معاشرتی رویّے

معاشرتی رویّے
جب بھی کوئی صاحب بیرونِ ملک جاتے ہیں اور خصوصاً کسی مغربی ملک تو سب سے زیادہ وہ جس بات سے متاثر ہوتے ہیں، وہ اُن ممالک کے لوگوں کی قانون پسندی اور اُن کے معاشرتی رویوں کا بہت ہی گہرا تاثر لیتے ہیں اور اکثر اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں ہم ویسے کیوں نہیں ہیں؟ وہ اصول پسندی، احترامِ انسانیت، سچ بولنا، قانون کی پاسداری اور قانون کا ڈر اُس کے خوف کی بجائے قانون کے احترام کا جذبے کے تحت ، صفائی، سلیقہ اور ایک معاشرتی نظم و ضبط جیسی باتیں ہم میں کیوں پیدا نہیں ہوسکیں؟
ان سب باتوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو تان یہاں آکر توڑ دی جاتی ہے کہ یہ سب باتیں انہوں نے اسلام  کے زریں اصولوں سے اخذ کی ہیں۔ یہ سن کر ہم سب  اس سے آگے سوچنا بند کر دیتے ہیں اور اس فخر کا شکار ہو کر بے سدھ ہو جاتے ہیں کہ کچھ بھی ہو وہ ہیں تو ہم سے کمتر کہ انہوں نے سب کچھ ہم سے ہی تو سیکھا ہے۔ لیکن جب غیر جانبداری اور خلوصِ نیت سے اس بات کا تجزیہ کیا جائے کہ اس لفظ 'ہم' سے کیا مراد ہے، تو یہ دیکھ کر بہت عجیب سا لگتا ہے کہ اس سے مراد ہمارے وہ آباؤ اجداد  جنہوں نے کبھی اسلام کے زریں اصولوں کو اپنا کر تحقیق اور ریسرچ کا ایسا علم بلند لیا تھا کہ پوری دنیا کو رنگوں  کر لیا تھا۔ اسلام کے اصولوں کی جس کسی نے جب بھی کبھی پاسداری کی وہ سرخ رو ہوا۔ آج ہم محض اسلام کے نام لیوا تو ضرور ہیں لیکن اس کے عامل نہیں۔ اسلام کے اصول آفاقی سچائیوں کے حامل ہیں۔ جس کسی نے بھی ان پر عمل کیا چاہے اسلام کے اصولوں سے  پہلو تہی اور اجتناب کی روشن اپنائی وہ دوسروں کا دستِ نگر اور باجگز  اربن کر ہی زندہ رہ سکا۔
اسلام کی تعلیمات کو اپنی محدود سوچوں، بے عملی کی بڑھی ہوئی حد اور اپنے کام سے کام رکھنے کی بجائے ایک دوسرے کی کاٹ میں قوت اور وقت کا زیان کرنے کی عادت بد کے ہاتھوں ہم نے کتابوں میں مقید اور محبوس  کرکے کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا ہے۔ یہ تین بنیادی کمزور یاں ہیں جو ہمارے معاشرتی رویوں کی پوری دیوار کو ٹیڑھا کئے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنی سوچوں کو محدود طرزوں سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں، زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی کام کو فوقیت دینا سیکھ جائیں اور دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے اور بے مقصد نکتہ چینی کے بجائے ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کو اپنا چلن بنالیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے معاشرتی رویے درست نہ ہوسکیں۔
معاشرتی رویوں کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ ہم سے ہر ایک ان تین باتوں کو اپنے اندر پختہ اور راسخ کرلے اور اپنی پوری توانائی اس امر کو یقینی بنانے  میں صرف کرے کہ ہم اپنی سوچوں کو محدود نہیں رہنے دیں گے، اپنی توانائی کو مثبت طرزوں میں صرف کرنے کو شعار بنائیں گے اور غیبت اور نکتہ چینی کی بجائے اگر ہو سکا تو کوئی مفید مشورہ دے دیں گے ورنہ خاموش رہنے کی مشق کر بڑھائیں گے۔
اب یہ کہ دینے سے کہ ہم سب کو ایسا کرنا چاہئے، ایسا ہونے سے تو رہا۔  ایسا ویسا تب ہی ہوسکتا ہے جب اس پر عمل پیرا ہو جائے۔ استقامت اور ثابت قدمی سے ان باتوں کو اپنانے کی راہ پر گامزن رہا جائے۔ انتہائی نا مساعد حالات میں بھی اپنے عمل کو ترک نہ کی جائے تو تب کہیں جا کر یہ ممکن ہوگا  کہ ان باتوں کے مثبت اثرات ہمارے معاشرتی رویوں میں نظر آنا شروع ہو جائیں۔ ورنہ تو یہ خواب ہے اور اس کو عملی صورت دینے کی محض خواہش ہی کافی نہیں ہوسکتی اس کے لئے ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانا ہی ہوگی۔
ہمارا نظامِ تعلیم اور درس گاہیں اس ضمن میں جو کردار ادا کرسکتے ہیں وہ بہت مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ اساتذہ کرام اپنے شاگردوں کے اندر ان باتوں کو پختہ کرنے کی ابتدا کرسکتے ہیں۔ وہ اُن میں اس بات کا شعور اجاگر کریں، درس گاہ اور کلاس روم میں نظم و ضبط اور ڈسپلن کو فروغ دیں اور انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لائیں۔ اب کہنے اور سننے میں تو یہ بات بہت ہی خوش کن محسوس ہوتی ہے لیکن اس کو اساتذہ کرام عملی طور پر کیسے کریں گے؟ بنیادی طور پر تو یہ بات خود اساتذہ کرام ہی کے طے کرنے کی ہے کہ وہ اس کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں اور بعض اداروں کے اساتذہ تو ایسا کر بھی رہے ہیں۔ اب ایچی سن کالج، کا کول ملٹری اکیڈمی اور سول سروسز کے تربیتی اداروں کے فارغ التحصیل طلباء  کے معاشرتی رویے عام سکولوں اور کالجوں کے سٹوڈنٹس سے اسی لئے  تو اتنے مختلف ہوتے ہیں کہ وہاں پہ اساتذہ اس بات کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں کہ اُن کے یہاں تعلیم پانے والے ان باتوں سے آگاہ رہیں جن پہ آگے جا کر اُن کو کار بند رہنا چاہئے ۔ آخر وہ بھی تو اساتذہ ہی ہیں اور پھر اسی ملک کے اساتذہ۔
فرق ہے تو صرف اتنا کہ اُن اساتذہ کو ان اداروں کی انتظامیہ کی طرف سے جیسا کرنے کی ہدایات ملتی ہیں وہ ویسا ہی کرتے ہیں اور دوسرے اداروں کی انتظامیہ ان باتوں پہ زیادہ دھیان نہیں دیتی لہٰذہ وہاں پہ ان باتوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس لئے یہ سکولوں کی انتظامیہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کرام سے اس بات کی فرمائش کرے کہ وہ اپنے شاگردوں میں ان باتوں کا شعور اجاگر کرنے پہ  مناسب توجہ دیں۔
ان باتوں کا آغاز عملاً اُس وقت ہی ہو جاتا ہے جب ایک استاذ پہلی بار کلا س روم میں داخل ہوتا ہے ۔ بچے اس پہلی ملاقات پہ ہی یہ بات طے کر لیتے ہیں کہ اس استاذ کے ساتھ اُن کا آئندہ برتاؤ کیسا ہوگا اور وہ خود کو کس حد تک اُس کے حوالے کرنے پر آمادہ ہیں۔ وہ سمجھدار استاذ جن کو اپنے کام پر عبور حاصل ہوتا ہے اس موقعے کا پورا فائدہ اٹھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے ۔ وہ اپنا تعارف کروانے کے بعد براہ راست کتاب نکال کر پڑھانے کی بجائے اس بات کی وضاحت کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے تلامذہ سے کن کن باتوں کو توقع کرتے ہیں؟ پڑھانے کے لئے وہ کیسا ماحول چاہتے ہیں؟ اس ماحول کو بنانے میں انہیں اپنے طلباء سے کیا کیا تعاون درکار ہیں۔
اگر ایک استاذ سبق کا آغاز کرنے سے پہلے پانچ دس منٹ ایسی چند ایک باتوں کی وضاحت کر دے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہوتا ہے کہ بچے سبق کے لئے ذہنی طور پر آمادہ و تیار ہو جاتے ہیں اور انہیں یہ اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ یہ استاذ مزاجاً کس طبیعت کا ہے۔
اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کا ایک انداز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ استاذ طلباء سے صاف صاف کہ دے۔ "ایک استاذ ہونے کے ناطے میرا فرض ہے کہ میں اپنے شاگردون کی مدد کروں، اُن کو جو بات سمجھنے میں مشکل ہو اُس کو سمجھنے میں میں اُن کی مدد کروں۔ میں آپ کو پڑھانا تو سکھا سکتا ہوں لیکن پڑھنا تو خود آپ ہی کو ہوگا۔ اس لکھنا پڑھنے سیکھنے کے لئے ایک خاص قسم کے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ وہ ماحول کلاس کے اندر بنائے رکھیں گے تو آپ کو لکھنا پڑھنا سیکھنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوگی۔ جب آپ لکھنا پڑھنا سیکھ جائیں گے تو آپ ان کتب کا مطالعہ کریں گے۔ ان میں درج باتوں کو سمجھیں گے، اُن کو یاد کریں گے۔ پھر ہم آپ کو امتحان کے لئے تیاری کروائیں گے تاکہ آپ اچھے نمبروں سے امتیازی شان سے امتحان  میں کامیاب ہوسکیں۔ اس کے لئے آپ کو مجھ سے یہ عہد کرنا ہوگا کہ جو کچھ میں آپ سے کہوں گا آپ اُس پر خلوصِ دل سے عمل کریں گے اگر آپ کو اُس پر عمل پیرا ہونے میں کوئی دشواری ہو تو بلا جھجک مجھ سے پوچھیں گے۔ ہاں اس پوچھنے کو بھی ایک طریقہ ہونا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ سب ہی ایک ساتھ پوچھنا شروع کردیں۔ اس سے تو کلاس میں شور مچ جائے گا اور میں کسی کی بات بھی سن نہیں سکوں گا۔ اس لئے بھئی پہلا قانون یہ طے کر لیتے ہیں کہ جس نے کچھ پوچھنا ہو وہ ہاتھ کھڑا کرے گا اور اجازت  ملنے پر ہی بولے گا۔ کیوں بھئی ٹھیک ہے نا؟
اسی ماحول کو بنانے کے لئے ایک بہت ہی کار آمد بات یہ ہے کہ جب آپ کلاس میں بیٹھے ہوں تو کرسی  پہ اسی طرح بیٹھیں کہ آپ کی کمر سیدھی رہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ دیر تک بیٹھ کر کام کرنے کے باوجود تھکیں گے نہیں۔ کمر کو سیدھا رکھیں لیکن اس کو زیادہ اکڑانا بھی ٹھیک نہیں۔ جب چلیں تو کندھے ڈھلکے ہوئے نہیں ہونے چاہئیں اور پاؤں گھسیٹ کر تو بالکل بھی نہیں چلنا چاہئے۔ کرسی پہ  بیٹھے ہوں تو آپ کے گھنٹے آپ کے اپنے سامنے رہنے بہت ضروری ہیں کیونکہ میں کلاس میں ادھر اُدھر چلتے پھرتے آپ کے پیروں سے ٹکرایا تو یہ بہت بُرا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ مجھے چوٹ لگ جائے۔
سوال ضرور پوچھی۔ سوال پوچھنے میں شرم نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن سوال پوچھنے کا سلیقہ ہونا بہت ہی ضروری ہے۔ باری باری پوچھیں۔ ذاتی مسائل کے حل تو آپ مجھ سے کلاس کے بعد سٹاف روم میں آکر بھی پوچھ  سکتے ہیں۔ اب تک میں نے جو کچھ کہا اس کی مزید وضاحت کی کوئی ضرورت ہے یا میں آگے چلوں؟"
اس طرح جب استاذ یہ واضح کر دیتا ہے کہ وہ بچوں کے مسائل کو حل کرنے وہاں آیا ہے اور یہ کام وہ خوش مزاجی سے کر سکتا ہے تو بچے اُس کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ تیار ہو جاتے ہیں اور استاذ کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ بچوں کو کلاس میں ڈسپلن کی عادت پڑتی ہے اور رفتہ رفتہ نظم  و ضبط   ان کی عادت بنتا چلا جاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب تک اساتذہ کرام اس بات کو اپنے اندر راسخ نہیں کرلیتے کہ وہ اتنا ہی کہیں جس پر وہ  عمل کرا سکیں اور جتنا کہیں اس پر عمل کروانے کی پوری  کوشش کریں، تو اس وقت تک ایسی ویسی کسی بھی بات کا کچھ بھی مطلب نہیں نکل سکتا۔ یہ محض ایک ایسی ہی بات بن کر رہ جائے گی جس کو بچے ایک کان سے سن کر دوسرے سے اُڑا  دیا کرتے ہیں۔
جب بچے میں خود سپردگی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو اُس وقت استاذ اُس کے معاشرتی رویوں میں بہتری لانے کی بات تجویز کرسکتا ہے۔ لیکن جب تک بچے میں تسلیم و رضا کے جذبات ابھر نہیں آتے اس وقت تک ہوتا یہ ہے کہ اساتذہ کرام بچے کے ذہن میں ڈالتے ہیں کہ جھوٹ نہیں بولنا اور بچہ جب گھر جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کے ارد گرد  اکثر لوگ جھوٹ بولنے کو بُرا تو  کجانا روا بھی نہیں سمجھتے تو وہ الجھ کر رہ جاتا ہے اور اپنے ذہن میں ٹھان لیتا ہے کہ یہ سب منافقت کے شاخسانے ہیں ۔ اب اگر اس کو اپنے استاذ سے ذہنی ہم آہنگی ہو تو اس موضوع پر اُس سے کھل کر بات کر لے گا۔ جب بات کرے گا و استاذ اس کے ذہن کی الجھن یہ کہ کر رفع کرسکتا ہے کہ بھئی جھوٹ تو جھوٹ ہی ہے چاہئے سب ہی اسی روش پہ چلیں لیکن اگر صداقت  اور سچائی کو اپنایا ہی نہیں جائے گا تو بھلا اس کے فوائد کیسے حاصل ہو سکیں گے۔ اب حضورﷺ بھی تو ایک ایسے معاشرے میں حق و صداقت پہ قائم ہوگئے تھے جہاں سب ہی جھوٹ اور کفر بولتے تھے۔ جب اس قدر جھوٹے معاشرے نے انہیں ان کی سچائی کی بدولت صادق اور امین کے خطاب دے دیئے تو اس بات پہ بہت غور ہونا چاہئے کہ حضورﷺ کو لوگوں نے تکلیفیں سچ بولنے پر دی تھیں یا اس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ سچ بولنے پہ تو اُن کو کفار تک نے صادق اور امین ہی کہا تھا۔ وہ تو جب انہوں نے اللہ کے حکم کے مطابق ان کو ایک خدا کی پرستش اور اس  کے ساتھ کسی کو شریک نہ  کرنے کا کہا تو اُن کو لگا کہ حضورﷺ کی بات ماننے سے اُن کی چودھراہٹ ختم  ہو  جائے گی اس لئے انہوں نے پہلے تو انہیں لالچ دیئے لیکن جب حضورﷺ اپنی بات پہ ڈٹے رہے تو وہ اُن کے دشمن بن گئے۔ دیکھو بھئی میں تمہیں ایک راز  کی بات بتاؤں ۔ دراصل جھوٹ بولنے سے اور تو کچھ ہوتا ہے یا  نہیں لیکن اس سے انسان کے اندر ذخیرہ شدہ توانائی بہت ضائع ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر نبی اور ہر پیغمبر نے جھوٹ بولنے سے منع ہی فرمایا ہے۔
اس طرح جب عقلی دلائل کے ساتھ بات بچوں کو سمجھائی جاتی ہے تو اُس بات پہ قائم ہونے میں انہیں زیادہ وقت نہیں ہوتی۔ اور اگر کسی استاذ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ اساتذہ کیسا معاشرتی انقلاب لا سکتے ہیں۔ اساتذہ کرام کو اپنے معمار قوم ہونے کا مطلب سمجھنا ہی ہوگا ورنہ تو زمانہ قیامت کی چال چل ہی رہا ہے۔



Comments

Popular posts from this blog

GUIDANCE NEEDS AND PROBLEMS OF YOUNG PEOPLE

HISTORY OF THE GUIDANCE MOVEMENT

"Aims and Objectives of Education"