امتحانی نظام

امتحانی نظام
درس و تدریس کے نظام میں یہ دیکھنے کے لئے کہ تعلیم پانے والوں نے اپنے اساتذہ سے کیا کچھ سیکھا ہے، اُن کا امتحان لیا جاتا ہے۔ امتحان لینے کے یوں تو کئی طریقے ہیں، لیکن معروف طریقہ یہی بن چکا ہے کہ طالب علم سے اس کی قابلیت جانچنے کے لئے کچھ سوال پوچھے جاتے ہیں۔ یہ سوال جواب زبانی بھی پوچھے جاسکتے ہیں اور تحریری طور پر بھی۔ اس کے علاوہ ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ شاگرد کو کوئی کام کرنے کو کہا جاتا ہے اور اُس اسائنمنٹ کی تکمیل پر یہ جانچا جاتا ہے کہ اُس نے وہ کام کیسے اور کس معیار کا کیا ہے۔ عام طور پر یہ طریقہ خاص خاص فنون جیسے میڈیکل یا انجنیئرنگ جیسے علوم میں زیادہ آزمایا جاتا ہے۔ اُن سوالوں سے جو امتحان میں پوچھے جاتے ہیں، اس بات کا بہت گہرا تعلق ہے کہ ہم کیا جانچنا چاہتے ہیں۔
اگر بچے کی یاداشت کو جانچنا ہو تو ایک قسم کے سوال پوچھے جاتے ہیں اور اگر یہ دیکھنا ہو کہ بچے کو بتائی گئی بات کی کتنی سمجھ آئی ہے اور ا س کے ذہن نے بتائی گئی بات کو کتنا اور کیسا جذب کیا ہے، تو دوسری قسم کے سوال پوچھ جاتے ہیں اور اگر یہ دیکھنا ہو کہ بچے کا ذہن کتنا کام کرتا ہے اور وہ اپنی بات کو کس حد تک منطقی دلائل سے ثابت کر سکتا ہے یا یہ کہ وہ کسی غیر متوقع صورت حال کا سامنا کرنے کی کتنی اہلیت رکھتا ہے تو ایک تیسری ہی قسم کا سوال پوچھا جاتا ضروری ہو جاتا ہے۔ یعنی پوچھے گئے سوال کا مقصد ہمارے امتحانی نظام کے معیار کا براہ راست تعلق ان پوچھے جانے والے سوالوں کی کوالٹی سے بنتا ہے۔ دوسری چیز جو امتحان کے معیار کی ضامن بنتی ہے ، وہ ہے ان سوالوں کے جوابات کو جانچنے کا طریقہ اور انداز۔ اگر یہ جانچنا ژرف نگاہی اور غیر جانبداری سے ہو تو بچوں کی قابلیت کو درست انداز سے جانچا جاسکتا ہے لیکن اگر کوئی عدیم  الفرصت صاحب  اس کو بیگار جان کر بے دلی سے کر رہے ہوں تو یہ جانچ کاری درست نتائج کی حامل نہیں ہوسکتی۔ علاوہ دیگر مضمرات کے اس کے نتیجے میں طلباء میں اضطراب پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے۔
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ بچے امتحان سے بہت گھبراتے ہیں۔ یہ کہنا کہ امتحان سے گھبراہٹ ہونا ایک فطری امر ہے، کسی حد تک تو درست ہوسکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس گھبراہٹ کی بہت سی اور وجوہات بھی ہوا کرتی ہیں۔ اُن میں سے سب سے بڑی وجہ تو یہی ہوتی ہے کہ بچہ امتحان کے لئے پوری طرح تیار نہیں ہوتا۔ اب اُس کی تیاری میں کیا اور کتنی کمی ہوتی ہے، اس بات کو جانچنا اور اُس کمی کو پورا کروانے کی ذمہ داری تو اساتذہ کرام ہی کے سر جاتی ہے لیکن اس کمی کو پورا کرنا تو بہر حال طلباء کا ہی فرض بنتا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے اور کروانے میں اساتذہ کو کیا کیا اقدامات لینے چاہئیں اور طلباء کو کیسے تیاری کرنی چاہئے، اس کا بھر پور جائزہ لینا  بہت ضروری ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ طلباء اور اساتذہ  اس کام پر آمادہ ہوں۔ جب تک طلباء پہ امتحان کی غرض و  غائیت  واضح کئے بغیر امتحان دلوائے جاتے رہیں گے وہ گائیڈز، خلاصے اور گیس پیپرز کا ہی سہارا لیتے رہیں گے۔ اور جب تک طلباء خود میں امتحان کا درست شعور اجاگر نہیں کر پائیں گے، وہ مجبوراً نقل ، میل ملاپ، سفارش اور زور زبردستی کے طریقے اختیار کرتے رہیں گے۔
اس ضمن میں سب سے پہلا کام جو حکومت کے کرنے کا بنتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ خلاصوں، گائیڈوں اور گیس پیپرز کی طباعت اور اشاعت پر کڑی پابندی عائد کر دے۔ دوسرا کام جو اس کے بس میں ہے اور اُس ہی کے کرنے سے ہوگا وہ یہ کہ اساتذہ کرام کو بچوں کو امتحان کی تیاری کروانے کی تیکنیک سیکھانے کے لئے خصوصی پروگرامز مثلاً شارٹ کورسز اور تربیتی ورکشاپ  کا اہتمام کیا جائے۔ کتابیں پڑھانا اور امتحان کی تیاری کروانا دو بالکل الگ نوعیت کے کام ہیں اور یہ سمجھنا کہ محض ایک دو بار کتاب پڑھا دینے سے بچہ امتحان دینا بھی سیکھ جائے گا تو یہ ایک لحاظ سے ک فہمی ہی ہو سکتی ہے۔
جب تک حکومت تعلیمی بورڈوں کے ذریعے اس کام کو آغاز نہیں کر  پاتی اُس وقت تک اس صورت حال کو بہتر کرنے کے لئے سکولوں اور کالجوں کی انتظامیہ اس قسم کے پروگرام خود مقامی سطح پر کر سکتی ہے۔ اس کے نہ کرنے سے جو نقصان ہو رہا ہے،  اُس کا تذکرہ کرنے سے بہتر ہے کہ اس کام سے ہونے والے سب سے بڑے فائدے کی بات کی جائے۔ سب سے بڑا فائدہ یہی ہوگا کہ بچوں کا رزلٹ سچ مچ بہتر ہوتا چلا جائے گا اور انہیں ناجائز امتحانی ذرائع بھی اختیار نہیں کرنا پڑیں گے۔
ہمارے موجودہ نظام میں امتحان دینا اس لئے ایک تیکنیک کا درجہ اختیار کر گیا  ہے کیونکہ امتحان لینے والوں نے امتحانی سوالوں کی تیاری اور اُن کی جانچ کاری کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ اُس سانچے اور پیٹرن کو سمجھے بغیر امتحان دینے بیٹھ جانے کا انجام یہی ہوتا ہے کہ بہت سے بچے تو بچے اُن کے والدین اور اساتذہ بھی یہی کہتے ملتے ہیں کہ بچہ یوں تو بہت لائق تھا، نہ جانے اس کو کیا ہوا کہ وہ امتحان میں اتنے اچھے نمبر ہیں آسکے۔ اور پھر اُس کے بعد امتحانی مراکز اور بورڈوں کی اندرونی حالتِ زار پہ تبصرے کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس بات کا کھوج لگانے کی ضرورت تھی کہ آخر وہ کیا کمی رہ گئی تھی کہ ایک لائق بچہ بھی امتحان میں حسبِ دلخواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔
کتاب پڑھ لینے، اُس کو سمجھ لینے اور اُس کے مندرجات کو یاد کرلینے کے بعد اگر اُس کتاب کی بابت کوئی بات دیافت کی جائے تو اُس کو زبانی طور پر بیان کرنا اتنا دشوار نہیں ہوا کرتا جتنا اُس کو لکھ کر بیان کرنا دشوار محسوس  ہوتا ہے۔ اس لئے پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنے کی مشق ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لکھنے کی مشق کروانے کے لئے  اساتذہ  کو چاہئے کہ وہ بچوں کو خوشخطی اور تیز رفتاری سے لکھنے کی عادت کو پختہ کروائیں۔ یہ کام اساتذہ کی مسلسل نگرانی اور اعانت کے بغیر ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اساتذہ کو اس سمت میں اپنا کردار بھرپور انداز میں انجام دینا ہی ہوگا۔
جب بچوں کو کتاب پڑھا دی جائے تو امتحان کی مشق کے نکتہ نظر سے بچوں کو بار بار ٹیسٹ دیا جائے۔ اس طرح سے اساتذہ اپنے بچوں سے اُن کے کلاس روم بار  بار امتحان لیں۔ اُن کے لئے بورڈ کے تیار کئے جانے والے پرچوں کی طرز پر سوالوں کے پرچے مرتب کریں۔ جب بچے حل کریں تو اُن کو پرچے حل کرنے کی تیکنیک بتائیں۔ یہ بھی بتائیں کہ دیئے گئے وقت میں ہی پرچے کو مکمل حل کرنے کے لئے وقت کو مطلوبہ سوالوں پہ کس طرح تقسیم کرنا چاہئے۔ ایک جواب کو کم سے کم کتنا اور زیادہ سے زیادہ کتنا لکھنا چاہئے۔ پرچوں میں لکھنے سے پہلے کاغذ کے دونوں طرف حاشیے لگانا کتنا ضروری ہے۔ نفسِ مضمون میں موجود نکات کو سرخیوں  اور ذیلی سرخیوں سے کیسے ابھارا جاتا ہے۔ اساتذہ بچوں کو اس پہ قائل کریں کہ تحریر کو لاگا تار لکھنے کی بجائے ہر ایک دو پیرا گرافس کے بعد  ایک آدھ سرخی لگانے سے تحریر کس طرح سج جاتی ہے۔ سرخیوں سے نکات واضح کر دینے سے ممتحن کو کیا سہولت رہتی ہے اور اس سے زیادہ نمبر کیوں ملتے ہیں۔
جب اساتذہ کرام پرچوں میں محض نمبر لگانے کی بجائے بچوں کے حل کئے ہوئے پرچوں میں موجود غلطیوں کی نشاندہی کریں گے کریں گے اور اس بات پہ اصرار کریں گے کہ آئندہ یہ غلطیاں دہرائی نہیں جانی چاہیں تو بچوں کو اس بات کی عملی طور پر آگاہی حاصل ہوگی کہ امتحانی پرچوں کو حل کرنے میں کیا کیا باتیں ضروری ہیں۔ تجربہ شاہد ہے کہ ان خطوط پر تیاری کرنے والے بچے امتحانوں میں نمایاں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔
اس طرح سے تیاری کروانے کا ایک مزید فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بچوں کو تین گھنٹوں تک لگا تار لکھنے کی مشق ہوتی ہے اور جب امتحان کے وقت انہیں لگاتار تین گھنٹے لکھنا پڑنا ہے تو ایسا کرنے میں انہیں کوئی وقت ہیں ہوتی۔ ورنہ تو امتحان گاہ میں یہ منظر ہر نگر ان کے مشاہدے میں رہتا ہے کہ اکثر بچے اِدھر اُدھر تانک جھانک کرنے اور لکھنے میں مصروف نظر آنے کی ایکٹنگ ہی کرتے رہتے ہیں۔
ممتحن حضرات کا پرچوں کو جانچنے کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟ اگر اساتذہ کرام بچوں کو اس کی بابت بتائیں تو اس سے بچوں  میں اپنے پرچے کو ممتحن کے نکتہ نظر سے پیس کرنے میں سہولت پیدا ہوسکتی ہے۔ ممتحن حضرات جب ایک پرچے کو ہاتھ میں لیتے ہیں تو اُن کا تجربہ ایسا ذہن بنا چکا ہوتا ہے کہ وہ یا تو پرچے میں موجود خوبیوں کے نمبر لگاتے ہیں یا پھر خامیوں اور کمی کے نمبر کاٹنے کی پالیسی اپنا کر نمبر لگاتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ کوئی بھی یہ اندازہ تو ر نہیں سکتا کہ اُس کا ممتحن اُس کے پرچے کی خوبیوں کو زیادہ سرا ہے گا یا  اُس کی خامیوں پہ پکڑ زیادہ کرے گا۔ اس لئے اساتذہ کرام کو چاہئے کہ وہ بچوں پہ یہ امر بالکل واضح فرما دیں کہ ان دونوں ہی صورتوں سے عہدہ برآ ہونے کی بہترین حکمت عملی یہی بنتی ہے  کہ وہ اپنے پرچے میں پوچھے گئے سوال کے جواب کو بہترین انداز میں پیش کرنے کی مشق اور مزید مشق کرتے رہیں اور اس مشق کے لئے جیسے تیسے بھی بن پرے وقت نکالیں۔
اساتذہ کرام بچوں کو اس امر پہ قائل کرنے کو کہ  انہیں محنت کرکے امتحان  دینا سیکھنا چاہئے اس قسم کی دلیل دے سکتے ہیں کہ صرف اس ہی طرح وہ نقل اور دیگر ناجائز ذرائع پہ کسی بھی قسم کا کوئی انحصار کرنے کی سوچ کو ترک کر سکتے ہیں۔ اساتذہ کرام بچوں کو یہ دلائل دے کر تبھی قائل کرسکتے ہیں جب خود اُن کو پوری طرح واضح ہو کہ انہوں نے کیا کرنا ہے اور پانے بچوں سے کیا کروانا ہے۔ کیونکہ اس نصیحت کا کوئی بھی اثر وہ تبھی لیں گے جب انہیں کلاس روم میں پوری تن دہی اور توجہ سے محنت کرنا پڑ ے گی ورنہ تو اُن کی فطرت کا وہ رخ ہی زیادہ متحرک رہے گا جو تن آسانی اور سہل پسندی کو اُن کے لئے پر کشش بنا کر دکھاتا ہے۔ اساتذہ کرام ہر ہر قدم پہ اُن کے اس رحجان پہ نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بچوں کی توجہ زیادہ سے زیادہ اس امر کی طرف مبذول رہے کہ انہوں نے محنت کرکے اپنی اُن کمی کو پورا کرنا جس کی نشاندہی اُن کے اساتذہ نے کی ہے۔

علاوہ اور باتوں کے اس سے یہ بھی ہوتا ہے پورے سکول میں ایک خاص ماحول بن سکتا ہے۔ بچے اُس ماحول میں آکر خود بخود اُس کے زیرِ اثر آتے چلے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو محنت کرتے دیکھتے ہیں تو اُن میں بھی یہ شوق پیدا ہوتا کہ وہ بھی کچھ کریں۔ اگر بچہ کچھ ایسا کرنے پر آمادہ ہوگیا جس سے اُس کا اپنا بھلا ہو سکتا ہو تو ایک استاذ اور ماں باپ کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

GUIDANCE NEEDS AND PROBLEMS OF YOUNG PEOPLE

HISTORY OF THE GUIDANCE MOVEMENT

"Aims and Objectives of Education"