Posts

Showing posts from December 19, 2017

علم اور تعلیم

علم اور تعلیم علم کی بات ہو تو ذہن میں اس مفہوم جان کاری، آگاہی اور واقف ہونا ہی آتا ہے۔ عرفان و آگہی اسی لئے علم سے متعلق قرار دیئے جاتے ہیں کہ علم حاصل ہونے کے نتیجے میں وہ ذہن تشکیل پاتا ہے جو انسان کو خارج سے حاصل ہونے والی معلومات کی سطح سے اوپر اٹھ کر اپنے باطن میں موجود حقائق سے روشناس ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ تعلیم کا مطلب درحقیقت تحصیل علم ہی ہے اور اس ہی لئے طالبِ علم، متعلم اور معلم کی اصطلاحات عم کے حاصل کرنے اور علم کی راہ پر گامزن کرنے اور اس کے حصول میں مدد کرنے والوں کے لئے استعمال ہونا شروع ہوئیں۔ حصول علم کا مستند ذریعہ تو مشاہدہ ہی ہے۔ یہ مشاہدہ خارج میں موجود اشیاء کا بھی ہوسکتا ہے اور اشیاء اور شاہد کے باطن میں موجود حقائق کا بھی۔ کسی بات کا تجربہ کرنا مشاہدہ کے لوازم میں آتا ہے۔ یعنی تجربہ مشاہدے کے لئے اساس فراہم کرتا ہے اور تجربے کے نتیجے میں کچھ حقائق انسان کے مشاہدے میں آ جاتے ہیں۔ انسان ان حقائق کی بنیاد پر جو اس کو اپنے مشاہدات کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں، کچھ نتائج اخذ کرکے اپنی زندگی ان کی روشنی میں بسر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان کی قوتِ مشاہدہ ج

نئی نسل

نئی نسل دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ جہاں خود ایک طرف نئی نسل کا رکن بنتا ہے وہیں دوسری طرف وہ اپنے ماں باپ  کو نئی نسل کی صف سے نکال کر پرانی نسل کی قطار میں کھڑا کر دیتا ہے۔ ماں باپ اپنے بچے کو خود سے بہتر بنانا چاہتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں بھی کر پاتے تو یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ اُن کا بچہ زندگی میں ان سے بہتر مقام تک نہیں پہنچتا تو کم از کم کامیابی کی اس منزل تک تو ضرور پہنچ جائے جہاں وہ خود کو پاتے ہیں۔ اب یہ بتانا تو دشوار ہے کہ فطرت ان کی اس خواہش کے پیشِ نظر اُن کے دل میں اپنی اولاد کے لئے پیا بھر دیتی ہے یا پھر اپنی اولاد کے پیار کے ہاتھوں  مجبور ہوکر وہ ایسی خواہش کرتے ہیں۔ بہر حال اس بحث سے قطع نظر کہ ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ ایسی خواہش پیدا ہوتی ہے یا اولاد کی بہتری کی خواہش  ممتا کو جنم دیتی ہے، یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ اولاد کے حوالے سے ماں باپ کی ہر خواہش اپنی اولاد کی بہتری کے لئے ہی ہوتی ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کے ہاتھوں ماں باپ پہلے روز سے ہی بچے کی دیکھ بھال، نگہداشت، پرداخت اور تربیت میں جُت جاتے ہیں۔ اس تربیت کا انداز ہر ماں باپ کی اپنی ذہنی سکت،

روحانی والدین

روحانی والدین اساتذہ کرام کی بابت یہ بات کس کے علم میں نہیں کہ وہ اپنے وہ تلامذہ اور شاگردوں کے لئے روحانی والدین کی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو یہ دیکھ کر عقل و شعور اور وجدان اور آگہی سر پیٹ کر رہ  جاتے ہیں کہ ہم روحانی تو درکنار اساتذہ کرام کو محض والدین جتنا رتبہ دینے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ اس بات کا اگر اس حوالے سے جائزہ لیا جائے کہ ہماری اس ناکامی کی اصل وجوہات کیا ہیں اور اس تمام صورتِ حال کا غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تاکہ ان عوامل کا  کھوج لگایا جا سکے جو اُس دگرگوں حالت کا اصل سبب ہیں، تو پہلی بات جو ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ روحانی والدین ہونے کے اس منفرد اعزاز ، اعلیٰ مقام اور بلند رہے کو کھو دینے میں اساتذہ کرام کا اپنا قصور بہت ہی نمایاں ہے۔ آخر وہ بھی تو استاذ تھے جنہیں اُن کے تلامذہ اور شاگردوں نے اس لقب سے یاد کر اپنی سعادت سمجھا تھا۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کی تلاش کریں کہ آج کا استاذ اس مقامِ گم گشتہ کو حاصل کیونکر اور کیسے کرسکتا ہے۔ اساتذہ کی حالتِ زار اور تعلیمی نظام میں موجودہ خرابی
کلیدی کردار والدین، حکومت ، اساتذہ اور طلباء نظامِ تعلیم کے ایسے اراکین ہیں کہ اگر ان میں سے ایک رکن بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کا مرتک ہو ہزار کوششوں کے باوجود ہم تعلیمی میدان میں اس نتیجے کی توقع نہیں کر سکتے جس کی آرزو  ہر سمجھدار اور ذہنی شعور انسان کرتا ہے اور اس کا خواب دیکھتا ہے۔ ہمیں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جہاں والدین یا اساتذہ کی انفرادی طور پر کی گئی  کا وشوں کے سبب بہت سے طلباء قابل، محنتی، با صلاحیت اور باشعور افراد بن کر اپنے اور معاشرے کے لئے سود مند ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مجموعی طور پر صورت حال قابلِ فخر اور اطمینان بخش تو کجا محض تسلی بخش بھی نہیں کہی جاسکتی۔ تعلیمی نظام کے حوالے سے دیکھا جائے تو اجتماعی طور پر والدین اور اساتذہ کرام دونوں کے کردار، یہاں کردار کے ہر دو مفہوم   (Role and Character) میں بہتری اور اصلاحِ احوال کی ضرورت سے انکار کی گنجائش کم  ہی نکلتی ہے۔ یہ نہیں کہ تمام تر ذمہ داری اساتذہ کے سر ڈال دینے کے بعد والدین کا کردار ختم ہو جاتا ہے یا یہ کہ بچے کو اسکول بھیجنے سے پہلے والدین کو بچے کی تربی