ جو بات ایک کو اچھی لگ رہی ہے اور اُ س نے اس کو اپنا لیا ہوا ہے، وہی بات دورے کے لئے نا پسندیدگی  کا سبب بن رہی ہوتی ہے۔ یہی ناپسندیدگی اکثر اوقات انتہا پسندی کی حدوں کو چھونے لگتی ہے اور بڑے بڑے تنازعات کو جنم دینے کا باعث بن جاتی ہے۔
اگر انسان میں غور و فکر کی عادت ہو تو وہ اس بات کو ویسا  ہی نہیں رہنے دے سکتا۔ وہ اس بات پہ سوچ بچار کرکے اپنی شخصیت کے اُس پہلو کو جو دوسرے کو بھلا نہیں لگ رہا، اُس کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے یا پھر کم از کم اُس سے پہلو تہی کا انداز اپنانے کی کشش کرتا ہے جس کو اُس کی شخصیت سے پھیلتی لہروں سے کوفت ہو رہی ہوتی ہے۔ اس کوفت کی بے شمار وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اگر اس کوفت کی وجہ محسوس کرنے والے فرد کا اپنا حسد یا کوئی ذاتی عناد ہو تو پھر اپنی شخصیت میں تبدیلی کا سوچنے کی بجائے پہلو تہی ہی بہتر رہتی ہے۔ لیکن اگر دوسرے کی کوفت کا اصل سبب حسد یا  ذاتی عناد نہیں ہے تو پھر اپنی شخصیت میں اس بات کو تلاش کرنا اور ُس کو دور کرنے کا اہتمام ہونا چاہئے جو دوروں کے لئے باعث کوفت بن رہی ہوتی ہے۔
بعض لوگوں کے نزدیک فیصلہ کن انداز نہ اپنا سکنا، کمزور قوتِ ارادی، غیر متاثر کن شخصیت کا سبب ہوتا ہے۔ اس کا ازالہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی شخصیت کے ان دو اجزاء یعنی قوتِ ارادی اور قوتِ فیصلہ کو بہتر  نہیں بنا لیتے۔ جب یہ دو اجزاء   اپنی اصل آب و تاب سے جزؤ شخصیت بن جاتے ہیں تو بہت سی نفسیاتی پیچیدگیوں اور بیماریوں کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ احساسِ کمتری ہو یا احساسِ برتری ، خوف اور خوبیاں ہو یا  شیزد  فرینیا اور  دوہری شخصیت کے مسائل ، خود اعتمادی کی کمی ہو یا ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کے تحت ہونے والی غلطیاں ان تمام باتوں کے پس پردہ جو واحد  کمزوری ہوا کرتی ہے وہ یقین کی کمی ہوا کرتی ہے۔ خود اپنی صلاحیتوں پہ یقین کرنے سے لے کر اپنے خالق اور رب پہ یقین کرنے کی تمام تعلیمات کے پیچھے اصل حکمت یہی مستور ہے کہ انسان ان تمام مذکورہ ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرکے خود اپنا بھلا بھی کرے اور دوسروں کے کام بھی آئے۔
کہنے کو تو یقین ایک ایسا عقیدہ ہے جس میں کوئی شک نہیں ہوتا لیکن اس کی اسل بیت اور ماہیت کیا ہوتی ہے اس بات پہ بہت کم غور کیا گیا ے۔ مذاہب کی زبان میں اس کو ایمان کہا جاتا ہے۔ اس کی جو جہت مذاہب کی تشریح کرنے والوں نے بیان کی ہے، اس بحث سے دامن بچاتے ہوئے اتنا کہنا بہت کافی ہے کہ یقین ایک ایسے قوت اور توانائی ہے جو موجودات کو عدم سے وجود  میں لانے کی بنیاد فراہم  کرتی ہے۔ جب ایک بچہ دریافت کرنے پر  یہ بتاتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر ایک ڈاکٹر یا انجنیئر بنے گا تو اس بات کو عملی زندگی میں مظہر بننے کے لئے جس طاقت اور توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اس کو یقین کہا جاتا ہے۔ اگر ایک بچہ کہتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بنے گا لیکن اُس کو اس بات کا یقین نہ ہو کہ وہ ایسا کر سکتا ہے تو کبھی ڈاکٹر نہیں بن سکتا۔ اسی طرح جب کوئی بچہ کسی کام کو کرنے کا اقرار کرتا ہے تو  وہ اُس کام کو اس وقت تک کر ہی نہیں سکتا جب تک اُس کے اندر یہ یقین نہ ہو کہ وہ یہ کام کر سکتا ہے۔ یقین کی اس قوت کی کار فرمائی کا دائرہ صبح وقت پہ اٹھنے ، سکو کالج یا دفتر جانے سے لے کر زندگی میں کچھ بننے تک ہر سطح تک پھیلا ہوا ہے۔
صبح جس وقت اٹھنا ہو اسی وقت اٹنے کے لئے بھی قوت ارادی کو ہی کام لایا جاتا ہے۔قوت ارادی سے انسان تبھی کام لے سکتا ے جب ُس کے اندر یقین کی روشنی ہو۔ جب کسی آدمی کو زندگی میں کوئی ایسا  انسان مل جاتا ہے جو اُس کو اپنے اندر یقین کی شمع کو فروزاں کرنے، اپنی قوت ارادی اور قوت فیصلہ کو درست انداز میں استعمال کرنا سکھا  دیتا ہے تو وہ اپنی زندگی میں کسی بھی منزل تک رسائی حاصل کر لینے کے قابل ہوسکتا ہے۔ جب زندگی کی شاہراہ یقین کی روشنی سے منور ہو تو سفر حیات میں سہولت ہی نہیں ہوتی بلکہ مزہ بھی آتا ہے۔
جن اساتذہ کرام کے اندر یقین کی روشنی جگمگاتی ہے، اُن کے تلامذہ میں بھی یہ روشنی نفوذ کر جاتی ہے اور وہ اس دولتِ بے بہا سے منور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جس انسان میں یقین کی روشنی فروزاں ہو اس کی شخصیت میں ایسی خوبیاں خود بخود پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں جو اُس کو عزیزِ جہاں اور محبوب خلائق بنا دیتی ہیں۔ یقین  کی دولت سے مالا مال فرد کو اپنے اندر ایک ایک کرکے خوبیاں اُگانے اور ان کی پرورش کرنے کے خصوصی اہتمام کرنے کے لئے زیادہ تگ و دو بھی نہیں کرنی پڑتی۔ اُس کی شخصیت کی سب سے بڑی دلآویزی کا سبب اس کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ کہتا ہے اُس کو کرکے دکھا سکتا ہے۔ ایسا انسان اپنی شخصیت کے حوالے سے ایک سحر طرازی اور مقناطیسیت کا حامل ہو جاتا ہے ۔
شخصیت میں دلآویزی  کے لئے قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اصل صورت حال کچھ یوں ہے کہ یہ قوت ہوتی تو سب ہی کے اندر ہے لیکن اس کا درست اور برمحل استعمال کرنا کم ہی استعمال کرنا کم ہی لوگوں کو آتا ہے۔ اساتذہ کرام اپنے تلامذہ کو اس قوت کے درست استعمال کے انداز کی تربیت دینے کو انہیں یہ بتا سکتے ہیں کہ بڑی بڑی باتوں کے لئے وہ ا قوت کا استعمال تبھی کر سکیں گے جب وہ اس کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں بر تنا سیکھیں گے۔ اس کا آغاز وہ صبح سویرے سورج طلوع ہونے سے پہلے اٹھنے کی مشق سے کرسکتے  ہیں۔ اس کے لئے ایک مجرب طریقہ یہ بھی بتایا جاسکتا ہے کہ وہ رات کو، سونے سے پہلے ، اپنا نام لے کر خود سے کہیں کہ آپ کو صبح اتنے بجے اُٹھنا ہے۔ یہ جملہ فقط تین بار دہرا کر سونے کے لئے آنکھیں بند کرلیں۔ صبح جب اس مقررہ وقت پر آنکھ کھل جائے تو اس کے بعد سستی نہیں ہونے دینا اور قوتِ ارادی سے کام لے کر اٹھ کر طے کئے گئے کاموں میں مصروف ہو جانا  ہے۔ اس مشق کے فوائد گنوانے کی بجائے یہ کہ دینا ہی کافی  رہتا ہے کہ جب آپ اس کو آزمائیں گے تو اس کے اور بھی بہت سے فوائد آپ کو خود ہی معلوم ہو جائیں گے۔
اس مشق سے جہاں ایک طرف قوت ارادی کو توانائی ملتی ہے وہاں دوسری  طرف سحر خیزی کے تمام تر فوائد بشمولِ جسمانی اور ذہنی صحت  اور تندرستی بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس بات پہ دعوت فکر دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوگا کہ آخر ہر مذہب میں صبح سویرے اٹھنے کی تعلیم میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟
اس بات کو زیادہ دلچسپ بنانے کے لئے شخصیت میں مقناطیسیت پیدا کرنے کے حوالے سے چار تا چھ ماہ کے لئے یہ مشق بھی تجویز کی جاسکتی ہے۔
۱۔ صبح سویرے اٹھنے کے لئے رات کو دوہرا انتظام یوں کریں کہ ایک تو خود کو اپنا نام لے کر ہدایت دے کر سوئیں ۔ یہ کہ محمود آپ نے صبح پانچ بجے اٹھنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ گھڑی پہ سوا پانچ بجے کا الارم بھی لگا لیں۔ تکہ اگر شعور نہ بھی ساتھ دے تو بھی آپ طلوعِ آفتاب سے پہلے اٹھ سکیں۔
۲۔ سورج نکلنے سے  پہلے اُٹھ کر کھلی ہوا دار جگہ پہ کم گردن اور سر کو ایک سیدھ میں رکھ کر ، فرش، تخت  یا کرسی پر بیٹھ جائیں ۔ آنکھیں بند کرکے پانچ سے دس منٹ تک آہستہ آہستہ  گہرے گہرے  سانس اس طرح سے لیں کہ سانس ناک کے راستے لی لیا جائے اور منہ کے راستے نکالیں۔ سانس نکالتے وقت ہونٹوں کو سیٹی بجانے کے انداز میں سکیڑ کر گول کرلیں۔ اس دوران ذہن کو آزاد اور ڈھیلا چھورے رکھیں۔
۳۔ اس کے بعد فرش پر دری یا چٹائی بچھا کر اس طرح چت لیٹ جائیں کہ آپ کے پاؤں جنوب کی طرف اور سر شمال کی طرف ہو۔ اس حالت میں نہایت آہستہ آہستہ سانس ناک کے راستے لیتے ہوئے یہ تصور کریں کہ زمین میں بہنے والی مقناطیسی لہریں، جنوب سے بہتی ہوئی، آپ کے پیروں کے راستے آ پ کے اندر سے ہوکر ، آپ کے جسم کو گزر گاہ بناتے ہوئے، آپ کے سر سے ہوتی ہوئی شمال کی طرف  جا رہی ہیں۔ جب پھیپھڑے ہوا سے اتنے بھر جائیں کہ مزید سانس نہ لیا جا سکے تو سانس کو نہایت آہستگی  سے منہ کے راستے خارج کرنا شروع کر دیں اور اب یہ تصور کریں کہ زمین کی مقناطیسی لہریں فضا میں بہتی ہوئی واپس جنوب کی طرف جا رہی ہیں۔ یعنی یہ تصور کرنا ہوتا ہے کہ واپسی پہ یہ لہریں آپ کے جسم سے ہوکر نہیں گزر رہی ہیں  بلکہ باہر ہی سے واپس قطبِ جنوبی کی طرف جا رہی ہیں۔ جب سانس پوری طرح خارج ہو جائے گا تو یہ ایک چکر مکمل ہوگیا۔ اسی طرح سے گیارہ چکر مکمل کر لیں۔

اس مشق سے جسم میں آکسیجن کی کمی بھی پوری ہونا شروع ہوجاتی ہے اور قوت ارادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ کی شخصیت میں ایسی جاذبیت اور کشش پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگ آپ کی طرف کھنچتے چلے آئیں گے۔ اساتذہ  کرام کو اس مشق سے خصوصی فائدہ یہ ہوگا  کہ اُن کے تلامذہ ان کی بات ماننے پر زیادہ مستعدی اور سہولت سے آمادہ ہوں گے ۔

Comments

Popular posts from this blog

GUIDANCE NEEDS AND PROBLEMS OF YOUNG PEOPLE

HISTORY OF THE GUIDANCE MOVEMENT

"Aims and Objectives of Education"