سوچنا اور سمجھنا
سوچنا اور
سمجھنا
یوں
تو ہر انسان یہی سمجھتا ہے ۔ لیکن کتنے لوگ ایسے
ہیں جو غور و فکر کرنا حقیقتاً جانتے ہیں اور اُس کو مناسب طور پر بروئے کار بھی
لاتے ہیں۔ کسی فلاسفر کا یہ قو ایک دور میں بہت مقبول ہوا تھا کہ چونکہ میں
سوچ سکتا ہوں اس لئے میں ہوں۔ یعنی فطرت
نے ہر انسان کو یہ صلاحیت و دیعت کی ہے کہ
وہ سوچ سکتا ہے۔ اور اُس کا اپنے وجود میں ایک دماغ اور ذہن رکھنا اس بات کا ثبوت
ہے کہ انسان کو ایک ایسی صلاحیت سے متصف کیا گیا ہے جو اس کو غور و فکر کرنے کی
اہلیت عطا کرتی ہے۔ خالقِ کائنات نے انسان کو غور و فکر کی جو دعوت دی ہے اس کا
اصل منشاء انسان کو تحقیق اور ریسرچ کی
راہ پر ڈالنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن لوگوں کا عام طور پر سمجھنا تو
یہ ہے کہ یہ سوچ سکنا، یہ غور و فکر کرنا اور یہ تحقیق اور ریسرچ کی باتیں عام طور پر خاص ہی لوگوں کے کرنے کا
کام ہے اس لئے ان باتوں کو انہی کے لئے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔
اگر
ہم یہ جائزہ لیں کہ یہ غور و فکر کیا ہے؟
کسی بات کو سوچنا ہو تا اس پہ کیسے سوچا جاتا ہے؟ یا یہ کہ کسی بات پہ سوچنے اور غور و
فکر کا اصل طریقہ کیا ہونا چاہئے؟ یہ بات تو ہم سب کے علم میں ہے کہ ہمارے ذہن میں
خیالات آتے ہیں۔ یہ خیالات کیوں آتے ہیں اور کہاں سے آتے ہیں؟ اس کی بابت ابھی بہت سی باتیں انسان کے علم میں
آنا باقی ہیں۔ مختصراً یوں سمجھ لیں کہ انسان کے اندر ایک کمپیوٹر نما مشین نصب
ہے۔ اس مشین کا کام ہے کہ کائناتی نظام کو فیڈ کی جانے والی اطلاعات کو وصول کر کے اُن اطلاعات کو خیالات کی صورت
میں انسان کے ذہن کی سکرین پر نشر کرتی رہے۔ انسان ان خیالات کو وصول کرنے اور ان
کو مطلب پہنانے میں آزاد رکھا گیا ہے۔ وہ موصول
شدہ خیالات کو جس زاویہء نظر سے دیکھتا ہے، یہ اس کا طرزِ فکر کہلاتی ہے۔ اگر
طرزِ فکر میں ہمدردی اور ایثار ہے تو وہ ذہن میں آنے والے ہر خیال کو مثبت انداز
میں لیتا ہے اور اگر طرزِ فکر میں خود غرضی اور لالچ ہے تو انسان ہر خیال کو منفی
اور محدود طرزوں میں لیتا اور اپناتا ہے۔
انبیاء
نے انسان کو جن تعلیمات سے نوازا، اُن کا واحد مقصد انسان کو اس طرزِ فکر سے
آراستہ کرنا تھا جو ہمدردی، ایثار، محبت اور بھائی چارے جیسی مثبت خوبیوں سے مالا مال ہوتی ہے۔ ایسی طرزِ کا ایک
پہلو پہ بھی ہوتا ہے کہ وہ تعمیری سوچوں کی حامل ہوتی ہے اور تعمیر کے خوگر بندے
کو کسی بھی قسم کی تخریب سے کوئی علاقہ نہیں ہوسکتا۔
ہمارے
نظامِ تعلیم میں ذہن کی جن چند ایک صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا اہتمام کیا گیا
ہے اُن میں یاداشت اور حافظے کو بہت اہمیت حاصل ہوچکی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حافظے
اور یاداشت کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلّمہ مگر صرف انہی
کو اہمیت دیئے جانا دیگر ذہنی صلاحیتوں کو نظر انداز کرنے کا مترادف بن چکا ہے۔ اس
صورت حال کی اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔
جب
تک غور و فکر سکھانے کا باقاعدہ اہتمام نہیں ہوگا، اس وقت تک کسی فرد میں اس صلاحیت
کے ابھرنے کے امکانات کی امید رکھنے میں کوئی حرج تو نہیں ہے لیکن ایسی امیدیں کم ہی پوری ہوا کرتی ہیں۔ اس
با قاعدہ اہتمام کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کو پہلے خود سمجھیں کہ یہ سوچنے کا
عمل ہوتا کیا ہے ؟ یہ کس طرح وقوع پذیر
ہوتا ہے اور اس کو کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے؟
اگر
اس بات کو نہایت آسان الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ
جب ہم کسی نکتے پہ اپنا ذہن مرکوز کرتے ہیں تو اس نکتے کی بابت خیالات ہمارے ذہن
میں آنا شروع ہو جاتے ہیں اور ہم اُن خیالات کو اپنے سابقہ علم اور تجربے کی
روشنی میں چھان پھٹک کر چن لیتے ہیں۔ اس انتخاب کے عمل سے گزر کر جو خیالات ہمیں
پسند آ جاتے ہیں، ہم اُن کو اپنی یا داشت کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس سے انسان کا
ایک ذہن بنتا چلا جاتا ہے۔ اب وہ جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے وہ اس بنے ہوئے
ذہن سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ اب اس کے تمام تر اعمال اور افعال کا دارومدار
بھی ذہن کی اسی بناوٹ اور ساخت پر ہو جاتا ہے۔
اس
لئے جب ہم غور و فکر کی بات کرتے ہیں تو اس میں سب سے پہلی چیز جو ہماری توجہ میں
آتی ہے وہ ہے ذہن کو کسی ایک نکتے پہ مرتکز کرنے کی صلاحیت کا ہونا۔ جب کسی فرد میں اپنے
ذہن کو کسی نکتے پہ مرکوز کرنے کی صلاحیت نہیں ہوگی تو وہ اس نکتے کی بابت
خیالات کہاں سے لائے گا؟ ظاہر ی بات ہے کہ ارتکاز توجہ ہی سے ذہن میں خیالات کا
بہاؤ قائم ہوسکتا ہے تو اس کی ضرورت کی زیادہ ہوئی۔ باقی باتوں کی اہمیت اور
ضرورت تو تبھی ہوگی جب ذہن میں خیالات کا بہاؤ تیز تر ہوتا چلا جائے گا۔ جتنی
زیادہ ارتکاز توجہ کی مشق ہوتی ہے ذہن میں اتنی ہی گہرائی سے خیالات ابھرتے ہیں
اور یہ خیالات جتنی زیادہ گہرائی کے حامل ہوتے ہیں اتنی ہی اُن کی وقعت اور اہمیت
بھی ہوتی ہے اور وہ حقیقت کے بھی اتنے ہی زیادہ قریب ہوتے ہیں۔
ارتکاز
توجہ کے بعد دوسری چیز جو غور و فکر کے عمل میں بہت ہی اہم ہے، وہ ہے ذہن میں سکت
ہونا۔ یعنی دماغ میں اتنی سکت ہو کہ وہ
ذہن میں آنے والے خیالات کے بہاؤ قائم کرتی ہے تو دوسری طرف ذہن کو وہ توانائی بھی فراہم
کرتی ہے جو اس کی سکت میں اضافے کا موجب بنتی ہے۔ ذہنی سکت میں اضافے کے لئے
ارتکاز توجہ کے ساتھ گہرائی میں سانس لینے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔سانس کی ایک آدھ
مشق باقاعدگی سے کرتے رہنے سے دماغ کو آکسیجن کی فراہمی ممکن ہونے کے ساتھ ساتھ قوتِ ارادی میں
بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔
ان
دو چیزوں کے بعد جو تیسری چیز درکار ہوتی ہے وہ ہے طرزِ فکر۔ یعنی ذہن کس سانچے یا
پیٹرن میں ڈھلا ہوا ہے۔ اب اگر خیالات ذہن میں آبھی جائیں اور ذہن میں ان کے
بہاؤ اور رفتار کا ساتھ دینے کی قوت و سکت بھی ہو لیکن جس پیٹرن میں ذہن ان کو
ڈھال رہا ہو وہ بُرا یا خراب ہو تو سیدھی سی بات ہے کہ انسان اُن خیالات کو غلط
اور منفی معنیٰ بھی پہنا سکتا ہے جو اُس نے اتنی محنت اور ریاضت سے موصول کئے تھے۔ اس لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ جس
سانچے یا طرزوں پہ ذہن میں آنے والے خیالات کو ڈھلنا ہوتا ہے، اس ذہنی سانچے کو
درست رکھنے کا اہتمام بھی ساتھ ہی ساتھ ہو۔
علمائے
باطن کے نزدیک انسان تفکر سے ہم رشتہ رہ کر ، فطرت کے مقاصد کی تکمیل کے پیشِ نظر
بنایا گیا ہے۔ جب تک تفکر کے اس پیٹرن یعنی انسان کا رشتہ کائناتی تفکر سے قائم
نہیں ہو جاتا، انسان کی تخلیق کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ ہر مذہب کی تعلیمات کا
مرکز و محور اصل میں تفکر کے اس پیٹرن کو سمجھنا اور درست رکھنا ہی تو رہا ہے۔
ہمارے نظامِ تعلیم کے مقاصد کا اگر اس حوالے سے جائزہ لیا جائے تو یہ دیکھ کر کوئی
حیرت نہیں ہوتی کہ انسان کی تخلیق کے اصل مقصد کا شعور اجاگر کرنے کی طرف بالکل
خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے بھی توجہ دی جائے۔
ذہنی
سانچے کی ساخت کو درست رکھنے کے لئے دو معروف انداز یہ ہیں کہ یا تو انسان اپنے
ضمیر کی آواز پہ چلنا سیکھ لے اور یا پھر
یہ کہ وہ کسی ایسی شخصیت کو اپنے لئے مثال
بنا لے جو اُس کو، بالواسطہ یا بلاواسطہ، زندگی کی راہوں پر راہنمائی فراہم کرسکے۔
جو اساتذہ اپنے تلامذہ کے لئے ایسا آئیڈیل بن جاتے ہیں جن کی پیروی میں بچے اپنے
ذہن کے سانچے کو منظم اور مرتب کرنا چاہتے ہیں، بے شک ایسے اساتذہ کرام ہی روحانی
والدین اور قابلِ تکریم راہبر کہلاتے ہیں۔ ایسے اساتذہ کرام درحقیقت ہی تو کرتے
ہیں کہ وہ اپنے تلامذہ کو ان کے ضمیر کی آواز کو درست انداز میں سننے اور اس پہ عمل کرنے کا سلیقہ سکھا دیتے
ہیں۔ اسی عمل کو انسان کا اپنے باطن کی طرف متوجہ ہونا بھی کہا جاتا ہے۔ ضمیر
انسانی کو روحانی سائنسدانوں نے اسی لئے نورِ باطن کہا ہے کہ یہ انسان کی راہنمائی
کا ایک الو ہی انتظام ہے۔
اس
انتظام سے استفادے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ انسان اپنے دل میں آنے والے ہر خیلا کے
تعاقب میں اندھا دھند جت جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے انسان غیر جانبدار اندازِ فکر و نظر کا حامل بنے۔ کیونکہ
غیر جانبدار انداز حاصل کئے بغیر کسی بھی معاملے کی درست تفہیم حاصل نہیں ہوسکتی۔
اگر ذہن میں غیر جانبداری نہیں ہوگی تو لامحالہ تنگ نظری اور تعصب کے جا لے فکر
و آگہی کی ضیاء پاشیوں کو دھند لاتے رہیں گے۔
سوچ
بچار کے ان بنیادی اجزائے ترکیبی کے اس تعارف کے بعد یہ دیکھا جائے کہ کسی بات پہ
سوچ بچار یا غور فکر کیسے کیا جاسکتا ہے؟ یوں تو سوچ بچار یا غور و فکر کرنے کا ہر
ذہن کا اپنا ایک طریقہ اور انداز ہوتا ہے۔ بعض لوگوں میں فطری طور پر یہ صلاحیت
زیادہ ہوتی ہے کہ ادھر اُن کے سامنے کوئی سوال آتا ہے اور اُدھر اُن کے ذہن میں
اُ کا درست جواب عود کر آجاتا ہے۔ اس کے برعکس بعض لوگوں کو کافی دیر تک اپنے ذہن
کو ایک نکتے پہ مرتکز و مرکوز رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب کہ اکثر لوگوں کے ذہن میں بات قسطوں اور درجوں
میں کھلتی ہے۔ ایک وقت میں ایک حد تک ہی بات اُن کی سمجھ میں آتی ہے اور پھر جب
وہ مزید غور جاری رکھتے ہیں تو اسی بات کا ایک اور زاویہ یا ایک اور درجہ اُن کے
ذہن میں آ جاتا ہے۔
رہا
یہ سوال کہ غور و فکر کیسے کیا جانا چاہئے؟ تو اس کا نہایت سادہ سا جواب تو یہ
بنتا ہے کہ جب انسان کسی سوال کو اپنے ذہن میں دہرانا شروع کرتا ہے، سوچ بچار اور غور و فکر کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اب یہ
بھی تو ایک سوال ہی تھا کہ سیب زمین پر کیوں گرا؟ جب نیوٹن کا ذہن اس سوال کی
گردان کرنے لگ گیا تو اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ سیب نے زمین کا رُح اس لئے کیا
تھا کہ اُس کو کسی غیر محسوس قوت نے زمین کا رُح کرنے مجبور کیا تھا۔ اُس نے اس
بات کو ذہن میں آنے کے بعد اس پر مزید غور کرنے کی بجائے اس قوت کا نام کشش ثقل
تجویز کر دیا اور کہ دیا کہ زمین میں ایک ایسی قوت تجاذب ہے جو چیزوں کو اپنی طرف
کھینچتی ہے۔ اب اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے تو پہلی نظر میں تو یہی محسوس ہوتا
ہے کہ نیوٹن نے بھلا کیسی مہمل بات کو پکڑا کہ سیب زمین پر کیوں گرا۔ ایسا نہیں ہے۔ سوچ بچار کے لئے
کبھی کوئی بات نہ تو مہمل ہوتی ہے اور نہ ہی لا یعنی ۔ یہ انسان کا ذہن ہے جو کسی
بات کو مہمل ، لا یعنی اور فضول کہتا ہے یا اس
کو ضروری اور اہم گر دانتا ہے۔
قرآن
حکیم میں لگ بھگ ساڑھے سات سو مقامات ایسے ہیں جہا انسان کو تفکر کرنے کی دعوت دی
گئی ہے، اس کو غور و فکر پہ ابھارا گیا ہے اور سوچ بچار کی طرف مائل کیا گیا ہے۔
اساتذہ کرام اپنے تلامذہ کو آیاتِ قرآنی سے لے کر کارخانہء قدرت کے کسی بھی مظہر
پہ غور و فکر کی دعوت دیکر اُن کو غور و فکر کی مشق کروا سکتے ہیں۔ مثلاً ایک ہفتے
تک بچوں کو مسلسل اس بات پہ غور کروایا جاسکتا ہے کہ پانی عام طور پر اوپر سے نیچے
کی طرف بہتا ہے لیکن درختوں میں یہ نیچے ج
سے اوپر کی طرف بہتا ہے اور درخت کی پھنگ تک پہنچنے کو دس بیس فٹ نہیں بلکہ سو سوفٹ
تک چڑھتا ہے، آخر کیوں اور کیسے؟ غور کرنے کے لئے وہ اور کچھ بھی نہ کریں فقط
اپنے ذہن میں اس بات کی تکرار کریں، آپس میں اس پر بات چیت کریں۔ بحث و مباحثہ نہ
کریں۔ صرف ایک دوسرے کو اس موضوع پہ اپنے ذہن میں آنے والے خیالات بتائیں۔ ایک
ہفتے تک مسلسل غور و فکر کے بعد وہ جس بھی نتیجے پر پہنچ جائیں اُن سے کہا جاسکتا
ہے کہ وہ اُس کو لکھ کر دکھائیں۔
غور
و فکر دراصل ذہن کی اُس صلاحیت کا
استعمال ہے جس کو تجسس کہا جاتا
ہے۔ جب انسان اپنے ذہن میں کسی سوال کی تکرار کرتا ہے تو وہ درحقیقت اپنی اسی
صلاحیت کو بروئے کار آنے کا موقع فراہم کر رہا ہوتا ہے۔ یہ کوئی ایسی
بات نہیں جس سے ہم عام روز مرہ زندگی میں
آشنا نہیں ہیں۔ گھریلو خواتین جب خود سے یا اپنے گھر کے لوگوں سے یہ دریافت کرتی
ہیں کہ آج کیا پکایا جائے؟ تو ان کا ذہن اُس روز کی خوراک کا انتخاب کرنے کی سوچ
میں منہمک ہوتا ہے۔
کسی
بھی سوال کی اپنے ذہن میں بار بار تکرار سے توجہ اس نکتے پہ مرکوز ہو جاتی ہے۔
ارتکازِ توجہ کے قانون کے تحت اس نکتے سے
متعلق خیالات ذہن میں آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ذہن میں جتنی زیادہ جستجو اور تجسس
ہوتا ہے، اتنی زیادہ اُن خیالات کے بہاؤ کی رفتار اور رسائی بن جاتی ہے۔ ذہن اپنی
قوت اور سکت کے مطابق ان خیالات کو اپنی
گرفت میں لے کر حافظے میں محفوظ کرتا چلاتا ہے۔
یہاں
پہ اس بات کا تذکرہ کر دینا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ کسی سوال پہ غور کرنے کے اس عم
میں بعض اوقات کچھ یوں ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن میں کچھ ایسے خیالات آنا شروع ہو
جاتے ہیں جو پہلے سے بنے ہوئے عقائد سے متصادم ہی نہیں بلکہ بعض اوقات بالکل ہی الٹ محسوس ہوتے ہیں۔
اکثر و بیشتر لوگ اس مقام پر الجھن کا شکار ہو کر سوچ بچار ہی ترک کر جاتے ہیں اور
اگر وہ سوچنا ترک نہیں کرتے اور کسی سے اس
ضمن میں مشورہ کرتے ہیں تو اُن کو یہ کہ کر ایسا سوچنے سے ہی منع کر دیا جاتا ہے
کہ ایسا سوچنا بُری بات ہے۔ اب اس مسلئے کو حل کرنے کا درست طریقہ تو یہ ہے کہ
انسان اپنے عقائد کا تجزیہ کرنے کی اہلیت پیدا کرے، نہ کہ غور و فکر کی عادت سے ہی
توبہ کرلے۔
اس
ضمن میں گلیلیو کی مثال دینا غلط نہ ہوگا۔ جب کائناتی نظام کے بارے میں سوچ
بچار کے دوران اُس کے ذہن میں یہ بات آئی
کہ سورج زمین کے گرد نہیں گھومتا بلکہ
زمین سورج کے گرد گردش کر رہی ہے تو اُس کو ایک زور دار جھٹکا سا لگا کہ اُس نے یہ
کیا سوچا۔ لیکن جب اُ س نے اس بات پہ مزید غور کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اُس
کے ذہن میں آنے والا یہ خیال غلط نہیں ہے۔ جب اُس کو اپنے مشاہدات سے یہ یقین
ہوگیا کہ اُس کا اخذ کردہ نتیجہ درست ہے تو اُس نے اپنے خیال کا اظہار کرنا شروع
کر دیا۔ رفتہ رفتہ بات پھیلی۔ اُس کی بات سے کلیسا کے پرچار کئے جانے والے صدیوں پرانے نظریے کی تکذیب ہو رہی تھی، اس
لئے ان کو اپنے مذہب کی بنیادیں ہلتی ہوئی محسوس ہونے لگیں اور انہوں نے گلیلیو کو
اپنے خیال سے تائب ہونے کا کہا۔ اور گلیلیو نے یہ کہ کر معافی نامہ داخل کرکے جان
چھڑائی کہ میرے یہ کہ دینے سے کہ زمین سورج کے گرد حرکت نہیں کر ہی، زمین کی حرکت
رکنے سے تو رہی ، وہ اگر سورج کے گرد گردش کر رہی ہے تو میرے ایسا لکھ دینے سے وہ
بھلا کیوں باز آنے لگی۔
اس
مثال سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ غور و فکر کے دوران بعض اوقات ایسے مراحل
پیش آتے ہیں جہاں کسی دانا اور بینا استاذ کی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو
اساتذہ اس حقیقت کا کچھ ادراک رکھتے ہیں اور خود ان کے اپنے ذہن میں غور و فکر کا
پیٹرن بنا ہوا ہوتا ہے، وہ اپنے تلامذہ کی حوصلہ افزائی کرنے سے نہیں گھبراتے لیکن
وہ اساتذہ جو اپنے اندر سوچ بچار کا حوصلہ نہیں رکھتے وہ اپنے تلامذہ کو بھی ان
راہوں پر چلنے سے صاف صاف منع کردیتے ہیں۔
غور
و فکر کی عادت اور سلیقہ ہو تو عام روز مرہ زندگی کے مسائل حل کرنے سے لے کر زندگی
کے اہم فیصلے کرنے تک ہر ہر مرحلے میں انسان کو ایک تو سہولت رہتی ہے اور دوسرے وہ
اپنی زندگی میں ایک کامیاب انسان بنتا چلا جاتا ہے۔ سوچ بچار کی عادت کو پروان
چڑھانے کے لئے بڑی بڑی باتوں پہ غور و فکر کرنے کی بجائے چھوٹی چھوٹی باتوں کو
مرکز توجہ بنانا زیادہ بہتر رہتا ہے۔ بچوں کو پہلیاں اور بجھاتیں مزہ بھی دیتی ہیں
اور ایک طرح کی ذہنی مشق کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ قدرے بڑے بچوں کو ریاضی اور
جیومیٹری کے سوال دے کر بھی یہی مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ میٹرک اور اُس کے بعد
طلباء کو واقعاتی اشکال دے کر اُن کو اس بات پر ابھارا جاسکتا کہ وہ ان کے حل
تجویز کریں۔ کسی مفروضہ صورت حال کو اُن
کے سامنے پیش کرکے اس کا تجزیہ اور حل کروانا بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔
سوچ
بچار ابھارنے کے اس قسم کے تمام طریقے شعور کو حرکت میں لاتے ہیں اور اُس کو ہی
پروان چڑھاتے ہیں۔ شعوری غور و فکر کے ساتھ ساتھ ایک اور طریقہ لاشعور تک رسائی
حاصل کرنے کا بھی ہے۔ عام طور پر اس طریقہ تفکر کو ما بعد الطبعیاتی علوم کی کھوج
کے لئے مخصوص سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ اگر اس کو عام زندگی کے معمولات کے لئے
استعمال کیا جائے تو اس کے دوہرے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ شعوری تفکر کو کتنا بھی بڑھا لیں، اُس کو کتنا بھی پھیلا لیں،
وہ محدود ہی رہتا ہے۔ لیکن وہ طرزِ تفکر جو انسان کا رابطہ لاشعور سے جوڑ دیتا ہے
وہ انسان کو لامحدودیت سے آشنا اور ہم کنار کر دیتا ہے۔
غور
و فکر کے اعلیٰ ترین مدارج میں انسان اپنے لاشعور سے واقف اور آگاہ ہونا شروع ہو
جاتا ہے۔ شعوری غور و فکر کے نتیجے میں انسان طبعی علوم سے آگاہ ہونا شروع ہو
جاتا ہے ۔ شعوری غور و فکر کے نتیجے میں انسان طبعی علوم سے آگاہ ہوتا ہے، اپنے
مسائل کا حل دریافت کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کو اس اطمینانِ قلب حاصل ہوتا
ہے۔ لیکن اس اطمینان کا تعلق چونکہ فانی اور ناپائیدار اشیائے دنیا سے جڑا ہوتا ہے اس لئے وہ بھی ناپائیدار
اور فانی ہوتا ہے اور اس کو محفوظ اور
پائدار بنانے کی تگ و دو ایک الگ سے جوکھم بن جاتی ہے۔ دنیاوی شعور اس سے آگے کی
منزلوں کو پانے سے محروم ہی رہتا ہے۔
اس
سے آگے کی منزلوں کے راہی کو وہاں تک کے سفر کے لئے اپنے لاشعور تک رسائی حاصل
کرنا پڑتی ہے۔ لاشعور تک رسائی حاصل کرلینے والا بندہ نہ سرف اپنے مسائل کو حل
کرتا ہے بلکہ وہ مسائل کے حل کے لئے درکار وسائل تک بھی اُس کی دسترس میں آجاتے
رکھتا ہے۔ وہ طبعی علوم کے ساتھ ساتھ ما
بعد الطبعیاتی علوم میں بھی درک رکھتا ہے۔
اس کا اپنے لاشعور سے تعلق اس کے اندر ایک ایسے اطمینان کا سبب بن جاتا ہے جو نہ
تو فنا ہوتا ہے اور نہ ہی خراب۔ یہ طمانیتِ قلب انسان کے اعمال و افعال کی اصل جزا بن کر اس کو سکون آشنا کر دیتی ہے اور وہ زندگی کے
اُس رخ سے واقف ہو جاتا ہے جہاں موت بھی اُس کو ممتا کی نظر سے دیکھتی ہے۔
علمائے
باطن اپنے لاشعور تک رسائی کا جو طریقہ تعلم کرتے ہیں وہ انبیاء کی سنت مراقبہ ہے۔ مراقبہ غور و فکر کا ایک ایسا
رفیع الشان طریقہ ہے جو انسان کو قدم قدم چلا کر اُس کو اس کے لاشعور سے ہم کنار
کر دیتا ہے۔ مراقبہ میں شعوری طریقہ تفکر کے انداز میں غور کا آغاز کرنے کے بعد
ذہن کو ڈھیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ذہن میں خیالات آتے ہیں تو اُن کو آنے دیا جاتا
ہے۔ کسی خیال سے کوئی تعرض نہیں کیا جاتا۔ خیالات آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔
مراقبہ کی مشق کرنے والا خاموش بیٹھا ان کو آتے اور اُن کی جگہ نئے خیالات اپنے
ذہن میں آتے دیکھتا رہتا ہے۔ حتٰی کہ وہ اس مشق کو کرتے کرتے اُس حالت کو پا لیتا
ہے جب ذہن میں شعوری خیالات کی رو مد ہم پڑتے پڑتے بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ اب اس
حالت میں جب ذہن کسی گہری جھیل کے پانی کی مانند ساکت ہو جاتا ہے تو اس کی سطح پہ
ان تورات اور خیالات کے خاکے ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں جو لاشعور سے نشر ہو رہے
ہوتے ہیں۔
اس
قسم کی کسی بھی مشق کے دوران کوئی پر تکلف اہتمام کرنے اور نہ کسی لمبے چوڑے سازو
سامان کی ضرورت پڑتی ہے۔ ضرورت ہوتی ہے تو ایک پر خلوص خواہش اور ارادے کی ۔ اگر
اساتذہ کرام ایک وقت مقرر کرکے بیس تا تیس منٹ اس قسم کی کوئی مشق کرنا اپنا معمول
بنا لیں تو نہ صرف یہ کہ اُن کی اپنی ذہنی سکت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا بلکہ وہ
اپنے فرائض منصبی کو بھی زیادہ بہتر اور احسن طریقے پر سرانجام دے سکیں گے۔ آنے
والی نسلوں کی راہنمائی کا پیغمبری کام کرنے کیلئے خود کو تیار تو کرنا ہی ہوگا۔
کہا
جاتا ہے کہ انسانی دماغ میں دو کھرب خلیے ہوتے ہیں اور ہر خلیہ کسی نہ کسی ایک حس
یا صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔ عام انسان جو شعوری سطح پہ زندگی گزارتا ہے ان دو کھرب خلیوں میں سے ساری زندگی فقط سو ڈیڑھ
سو خلیوں کا ہی استعمال کر پاتا ہے۔ جن لوگوں کو ہم جینیئس گردانتے ہیں وہ بھی ان
میں سے صرف دو، سوا دو سو خلیے ہی استعمال کرنے پہ قادر ہو پاتے ہیں۔ اس بات سے اس
امر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انسانی ذہن کی صلاحیتوں کا کتنا بڑا ذخیرہ استعمال
میں آئے بغیر ضائع ہو جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس خدا داد ذخیرے کو جس
قدر ممکن ہوسکے اپنے استعمال میں لانے کی کوشش اور جدوجہد کرتے رہیں۔ وہ لوگ جو
اپنے اندر خفتہ صلاحیتوں کا کھوج لگا کر اُن کو اپنے اور بنی نوع انسان کے کام
لانے پہ کمر بستہ ہو جاتے ہیں اگر زیادہ نہیں اور فقط لاکھ، دس لاکھ یا کروڑ ڈیڑھ
کروڑ خلیوں کو ہی کام میں لانا سیکھ لیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بھی
ایسے انسان سے جس نے زندگی میں کل ڈیڑھ، دو سو خلیوں کا استعمال ہی کرنا سیکھا ہو،
کس قدر زیادہ قابلیت اور اہلیت کا حامل ہو سکتا ہے۔
اب
رہی بات کہ ہم اپنے دماغی خلیوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو کس طرح بروئے کار لا
سکتے ہیں اور اپنی خفتہ صلاحیتوں کو زیادہ
سے زیادہ کس طرح بیدار کرسکتے ہیں تو اس
کا طریقہ سوائے غور و فکر اور سوچ بچار کی عادت کو پختہ اور راسخ کرنے کے علاوہ
اور کچھ نہیں۔ اگر سوچ بچار شعوری کیفیات
کو ابھار دے تو اس سے دماغ کی گہرائی میں واقع خلیوں کو بھی کام کرنے کا موقع ملتا
ہے اور انسان عام سطح سے کہیں زیادہ خلیوں
کے استعمال پر قادر ہو جاتا ہے۔ اس بات میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہو
سکتا کہ نت نئی ایجادات اور دریافتوں کا سہرا صرف انہی لوگوں کے سر بندھتا رہا ہے جنہوں نے غور و فکر اور سوچ
بچار کی عادت کو اپنائے رکھا۔
تاریخ
میں ایسی مثالوں کی کمی نہیں ہے جن سے یہ
بات پایہ ثبوت کو پہنچائی جاسکتی ہے کہ غور و فکر کرنے کے خو گر افراد نے کس طرح
لایخل مسلوں کا حل دریافت کیا اور نوعِ
انسانی کی ترقی اور ذہنی ارتقاء میں اپنا کردار ادا کیا لیکن ایک بہت ہی منفرد
مثال اُس مفکر کی ہے جس نے نوعِ انسانی کو نا معلوم مقداروں کو معلوم کرنے کا
طریقہ سکھایا۔ محمد بن موسیٰ الخوارزمی نوعِ انسانی کا ایک ایسا منفرد اور ممتاز
فرد تھا جس نے علم کی ایک مکمل شاخ اکیلے اور تن تنہا دریافت کی۔ علم کی کسی بھی
برانچ یا کسی بھی مضمون کا جائزہ لے کر دیکھ لیں وہ ایک دو نہیں دس بیس بلکہ سینکڑوں
ہزاروں افراد کی دماغ سوزی، کاوش فکر اور کوششوں کے یک جا ہونے سے وجود میں آیا
ہوتا ہے لیکن الجبرا ریاضی کی وہ برانچ ہے جو محمد بن موسیٰ الخوارزمی کے اکیلے
ذہن کی پیداوار ہے۔ اُس نے کسی بھی نامعلوم مقدار کو معلوم کرنے کا ایک ایسا کلیہ
دریافت کیا جس کو آج کی تمام تر ترقی کی بنیاد قرار دیا جاسکتا ہے۔ آج سائنس
اپنی معراج کے جس بھی مقام پر ہے وہ اسی دریافت کے سبب ہے جو ایک بہت ہی گہری سوچ
رکھنے والے بندے نے کی تھی۔ اُس نے اتنی گہری سوچ اور اتنا عمیق تفکر کہاں سے
سیکھا؟
کہا
جاتا ہے کہ ایک شخص نے الخوارزمی کے علم
کو آزمانے کو اس سے کہا کہ تم اتنے بڑے عالم ہونے کا دعویٰ کرتے ہو ذرا یہ تو
بتاؤ کہ میری جیب میں کتنے سکے ہیں؟َ الخوارزمی نے اس سے کہا میں اس طرح کا علم
تو نہیں رکھتا جس طرح کا تم سمجھے ہو لیکن پھر بھی اگر تم کوئی اشارہ دو تو میں
ضرور بتا دوں گا۔ اس پر اُس شخص نے کہا کہ
میرے پاس جو سکے ہیں اگر ان کو اسی تعداد سے ضرب دے کر اُن کا دو چند اُن میں جمع
کر دیا جائے تو وہ اصل کے دس گنا ہو جائیں گے۔ الخوارزمی نے ہاتھ میں پکڑے عصا سے
زمین پر کچھ لکیریں لگائیں کچھ خانے بنائے اور کہا تمہارے کہنے کے مو جب تمہاری
جیب میں کل آٹھ سکے ہیں۔
اب
وہ لوگ جو الجبرا کی جان کاری رکھتے ہیں، جان سکتے ہیں کہ درحقیقت الخوارزمی
نے (Quadratic Equation) یعنی دو درجی مساوات کا کلیہ استعمال کیا ہوگا۔
لیکن کیا اُس وقت کوئی دو درجی مساوات کا استعمال جانتا تھا اور الخوارزمی نے اُس
سے سیکھا تھا؟ تو ایسا ویسا کچھ نہیں تھا۔
الخوارزمی نے اُس وقت اس مسلئے کو مصری علم
ہندسہ اور یونان کے مشہور فلسفی کے دریافت کردہ مسئلہ فیثا غورث کی مدد سے حل کیا تھا اور پھر بعد میں وہ
جبر و مقابلہ نامی کتاب لکھ کر ریاضی میں
الجبرا نام کی علم کی ایک منفرد، مکمل اور مفید شاخ آنے والی نسلوں کے استفادے کے
لئے چھوڑ گی۔ اس کتاب سے مغربی دنیا نے کتنا استعفادہ کی اور مشرق دنیا نے اُس
نابغہ روزگار کی کیا گت بنائی، اِس بات پہ تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سوال
اپنی جگہ رہا جاتا ہے کہ اس نے اتنا علم کہاں سے سیکھا؟ اس سوال کے بہت سے ممکنہ
جواب ہو سکتے ہیں۔ ان بہت سے جوابوں میں سے ایک یہ بھی ہونا چاہئے کہ قرآن جیسے
نصاب کے تحت تعلیم پانے کے سبب اس کے اندر غور و فکر کا ایک ایسا پیٹرن بن گیا تھا کہ جب اُس سے ایک نامعلوم
مقدار کو تلاش کرنے کی فرمائش کی گئی تو اس کا ذہن گہرائی میں اتر تا چلا گیا اور
اس نے نہ صرف یہ کہ دریافت کئے گئے سوال کا جواب دے دیا بلکہ دوسروں کے استفادے کے
لئے اور انہیں نا معلوم مقداروں تک پہنچنے کا ایک کلیہ اور فارمولہ بھی وضع کر دیا۔
اس کلیے ہی کی طفیل جب سائنس دانوں نے ہر نامعلوم مقدار کو معلوم کرنا شروع کیا تو
وہ اس قابل ہوگئے کہ انہوں نے انسان کو اٹھا خلا میں پہنچا دیا۔
آج
ہم ترقی یا فتہ قوموں کی تقلید پر مجبور ہیں کیونکہ ہم نے تحقیق اور ریسرچ سے منہ
ہی نہیں موڑا بلکہ دامن بھی چھڑایا ہوا ہے اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم
نے تفکر ، غور و فکر اور سوچ بچار کے دروازے خود اپنے ہاتھوں خود پہ بند کئے ہوئے ہیں۔ ہم غور و فکر سے اس
لئے گھبراتے ہیں کہ ہمارے بڑے ہمیں اس کام سے صریح الفاظ میں منع کرتے ہیں اور یہ
کہ کر ڈراتے ہیں کہ زیادہ سوچنے سے دماغ خراب ہو جاتا ہے، انسان پاگل ہو جاتا ہے ۔
ہمارے ہاں تو سوچ سوچ کر پاگل ہونا روز مرہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں یہ روش بدلنا
ہی ہوگی۔ نقالی اور تقلید کرنے میں کتنی
بھی آسان اور سہل لگے، اس کا انجام انسان کی ذلت اور اہانت کے سوا اور کچھ نہیں
ہوا کرتا۔ یہ عمل انفرادی ہو تو بھی گوارا نہیں ہو سکتا چہ جائے کہ یہ اجتماعی
صورت میں اپنا لیا جائے۔ اس صورت حال سے چھٹکارے کا صرف ایک ہی طریقہ بنتا ہے کہ
ہم انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پہ سوچ بچار اور غور و فکر کی عادت کو فروغ
دیں۔
Comments
Post a Comment