مجموعہِ اضداد
مجموعہِ اضداد
جب
انسان غور و فکر پر مائل ہو تو اس کے ارد گرد موجود مختلف مظاہر فطرت سے لیکر
مختلف لوگوں اور انسانوں تک بے شمار باتیں اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہیں۔وہ
اپنے فطری تجسس اور اشتیاق کے ہاتھوں اُن میں دلچسپی لیتا ہے، اُن باتوں پہ غور و
فکر کرتا ہے، اُن کی بابت کوئی رائے قائم کرتا ہے اور کوئی نتیجہ نکال کر مطمئن ہو
جاتا ہے یا کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کی صورت میں بے اطمینانی اور خلش کا شکار ہو
جاتا ہے۔ اس بے اطمینانی اور خلش سے نجات
پانے کی خواہش ایک تقاضا بن کر اُس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اس بات پہ مزید غور کرے
اور سوچ بچار سے کوئی قابلِ اطمینان نتیجہ اخذ کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ اگر پھر
بھی کوئی اطمینان بخش بات ذہن میں نہ آئے تو وہ دوسروں سے راہنمائی اور مدد کا
طلب ہو جاتا ہے۔ جب کوئی دوسرا اُس کی فکر اور سوچ کو ایسی راہ پہ ڈال دیتا ہے جس
پر چل کر وہ کسی اطمینان بخش حل تک پہنچ جاتا ہے تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے ورنہ یہ
سفر جاری رہتا ہے۔
اس
سوچ بچار اور غور و فکر کے دوران بعض اوقات انسان کو کچھ ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اُس کا اخذ کردہ
نتیجہ اس کو پہلے معلوم باتوں کے بالکل برعکس اور الٹ ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر وہ
الجھ کر رہ جاتا ہے۔ اس وقت وہ یا تو اپنے اخذ کردہ نتیجے کو غلط قرار دے کر خود
کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس ضمن میں مزید سوچ بچار سے باز آجاتا ہے۔
معدودے چند افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو ڈٹ
جاتے ہیں اور وہ پہلے سے معلوم نتائج اور اپنے ذہن میں آنے والے خیال دوتوں کو ہی
پرکھنے اور جانچنے میں جت جاتے ہیں اور اگر اُن کو یہ تسلی ہو جائے کہ اُن کے ذہن
میں آنے والا خیال یا نتیجہ ہی درست ہے تو وہ اپنے علم میں پہلے سے موجود بات کی
تصحیح کر لیتے ہیں ورنہ بصورت دیگر اُس کو رد کر دیتے ہیں۔
اپنے
ذہن میں آنے والے خیال کو جانچنے اور پرکھنے کے دو طریقے عام طور پر زیادہ معروف ہیں۔ ایک یہ کہ کسی صاحب علم اور
صائب الرائے دوت یا استاذ سے اپنے ذہن میں
آنے والے خیال کے بارے میں بات کی جائے یا اُس
موضوع پر تبادلہ خیال کر لیا جائے
اور اس خیال کو مختلف زاویوں سے خود ہی سوچ کر دیکھا جائے اور کسی تسلی بخش نتیجے
پر پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ ہاں یہ بات البتہ طے ہے کہ یہ دوسرا طریقہ علم میں
اضافے اور اس طریقہ ء کار کی مشق کرنے سے
ہی آتا ہے کیونکہ اس تمام عمل کے دوران متضاد اور باہم متصادم خیالات پہ کڑی نظر رکھی
جانی ضروری ہوتی ہے ورنہ یہ متصادم اور متضاد افکار انسان کو مجموعہ اضداد بنا کر
رکھ دیتے ہیں۔ جب انسان آپس میں متصادم اور متضاد خیالات و افکار کو آپس میں
باہم مر بو ط و ہم آہنگ نہیں کر پاتا تو
وہ ایسے الجھاؤ کا شکار ہو جاتا ہے کہ اُس کی شخصیت کی پوری دیوار ہی کج ہوکر رہ جاتی ہے۔
دیکھا
جائے تو کارخانہ قدرت میں ہر شے دو رخوں یا دو مخالف جنسوں کی صورت میں جلوہ گر
ہے۔ زمین اور آسمان ، زمین کے دو قطب
شمالی اور قطب جنوبی ، گرمی سردی، آگ اور برف، پانی اور پیاس ، نر اور مادہ، دن
اور رات، خالق اور مخلوق، اچھا اور بُرا، سیاہ اور سفید، نیکی اور بدی،ظاہر اور
باطن، کشش اور گریز، مادی اور غیر مادی وجود، انفس اور آفاق، خیر اور شر وغیرہ ان
دو رخوں کی چند ایک مثالیں ہیں۔ شاید اسی وجہ سے بعض مفکرین نے اس کائنات کو
مجموعہ اضداد ہی جانا ہے اور بتایا ہے کہ یہاں یہ دونوں مخالف اور متضاد رخ باہم
برسرِ پیکار ہیں اور کائنات انہی دونوں کے آپس میں برسرِ پیکار قوتوں کو اہر من
اور یزدان کے نام دیئے گئے۔
اسلام
وہ پہلا مذہب ہے جس نے بتایا کہ خالق ارض و سما ء نے اس کائنات کو دو رخوں کا حامل
بنایا ہے اور دونوں رخ اس کی تخلیق ہیں اور ان کی باہم آویزش سے جو کچھ بھی تخلیق
ہو رہا ہے اور دونوں رخ اس کی تخلیق ہیں اور ان کی باہم آویزش سے جو کچھ بھی
تخلیق ہو رہا ہے وہ اسی کے پروگرام کے ہو رہا ہے۔ اسی واسطے یہاں ثنویت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور مسلمانوں کو
توحید کے مرکزی نکتے سے بندھا رہنا چاہئے تاکہ وہ اپنے خالق کے قریب ہو سکیں۔
انسان
کے ارد گرد ہی نہیں خود انسان کے اپنے اندر بھی یہی دو رخ موجود ہیں۔ قرآن میں ان
دو رخوں کی طرف داہنے والے اور بائیں والے کہ کر متوجہ کیا گیا ہے۔ آجکل کے ماہرین نفسیات اس بات کو شعور اور لاشعور کے
ناموں سے متعارف کروا رہے ہیں۔ علمائے
باطن بتاتے ہیں کہ انسان کے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں۔ ایک وہ دماغ جو انسان کو
اسفل میں مقید اور محبوس رکھنا چاہتا ہے اور دوسرا وہ جو انسان کو اسفل سے نکال کر
اعلیٰ علیوں تک لے جانا چاہتا ہے۔ ایک دماغ کلاک وائز اور دوسرا انٹی کلاک وائز
حرکت کا حامل ہوتا ہے۔ ایک دماغ انسان کو زمان اور مکاں کی جکڑ بندیوں میں گرفتار
رکھتا ہے اور دوسرا انسان کو ٹائم اور اسپیس کی حدود سے آزاد کروا کر لامحدودیت
سے روشناس کرواتا ہے۔
اپنی
روزمرہ زندگی میں بھی ہم ان دونوں دماغوں کی کارکردگی سے باری باری مستفیض ہوتے
رہتے ہیں۔ جب ہم جاگ ہے ہوتے ہیں تو ہم بیداری کے حواس کو ایک دماغ کے ذریعے
استعمال کرتے ہیں اور جب ہم سو جاتے ہیں تو ہم انہی حواسوں کو خواب کے حواسوں کی
صورت دوسرے دماغ سے برت رہے ہوتے ہیں۔ کبھی ہم ایک کام کو کرنے کی شدید خواہش
محسوس کرتے ہیں اور کبھی اسی کام سے گریز کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ ایک وقت میں ایک
کام کو کرنا مضر خیال کیا جاتا ہے اور دوسرے وقت اُسی کام کو کرنا ضروری قرار دیا
جاتا ہے۔ ایک وقت میں ایک چیز پسندیدہ
کہلاتی ہے اور دوسرے وقت میں وہی بات ناگوار اور باعث کراہت ہو جاتی ہے۔ یہ سب
انہی دو دماغوں کے سبب ہوتا ہے۔
ان
باتوں کو اگر مناسب طور پر نہ سمجھا جائے تو انسان نہ صرف خود اضد اد کا شکار ہو
جاتا ہے بلکہ اس کو دوسروں کے اعمال اور افعال میں بھی تضاد نظر آتے ہیں۔ اس نا
سمجھی کے سبب وہ الٹے سیدے افکار کو حرزِ
جاں بنا کر غیر جانبدارانہ طرزِ فکر سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ غیر جانبدار
اندازِ نظر کو حاصل کرنے کے لئے یہ امر
ناگزیر ہے کہ انسان اپنے اور دوسروں کے اندر موجود اضداد کی حقیقت اور کنہ
تک پہنچ سکتا ہو۔ اس بات سے جہاں ایک طرف انسان کو غیر جانبدار ہونے میں مدد ملتی ہے وہاں دوسری طرف یہی بات غیر
جانبدار اندازِ فکر کو مزید جلا بخشنے کا باعث اور سبب بھی بنتی ہے۔
بچوں
پہ شفقت کرنے کی اہمیت اور ضرورت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے لیکن اس شفقت اور
محبت کا بے جا استعمال بچوں کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اسی طرح اس بات کو دلیل بنا
کر بچوں کو صرف شیر ہی کی نظر سے دیکھتے رہنے سے ان میں خوف اور ڈر پیدا کرکے اُن
کو خو د اعتمادی سے محروم کر دینا بھی درست نہیں مانا جاسکتا ہے۔ اس صورت حال کو
بہت دھیان سے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی بہت لاڈ پیار اور کبھی نہایت کڑا
روّیہ بھی کوئی مناسب بات نہیں۔ اس سے
بچوں میں ایسا روّیہ رکھنے والے کی بابت کوئی مثبت تاثر قائم نہیں ہوسکتا اس لئے
میانہ روی اور توازن کا روّیہ اپناتے ہوئے، متضاد روّیے کو اختیار کرنے سے بچنا
بہت ضروری ہو جاتا ہے۔
بلا
وجہ کبھی ہنسنا اور کبھی رونا دماغی صحت پہ شبہ کرنے کا جواز مانا جاتا ہے لیکن ایک بات پہ ایک وقت خوشی کا اظہار کرنا اور
دوسرے وقت اسی بات پہ ناراضگی اور غصے کا اظہار شخصیت اور افکار میں اضداد کی نشاندہی
کرتا ہے۔ اس قسم کے اضداد سے بچنے کے لئے ایسا روّیہ رکھنا چاہئے کہ اظہار
پسندیدگی اور نا پسندیدگی کی وجوہ بالکل واضح ہوں۔ جو بات آپ کے نزدیک درست ہو اس
کی بابت آپ کی رائے میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے۔ ذہن میں جس قدر ابہام ہوگا
شخصیت اور کردار میں اسی قدر تضادات محسوس ہوتے ہیں۔
انہی
اضداد کی ایک صور منافقت کہلاتی ہے۔ جو بات دل میں ہو اس کے برعکس کہنا اور کرنا
منافقت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ جو لوگ غور و فکر اور سوچ بچار کرنا جانتے ہیں
وہ اس موذی بیماری سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ قرآنِ حکیم میں نفاق پہ بہت سخت پکڑ کی
وعید اسی وجہ سے کی گئی ہے کہ قول دفعل کا
تضاد ایک طرف شخصیت اور کردار کی پوری عمارت ٹیڑھی کرنے کا باعث ہوتا ہے اور دوسری
طرف تمام معاشرتی خرابیاں بھی اسی کے سبب فروغ پاتی ہیں۔
آجکل
ہم سبب کہنے کو ایک اللہ کو مانتے ہیں اور کسی کو اُس کا شریک نہیں ٹھہراتے لیکن عملی
طور پر مال و دولت کو ہی کام بنانے والا جانتے ہیں اور اکثر کہتے ہیں کہ اگر پیسہ
نہیں تو کچھ نہیں یا یہ کہ اگر آدمی کے پاس پیسہ ہو تو وہ کیا نہیں کرسکتا۔ غور
کیا جائے اس قسم کی باتیں دولت پرستی کے ذیل میں ہی آتی ہیں۔ اب غور کرنے سے
معلوم ہوتا ہے کہ روپیہ پیسہ، مال و دولت وسائل کا حصہ تو ہوسکتے ہیں، ان سے کچھ
دیگر وسائل خریدے بھی جاسکتے ہیں لیکن کسی کام کو بنانے یا بگاڑنے کی طاقت ان میں
نہیں ہے۔ آپ ان سے مہنگی ترین دوا خرید سکتے ہیں لیکن صحت اور تندرستی نہیں
کیونکہ اگر صحت اور تندرستی بھی خریدی جاسکتی تو ہر امیر انسان صحت اور تندرستی کا شہکار ہوتا اور ہر غریب
آدمی اس نعمت سے محروم ہی نظر آتا۔ ا طرح غور کرنے سے ایسی بہت سی نعمتوں کی
فہرست تیار کی جاسکتی ہے جن کو روپیہ پیسہ کسی قیمت پہ نہیں خرید سکتے۔
اسی
طرح ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ ہمارے نبی کی تعلیمات یہ ہیں کہ تمام مسلمان آپس میں
بھائی بھائی ہیں۔ لیکن عملی طور پر ہر مسلمان دوسرے مسلمان سے خوفزدہ، ڈرا اور سہا
ہوا ہی۔ بھئی اگر سب آپس میں بھائی ہیں تو پھر یہ ایک دوسرے سے خوف اور ڈر کا کیا مقام۔ اب یا تو ڈرنے والا
مسلمان نہیں اور یا پھر ڈرانے والا اور یا پھر دونوں ہی۔ اور اگر دونوں ہی اپنے
اپنے دعویٰ اسلام میں کھرے اور مخلص ہیں تو ایک دوسرے کو بھائی ماننے اور جاننے
میں جو قباحتیں درپیش رہتی ان کو ہم کیوں دور نہیں کر پا رہے۔
جب
انسان اپنے کہنے اور کرنے کے تفاوات کو دور کرنے کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تو وہ نہ
صرف منافقت جیسی بیماری سے محفوظ ہوتا ہے بلکہ اس
کی شخصیت اور کردار میں ایک ایسا نکھار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے کہ وہ دوسروں
کے لئے باعثِ رشک اور قابل تقلید بن جاتا ہے۔ کہی اور کی جانے والی بات میں تفاوت
ایک حد تک تو انفرادی سطح تک رہتا ہے لیکن جب کسی طبقے، محکمے، گروہ اور معاشرے
میں اکثر افراد اس تفاوت اور تضاد کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں تو یہ اجتماعی صورت
اختیار کر لیتا ہے اور افراد کے ذہنوں کو اس حد تک اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ
کسی کو یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ وہ کیسے کیسے تضادات کا مجموعہ بن چکا ہے۔
اس
قسم کے تضادات کی مثالیں قدم قدم پر بکھری ملتی ہیں۔ امیر لوگ
سکون اور صحت کی تلاش میں رہنے کے باوجود ہر ایسا کام کر رہے ہوتے ہیں جو بے سکونی
تناؤ کا باعث ہوتا ہے اور ہر وہ چیز بطور خوراک استعمال کر رہے ہوتے ہیں جو خون
میں چکنائی کی مقدار کو بڑھانے کا سبب ہوتی ہے۔ کہنے کی حد تک انسان سکون کا طلب
گار ہوتا ہے لیکن سب سے زیادہ قیمت ایسی جگہوں کی لگاتا ہے جو انتہائی پر شور اور
پر ہنگام ہوں۔ اس بات کی طرف اگر انہیں متوجہ کیا بھی جائے تو کہا یہ جاتا ہے کہ
یہاں رونق زیادہ ہے اس لئے اس جگہ کی قیمت اتنی زیادہ ہے۔ اسی طرح اگر اُن کو یہ
بتایا جائے کہ خون میں چری سے نقصان ہوتا ہے تو محنت اور مشقت کرکے خون کی چربی کو
جلانے اور اس کو استعمال کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں ہلانے کی بجائے اپنی خوراک میں
تبدیلیاں اور کمی کرنے کا غلط طریقہ اپنا لیتے ہیں۔ اب اگر وہ چربی جسم میں موجود
رہتی ہے اور دماغ اور آنکھوں پر چڑھ جاتی ہے تو اس میں اچنبھا کیسا؟
اسی
طرح غریب لوگ اپنی غربت کا رونا روتے نہیں تھکتے، حکومت اور معاشرے کو بُرا بھلا
کہنے میں اپنی پوری توانائی صرف کر دیتے ہیں، لیکن معاش اور روزگار کو بہتر بنانے
کے درست انداز کو اختیار کرتے ہوئے، محنت اور جہد کی راہ اپنانے پر بالکل مائل
نہیں ہوتے۔ وقت کی کمی کا رونا رونے والوں کو اپنا وقت درست طور پر منظم (Manage)
کرنے کا شاذ ہی خیال آتا ہے۔ ٹی وی اور فلمیں
دیکھنے یا یار دوستوں کے ساتھ گھنٹوں کرنے
کا وقت نکال لیں گے لیکن کرنے کا کام یہ کہ کر کل پر ڈال دیں گے کہ میرے پاس وقت
ہی نہیں تھا۔ کہنے کو ہر آدمی دوسرے کو پوچھتا ہے کہ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو
بتائیں لیکن بات ماننے پر کم ہی آمادہ
ہوتا ہے چاہے اس بات کا فائدہ خود کو ہی کیوں نہ ہو رہا ہو۔
اگر
کوئی انسان مجموعہ اضداد بننے سے بچنا چاہتا ہو تو اس کے لئے سب سے زیادہ ضروری
بات یہ ہوتی ہے کہ وہ ان تضادات کو سمجھے۔ تضادات کو سمجھنے اور ان پر تنقید کرنے
میں جو فرق ہے اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کو سمجھے۔ ان پر تنقید کرنے کی روش
اپنانے کی بجائے ان سے بچنے کی راہ کو اپنائے اور جو کہے اس کو سمجھ کر کہ اور پھر جیسا کہے
ویسا ہی کرنے کی پالیسی کو اپنائے۔
Comments
Post a Comment