افتاد و رحجانِ طبع
افتاد و رحجانِ طبع عملی زندگی یا اُس سے قبل اپنی زندگی میں انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اگر وہ اس کی افتاد طبع سے میل کھاتا ہو اور اُس کی طبیعت کا رحجان بھی اُسی کام کی طرف ہو تو اُس میدان میں اس کی کامیابی یا با الفاظ دیگر آگے جانے کے امکانات تو روشن ہوتے ہی ہیں، اُس کو کوئی ایسا کام کرنا سہل اور آسان بھی لگتا ہے اور اچھا بھی۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے اور اُس کو کوئی ایسا کام کرنا پڑے جس کی طرف اُس کا میلانِ طبیعت نہ ہو تو اس کام میں نہ تو اس کا دل لگتا ہے اور نہ ہی وہ اُسی میں کوئی نام کما سکتا ہے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر انسان عملی زندگی میں اپنے لئے اُن راہوں کا انتخاب کرے جو اس کے رحجانِ طبیعت کے مطابق ہوں تو وہ اُن راہوں کا انتخاب کرے جو اس کے رحجانِ طبیعت کے مطابق ہوں تو وہ اُن راہوں پر زیادہ کامیاب ہوسکتا ہے ہمارے یہاں چونکہ زیادہ تر لوگ حالات کے دباؤ تر لوگ حالات کے دباؤ کے پیشِ نظر طبع آزمائی کرتے ہیں اس لئے عمر کے کسی نہ حصے میں وہ یہ ضرور محسوس کرتے ہیں کہ اُن سے غلط انتخاب ہوگیا ہے اور انہیں اس میدان میں طبع آزمائی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اکثر افسران ایسے ما