حرفِ آخر

حرفِ آخر
نہ مانا جائے تو کوئی بات بھی حرفِ آخر نہیں ہوتی اور اگر مان لیا جائے تو کوئی بھی بات جو دل میں اتر جائے وہی حرفِ اول بھی ہوجاتی ہے اور اسی کو حرف آخر بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں نظامِ تعلیم کی بابت جو کچھ کہا گیا ہے وہ اس نظام میں بہتری لانے کی اس خواہش کے تحت کہا گیا ہے جو ہم سب کی ایک مشترک آرزو ہے۔ یہ خواہش بھی کوئی نئی آرزو نہیں ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کی طرف گامزن رہنا چاہتی ہے۔ جو حاصل ہو جاتا ہے اس سے مزید بہتر کی طلب کرتی ہے۔ جب بچہ گود سے اتر کر گھٹنوں کے بل چلنا شروع کرتا ہے تو کیا ماں اور کیا باپ بلکہ بچہ خود بھی پیروں پہ کھڑا ہونے کی تگ ودو شروع کر دیتا ہے اور جب وہ قدم قدم چلنا سیکھ جاتا ہے تو وہ دوڑنے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔ آج ہمارا نظامِ تعلیم جس بھی مقام  پر ہے وہ اس مقام تک اچانک اور اتفاقی طور پر نہیں پہنچ گیا۔ اس کے لئے کی گئی انفرادی اور اجتماعی کوششیں نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔ قیام پاکستان کے وقت ملک میں ہائیر سیکنڈری سکولوں کی تعداد ۴۵۴ تھ جو اب پندرہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ سب کچھ یونہی نہیں ہوگیا۔ اس ترقی پہ ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر کریں وہ کم ہی ہوگا لیکن ساتھ ساتھ  مزید بہتر بنانے کے خواہش نہ کرنا یا اپنے نظامِ تعلیم کے معیار میں انحطاط کر مرض تشخیص ہونے کے بعد بھی اس کے لئے کوئی قدم نہ اٹھانا بہر حال کوئی قابل تعریف بات تسلیم نہیں کی جاسکتی۔
علامہ اقبال نے شکایت کی تھی کہ شاہین بچوں کو خاک بازی کا درس دیا جا رہا ہے۔ اس بات کو سمجھنے اور اس پہ کام کرنے کی ضرور تھی جو کہ چند عر چند وجوہات کی بنا پر نظر انداز ہوتی رہی۔ اگر ہم سچ مچ یہ چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسل صاحبِ نظر اور صائب الرائے ہو تو ہمیں ان کی ذہنی تربیت کی طرف متوجہ ہونا ہی پڑے گا۔ ذہنی  تربیت کا مفہوم ان کی برین واشنگ ہر گز نہیں لیا جانا چاہئے بلکہ اس کا مطلب ان میں غور و فکر اور سوچ بچار کی عادت کو ابھارنا اور ان میں موجود صلاحیتوں کو جلا دے کر اُن کو معاشرے کے قابل فخر سپوت بنانے کی کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ اس کتاب میں اسی زاویہء نظر کو پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
بچوں کی تربیت کے لئے اساتذہ کرام کی توجہ کو اس جہت میں مبذول کروانے کے ساتھ ساتھ حکومت وقت سے امید کی  جانی چاہئے کہ اس بارے میں وہ اپنا کردار بھر پور انداز میں ادا کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ اساتذہ  کرام کو درس و تدریس کی تربیت کا نظام بہتری کی بہت گنجائش رکھتا ہے۔ اس سمت میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے۔ اس لئے اس بارے میں بھی توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ والدین سے بڑھ کر بچوں کی بہتری کی خواہش اور بھلا کس کی ہوسکتی ہے لیکن ان کی آگاہی اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے اُن میں شعور کی بیداری کی اہمیت بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہونے کے باوجود بہت حد تک نظر انداز رہنے والے مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے۔
اب یہ سب کرنے کے کام ہیں۔ ان کے کئے جانے کی ضرورت کو سب تسلیم بھی کرتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرے کون؟والدین ؟ حکومت؟ اساتذہ؟  یا بچے خود؟ اس کا واحد جواب یہ ہے کہ یہ ہم سب کے کرنے  کے کام ہیں اور انہیں ہم نے ہی سرانجام دینا ہے۔ بچوں کی تربیت کا معاملہ سب کا سانجھا معاملہ مانتے ہوئے ہوم سب کا اپنی اپنی ہمت اور بساط کے مطابق اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہی ہوگا۔ یہ ذمہ داری تنہا والدین  کی بھی نہیں اور نہ ہی صرف اساتذہ اور حکومت کی ہوسکتی ہے ۔ ہمیں بچوں کو یہ بات واشگاف بتانی چاہئے کہ جب تک وہ خود اپنی تربیت کروانے پہ آمادہ نہیں ہوں گے  دنیا کی کوئی طاقت ان کی کوئی مدد نہیں کرسکے گی۔ بچوں میں اپنی تربیت کروانے کا شعور اور ذوق والدین پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو بچے اپنی تربیت کر واہی لیں گے۔ ایسے طلباء جو اپنی تربیت کروانے کا شعور رکھتے ہیں وہ اُن اساتذہ کو کھوج ہی لیا کرتے ہیں جو ان کی تربیت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اساتذہ کرام کو اپنی اہلیت اور قابلیت کو بہتر بنانے کا چسکہ پڑ جائے تو اُن کو اس فن میں طاق ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جہاں وہ لکھنا اور پڑھنا سکھا رہے ہیں وہاں وہ بچوں کی ایسی تربیت بھی کرسکتے ہیں کہ اُن میں ذوقِ مطالعہ ہی نہیں بلکہ غور و فکر اور ریسرچ اور دریافت کا جذبہ بھی ابھر کر سمانے آئے۔ جب ایسے تربیت یافتہ ذہن اور باشعور افراد معاشرے میں اپنا کردار ادا کریں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ  ہم کسی بھی ترقی یا فتہ قوم یا ملک سے مقابلے کرنے میں خجالت محسوس کریں۔

آخر میں اس امر کا تذکرہ نہ کرنا نا شکری ہوگی کہ یہ کتاب لکھنے کی قابلیت اللہ تعالیٰ کی عطا بصورتِ  استا ذی و مرشدی حضور خواجہ شمس الدین عظیمیؒ ؒ کا فیضان ہے۔ یہ اُن کی تربیت کا ہی اعجاز ہے کہ انہوں نے اس فقیر کے ذہن کی خفتہ صلاحیتوں کو مہمیز کیا۔ اُن کی صحبت میں رہ کر جو کچھ یہ خاکسار اخذ کر سکا اس کی روشنی میں اپنی سمجھ کے مطابق نظامِ تعلیم کی اصلاح کی خواہش کے زیرِ اثر عرض کر دیا ہے۔ اس کام میں کو تاہیاں رہ گئی ہیں اُن کی بابت فقط اتنا ہی عرض ہے کہ انسان کے ہر کام میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور پھر جب تک تجویز کی گئی بات پر عمل نہ ہو اس کے نتائج اور فوائد کے بارے میں کی جانے والی بات اندازے ہی کے زمرے میں آتی ہے۔ محترم قارئین سے درخواست ہے کہ وہ اپنے ذہن رسا سے کام لے کر معیار تعلیم کو بہتر کرنے کے عملی اقدامات کو اپنائیں۔

عملی منصوبہ بندی

عملی منصوبہ بندی
جب ہم جانوروں کی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اُن کے یہاں پانچ سالہ یا دس سالہ منصوبے نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بہت ہو تو کچھ جانوروں میں ایک موسم  سے دوسرے موسم تک خوراک ذخیرہ کرنے کا ایک جبلی نظام ضرور دیکھنے میں آتا ہے ۔ وہ گرم موسم میں ایک جبلی تقاضے کے تحت اپنا فالتو وقت سرد  موسم کے لئے خوراک جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن یہ حرکت بھی لے دے کے چیونٹی، شہد کی مکھی اور گلہری جیسے چھوٹے جانوروں ہی میں نظر آتی ہے۔ کبھی کسی اور چو پائے،  درندے اور پرندے کو یہ کام کرتے شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔ وہ آج بلکہ ابھی اور اسی وقت کی حد تک ہی کی سوچ کا حامل ہوتے ہیں۔ ان میں اتنا وژن  نہیں ہوتا کہ وہ اپنی حیوانی سطح سے اُوپر اٹھ کر آنے والے وقتوں کی فکر کر سکیں۔
انسان نے جہاں اور بہت سی باتیں جانوروں سے اخذ کی ہیں وہاں اس نے ایڈ ہاک ازم بھی شاید انہی سے سیکھا ہے۔ آج گزارہ کرو یا آج کا وقت تو گزارو، کل کی کل دیکھی جائے گی۔ اس پالیسی پہ عمل پیرا لوگوں کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ وہ توّکل اور اللہ کے بھرو سے پر زندگی کا سفر طے کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اِس خوش عقیدگی میں مبتلا ہیں کہ کل کی فکر کرنا درویشی کی شان کے خلاف ہے۔ اگر ہم نے فکرِ فراد کا علَم بلند کیا تو اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہو جائیں گے۔ ایک طرف یہ سوچ انفرادی سطح پر افراد کو مفلوج کرتی ہے اور دوسری طرف اجتماعی سطح پر قوموں کو فکر فردا کے گوہر سے محروم کرتی ہے۔ اس سوچ کے حامی اور موید نہ جانے اس بات پہ دھیان کیوں نہیں دے پاتے کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں حضرت یوسفؑ کے قصے میں کتنی شرح و بسط کے ساتھ اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ عزیزِ مصر کو اللہ نے ایک خواب کے ذریعے آنے والے چودہ سالوں میں پہلے افراطِ رزق اور پھر قحط کی اطلاع دی۔ اس اطلاع کی تشریح کے لئے حضرت یوسفؑ جیسے صاحبِ علم نبی کو مامور کیا۔ اب حضرت یوسفؑ نے   تو ایسا ویسا کچھ نہیں کہا کہ ہمیں کل کی کوئی فکر نہیں کرنا چاہئے، کل کی کل دیکھیں گے یا یہ کہ کل کا اللہ مالک ہے۔ بلکہ اُنہوں نے آنے والے چودہ سالوں کے لئے ایسی جامع منصوبہ بندی کی بات فرمائی کہ عزیزِ  مصر عشَ عشَ کر اٹھا اور اُس  نے اُنہی کو اِس منصوبے کی تکمیل اور عمل درآمد کی وزارت کا ذمہ سونپ دیا۔
حضرت یوسفؑ نے ایسا انتظام کیا کہ جب خوب بارشیں ہوئیں اور اناج کی فراوانی ہوئی تو انہوں نے اس اناج کی راشن بندی کی۔ جتنا ضرورت سے زیادہ تھا اس کو محفوظ کرنے کا اہتمام کیا۔ ایسے سٹور ہاؤس تعمیر کئے  جن میں رکھا جانے والا غلہ سالوں سال بھی خراب نہ ہو سکے۔  ان گوداموں کو ہم آج بھی اہرامِ مصر کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اگر وہ بھی ایڈ ہاک ازم کا درس دیتے اس کو تو کل اور اللہ پر بھروسہ قرار دے کر جب اناج کی فراوانی ہوتی،  خوب کھاتے اور جب قحط سالی ہوتی تو فاقوں کے ہاتھوں چپ چاپ موت کی گود میں جا بیٹھتے اور اللہ تعالیٰ اس بات کا تذکرہ ان کی ایک خوبی کے طور پر کرتے تو ہمیں مان لینا چاہئے تھا کہ فکرِ فردا کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور صفتِ انسانی یہی ہے کہ وہ خود کو محض  آج کے دن تک محدود رکھے۔  لیکن اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ اس قدر تفصیل سے اس بات کو واضح فرما رہے ہیں کہ آنے والوں اچھے اور بُرے وقتوں کے لئے تیاری کرنا اصل میں صفت ِ انسانی ہے اور تمام انبیاء نے دور اندیشی اور بصیرت کا مظاہرہ فرماتے ہوئے فکرا مروز و فردا کا نہایت متوازن انداز اپنایا، ہمارے لئے اس بات کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ ہم خود کو فکرِ امروز تک ہی محدود کر لیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ محض آنے والے کل کی فکر میں ہلکان ہونے اور اندیشہ فردا ہی کا شکار رہنے  کی بھی ممانعت ہے۔ اس بات کی کوئی گنجائش نہیں دی گئی ہے کہ انسان آنے والے بُرے وقتوں کے نام پر مال و دولت کے انبار ہی لگاتا چلا جائے۔ لیکن بہر حال اس کی بھی ممانعت ہی کی گئی ہے کہ انسان آئندہ کی  فکر ہی نہ کرے۔ بلکہ اس بات کا حکم ہی ملتا ہے کہ اللہ جو رزق دیتا ہے اس کو خرچ کیا جائے اور اس  کو مال و دولت کی صورت جمع  کرنے والوں کے لئے   عذاب الیم کی خبر دی گئی  ہے۔  مناسب ہوگا کہ یہاں اس بات کا جائزہ لے لیا جائے کہ قرآن حکیم میں ایک طرف تو مال و دولت  جمع نہ کرنے کا حکم ہے اور دوسری طرف آنے والے اچھے وقتوں کو لانے کی تیاری اور کوشش کرنے اور بُرے وقتوں  سے بچاؤ کی تدبیر اور تیاری کی جو ترغیب اور حکم دیا گیا ہے، ان دونوں باتوں میں وہ کون سی قدرِ مشترک ہے جس کو دیکھنے میں نا کام رہتے ہیں اور اس ہی وجہ سے ہم یا تو صرف مال و دولت جمع کرنے  کے چکر میں پڑ جاتے ہیں اور یا پھر گھڑے تک بھی پھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
وہ قدرِ مشترک توازن اور اعتدال کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ انسان جب اپنی روح کے اعلیٰ درجات کی تحریکات کو سمجھنے کا وقوف پیدا کر لیتا ہے تو  وہ ایسے کام کرتا ہے جن میں اُس کی صلاحیتوں اور قوتوں کا استعمال مثبت اور تعمیری انداز میں ہوتا ہے اور وہ ایسے کاموں سے بچتا ہے جن میں اس کی صلاحیتوں اور قوتوں کا زیاں ہو یا وہ تخریبی انداز میں استعمال ہوں۔ اندیشہ فردا اور فکرِ فردا میں یہی فرق ہے کہ آنے والی کل اور  مستقبل کا خوف سر پر سوار رہتا ہے یا استقبالِ مستقبل کی تیاری کی جارہی  ہے۔ اندیشہ فردا میں مستقبل خوف بن جاتا ہے اور فکرِ فردا اس خوف سے نجات کا سامان کرواتی ہے۔ مال و دولت جمع کرنا حرص اور لالچ کے تحت ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کی عطا  کردہ صلاحیتوں کا منفی استعمال ہونے کے ناتے قال مذمت اور قابلِ تعزیر ہو جاتا ہے اور کسی کام اور ضرورت کو پورا  کرنے، کسی مشن کی تکمیل کی خاطر ہو تو یہی کام صلاحیتوں کا مثبت استعمال ہونے کے سبب قابلِ  انعام و جزاء بن جاتا ہے۔
جب انسان روحِ حیوانی کی تحریکات کے زیرِ اثر زندگی بسر کر رہا ہو تو وہ جانوروں کی طرح زندگی کے دن پورے کر رہا ہوتا ہے اور جب انسان روحِ انسانی کے تحت زندگی گزار نا سیکھ لیتا ہے تو وہ جانوروں کی سطح سے بلند ہوکر اپنی زندگی کو کسی نہ کسی مقصد کی تکمیل میں صرف کرنا سعادت سمجھتا ہے۔ اور جو لوگ روحِ اعظم کی تحریکات سے وابستہ ہو جاتے ہیں وہ ایسے کاموں کی تکمیل میں لگ جاتے ہیں جو اُن کی تخلیق کا مقصد ہوتا ہے۔ ایک ایسا مقصد جو خالقِ کائنات نے ان کے لئے مقدور کیا ہوتا ہے۔
روحِ حیوانی کی تحریکات تک محدود رہنے والے ذہن کو روحِ انسانی کی سطح کی تحریکات سمجھنے میں اُتنی ہی دشواری ہوتی ہے جتنی ایک پانچ سالہ بچے کو کسی فلسفیانہ نظریہ کی فہم میں ہوسکتی ہے۔ جب ذہن انسانی میں تعلیم و تربیت کے زیر اثر وسعت اور پھیلاؤ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ روحِ انسانی کی تحریکات کو ایسے ہی قبول کرتا ہے جیسے جانور روحِ حیوانی کی تحریکات کو قبول کرتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کے پورے نظام کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ انسان کا ذہن نشو و نما پا کر پھیلے اور اتنی وسعت کا حامل ہو جائے کہ وہ پہلے تو اِس دنیا میں سکون آشنا زندگی کو اپنا ۓ اور پھر اِس سکون اور طمانیت کی دولت  سے اِتنا مالا مال ہو جائے کہ جب وہ اپنی زندگی کے اگلے مرحلے پر اگلے جہاں منتقل ہو تو وہ یہ دولت وہاں اپنے ہمراہ پائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے کس قدر جامع منصوبہ بندی درکار ہوسکتی ہے، اس کا اندازہ کرنا کچھ بھی تو دشوار نہیں۔ ایک مضمون لکھنے کے لئے بھی ذہن کو منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے اور ایک پروجیکٹ کی تکمیل  بھی تبھی ممکن ہوا کرتی ہے  جب اُس کے لئے کوئی مناسب منصوبہ سازی کی گئی ہو تو۔  پھر یہ کس طرح ممکن ہے اس جہاں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اگلے جہاں کی زندگی کو درست اور بہتر بنانے جیسا اہم اور بڑا کام محض اتفاقی طور پر ہی درست طور پر انجام پا جائے؟
حضرت یوسفؑ نے جس طرح سے آنے والے دنوں میں فراوانی کو سنبھالنے کا انتظام کیا وہ کوئی اتفاق نہیں تھا۔ انہوں نے اس کے لئے منصوبہ  بندی کی۔ غلہ ذخیرہ کرنے کے لئے ایسے گودام تعمیر کروائے جن میں غلہ  گھن لگنے سے محفوظ رہے، اس کو کیڑا نہ لگے، جانور خراب نہ کر سکیں اور وہ چوری بھی نہ کیا جا سکے۔ یہ اُن کی منصوبہ سازی کا ہی کمال تھا کہ اُس طویل قحط میں انہوں نے نہ صرف اپنے ملک کے لوگوں بلکہ ارد گرد ممالک کے لوگوں کی غذائی ضرورت کو بھی پورا کیا۔ اس کا انعام اللہ نے انہیں کیا دیا؟ اس دنیا میں نام ور  بھی ہوئے، انہیں اپنے بچھڑے بھائی اور باپ بھی ملا، اُن کی سلطنت کو استحکام اور پائیداری ملی اور ان سب کا حاصل یہ ہوا کہ وہ نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں  کے لئے بھی سکون اور چین کا سبب بن گئے۔
ہمیں اپنے بچوں میں یہ شعور اُجاگر کرنے کے لئے بہت زیادہ تگ و دو کرنا چاہئے کہ وہ ہر کام باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کرنے کی عادت اپنائیں۔ بچوں سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ وہ بڑے ہوکر کیا بنیں گے اور وہ جواب میں کہتے ہیں کہ وہ بڑے ہوکر ڈاکٹر، انجنیئر یا اعلیٰ سرکاری افسر بنیں گے تو اس بات کو سمجھانے کے لئے اُن سے یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ وہ ایسا کیسے کریں گے؟ محض کہ دینے سے تو ڈاکٹر ، انجنیئر یا افسر بننے سے رہے۔ ہمیں ان کی یہ مدد کرنی چاہئے کہ جب وہ کسی کام کو سرانجام دینے کا قصد کریں تو ہم اس کام کی انجام دہی میں درپیش مراحل اور اس کام کی تکمیل میں درکار وسائل کی بابت  ان سے ضرور بات کریں۔ انہیں بتائیں کہ کسی بھی کام کو اچھی طرح سرانجام دینے کے لئے ضروری ہوتا  ہے کہ اُس کام کے مختلف مراحل ذہن میں طے کر لئے جائیں۔ کون سا کام پہلے کرنا چاہئے اور  کون سا کام بعد میں۔ کسی بھی کام کے تمام مراحل کو ایک ساتھ شروع کرنے میں کیا قباحتیں ہوسکتی ہیں اور اس کو مرحلہ وار طے کرنے میں کیا سہولتیں ہوں گی یہ بات ضرور واضح ہونی چاہئے۔ کس مرحلے پہ کن وسائل کی کس مقدار میں ضرورت ہوگی اور اس کا انتظام کیسے ہوگا، یہ بات بھی ضرور سوچ لینی چاہئے۔
منصوبہ سازی بنیادی طور پر دو قسم کی ہو سکتی ہے۔ ایک طویل مدت کے لئے اور دوسرے مختصر وقت کے لئے۔ حضرت یوسفؑ کے واقعے میں انہوں نے جو منصوبہ بندی کی وہ چودہ سال کے لئے تھی۔ اس منصوبے کے دو حصے تھے۔ پہلے ساتھ سال انہوں نے فراوانی کی پیشین گوئی کے مطابق تیاری کی۔ زیادہ سے زیادہ زمین کو زیرِ کاشت لائے۔ اس سے حاصل ہونے والے اناج کو سٹور کرنے کے لئے مخصوص ساخت کے گودام تعمیر کروائے۔ منصوبے کے دوسرے حصے میں انہوں نے راشن بندی کے قانون نافذ کئے۔ ہر ایک کو ناپ تول کر غلہ دیا جانا طے کیا اور اس کے لئے ایک لگا بندھا طریقہ مقرر فرما دیا۔ اُس طریقے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا انتظام کرنے کو انہوں نے اس پورے کام کی نگرانی خود فرمائی۔ یہ سب باتیں انہوں نے اُس منصوبے کو سوچتے وقت ہی طے کر لی تھیں۔
اس ضمن میں خاص طور پر نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ حضرت یوسفؑ نے سب کچھ کیوں اورکس کے لئے کیا؟ کیا انہوں  نے یہ سب کچھ اپنے نام و نمود اور ذاتی مفاد کی خاطر کیا یا ان کی اس تمام کاوشِ فکر کے پیچھے اجتماعی فائدہ اور رضائے الٰہی اُن کا مطمعِ نظر تھا؟
بچوں کو جانوروں کی مثالیں اور کہانیاں سنانے کی بجائے اگر ہم ان کے سامنے انبیاء کی مثالیں اور کہانیاں بیان کرکے ان میں پنہاں حکمتوں کو ان پر واضح کرنے کی حکمت عملی اپنائیں گے تو وہ چوہوں سے مدد کی توقع ، لومڑی کی چالاکی، کوئے کی عیاری اور بھیڑیے کا ظلم سیکھنے کی بجائے انبیاء کی طرزِ فکر سے روشناس ہوتے چلے جائیں گے۔ انسان نے جانوروں سے جو کچھ اور جتنا کچھ سیکھنا تھا اس نے  سیکھ لیا ہے اب اگر ا س کو جانوروں کی سطح سے بلند ہو کر انسانیت کی سطح پر لانا ہے تو ہمیں اس چلن کو تبدیل کرکے اپنی توجہ نوعِ انسانی کے جو ہر خالص انبیاء علیھم السلام   کی  طرزِ فکر کو اپنانے کی طرف مبذول کرنا ہی ہوگی ورنہ تو ہم اتنے ترقی یافتہ  تو ہو ہی چکے  ہیں کہ آج ہم جانوروں کو کھا رہے ہیں اور جانور ہمیں نہیں کھا سکتے۔
منصوبہ بندی کے ضمن میں اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اپنے وقت کا درست استعمال بھی منصوبہ بندی ہی کے ذیل میں آتا ہے۔ یوں تو ٹائم مینجمنٹ ایک ایسا موضوع ہے جس کی بابت ہر شخص ایک جدا نکتہِ نظر کا حامل ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے وقت کا استعمال اپنے ذہن کے مطابق کرتا ہے اور اُسی کو درست گردانتا ہے۔ اس کی ایک مثال ہم گھر میں اُس وقت دیکھ سکتے ہیں جب بچے کھیلنا اور ماں باپ انہیں پڑھائی کی طرف راغب دیکھنا چاہتے ہیں۔ بچو ں کو کھیل کود میں وقت صرف کرنا ہی اپنے وقت کا درست استعمال نظر آتا ہے جبکہ والدین کے نزدیک اُن کے وقت کا درست استعمال اُس کو پڑھائی میں صرف کرنا ہی ہوسکتا ہے۔
اس اختلافی اندازِ  نظر سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ٹائم مینجمنٹ کا اصل مفہوم یہ بنتا ہے کہ محدود وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کیسے کئے جاسکتے ہیں اور ایک وقت میں ایک کام کی مقدار کو کیونکر بڑھایا جاسکتا ہے۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ کام کرنا ہوتا ہے اُس کو کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن اکثر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ایسے موقعوں پر لوگ گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہوکر کچھ بھی نہیں دیتا یا وہ  کچھ بھی  کر نہیں پاتے۔ اس کے برعکس معدودے چند لوگ اُن سب کو مو ں کا اُسی محدود وقت میں مکمل کرکے بھی دکھا دیتے ہیں۔ اب اگر اس بات پہ غور کیا جائے کہ وہ ایسا کیسے کر لیتے ہیں اور دوسرے ویسا کیوں نہیں کر پاتے تو ہمیں یہ ماننا ہی پڑے گا کہ یا تو وہ اس وقت   اپنی  قوتِ کار میں اضافہ کر لیتے ہیں اور یا پھر ان کے کام کرنے کی  رفتار اُس وقت بڑھ جاتی ہے۔
سکول اور کالج کے اکثر طلباء ہوم ورک نہ کرنے کا یہی عذر پیش کرتے ہیں کہ اُن کو کئی مضامین کا ہوم ورک ملا تھا اس لئے وہ ہوم ورک مکمل نہیں کر پائے ہیں یا یہ کہ مہمان آگئے تھے اور گھر کے دیگر کاموں کی مصروفیت کے باعث اپنا ہوم ورک مکمل نہیں کر سکے۔ ہمارے یہاں اس موقعےپر ٹائم کو مینج کرنا سکھانے کے لئے شاید ہی کبھی کسی نے توجہ دی ہو۔ حالانکہ جب بچہ اس مشکل کا اظہار کر رہا ہو کہ وہ  اپنے  وقت کو درست انداز میں استعمال نہیں کر پایا تو ا سے بہتر موقع اور کون سا ہوسکتا ہے جب اُس کو کم وقت میں زیادہ کام کرنا کا ہنر تعلیم کیا جائے۔ کم وقت میں زیادہ کام کرنا اور کام کو جلدی سے مکمل کر لینا ایک ہی بات ہے اس لئے کام کو تیز رفتاری  سے کرنے کی ترغیب دینا ضروری ہو جاتا ہے۔
اس بات کو اساتذہ کرام اپنے تلامذہ سے کچھ یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ کسی بھی کام کو تیز رفتاری سے کرنے کے لئے اپنے ذہن کی رفتار کو بڑھانا پڑتا ہے، جس روز آپ اپنے ذہن کی رفتار کو بڑھا لیں گے، آپ ایسے عذر پیش کرنے سے بچ جائیں گے جن کو سننے والا یہ جان لیتا ہو کہ آپ  کا ذہن تھکا ہوا ہے اور تیز رفتاری کی صلاحیت سے محروم ہے۔ ذہنی رفتار میں اضافے کا ایک طریقہ جو جدید نفسیات بتاتی ہے وہ یہ   ہے کہ انسان خود پہ اس کام کی اہمیت سوار کر لے تو انسان خود کو ایک تناؤ میں محسوس کرتا ہے اور اس تناؤ کی حالت میں اُس کا ذہن برق رفتاری سے  کام  کرتا ہے۔ یہ طریقہ ہوسکتا ہے کہ ذہنی طور پر بہت توانا لوگوں کے لئے تو  مناسب ہو لیکن عام طور پر اس طریقے کو برتنے کے نتائج اعصابی تناؤ کی ایک مستقل کیفیت کی صورت میں بھی نکل سکتے ہیں اور اعصابی نظام میں مسلسل تناؤ کبھی کبھار نروس بریک  ڈاؤن کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ اس لئے اس طریقہ کو کوئی محفوظ طریقہ تسلیم نہیں کیا  جاسکتا۔
ذہن کی قوت کار اور اسکی کارکردگی کی رفتار بڑھانے کا مناسب اور محفوظ طریقہ یہی بنتا ہے کہ ذہن کی سکت اور رفتار میں اضافے کی طرف توجہ دی جائے۔ کسی کام  کو پوری توجہ، یکسوئی اور دلچسپی سے کرنے سے ذہن کی سکت اور رفتارِ کارکردگی میں خود بخود اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا ایک اور مجرّب طریقہ یہ ہے کہ ذہن کی سکت اور رفتار  بڑھانے کی کوئی ایک آدھ مشق علیحدہ سے تجویز کی جائے۔ اس مشق کو کلاس  میں اجتماعی طور پر بھی کروایا جاسکتا ہے اور انفرادی طور پر، اپنے اپنے گھر میں، سونے سے پیشتر کرنے کی بھی ہدایت کی جاسکتی ہے۔ تجویز کی جانے والی مشق ایسی ہونی چاہئے کہ اس کے نتیجے میں ذہن کی اچھل کود کم ہو سکے۔ جب ذہن کی اچھل کود کم ہو جاتی ہے تو توجہ کو ایک نکتے پر مرکوز کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے اور جب توجہ کسی ایک نکتے پر مرتکز ہو جاتی ہے تو انسان میں یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے۔ یکسوئی پیدا ہو جائے تو ذہن کی رفتار اور کارکردگی دونوں بہت بڑھ سکتی ہیں۔
اساتذہ کرام ایسی مشقوں کی بابت اپنے علم میں جتنا اضافہ کر سکیں وہ ان کے اپنے اور ان کے تلامذہ دونوں کے لئے بہت سود مند ہوسکتا ہے۔ صوفیاء کرام کے  مراقبہ جات سے لے کر یوگا کی دھیان گیان کی مشقوں تک اور جدید نفسیات کی فری رائٹنگ اور تلازم خیال سے لے کر مابعد النفسیاتی علوم کی ارتکازِ توجہ کی مشقوں تک کے ذخیرے میں بہت سی مشقیں ایسی ہیں جنہیں ان مقاصد کے لئے بہت محفوظ طریقے سے آزمایا جاسکتا ہے۔
ذہن میں فاسد، رد کئے ہوئے اور معاشرے کے خوف سے دبائے گئے خیالات، جن کو ہم اپنی طرف سے بھول کے خانے میں ڈال چکے ہوتے ہیں وہ تمام خیالات ذہن کو غیر محسوس طور پر اپنی گرفت میں لئے رہتے ہیں۔ ان کی موجودگی کو ظاہر ہونے سے روکنے میں ذہن کی بہت سی توانائی بلا وجہ صرف ہوتی رہتی ہے۔ اس قسم کے خیالات کے ذہن میں رہنے سے ذہن کئی طرح کے دباؤ محسوس کرتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذہن اپنی رفتار اور بہتر کارکردگی سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کا ایک حل طلباء کو فری رائٹنگ کی مشق کرنا تجویز کرکے بھی کیا جاسکتا ہے۔ یوں تو ماہرینِ نفسیات اس مشق کو ایسے مریضوں پہ آزماتے ہیں جو اعصابی امراض کا شکار ہوں لیکن اس مشق کا ایک فائدہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس کے کرنے سے ذہن فاسد خیالات سے پاک ہو جاتا ہے، ذہن کی قوتِ ارتکاز میں اضافہ ہو جاتا ہے، بہت سی نفسیاتی گرہیں  خود بخود تحلیل ہو جاتی ہیں، قوتِ ارادی اور قوتِ فیصلہ میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ذہن کے اندر موجود رکاوٹیں ختم ہونے سے اس کی رفتار اور کارکردگی بڑھنے لگتی ہے۔
اس مشق کا طریقہ بھی کچھ زیادہ دشوار نہیں ہے۔ ایک وقت مقرر کرکے تنہائی میں کاغذ اور قلم لے کر بیٹھ جائیں۔ اور جو ذہن میں آئے اس کو کاغذ پر منتقل کرتے   جائیں۔ ایک آدھے گھنٹے تک بلا سوچے سمجھے قلم برداشتہ قلم کو کاغذ پر چلاتے رہنا ہے۔ اگر ذہن میں کوئی با ربط جملہ نہیں بن رہا ہے تو بے ربط جملے اور الفاظ ہی لکھتے جائیں اور اگر کوئی لفظ بھی ذہن میں نہ آئے تو جیسے جی میں آئے کاغذ پر لکیریں ہی لگاتے رہیں۔ یہ کام پورے آدھ گھنٹے تک روزانہ مقررہ وقت پر باقاعدگی سے اکیس دن تک کرنے سے مطلوبہ فوائد حاصل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ اس  مشق کے دوران لکھا جائے وہ کسی کو دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اکیس دن کے بعد اس ڈائری یا ان کاغذات کو جو اس دوران لکھے گئے ہیں، خود پڑھ لیں اور انہیں ضائع کر دیں۔
تین ہفتوں کی اس مشق کے بعد اس مشق سے حاصل ہونے والے فوائد پائیدار بنانے  کے لئے اگر یہ مشق مزید شروع کروا دی جائے تو بہت مفید  اثرات  مرتب ہوتے ہیں۔ اس دوسری مشق کا طریقہ یہ ہے کہ اس مشق کو کرنے والا وقتِ مقررہ  پر کسی پرسکون جگہ پر آرام دہ نشست میں بیٹھ جاتا ہے۔ چند ایک بار گہرے سانس آہستہ آہستہ لینے کے بعد آنکھیں بند کی جاتی ہیں اور یہ تصوّر کیا جاتا ہے کہ آسمان سے نیلے رنگ کی ایک روشن شعاع میرے سر پر پڑ رہی ہے اور یہ نیلی روشنی سر میں جذب ہو ر ہی ہے۔ سر میں جذب ہوتے ہوتے کا سہِ  سر اس روشنی سے بھر گیا ہے۔ اس کے بعد یہ نیلے رنگ کی روشنی رفتہ رفتہ پورے جسم میں سرائیت کر گئی ہے۔ جب پورا جسم اس روشنی سے معمور ہو جائے تو یہ روشنی پیروں کے راستے زمین ارتھ ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اس تصوّر میں بیس منٹ سے لیکر آدھ گھنٹے تک کا وقت صرف کرنا بہت کافی رہتا ہے۔ ہر رو صرف آدھ گھنٹہ رات سونے سے پہلے اس مشق کو باقاعدگی سے کرنے والے افراد کی قوتِ حافظہ اور قوتِ ارادی دونوں میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ذہن کی کارکردگی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس مشق کو سالوں کیا جائے تو بھی کوئی مضر اثرات نہیں ہوتے۔ اس مشق کو زندگی میں کم از کم چھ ماہ تک ضرور کرنا چاہئے۔ مراقبہ ٹیکنالوجی کو عوام میں متعارف کروانے اور اس کو پوری دنیا میں پھیلانے کی جد و جہد کرنے والے معروف روحانی سکالر اور بہاؤالدین  ذکریا یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر جناب خواجہ شمس الدین عظیمیؒ صاحب کا کہنا ہے کہ اس مشق کو باقاعدگی سے کرنے والے کے ذہن کے خلیات  میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت ہوتی رہتی ہے۔ انسان ہر وقت ذہنی طور پر  ترو تازہ اور چُست  و ہشیار رہتا ہے۔ ذہنی خلفشار سے نجات پا جاتا ہے اور نفسیاتی الجھنوں سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
سکول اور کالج میں طلباء کی جسمانی صحت کے لئے ورزش اور کھیل کود کا باقاعدہ اِہتمام کیا جاتا ہے اور اس کے لئے باقاعدہ نظام الاوقات مقرر ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی یعنی فزیکل ٹرینگ انسٹر کٹر  بھی تعینات کئے جاتے ہیں لیکن جہاں تک طلباء کی ذہنی صحت اور تندرستی کا تعلق ہے اس کے لئے نہ تو کوئی ورزش تجویز کی جاتی ہے، نہ ہی اس کے لئے کوئی پیریڈ مختص ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ماہر ِنفسیات یا مائنڈ ٹریننگ انسٹر کٹر نام کا کوئی عہدہ بنانے کا کسی کو کبھی کوئی خیال ہی آیا ہے۔ کیوں ؟ اس کا جواب شاید  یہی دیا جائے کہ ہم اپنے جسم کی حد تک ہی سوچ سکتے ہیں۔ جب کبھی ہم اپنے ذہن کی حد تک سوچنے کی اہلیت پیدا کرلیں گے  تو ہم لامحالہ اپنے طلباء کے ذہن کی ٹرینگ کا بھی بندوبست کر ہی لیں گے۔
اِس ضمن میں یہ بات نہایت قابلِ توجہ ہے کہ انسانی ذہن جسم کے تابع ہر گز   نہیں ہے، بلکہ جسم انسانی ذہن کے تابع ہوتا ہے اور ذہن جسم پہ اس حد تک حاکم اور نگران ہوتا ہے کہ جسم کی نشوونما سے لے کر تمام حرکات و سکنات  اسی پہ منحصر ہوتی ہیں۔ اس لئے اگر ذہن توانا اور طاقتور ہو تو جسم بھی اتنی ہی قوت اور طاقت کا حامل ہوگا۔ اس بات کی وضاحت کو ایک صوفی درویش جن کا نام تاریخ کی کتب میں ابراہیم مذکور ہے کا واقعہ نہایت سبق آموز ہوسکتا ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ چنگیز اور ہلاکو  کے بعد  قبلائی خان نامی منگول تا تاریوں کا سربراہ بنا۔ کسی نے اس کے سامنے ابراہیم کا ذکر کیا کہ وہ نہایت اعلیٰ شخصیت اور کردار کے حامل بزرگ ہیں۔ اُس دور میں مسلمانوں کے کچلے جانے کے بعد منگول اُن کی بابت جس قسم کی رائے رکھ سکتے تھے اُسی قسم کی رائے قبلائی خان کی بھی تھی۔ بہر حال اُس نے اُن کواپنے دربار میں طلب کر لیا۔ ابراہیم آئے  تو قبلائی خان موجود نہ تھا۔ ان کو انتظار کا کہا گیا۔ جب قبلائی خان آیا۔ گھوڑے سے اترا تو اس کا کتا اپنے مالک کو دیکھ کر دُم ہلاتا  آگے بڑھا۔ قبلائی خان نے ابراہیم کو دیکھا اور دریافت کیا اور معلوم  ہونے پر کہ یہی وہ صاحب ہیں جن کو اس نے اُن کی شہرت سن کر طلب کیا تھا  تو اس کو ان کا چھریرا بدن اور سادہ وضع قطع قطعاً متاثر نہ کر سکی۔ اس نے اپنے کتے کی طرف اشارہ کرکے اُن سے کہا۔ " کیا  میرے کتے کی دم تمہاری ڈاڑھی سے بہتر نہیں ہے؟ " ابراہیم نے کہا۔ " اگر میری ڈاڑھی اپنے مالک کی اطاعت میں ہلے تو میری ڈاڑھی بہتر ہے ورنہ تو آپ کے کتے کی دُم ہی بہتر ہے"۔  قبلائی خان اُن کے اِس جواب کو سن کر اگر متاثر ہوا بھی تو اس نے اِس کا اظہار نہیں کیا۔ اُس نے اس سے کہا میں نے آپ کی بابت بہت کچھ سنا ہے لیکن میں جسمانی طور پر کسی کمزور انسان کو اچھا نہیں مانتا۔ اس لئے اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کی بات سنوں تو آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آپ کمزور نہیں ہیں۔ اور اس کے لئے اس نے اُن کو اپنے دربار کے سب سے قوی ہیکل پہلوان سے مقابلے کی دعوت دی۔ ابراہیم خلاف توقع مان گئے۔ لوگوں نے منع بھی کیا کہ یہ اس ظالم کی چال ہے یہ آپ کو مروا دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا۔ آج مجھے یہ ثابت کرنا ہے کہ روح اور ذہن کی قوت کے سامنے جسم کی طاقت کچھ نہیں اور وہ اس پہلوان کے مقابلے پہ میدان میں آگئے۔ اس پہلوان نے اُن کی تضحیک کرنے کو انہیں پہلے وار کرنے کی دعوت دی۔ اس پر ابراہیم نہایت اطمینان سے آگے بڑھے اور اس پہلوان کو اتنے  زور سے ایک چانٹا مارا کہ وہ زمین بوس ہوگیا۔ جب وہ کافی دیر تک بھی اُٹھنے میں کامیاب  نہ ہو سکا تو قبلائی خان اُن سے اتنا مرعوب ہو چکا تھا کہ اس نے اُن کی مصاحبت اختیار  کر لی۔ کہتے ہیں کہ قبلائی خان اُن کے دستِ حق پر ست پر اسلام لے آیا تھا لیکن اُس نے اپنے قبیلے سے اس بات کو چھپائے ہی رکھا۔
اس واقعے سے ابراہیم کی قوتِ برداشت اور ان کے ذہن کی جس طاقت کا علم ہوتا ہے اس کے پیشِ نظر یہ کیا جاسکتا ہے کہ روح اور ذہن کی طاقت ہی جسمانی قوت کا  سر چشمہ ہوتی ہے  ۔ اس لئے صرف جسمانی صحت پہ توجہ مرکوز نہیں رہنی چاہئے بلکہ جسم کے ساتھ ساتھ ذہن کی صحت اور تندرستی کا شعور بھی پیدا کرنا ہی ہوگا۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم کو اپنے بچوں کی ذہنی صحت کی خاطر ایسے شعبے اپنے نظامِ  تعلیم کا حصہ بنائیں جو ذہن کی نشو و نما اور بہتر کارکردگی کو یقینی بنانے کی کوشش میں اپنا کردار مؤثر طور پر سرانجام دینے کے ذمہ دار ہوں۔ اس کے لئے چند  آسان اور بے ضرر سی ذہنی ورزشیں ماہرینِ نفسیات سے تجویز کروا کر نصابی یا غیر نصابی سرگرمیوں کے طور پر تعلیمی معمول کا حصہ بنائی جاسکتی ہیں۔ اِن ورزشوں کی مشق اگر سکول اور کالج میں اساتذہ کی زیرِ نگرانی کروائی جاسکے تو اس کے فوائد دو چند ہو سکتے ہیں۔ اس کے لئے پہلے اساتذہ کرام کو مختصر دورانیے کے ریفر شر کورسز بھی کروائے جاسکتے ہیں تاکہ وہ ایسی مشقوں کی نگرانی بخوبی اور با احسن طریقے سے کر سکیں۔
ذہنی رفتار اور کارکردگی میں اضافہ کرنے کے لئے جب تک ہم کوئی عملی اقدام نہیں کریں گے تب تک ایسا ہونے کی امید رکھنا بھی نادانی ہی کی بات ہوگی۔ محض سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لیکچرز سن سن کر اگر ذہن کی رفتار اور کارکردگی میں کوئی اضافہ ممکن ہوتا تو آج پوری قوم یک زبان ہوکر نظامِ تعلیم میں بہتری کا مطالبہ نہ کر رہی ہوتی۔
پہلے وقتوں میں پڑھنے لکھنے والا فرد بیک وقت ماہر  ریاضی دان بھی ہوتا تھا، طب اور حکمت میں بھی درک رکھتا تھا، علم بیّت اور فلکیات کی بھی شد بدھ ہوتی تھی، فلسفہ اور ادب پہ بھی اظہار خیال کر لیتا تھا۔ لیکن اب اگر کوئی شاعر ہے اور وہ بینک میں کام بھی کرتا ہو تو فوراً یہ فتویٰ صادر کر دیا جاتا ہے کہ یا تو وہ ایک اچھا بینکار نہیں ہو گا اور یا پھر شاعر ہونے میں کسی کمال کا حامل نہیں ہوگا۔ اس بات کا ایک تجزیہ کچھ یوں کیا جاتا ہے کہ پہلے علم زیادہ نہیں ہوتا تھا  اس  لئے ایک وقت میں کئی کئی علوم میں مہارت بہم پہنچانا اتنا دشوار نہیں ہوتا تھا جب کہ آج کل علم اتنا بڑھ گیا ہے کہ آپ کا ذہن کسی ایک بھی علم کا پوری طرح احاطہ کر لے تو یہ بہت بڑی بات ہوگی۔
اس جواب پہ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی شعور نے اپنی سہل پسندی کے ہاتھوں علم کے اضافے کو آڑ بناتے ہوئے علوم کے حصول سے پہلو تہی کی ہے۔ کیونکہ ایسا نہیں ہے۔ آج بھی محنت کرنے والے کئی کئی مضامین میں بیک وقت مہارت حاصل کر لیتے ہیں بلکہ بعض لوگ تو کئی کئی مضامین میں ایم اے بھی کر دکھاتے ہیں۔ اگر علم بڑھ گیا ہے تو اس کا احاطہ کرنے کے لئے ہم نے اپنے ذہن کی ان صلاحیتوں کو بڑھانے میں کتنی محنت کی جو حصولِ علم کے لئے لازمی ہونا چاہئیں۔ کیا ہم نے اپنے ذہن کی وسعت اور پھیلاؤ کا کوئی باقاعدہ اہتمام کیا؟ کیا ہم نے روزانہ زیادہ نہیں تو سود و سو صفحات کا مطالعہ کرنا سیکھا؟ کیا ہم نے ذہنی یکسوئی حاصل کرنے کا ہنر آزمایا ؟  کیا ہم نے ارتکاز توجہ کے فوائد جاننے کےبعد کوئی ایسی کوشش کی کہ اُس سے ہمارے ذہن کی اس صلاحیت میں حقیقتاً کوئی اضافہ ہوا ہو؟ اگر ان سب باتوں کا جواب نفی میں ہو تو اس کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ اگر آج بھی ذہن میں دَم ہو تو ایک انسان بیک وقت کئی علوم و فنون کا ماہر ہوسکتا ہے۔
جن لوگوں کے ذہنوں میں پہلے دور میں بھی دم نہیں ہوتا تھا وہ بھی کئی علوم میں مہارت رکھنا تو دور کی بات ہے کسی ایک آدھ مضمون کو سمجھنے کی بھی سکت سے عاری ہی ہوا کرتے تھے۔ اُس دور میں بھی صرف وہی لوگ کئی کئی علوم میں مہارت کے حامل ہوسکے تھے جنہوں نے محنت  کو اپنا شعار بنائے رکھا، اپنے ذہن کی  خدا داد صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا اور سوچ بچار اور غور و فکر کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ اگر ہم خود میں وہ صفات .پیدا کرلیں  تو آج ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں ورنہ تو بہانے اور حیلے بنانے کا فن تو ہم بچپن سے آزما ہی رہے ہیں۔


(ازکتاب نظامِ تعلیم
مؤلف : ڈاکٹر مقصود عظیمی)



فکر و تدبّر
1.       حضرت یوسفؑ کے قرآنی قصے سے منصوبہ بندی کے بارے میں ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟
2.       اللہ پر توکّل اور بھروسے سے کیا مراد ہے؟ کیا  کَل کی فکر کرنا اسلام کے خلاف ہے؟
3.       یہ ایڈ ہاک ایزم کیا ہوتا ہے؟ یہ اچھی یا بُری خوبی ہے اور کیوں؟
4.       "آنے والے اچھے اور بُرے وقتوں  کے لئے تیاری کرنا اصل میں صفت انسانی ہے۔ اور تمام انبیاء نے دُور اندیشی اور بصیرت کا مظاہرہ فرماتے ہوئے فکرِ امروز اور فکرِ  فردا کا نہایت متوازن انداز اپنایاگیااس سے آپ اتفاق کرتے ہیں۔ اِ دونوں میں قدر مشتک کیا ہے؟ مثالیں دے کر سمجھائیں؟
5.       کیا آج کا  انسان  رویے حیوانی کے تحریکات کے زیر اثر زندگی بسر کر رہا ہے؟ یہ روحِ انسانی کے تحت زندگی گزارنا کیا چیز ہے؟
6.       تعلیم و تربیت کے پورے نظام کا اصل مقصد  کیا ہے؟ اس کے حصول کے لئے کی / کسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے؟
7.       آپ بطور اُستاد بچوں میں منصوبہ بندی  کا شعور کیلئے اُجاگر کریں گے؟
8.       زندگی میں وقت کا بہترین استعمال کرنا کتنا اہم ہے؟ بچوں میں یہ عادت کیس پیدا کی جاسکتی ہے؟
9.       انسانی ذہن کی قوت کار اور  کارکردگی کی  رفتار بڑھانے کا کیا طریقہ ہے؟
10.   یہ "فری رائٹنگ" کیا چیز  ہے اور اِس کے کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟
11.   کیا  اساتذہ صرف پڑھاتے ہیں یا " مائنڈ ٹریننگ انٹر کنٹر"  بھی ہیں وہ کام کیسے بہتیرین طریقے سے سرانجام دے سکتے ہیں؟
12.   "روحے اور ذہن کی قوت کے سامنے جسم کی طاقت کچھ نہیں " یہ کس نے کہا؟ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟
عملی اقدامات
1.      اُس مضمون میں جن خیالات کا اظہار ہوا ہے، اِن کی ایک مختصر لیٹ بنالیں اور قابل عمل اقدامات کی نشاندہی کریں۔
2.      ہم اپنے تعلیمی ادارے میں ان اقدامات کو کیسے اپنے نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں شامل کرکے بچوں کی تربیت کر سکتے ہیں؟

3.      مراقبہ کے دیئے ہوئے طریقے کو عملی طور پر کرکے دکھائیں۔ کیا اس سے واقعی فرق پڑ سکتا ہے؟ آئیے ایکس دنوں کے لئے کرکے دیکھ لیں۔

ترتیب و تنظیمِ افکار

ترتیب و تنظیمِ افکار
زندگی کا کوئی بھی پہلو ہو، کوئی بھی کام ہو یا کوئی بھی عمل ہو اگر اس کو ایک خاص ترتیب سے سرانجام نہ دیا جائے تو وہ فعل، عمل یا پہلو مکمل نہیں ہوسکتا۔ بلکہ بعض صورتوں میں تو ہوسکتا ہے کہ وہ سرے سے وقوع پذیر ہی نہ ہوسکے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو کرنا چاہ رہے ہوں اس کے بالکل ہی برعکس کچھ اور ہی ہو جائے۔
جسمانی اعمال اور افعال سے لیکر ذہنی سرگرمیوں تک ہر کام ایک ترتیب اور ضابطے کے تحت ہوتا ہے۔ صبح سو کر اٹھنے سے لے کر رات کو دوبارہ  سونے تک انسان جتنے بھی کام کرتا ہے وہ سب کے سب ایک ضابطے اور ترتیب کے پابند ہوتے ہیں اور تو اور انسان اپنی زندگی کے وقت کا ایک ایک لمحہ، ایک کے بعد دوسرا گھنٹہ، ایک کے بعد دوسرا دن، ایک کے بعد دوسرا مہینہ اور اسی طرح ایک کے بعد دوسرا سال گزارنا ضروری ہے۔ اتوار کے بعد منگل نہیں آسکتا جب تک اتوار سے منگل تک ایک ایک  لمحہ، ایک ترتیب سے، یکے بعد دیگرے، گزر نہ جائے۔ یا جنوری کے بعد مئی یا جون اُس وقت تک نہیں آسکتے جب تک جنوری سے لے کر مئی یا جون تک کا ایک ایک دن یکے بعد دیگر ے بسر نہ کر لیا جائے۔ اسی طرح کھانا کھانے سے لیکر لکھنے پڑھنے اور کھیلنے کودنے سے لے کر خرید و فروخت کے کاموں تک روزمّرہ کے کسی بھی کا م کا جائزہ لیا   جائے تو یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ کوئی کام بھی ہو وہ اُس وقت تک ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ ایک خاص ترتیب سے نہ کیا جائے۔ جیسے ایک پودے کے اگنے کا عمل بھی ایک منظم ترتیب کا اظہار ہے۔ اسی طرح اگر زمین پر  قدم لینے جیسا آسان کام بھی اگر ایک لگی بندھی ترتیب سے نہ کیا جائے تو قدم لڑکھڑا جاتے ہیں یا پاؤں رپٹ جاتا ہے۔
ان دونوں مثالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زمانی اور مکانی دونوں قسم کے اعمال اور افعال یعنی ایسے کام جن میں وقت صرف ہوتا ہے اور ایسے کام جن میں میکانیت یا جسم  عمل کرتا ہے، اس وقت تک عمل میں نہیں آسکتے جب تک وہ ایک ترتیب سے نہ ہوں یا نہ کئے جائیں۔ انسانی شعور کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ اس زمانی اور مکانی ترتیب سے ہی تعمیر ہوتا ہے اور اسی ہی کے گرد اب  کا اسیر بھی رہتا  ہے۔ اگر یہ ترتیب ٹوٹ جائے تو شعور بھی بکھر کر رہ جاتا ہے۔ اگر تو شعور کی تربیت ہو چکی ہو تو وہ خود کو اس ترتیب کی چنگل سے چھڑا سکتا ہے ورنہ نہیں۔ اب خواب کے عالم میں زمانی ترتیب برقرار نہیں رہتی تو انسان چند منٹ کے خواب میں مہینوں اور سالوں بسر کر لیتا ہے۔ چونکہ اس وقت ہمارا موضوع خواب کے حواس یا لاشعور کی ہیّتِ  ترکیبی کے حوالے سے یہ بات واضح ہونا ضروری ہے کہ شعور اپنی مناسب کارکردگی کے لئے ترتیبِ زمانی اور مکانی دونوں کا محتاج اور دستِ نگر رہتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی بہتر کارکردگی کی خاطر اپنی تمام شعوری سرگرمیوں میں اس بات کا بہت زیادہ اہتمام رکھیں کہ ہمارا ہر کام اپنے اندر ایک حسنِ ترتیب رکھتا ہو۔
حسنِ ترتیب کا آغاز انسان کے ذہن میں آنے والے خیالات سے ہوتا ہے۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ خیال بہت تیز رفتاری سے آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ لیکن جو اس بات کا وقوف رکھتے ہیں اُن کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک خیال ذہن میں آنے سے پیشتر کس طرح پہلے  ایک واہمہ کی صورت میں ہوتا ہے، پھر کس طرح واہمہ سے خیال بنتا ہے۔ اس خیال میں گہرائی پیدا ہوتی ہے تو تصوّر کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور پھر یہ تصوّر مزید گہرا ہو کر احساس میں ڈھل جاتا ہے اور ہم اس شے کو جس کی بابت خیال پہ ہم اپنا ذہن مرتکز کئے ہوتے ہیں، اس کو اپنے حواس سے محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس سے جہاں یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ خیال کا ذہن میں آنا بذاتِ خود ایک ایسا  عمل ہے جو ایک ترتیب کا حامل ہے وہاں یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ خیال کا انسانی حسیاّت سے کتنا گہرا تعلق اور ربط ہے۔
خیال انسانی اعمال اور افعال کی بنیاد بنتے ہیں اور یہی خیال افکار و نظریات بن کر ذہن میں آنے والے خیالات کا رخ اور نہج بھی متعین کرتے ہیں۔ انسان کچھ افکار و خیالات کو اپنا لیتا ہے اور جن خیالات کو وہ اپنا لیتا ہے وہ انہی افکار و نظریات کے ایک سانچے میں ڈھلتا چلا  جاتا ہے۔  اسی بات کو تفکر کا پیٹرن بھی کہا جاتا ہے۔ انسان کس قسم کے خیالات اور افکار و نظریات کو اپناتا ہے یہ چیز اس کو معاشرہ تعلیم کرتا ہے۔ معاشرے کی پسند اور ناپسند انسان کا عقیدہ بن جاتی ہے۔ اب انسان جن عقائد کو اپنا لیتا ہے وہ ان کو بار بار تبدیل نہیں کرتا۔ جب کبھی وہ اپنے علم میں اضافے کے بعد خود اپنے عقائد کا جائزہ لینے کا اہل ہو بھی جاتا ہے تب بھی وہ  انہی عقائد سے چمٹے رہنے میں عافیت محسوس کرتا ہے جو اُس نے اوائل عمری میں معاشرے کے اصرار پر اپنائے ہوتے ہیں۔ چونکہ انسان اپنے عقائد کا خود کوئی تجزیہ نہیں کر پاتا اس لئے اس کو اپنی فکر میں غلطی کا کوئی احساس بھی نہیں ہو پاتا اس لئے یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ انسان غیر جانبدار طرزِ فکر کو اپنانے کی طرف زیادہ سے زیادہ مائل ہو۔
غیر جانبدار طرزِ فکر کے حصول کی کوشش کے ساتھ ساتھ اپنے افکار و خیالات کو منظم کرنے اور ترتیب کا پابند بنانے والے لوگ ہی عام سطح کے افراد اور درمیانے درجے کے لوگوں   سے ممتاز ہوسکتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں قومی طور پر اوسط درجے کے کام کی پذیرائی کی اصل وجہ بھی یہی ہے  کہ لوگوں کو اپنے خیالات کو افکار کو اعلیٰ درجے کی ترتیب کا حامل بنانے کا زیادہ شعور اور سلیقہ نہیں ہے۔ جو لوگ اپنے خیالات کو اعلیٰ درجے کی ترتیب دینے اور انہیں بہتر طور پر منظم کرنے کا فن جان لیتے ہیں وہی دوسروں کی راہبری اور راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے کے اہل قرار پاتے ہیں۔ آپ کسی بھی ادارے کے سربراہ میں اس خوبی کا فقدان نہیں دیکھیں گے۔ اب یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ اس خوبی کو مثبت انداز میں استعمال کرتے ہیں یا نہیں اور اگر کرتے ہیں تو کس حد تک؟ جس حد تک وہ اس خوبی کو استعمال کرنے میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں ان کی سربراہی بھی اسی معیار کی حامل ہوتی ہے۔ کسی ملک کا انتظام و انصرام چلانا ہو یا کسی کمپنی اور ادارے کا، اس کے سربراہ کی لیڈرشپ جتنی زیادہ اعلیٰ معیار کی ہوگی، اُس ادارے، کمپنی یا ملک کے  انتظام اور کارکردگی کا معیار بھی اتنا ہی زیادہ بہتر ہوگا۔
ریاضی اور جیومیٹری  کے مضامین کو اگر اس ترتیب و تنظیمِ افکار  کے حوالے سے پڑھایا جاسکے تو اِن مضامین کی تدریس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان کو اپنے خیالات کو منظم کرنے اور ترتیب دینے کا سلیقہ آ جائے۔ ویسے یوں تو ان دونوں مضامین کی تدریسی نصاب میں شمولیت کا فلسفہ یہی بیان کیا جاتا  ہے کہ اس سے طلباء میں اپنی سوچوں کو ایک قاعدے اور ضابطے کا پابند بنانے میں مدد ملتی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے خیالات کو ایسی منطقی ترتیب سے دلیل بنا کر پیش کر سکتے ہیں کہ اس کو اپنی بات ثابت کرنے میں چنداں مشکل نہیں ہوتی۔ لیکن اس حوالے سے المناک بات یہ ہے کہ ان مضامین کی تدریس کا مقصد محض امتحان میں مطلوبہ نمبر حاصل کرکے پاس ہونے اور بعد میں اچھی سے ملازمت کی حد تک محدود رہ جانے کی وجہ سے ان کی تدریس کی اصل غائیت ختم ہوچکی ہے۔
افکار و خیالات کو ترتیب دینے اور ان کو منظم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسان اُس مقصد کو اپنے ذہن میں پوری طرح واضح کرلے جو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جس قدر کوئی مقصد واضح  اور دو ٹوک ہو جاتا ہے، اسی قدر ذہن میں اُس سے متعلق آنے والے خیالات  بھی اچھی طرح ترتیب پاتے چلے جاتے ہیں۔ جس قدر خیالات کی ترتیب منطقی اور فطری انداز کی ہوگی، اسی قدر حصولِ مقصد سہل تر ہوتا چلا جاتا ہے اور جس قدر خیالات بے ربط اور بے ترتیب ہونگے اسی قدر حصولِ مقصد  دشوار تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ بات ہم سب کے مشاہدے میں ہے کہ پریشانی میں جب ہم انتشارِ فکر کا شکار ہوتے ہیں، ہم کسی بھی کام کو اچھی طرح سرانجام نہیں دے پاتے۔ اس بات سے بھی ترتیب و تنظیم افکار کی ضرورت ثابت ہو جاتی ہے کہ جس قدر ہمارے خیالات میں ایک زمانی اور مکانی ترتیب ہوگی، اسی قدر ہم کم پریشان ہوں گے۔ ویسے یہ جتانے کی کوئی ضرورت تو نہیں ہے کہ  انتشارِ فکر  کہتے ہی خیالات کے بے ربط اور بے ترتیب ہونے کو ہیں۔
انتشارِ فکر کا علاج یکسو ہونے کی مشق  کرکے بھی کیا جاسکتا ہے۔ یکسو رہنے والے افراد کو یہ صلاحیت قدرتی طور  پر حاصل ہو جاتی ہے کہ اُن کے خیالات ایک فطری ترتیب کے حامل ہوتے ہیں۔ جو لوگ فی البدیہہ تقریر کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں ان میں یکسو ہونے کی اہلیت ان کی نسبت زیادہ ہوتی ہے جن کو یہ ملکہ حاصل نہیں ہوتا۔ یکسو رہنے کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ انسان کسی ایک خیال پہ کتنی دیر تک اپنے ذہن کو مرکوز رکھ سکتا ہے۔  اپنی زندگی میں کسی نمایاں مقام تک جا پہنچنے والے انسان کی زندگی کا قریب سے مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو یہ کہ اُن کو یکسو ہوسکنے کی صلاحیت قدرتی طور پر و دیعت  ہوئی تھی اور  یا پھر انہوں  نے اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں کچھ ایسی ذہنی مشقیں کی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے یہ صلاحیت اُن میں ابھر آتی ہے۔
اس قسم کی بہت سی مشقیں تجویز کی جاسکتی ہیں لیکن ترتیب و تنظیم افکار کے حوالے سے مندرجہ ذیل مشق کو کرنے کے کوئی مضر اثرات مرتب ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں۔
رات سونے سے پیشتر کسی بھی آرام دہ اندازِ نشست کو اختیار کرکے اس طرح  بیٹھ جائیں کہ سَر گردن اور کمر  سیدھی رہے۔ اندازِ نشست ایسا ہو کہ کم از کم ایک آدھ گھنٹے تک پہلو بدلنے کی ضرورت نہ پڑے۔ یہ مشق بھرے پیٹ نہ کی جائے تو بہتر ہوتا ہے یعنی اس کو اُس وقت کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے جب رات کا کھانا کھائے کم از کم ڈھائی تین گھنٹے گزر چکے ہوں۔ چند بار آہستہ آہستہ ناک سے گہرا سانس لیں اور آہستہ آہستہ منہ کے راستے خارج کر دیں۔ پھر آنکھیں بند کرلیں اور یہ تصور کرنا شروع کریں کہ آپ نے ایک گملہ لے کر، اُس میں مٹی اور کھاد ملا کر ڈالی ہے۔ پھر اس میں گلاب کے بیچ بھی ڈال دیئے ہیں۔ اب آپ اس گملے کو پانی دے رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس گملے میں گلاب کا  پودا اُگنا شروع ہو گیا ہے۔ آپ اس کو وقت پہ پانی دیتے ہیں۔ اُس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ وہ پودا بڑا ہو رہا ہے۔ اُس پودے کے پتے نکل آئے ہیں۔ جوں جوں وہ بڑا ہو رہا ہے، اُس کی شاخیں بن رہی ہیں۔ اُس کے پتوں کے ساتھ ساتھ کانٹے بھی بن رہے ہیں۔ پھر اُس میں کلیاں بن رہی ہیں اُن کلیوں سے گلاب کے پھول بن رہے ہیں۔ گلاب کے پھول کھلنے کے ساتھ ساتھ ان کی خوشبو بھی فضا کو مہکا  رہی ہے۔ اُنہیں آنے دیں اور انہیں خود ہی گزر جانے دیں۔ جب ذہن میں آنے والے خیال یا خیالات تھم جائیں تو آپ اپنے تصور کو وہیں سے دوبارہ شروع کردیں جہا ں سے ذہن کسی دوسری طرف گیا  تھا۔ جیسے فرض کریں کہ کانٹوں کا خیال آتے ہی آپ کو اپنے بچپن کا کوئی ایسا واقعہ یاد آنا شروع ہو جاتا ہے جس میں آپ کو کوئی کانٹا چبھا تھا تو آپ اس واقعے کو ذہن میں آنے سے روکنے کی کوئی کوشش نہ کریں۔ اُس واقعہ کی یاد ایک دو منٹ میں خود ہی تھم سی جائے تو آپ اپنے ذہن کو جاری مشق کی طرف آہستگی سے موڑ دیں اور سلسلہ تصور کو وہیں سے جوڑ لیں جہاں سے بات کسی اور طرف چلی گئی تھی۔
ا س مشق کو کم از کم گیارہ دن اور زیادہ سے زیادہ اکیس دن کرکے چھوڑ دیں اور رات کو سونے سے پہلے اپنے دِن بھر کے کاموں کو ذہن میں دہرا لیا کریں۔ اس سے آپ کو اپنے افکار و خیالات میں ایک بڑھتی ہوئی ترتیب اور ان کی ایک زیادہ منظم صورت  کا روز افزوں احساس ہوتا چلا جائے گا۔



فکر و تدبّر
1.      ترتیب و تنظیم افکار سے کیا مراد ہے؟ کیا ہر عمل کی ایک خاص ترتیب ہوتی ہے؟
2.      "انسانی شعور کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ اِس رخانی اور مکانی تربیت سے ہی تقمیر ہوتا ہے اور اسی ہی کے گرداب کا اسیر ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں شعور اپنی مناسب کارکردگی کے لئےترتیب زمانی اور مکانی دونوں کا محتاج اور دست نگر رہتا ہے" کیا آپ کو اس بات  سے اتفاق ہے؟ کیوں؟
3.      "خیال انسانی اعمال اور افعال کی بنیاد بنتے ہیں اور یہی خیال افکار و نظریات بن کر ذہن میں آنے والے خیالات کار رخ اور نہج بھی معین کرتے ہیں" ایسا کیوں ہوتا ہے؟
4.      کیا دوسروں کی راہنمائی کے لئے کسی لیڈر کے لئے ترتیب و تنظیم افکار کا حاصل ہونا ضروری ہے؟ کیوں؟
5.      کیا ریاضی اور جیومیٹری پڑھانے سے طلباء میں ترتیب تنظیم افکار کی عادت ڈال جا سکتی ہے؟ کیسے؟
عملی اقدامات
1.      خیالات میں یکسوئی حاصل کرنے کے لئے مضمون میں دیئے ہوئے مشق کا عملی مظاہرہ کیجئے۔

2.      طلباء میں اس ترتیب و تنظیم کی مشق کی طرح دی جاسکے گی۔ بیان کریں۔

افتاد و رحجانِ طبع

افتاد و رحجانِ طبع
عملی زندگی  یا اُس سے قبل اپنی زندگی میں انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اگر وہ اس کی افتاد طبع سے میل کھاتا ہو اور اُس کی طبیعت کا رحجان بھی اُسی کام کی طرف ہو تو اُس میدان میں اس کی کامیابی یا با الفاظ دیگر آگے جانے کے امکانات تو روشن ہوتے ہی ہیں، اُس کو کوئی ایسا کام کرنا سہل اور آسان بھی لگتا ہے اور اچھا بھی۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے اور اُس کو کوئی ایسا کام کرنا پڑے جس کی طرف اُس کا میلانِ طبیعت نہ ہو تو اس کام میں نہ تو اس کا دل لگتا ہے اور نہ ہی وہ اُسی میں کوئی نام کما سکتا ہے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر انسان عملی زندگی میں اپنے لئے اُن  راہوں کا انتخاب کرے جو اس کے رحجانِ طبیعت کے مطابق ہوں تو وہ اُن راہوں کا انتخاب کرے جو اس کے رحجانِ طبیعت کے مطابق ہوں تو وہ اُن راہوں پر زیادہ کامیاب ہوسکتا ہے ہمارے یہاں چونکہ زیادہ تر لوگ حالات کے دباؤ تر لوگ حالات کے دباؤ کے پیشِ نظر طبع آزمائی کرتے ہیں اس لئے عمر کے کسی نہ حصے میں وہ یہ  ضرور محسوس کرتے ہیں کہ اُن سے غلط  انتخاب ہوگیا ہے اور انہیں اس میدان میں طبع آزمائی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اکثر افسران ایسے ماتحتوں کو مس فِٹ قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ بھی محسوس نہیں کرتے۔
اس بات پہ اگر غور کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس افتادِ طبع اور میلانِ طبعیت کی اسل کیا ہے اور اس کا خیال رکھنا بھی چاہئے یا نہیں اور اگر رکھا جانا چاہئے تو کس حد تک؟ افتاد اور میلان طبعیت اصل میں انسان کے اندر کی صدا ہوا  کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک آدمی  لوہار یا ترکھان بننا مشکل کام نہیں سمجھتا لیکن اگر اُس آدمی سے آپ یہ کہیں کہ وہ سٹاک ایکسچینج میں بیٹھ کر صرف شیئرز خریدا اور بیچا کرے  تو وہ اس کام کو پنے لئے ناممکن گردانتے ہوئے کبھی  اس کی طرف مائل نہیں ہوگا۔ یا اسی طرح کسی اخبار نویسی سے آپ  پوچھ کر دیکھ لیں کہ اُس نے فوٹو گرافی یا مصوری کی طرف کیوں دھیا ن نہیں دیا۔ تو یا تو وہ یہ کہے گا کہ میں نے کوشش تو کی تھی مگ جی نہیں لگا اور یا پھر یہ کہ دے گا کہ یہ کام میرے بس کا نہیں تھا ورنہ شاید میں یہی کرتا۔ ہر دو صورتوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جی نہ لگنا اور بس میں نہ ہونے کا اقرار کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ یہ صرف انسان کے اندر کی آواز ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس کام کو کرنے کے لئے پیدا کیا ہوتا وہ بات اُس کے اندر گونجتی رہتی ہے اور جب تک انسان اُس کام کو کرنے کے لئے پیدا کیا ہوتا ہے وہ بات اُس کو کرنے نہیں لگے جاتا  باطن کی صدا اُس کو اُس  کام کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے جس کے لئے خالق نے اُس کو وجود بخشا ہوتا ہے۔
اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر سب ہی لوگ کا دستکاری کرنے لگ جاتے تو جوتے کون بناتا  اور کپڑے کون بناتا۔ اللہ نے اس کائناتی نظام کو چلانے کے  لئے مخلوق کو تخلیق کیا۔ ہر مخلوق کے ذمے کوئی کام بھی لگایا تاکہ اس کے ہونے کو کوئی جواز بنا رہے۔ انسان اس دنیا میں آتا ہے تو وہ خود کو ایک دائرے کے مرکزی نقطے کی طرح سب کو اپنی خدمت میں مصرف پاتا ہے۔ ماں باپ اس کی دیکھ بھال کر رہے ہوتے ہیں، اُس کو خوراک مہیا کر رہے ہوتے ہیں، کوئی اُس کے لئے گرمی سردی سے بچاؤ کا انتظام کرنے کو گھر بنا رہا ہے تو کوئی اُس کے لئے پوشاک تیار کر رہا ہوتا ہے۔ قدرے بڑا ہوتا ہے تو اساتذہ  اس کی تربیت پہ معمور ہو جاتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ وہ خود بھی اسی قطار میں لگ جاتا ہے اور دوسروں کے  لئے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ پہلے وہ اوروں سے اپنے ہونے کا خراج وصول کرتا  ہے پھر وہ دوروں کو ان کے ہونے کا خراج دیتے دیتے اس دنیا کی زندگی کے دن پورے کرکے اگلے جہاں چلا جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو انسان جتنا دوسروں سے وصول کرتا ہے اتنا اُن کو دیتا نہیں ہے لیکن پھر بھی شکوہ سنج ہی رہتا ہے کہ لوگ میرے لئے کچھ نہیں کرتے۔ ایک دفعہ بھی کسنے یہ نہیں سوچا کہ میں درختوں سے کتنا کچھ لیتا ہوں لیکن میں ان کے لئے کبھی کچھ کیا؟ میں جانوروں سے کتنا کچھ لیتا ہوں لیکن کی میں نے کبھی ان کے لئے کچھ  کیا۔ اب اگر دیکھا جائے تو انسان کی بیشتر ضروریات تو یہی دو ذرائع یعنی نباتات اور حیوانات ہی پوری کرتے ہیں۔ مادی ضروریات کو ان ذرائع سے پورا کرنے کے بعد اپنی غیر مادی ضرورتوں کے لئے انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا سہارا لیتا ہے یعنی ہر سطح پہ انسان دوسروں سے کچھ نہ کچھ وصول کرتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ ساری زندگی چلتا ہی رہتا ہے۔ اگر کبھی بتوفیقِ ایزدی وہ کسی کے لئے کچھ کرنے میں  کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو وہ اس کو دوسروں پہ اک احسان ہی مانتا ہے۔
اب اگر حقیقت شناس نظروں سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ انسان جب ساری زندگی دوسری مخلوق سے خدمت لیتا رہتا ہے تو یہ بھی اُن دوسری  مخلوقات اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے لئے کچھ کرتا رہے۔ اللہ کی اس چاہت کے پورا ہونے کی ایک صورت تو یہ ہوتی ہے کہ آدمی چاہے یا نہ چاہے، جانتا ہو یا یہ جانتا ہو، وہ اس کام کو ارادی طور پر کرے یا غیر اختیاری طور پر کرے، اس کو وہ سب کچھ کرنا تو ویسا ہی پڑتا ہے جو اللہ اس سے کروانا چاہتا ہے۔ اب جب وہ یہ سب کچھ غیر اختیاری طور پر لاعملی اور نادانستگی میں کرتا ہے تو ایک تو وہ سب کچھ محدود طرزوں  میں کر رہا ہوتا ہے اور دوسرے چونکہ وہ یہ سب کچھ   انجانے میں سرانجام دے رہا ہوتا ہے اس لئے اس کا کوئی اجر و ثواب بھی اُس کو نہیں بھی اُس کو نہیں ملتا۔ کسی کام کو اچھی طرح کر لینے سے بڑھ کر اور کیا اجر و ثواب ہو سکتا ہے کیونکہ اچھی طرح کئے گئے کام سے حاصل ہونے والے اطمینان اور سکون انگیز مسرت کے لطف سے بڑھ کر اور کونسی شرابِ طہورا ہوگی؟
اس لئے اساتذہ کرام کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے تلامذہ میں اس بات کا شعور اجاگر کریں کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اپنے اندر کی صدا کو ضرور سنیں۔ علم نفسیات میں یہ جو رحجانِ طبع کو جانچنے کے لئے ٹیسٹ لئے جاتے ہیں اُن کا اصل مدعا یہی ہوتا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں جو بھی کام کرے وہ ایسے ہوں کہ وہ اُن کو روکر نہ کرتا رہے بلکہ اُن کے کرنے سے اُس کو خوشی اور اطمینان حاصل ہو۔ ماں باپ کو بھی چاہئے کہ بچے کے رحجان طبع، افتاد اور میلانِ طبیعت کا سراغ ضرور رکھیں اور اسی میدان میں اپنے بچے کی زیادہ حوصلہ افزائی کریں۔ جس کی طرف وہ فطری میلان رکھتا ہو۔ یہ پالیسی کسی بھی طور درست نہیں ہے کہ ماں باپ اپنی نا آسودہ خواہشات کی تکمیل کی امید اپنی اولاد سے رکھیں۔ ہر ماں باپ کو یہ سوچنا چاہئے کہ جو میری خواہشات تھیں وہ تو خود مجھ کو ہی پورا کرنا واجب تھیں، اب اگر میری کوئی خواہش پوری نہیں ہو سکی تو مجھے تو یہ چاہئے کہ اسکا کفارہ میں اس طرح ادا کروں کہ اپنی اولاد کی خواہش کے پورا کرنے میں اُن کا مدد گار بن جاؤں نہ کہ اُن پہ یہ پابندی لگا دی جائے کہ وہ اپنی خواہش  کو ترک کرکے اُن کی خواہشات  کو پرا کرنے کا بیڑا اٹھا لیں۔ ایسا ہونے سے کچھ بھی نہیں ہو پاتا نہ تو اس طرح سے کبھی کسی ماں باپ کی خواہش تکمیل کو پہنچتی ہے اور نہ ہی اولاد اپنی کسی خواہش اور خواب کی تکمیل کرنے کے قا بل ہوئی ہے۔ جس طرح اگر ایک ترکھان کا بیٹا  پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننا چاہتا ہے اور اس کا باپ اُس کی خواہش کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتا اسی طرح اس کو اُس وقت بھی اپنی اولاد کی خواہش اور افتاد کے خلاف یہ فیصلہ نہیں دینا چاہئے کہ وہ ترکھان نہ بنے۔ ایک غیر جانبدار سوچ رکھنے والے انسان کو ایسے وقت ہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کو اولاد اس لئے نہیں دی کہ اہ اُن سے اپنی  نا آسودہ  خواہشوں  کی تکمیل چاہے بلکہ اس لئے دی ہے کہ وہ اُن کو ایک بہتر انسان بننے میں  مدد دے ،  اُن کی تربیت اس نہج پر کر دے کہ وہ اپنی زندگی کو کوئی فیصلہ کرتے وقت اس بات کو خود ہی دھیان میں رکھ سکیں کہ اللہ تعالیٰ اُن سے کیا خدمت لینا چاہتے ہیں۔
اس بات  کو یاد رکھنا چاہئے کہ انسانوں میں تو یہ طریقہ ہے کہ وہ کسی فرد کی صلاحیتیں دیکھ کر اس کو کوئی کام تفویض کرتے ہیں۔ یہ ملازمت اور نوکریوں کے لئے  انٹرویو اسی لئے تو لئے جاتے ہیں تا کہ یہ جانچا جاسکے کہ امیدوار مطلوبہ معیار کی صلاحیت، اہلیت اور قابلیت ہے بھی یا نہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کسی فرد سے کوئی کام لینا چاہتے ہیں تو اس کام کے لئے  درکار صلاحیت،اہلیت اور قابلیت اس میں پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ با الفاظِ دیگر اللہ کی طرف سے کسی کام کے تفویض کئے جانے کی صورت میں آدمی کو مطلوبہ صلاحیتوں کا پیکج بھی ساتھ ہی مل جاتا ہے اور انسان اس کام کو سرانجام دینے کے قابل ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ڈالتے ہیں۔ اب انسان اگر سمجھتا ہے  کہ یہ صلاحیتیں اس کو اپنی ذاتی خوبی کی وجہ سے ہیں تو یہاں سے بات بگڑنا شروع ہو جاتی ہے اور انسان سے پہ در پہ ایسی غلطیاں سرزد ہونے لگتی ہیں کہ اس  کے دن کا چین اور رات کا سکون کو بچانے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے لیکن اس کی ہر کوشش کا انجام اُس کی حسرتوں میں اضافے کے سوا اور  کچھ بھی تو نہیں نکلتا۔
اس ساری بات کا نتیجہ یہی بنتا ہے کہ انسان کو اپنی افتاد طبع اور میلانِ طبعیت کے مطابق ہی اپنی زندگی کی راہوں کا انتخاب کرنا چاہئے کیونکہ اس طرح وہ الٰہی پروگرام کے مطابق زندگی بسر کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ لیکن اس بارے ایک  بہت ہی ضروری بات کو دھیان میں رکھنا چاہئے۔ افتاد طبع اور کام نہ کرنے کی خواہش یا ہڈ حرامی کی طرف رحجان جیسے منفی میلانات کے بے رحمی سے کچل دینے کی ہمت پیدا کرنا فرد کا ہی فریضہ  بنتا ہے۔ کیونکہ سہل پسندی اور آرام طبلی ایسی نفسانی طلب ہے کہ اگر اس کی واضح شناخت نہ ہو تو بندہ ایسی باتوں کو جو من جانب اللہ نہیں ہوتیں ان کو اللہ سے منسوب کرکے کام اور محنت سے جی چرا کر اس کو اپنی طبیعت کا تقاضا سمجھ کر کمر ہمت کھول دیتا ہے اور منزل اس کے خود تک پہنچنے کے انتظار ہی میں رہ جاتی ہے۔ محنت کرنے کے بعد ذہن اور جسم کو آرام دینے کی خاطر کچھ وقت تک کام نہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے لیکن فقط آرام، آرام اور مزید آرام کو ہی اپنا و طیرہ بنا لینا تو کسی بھی طور احسن نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ نے انسان کو ہاتھ پیر اس لئے نہیں دیئے کہ انسان توکل کے نام پر انہیں توڑ کر  ہی بیٹھ رہے۔ اللہ نے یہ جو اعضاء اور جوارح عطا کئے ہیں ان سے کام نہ لینے والوں سے ضرور باز پرس ہوگی۔
اس دنیا کے نظام کا قریب ے جائزہ لینے پر کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ پورا کائناتی نظام گروہ بندی کے تحت بنایا ہے۔ پرندے  ہوں یا درندے، چرندے ہوں یا حشرات الاض اور آبی جاندار، نباتات ہوں یا اجرام سِماوی کوئی ایسی مخلوق نہیں ہے جو کثرت سے نہ ہوا اور پھر ہو قسم کی مخلوق طرح طرح کی قسموں اور گروہوں میں تقسیم در تقسیم نہ ہوئی ہو۔ انسانوں کے اندر بھی یہ تقسیم کئی طرح سے نظر آتی ہے کہیں یہ عورت اور مرد ہے تو کہیں گورا، کالا، زرد اور گندمی۔ کہیں یہ تقسیم ملکوں اور برآعظموں کے حوالے سے ہوتی ہے اور کہیں ذات پات، برادری اور قبیلے اس بنیاد بن جاتے ہیں۔ کہیں یہ طبقاتی بنیادوں پر ہوتی ہے اور کہیں شعبہ جاتی۔
الغرض بہت سے عنوانات کے تحت کی جانے والی اس تقسیم میں ایک عنوان اچھے اور بُرے افراد کا بھی تسلیم کیا جاتا ہے اور اُن کے ذیلی گروہوں میں افسروں، ماتحتوں ، ملکوں اور ملازموں کے علاوہ راشی، کام چور، بد معاش، شرابی اور جوئے باز، ان پڑھ اور جاہل لوگوں کے اپنے اپنے گروہ ہوتے ہیں اور محنتی، مخلص، ایماندار، قابل، پڑھے لکھے اور علم رکھنے والے لوگوں کے بھی اپنے اپنے گروہ ہوتے ہیں۔ اب یہ گرو ہی اور طبقاتی تقسیم کون کرتا ہے۔ کچھ توہ ہے جو الہ نے خود کر دی ہے اور کچھ انسانوں کی اپنی اختراع اور ایجاد ہوتی ہے۔ مثلاً عورت یا مرد ہونا، کالا یا گورا ہونا، عرب یا عجم ہونا ایسی تقسیم ہے جس میں انسان کونہ تو کوئی اختیار ہے اور نہ ہی اُس کی اِس ضمن میں کوئی پیش چلتی ہے لیکن جہاں تک اچھا یا بُرا ہونے کا تعلق ہے تو یہ انسان کے اپنے بس میں ہوتا ہے۔ اور اس ہی وجہ سے انسان کو مکلّف قرار دے کر اس کو اس کے اعمال کا جواب دہ گر دانا جاتا ہے۔
انسان کے اندر نصب کمپیوٹر سے انسان کے لئے معین انفرادی پروگرام کی بابت جو اطلاعات انسان کے ذہن کی سکرین پر نشر ہوتی رہتی ہیں انسان کو ان اطلاعات کو کیسے موصول کرتا ہے  اور اُن پر کس حد تک عمل پیرا ہوتا ہے، یہ انسان کی اپنی صوابدید پر منحصر  ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خیر اور شر دونوں کا خالق تو ضرور ہے لیکن ان کے انتخاب کا حق اور اختیار اللہ نے انسان کو تفویض کیا ہوا ہے۔ انسان چاہے تو خیر کو اختیار کر لے اور چاہے تو نہ کرے ، چاہے تو شر کو اپنا لے اور چاہے تو اُس کو رد کر دے۔ انسان کے اندر ضمیر اُس قم قدم پہ راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اب انسان اپنے اختیار سے کام لیتے ہوئے اس راہنمائی کو قبول کرتا ہے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص ضمیر کی اس راہنمائی کو مسلسل اور لگا تار رد کرتا اور اس کے کہنے کے خلاف کرتا رہتا ہے تو بلا آخر ضمیر خاموش ہوتا چلا جاتا ہے۔ ضمیر  کی آواز کو سننے اور اُس پر دلجمعی سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنے والوں کو ضمیر کی راہنمائی سے زندگی میں کبھی محروم نہیں رہنا پڑتا۔ ضمیر کی آواز کیا ہے اس سے استعفا دے کا کی طریقہ ہوسکتا ہے؟ اس کے لئے آسان سا پیمانہ تو یہ ہے کہ ہر وہ کام جس کو کرنے کے بعد بُرا محسوس ہو، پشیمانی اور ندامت کا احساس ہو وہ درست نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ بُرا محسوس ہونا اور ندامت اور پشیمانی ضمیر انسانی کی طرف سے دی جانے والے اطلاع کی ہی ایک صورت ہوا کرتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی کام کو انجام دینے کے بعد خوشی اور طمانیت قلب کا احساس ہو تو وہ ضرور کوئی اچھا  کام ہوگا کیونکہ کسی کام کو کرنے کے بعد خوشی اور اطمینان  محسوس کرنا بھی ضمیر کی طرف سے فراہم کی جانے والی اطلاع ہی کی  ایک صورت ہوا کرتا ہے۔
اس ہی بات کا پھیلاؤ افتا د طبع  اور میلانِ طبیعت بھی ہے انسان کی طبیعت اسی کام کی  طرف رحجان رکھتی ہے جو کام کرنا اُس کو اچھا لگے اور اُس کو کرنے میں اُس کا دل لگے۔ اس ہی واسطے اساتذہ کرام اپنے  شاگردوں کو ان کی افتاد طبع اور میلان فطرت کے مطابق تربیت دینے پہ اصرار کرتے ہیں۔  اور اس ہی لئے وہ لوگ جو خود درس و تدریس کی طرف فطری میلا نہیں رکھتے وہ کوئی زیادہ کامیاب استاذ  بن بھی نہیں پاتے۔ اس سے ہی اس بات کو طے کرنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ ہر  بچے کو  ڈاکٹر  بنانے، انجنیئر بنانے، سائنسدان بنانے یا مصنف اور سیاستدان بنانے کی سوچ نہیں ہوسکتی حکومت اور اساتذہ  کے ساتھ ساتھ  والدین کو بھی اس بات کو  سمجھنا پڑے گا کہ بچوں کو اُن کی افتاد ، میلان اور رحجان کے مطابق ہی آئندہ شعبہ زندگی کا انتخاب کرنے دیا جائے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اُن کو یہ  ضرور سمجھایا جائے کہ وہ جس بھی شعبے کا انتخاب کریں اس کو درجہ کمال تک پہنچانے میں کوشاں رہیں۔
انسان جس بھی شعبہ کو اپنا لے اُس میں اپنی اپچ اور  ذہن کی وسعت کے مطابق وہ جتنی چاہے ترقی کر سکتا ہے۔ ایک بار حضرت خواجہ شمس الدین عظیمیؒ نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک شخص جوتے مرمت کرتا ہے۔ وہ دن بھر میں پرانے جوتوں کی مرمت اور پالش کرکے پچاس ساٹھ  روپے کما لیتا ہے۔ اب اگر وہ پرانے جوتوں کی مرمت کے ساتھ ایک آدھ نیا جوتا بنا کر فروخت کرنا شروع کر دیتا ہے تو لامحالہ اس کی آمدن بڑھ جائے گی اب اگر وہ صرف نئے جوتے بنانے کا کام کرنے لگ جائے اور دن بھر میں ایک یا دو جوڑے بھی بنا کر فروخت کر لے تو اُس کی آمدن ڈیڑھ دو سو روپے روزانہ ہو جائے گی۔ اب اگر وہ دو چار شاگرد پیشہ افراد کو ساتھ لگا لیتا ہے اور دن بھر میں آٹھ دس جوڑے بنا کر فروخت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے  تو اس کی آمدن تمام اخراجات کو نکال کر پانچ چھ سو روپے روزانہ تک ہوسکتی ہے۔ اور اگر اُس کے ذہن  میں سکت اور طاقت ہو اور وہ اس سطح سے بھی اوپر جاتا چاہے تو وہ کچھ سرمایہ جمع کرکے ایک آدھ سلائی مشین لے کر اپنے سامان کی تیاری  میں اضافہ کرکے پندرہ بیس جوڑے روزانہ بنا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب باٹا بھی تو ایک آدمی ہی تھا۔ اس نے اپنے ذہن اور اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا اور جوتے بنانے کا کارخانہ لگایا۔ اُنکی فروخت کا ایک نظام قائم کیا۔ اب پاکستان کے کس شہر، قصبے اور گاؤں میں   باٹا کا نام نہیں جانا جاتا۔ ہزاروں  جوڑے جوتوں کے بنتے ہیں۔ عورتوں مردوں کے علاوہ بچوں کے لئے طرح طرح کے ڈیزائنوں اور مختلف سا‏ئز کے جوتے بنانے کے لئے ، ان کے لئے خام مال کی خریداری سے لے کر اُن کی تیاری اور فروخت تک کا سارا نظام اُس نے اکیلے تنِ تنہا تو نہیں چلانا تھا۔ اُس نے کتنے ہی لوگوں کو اپنے ساتھ لگا لیا۔ یہ سب اپنے ذہن کو استعمال کرنے کی بات ہے۔ جو اپنے ذہن کا جتنا استعمال کرتا ہے۔ اتنا ہی وہ اس کام میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ اب اگر باٹا کے ذہن میں وسعت نہ ہوتی تو کیا وہ اپنے کام کو اتنا پھیلا سکتا تھا؟

اسی طرح آپ کسی بھی کام کو دیکھیں۔ آپ کو ایسی بے شمار مثالیں ملیں گی۔ جہاں کچھ لوگ ایک کام کو چھوٹے پیمانے پر کر رہے ہیں وہاں وہی کام کوئی دوسرا شخص بڑے پیمانے پر بھی کر رہا ہوتا ہے۔ اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر انسان اپنی افتاد طبع کے مطابق کوئی کام کرتا ہے اور اگر اس کے ذہن میں پھیلاؤ اور وسعت ہو تو وہ اُس کام کو بڑے پیمانے اور اچھے طریقے سے بھی کر سکتا ہے۔

تسلیم و رضا

تسلیم  و رضا
بحیثیت مسلم تسلیم و رضا ہماری خو ہونی چاہئے۔ اس بات کو اصلاً تو سب ہی مانتے ہیں لیکن جب عمل  کا وقت آتا ہے تو باہمی اختلافات کو گروہ بندیوں اور تفرقہ بازی تک پہنچا دینے سے شاید ہی کبھی کوئی کترایا ہو۔ حالانکہ اگر صرف اتنی سی ایک بات کسی طور ہمارے پلے بندھ جائے کہ حقیقت صرف ایک ہی ہوا کرتی ہے، جب حقیقت ایک ہی ہو تو اُس میں اختلاف کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ حقیقت شناسی کی بجائے ہم اپنے حقِ اختلافِ رائے کے استعمال پر اصرار کرنے کی ایسی بُری اور مضر لت کا شکار ہیں کہ آج اختلافِ رائے کے نام پر افراد سے لے کر اقوام تک سب ہی تفرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
اختلاف ہمارے اندازِ نظر کا ہوسکتا ہے، ہمارے طرزِ فکر کا ہو سکتا ہے یا پھر ہماری فہم کے فرق کا ہوسکتا ہے۔ حقائق میں نہ کبھی کوئی اختلاف ہوا ہے اور ہی  کبھی کوئی اختلاف ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے جس صلاحیت کی آبیاری کرنے کی ضرورت آج کسی بھی کام سے زیادہ ہوسکتی ہے، وہ ہے حقیقت شناسی کا ذوق۔ جب کسی فرد میں حقیقت شناسی کا ذوق پیدا ہو جاتا ہے تو اس کو دوسرے کا زاویہ نظر سمجھ بھی آ رہا ہوتا ہے اور وہ اُس فرق کو بھی دیکھ رہا ہوتا ہے جو اختلاف کا باعث ہوتا ہے۔
حقیقت شناسی کا ذوق پیدا کرنے کے لئے جس بات کی اہمیت سب سے زیادہ بنتی ہے وہ ہے غیر جانبدارانہ اندازِ نظر۔ کسی بھی معاملہ کی درست تفہیم تبھی ممکن ہوسکتی ہے جب اس معاملے کا جائزہ غیر جانبداری سے لیا جائے گا۔ کسی معاملے میں جس قدر جانبداری ہوگی معاملہ درست طور پر سمجھنا اسی قدر دشوار رہے گا۔ انسان کسی بھی معاملے کو یا تو جانبدار ہوکر سنتا اور سمجھتا ہے اور یا پھر غیر جانبدار ہوکر۔ جب انسان کسی معاملے کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھتا ہے تو وہ جانبدار ہوکر اس کو سمجھنا چاہتا ہے۔ تعصب اور ذاتی پسند و ناپسند اسی وجہ سے بنتے ہیں کہ انسان اُس معاملے کو غیر جانبداری سے نہیں دیکھ رہا ہوتا۔ اسی جانبدارانہ سوچ کو ہم ذاتی مفادات سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ اقربا پروری بھی اسی جانبدارانہ سوچ کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ میرٹ کا مطلب غیر جانبدار ہو جاتا ہی بنتا ہے۔ جب تک کسی معاشرے میں غیر جانبدارانہ سوچ کی طرزیں  عام نہیں ہو جاتیں اس معاشرے میں اقربا پروری، ذاتی مفادات اور رشوت کی لعنت پھٹکار بن کر برستی رہتی ہے اور جس معاشرے یا افراد کے گروہ میں غیر جانبدار انداز نظر عام ہو جاتا ہے وہاں میرٹ کا بول بلا تو ہوتا ہی ہے، تفرقی بازی اور گروہی اختلافات بھی ختم ہوکر رہ جاتے ہیں۔
بحث و مباحثہ اور مناظرے سب اسی جانبدارانہ انداز نظر کے شاخ سانے ہیں۔ کیونکہ ہر آدمی اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے جوش میں ہوش کا دامن تار تار کر رہا ہوتا ہے۔ اگر  گلیلیو نے کلیسا سے بحث نہیں کی تھ تو صرف اسی لئے کہ اس پر یہ حقیقت عیاں تھی کہ کسی حقیقت کو اپنے ثبوت کے لئے کسی چرب زبان کے لفظوں اور حرفوں کے کھیل کی کوئی ضرورت نہیں ہو کرتی۔ حقیقت میں اتنا تو دم ہوتا ہی ہے کہ وہ خود کو منوا سکتی ۔ اگر کسی حقیقت میں اتنا دم نہیں ہے تو پھر یا تو وہ حقیقت نہیں ہے اور یا پھر شعورِ انسانی اس کو سمجھنے ک ابھی اہل ہی نہیں ہو سکا۔ ہر دو صورتوں میں مناظرے اور مباحثے کی بہر حال کوئی گنجائش نہیں بنتی۔ جب مناظرے اور مباحثے کے دروازے بند ہو جائیں گے تو آپس کے اختلافات خود بخود کم ہوتے  ہوتے ختم ہوکر رہ جائیں گے۔ جب آپس کے جھگڑے کم ہوں گے تو ذہن تحقیق اور ریسرچ کی طرف متوجہ ہوں گے۔ اب یہ بات بڑو کی بجائے بچوں کو ہی سمجھا لی جائے تو شاید ہماری آنے والی نسلوں کو اغیار کے چنگل سے نکلنے کی راہ اپنانی آسان ہو جائے۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ سائنسی علوم کی تحقیق اور ریسرچ کی اولین شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنی پسند کے نتائج پر اصرار نہیں کریں گے اور جو آپ کے علم اور  مشاہدے میں آئے گا اُس کو نہایت غیرجانبداری سے نوٹ کرکے اس کو دوسروں کے سامنے پیش کر دیں گے اور اس بات کو سائنٹفک اپروچ کہ کر اس کی وکالت اور پرچار بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہ آج پوری دنیا میں سائنس کا بول بالا اور چلن تو ہے لیکن اس سائنٹفک اپروچ  کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہے۔ اس غیر جانبدارانہ انداز نظر کو جب تک لیباریڑی کی محدود فضا سے نکال کر اس کو اپنی پوری زندگی پر محیط نہیں کر دیا جائے گا انسان کو حقیقی معنوں میں گلوبل ولج کا باسی بننے میں دشواریاں پیش آتی رہیں گی۔
اگر کوئی وقم دنیا میں ممتاز و منفرد مقام حاصل کرنے کی حقیقی معنوں میں خواہش مند ہے تو اُس کو اپنے اساتذہ کرام سے یہ فرمائش ضرور کرنا ہوگی کہ وہ اپنے شاگردوں میں حقیقت شناسی کا ذوق ابھارنے میں اپنا کردار  ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہ ہونے دیں۔ اس ضمن میں معاشرے کے ہر فرد کو خواہ وہ والدین ہوں، اساتذہ ہوں، طلباء ہوں یا کوئی سرکاری اور غیر سرکاری اہل کار سب کو اپنے اپنے اندر غیر جانبدار اندازِ فکر و نظر پید ا کرنے کے لئے کو شان ہونا ہی ہوگا۔
غیر جانبدار اندازِ فکر و نظر کوئی ایسی چیز نہیں جو ہمارے لئے انوکھی یا اجنبی ہو۔ ہم عدالت کے جج کو یہی کام عملاً کرتے دیکھتے ہیں۔ وہ دونوں فریقوں کا مطمع  نظر الگ الگ سن کر غیر جانبداری سے فیصلہ کر دیتا ہے۔ نظامِ عدل کی پوری عمارت اسی غیر جانبداری کی بنیاد پر ہی تو کھڑی ہوتی ہے۔ اگر کسی فریق کو یہ شبہ بھی ہو جائے کہ ج غیر جانبدار نہیں رہا تو قانون   اس کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنا کیس کسی دوسرے جج کےپاس لے جائے۔ یہ جو ہمارے یہاں نظامِ عدل کی بابت تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے وہ اسی لئے ہوتا ہے کہ عدلیہ کی جانب سے غیر جانبداری کے مظاہرے میں کمی رہ جاتی ہے۔ اگر کسی ملک کی عدلیہ غیر جانبداری کا اظہار کرنے میں کوتاہی نہیں ہونے دیتی تو اُس ملک کا پورا نظامِ عدل انتہائی موقر اور معتبر مانا جاتا ہے۔
جب سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کرام اپنے شاگردوں کے غیر جانبداری کا درس نہیں دیتے تو وہ بچے بڑے ہوکر عدالت میں بیٹھ کر اگر غیر جانبداری کا  مظاہرہ کرنے میں کبھی کبھی ناکام ہو جاتے ہیں تو اس میں اُن کا انتا زیادہ قصور نہیں مانا جاسکتا۔ معاشرے میں عدل و انصاف کی حکمرانی کا تقاضا ہر ذی شعور انسان کرتا ہے۔ اس کا ا کے سواء اور کوئی حل ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم غیر جانبدار ہوکر سوچنے کی عادت کو عام کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ لوگوں  میں اس بات شعور پیدا کریں کہ غیر جانبدار طرزِ فکر سے ہی ہمارے معاشرتی اقدار میں قانون کا احترام بڑھے گا۔ لوگوں میں قانون سے استثنائیت اور اس سے بالاتر ہونے کا جو شوق روز افزوں ہوتا چلا جا رہا ہے اُس کو لگام دینے کا اگر کوئی ممکن  طریقہ ہے تو وہ یہی بنتا ہے کہ افراد معاشرہ غیر جانبدار طرز فکر کو خود اپنے اندر رائج کرنے کا تہیہ کرلیں۔ اگر معاشرے کا ایک فرد کسی قانون سے استثناء طلب کرتا ہے تو پھر پورا معاشرہ اُس بات کا بُرا مناتا ہے اور پھر وہ کچھ اور کرسکتا ہے یا نہیں کم از کم اس کے دل سے قانون کا احترام ضرور کم ہو جاتا ہے۔
بات قانون بنانے کی آجائے  تو غیر جانبدار طرزِ فکر کا حامل ہونا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اگر قانون بنانے والوں نے قانون کو کسی خاص گروہ کے مفاد کے پیش نظر بنایا ہو تو اس کا احترام زیادہ دیر تک نہیں کروایا جاسکتا۔ المیہ تو یہ ہے کہ مذاہب عالم میں سے کسی بھی مذہب کی تعلیمات اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہیں کہ انسان جانبدار سوچ کو اپنا کر زندگی کو محدود طرزوں میں بسر کرے۔ لیکن اس کے باوجود صورت حال کچھ یوں ہے کہ جس مذہب نے اس بات پر جتنا زیادہ اصرار کیا اور اپنی تعلیمات میں اس بات پہ جتنا زیادہ زور دیا اُسی مذہب کو ماننے والوں نے اتنا ہی اس بات کو کم سنا، اپنا یا اس بھی کم اور عمل اس سے بھی کم کیا۔ ملکی قانون  سازی، حکمرانی اور سیاست سب ہی شعبے اس صفت و صلاحیت کے بغیر وقتی اور انفرادی مفادات کا کھیل بن کر رہ جاتے ہیں۔ وقتی اور انفرادی مفادات کے کھیل کا احترام اتنی  ہی دیر ہوتا ہے جب تک بات لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے اور جب لوگ اس بات کو سمجھ لیتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ یہ اُن سے متعلق بات نہیں ہے وہ اس کا احترام کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
قوانین کا  احترام کرنے کی بات ہو یا  اپنی زندگی کو بہتر طور پر بسر کرنے اور گزارنے کی انسان اس ضمن میں حالات کا تذکرہ کئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ معاشرتی ادارے ہوں یا افرادِ معاشرہ کی انفرادی زندگی کے حالات ہر دو کو مختلف ادوار اور حالات سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ افراد ان حالات کو اچھا یا بُرا کہتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ انسانوں کے اعمال کے انعام یا  شامت کے طور پر سامنے آتے ہیں اور دوسرے  یہ کہ فطرت انسان کے اندر  پوشیدہ اور مستور صلاحیتوں کو سامنے لانے کے لئے، اُن کی شخصیت اور کردار کی مخفی گوشوں کو خود اُن پر آشکارا کرنے کے لئے انہیں اچھے اور بُرے حالات سے گزارتی ہے ۔ اچھے اور بُرے حالات کی بابت ایک سوچ یہ بھی ہے کہ بُرے حالات نہ ہوں تو اچھے کی قدر نہیں ہوسکتی اور ایک اندازِ فکر یہ بھی ہے درحقیقت حالات انسان کی شخصیت اور کردار کا اصل امتحان ہوتے ہیں۔ اچھے حالات میں تو ایک بُرا انسان بھی اچھے رویے کا مظاہرہ کر لیتا ہے لیکن اسل میں اچھا انسان وہی ہوتا ہے جو بُرے حالات میں بھی اچھے رویے کا مظاہرہ کر سکے۔ جس میں  صبر و رضا کا مادہ ہو وہی انسان حالات کی اچھائی اور برائی کی پرواہ کئے بغیر ان سے ہنسی خوشی گزرتا چلا جاتا ہے۔
صاحبانِ علم حضرات کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو صبر و رضا کے اصل مفہوم سے واقف ہونے کے بعد اس کے عامل بن جاتے ہیں وہ 'ابو الوقت' کہلاتے ہیں جبکہ ان صفات سے عاری لوگ ابن الوقتی سے آگے بڑھنے کی بات کو بھی ممکن نہیں مانتے، ان کو اپنانا اور  اِن پر کار بند رہنا تو بہت دور کی بات ٹھہرتی ہے۔ حالات کو اچھا بُرا ماننے کی حدوں سے گزرنے والے افراد کے ذہن میں اتنی قوت اور طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ خود اپنے حالات پیدا کرنے پر قدرت حاصل کر لیتے ہیں۔ عام آدمی کے نزدیک ایسی باتیں ایک چاشنی والے ادبی جملے سے شاید زیادہ نہ ہوں لیکن غیر جانبدارانہ اندازِ نظر رکھنے والا ذہن ان پر غور کرنے کے بعد اُس میکانزم کو دریافت کرسکتا ہے جس کو اپنانے کے بعد پا مردی اور استقامت سے حالات کا مقابلہ کرنے والے لوگ نا موافق  حالات کو بھی اپنے حق میں منقلب کرنے کی صلاحیت اور استعداد پیدا کرسکتے ہیں۔
جن لوگوں میں نا موافق حالات کو اپنے حق میں تبدیل کر لینے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے وہ سب بھی تو اسی دنیا کے باشندے ہوتے ہیں۔ ہمارے اور آپ جیسے لوگ، فرد و بشر ہی ہوتے  ہیں۔ ایسے افراد کی تربیت حالات اور زمانہ خود کرتے ہیں۔ اب سوال یہ  ہے کہ کیا ہمارے نظامِ تعلیم میں کوئی ایسی گنجائش ہے کہ ہم ایسے افراد کی امید کر سکیں جو زمانے سے اپنی شرائط منوانے کی ہمت اور سکت رکھتے ہوں اور حالات کو اپنی مرضی کی نہج پر موڑنے کا شعور اور استعداد رکھتے ہوں ایسی درس گاہوں کی جہاں ایسے افراد تیار کئے جاسکتے ہوں جتنی ضرورت آج کے دور کو ہے شاید آج سے پہلے کبھی کسی اور دور میں نہ تھی۔ ایسی صلاحیتوں کے حامل افراد کو تیار کرنے میں جو مشکل درپیش ہے وہ یہی ہے کہ ہمارے پاس ایسے اساتذہ کرام نہیں ہیں جو ایسے افراد کی تیاری کا عظیم کام اپنے توانا کندھوں پر اٹھا سکتے ہوں اور اگر کہیں ایسے اساتذہ ہیں بھی تو ایسے افراد دستیاب نہیں ہو پاتے جو اپنی صلاحیتوں کو اس حد تک نکھارنے پر آمادہ ہوں۔ نہ سرف آمادہ ہوں بلکہ اس کے لئے جس کٹھن تربیت سے گزرنا پڑ سکتا ہے اُسکے لئے بھی آمادہ تیار ہوں۔ وہ مکمل خود سپردگی جو اس قسم کی تربیت کے لئے شرطِ اول ہوا کرتی وہ آج کے مادیت پرست ماحول میں دستیاب ہونا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس کی ایک ہی صورت بن سکتی ہے کہ پہلے ہم اپنے نظام تعلیم کو ان خطوط پر استوار کرلیں جو بچوں اور طلباء کے ذہنوں سے اس مفادات کے حوالے سے سوچ کو اولیت دینے والے طرزِ فکر کی اصلاح کرسکتا ہو۔
جب ہماری ایک نسل ایسی طرزِ فکر کی حامل ہو جائے گی جس کے حامل افراد انفرادی سوچ، وقتی فائدے اور ذاتی مفادات سے اوپر اُٹھ کر اجتماعی سوچ رکھتے ہوں گے، دور اندیشی سے کام لینا جانتے ہوں گے اور ملکی اور قومی مفاد کو فوقیت دینے کا جذبہ رکھتے ہوں گے تو پھر یقیناً ایسے اساتذہ اور ایسے بچے وافر تعداد میں دستیاب ہوسکیں گے جو اپنے ذہن اور روح کی ایسی تربیت کے لئے خود کو مکمل طور پر وقف کر سکیں گے جس کے نتیجے میں وہ زمانے کی طنابیں اپنے ہاتھوں میں تھام سکیں گے۔ اقبال ایسے افراد کو مرد کامل کے نام سے ہم سب بہت پہلے متعارف کروا چکا ہے۔


Featured Post

Adiala Jail's monitoring is strict, meetings are limited, 3 members of the party will be allowed to meet Pakistan Tehreek-e-Insaf founder Imran Khan, Naeem Panjotha, Khalid Shafiq and Naseeruddin Nair.

Adiala Jail's monitoring is strict, meetings are limited, 3 members of the party will be allowed to meet Pakistan Tehreek-e-Insaf founde...