کردار سازی

کردار سازی
علم و آگہی سے آراستہ ہونے کے بعد شخصیت میں جاذبیت تو ضرور پیدا ہو جاتی ہے لیکن بات کی تکمیل تب ہی ہوسکتی ہے جب فرد کا کردار ایسا ہو کہ وہ حاصل ہونے والے علم و عرفان کو صرف اور صرف تعمیر ہی کے لئے استعمال کرنے پر کمر بستہ رہے۔ اگر کوئی فرد  سیکھے ہوئے علم کا محدود طرزوں میں ہی استعمال ہوا۔ اور اگر کہیں فرد کی طرزِ فکر میں تخریب ہو تو وہ اپنے علم کو دوسروں کو نقصان پہنچا کر اپنا بھلا کرنے میں استعمال کرنے سے شاید ہی گریز کرسکے۔
انسان اپنی سیکھی ہوئی باتوں کو جس انداز میں اپنا تا اور اُن کو جس طرح سے عملی طور پر برتتا ہے وہ اُس کا کردار کہلاتی ہیں۔ کردار کی اصل بنیاد طرزِ فکر ہوتی ہے۔ ایک انسان کی جیسی طرزِ فکر ہوتی ہے ویسا ہی اُس کا کردار تشکیل پاتا ہے۔ اگر انسان کی طرزِ فکر اپنی ذات سے محبت ایک حد سے برھی ہوئی ہوگی یا اُس میں لالچ اور  حرص و ہوا ہوگی تو وہ علم سے آراستہ ہونے، خوشگوار اور جاذب نظر شخصیت رکھنے کے باوجود ایسے کام سرانجام دے بیٹھے گا جن پر خود اُس کا ضمیر  اس کو ملامت کرتا اور لوگ اس کو بُرا سمجھتے اور کہتے ہیں۔ اس کی مثال وہ ڈاکٹر ہے جو کسی مریض کا گردہ نکال کر بھیج  دے۔  اب کیا وہ طب کے علوم سے آراستہ نہیں، اُس نے کسی اچھے تعلیمی ادارے میں بہترین ماحول میں تعلیم نہیں پائی، وہ اپنی پڑھائی میں کمزور تھا یا اُس کی شخصیت میں کوئی کمی تھ۔ ایسا نہیں تھا۔ اُس کو سب کچھ و افر میسر تھا لیکن جس بات کی اپس کو تربیت نہیں دی گئی تھی ۔  وہ یہ تھی کہ اپنی طرزِ فکر کو اُس سانچے میں کیسے ڈھالنا ہے جس میں دور اندیشی ہو، دوسروں کا حق نہ مارنے کا عزم راسخ ہو، وہ لالچ سے اس لئے باز آچکا ہو کہ اُس کو لالچ کے ہاتھوں ہونے والے اصل نقصان کا مشاہدہ حاصل ہو۔ اسی طرح اُس انجنیئر میں کیا کمی رہ چکی ہوتی ہے جو کسی عمارت کی تعمیر میں استعمال والے ناقص سامان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی بجائے اس میں حصہ دار بنا پسند کر لیتا ہے؟ اگر اُس کو اُس   کی تعلیم کے دوران اپنی طرزِ فکر کو قابو میں رکھنے کی تربیت دی گئی ہوتی، اُس میں ترغیب گیاہ کے خلاف ایک مدافعتی نظام پیدا کر دیا گیا ہوتا تو وہ ایسی کسی بھی کاروائی میں سانجھے داری کی جرات نہ کرتا جس کے نتیجے میں کوئی پُل بہہ جاتا، عمارت گر پڑتی یا سڑک اپنی عمر کے ابتدائی ایام میں ہی مٹ جاتی۔
ہمارے نظامِ تعلیم میں گناہ اور ثواب کی بابت تو بہت کچھ نہایت تفصیل سے  بتا دیا جاتا ہے لیکن نہیں بتایا جاتا تو یہ کہ اُس گناہ کی ترغیب سے عملاً کس طرح بچا جاتا ہے اور کس طرح بچنا چاہئے۔ اگر اساتذہ کرام اپنے تلامذہ کو یہ بات سمجھا سکتے کہ منفی خیال کا آنا اتنا بُرا نہیں جتنا اُس خیال کا شکار ہو کر اُس پر عمل پیرا ہو جاتا ہے اور یہ کہ کسی منفی سوچ اور غیر اخلاقی خیال کو اپنے ذہن میں جگہ بنانے سے کس طرح روکا جا سکتا ہے، تو یقیناً کوئی بھی شاگرد شیطان کی کسی بھی چال کو نا کام بنا سکنے پر پوری طرح قادر ہوسکتا ہے۔
اب صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ کم ہی اساتذہ ایسے ہوں گے جن کو اس بات کا شعور ہے کہ ذہن میں آنے والے خیالات میں اچھے اور بُرے کی پہچان کس طرح کی جاتی ہے اور غلط اور بُرے خیالات میں  جڑ پکڑنے سے کس طرح روکا جاتا ہے۔ اگر طلباء کو اس فن میں طاق کر دیا جائے کہ وہ کس خیال کو نظر انداز کریں اور کس خیال پہ عمل پیرا ہو جائیں  تو شاید  ہی کبھی کوئی شاگرد کبھی اخلاق سے گری ہوئی، غیر شائستہ اور کسی مذ موم حرکت  کا مرتکب ہونا گوارا کرے۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کسی خیال کے ذہن میں جڑ پکڑنے کے عمل کو اچھی طرح سے جان لیں۔ جب انسان کے ذہن میں کوئی خیال آتا ہے تو دنیا کی کسی بھی دوسری چیز  کی مانند اُس کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ علمائے باطن کے مطابق  ذہن میں آنے والے کسی بھی خیال کی عمر پندرہ  سیکنڈ ہوتی ہے۔  یعنی ایک خیال ذہن میں پندرہ سیکنڈ تک رہتا ہے۔ اس کی عمر میں اس سے زیادہ کمی تو نہیں ہوسکتی البتہ اس کو طول ضرور دیا جاسکتا ہے۔
ذہن میں کسی خیال کو جب بار بار دُہرایا جاتا ہے تو اُس کی عمر اور طاقت دونوں میں ہر تکرار سے اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یعنی اگر کسی خیال کو بار بار دُہرایا جائے اور اُس کی تکرار ہو تو اُس خیال میں اتنی قوت اور طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ذہن کو اپنی گرفت میں لے کر ا پر عمل کروا لیتا ہے۔ خیال کی تکرار ایک ایسا قانون ہے جس کو اچھے کاموں کو عملی صورت دینے اور بُرے کاموں  سے بچنے کے لئے دونوں طرح سے برتا جاسکتا ہے۔
خیال کی تکرار ارادی اور غیر اختیاری دونوں طور پر ہوتی ہے۔  انسان کو اپنے ذہن کی اس نہج پر تربیت کرنا ہوتی ہے کہ وہ اچھے خیالات کی تکرار ارادی طور پر کرے اور بُرے خیال کی تکرار غیر ارادی طور پر بھی نہ ہونے دے تاکہ اس سے اچھے اعمال کا ظہور تو ہوتا رہے لیکن بُرے افعال سرزد نہ ہونے پائیں۔ اس بات کی مشق کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انٹر اور گریجویشن کے طلبا ء سے ، خواہ کوئی بھی مضمون پڑھ رہے ہوں، یہ کہا جائے کہ مسلمان قرآن حکیم اور دیگر مذاہب کے طلباء اپنی اپنی مذہبی کتب کے اوامر و نوا ہی  (Dos and Don’ts)  کی ایک فہرست خود تیا ر کریں اور اس بات پہ غور کریں کہ ہر امر اور ہر نہی میں کی حکمت چھپی ہوئی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہر روز رات کو سونے سے پہلے خود اپنا احتساب کریں کہ آج انہوں نے کس امر یا حکم کی خلاف ورزی کی اور کس نہی سے خود  کو نہیں روک سکے۔ اس مشق کے آغاز  میں ذہن کو فقط نوا ہی میں مستور حکمت کو سمجھنے اور اُن پہ عمل سے بچنے پہ مرکوز رکھا جاسکتا ہے۔
مثلاً شک مت کریں، غصہ مت کریں اور غیبت مت کریں وغیرہ یہ سب نوا ہی ہیں۔ رات کو سونے سے پہلے بستر پر لیٹ کر تمام دن کی مصروفیات  پہ  ایک نظر ڈال کر خود اپنا  محاسبہ کیا جائے کہ آج میں نے کسی پہ شک کیا، غصہ کیا یا غیبت کی یا نہیں۔ اگر یاد آ جائے کہ آج فلاں صاحب سے بات کرتے وقت مجھے غصہ  آگیا تھا تو دل میں اس عہد کو تازہ کرے کہ آئندہ ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ یہ عہد ایک طرف کی گئی غلطی پہ توبہ ہوگا اور دوسری طرف ضمیر کے اطمینان کا باعث بھی ہوگا۔ اس طرح کچھ ہی  عرصے کی مشق کے بعد آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ آپ نوا ہی کی خلاف ورزی کے کم سے کم مرتکب ہو ہے ہیں۔ جوں جوں  نوا ہی سے بچنے میں کامیابی ہوتی چلی جائے اور ساتھ ساتھ اور امر کی پابندی پہ قائم ہونے کا آغاز کر دیا جائے تو  ایک دو سال کی اس سادہ سی مشق سے ہی اُس طرزِ فکر کی بنیادیں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں جو انبیاء کی طرزِ فکر سے مماثل ہوتی ہے اور پھر جیسے جیسے اس مشق میں استحکام اور اوامر اور نوا ہی  کی پابندی اور پختگی آتی چلی جاتی ہے، یہ  طرزِ فکر ذہن میں راسخ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

اس طرزِ فکر کے حصول کے لئے اس بات کو سمجھنے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونا اور اس عمل پر قائم اور کار بند رہے بغیر کسی کامیابی کی امید رکھنا اور یہ سمجھنا کہ انبیاء کی عطا کردہ طرزوں پر استوار معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے  اور تشکیل پانے کے بعد   اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے تو یقیناً یہ ایک غیر منطقی سوچ ہوگی۔

Comments

Popular posts from this blog

GUIDANCE NEEDS AND PROBLEMS OF YOUNG PEOPLE

HISTORY OF THE GUIDANCE MOVEMENT

"Aims and Objectives of Education"