علم اور تعلیم

علم اور تعلیم
علم کی بات ہو تو ذہن میں اس مفہوم جان کاری، آگاہی اور واقف ہونا ہی آتا ہے۔ عرفان و آگہی اسی لئے علم سے متعلق قرار دیئے جاتے ہیں کہ علم حاصل ہونے کے نتیجے میں وہ ذہن تشکیل پاتا ہے جو انسان کو خارج سے حاصل ہونے والی معلومات کی سطح سے اوپر اٹھ کر اپنے باطن میں موجود حقائق سے روشناس ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ تعلیم کا مطلب درحقیقت تحصیل علم ہی ہے اور اس ہی لئے طالبِ علم، متعلم اور معلم کی اصطلاحات عم کے حاصل کرنے اور علم کی راہ پر گامزن کرنے اور اس کے حصول میں مدد کرنے والوں کے لئے استعمال ہونا شروع ہوئیں۔
حصول علم کا مستند ذریعہ تو مشاہدہ ہی ہے۔ یہ مشاہدہ خارج میں موجود اشیاء کا بھی ہوسکتا ہے اور اشیاء اور شاہد کے باطن میں موجود حقائق کا بھی۔ کسی بات کا تجربہ کرنا مشاہدہ کے لوازم میں آتا ہے۔ یعنی تجربہ مشاہدے کے لئے اساس فراہم کرتا ہے اور تجربے کے نتیجے میں کچھ حقائق انسان کے مشاہدے میں آ جاتے ہیں۔ انسان ان حقائق کی بنیاد پر جو اس کو اپنے مشاہدات کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں، کچھ نتائج اخذ کرکے اپنی زندگی ان کی روشنی میں بسر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان کی قوتِ مشاہدہ جس قدر توانا ہوتی ہے اس کے مشاہدات بھی اسی قدر جامع اور مکمل  ہوتے ہیں اور جس قدر مشاہدات جامع اور مکمل ہوتے ہیں وہ حقائق کی اصل کے اتنے ہی قریب ہو جاتا ہے  اب جتنا زیادہ کوئی حقیقت کے قریب ہوتا ہے اسی قدر اس کی زندگی بہتر ہوتی چلی جاتی ہے۔
مشاہداتی طرزوں سے محروم انسان کے پاس حصولِ علم کا جو راستہ باقی رہ جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے کے مشاہدات سے استفادہ کرے۔ بچہ اپنے ماں باپ کا کہا مان کر ان کے تجربات اور مشاہدات ہی سے تو استفادہ کرتا ہے۔  ماں باپ کے بعد وہ اپنے اساتذہ کرام کی باتیں سن کر ان کے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں اپنی زندگی کا سفر طے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اساتذہ کرام اپنے تلامذہ کو جو کتب پڑھاتے ہیں وہ ان کتب کے مصنفین کے علم، تجربے اور مشاہدات کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ یعنی کتب کا مطالعہ دوسروں کے تجربات اور مشاہدات سے استفادے کا ایک ذریعہ ہے مطالعہ کرنا  تحصیل علم کا ایک ذریعہ تو ضرور ہے مگر ہم نے اسی کو علم کے برابر قرار دے کر علم و آگاہی کی پوری دیوار ہی کج کی ہوئی ہے۔
مطاعہ کتب کا اصل مقصد دوسروں کے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں اپنے تجربات اور مشاہدات کو بہتر کرنا ہو تو علم میں واقعتاً اضافہ ہوسکتا ہے لیکن اگر مقصد محض امتحان پاس کرنا ہو تو پھر اکثر ایسا نہیں بھی ہو پاتا ۔ نہ ہی علم میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی امتحان میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ جب مطالعہ کا اصل مقصد ہی حذف ہو چکا ہو تو اس کے منطقی نتائج کی توقع بھی عبث ہی قرار پائے گی یعنی علم سے محروم ہی رہا جائے گا۔ ہمارے پورے تعلیمی نظام میں انقلاب تبھی آسکتا ہے جب ہم اپنے بچوں ، شاگردوں اور طلباء میں مطالعہ کا درست شعور اجاگر کر سکیں گے۔ مطالعہ اور خواندگی میں جو فرق ہے ہمیں اس کو خود بھی سمجھنا ہوگا اور دوسروں کو بھی بتانا ہوگا۔
خواندگی کا مطب ہے کسی تحریر کو پڑھ لینے کی قابلیت ہونا۔ تعلیم بالغان اور پرائمری درجات میں سارا زور خواندگی سکھانے پر ہوتا ہے۔ حروف کی شناخت اور ان سے متعلقہ آوازوں کی ادائیگی  کے بعد حروف کی متعلقہ آوازوں کو ملا کر ادا کرنا اور الفاظ کو ایک ایک کرکے پڑھتے ہوئے اس قابل ہو جانا کہ پورے پورے جملے اور پھر صفحوں کے صفحے پڑھ لینا، یہ سب محض خواندگی کے زمرے میں آتا ہے۔ خواندگی سیکھنے کے بعد اس کی بھر پور مشق ہونے کے نتیجے میں پڑھنے کی رفتار بننا شروع ہو جاتی ہے۔ اب اگر توجہ پڑھی جانے والی تحریر کے مفہوم پر مرکوز ہو تو اس تحریر کے ذریعے بیان کی جانے والی بات سمجھ آنے لگتی ہے۔ باالفاظِ دیگر اگر کسی تحریر کو پڑھ کر یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ مصنف نے کیا کہا ہے اور کے کہنے کا اصل مقصد و مدعا کیا تھا تو یہ اس تحریر کی محض خواندگی ہی ہوئی۔ خواندگی میں اعضائے جسمانی کی حرکات یعنی آنکھ سے دیکھنا، دماغ کے شعبہ یاداشت سے شناخت کرنا اور منہ سے الفاظ کی ادائیگی جیسے اعمال ہی سرزد  ہوتے ہیں اور انہی کی تکرار ہوتی رہتی ہے۔ جب کہ مطالعہ کے دوران قوائے جسمانی کے ساتھ، ساتھ قوتِ متخیلہ اور قوتِ فیصلہ جیسی باطنی صفات بھی حرکت میں رہتی ہیں اور مطالعہ کرنے والے کو ان صفات کے استعمال کی مشق کے مواقعے فراوانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔
مطالعہ درحقیقت کسی تحریر میں مستور اُن تصاویر کو اپنے ذہن کی سکرین پر اجاگر کرنے کا عم ہے جو کسی مصنف نے الفاظ کی مدد سے صفحہ قرطاس پر سجائی ہوتی ہیں۔ اگر کسی تحریر کو خواہ وہ نثر ہو یا شاعری، پڑھنے کے دوران اگر قاری کے ذہن میں کوئی تصویر نہیں بن رہی تو یہ عمل خواندگی تو ضرور ہوا لیکن مطالعہ نہیں ہوسکتا۔ اس بات کی وضاحت کچھ یوں بھی کی  جاسکتی ہے کہ ایک مصنف جو کچھ لکھتا ہے وہ کسی نہ کسی خیال کی وضاحت کے لئے تحریر کرتا ہے اور اگر قاری اُس خیال کو اپنے ذہن کی گرفت میں لے لیتا ہے تو تحریر کی خواندگی مطالعہ کی حدود میں داخل ہو جتی ہے۔
جب قاری لکھنے والے کے خیال سے اتفاق کرتا ہے یا نہیں، اُس کو رد کر دیتا ہے یا اُس میں کی کمی کی نشاندہی کرتا ہے، یہ سب باتیں مطالعہ کے اجزائے ترکیبی کہلاتی ہیں۔ اس قسم کے مطالعہ ہی سے انسان کے ذہن میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوسکتی ہے ورنہ تو ہم قرآن  ناظرہ کی تلاوت بھی صدیوں سے کر ہی رہے ہیں۔
خواندگی کی سطح سے بلند ہوکر مطالعہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ الفاظ کے معانی اور مفاہیم کا مناسب ذخیرہ بھی یاداشت میں محفوظ ہو۔ اس کے لئے اساتذہ کرام کو اپنے تلامذہ میں لغت اور ڈکشنری کے استعمال کا شعور اجاگر کرنے پر مناسب توجہ دینی چاہئے۔ اس کا آسان سا طریقہ تو یہی بنتا ہے کہ وہ اپنے تلامذہ کو مختلف الفاظ دے اس بات کا پابند کریں کہ وہ ان کے مطالب کے ساتھ، ساتھ بھی بتائیں کہ یہ الفاظ کس مادے سے بنے ہیں اور اصل میں کس زبان کے ہیں۔ اس سے ملتے جلتے کئی اور طریقے بھی وضع کئے جاسکتے ہیں جن سے لغت اور ڈکشنری کے استعمال کی حوصلہ افزائی ہو اور طلباء  کی رغبت اور شوق میں اضافہ ہوسکے۔
ہمارے یہاں کئی سکولوں میں بچوں کے بستوں میں ڈکشنریوں کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اصل بات تو اُن کافر وانی سے استعمال کرنے کی عادت ہے۔ بچے ڈکشنری کھولنے اور اُس میں مطلوبہ لفظ کی تلاش کی زحمت سے بچنے کے لئے اپنے اساتذہ سے اس کا مطلب دریافت کرنے کی آسان راہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اساتذہ کرام کو چاہئے کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اُن کو اس بات پہ ابھاریں کہ وہ مطلوبہ لفظ کا مطلب خود ڈکشنری میں دیکھ کر اُن کو بتائیں۔
جب طلباء کو درست طور پر مطالعہ کرنا آتا ہوگا تو وہ خواندگی کی سطح سے بلند ہوکر افکار و نظریات میں دلچسپی لے سکیں گے۔ اساتذہ کا اصل کردار اپنے شاگردوں کو درست اور غلط افکار و نظریات میں تمیز کرنا سکھانا ہو تو تعلیم کے میدان میں اٹھنے والا ہر قدم راست سمت میں ہوتا ہے اور جب اساتذہ خود کو الفاظ کا مطلب بتانے کے کام تک محدود کر لیتے ہیں تو نتیجہ وہی کچھ ہوسکتا ہے جس سے اس وقت پوری قوم دوچار ہے اور اس سے نجات کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی۔
اس بات کی وضاحت سے یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ دو دو سال تک ایک ہی کتاب کی محض خواندگی ہی ہوتی رہتی ہے اگر ذوق مطالعہ اجاگر اور تجسس کی فطری قوت کو درست انداز میں تربیت دی جائے تو ایک کتاب کا مطالعہ سالوں اور مہینوں نہیں بلکہ محض گھنٹوں اور دنوں کی بت رہ جاتی ہے۔ اس بات کو کسی بھی زاویے سے دیکھیں اور حساب لگائیں کہ اگر ایک آدمی دوسو صفحات کی ایک کتاب کا مطالعہ دو سال میں بھی مکمل نہیں کرسکتا تو جب وہ کسی دفتر میں کام پر لگایا جائے گا اور اس کو زیادہ نہیں تو پانچ چھ فائلیں، جن میں سے ہر فائل چالیس تا پچاس صفحات کی ہو، پڑھ کر ان کے مندرجات کی بابت کوئی فیصلہ کرنا ہوگا تو اُس کو کتنی مدت درکار ہوگی؟ اگر وہ عملی زندگی میں آنے کے بعد اپنی رفتارِ خواندگی میں دوگنا اضافہ بھی کر لے تب بھی ان پاچ چھ فائلوں کو ان صاحب کی میز سے آگے جانے میں سال ڈیڑھ تو لگ ہی جائے  گا۔ اور اس میں اچنبھا بھی کیا ہے؟ کیا یہاں ہر دفتر میں اکثر یہی کچھ نہیں ہو رہا؟
اگر رفتار مطالعہ کو طالب علمی ہی کے زمانے میں نہ بڑھایا جائے تو بعد میں اس کو بڑھانے میں وقت ہوتی ہے اور زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔ مطالبہ کی رفتار بڑھانے کا سب سے اچھا طریقہ تیز رفتاری سے پڑھنے کی مشق کرنا ہی ہے۔ اس کے لئے پہلی بات تو یہ ضروری ہے کہ انسان مطالعہ کے دوران زبان حرکات کو مکمل طور پر روک کر صرف نگاہوں سے پڑھنے کی عادت کو اپنائے۔ آغاز میں گھڑی پاس رکھ کر مطالعہ شروع کیا جائے اور دیکھا جائے  کہ پانچ دس صفحات کتنی دیر میں پڑھے جاتے ہیں اور پھر انہی صفحات کو دوبارہ اور سہ بار پڑھ کر اپنے پڑھنے کی رفتار کو بتدریج بڑھایا جائے ۔ اگر اس قسم کے مطالعے کے لئے کسی ایسی کتاب کا انتخاب کیا جائے جو ذوق کے مطابق ہو اور اس کے موضوع میں پڑھنے والے کی دلچسپی بھی ہو تو بہتر نتائج کے حصول میں آسانی اور سہولت ہو جاتی ہے۔
جب ذوق مطالعہ کی بنیاد پڑ جاتی ہے تو انسان جو کچھ پڑھتا ہے، اسے سمجھ کر پڑھتا ہے اور قانون یہ ہے کہ جو بات سمجھ آجاتی ہے اس کو حافظہ بھی آسانی سے اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے اس کی نہایت عام سی مچال یہ ہے کہ ہم دیکھی ہوئی اشیاء ، مناظر اور واقعات کو با آسانی یاد کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ یہ کہ بچے دیکھی ہوئی فلموں کے مناظر کی تفصیل تو وضاحت سے بیان کرسکتے ہیں لیکن پڑھی ہوئی بات کو حافظے کی سطح پر اجاگر تفصیل تو وضاحت سے بیان کرسکتے ہیں لیکن پڑھی ہوئی بات کو حافظے کی سطح پر اجاگر کرنے ین انہیں وقت ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ بچوں کو فلمیں دیکھنے کی غیر ضروری ترغیب دی جانی چاہئے اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ بچوں اور بڑوں کو چاہئے کہ وہ مطالعہ کے دوران اپنے ذہن کی سکرین پر اس تصویر کو اجاگر کریں جو مصنف کے ذہن میں موجود آتی  اور اُس نے رنگوں کے بجائے الفاظ کے تانے بانے کی مدد سے اُ س کو قاری کے ذہن میں اجاگر کرنے کی کوشش کیا ہے اگر ایک دفعہ قاری کا ذہن اس منظر، واقعہ یا خیال کی تصویر کو دیکھ لیتا ہے جو مصنف دکھانا چاہتا ہے تو اس کا حافظہ اس کو باآسانی یاد میں واپس لا سکتا ہے۔
جب مطالعہ اس طرز سے ہوتا ہے تو انسان کی فہم بھی بڑھتی ہے اور اسطرح سیکھی گئی بات کو کبھی بھی اور کہیں بھی دہرایا جاسکتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ امتحان پاس کرلینے کے بعد بھی وہ حافظے  میں محفوظ رہتی ہے اور عملی زندگی میں کام بھی آتی ہے۔ پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنا سیکھنا بھی خواندگی کا ایک جزو ہے۔ لکھنے سے اصل میں تو یہی بات مراد ہوتی ہے کہ انسان نے بولی جانے والی آوازوں کے ٹکڑے کرکے ان کی مفرد حالتوں کے لئے مختلف علامات مقرر رکھیں اور ان علامات کو حروف تہجی کا نام دے دیا ہے۔ جب کسی لفظ کی مقررہ صوتی علامات یعنی حروفِ تہجی کو ترتیب سے صفحہ قر طاس پر ظاہر کر دیا جاتا ہے تو اس عمل کو تحریر کرنا یا لکھنا کہا جاتا ہے۔ اس عمل کی جوں جوں مشق ہوتی چلی جاتی ہے انسان کے لکھنے کی رفتار بھی اسی نسبت سے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ حروف تہجی کی مقررہ اصوات کو اردو، عربی اور فارسی وغیرہ جیسی زبانوں میں مختلف اعراب لگا کر کئی مزید آہنگ بھی احاطہ تحریر میں لانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
لکھنا سیکھنے کے ضروری ہے کہ انسان حروف کی اصوات کو ذہن نشین کر لے۔ اس کا ایک طریقہ یہ بی آزمایا گیا ہے کہ کسی حرف کو اس کے نام سے یا کرنے کی بجائے اس کی آواز سے یاد کیا اور کروایا جائے۔ مثلاً الف کو الف یاد کرنے کی بجائے اس کو اس کی آواز  یعنی 'آ' سے یاد کیا جائے۔ اسی طرح بے پے تے کی بجائے با، پا اور تا کہنے اور یاد کرنے سے لکھنے میں سہولت اور آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ طریقہ بہر حال کچھ بھی ہو لکھنے کی مشق کئے بغیر یہ سمجھنا کہ لکھنے میں روانی اور خوشخطی میں اضافہ ممکن ہوسکتا ہے محض ایک خام خیالی ہی ہوگی۔
لکھنے کی رفتار اور خوشخطی دونوں کو بیک وقت قائم رکھنا عام طور پر دشوار سمجھا جاتا ہے  اور یہ کہ کر بات کو ٹال دیا جاتا ہے کہ یہ خدا داد صلاحیت ہے۔ حالانکہ یہ محفل مشق کا کمال ہوتا ہے۔ اس کا طریقہ بھی کچھ زیادہ دشوار نہیں۔ لکھنا سیکھنے کے لئے الفاظ کی آوازوں کے ٹکڑے جوڑنا جس کو عرف عام میں ہجے کرنا کہتے ہیں، سیکھنا چاہئے۔ اس سے املا درست ہوجاتی ہے۔ ساتھ ساتھ تحریر کے حسن کا خیال رکھنے کو اگر یہ بھی بتایا جاتا رہے کہ خوشخطی کا اردو کے لئے آسان طریقہ یہ ہے کہ کھڑے حروف یعنی الف لام اور میم کو زاویہ قائمہ پہ سیدھا رکھا جائے اور بیضوی حروف یعنی  جیم ، چے ، سین شین صاد وغیرہ کو بیضوی شکل میں بنانے کی کوشش الگ سے کی جائے۔ جو حروف سطر کے ساتھ لٹا کر لکھے ہیں جیسے بے ، پے، تے وغیرہ کو سطر کے ساتھ لٹا کر لکھنے اور ان حروف کے سا‏ئز میں تناسب کا خیال رکھنے سے لکھائی خوشخط ہو جاتی ہے ۔ محض بچوں کی کاپیوں پی اتنا لکھ دینے سے کہ لکھائی بہتر کریں، لکھائی بہتر ہونے سے تو رہی۔
یوں تو ہر استاذ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے تلامذہ کی تحریر خوشخط ہو اور وہ اس کے لئے کوشش بھی کرتے ہیں لیکن اگر وہ اوپر بیان کردہ چند جملے بچوں کے گوش گزار کرنے کے بعد اس بات کو یقینی بنالیں کہ ان کے شاگرد ان باتوں پر کار بند بھی رہیں تو یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جہاں تلامذہ کی خوشخطی دیکھ کر ایک طرف اساتذہ اور والدین خوش ہوں گے وہاں دوسری طرف بچے ساری عمر اپنے اساتذہ کو دعائیں دیا کریں  گے کہ انہوں نے ان کی لکھائی کو خوش خط بنانے میں اپنا کردار پوری طرح ادا کیا۔
مناسب ہوگا کہ چلتے چلتے انگریزی کا خط درست کرنے کی بابت بھی چند ایک باتیں عرض کر دی جائیں۔ انگریزی لکھنے میں کل چار باتوں کا خیال رکھنے سے انگریزی کی تحریر بھی خوشخط ہوتی ہے۔ انگریزی میں لکھنے کے دو ہی طریقے ہیں ایک جس میں حروف کو الگ الگ لکھا جاتا ہے اس کو پرنٹ رائٹنگ کہتے ہیں اور دوسرا جس میں حروف کو ملا کر قلم بند کیا جاتا ہے اس کو Joining  رائٹنگ کہا جاتا ہے۔ بچوں کو اول اول پرنٹ رائٹنگ پہ ڈالا جاتا ہے اور جب ان کا ہاتھ قدرے رواں ہو جاتا ہے تو ان کو ملا کر لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں خوشخطی کے لئے ضروری ہے کہ
۱۔ حروف کے سا‏ئز یکساں ہوں،
۲۔ حروف اور الفاظ کے درمیان فاصلہ برابر ہو،
۳۔ ہر حرف ایک سے زاویے پہ جھکاؤ رکھتا ہو یعنی لکھے جانے والے تمام حروف میں ایک سا ترچھا پن ہو اور تمام حروف لائن کو دھیان میں رکھ کر لکھے جائیں،۔
۴۔ ہر حرف کی بناوٹ متناسب ہو۔
تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی بچہ بد خط رہ جائے لیکن شرط صرف یہی ہے کہ یہ باتیں بچوں کو کچھ اس طرح ذہن نشین کروا دی جائیں کہ وہ ان کے اندر پختہ اور راسخ ہو جائیں ۔ اور یہ کام مسلسل نگرانی کے بغیر ہو نہیں سکتا۔ اگر اساتذہ کرام زیادہ نہیں تو کم از کم ایک دو ماہ اس بات کی نگرانی کو یقینی بنا کر بچوں پہ یہ احسان کرسکتے ہیں کہ ان کی اردو اور انگریزی دونوں قسم کی لکھائی کو خوشخط بنوا سکتے ہیں۔
یہ نگرانی کی شرط اس لئے ضروری ہے کہ جب انسان کوئی نیا کام سیکھنا شروع کرتا ہے تو وہ اس کام کو ارادی طور کرتا ہے اور یہ انسانی فطرت ہے کہ جب اسکو کوئی کام ارادی طور پر کرنا پڑے تو وہ اس میں غلطیاں بھی کرتا ہے اور اس سے اکتاہٹ بھی محسوس کرتا ہے لیکن جب وہ اس کام کو اچھی طرح کرنا سیکھ لیتا ہے تو پھر وہ اس کام کو غیر ارادی طور  پر کرنے لگتا ہے۔ جب ایسا ہونے لگتا ہے تو پھر اسی کام کو وہ سہولت اور آسانی سے کرنے لگتا ہے۔ جب ایسا ہونے لگتا ہے تو پھر اسی کام کو وہ اس کام کو غیر ارادی طور پر کرنے لگتا ہے۔ جب ایسا ہونے لگتا ہے تو پھر اسی کام کو وہ سہولت اور آسانی سے کرنے لگتا ہے۔ اس کی ایک مثال سائیکل چلانا سیکھنا بھی ہے۔ جب ہم شروع شروع میں سائیکل چلانا سیکھتے ہیں تو چونکہ ہم اس کو ارادی طور پر کرتے ہیںاس لئے بار بار گرتے اور ٹکراتے ہیں۔ لیکن بار بار کی مشق سے جب ہم اس کام کو سیکھ لیتے ہیں تو پھر سائیکل چلانا ہمارے لئے ایک غیر ارادی فعل کی حچیت اختیار کر لیتا ہے اور ہمیں اس کو کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی۔ یہی حال مطالعہ سیکھنے اور اپنی لکھائی کو خوشخط بنانے کا بھی ہے۔ جب تک ہم مطالعہ اور تحریر کے کام کو  ارادی طور پر کرنا چاہتے ہیں، ہمیں اس میں دشواری بھی محسوس ہوتی ہے اور ہم غلطیاں بھی کرتے ہیں اور جب ہم مشق اور لگاتار مشق کرتے کرتے اس مقام کو حاصل کر لیتے ہیں جب یہ کام غیر ارادی افعال کی طرح سرانجام پانے لگتے ہیں تو یہی کام ہمارے لئے باعثِ خوشی ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ منزل حاصل کرنے میں سولہ سترہ سال لگا کر بھی ناکام رہنا، کیا یہ ہمارے نظام کا قصور ہے، ہمارے اساتذہ کی کوتاہی ہے یا خود ہماری اپنی نا اہلی؟
اگر بچوں کو یہ بات سمجھا دی جائے کہ خوشخطی کے حامل افراد کو دو فائدے ہمیشہ حاصل ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ چونکہ اچھا خط دیکھنے میں بھلا لگتا ہے اس لئے ممتحن حضرات خوشخط لکھنے والوں کو زیادہ نمبروں سے نوازتے ہیں اور دوسرے، جو کہ اس سے بھی زیادہ اہم ہے، وہ یہ ہے کہ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ تحریر انسان کے باطن کا عکس ہوتی ہے اور اس لئے خوشخط آدمی اچھی سوچ، اچھے ذہن اور صاف حمیدہ کا حامل گردانا جاتا ہے اور برا خط رکھنے والے کی بابت اس کے برعکس اندازہ کیا جاتا ہے، تو دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بچے بھر  پور کوشش کرتے ہیں کہ کچھ اور ہو یا نہ ہو ، کم از کم ان کا خط تو بہتر ہو جائے۔
انگریزی کے مضمون کی تدریس کے دوران ایک اور مسئلہ بھی اکثر تلامذہ کو درپیش رہتا ہے اور وہ ہے ہجے یاد رکھنے کا مسئلہ۔ اس کا بظاہر واحد حل تو یہی ہے کہ ہجے یاد کئے جائیں۔ اساتذہ اس ضمن میں بچوں کی یہ مدد کرسکتے ہیں کہ ان کو یہ بات سمجھا دیں کہ وہ حروف تہجی کی آوازوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہجے یاد کریں گے تو ان کو ہجے یاد کرنے میں سہولت ہوگی۔ چونکہ انگریزی میں اعراب نہیں استعمال کئے جاتے اس لئے وہاں حروف تہجی میں سے حروفِ علت  ( Vowels)  چار چار اور پانچ پانچ اصوات کے حامل ہوتے ہیں اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ اُن کی آوازوں کو اچھی طرح سے ذہن نشین کروایا جائے۔ اس سے جہاں انگریزی کو انگریزوں ہی کی طرح انگریزی لب و لہجے میں پڑھنے میں سہولت ہوتی ہے وہاں اس طریقے سے یاد کئے گئے ہجے اگر بھول بھی جائیں تو لفظ کی آواز کے ٹکڑوں کی مدد سے انہیں یا داشت میں واپس لایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے بچوں کو املا بول کر الفاظ کو آواز کی مدد سے لکھنے کی مشق کروانے سے ان کو یہ مہارت بہتر طور پر حاصل ہوسکتی ہے۔
ان چند ایک استاذانہ جٹکلوں کو بیان کرنے کا اصل مقصد اس بت کی وضاحت کرنا بھی تھا کہ یہ چند ایک کام ایسے ہیں جو بنیادی اہمیت کے حال ہونے کے باوجود سب کچھ نہیں۔ لیکن ہم یا تو ان بنیادی کاموں کو بھی پوری طرح کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور یا پھر ہم انہی چند ایک کاموں کو سب کچھ مانتے ہوئے، صرف انہی کو انجام دینے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرکے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے اپنا فریضہ ادا کر دیا  ہے، اب دوسروں کا فرض ہے کہ وہ ساتھ ساتھ ہمارا بوجھ بھی اٹھائیں۔
جب بچے لکھنا سیکھ جاتے ہیں تو کوشش کی جاتی ہے کہ اب وہ اپنے ذہن میں آنے والے خیالات کو ایک ترتیب اور سلیقے سے لکھ کر دکھا سکیں۔ اس ضمن میں ان کو مضمون نویسی کی مشقیں کروائی جاتی ہیں ۔ چونکہ بچوں کو اپنے ذہن میں آنے والے خیالات کو نوٹ کرنے کی تربیت نہیں دی گئی ہوتی اور اگر سی بچے میں یہ صلاحیت فطرتاً موجود ہوتی بھی ہے تو اس کو اپنے خیالات کو منظم انداز اور ایک ترتیب سے پیش کرنے کا سلیقہ تعلیم نہ ہونے کے سبب وہ سکڑ اور سمٹ کر اس صلاحیت سے عملاً کنارہ کش ہو  جاتے  ہیں۔
رہ گئی بات مقابلہ مضمون نویسی میں حصہ لینے کی تو اس کا حل بچوں نے یہ تلاش کر لیا ہے کہ وہ چند گھسے پٹے مضامین رٹ کر امتحان میں اتنے نمبر لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ عزتِ اساتذہ بھی رہ جاتی ہے اور اُن کا کام بھی ہو جاتا ہے لیکن اسل مزہ تو اس وقت آتا ہے جب ایک کالج یا یونیورسٹی کا فارغ التحصیل طالب علم کسی فائل پر چند جملے لکھنے کی اہلیت کا مظاہرہ  کرنے میں ناکام ہو کر اس نظامِ تعلیم کو کوسنے بیٹھ جاتا ہے جس نے اس کو چودہ، سولہ سال تک امتحان تو پاس کروا دیئے لیکن اس قابل نہ بنا سکا کہ وہ خود سے چند جملے سوچ کر لکھ لیتا۔
خواندگی کی مانند لکھنے کی اہلیت رکھنے کا مطلب بھی محض کاغذ پر پنے ہاتھ سے کچھ تحریر کر دینا ہی لیا جانے کا انجام ہے کہ آج  شاذ و نادر ہی ایسے لوگ سامنے آتے ہیں جو خود اپنے ذہن میں آنے والے خیالات کو تحریر کا جامہ پہنا سکتے ہوں۔ حالانکہ بات فقط اتنی سی ہے کہ لکھنے کی اہلیت کا اصل مفہوم ہی یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن میں آنے والے خیالات اور افکار کو صفحہ قرطاس کی زینت بنا سکتا ہو۔ یعنی کسی موضوع پر غور کرنے کے نتیجے میں جو بات اس کے ذہن میں آئے وہ اُس بات کو اس طرح سے بیان کرسکتا ہو کہ اُس تحریر کو پڑھنے والے کا ذہن بھی اس بات کا ادراک کرلے۔ اس بات کا تجزیہ کیا جائے تو پہلی بات یہ سامنے آتی ہے کہ اساتذہ کرام کو اپنے شاگردوں کے ذہن کو اتنا زرخیز بنانا ہوتا ہے کہ اُن کے ذہن کی زمین افار و خیالات کی افزائش کے قابل ہو جائے۔ جب ذہن میں خیالات کی افزائش کا  آغاز ہوتا ہے تو اُن خیالات کی حیثیت خود رد پھولوں کی سی ہوتی ہے۔ قاابل اساتذہ اپنے شاگردوں کو ان افکار میں سے انتخاب کا سلیقہ سکھاتے ہیں اور منتخب خیالات کو ایک ترتیب سے بیان کرنے کا فن تعلیم کرتے ہیں۔ اب یہ بیان تحریر کی صورت میں ہوتا ہے یا تقریر کی، یہ بات موقع محل اور شاگرد کی افتاد پر منحصر  ہوتا ہے۔
تقریر کرنا یا لوگوں کے سامنے اپنی بات دلنشین پیرائے میں بیان کرنے کی اہلیت بھی مشق کی متقاضی ہوتی ہے۔ ہماری درس گاہوں میں یوں تو اس بات کا کافی اہتمام کیا جاتا ہے کہ بچوں کو اپنی بات بیان کرنے کی مشق بہم پہنچائی جائے۔ اسمبلی میں تلاوت و ترانے، جماعت میں سبق کو باری باری پڑھانے اور سال میں ایک دو مواقع پر تقریری مقابلے منعقد کروانا وغیرہ بچوں کی اس ضرورت کے پیشِ نظر کیا جاتا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ان مواقع سے زیادہ تر وہ بچے ہی استفادہ کرتے ہیں جن میں اس بات کا فطری رحجان ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کو نمایاں کریں۔ لیکن وہ بچے جو کس قدر شرمیلے ہوتے ہیں وہ اکثر و بیشتر نظر انداز ہو جاتے ہیں، خواہ وہ کتنے ہی قابل کیوں نہ ہوں۔
حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اساتذہ کرام اُن بچوں کو زیادہ توجہ دیں اور ان کو اپنے شرمیلے پن پر قابو پانے میں مدد دیں۔ اس بات کو سب ہی جانتے ہیں کہ کوئی آدمی تقریر کرنے سٹیج پر آتا ہے تو  وہ گھبراہٹ محسوس کرتا ہے۔ آغازِ تقریر میں گھبراہٹ محسوس کرنے کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہوتی ہیں۔پہلی تو یہ کہ آدمی جس موضوع پر بات کرنا چاہتا ہے اُس کو اُس موضوع پہ گرفت حاصل نہیں ہے جس پر وہ بات کرنا چاہتا ہے۔ موضوع کی بابت نا کافی معلومات ہونا یا اس موضوع جس پر وہ بات کرنا چاہتا ہے۔ موضوع کی بابت نا کافی معلومات ہونا یا اس موضوع کی بابت اپنے خیالات کو مناسب ترتیب نہ دے سکنا، یا اس قسم کی دیگر باتیں موضوع پہ گرفت نہ ہونے کی دلیل ہوا کرتی ہیں۔ دوسری وجہ جو بہت ہی عام ہے وہ یہ کہ مقرر لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول پا کر ، اُن کی توجہ کی لہروں کو جذب نہیں کر پاتا اور اپنی توجہ کو موضوع سخن پر قائم رکھنے میں ناکام ہوکر گھبراہٹ کا شکار جاتا ہے۔ اس صورت حال کا واحد علاج یہی ہے کہ اساتذہ کرام اپنے تلامذہ کو یکسو ہوکر اپنی توجہ ایک ہی نکتے پر مرکوز رکھنا سکھائیں۔ جب کوئی آدمی یکسوئی حاصل کر لیتا ہے تو اُس کو اپنے خیالات کو ایک نکتے پر مرکوز رکھنے، انہیں مناسب انداز میں ترتیب دینے اور دوسروں کی توجہ کی لہروں کو نظر انداز کرنے میں دشواری نہیں ہوتی اور وہ اپنی بات سہولت اور آسانی سے بیان کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ اگر تعلیم کا مقصد محض خواندگی ہے تو ہم خیر سے اس کام میں پوری طرح سے کامیاب ہیں کیونکہ دس تا سولہ سترہ سال بعد ہر کوئی کتاب پڑھ بھی سکتا ہے اور خوشخط یا  بد خط اردو اور انگریزی لکھ بھی لیتا ہی ہے۔ لیکن اگر اس کا مطلب حصولِ علم اور اس علم کا تقریر و تحریر کے ذریعے اظہار ہے، تو ہم کامیابی کی منزل سے ابھی کوسوں دور ہیں اور ابھی ہمیں اس جہت میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

اس ضمن میں یہ بات بہت ہی غور طلب ہے کہ اگر محض خواندگی کے مراحل ہم دس بارہ سالوں میں عبور کرتے ہیں تو مزید پانچ یا چھ سال کس مد میں صرف کرتے ہیں؟ اگر یہ مان لیا جائے کہ میٹرک تک بچوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھایا جاتا ہے اور اس کے بعد انہیں کسی ہنر، فن یا علم میں طاق کرنے میں پانچ چھ سال مزید لگ جاتے ہیں۔ کہنے کی حد تک تو یہ بات بہت ہی احسن اور صائب لگتی ہے لیکن فی الواقع  اور عملاً جو صورتحال ہم دیکھتے ہیں وہ تو اس کے بالکل ہی متضاد ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ان مزید پانچ چھ سالوں میں بھی ہم اپنے تلامذہ کو محض خواندگی ہی کی مزید مشق         کروانے میں لگے رہتے ہیں۔

نئی نسل

نئی نسل
دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ جہاں خود ایک طرف نئی نسل کا رکن بنتا ہے وہیں دوسری طرف وہ اپنے ماں باپ  کو نئی نسل کی صف سے نکال کر پرانی نسل کی قطار میں کھڑا کر دیتا ہے۔ ماں باپ اپنے بچے کو خود سے بہتر بنانا چاہتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں بھی کر پاتے تو یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ اُن کا بچہ زندگی میں ان سے بہتر مقام تک نہیں پہنچتا تو کم از کم کامیابی کی اس منزل تک تو ضرور پہنچ جائے جہاں وہ خود کو پاتے ہیں۔ اب یہ بتانا تو دشوار ہے کہ فطرت ان کی اس خواہش کے پیشِ نظر اُن کے دل میں اپنی اولاد کے لئے پیا بھر دیتی ہے یا پھر اپنی اولاد کے پیار کے ہاتھوں  مجبور ہوکر وہ ایسی خواہش کرتے ہیں۔ بہر حال اس بحث سے قطع نظر کہ ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ ایسی خواہش پیدا ہوتی ہے یا اولاد کی بہتری کی خواہش  ممتا کو جنم دیتی ہے، یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ اولاد کے حوالے سے ماں باپ کی ہر خواہش اپنی اولاد کی بہتری کے لئے ہی ہوتی ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کے ہاتھوں ماں باپ پہلے روز سے ہی بچے کی دیکھ بھال، نگہداشت، پرداخت اور تربیت میں جُت جاتے ہیں۔
اس تربیت کا انداز ہر ماں باپ کی اپنی ذہنی سکت، علمیت، قابلیت اور اس معاشرتی رتبے اور مقام کا آئینہ دار ہوتا ہے جو انہوں نے خود اپنی زندگی میں بنایا یا حاصل کیا ہوتا ہے۔غریب آدمی اپنے بچے کو صاحب لوگوں کی عزت کرنے کا درس ہی دیتا ہے اور امیر لوگ اپنے بچوں کو غریبوں کو ایک فاصلے پر رکھنے کو اسی لئے کہتے ہیں کہ ہر دو اپنے بچوں کو کسی بھی اسی صورتِ حال سے بچانا چاہتے ہیں جو ان کے لئے پریشانی یا شرمندگی کا موجب ہو۔ اسی طرح ایک غیر تعلیم یافتہ باپ اپنے بچے کو جو کچھ سکھاتا ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو تعلیم یافتہ والدین اپنے بچے کو تعلیم کرتے ہیں۔ بچوں کو جیسے کپڑے اور لباس اس کے و الدین پہناتے ہیں وہی ان کا پہناوا بن جاتے ہیں۔ جو کچھ ماں باپ کھانے کی ترغیب دیتے ہیں وہی کچھ بچے کھاتے اور پیتے ہیں۔ جو خوراک چینی اور جاپانی والدین اپنے بچوں کو مہیا کرتے ہیں ہمارے بچے اس کے لئے ضد کریں تو والدین اُن کی ذہنی صحت کے حوالے سے متردّد ہو جائیں۔ اسی طرح جہاں شہری علاقوں کے بچوں کو طہارت کے لئے پانی کے استعمال کی عادت ڈالی جاتی ہے وہاں دیہاتوں میں اس کے بغیر ہی گزارا کرنا سکھا دیا جاتا ہے۔
جب بچے اسکول جانے کے قابل ہو جاتے ہیں تو ماں باپ انہیں لکھنا پڑھنا سکھانے کے لئے مدرسوں اور اسکولوں میں داخل کروا دیتے ہیں۔ اب یہاں سے بچوں کی زندگی میں اساتذہ کا عمل دخل آغاز ہو جاتا ہے۔ بچہ جب پہلے دن سکول جاتا ہے تو وہ اپنے والدین کی دی ہوئی تربیت کے زیرِ اثر سیکھی ہوئی باتوں کو اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے۔ وہاں پہ اساتذہ اُس کی اچھی باتوں کی تعریف اور بُری باتوں کی تنقیص کرکے اُس کو اِس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ گھر سے سیکھ کر آنے والی باتوں کی بجائے اُن کی تعلیم کردہ باتوں کو اپنا لے۔ بچے کونت نئے دوست بنانے کا موقع بھی نہیں ملتا ہے اور اِس طرح اُس کی زندگی میں اثر پذیر ہونے والے افراد کا ایک نیا دریچہ وا ہو جاتا ہے۔ اب وہ اپنے معاملات میں اپنے دوستوں سے مشورے کرتا اور ان سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اگر والدین اور اساتذہ کی تعلیم زیادہ متاثر کن نہ ہو تو وہ اپنے دوستوں کی صحبت میں جو کچھ سیکھتا ہے اس کے اثرات اس کی شخصیت میں زیادہ جذب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ اثرات اچھے ہوتے ہیں یا بُرے، اس بات کا فیصلے کرنے کے لئے بچے کا شعور کافی نہیں ہوسکتا اس لئے یہ ذمہ داری والدین اور اساتذہ کرام، دونوں کی بنتی ہے کہ بچوں کی اچھے دوستوں کے انتخاب میں راہنمائی کریں ورنہ بڑے ہوکر تو بچے اپنے بُرے اور بھلے کا فیصلہ کر ہی لیتے ہیں۔
ہمارے یہاں سکولوں اور تعلیمی اداروں کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں۔ دینی مدرسے اور سکول۔سکول بھی ادارو اور انگلش میڈیم کی دو اقسام کے ہوتے ہیں۔ مڈل تک کم و بیش نو دس سال تک یہی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ سکولوں میں جانے والے بچے اس کے بعد آرٹس، پری انجنیئرنگ یا میڈیکل میں سے کسی ایک شعبے کا انتخاب کرنے کے بعد میٹرک کرتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ بچے کالجوں کا رخ کرتے ہیں اور باقی کو معاشرہ اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ کالجوں کا ماحول سکولوں کی نسبت کافی مختلف ہوتا ہے یہاں آکر بچے ایک طرح کی آزادی محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ ذمہ داری کا احساس کرنا سیکھتے ہیں۔ میٹرک کے بعد گریجویشن تک ، چار سال صرف ہوا کرتے تھے اب نئی ہدایات کے تحت وہ چھ کر دئیے گئے ہیں، بچہ مزید باشعور ہو جاتا ہے اب اکثر بچے روزگار کی تلاش کی طرف مائل ہونے پر مجبور کئے جاتے ہیں یا وہ ہو جاتے ہیں۔ جن بچوں کو دل پسند  نوکری یا روزگار نہیں ملتا وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ محض اس لئے کرتے ہیں کہ بہتر ڈگری کے حصول کے بعد اُن کو روزگار کے بہتر مواقع مل سکیں۔
روزگار کے حصول کے بعد بچوں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی شادی بیاہ کا ہوتا ہے اور شادی کے بعد بچے خود ماں باپ بن کر اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تویوں لگتا ہے ہ سب ٹھیک ہی ہے لیکن غور و فکر کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ سب اتنا بھی ٹھیک نہیں ہے کہ ہم  بیٹھ کر چین کی بانسری ہی بجانا شروع کردیں۔ یعنی ابھی بہت کچھ ہوسکتا ہے اور بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس بہت کچھ میں اس بات کا جائزہ لینا بھی شام ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کے لئے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اُس میں وہ خود ہماری کیا اور کتنی مدد کرسکتے ہیں؟
اس بات کو سمجھنے سے پہلے اگر ہم یہ طے کرلیں کہ تعلیمی نظام کا چوتھا رکن ہونے کے ناتے ہماری نئی نسل کی بھی کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ فرائض اور تو سب کی سب حکومت، والدین اور اساتذہ کرام کے سر ڈال دی جائیں اور تمام حقوق بشمول حقِ تنقید اور احتساب اُن کے حوالے کر دیا جائے جو خود اپنی تربیت کروانے پر بھی رضامند نہ ہوں ۔ ہمارے نظامِ تعلیم کی دگر گو حالت کی ایک بڑی وجہ یہی تو ہے کہ نئی نسل اپنے فرائض سے غفلت اور کوتاہی کو بھی اپنا حق سمجھتے ہوئے ہر اس کام سے پلو تہی کی مرتکب ہو رہی ہے جس میں خود ان کی اپنی بہتری اور بھلائی مضمر ہوتی ہے۔ اب کتاب نہ پڑھنا ، اس کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کرنا، سمجھ کر اس پر مثبت انداز میں عمل نہ کرنا اور سمجھنا کہ تعلیم ان کو فائدہ نہیں پہنچا رہی ، کیا یہ وہی صورت حال نہیں کہ ایک مریض ڈاکٹر کے پاس چلا تو جائے لیکن نہ تو اس کے مشورے پر عمل کرے، نہ اس کی تجویز کردہ دوا کھائے اور نہ ہی ان باتوں سے پرہیز کرے جن سے ڈاکٹر نے منع کیا تو ایسے مریض کی شفا یا بی کا کتنا امکان ہوسکتا ہے۔ ان سب باتوں کے بعد شکوہ سنج ہوکر یہ کہنا کہ اُن کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب غلط ہے، کس حد تک درست موقف ہوسکتا ہے؟
درحقیقت نئی نسل کا یہ مسئلہ اصل میں ویسا نہیں ہے جیسا کہ ہمارے یہاں در آنے والی زرد صحافت اس کو بنا کر پیش کرتی ہے۔ ہماری نئی نسل کو یہ بنیادی بات سمجھنا چاہئے کہ کسی عالم کے علم کی بابت کسی بے علم کی رائے کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ ایک نہ جاننے والا کسی جانکاری رکھنے والے کی بات کو سمجھنے میں دشواری تو محسوس کرتا ہی ہے لیکن اس دشواری کے سبب وہ علم رکھنے والے کے علم ہی کو رد کر دے، یہ جہالت ہی کا کارنامہ ہوسکتا ہے۔ والدین جب بچوں سے یہ دریافت کرتے ہیں کہ تمہارا فلاں استاذ کیسا پڑھاتا ہے اور بچہ ٹھنک کر فیصلہ دے دیتا ہے کہ وہ تو ٹھی طرح نہیں پڑھاتے تو والدین کو چاہئے کہ وہ ایک طرف تو  اپنے بچے کو یہ سمجھائیں کہ اچھا بچہ تو وہی ہوتا ہے جو خود سیکھنے کی طلب رکھتا ہے اور بُری طرح پڑھانے والوں سے بھی سیکھ کر دکھاتا ہے اور دوسری طرف خود اس بات کی کھوج لگائیں کہ اصل معاملہ کیا ہے اور جب یہ طے ہو جائے کہ مذکورہ استاذ بچوں کو پڑھانے کا واقعتاً اہل نہیں ہے تو انہیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ یا تو وہ استاذ خود کو سدھار لیں اور یا پھر وہ اپنے بچے کو اُس کی تحویل سے ہٹا دیں۔
ادھر نئی نسل سمجھتی ہے کہ والدین اور اساتذہ کرام ان کے لئے کچھ نہیں کر رہے، اُن کو اُن کے مسائل کو کوئی شعور ہی نہیں اور اُدھر والدین اور اساتذہ کرام دونوں شاکی ہیں کہ نئی نسل اُن کی بات پر دھیان نہیں دیتی، اُن کی عزت نہیں کرتی، اُن کی بات نہیں مانتی، جو کچھ ان کو کرنے کو کہا جائے وہ ویسا بالکل بھی نہیں کرتے۔ یہ بہت غور طلب بات ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اگر نئی نسل کے نکتہ نظر کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے بارے میں ہل من مزید کا نعرہ تو بلند کرتے ہیں لیکن انہیں انکے فرائض کی بروقت اور بھر پور ادائیگی کی طرف متوجہ کرنے میں والدین اور اساتذہ دونوں ہی ناکام ہے ہیں۔ اسی طرح اگر والدین اور اساتذہ کے نکتہ نظر کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو وہ چاہتے ہیں اس کی بنیاد خواہش اقتدار کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ وہ اپنی نئی نسل کی تربیت میں ایثار اور قربانی کے بجائے محض اپنی بڑائی اور بزرگی کے زعم میں اپنی احکامات کی تکمیل تو چاہتے ہیں لیکن بچوں کو اُن احکامات میں مستور حکمت کو سمجھنے کا شعور بیدار نہیں کرتے لہٰذہ بچے اس رویے کا مظاہرہ کر بیٹھتے ہیں جو مغربی  معاشرے میں جنریشن گیپ کہلایا۔ حالانکہ وہ خود اس صورت حال کو بچوں اور بڑوں کے مابین Lack of Communication   یعنی رابطے کا فقدان مانتے ہیں اور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کے دونوں کو آپس میں رابطہ بھی رکھنا چاہئے اور ایک دوسرے کی بات سمجھنے کی کوشش  بھی کرنی چاہئے۔سیدھی سی بات ہے کہ اگر والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کو اپنے نکتہء نظر کی وضاحت منطقی انداز اور عقلی دلائل کے ساتھ کرنے کی زحمت گوارا کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ نئی نسل قائل  ہوکر ان کا کہا نہ مانے۔ اس بات کا دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ بچے ماں باپ یا اساتذہ کرام کی بات نہ ماننے کے مرتکب کب ہوتے ہیں اور کیا اس وقت والدین یا اساتذہ اُن کے ساتھ کھلے ذہن کے ساتھ بات کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں یا نہیں۔ اور اگر بچے کبھی
اپنے والدین کے کسی فیصلے یا طرزِ عمل پر تنقید کر بیٹھتے ہیں تو کیا وہ اس تنقید کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان سے بات کرکے اپنے نکتہ نظر کی وضاحت کرتے اور اُن کو اعتماد میں لیتے ہیں یا اپنی سہولت کے لئے اپنے حق برتری کا استعمال کرتے ہوئے ان کو ڈپٹ کر چپ کروا دینے کی راہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر والدین اور اساتذہ اتنی سکت بھی نہیں رکھتے کہ ایک بچے کو اپنا نکتہ نظر سمجھا کر اُس کو اپنا ہم نو بنا سکیں تو بات نہ منوا  سکنے کا الزام تو انہی کے سر رہا نہ کہ اس کا قصور دار بچے کو ٹھہر کر اس کو قابلِ گردن زدنی قرار دے دیا جائے۔

داناوں کا کہنا ہے کہ اگر بچے بڑوں کی بات نہیں مانتے اور بڑے کسی بھی طور ان کو اپنی بات ماننے پر قائل نہ کر سکیں تو بڑوں کو چاہئے کہ وہ ان کی بات مان لیں خاص طور پر جب کہ معاملہ خود بچوں کی اپنی زندگی کو ہو۔ کیونکہ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہی بنتا ہے کہ اب بچہ بڑا ہوگیا ے کہ وہ خود اپنے بُرے بھلے کو اپنے بڑوں سے بہتر سمجھنے لگا ہے اور یا پھر یہ کہ اسے اپنے بڑوں پر وہ اعتماد نہیں رہا جس کے زیرِ اثر وہ ان کی بات مان سکتا تھا۔ اِن میں سے جو بھی صورت ہو اپنی اور بچے کی خاطر عافیت اسی میں ہے کہ اس کی بات مان لی جائے۔ اگر وقت نے بچے کی بات درست ثابت کر دی تو بہت خوب ورنہ اس طرح بچہ عملی طور پر ناکامی سے دو چار ہوکر جو سبق سیکھے گا وہ بالآخر اسی کی کام آئے گا اور بڑے اس کی نگاہ میں مزید محترم ہو جائیں گے کیونکہ اس طرح اس پر یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ کچھ غلط نہ کہتے تھے۔

روحانی والدین

روحانی والدین
اساتذہ کرام کی بابت یہ بات کس کے علم میں نہیں کہ وہ اپنے وہ تلامذہ اور شاگردوں کے لئے روحانی والدین کی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو یہ دیکھ کر عقل و شعور اور وجدان اور آگہی سر پیٹ کر رہ  جاتے ہیں کہ ہم روحانی تو درکنار اساتذہ کرام کو محض والدین جتنا رتبہ دینے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
اس بات کا اگر اس حوالے سے جائزہ لیا جائے کہ ہماری اس ناکامی کی اصل وجوہات کیا ہیں اور اس تمام صورتِ حال کا غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تاکہ ان عوامل کا  کھوج لگایا جا سکے جو اُس دگرگوں حالت کا اصل سبب ہیں، تو پہلی بات جو ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ روحانی والدین ہونے کے اس منفرد اعزاز ، اعلیٰ مقام اور بلند رہے کو کھو دینے میں اساتذہ کرام کا اپنا قصور بہت ہی نمایاں ہے۔ آخر وہ بھی تو استاذ تھے جنہیں اُن کے تلامذہ اور شاگردوں نے اس لقب سے یاد کر اپنی سعادت سمجھا تھا۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کی تلاش کریں کہ آج کا استاذ اس مقامِ گم گشتہ کو حاصل کیونکر اور کیسے کرسکتا ہے۔
اساتذہ کی حالتِ زار اور تعلیمی نظام میں موجودہ خرابی اور بگاڑ وہاں سے شروع ہوا جب لوگوں نے خواہشِ قلبی اور جذبہ درس و تدریس کے تحت نہیں بلکہ محض اک وسیلہء روزگار کے طور پر استاذ بننا قبول کیا۔ درس و تدریس کی حرمت کو بچانے کے لئے جیسی شخصیت اور جتنی توانائی درکار تھی اس کی توقع ان سے کرنا جو کردار سے اس حد تک عاری ہوں کہ محض چند ٹکوں کی خاطر پر چوں میں ردو  بدل سے لے کر اضافی نمبر تک لگانے سے گریز نہ کرتے ہوں اور علم سے اس قدر بےگانہ ہوں کہ اگر کوئی شاگرد کوئی ایسا سوال دریافت کرلے جس کا جواب انہیں نہ آتا  ہو تو وہ اس بات کو اپنی بے عزتی پر محمول کرتے ہوں، ایک احمقانہ خواہش ہی ہوسکتی ہے اور اس لحاظ سے ہم سب ہی اسی احمقانہ خواہش کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس تیل سے یہ آگ جلنا شروع ہوئی تھی اُس ہی تیل کو اس آگ کو بجھانے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایسا سمجھنا ہماری سادگی سے  زیادہ جہالت ہی کی دلیل ہوسکتی ہے۔
اس صورت حال کو سمجھنے کے لئے اگر یہ سروے کیا جائے کہ آج کے طلباء کی آئیڈیل شخصیت ہے اور میں اپنی زندگی میں انہی جیسا انسان بننا چاہتا ہوں۔ ماضی میں بھی لے دے کر ہمیں ایک مولوی میر حسن ہی کی مثال ملتی ہے۔ آپ علامہ اقبال جیسی نابغہ روزگار ہستی کے استاذ تھے۔ جب حکومت برطانیہ  نے علامہ اقبال کو سرکا خطاب دیا تو انہوں نے فرمائش کی کہ اس خطاب کے اصل حقدار تو مولوی صاحب ہیں اس لئے آپ یہ خطاب انہیں کو دیں۔ اس پر کہتے ہیں کہ ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا انہوں نے بھی کوئی معرکتہ الآ راء کتاب  تصنیف کی ہے تو اقبال نے بڑی رسا نیت سے کہا تھا جی ہاں اور پھر اپنی طرف اشارہ  کرکے کہا کہ وہ کتاب میں ہوں۔
یاد رہے کہ مولوی میر حسن نے اقبال کو ان کی تعلیمی زندگی کے ابتدائی دور میں ہی  مستفیض کیا تھا۔اقبال نے بعد میں اور بہت سے اساتذہ سے بھی اکتسابِ فیض کیا لیکن سرکا خطاب لیتے وقت صرف انہی کو یاد کیا اور نہ صرف  یاد کیا  بلکہ انہی کو اس خطاب کا اصل حقدار بھی ٹھہرایا۔  اس میں اقبال کی احسان مندی کا جذبہ اپنی جگہ لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اقبال نے اپنی زندگی میں تو ملکی اور غیر ملکی، دیسی اور بدیشی بہت سے اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا تھا لیکن ان تمام میں سے انہوں نے صرف مولوی صاحب کا نام ہی کیوں لیا۔ کیا اُن کا یہ کہنا کم معنیٰ خیز ہے کہ میں خود انکی زندہ و جاوید تصنیف ہوں۔ مولوی میر حسن کے بعد سے آج تک کتنے اساتذہ نے ان کی قائم کی گئی مثال کے موجب کتنی زندہ و جاوید تصانیف اپنے پیچھے چھوڑی ہیں؟ یہ بات آج کے کتنے اساتذہ کا مقصد حیات ہے کہ وہ اپنے پیچھے زیادہ نہیں تو کوئی ایک آدھ انسان تو ایسا بنا جائیں جو اپنے ساتھ ان کی نیا کو بھی پار لگا سکتا ہو؟
اصل بات یہی ہے کہ اساتذہ کرام کو یہ بات سمجھنا  ہوگی کہ خود اُن کا اپنا بھی کوئی مقصد حیات ہونا چاہئے۔ جب اُن کی اپنی زندگی کا کوئی مقصد اُن کے پیشِ نظر ہوگا  تو وہ اپنے شاگردوں میں بھی کوئی نہ کوئی اعلیٰ نصب العین پیدا کر دیں گے۔ ورنہ تو بات لکھنا پڑھنا سکھانے تک ہی رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ اب رہی بات کہ  اساتذہ کا اپنا نصب العین کیا ہونا چاہئے تو اس ضمن میں اگر چہ یہ بات خود اساتذہ کرام کے اپنے طے کرنے کی ہے لیکن بطور ایک استاذ کے ان کا مقصد اور آدرش اس کے سواء اور کیا ہوگا کہ اپنے شاگردوں کو ایک بہترین انسان بنا دیں اور ظاہر ہے کہ کسی کو ایک بہتر انسان وہی بنا سکتا ہے جو خود اس صفت سے متصف ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر استاذ ، ہر ٹیچر اور ہر سکھانے والا اپنے اندر اُن صفات کو راسخ کرنے کی طرف متوجہ ہو جو وہ اپنے شاگردوں میں موجود دیکھنا چاہتا ہے۔ کیونکہ سیکھنے والوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ جو بات اُن کو تعلیم کی جائے اس کا عملی نمونہ وہ ضرور طلب کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی صاحب جو خود جھوٹ بولنے کو  بُرا نہ سمجھے ہوں اگر کسی سے یہ فرمائش کریں گے کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے تو لا محالہ سننے والا اگر منہ سے نہ بھی کہے تو کم از کم یہ سوچتا ضرور ہے کہ جب یہ صاحب خود اس بات کو بُرا نہیں سمجھتے تو مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ میں بوقتِ ضرورت بھی جھوٹ کا سہارا نہ لوں۔
اگر اساتذہ کرام میں یہ شعور اجاگر ہو جائے کہ محض لکھنا پڑھنا سکھا دینے سے کسی انسان کی شخصیت میں جاذبیت اور کردار میں دلنشینی کی توقع کرنا غلط ہے کیونکہ لکھنا پڑھنا سیکھ کر جب تک اس مفہوم کو سمجھانہ جائے جو بصورتِ تحریر ان کو مطالعہ کرایا جاتا ہے اور  سمجھ کر اس پر عمل پیرا نہ ہوا جائے تو شخصیت اور کردار میں اس کے اثرات کا  رچاؤ پیدا نہیں ہوسکتا۔  
اس معاملہ کا ایک اور زاویے سے بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے اور وہ کچھ یوں ہے کہ آج کے اساتذہ کرام کو جہاں ایک طرف آج کے دور کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، اپنے تلامذہ کو مطالعہ کرنا سکھانے ، نصاب میں شامل مضامین کو سمجھنے کا طریقہ تعلیم کرنے ، اس کو یاد رکھنے اور حافظے میں اتارنے کے گُر بتانے، اور امتحان پاس کرنے کے داؤ پیچ سکھانے، تیس چالیس بچوں کی کلاس اور ہوم ورک کی کاپیاں چیک کرنے، اپنی اسکول ڈائریاں لکھنے، پر چوں  کے انبار چیک کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے شاگردوں کو حاصل شدہ علم کو عملی طور پر برتنے، اس کو اپنی شخصیت اور کردار کا جزو بنانے کا ہنر اور فن بھی تعلیم کرنا ہوتا ہے وہاں ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ اپنے شاگردوں میں اخلاقی اقدار کا پاس رکھنے کا جذبہ ابھارنا، ایک دوسرے سے باہمی تعاون کرنا سکھانا، اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہونے دینے کی عادت پیدا کرنا بھی ا ساتذہ کرام ہی کی ذمہ داری قرار دیا جاتا ہے۔ ان سب کے بعد پرائیویٹ ٹیوشنز پڑھانا، امتحانات کی نگرانی سے لے کر مردم شماری اور الیکشن میں پولنگ کروانے کے فرائض کی ادائیگی ان سب پر مستزاد۔  الغرض یہ کہ اگر ہم اساتذہ گرام کی ذمہ داریوں اور ان باتوں کی فہرست بنائیں جن کی اُن سے توقع کی جاتی ہے تو یہ فہرست اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ اس کو پورا کرنا انسانی سکت سے باہر کی ایک ایسی مہم سے کم نہیں ہوسکتا جس کے لئے شائد عمر خضر بھی کم ہو ورنہ بصورتِ دیگر تو یہ سب کام پورا  کرنے کے لئے کسی بوتل کے جن کو ہی دریافت کرنا پڑے گا جب کہ یہ سب کام ہمارے اساتذہ کرام تو پہلے سے ہی کر رہے ہیں تو پھر آخر ہم اس سے اُسی تنخواہ میں مزید اور کیا کچھ کروانا چاہتے ہیں۔ اب وہ بچوں کے الٹے سیدھے سوالوں کے جواب بھی دیں، کلاس میں ڈسپلن بھی برقرار رکھیں، اپنے علم میں اضافے اور معلومات کو بڑھانے کے لئے خود مطالعہ بھی کریں، رزلٹ کارڈز بھی تیار کریں اور پھر شاگردوں کے والدین کو مطمئن کرنے کی کوششیں بھی انہی کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں۔ یہ سب اور ان کے علاوہ اور بہت سی باتیں ہمارے اساتذہ کرام جیسے تیسے بن پڑتا ہے، کر ہی رہے ہیں تو پھر مسئلہ کیا ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود ہمارا معیار تعلیم دن بدِن گرتا ہی چلا جارہا ہے اور ہم اس کو بہتر بنانے کے خواب دیکھنے کے باوجود اس کو بہتر کرنے میں ناکام ہونے کے بعد امتحانی نتائج کے ہندسوں میں ردو بدل تک کر گزر رہے ہیں۔
اس زاویے سے دیکھیں یا کسی اور زاویے سے ، پھر پھرا کر ہم اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسئلہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اپنے ملک کے گرتے ہوئے معیارِ تعلیم کو کیونکر بہتر کیا جائے؟ اس مسلئے کو حل کرنے کی بہت سی کوششیں کی گئی ہیں اور کی بھی جارہی ہیں۔ ہر کس  و ناکس، اپنی اپنی سمجھ کے مطابق، مقدور بھر ہمت بھی کر رہا ہے اور خواہش تو سب ہی کی ہے کہ کسی نہ کسی طور ، جتنی جلد ممکن ہو، ہم اس مسلئے کو حل کرلیں اور یہی وہ امید افزاء اور حوصلہ کن بات ہے جو ہمیں مایوس نہیں ہونے دے رہی ہے۔
اس مسلئے  کو نہ تو اکیلے حکومت نے حل کرنا ہے اور نہ ہی وہ اکیلے اس کو حل کر سکتی ہے۔ اسی طرح یہ سمجھنا بھی غلط ہی ہے کہ یہ مسئلہ محض والدین کی انفرادی سعی اور جدوجہد سے حل ہو سکتا ہے ۔  اور یہ سمجھنا کہ صرف اساتذہ کو مورد الزام ٹھہرا کر اور اس مسلئے کو حل کرنے کی ذمہ داری اُن کے کاندھوں پر ڈال دینے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، ہرگز بھی درست نہیں ہوگا۔ اسی طرح ہم محض اپنے بچوں سے ہی یہ آس لگا بیٹھیں کہ وہ خود ہی کچھ کر لیں گے تو یہ تو بالکل ہی ناروا سوچ ہوگی۔ کہنے کا مطلب فقط یہ ہے کہ اس مسلئے کا حل اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ نظامِ تعلیم سے متعلق چاروں حصہ دار اپنے اپنے حصے کا کام پورا کرنے کی ٹھان لیں۔ جو کام حکومت کے کرنے کے ہیں وہ اس کو کرنے چاہئیں، جو ماں باپ کے کرنے کے ہیں وہ انہی کو کرنا ہونگے، جو اساتذہ کرام کے کرنے کے ہیں وہ انہی کو پورا کریں اور جو کام بچوں کے کرنے کے ہیں ظاہر ہے کہ ان کو کوئی  دوسرا کرے بھی تو کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اس وقت بات چونکہ اساتذہ کرام کی ہو رہی ہے اس لئے ان کے حوالے سے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ اپنا کردار کس طرح ادا کریں کہ دلخواہ نتائج کا حصول ممکن ہو جائے۔
اس امر میں بہر حال کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا کہ درس وتدریس کے حوالے سے دیکھا جائے تو اساتذہ کرام کی ذمہ داریاں باقی حصہ داروں کی نسبت اس لئے بڑھ جاتی ہیں کیونکہ والدین اپنے بچے اسی مقصد کے لئے ان کے حوالے کرتے ہیں کہ وہ اُن کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کردیں اور ان کو اس کام کا معاوضہ بھی ادا کیا جاتا ہے۔ اُن کو  اُن کے وقت اور محنت کے عوض جو کچھ بھی دیا جاتا ہے یہی سمجھ کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کام کو بحسن و خوبی ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اب اس حوالے سے اساتذہ کرام کی ذمہ داریاں دیگر ہر رکن کی نسبت دو چند ہو جاتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ  ہونے کے لئے نہیں بلکہ خود اپنے اطمینانِ قلب اور روحانی تسکین کے لئے ضروری ہو جاتا  ہے کہ اساتذہ کرام اپنے کام کو محض کام سمجھ کر بیگار ٹالنے کی طرح کرنے کی بجائے اس کو اپنا فریضہ اور ایک سعادت سمجھ کر انجام دیں۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ ، جو علمائے باطن میں ایک منفرد مقام کے حامل ہیں، کافر مانا ہے کہ 'ایک استاذ کا اسل کام اپنے شاگرد میں کسی صلاحیت کو بیدار کرنے میں مدد کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ وہ مصور کی مثال دے کر فرماتے ہیں کہ مصوری کا فن سکھانے والا استاد یہ تو ضرور بتاتا ہے کہ پنسل کو کس طرح استعمال کیا جائے اور  کس عضو کے نقوش کو کس طرح ترتیب دیا  جائے لیکن تصویر کا عکس استاذ اُس کے ذہن میں منتقل نہیں کرتا۔ وہ اس کے باطن میں پلے سے موجود ہوتا ہے۔ استاذ اپنے شاگرد کی راہنمائی اس طرح سے کرتا ہے کہ وہ اپنے باطن میں موجود  خدوخال اور نقوش کو کاغذ پر منتقل کرلیتا ہے'۔
اساتذہ کرام خواہ وہ مادی فنون کی تدریس کرتے ہوں عملی ہنر مندی سکھاتے ہوں یا ادب اور فلسفے جیسے مضامین پڑھاتے ہوں اُن کو اس بات کو سمجھنا ہی پڑے گا ور اُن کو اپنی پوری توجہ اس امر پہ مبذول کرنا ہوگی کہ اُن کا اصل فریضہ اپنے تلامذہ کے اندر موجود صلاحیتوں کو ابھارنے میں معاونت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی مدِنظر رکھنا ہوگی کہ کسی خاص صلاحیت کو ابھارنے کے لئے ایک خاص قسم کی مشق کرنا لازم ہوتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح کسی بھی فن میں مہارت بہم پہنچانے کے لئے اس فن سے متعلق کچھ خاص قسم کی مشق کرنا ضروری ہوتا ہے۔
انبیاء کی تعلیمات کے مطابق علم خرج سے باطن میں داخل نہیں ہوا کرتا بلکہ باطن سے خارج کی سمت بہاؤ رکھتا ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی دلیل انبیاء کا اُمّی ہونے کے باوجود ہر دو عام اور خاص، مادی اور روحانی دونوں علوم میں نوع انسانی کی راہنمائی کے قابل ہونا ہے۔ اس لئے اگر آج کے اساتذہ کرام اس  نکتے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے تلامذہ کو اُن کے باطن کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ان کا کام بہت آسان ہو جائے گا۔ اس سے جہاں ایک طرف ان کے تلامذہ کی فکر میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوگی بلکہ ان کی شخصیت بھی نکھر تی چلی جائے گی اور وہ بہتر کردار کے حامل بھی ہوتے چلے جائیں گے ۔ بصورتِ دیگر ہر دو امرض میں اضافے کا سبب ہی بنتی رہی ہے سو آئندہ بھی بنتی ہی رہے گی۔ ہم فطری بہاؤ کے خلاف جتنی دیر تیر سکتے تھے ہم نے تیر لیا اگر ہم نے اب بھی فطری بہاؤ کے ساتھ تیرنا شروع کر دیا تو نہ صرف یہ کہ ہم ڈوبنے سے بچ جائیں گے بلکہ اپنی منزل تک بھی پہنچ جائیں گے۔
فطرت کا چلن کچھ یوں ہے کہ تشنگی اور پیاس کو بجھانے کے لئے پانی کی فراہمی دو ممکن انداز سے کرنے کے بعد اس بات  کا اختیار کرنا انسان پہ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ خارج میں موجود جو ہڑوں، ندی ، نالوں، چشموں اور دریاؤں سے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے یا اپنے گھر کے آنگن میں کنواں کھود کر پانی کے اس زیرِ زمین ذخیرے تک رسائی حاصل کرکے اس ضرورت کو پورا کرنے کا کوئی مستقل انتظام کرتا ہے، جو نہ ختم ہونے والا اور لامحدود  ہوتا ہے۔ علم و آگاہی کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ کتب و رسائل ، علم و عرفان رکھنے والے اصحاب کے فرمو دات، تجربات اور مشاہدات کی دستاویز ہوتے ہیں جو انہوں نے اپنے اپنے اندازِ نظر کے مطابق یا تو خود اپنے باطن میں اتر کر حاصل کئے ہوتے ہیں یا پھر کسی دانا اور بینا انسان کی قربت اور صحبت میں رہ کر سیکھے ہوتے ہیں اور اُن کو نوعِ انسانی کے دوسرے افراد کی راہنمائی کے جذبے کے تحت لکھ کر کتب کی صورت محفوظ کر دیتے ہیں۔ اساتذہ کرام جب تک خود کو ان کتب کی تدریس تک ہی محدود رکھتے ہیں وہ خود سے وابستہ تو قعات کو پورا  کرنے اور مطلوبہ نتائج کے حصول میں دشواریوں کا سامنا کرنے پر مجبور رہتے ہیں۔ اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ نہ صرف خود اپنے باطن کی طرف رجوع کرنا سیکھیں بلکہ اپنے تلامذہ  کو بھی ان کے باطن کی طرف مائل کریں۔ جب خارجی علوم کو باطنی علوم کے حصول کے ایک ذریعے اور واسطے کے طور پر برتا جاتا ہے تو اس سے دو ہرے نتائج اور فوائد کا حاصل ہونا یقینی ہو جاتا ہے ۔
مولوی میر حسن ایک ایسے ہی استاذ تھے۔ انہوں نے اقبال کے اندر موجود صلاحیتوں کو ابھارنے میں اُن کی مدد کی اور اُن کو اپنے باطن تک رسائی کا طریقہ تعلیم کرنے کے  بعد اس کی ایسی مشق کروائی کہ بعد میں ڈاکٹریٹ کرنے تک بیسیوں اساتذہ سے اکتسابِ فیض کرنے کے باوجود اقبال کسی اور کو اس  قابل نہ سمجھ سکے کہ اُن کو سر کا خطاب دیئے جانے کی فرمائش کرتے۔
مولوی میر حسن نے جو کام کیا آج کی جدید نفسیات کی اصطلاح میں اس کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اقبال کے شعور کو اتنا توانا اور اس قابل بنا دیا تھا جس سے اُن کا اپنے لا شعور سے شعور کا رابطہ قائم ہو جاتا ہے تو شعور کی ایسی جلا اور آب و تا ب ملتی کہ انسان ہیرے کی مانند دمکنے  لگتا ہے اور اللہ ایسے بندے سے کچھ ایسے کام کروا دیتا ہے کہ اس کا نام جاودانی ہو جاتا ہے۔
اگر اساتذہ کرام دلچسپی لیں اور خود اُن کا اپنا  ربط اور تعلق  لاشعور سے استوار ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے قابل نہ ہوں اور جب خود ان کا اپنا تعلق اور رابطہ لاشعور سے قائم ہوگا تو وہ اپنے تلامذہ کی راہنمائی اور ان کی صلاحیتوں  کو ابھارنے اور ان کو  جِلا  دینے کا فریضہ بخوبی سرانجام دے سکیں گے ورنہ تو علم  کے نام پر محض خواندگی ہو رہی ہے، سو  وہ ہوتی  رہے گی۔ بلا شبہ وہی اساتذہ روحانی والدین کہلانے کا استحقاق رکھتے ہیں جو اپنے تلامذہ کی ایسی تربیت کردیتے ہیں کہ علم و عرفان اور آگاہی کی راہ ہو یا دنیاوی معاملات کی عقدہ کشائی انہیں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آتی اور ایسے ہی والدین کے سکھائے اور سدھائے ہوئے لوگ اس دنیا کے محفوظ اور پُر امن مستقبل کی ضمانت بن سکتے ہیں ورنہ یہ دنیا والے چالیس ہزار ایٹم، ہائیڈروجن اور نیوٹران بموں کے علاوہ کیمیاوی اور جراثیمی ہتھیاروں کے انبار تو بنا ہی چکے ہیں اور اُن کے استعمال کے بہانے بھی تلاش کئے جا رہے ہیں۔
دنیاواری اور دولت پرستی کی لت میں گرفتار اذہان اس مادی شعور کی پیداوار  ہوتے ہیں جو لاشعور سے اپنا ہر ناتہ اور رشتہ توڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ مفاد پرستی اور موقع کی تاڑ میں رہنا ان کا شیوہ  اسی لئے بن چکا ہوتا ہے کیونکہ ان کا شعور ان کو یہی بتا تا ہے کہ اُن کی تمام خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ دنیا کے وسائل پر قابض ہوں ورنہ اُ ن کی ضرورتیں پوری نہیں ہوسکیں گی۔ جب اذہان مادی شعور کی گرفت میں ہوتے ہیں تو  ضرورتوں کے طو  مارکو پورا کرنے کے چکر میں پڑ کر انسان پریشانی، بے چینی ، بے سکونی اور خوف کا خود بھی شکار رہتا ہے اور دوسروں کو بھی ایسی ہی اذیتیں دیتا ہے ۔ اس صورت حال سے نپٹنے کا واحد اور تیر بہدف طریقہ یہی بنتا ہے کہ انسان کسی نہ کسی طور اپنا تعلق لاشعور سے جوڑ لے۔ جو اساتذہ اس نکتے کو سمجھ لیتے ہیں وہ اپنے شاگردوں کو بھی اس سے آگاہ  کردیتے ہیں۔ یہ آگاہی اساتذہ اور تلامذہ دونوں کی دنیا تو سنوارتی ہی ہے، ساتھ ساتھ ان کی آخرت بھی سدھر جاتی ہے۔
بچوں کی خفتہ صلاحیتوں کو ابھارنے میں وہ سرگرمی جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوسکتی ہے وہ بچوں کو سوال پوچھنے کا حوصلہ دینا اور اُن کے بظاہر  بے معنی سوال کو اپنے با معانی جواب سے سجا کر ان میں غور و فکر کو مہمیز کرنا ہی ہوسکتی ہے۔ اب اگر ایک بچہ کہیں سے سن کر اس الجھن میں گرفتار ہوہی چکا ہے کہ پہلے انڈا پیدا ہوا یا مرغی؟ اور وہ اپنے سکول میں کلا س ٹیچر سے یہ دریافت کرنے کا حوصلہ کر ہی لے، تو سمجھدار اساتذہ کرام اس صورت حال سے عہدہ برآ  ہونے کے لئے بچے کو  ڈانٹ کر چپ کروانے کی بجائے اس مسئلے کو کچھ یوں بھی نپٹا سکتے ہیں۔ وہ بچوں کو مخاطب کرکے پہلے تو سوال پوچھنے والے کی تعریف میں ایک دو جملے کہ کر یہ بتا سکتے ہیں کہ اس طرح کے سوال پوچھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے ذہن میں کوئی گرہ، کوئی  الجھن باقی نہیں رہتی۔ اس کے بعد وہ کہ سکتے ہیں اب یہ جو سوال ہے کہ پہلے مرغی یا پہلے انڈا تو اس قسم کے سوالوں کو اصطلاحاً (Brain Teaser) یعنی  'دق کرنے والے سوال' کہا جاتا ہے ۔ بظاہر ایسے سوالوں کا یا تو کوئی جواب ہوتا ہی نہیں یا پھر ان کے ایک سے زیادہ جواب ممکن ہوسکتے ہیں اس لئے جب آپ ایک جواب کو درست قرار دیتے ہیں تو دوسرا جواب آڑے آجاتا  ہے ۔ اس صورتِ حال سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہوسکتا ہے کہ بات کی تہ تک پہنچا جائے۔ اب اس صورت میں اصل بات یہ ہے کہ آپ جانتے ہیں ہ زندگی دائروں میں سفر کرتی ہے ۔ آپ نے سائنس کی کتا میں مکھی اور مچھر کی حیات کی بابت یہ تو پڑھا ہی ہے کہ انڈے سے لاروا بنتا ہے، لاروے سے پیوپا اور پھر پیوپے سے بالغ مکھی یا مچھر بنتا ہے اور جب وہ بالغ مکھی یا مچھر انڈا دیتے ہیں تو یہی چکر پھر سے شروع ہو جاتا  ہے۔ زندگی کے اس چکر کو دور حیات بھی کہتے ہیں اور دائرہ حیات بھی ۔ اب اُدھر آپ نے جیومیٹری میں دائرے کی بابت جو کچھ پڑھا ہے اس کے مطابق دائرے کے محیط پر واقع ہر نقطہ دائرے کا نقطہء آغاز بھی ہوتا ہے اور نقطہء اختتام  بھی۔ اس لئے اب اگر آپ مرغی کے دائرہ حیات میں چاہے مرغی کو نقطہء آغاز کہ دیں یا انڈے کو، ہر دو صورتوں میں جواب درست ہی ہوگا۔ یہ تو  ہوگیا اس سوال  کا ایک جواب لیکن اصل سوال تو پھر بھی حل نہیں ہوا یعنی یہ بات حتمی طور تو پر طے ہوئی ہی نہیں کہ اللہ نے پہلے انڈا پیدا کیا یا مرغی، تو اس کے لئے اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ وہ محض ایک لفظ 'کن' کہ کر پوری کائنات کو تخلیق کر دیتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ جس بھی چیز تخلیق کرتے ہیں اُس کو مکمل طور پر تخلیق کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسا بالکل نہیں کرتے کہ وہ ایک چیز کو بنا کر اس کو اس کے حال پہ چھوڑ دیں۔ اگر اللہ تعالیٰ انڈا بناتے تو اس سے چوزہ بننے کی بجائے وہ انڈا گندہ بھی تو ہوسکتا تھا اور اس سے کچھ بھی نہ بن سکتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مرغی کو مکمل طور تخلیق کیا اور اس کی نسل کو  برقرار رکھنے کے لئے اس سے انڈا پیدا کیا۔
اب اگر یہ سوچ کر دیکھا جائے کہ اس قسم کے سوال جواب سے بچوں کے ذہن کس قدر کھل سکیں گے تو اس بات کا اندازہ کرنا کچھ زیادہ دشوار نہیں ہے۔
یہاں ایک اور بات کا تذکرہ کر دینا  بےجانہ ہوگا۔  کسی بات کو سمجھ لینا یاک بات ہوتی ہے اور کسی بات کو سمجھانے کی صلاحیت ہونا ایک بالکل ہی دوسری بات۔ اب یہ ضروری نہیں ہے کہ جو آدمی بات سمجھ سکتا ہے وہ اُس  بات کو سمجھا ہے۔ اساتذہ کرام کے انتخاب میں حکومت اور والدین دونوں کو یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کسی بات کو کس قدر بہتر انداز میں سمجھا سکتے ہیں۔ اب یہاں اس مقام پر کسی بات کی اچھی طرح تشریح کرنا 'اور' بات سمجھانے' میں جو فرق ہے اس کو ملحوظِ  خاطر رکھنا بہت ضروری ہے۔ ایک ایم اے لیکچرار نصاب میں دیئے گئے نکات کی شرح وبسط  کے ساتھ وضاحت تو ضرور کرسکتا ہے لیکن کتنے لیکچرار ایسے ہوں گے  جو اس بات کا دعویٰ و ثوق سے کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے طلباء کو اُن نکات کی سمجھ اور فہم بھی عطا کرسکے ہیں؟اس بات کا جواب قارئین بخوبی جانتے ہیں۔
اس لئے اس بات کو اساتذہ کرام ہی یقینی بنا سکتے ہیں کہ کسی بات کو اپنے تلامذہ کی فہم میں اتارنے اور اُن کو کوئی بات پوری طرح سمجھانے کی صلاحیت کو وہ خود  فطری طور پر کس قدر بیدار کرسکتے ہیں؟ جو اساتذہ کرام اس منفرد اور ممتاز صلاحیت سے فطری طور پر متصف ہوتے ہیں  بعض اوقات وہ بھی اپنی اس صلاحیت کو پوری طرح سے بروئے کار لانے کا تکلف کرنے سے کراتے ہیں۔ اس بات کی بھی کچھ وجوہات ہوں گی لیکن کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اساتذہ کرام خود ہی ان وجوہات کا کھوج لگائیں اور نہ صرف یہ کہ کھوج لگائیں بلکہ ان کو رفع کرنے کے عملی اقدام بھی فرمائیں۔
اساتذہ کرام سے جس بات کی سب سے زیادہ توقع کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بات کو آسان اور دلنشین انداز میں سمجھا سکتے ہوں۔ انسان اپنی فطری تن آسانی اور آرام طلبی کے باعث ہر کام میں  آسانی اور سہولت چاہتا ہے ۔ اس بات کا مشاہدہ اساتذہ کرام کو زیادہ بہتر طور پر اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے طلباء کے سامنے کسی موضوع کی وضاحت کر رہے ہوتے ہیں۔ بچے ہوں یا بڑے کسی بات کو اسی وقت زیادہ بہتر طور سے سمجھ سکتے ہیں جب سنی گئی بات کے حوالے سے اس کے ذہن کی سکرین پر کوئی تصویر بن سکے۔ اگر کوئی استاذ اپنے بیان سے سننے والے کے ذہن میں کوئی تصویر ابھارنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو گویا اس نے اپنی بات اپنے سامع کے ذہن میں اتار دی۔
اس فن پر قدرت رکھنے والے ساتذہ کرام اپنی بات کی وضاحت کے لئے، موضوع کے حوالے سے طرح طرح کی مثالیں دینے کا ایک خاص قرینہ اور سلیقہ رکھتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق قرآنِ حکیم کے اسلوبِ بیان سے بھی ہو جاتی ہے۔ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ جگہ جگہ مثالیں دیتے ہوئے بات کی وضاحت فرماتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی ذہن کی ساخت ہی کچھ ایسی رکھی ہے کہ کوئی بھی بات اُس میں تبھی قرار پاتی ہے  جب اُس بات کے تصویری خدوخال اسی وقت اجاگر ہوتے ہیں جب وہ کسی ایسی بات کے حوالے سے بیان ہوں جو انسانی مشاہدے میں پہلے سے موجود ہو۔ پہلے  سے دیکھی اور سنی ہوئی بات جس کو انسانی فہم و ادراک محسوساتی طور پر جانتے ہوں، اُس بات کو بطور مثال بیان کرنے سے، اس بات کے حوالے سے تصویری خدوخال سہولت سے ابھر سکتے ہیں۔
جو اساتذہ کرام اس بات کا ادراک رکھتے ہیں وہ اپنے شاگردوں کو بات کچھ اس طرح سے سمجھاتے ہیں کہ اُن کے ذہنوں میں ایک ایسی تصویر بن جاتی ہے جو مٹائے نہیں مٹتی نہ صرف یہ کہ وہ انمٹ نقوش  انسان کا علم بن جاتے ہیں بلکہ ان نقوش کی مدد سے انسان خود بھی کئی نت نئے نقوش اور تصویریں وضع کر سکتا ہے۔ یہ نت نئے تصورات ہی انسانی ذہن کو تازہ اور جدید افکار سے روشناس کرواتے اور انسانی زندگی میں نت نئی ایجادات کے متنوع رنگوں سے سجانے  کا سبب بنتے ہیں۔
بات کو ذہن میں اتارنے کے بعد اس کو ذہن نشین کروانے کا مرحلہ طے کرنے کا اصولی طور پر جو طریقہ آزمودہ سمجھا جاتا ہے اس بات کی تکرار کا۔
بات کی تکرار کا مطلب الفاظ  کی تکرار اور دہرائی ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بات کے مفہوم کی وضاحت کو مختلف انداز کا برتنا  اور دی جانے والی امثال کو ادل بدل کے ساتھ پیش کرکے اُن کے مختلف پہلوؤں کو  ذہن نشین کروانے کی کوشش مراد لیا جائے تو مرتب ہونے والے نتائج زیادہ شاندار ہوسکتے ہیں۔
بات سمجھ لینے کے بعد ذہن میں اس کی دہرائی اور تکرار کے بغیر اس کا حافظے میں جڑ پکڑنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اس لئے ہوشیار اساتذہ اپنے شاگردوں کوئی بات سمجھا دینے کے بعد اُن کو کوئی ایسا کام ضرور تجویز کر دیتے ہیں جس سے ان کے شاگردوں کے ذہن میں اس بات کی تکرار ہوتی رہے۔ غور سے دیکھا جائے تو قرآن اور دیگر تمام الہامی کتابوں کا اسلوبِ تعلیم بھی یہی رہے۔ کہ اللہ تعالیٰ ایک بات فرما کر، اس بات کا بار بار اعادہ کرتے ہیں اور اس کو مختلف پیرا یہ بیاں میں اور مختلف مثالوں سے واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اہل ایمان پر ا کی دہرائی اور تکرار فرض کرنے کو اس کی تلاوت اور اس کے متن اور آیات پر غور فکر کا حکم دیتے ہیں۔

اب اگر دیکھا جائے تو ہمارے نظامِ، تعلیم میں عمومی طور پر کم و بیش یہی طریقہ ء تعلیم رائج ہے لیکن اس کے باوجود اس کے وہ اثرات اور نتائج مرتب نہیں ہوتے جن کو حسبِ دلخواہ قرار دیا  جاسکے۔ اب ہمارے سمجھنے کی بات یہ قرار پاتی ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ہم بظاہر درست طریقہ بھی اپنائے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارا معیار تعلیم ہے کہ دن بدن گرتا ہی چلا جارہا ہے۔ اس بات پہ غور کرنے کے بعد جو صورتحال سامنے آتی ہے وہ کچھ یوں ہے اگر ایک غلط بات کو درست طریقے سے بھی تعلیم کیا جائے تو اس سے وہ بات درست قرار نہیں دی جاسکتی۔ ہم کو تعلیم کی جانے والی بات کی درستی اور اصلاح پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت کا جتنا زیادہ اور اک حاصل ہوگا، اصلاح احوال میں بہتری اتنی ہی جلد مؤثر ہو سکے گی ورنہ تو سب ہی اپنے اپنے کئے کا جواز رکھتے ہی ہیں۔
کلیدی کردار
والدین، حکومت ، اساتذہ اور طلباء نظامِ تعلیم کے ایسے اراکین ہیں کہ اگر ان میں سے ایک رکن بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کا مرتک ہو ہزار کوششوں کے باوجود ہم تعلیمی میدان میں اس نتیجے کی توقع نہیں کر سکتے جس کی آرزو  ہر سمجھدار اور ذہنی شعور انسان کرتا ہے اور اس کا خواب دیکھتا ہے۔ ہمیں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جہاں والدین یا اساتذہ کی انفرادی طور پر کی گئی  کا وشوں کے سبب بہت سے طلباء قابل، محنتی، با صلاحیت اور باشعور افراد بن کر اپنے اور معاشرے کے لئے سود مند ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مجموعی طور پر صورت حال قابلِ فخر اور اطمینان بخش تو کجا محض تسلی بخش بھی نہیں کہی جاسکتی۔
تعلیمی نظام کے حوالے سے دیکھا جائے تو اجتماعی طور پر والدین اور اساتذہ کرام دونوں کے کردار، یہاں کردار کے ہر دو مفہوم  (Role and Character) میں بہتری اور اصلاحِ احوال کی ضرورت سے انکار کی گنجائش کم  ہی نکلتی ہے۔ یہ نہیں کہ تمام تر ذمہ داری اساتذہ کے سر ڈال دینے کے بعد والدین کا کردار ختم ہو جاتا ہے یا یہ کہ بچے کو اسکول بھیجنے سے پہلے والدین کو بچے کی تربیت مکمل کر لینی ضروری ہے۔ یہ دونوں ہی باتیں اگر ممکن بھی ہوں تو بھی درست قرار نہیں دی جاسکتیں۔
بچوں کی پرورش، نگہداشت اور پرداخت کے علاوہ بچوں کی شخصیت کی تعمیر اور اُن کے کردار کی خوبیوں کے حوالے سے والدین کا کردار جبکہ بچوں کی تعلیم و تربیت، علم و آگہی اور اُن کو باشعور بنانے کے حوالے سے اساتذہ کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل مانا تو جاتا ہے لیکن کتنے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کی تربیت سے خود بھی مطمئن ہیں اور ان کے بچے بھی اپنی شخصیت اور کردار کی خوبیوں کو اپنے والدین کی تربیت کا اعجاز مانتے ہیں؟ کہنے کی حد تک تو ہر بچہ مانتا ہے کہ اُس کے والدین نے اُس کی پرورش میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کی لیکن جب کبھی وہ اپنے والدین سے شکوہ کرتا ہے تو یہی کہتا  ہے کہ انہوں نے وہ سب کچھ نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیئے تھا۔
اس صورت حال کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ خاندان جہاں والدین ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا بہت خیال  رکھتے ہیں ایسے والدین کی اولاد نیک اور سعادت مند ہونے کے علاوہ شخصیت اور کردار کی خوبیوں سے بھی مالا مال ہوتی ہے۔ اس لئے ہر ماں باپ کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی خاطر ایک دوسرے سے ذہنی اور قلبی ہم آہنگی کا محض اظہار ہی نہ کریں بلکہ اس کو سچ مچ پیدا کریں اور اس کو باہمی معاملات میں فروغ بھی دیں۔
دیکھا جائے تو ہر بچے نے ایک نہ ایک روز شوہر یا بیوی اور پھر ماں یا باپ بننا ہوتا ہے لیکن نہ تو کسی لڑکے کو یہ سیکھایا جاتا ہے کہ شادی کے بعد ایک اچھا شوہر اور جب صاحب اولاد ہو جائے  تو وہ خود کو ایک اچھا باپ کیسے اور کیونکر ثابت کرسکتا ہے۔ اور نہ ہی کسی لڑکی کو یہ بات سمجھائی جاتی ہے کہ بڑے ہوکر اس نے محض گھرداری ہی نہیں کرنی بلکہ ایک کامیاب بیوی اور بہترین ماں بھی بننا ہے۔ اور اگر کچھ سمجھدار مائیں اپنی بچیوں کو اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں کچھ بتا بھی دیتی ہیں تو وہ اتنا  مؤثر  اس لئے ثابت نہیں ہوتا کیونکہ بچیوں نے اس کو سیکھنے کے حوالے سے نہیں سنا ہوتا۔ کسی  بات کو محض بتا دینے اور درست انداز میں سیکھانے میں جو فرق ہے اُس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔
پوری دنیا میں جہاں کہیں کسی نے اس بات کی ضرورت اور اہمیت پہ زور دیا بھی ہے تو وہاں اس سے زیادہ سے زیادہ بچوں کو جنس کی بابت  تعلیم دیا جانا ہی مراد لیا گیا ہے ۔ جب کہ شادی کے بعد کی زندگی میں جنس کا عمل دخل ایک جزو تو ضرور ہے لیکن سب کچھ یہی تو نہیں ہے۔ لڑکوں کو بطور شوہر اور والد  انکے فرائض سے آگاہ کر دینا ہی کافی نہیں ہوسکتا بلکہ اُن کو اپنے فرائض سے بخوبی عہدہ برآ ہونے کا ہنر اور فن دونوں سیکھائے جانے ضروری ہیں۔ اور اسی طرح لڑکیوں کو بطور بیوی اور پھر ایک ماں ہونے کے ناتے اپنے فرائض سے با احسن و خوبی عہدہ برآ ہونا سیکھایا جانا چاہئے۔ میاں بیوی کے مابین تنازعات کی سب سے بڑی وجہ یہ دیکھی گئی ہے کہ یہ دونوں اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی کی بابت اتنے چوکنے نہیں ہوتے ہیں جتنا کہ وہ اپنے حقوق کو پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
یعنی اگر ہر بچے کو خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی اگر والدین اور اساتذہ اس بات کی تعلیم دیں کہ ان کو اپنی عملی زنگی میں ہر حیثیت میں پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ اپنے فرائض سے بخوبی عہدہ برآ ہو رہے ہیں یا نہیں۔ اگر یہ بات ان کے اندر راسخ ہو جائے گی کہ انہیں اپنے حقوق کی طلب کی بجائے اپنے فرائض کی ادائیگی کو اولیت دینا ہے تو پھر گھر ہو یا دفتر ، کاروباری معاملات ہوں یا  ازد واجی زندگی کے مسائل، وہ ان سب سے بحسن و خوبی نپٹ سکیں گے، ورنہ بصورت دیگر ہر وقت شکوہ اور شکایت، کھنچاؤ  اور تناؤ ، بک بک جھک جھک اور لڑائی جھگڑے سے مفر کی کوئی صورت نظر آنا محال ہی ہے۔
اگر ماں باپ آپس میں ذہنی ہم آہنگی اور قلبی لگاؤ  رکھتے ہوں گے تو ان کی اولاد بھی سکون آشنا  ہوگی اور اُن میں کسی قسم کی کوئی نفسیاتی الجھن اور پیچیدگی بھی پیدا نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس صورت حال میں اولاد کھنچاؤ اور تناؤ کا شکار رہنے کے سبب متعدد نفسیاتی الجھنوں اور پیچیدگیوں کا شکار ہو سکتی ہے۔ ایسی الجھنوں میں سرِ فہرست تو یہی بات ہے کہ بچوں کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا۔ بلکہ یہ کہنا  زیادہ درست ہوگا کہ لگ ہی نہیں سکتا ۔ اس لئے اساتذہ کرام کو چاہئے کہ وہ ایک طرف تو بچوں و بہتر والدین بننے کے گُر تعلیم کریں اور دوسری طرف والدین کی توجہ اس طرف مبذول کروانے کا جتن کریں کہ ان کو خانگی زندگی میں پر سکون رویئے اپنانے چاہئیں۔
اسی طرح والدین کو اپنے بچوں کے رویوں پہ بہت کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر بچے کا رویہ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں ، خاندان کے دیگر افراد، دوستوں اور گھر سے باہر کے افراد سے ایسا ہے جس سے تلخی پیدا ہوتی ہو تو اس کی اصلاح کی فوری کوشش ہونی چاہئے۔ یہی رویئے بعد میں پختہ اور راسخ ہوکر بچے کی آئندہ زندگی میں مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ جہاں تک انسانی رویوں کے بننے اور ان کی اصلاح کا تعلق ہے تو اس کے لئے ہمیں انسان کی طرزِ فکر کو مثبت طرزوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انسان کا کوئی بھی رویہ ہو وہ اُس کی طرزِ فکر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اگر انسان کی طرزِ فکر میں مثبت طرزیں راسخ ہوں تو اس کا ہر رویہ مثبت ہوتا ہے۔ یعنی اگر طرزِ فکر میں اخلاص اور ہمدردی ہوگی تو ایسے انسان کا ہر رویہ خلوص اور ہمدردی کا حامل ہوگا اور اگر طرزِ فکر میں لالچ اور خود غرضی کا عنصر شامل ہوگا تو پھر انسان کے ہر رویئے میں بھی یہی بات نمایاں ہوگی۔
اگر ماں باپ تنقید و تنقیص کے عادی ہوں اور ہر بات کا منفی رخ دیکھنے ، ہر بات پہ غصہ اور جھنجھلاہٹ کا اظہار کرنے کی عادت میں مبتلا ہوں تو اولاد پہ ہر وقت ایک بے جا دباؤ رہتا ہے۔ یہ دباؤ ب بچوں کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو دیمک بن کر چاٹ جاتا ہے۔ بچے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہونے کی سبب اندیشوں ، وسوسوں اور خوف کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ گھر میں نظم و ضبط برقرار رکھنا ایک فن سے کم نہیں ہوتا۔ یہ بہت ضروری ہے، لیکن اس کے لئے خوف اور دباؤ پیدا کرنے سے پرہیز ہی کرنا چاہئے۔ خوف کا شکار رہنے والے افراد کا شعور کچھ ایسی طرزوں کا حامل ہو جاتا ہے جو ان کو کسی بھی کام کا آغاز کرنے، اُس کو بحسن و خوبی پایہء تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت سے محروم کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خوف کا شکار رہنے والا بچہ کسی بھی کام کا آغاز خود اعتمادی سے نہیں کر سکتا۔ اب اس کے بعد اس صورت حال سے پیدا ہونے والے نتائج کا اندازہ کرنا کچھ اتنا بھی دشوار نہیں رہ جاتا۔
خود اعتمادی سے محرومی زندگی میں قدم قدم پر دشواریوں کا موجب تو بنتی ہی ہے، اس کے باعث ہونے والی ناکامیاں انسان کی شخصیت میں طرح طرح کی پیچیدگیوں کو بھی جنم دیتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بچوں کو اتنی کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ وہ آزادی اظہار کا مطلب گستاخی اور بدتمیزی ہی لے بیٹھیں۔ توازن اور اعتدال کا دامن جہاں بھی ہاتھ سے چھوڑا جاتا ہے بہترین صفات بھی بری لگنے لگتی ہیں۔ اس لئے والدین کو اپنے بچوں کی تربیت کے ہر ہر مرحلے پہ خود بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے اور ساتھ ساتھ بچوں میں بھی یہ بات راسخ کرنی چاہئے کہ وہ میانہ روی اور معتدل رویئے کو بہر صورت قائم رکھیں۔
بچے اپنی بات منوانے کے لئے عموماً ضد کا  ہتھکنڈا استعمال کرتے ہیں۔ بچوں کی کونسی بات کب ماننی چاہئے یہ فیصلہ ماں باپ کو کرنا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فرمائش کرنا بچوں کا حق ہوتا ہے لیکن فرمائش کو پورا کروانے کے لئے ضد کرنے کا حق دینے سے بچوں میں غلط رحجانات پیدا ہونا فطری بات ہے۔ معروف روحانی سکالر جناب خواجہ شمش الدین عظیمیؒ اپنی والدہ صاحبہ کے اندازِ تربیت کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی بچہ دسترخوان پہ بیٹھ کر یہ ضد کرتا کہ وہ یہ نہیں کھائے گا بلکہ فلاں چیز کھانا چاہتا ہے تو والدہ محترمہ اس کو یہ کہ کر  دسترخوان سے اٹھا دیا کرتی تھیں "تمہیں بھوک نہیں ہے، تم رہنے دو"۔ اور جب بچے کو بعد میں بھوک لگتی تو وہ خو ہی اپنے لئے رکھا کھانا یا کرتا ۔ اگر بچے ضد کرتے تو وہ کچھ زیادہ پراہ نہیں کیا کرتیں۔ ہا البتہ اگلے روز دسترخوان پہ اس بچے کی فرمائش کو پورا کرنے کو اس کی پسندیدہ چیز  موجود ہوتی۔
بعض بچوں میں فطری طور پر انرجی کچھ زیادہ ہوتی ہے اور کچھ کرنے کی خواہش کے جذبے کے زیرِ اثر بعض اوقات جذباتیت اور انتہا پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسے بچے کے والد نے جب یہ محسوس کیا کہ اس کا بچہ جذباتی اور انتہا پسند ہوتا چلا جا رہا ہے تو اُس نے ایک دن موقع دیکھ کر، جب بیٹے نے اپنے کسی کام میں درپیش الجھن کی بابت اُسے رائے طلب کی تو اُس نے اُس کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
'بیٹا ! انفرادی سطح پہ انتہا پسندی کبھی کبھی مثبت نتائج ضرور دیتی ہے لیکن اجتماعی سطح پہ جہا دوسروں سے واسطہ ہوتا ہے یہ انتہائی مضر ہو جاتی ہے کیونکہ دوسرا شخص چونکہ آپ کی رفتارِ فکر اور قوت کار کا ساتھ نہیں دے سکتا اور اس وجہ آپ کو مسئلہ پیش آتا ہے لہٰذہ اگر اس مسلئے کو حل کرنا چاہتے ہو تو دوسروں کا خیال رکھنا سیکھو اور جذباتی ہو کر مت سوچا کرو'۔
یہ اندازہ کرنا کہ اپنے والد کے اس متوازن اور پرُ حکمت تبصرے نے اُس بیٹے پر کیا اثر مرتب کیا ہوگا کچھ اتنا دشوار بھی نہیں۔ مذکورہ مثال میں خاص طور پر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اُس باپ نے بیٹے کے مسلے کو وقتی اور فوری طور پر حل کرنے کی بجائے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اُس کو ایک اسی بات تعلیم کی جس سے بچے کی شخصیت میں پیدا ہونے والی ممکنہ کجی کا سدِ باب بھی ہوسکے اور بچے کو خود اُس کی اپنی شخصیت کو سنورنے کی مائل کر دینے کی زبر دست حکمت بھی نظر آتی ہے۔
ہمارے بزرگوں اور اسلاف کی تعلیمات میں ایک بات بہت چرچا رہا ہے۔ وہ 'با ادب، با نصیب اور بے ادب ، بے نصیب' کے مقولے کے بہت زیادہ قائل تھے۔ ان کی سوچ کچھ غلط بھی نہ تھی آج بھی ہر  ماں اور ہر باپ اپنی اولاد سے یہ توقع رکھتا ہے کہ اس کے بچے اسکا  ادب اور لحاظ کریں۔ سطحی سوچ کے عام ہونے کے سبب جہاں اور بہت سی باتوں کا مفہوم خبط ہوکر رہ گیا ہے اور ان کی اصل روح سے ہم دور ہوچکے ہیں وہاں اس مقولے کا بھی کچھ ایسا ہی حشر ہوا ہے۔ آج کل ادب کا مفہوم کہی گئی بات کو اُ س کی اصل روح کے مطابق ماننے اور اس پہ عمل پیرا ہونے کی بجائے خاموش ہو رہنا اور سوال نہ پوچنے کا  متبادل ہوچکا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو اس بات کا فرق ضرور تعلیم کریں کہ با ادب ہوکر با نصیب بننے کے لئے لازم ہے کہ کہی گئی بات کی اصل روح کو سمجھنے ، اس کو ماننے اور اس پر اچھی طرح  سے عمل کرنے سے کیا ہوتا ہے اور کہی گئی بات پہ سوچنے اور اس سمجھنے کی زحمت گوارا نہ کرنے، اس کونہ ماننے اور اس پہ عمل نہ کرنے کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ظاہر ہے ان نتائج کو بدنصیبی کے علاوہ اور  کچھ بھی تو نہیں کہا جاسکتا ۔
کسی بھی بچے کے والدین اس امر کو کسی بھی طور یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ ان کے بچے اپنی زندگی میں کسی بھی قسم کی بدنصیبی کا سامنا کریں۔ اس کے لئے اپنے بچوں کو با نصیب بنانے کے اس چھوٹے سے چٹکلے پر عمل کرنے اور اپنے بچوں کو با ادب بنانے کے لئے والدین میں شعور اجاگر کرنے کی جو ضرورت ہے اس سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے۔ یہ بات بہر حال طے ہے کہ اس کام میں اگر چہ والدین کی تربیت بنیادی  کردار ادا کرسکتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے  کہ اساتذہ کرام اپنے تلامذہ، شاگردوں اور  طلبا ء میں یہ صفت پیدا کرنے کی ذمہ داری سے فارغ ہی کر دیئے جائیں۔ بچوں میں یہ صفت اور خوبی پیدا کرنا سب سے پہلے بچوں کی اپنی ذمہ داری قرار پاتی ہے۔ دوسرے نمبر پہ والدین، تیسرے نمبر پر اساتذہ کرام کی اور اس کے بعد معاشرے کے ہر فرد کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس بات پہ نہ صرف ف خود عمل پیرا ہو بلکہ دوسروں کو بھی اس بات کی تلقین کو اپنا شعار بنا لے ۔ یہاں اس  بات کا اعادہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ انسان کے ست بستہ کھڑے ہوکر مودب ہونے کی ادا کاری کرنے سے نہ کبھی کوئی با ادب بن سکتا ہے اور نہ ہی بانصیب ۔ بانصیب بنا دینے والے ادب کا اصل مفہوم، نہ صرف یہ کہ، خود سمجھا جانا ضروری ہے بلکہ دوسروں کو بھی سمجھایا جانا لازم آتا ہے۔ ورنہ تو بڑے ہوٹلوں میں دست بستہ ، منظرِ حکم اور مودب کھڑے بیروں اور دفاتر کے باہر کھڑے چپڑاسیوں سے بڑ ھ کر اور کون بانصیب ہونے کا حقدار ہو سکتا ہے؟


Featured Post

Adiala Jail's monitoring is strict, meetings are limited, 3 members of the party will be allowed to meet Pakistan Tehreek-e-Insaf founder Imran Khan, Naeem Panjotha, Khalid Shafiq and Naseeruddin Nair.

Adiala Jail's monitoring is strict, meetings are limited, 3 members of the party will be allowed to meet Pakistan Tehreek-e-Insaf founde...