مجموعہِ اضداد

مجموعہِ اضداد
جب انسان غور و فکر پر مائل ہو تو اس کے ارد گرد موجود مختلف مظاہر فطرت سے لیکر مختلف لوگوں اور انسانوں تک بے شمار باتیں اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہیں۔وہ اپنے فطری تجسس اور اشتیاق کے ہاتھوں اُن میں دلچسپی لیتا ہے، اُن باتوں پہ غور و فکر کرتا ہے، اُن کی بابت کوئی رائے قائم کرتا ہے اور کوئی نتیجہ نکال کر مطمئن ہو جاتا ہے یا کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کی صورت میں بے اطمینانی اور خلش کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس بے اطمینانی  اور خلش سے نجات پانے کی خواہش ایک تقاضا بن کر اُس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اس بات پہ مزید غور کرے اور سوچ بچار سے کوئی قابلِ اطمینان نتیجہ اخذ کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ اگر پھر بھی کوئی اطمینان بخش بات ذہن میں نہ آئے تو وہ دوسروں سے راہنمائی اور مدد کا طلب ہو جاتا ہے۔ جب کوئی دوسرا اُس کی فکر اور سوچ کو ایسی راہ پہ ڈال دیتا   ہے جس پر چل کر وہ کسی اطمینان بخش حل تک پہنچ جاتا ہے تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے ورنہ یہ سفر جاری رہتا ہے۔
اس سوچ بچار اور غور و فکر کے دوران بعض اوقات انسان کو کچھ ایسی صورت  حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اُس کا اخذ کردہ نتیجہ اس کو پہلے معلوم باتوں کے بالکل برعکس اور الٹ ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر وہ الجھ کر رہ جاتا ہے۔ اس وقت وہ یا تو اپنے اخذ کردہ نتیجے کو غلط قرار دے کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس ضمن میں مزید سوچ بچار سے باز آجاتا ہے۔ معدودے چند افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو  ڈٹ جاتے ہیں اور وہ پہلے سے معلوم نتائج اور اپنے ذہن میں آنے والے خیال دوتوں کو ہی پرکھنے اور جانچنے میں جت جاتے ہیں اور اگر اُن کو یہ تسلی ہو جائے کہ اُن کے ذہن میں آنے والا خیال یا نتیجہ ہی درست ہے تو وہ اپنے علم میں پہلے سے موجود بات کی تصحیح کر لیتے ہیں ورنہ بصورت دیگر اُس کو رد کر دیتے ہیں۔
اپنے ذہن میں آنے والے خیال کو جانچنے اور پرکھنے کے دو طریقے عام طور  پر زیادہ معروف ہیں۔ ایک یہ کہ کسی صاحب علم اور صائب الرائے دوت یا  استاذ سے اپنے ذہن میں آنے والے خیال کے بارے میں بات کی جائے یا اُس  موضوع پر تبادلہ خیال   کر لیا جائے اور اس خیال کو مختلف زاویوں سے خود ہی سوچ کر دیکھا جائے اور کسی تسلی بخش نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ ہاں یہ بات البتہ طے ہے کہ یہ دوسرا طریقہ علم میں اضافے اور  اس طریقہ ء کار کی مشق کرنے سے ہی آتا ہے کیونکہ اس تمام عمل کے دوران متضاد اور باہم متصادم خیالات پہ کڑی نظر رکھی جانی ضروری ہوتی ہے ورنہ یہ متصادم اور متضاد افکار انسان کو مجموعہ اضداد بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ جب انسان آپس میں متصادم اور متضاد خیالات و افکار کو آپس میں باہم مر بو ط و ہم آہنگ  نہیں کر پاتا تو وہ ایسے الجھاؤ کا شکار ہو جاتا ہے کہ اُس کی شخصیت کی پوری  دیوار ہی کج ہوکر رہ جاتی ہے۔
دیکھا جائے تو کارخانہ قدرت میں ہر شے دو رخوں یا دو مخالف جنسوں کی صورت میں جلوہ گر ہے۔ زمین اور آسمان  ، زمین کے دو قطب شمالی اور قطب جنوبی ، گرمی سردی، آگ اور برف، پانی اور پیاس ، نر اور مادہ، دن اور رات، خالق اور مخلوق، اچھا اور بُرا، سیاہ اور سفید، نیکی اور بدی،ظاہر اور باطن، کشش اور گریز، مادی اور غیر مادی وجود، انفس اور آفاق، خیر اور شر وغیرہ ان دو رخوں کی چند ایک مثالیں ہیں۔ شاید اسی وجہ سے بعض مفکرین نے اس کائنات کو مجموعہ اضداد ہی جانا ہے اور بتایا ہے کہ یہاں یہ دونوں مخالف اور متضاد رخ باہم برسرِ پیکار ہیں اور کائنات انہی دونوں کے آپس میں برسرِ پیکار قوتوں کو اہر من اور یزدان کے نام  دیئے گئے۔
اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے بتایا کہ خالق ارض و سما ء نے اس کائنات کو دو رخوں کا حامل بنایا ہے اور دونوں رخ اس کی تخلیق ہیں اور ان کی باہم آویزش سے جو کچھ بھی تخلیق ہو رہا ہے اور دونوں رخ اس کی تخلیق ہیں اور ان کی باہم آویزش سے جو کچھ بھی تخلیق ہو رہا ہے وہ اسی کے پروگرام کے ہو رہا ہے۔ اسی واسطے یہاں  ثنویت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور مسلمانوں کو توحید کے مرکزی نکتے سے بندھا رہنا چاہئے تاکہ وہ اپنے خالق کے قریب ہو سکیں۔
انسان کے ارد گرد ہی نہیں خود انسان کے اپنے اندر بھی یہی دو رخ موجود ہیں۔ قرآن میں ان دو رخوں کی طرف داہنے والے اور بائیں والے کہ کر متوجہ کیا گیا ہے۔ آجکل  کے ماہرین نفسیات اس بات کو شعور اور لاشعور کے ناموں سے متعارف  کروا رہے ہیں۔ علمائے باطن بتاتے ہیں کہ انسان کے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں۔ ایک وہ دماغ جو انسان کو اسفل میں مقید اور محبوس رکھنا چاہتا ہے اور دوسرا وہ جو انسان کو اسفل سے نکال کر اعلیٰ علیوں تک لے جانا چاہتا ہے۔ ایک دماغ کلاک وائز اور دوسرا انٹی کلاک وائز حرکت کا حامل ہوتا ہے۔ ایک دماغ انسان کو زمان اور مکاں کی جکڑ بندیوں میں گرفتار رکھتا ہے اور دوسرا انسان کو ٹائم اور اسپیس کی حدود سے آزاد کروا کر لامحدودیت سے روشناس کرواتا ہے۔
اپنی روزمرہ زندگی میں بھی ہم ان دونوں دماغوں کی کارکردگی سے باری باری مستفیض ہوتے رہتے ہیں۔ جب ہم جاگ ہے ہوتے ہیں تو ہم بیداری کے حواس کو ایک دماغ کے ذریعے استعمال کرتے ہیں اور جب ہم سو جاتے ہیں تو ہم انہی حواسوں کو خواب کے حواسوں کی صورت دوسرے دماغ سے برت رہے ہوتے ہیں۔ کبھی ہم ایک کام کو کرنے کی شدید خواہش محسوس کرتے ہیں اور کبھی اسی کام سے گریز کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ ایک وقت میں ایک کام کو کرنا مضر خیال کیا جاتا ہے اور دوسرے وقت اُسی کام کو کرنا ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ ایک وقت میں ایک  چیز پسندیدہ کہلاتی ہے اور دوسرے وقت میں وہی بات ناگوار اور باعث کراہت ہو جاتی ہے۔ یہ سب انہی دو دماغوں کے سبب ہوتا ہے۔
ان باتوں کو اگر مناسب طور پر نہ سمجھا جائے تو انسان نہ صرف خود اضد اد کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ اس کو دوسروں کے اعمال اور افعال میں بھی تضاد نظر آتے ہیں۔ اس نا سمجھی کے سبب وہ الٹے سیدے افکار کو حرزِ  جاں بنا کر غیر جانبدارانہ طرزِ فکر سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ غیر جانبدار اندازِ نظر کو حاصل کرنے کے لئے یہ امر  ناگزیر ہے کہ انسان اپنے اور دوسروں کے اندر موجود اضداد کی حقیقت اور کنہ تک پہنچ سکتا ہو۔ اس بات سے جہاں ایک طرف انسان کو غیر جانبدار ہونے  میں مدد ملتی ہے وہاں دوسری طرف یہی بات غیر جانبدار اندازِ فکر کو مزید جلا بخشنے کا باعث اور سبب بھی بنتی ہے۔
بچوں پہ شفقت کرنے کی اہمیت اور ضرورت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے لیکن اس شفقت اور محبت کا بے جا استعمال بچوں کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اسی طرح اس بات کو دلیل بنا کر بچوں کو صرف شیر ہی کی نظر سے دیکھتے رہنے سے ان میں خوف اور ڈر پیدا کرکے اُن کو خو د اعتمادی سے محروم کر دینا بھی درست نہیں مانا جاسکتا ہے۔ اس صورت حال کو بہت دھیان سے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی بہت لاڈ پیار اور کبھی نہایت کڑا روّیہ بھی کوئی  مناسب بات نہیں۔ اس سے بچوں میں ایسا روّیہ رکھنے والے کی بابت کوئی مثبت تاثر قائم نہیں ہوسکتا اس لئے میانہ روی اور توازن کا روّیہ اپناتے ہوئے، متضاد روّیے کو اختیار کرنے سے بچنا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔
بلا وجہ کبھی ہنسنا اور کبھی رونا دماغی صحت پہ شبہ کرنے کا جواز مانا جاتا ہے لیکن  ایک بات پہ ایک وقت خوشی کا اظہار کرنا اور دوسرے وقت اسی بات پہ ناراضگی اور غصے کا اظہار شخصیت اور افکار میں اضداد کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس قسم کے اضداد سے بچنے کے لئے ایسا روّیہ رکھنا چاہئے کہ اظہار پسندیدگی اور نا پسندیدگی کی وجوہ بالکل واضح ہوں۔ جو بات آپ کے نزدیک درست ہو اس کی بابت آپ کی رائے میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے۔ ذہن میں جس قدر ابہام ہوگا شخصیت اور کردار میں اسی قدر تضادات محسوس ہوتے ہیں۔
انہی اضداد کی ایک صور منافقت کہلاتی ہے۔ جو بات دل میں ہو اس کے برعکس کہنا اور کرنا منافقت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ جو لوگ غور و فکر اور سوچ بچار کرنا جانتے ہیں وہ اس موذی بیماری سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ قرآنِ حکیم میں نفاق پہ بہت سخت پکڑ کی وعید اسی وجہ سے کی گئی  ہے کہ قول دفعل کا تضاد ایک طرف شخصیت اور کردار کی پوری عمارت ٹیڑھی کرنے کا باعث ہوتا ہے اور دوسری طرف تمام معاشرتی خرابیاں بھی اسی کے سبب فروغ پاتی ہیں۔
آجکل ہم سبب کہنے کو ایک اللہ کو مانتے ہیں اور کسی کو اُس کا شریک نہیں ٹھہراتے لیکن عملی طور پر مال و دولت کو ہی کام بنانے والا جانتے ہیں اور اکثر کہتے ہیں کہ اگر پیسہ نہیں تو کچھ نہیں یا یہ کہ اگر آدمی کے پاس پیسہ ہو تو وہ کیا نہیں کرسکتا۔ غور کیا جائے اس قسم کی باتیں دولت پرستی کے ذیل میں ہی آتی ہیں۔ اب غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روپیہ پیسہ، مال و دولت وسائل کا حصہ تو ہوسکتے ہیں، ان سے کچھ دیگر وسائل خریدے بھی جاسکتے ہیں لیکن کسی کام کو بنانے یا بگاڑنے کی طاقت ان میں نہیں ہے۔ آپ ان سے مہنگی ترین دوا خرید سکتے ہیں لیکن صحت اور تندرستی نہیں کیونکہ اگر صحت اور تندرستی بھی خریدی جاسکتی تو ہر امیر انسان  صحت اور تندرستی کا شہکار ہوتا اور ہر غریب آدمی اس نعمت سے محروم ہی نظر آتا۔ ا طرح غور کرنے سے ایسی بہت سی نعمتوں کی فہرست تیار کی جاسکتی ہے جن کو روپیہ پیسہ کسی قیمت پہ نہیں خرید سکتے۔
اسی طرح ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ ہمارے نبی کی تعلیمات یہ ہیں کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ لیکن عملی طور پر ہر مسلمان دوسرے مسلمان سے خوفزدہ، ڈرا اور سہا ہوا ہی۔ بھئی اگر سب آپس میں بھائی ہیں تو پھر یہ ایک دوسرے  سے خوف اور ڈر کا کیا مقام۔ اب یا تو ڈرنے والا مسلمان نہیں اور یا پھر ڈرانے والا اور یا پھر دونوں ہی۔ اور اگر دونوں ہی اپنے اپنے دعویٰ اسلام میں کھرے اور مخلص ہیں تو ایک دوسرے کو بھائی ماننے اور جاننے میں جو قباحتیں درپیش رہتی ان کو ہم کیوں دور نہیں کر پا رہے۔
جب انسان اپنے کہنے اور کرنے کے تفاوات کو دور کرنے کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تو وہ نہ صرف منافقت جیسی بیماری سے محفوظ ہوتا ہے بلکہ اس  کی شخصیت اور کردار میں ایک ایسا نکھار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے لئے باعثِ رشک اور قابل تقلید بن جاتا ہے۔ کہی اور کی جانے والی بات میں تفاوت ایک حد تک تو انفرادی سطح تک رہتا ہے لیکن جب کسی طبقے، محکمے، گروہ اور معاشرے میں اکثر افراد اس تفاوت اور تضاد کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں تو یہ اجتماعی صورت اختیار کر لیتا ہے اور افراد کے ذہنوں کو اس حد تک اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ کسی کو یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ وہ کیسے کیسے تضادات کا مجموعہ بن چکا ہے۔
اس قسم  کے تضادات  کی مثالیں قدم قدم پر بکھری ملتی ہیں۔ امیر لوگ سکون اور صحت کی تلاش میں رہنے کے باوجود ہر ایسا کام کر رہے ہوتے ہیں جو بے سکونی تناؤ کا باعث ہوتا ہے اور ہر وہ چیز بطور خوراک استعمال کر رہے ہوتے ہیں جو خون میں چکنائی کی مقدار کو بڑھانے کا سبب ہوتی ہے۔ کہنے کی حد تک انسان سکون کا طلب گار ہوتا ہے لیکن سب سے زیادہ قیمت ایسی جگہوں کی لگاتا ہے جو انتہائی پر شور اور پر ہنگام ہوں۔ اس بات کی طرف اگر انہیں متوجہ کیا بھی جائے تو کہا یہ جاتا ہے کہ یہاں رونق زیادہ ہے اس لئے اس جگہ کی قیمت اتنی زیادہ ہے۔ اسی طرح اگر اُن کو یہ بتایا جائے کہ خون میں چری سے نقصان ہوتا ہے تو محنت اور مشقت کرکے خون کی چربی کو جلانے اور اس کو استعمال کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں ہلانے کی بجائے اپنی خوراک میں تبدیلیاں اور کمی کرنے کا غلط طریقہ اپنا لیتے ہیں۔ اب اگر وہ چربی جسم میں موجود رہتی ہے اور دماغ اور آنکھوں پر چڑھ جاتی ہے تو اس میں اچنبھا کیسا؟
اسی طرح غریب لوگ اپنی غربت کا رونا روتے نہیں تھکتے، حکومت اور معاشرے کو بُرا بھلا کہنے میں اپنی پوری توانائی صرف کر دیتے ہیں، لیکن معاش اور روزگار کو بہتر بنانے کے درست انداز کو اختیار کرتے ہوئے، محنت اور جہد کی راہ اپنانے پر بالکل مائل نہیں ہوتے۔ وقت کی کمی کا رونا رونے والوں کو اپنا وقت درست طور پر منظم (Manage)     کرنے کا شاذ ہی خیال آتا ہے۔ ٹی وی اور فلمیں دیکھنے یا یار  دوستوں کے ساتھ گھنٹوں کرنے کا وقت نکال لیں گے لیکن کرنے کا کام یہ کہ کر کل پر ڈال دیں گے کہ میرے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ کہنے کو ہر آدمی دوسرے کو پوچھتا ہے کہ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں لیکن بات  ماننے پر کم ہی آمادہ ہوتا ہے چاہے اس بات کا فائدہ خود کو ہی کیوں نہ ہو رہا ہو۔

اگر کوئی انسان مجموعہ اضداد بننے سے بچنا چاہتا ہو تو اس کے لئے سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہوتی ہے کہ وہ ان تضادات کو سمجھے۔ تضادات کو سمجھنے اور ان پر تنقید کرنے میں جو فرق ہے اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کو سمجھے۔ ان پر تنقید کرنے کی روش اپنانے کی بجائے ان سے بچنے کی راہ کو اپنائے  اور جو کہے اس کو سمجھ کر کہ اور پھر جیسا کہے ویسا ہی کرنے کی پالیسی کو اپنائے۔

سوچنا اور سمجھنا



سوچنا اور سمجھنا



یوں   تو ہر انسان یہی سمجھتا ہے ۔ لیکن کتنے لوگ ایسے ہیں جو غور و فکر کرنا حقیقتاً جانتے ہیں اور اُس کو مناسب طور پر بروئے کار بھی لاتے ہیں۔ کسی فلاسفر کا یہ قو ایک دور میں بہت مقبول ہوا تھا کہ چونکہ میں سوچ  سکتا ہوں اس لئے میں ہوں۔ یعنی فطرت نے ہر انسان کو یہ صلاحیت و دیعت  کی ہے کہ وہ سوچ سکتا ہے۔ اور اُس کا اپنے وجود میں ایک دماغ اور ذہن رکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کو ایک ایسی صلاحیت سے متصف کیا گیا ہے جو اس کو غور و فکر کرنے کی اہلیت عطا کرتی ہے۔ خالقِ کائنات نے انسان کو غور و فکر کی جو دعوت دی ہے اس کا اصل منشاء  انسان کو تحقیق اور ریسرچ کی راہ پر ڈالنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن لوگوں کا عام طور پر سمجھنا تو یہ ہے کہ یہ سوچ سکنا، یہ غور و فکر کرنا اور یہ تحقیق اور ریسرچ  کی باتیں عام طور پر خاص ہی لوگوں کے کرنے کا کام ہے اس لئے ان باتوں کو انہی کے لئے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔
اگر ہم یہ جائزہ لیں کہ یہ غور و فکر  کیا ہے؟ کسی بات کو سوچنا ہو تا اس پہ کیسے سوچا  جاتا ہے؟ یا یہ کہ کسی بات پہ سوچنے اور غور و فکر کا اصل طریقہ کیا ہونا چاہئے؟ یہ بات تو ہم سب کے علم میں ہے کہ ہمارے ذہن میں خیالات آتے ہیں۔ یہ خیالات کیوں آتے ہیں اور کہاں سے آتے ہیں؟  اس کی بابت ابھی بہت سی باتیں انسان کے علم میں آنا باقی ہیں۔ مختصراً یوں سمجھ لیں کہ انسان کے اندر ایک کمپیوٹر نما مشین نصب ہے۔ اس مشین کا کام ہے کہ کائناتی نظام کو فیڈ کی جانے والی اطلاعات  کو وصول کر کے اُن اطلاعات کو خیالات کی صورت میں انسان کے ذہن کی سکرین پر نشر کرتی رہے۔ انسان ان خیالات کو وصول کرنے اور ان کو مطلب پہنانے میں آزاد رکھا گیا ہے۔ وہ موصول  شدہ خیالات کو جس زاویہء نظر سے دیکھتا ہے، یہ اس کا طرزِ فکر کہلاتی ہے۔ اگر طرزِ فکر میں ہمدردی اور ایثار ہے تو وہ ذہن میں آنے والے ہر خیال کو مثبت انداز میں لیتا ہے اور اگر طرزِ فکر میں خود غرضی اور لالچ ہے تو انسان ہر خیال کو منفی اور محدود طرزوں میں لیتا اور اپناتا ہے۔
انبیاء نے انسان کو جن تعلیمات سے نوازا، اُن کا واحد مقصد انسان کو اس طرزِ فکر سے آراستہ کرنا تھا جو ہمدردی، ایثار، محبت اور بھائی چارے جیسی مثبت  خوبیوں سے مالا مال ہوتی ہے۔ ایسی طرزِ کا ایک پہلو پہ بھی ہوتا ہے کہ وہ تعمیری سوچوں کی حامل ہوتی ہے اور تعمیر کے خوگر بندے کو کسی بھی قسم کی تخریب سے کوئی علاقہ نہیں ہوسکتا۔
ہمارے نظامِ تعلیم میں ذہن کی جن چند ایک صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا اہتمام کیا گیا ہے اُن میں یاداشت اور حافظے کو بہت اہمیت حاصل ہوچکی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حافظے اور یاداشت کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلّمہ مگر صرف انہی کو اہمیت دیئے جانا دیگر ذہنی صلاحیتوں کو نظر انداز کرنے کا مترادف بن چکا ہے۔ اس صورت حال کی اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔
جب تک غور و فکر سکھانے کا باقاعدہ اہتمام نہیں ہوگا، اس وقت تک  کسی فرد میں  اس صلاحیت  کے ابھرنے کے امکانات کی امید رکھنے میں کوئی حرج تو نہیں ہے  لیکن ایسی امیدیں کم ہی پوری ہوا کرتی ہیں۔ اس با قاعدہ اہتمام کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کو پہلے خود سمجھیں کہ یہ سوچنے کا عمل ہوتا کیا ہے ؟ یہ کس طرح  وقوع پذیر ہوتا ہے اور اس کو کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے؟
اگر اس بات کو نہایت آسان الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ جب ہم کسی نکتے پہ اپنا ذہن مرکوز کرتے ہیں تو اس نکتے کی بابت خیالات ہمارے ذہن میں آنا شروع ہو جاتے ہیں اور ہم اُن خیالات کو اپنے سابقہ علم اور تجربے کی روشنی میں چھان پھٹک کر چن لیتے ہیں۔ اس انتخاب کے عمل سے گزر کر جو خیالات ہمیں پسند آ جاتے ہیں، ہم اُن کو اپنی یا داشت کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس سے انسان کا ایک ذہن بنتا چلا جاتا ہے۔ اب وہ جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے وہ اس بنے ہوئے ذہن سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ اب اس کے تمام تر اعمال اور افعال کا دارومدار بھی ذہن کی اسی بناوٹ اور ساخت پر ہو جاتا ہے۔
اس لئے جب ہم غور و فکر کی بات کرتے ہیں تو اس میں سب سے پہلی چیز جو ہماری توجہ میں آتی ہے وہ ہے ذہن کو کسی ایک نکتے پہ مرتکز کرنے کی صلاحیت کا ہونا۔ جب کسی  فرد میں اپنے  ذہن کو کسی نکتے پہ مرکوز کرنے کی صلاحیت نہیں ہوگی تو وہ اس نکتے کی بابت خیالات کہاں سے لائے گا؟ ظاہر ی بات ہے کہ ارتکاز توجہ ہی سے ذہن میں خیالات کا بہاؤ قائم ہوسکتا ہے تو اس کی ضرورت کی زیادہ ہوئی۔ باقی باتوں کی اہمیت اور ضرورت تو تبھی ہوگی جب ذہن میں خیالات کا بہاؤ تیز تر ہوتا چلا جائے گا۔ جتنی زیادہ ارتکاز توجہ کی مشق ہوتی ہے ذہن میں اتنی ہی گہرائی سے خیالات ابھرتے ہیں اور یہ خیالات جتنی زیادہ گہرائی کے حامل ہوتے ہیں اتنی ہی اُن کی وقعت اور اہمیت بھی ہوتی ہے اور وہ حقیقت کے بھی اتنے ہی زیادہ قریب ہوتے ہیں۔
ارتکاز توجہ کے بعد دوسری چیز جو غور و فکر کے عمل میں بہت ہی اہم ہے، وہ ہے ذہن میں سکت ہونا۔ یعنی دماغ  میں اتنی سکت ہو کہ وہ ذہن میں آنے والے خیالات کے بہاؤ قائم کرتی  ہے تو دوسری طرف ذہن کو وہ توانائی بھی فراہم کرتی ہے جو اس کی سکت میں اضافے کا موجب بنتی ہے۔ ذہنی سکت میں اضافے کے لئے ارتکاز توجہ کے ساتھ گہرائی میں سانس لینے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔سانس کی ایک آدھ مشق باقاعدگی سے کرتے رہنے سے دماغ کو آکسیجن کی  فراہمی ممکن ہونے کے ساتھ ساتھ قوتِ ارادی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔
ان دو چیزوں کے بعد جو تیسری چیز درکار ہوتی ہے وہ ہے طرزِ فکر۔ یعنی ذہن کس سانچے یا پیٹرن میں ڈھلا ہوا ہے۔ اب اگر خیالات ذہن میں آبھی جائیں اور ذہن میں ان کے بہاؤ اور رفتار کا ساتھ دینے کی قوت و سکت بھی ہو لیکن جس پیٹرن میں ذہن ان کو ڈھال رہا ہو وہ بُرا یا خراب ہو تو سیدھی سی بات ہے کہ انسان اُن خیالات کو غلط اور منفی معنیٰ بھی پہنا سکتا ہے جو اُس نے اتنی محنت اور ریاضت سے  موصول کئے تھے۔ اس لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ جس سانچے یا طرزوں پہ ذہن میں آنے والے خیالات کو ڈھلنا ہوتا ہے، اس ذہنی سانچے کو درست رکھنے کا اہتمام بھی ساتھ ہی ساتھ ہو۔
علمائے باطن کے نزدیک انسان تفکر سے ہم رشتہ رہ کر ، فطرت کے مقاصد کی تکمیل کے پیشِ نظر بنایا گیا ہے۔ جب تک تفکر کے اس پیٹرن یعنی انسان کا رشتہ کائناتی تفکر سے قائم نہیں ہو جاتا، انسان کی تخلیق کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ ہر مذہب کی تعلیمات کا مرکز و محور اصل میں تفکر کے اس پیٹرن کو سمجھنا اور درست رکھنا ہی تو رہا ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم کے مقاصد کا اگر اس حوالے سے جائزہ لیا جائے تو یہ دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ انسان کی تخلیق کے اصل مقصد کا شعور اجاگر کرنے کی طرف بالکل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے بھی توجہ دی جائے۔
ذہنی سانچے کی ساخت کو درست رکھنے کے لئے دو معروف انداز یہ ہیں کہ یا تو انسان اپنے ضمیر کی آواز پہ چلنا سیکھ لے اور یا  پھر یہ کہ وہ کسی ایسی شخصیت کو اپنے  لئے مثال بنا لے جو اُس کو، بالواسطہ یا بلاواسطہ، زندگی کی راہوں پر راہنمائی فراہم کرسکے۔ جو اساتذہ اپنے تلامذہ کے لئے ایسا آئیڈیل بن جاتے ہیں جن کی پیروی میں بچے اپنے ذہن کے سانچے کو منظم اور مرتب کرنا چاہتے ہیں، بے شک ایسے اساتذہ کرام ہی روحانی والدین اور قابلِ تکریم راہبر کہلاتے ہیں۔ ایسے اساتذہ کرام درحقیقت ہی تو کرتے ہیں کہ وہ اپنے تلامذہ کو ان کے ضمیر کی آواز کو درست انداز  میں  سننے اور اس پہ عمل کرنے کا سلیقہ سکھا دیتے ہیں۔ اسی عمل کو انسان کا اپنے باطن کی طرف متوجہ ہونا بھی کہا جاتا ہے۔ ضمیر انسانی کو روحانی سائنسدانوں نے اسی لئے نورِ باطن کہا ہے کہ یہ انسان کی راہنمائی کا ایک الو ہی انتظام ہے۔
اس انتظام سے استفادے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ انسان اپنے دل میں آنے والے ہر خیلا کے تعاقب میں اندھا دھند جت جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے انسان غیر  جانبدار اندازِ فکر و نظر کا حامل بنے۔ کیونکہ غیر جانبدار انداز حاصل کئے بغیر کسی بھی معاملے کی درست تفہیم حاصل نہیں ہوسکتی۔ اگر ذہن میں غیر جانبداری نہیں ہوگی تو لامحالہ تنگ نظری اور تعصب کے جا لے فکر و  آگہی کی ضیاء  پاشیوں کو دھند لاتے رہیں گے۔
سوچ بچار کے ان بنیادی اجزائے ترکیبی کے اس تعارف کے بعد یہ دیکھا جائے کہ کسی بات پہ سوچ بچار یا غور فکر کیسے کیا جاسکتا ہے؟ یوں تو سوچ بچار یا غور و فکر کرنے کا ہر ذہن کا اپنا ایک طریقہ اور انداز ہوتا ہے۔ بعض لوگوں میں فطری طور پر یہ صلاحیت زیادہ ہوتی ہے کہ ادھر اُن کے سامنے کوئی سوال آتا ہے اور اُدھر اُن کے ذہن میں اُ کا درست جواب عود کر آجاتا ہے۔ اس کے برعکس بعض لوگوں کو کافی دیر تک اپنے ذہن کو ایک نکتے پہ مرتکز و مرکوز رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب  کہ اکثر لوگوں کے ذہن میں بات قسطوں اور درجوں میں کھلتی ہے۔ ایک وقت میں ایک حد تک ہی بات اُن کی سمجھ میں آتی ہے اور پھر جب وہ مزید غور جاری رکھتے ہیں تو اسی بات کا ایک اور زاویہ یا ایک اور درجہ اُن کے ذہن میں آ جاتا ہے۔
رہا یہ سوال کہ غور و فکر کیسے کیا جانا چاہئے؟ تو اس کا نہایت سادہ سا جواب تو یہ بنتا ہے کہ جب انسان کسی سوال کو اپنے ذہن میں دہرانا شروع کرتا ہے، سوچ بچار  اور غور و فکر کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اب یہ بھی تو ایک سوال ہی تھا کہ سیب زمین پر کیوں گرا؟ جب نیوٹن کا ذہن اس سوال کی گردان کرنے لگ گیا تو اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ سیب نے زمین کا رُح اس لئے کیا تھا کہ اُس کو کسی غیر محسوس قوت نے زمین کا رُح کرنے مجبور کیا تھا۔ اُس نے اس بات کو ذہن میں آنے کے بعد اس پر مزید غور کرنے کی بجائے اس قوت کا نام کشش ثقل تجویز کر دیا اور کہ دیا کہ زمین میں ایک ایسی قوت تجاذب ہے جو چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اب اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے تو پہلی نظر میں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ نیوٹن نے بھلا کیسی مہمل بات کو پکڑا کہ سیب زمین  پر کیوں گرا۔ ایسا نہیں ہے۔ سوچ بچار کے لئے کبھی کوئی بات نہ تو مہمل ہوتی ہے اور نہ ہی لا یعنی ۔ یہ انسان کا ذہن ہے جو کسی بات کو مہمل ، لا یعنی اور فضول کہتا ہے یا اس  کو ضروری اور اہم گر دانتا ہے۔
قرآن حکیم میں لگ بھگ ساڑھے سات سو  مقامات  ایسے ہیں جہا انسان کو تفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے، اس کو غور و فکر پہ ابھارا گیا ہے اور سوچ بچار کی طرف مائل کیا گیا ہے۔ اساتذہ کرام اپنے تلامذہ کو آیاتِ قرآنی سے لے کر کارخانہء قدرت کے کسی بھی مظہر پہ غور و فکر کی دعوت دیکر اُن کو غور و فکر کی مشق کروا سکتے ہیں۔ مثلاً ایک ہفتے تک بچوں کو مسلسل اس بات پہ غور کروایا جاسکتا ہے کہ پانی عام طور پر اوپر سے نیچے کی طرف بہتا ہے لیکن درختوں  میں یہ نیچے ج سے اوپر کی طرف بہتا ہے اور درخت کی پھنگ تک پہنچنے کو دس بیس فٹ نہیں بلکہ سو سوفٹ تک چڑھتا ہے، آخر کیوں اور کیسے؟ غور کرنے کے لئے وہ اور کچھ بھی نہ کریں فقط اپنے ذہن میں اس بات کی تکرار کریں، آپس میں اس پر بات چیت کریں۔ بحث و مباحثہ نہ کریں۔ صرف ایک دوسرے کو اس موضوع پہ اپنے ذہن میں آنے والے خیالات بتائیں۔ ایک ہفتے تک مسلسل غور و فکر کے بعد وہ جس بھی نتیجے پر پہنچ جائیں اُن سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اُس کو لکھ کر دکھائیں۔
غور و فکر دراصل ذہن کی اُس صلاحیت کا  استعمال  ہے جس کو تجسس کہا جاتا ہے۔ جب انسان اپنے ذہن میں کسی سوال کی تکرار کرتا ہے تو وہ درحقیقت اپنی اسی صلاحیت کو بروئے کار  آنے  کا موقع فراہم کر رہا ہوتا ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس  سے ہم عام روز مرہ زندگی میں آشنا نہیں ہیں۔ گھریلو خواتین جب خود سے یا اپنے گھر کے لوگوں سے یہ دریافت کرتی ہیں کہ آج کیا پکایا جائے؟ تو ان کا ذہن اُس روز کی خوراک کا انتخاب کرنے کی سوچ میں منہمک ہوتا ہے۔
کسی بھی سوال کی اپنے ذہن میں بار بار تکرار سے توجہ اس نکتے پہ مرکوز ہو جاتی ہے۔ ارتکازِ توجہ کے قانون کے تحت اس  نکتے سے متعلق خیالات ذہن میں آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ذہن میں جتنی زیادہ جستجو اور تجسس ہوتا ہے، اتنی زیادہ اُن خیالات کے بہاؤ کی رفتار اور رسائی بن جاتی ہے۔ ذہن اپنی قوت اور سکت کے  مطابق ان خیالات کو اپنی گرفت میں لے کر حافظے میں محفوظ کرتا چلاتا ہے۔
یہاں پہ اس بات کا تذکرہ کر دینا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ کسی سوال پہ غور کرنے کے اس عم میں بعض اوقات کچھ یوں ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن میں کچھ ایسے خیالات آنا شروع ہو جاتے ہیں جو پہلے سے بنے ہوئے عقائد سے متصادم ہی نہیں  بلکہ بعض اوقات بالکل ہی الٹ محسوس ہوتے ہیں۔ اکثر و بیشتر لوگ اس مقام پر الجھن کا شکار ہو کر سوچ بچار ہی ترک کر جاتے ہیں اور اگر وہ سوچنا ترک نہیں کرتے  اور کسی سے اس ضمن میں مشورہ کرتے ہیں تو اُن کو یہ کہ کر ایسا سوچنے سے ہی منع کر دیا جاتا ہے کہ ایسا سوچنا بُری بات ہے۔ اب اس مسلئے کو حل کرنے کا درست طریقہ تو یہ ہے کہ انسان اپنے عقائد کا تجزیہ کرنے کی اہلیت پیدا کرے، نہ کہ غور و فکر کی عادت سے ہی توبہ کرلے۔
اس ضمن میں گلیلیو کی مثال دینا غلط نہ ہوگا۔ جب کائناتی نظام کے بارے میں سوچ بچار  کے دوران اُس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ سورج زمین  کے گرد نہیں گھومتا بلکہ زمین سورج کے گرد گردش کر رہی ہے تو اُس کو ایک زور دار جھٹکا سا لگا کہ اُس نے یہ کیا سوچا۔ لیکن جب اُ س نے اس بات پہ مزید غور کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اُس کے ذہن میں آنے والا یہ خیال غلط نہیں ہے۔ جب اُس کو اپنے مشاہدات سے یہ یقین ہوگیا کہ اُس کا اخذ کردہ نتیجہ درست ہے تو اُس نے اپنے خیال کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ بات پھیلی۔ اُس کی بات سے کلیسا کے پرچار کئے جانے  والے صدیوں پرانے نظریے کی تکذیب ہو رہی تھی، اس لئے ان کو اپنے مذہب کی بنیادیں ہلتی ہوئی محسوس ہونے لگیں اور انہوں نے گلیلیو کو اپنے خیال سے تائب ہونے کا کہا۔ اور گلیلیو نے یہ کہ کر معافی نامہ داخل کرکے جان چھڑائی کہ میرے یہ کہ دینے سے کہ زمین سورج کے گرد حرکت نہیں کر ہی، زمین کی حرکت رکنے سے تو رہی ، وہ اگر سورج کے گرد گردش کر رہی ہے تو میرے ایسا لکھ دینے سے وہ بھلا کیوں باز آنے لگی۔
اس مثال سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ غور و فکر کے دوران بعض اوقات ایسے مراحل پیش آتے ہیں جہاں کسی دانا اور بینا استاذ کی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اساتذہ اس حقیقت کا کچھ ادراک رکھتے ہیں اور خود ان کے اپنے ذہن میں غور و فکر کا پیٹرن بنا ہوا ہوتا ہے، وہ اپنے تلامذہ کی حوصلہ افزائی کرنے سے نہیں گھبراتے لیکن وہ اساتذہ جو اپنے اندر سوچ بچار کا حوصلہ نہیں رکھتے وہ اپنے تلامذہ کو بھی ان راہوں پر چلنے سے صاف صاف منع کردیتے ہیں۔
غور و فکر کی عادت اور سلیقہ ہو تو عام روز مرہ زندگی کے مسائل حل کرنے سے لے کر زندگی کے اہم فیصلے کرنے تک ہر ہر مرحلے میں انسان کو ایک تو سہولت رہتی ہے اور دوسرے وہ اپنی زندگی میں ایک کامیاب انسان بنتا چلا جاتا ہے۔ سوچ بچار کی عادت کو پروان چڑھانے کے لئے بڑی بڑی باتوں پہ غور و فکر کرنے کی بجائے چھوٹی چھوٹی باتوں کو مرکز توجہ بنانا زیادہ بہتر رہتا ہے۔ بچوں کو پہلیاں اور بجھاتیں مزہ بھی دیتی ہیں اور ایک طرح کی ذہنی مشق کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ قدرے بڑے بچوں کو ریاضی اور جیومیٹری کے سوال دے کر بھی یہی مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ میٹرک اور اُس کے بعد طلباء کو واقعاتی اشکال دے کر اُن کو اس بات پر ابھارا جاسکتا کہ وہ ان کے حل تجویز کریں۔ کسی مفروضہ صورت  حال کو اُن کے سامنے پیش کرکے اس کا تجزیہ اور حل کروانا بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔
سوچ بچار ابھارنے کے اس قسم کے تمام طریقے شعور کو حرکت میں لاتے ہیں اور اُس کو ہی پروان چڑھاتے ہیں۔ شعوری غور و فکر کے ساتھ ساتھ ایک اور طریقہ لاشعور تک رسائی حاصل کرنے کا بھی ہے۔ عام طور پر اس طریقہ تفکر کو ما بعد الطبعیاتی علوم کی کھوج کے لئے مخصوص سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ اگر اس کو عام زندگی کے معمولات کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کے دوہرے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ شعوری تفکر کو  کتنا بھی بڑھا لیں، اُس کو کتنا بھی پھیلا لیں، وہ محدود ہی رہتا ہے۔ لیکن وہ طرزِ تفکر جو انسان کا رابطہ لاشعور سے جوڑ دیتا ہے وہ انسان کو لامحدودیت سے آشنا اور ہم کنار کر دیتا ہے۔
غور و فکر کے اعلیٰ ترین مدارج میں انسان اپنے لاشعور سے واقف اور آگاہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ شعوری غور و فکر کے نتیجے میں انسان طبعی علوم سے آگاہ ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ شعوری غور و فکر کے نتیجے میں انسان طبعی علوم سے آگاہ ہوتا ہے، اپنے مسائل کا حل دریافت کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کو اس اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اس اطمینان کا تعلق چونکہ فانی اور ناپائیدار اشیائے  دنیا سے جڑا ہوتا ہے اس لئے وہ بھی ناپائیدار اور  فانی ہوتا ہے اور اس کو محفوظ اور پائدار بنانے کی تگ و دو ایک الگ سے جوکھم بن جاتی ہے۔ دنیاوی شعور اس سے آگے کی منزلوں کو پانے سے محروم ہی رہتا ہے۔
اس سے آگے کی منزلوں کے راہی کو وہاں تک کے سفر کے لئے اپنے لاشعور تک رسائی حاصل کرنا پڑتی ہے۔ لاشعور تک رسائی حاصل کرلینے والا بندہ نہ سرف اپنے مسائل کو حل کرتا ہے بلکہ وہ مسائل کے حل کے لئے درکار وسائل تک بھی اُس کی دسترس میں آجاتے رکھتا ہے۔ وہ طبعی علوم کے ساتھ ساتھ  ما بعد الطبعیاتی علوم  میں بھی درک رکھتا ہے۔ اس کا اپنے لاشعور سے تعلق اس کے اندر ایک ایسے اطمینان کا سبب بن جاتا ہے جو نہ تو فنا ہوتا ہے اور نہ ہی خراب۔ یہ طمانیتِ قلب انسان کے اعمال  و افعال کی اصل جزا بن کر  اس کو سکون آشنا کر دیتی ہے اور وہ زندگی کے اُس رخ سے واقف ہو جاتا ہے جہاں موت بھی اُس کو ممتا کی نظر سے دیکھتی ہے۔
علمائے باطن اپنے لاشعور تک رسائی کا جو طریقہ تعلم کرتے ہیں وہ انبیاء کی  سنت مراقبہ ہے۔ مراقبہ غور و فکر کا ایک ایسا رفیع الشان طریقہ ہے جو انسان کو قدم قدم چلا کر اُس کو اس کے لاشعور سے ہم کنار کر دیتا ہے۔ مراقبہ میں شعوری طریقہ تفکر کے انداز میں غور کا آغاز کرنے کے بعد ذہن کو ڈھیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ذہن میں خیالات آتے ہیں تو اُن کو آنے دیا جاتا ہے۔ کسی خیال سے کوئی تعرض نہیں کیا جاتا۔ خیالات آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ مراقبہ کی مشق کرنے والا خاموش بیٹھا ان کو آتے اور اُن کی جگہ نئے خیالات اپنے ذہن میں آتے دیکھتا رہتا ہے۔ حتٰی کہ وہ اس مشق کو کرتے کرتے اُس حالت کو پا لیتا ہے جب ذہن میں شعوری خیالات کی رو مد ہم پڑتے پڑتے بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ اب اس حالت میں جب ذہن کسی گہری جھیل کے پانی کی مانند ساکت ہو جاتا ہے تو اس کی سطح پہ ان تورات اور خیالات کے خاکے ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں جو لاشعور سے نشر ہو رہے ہوتے ہیں۔
اس قسم کی کسی بھی مشق کے دوران کوئی پر تکلف اہتمام کرنے اور نہ کسی لمبے چوڑے سازو سامان کی ضرورت پڑتی ہے۔ ضرورت ہوتی ہے تو ایک پر خلوص خواہش اور ارادے کی ۔ اگر اساتذہ کرام ایک وقت مقرر کرکے بیس تا تیس منٹ اس قسم کی کوئی مشق کرنا اپنا معمول بنا لیں تو نہ صرف یہ کہ اُن کی اپنی ذہنی سکت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا بلکہ وہ اپنے فرائض منصبی کو بھی زیادہ بہتر اور احسن طریقے پر سرانجام دے سکیں گے۔ آنے والی نسلوں کی راہنمائی کا پیغمبری کام کرنے کیلئے خود کو تیار تو کرنا ہی ہوگا۔
کہا جاتا ہے کہ انسانی دماغ میں دو کھرب خلیے ہوتے ہیں اور ہر خلیہ کسی نہ کسی ایک حس یا صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔ عام انسان جو شعوری سطح پہ زندگی گزارتا ہے  ان دو کھرب خلیوں میں سے ساری زندگی فقط سو ڈیڑھ سو خلیوں کا ہی استعمال کر پاتا ہے۔ جن لوگوں کو ہم جینیئس گردانتے ہیں وہ بھی ان میں سے صرف دو، سوا دو سو خلیے ہی استعمال کرنے پہ قادر ہو پاتے ہیں۔ اس بات سے اس امر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انسانی ذہن کی صلاحیتوں کا کتنا بڑا ذخیرہ استعمال میں آئے بغیر ضائع ہو جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس خدا داد ذخیرے کو جس قدر ممکن ہوسکے اپنے استعمال میں لانے کی کوشش اور جدوجہد کرتے رہیں۔ وہ لوگ جو اپنے اندر خفتہ صلاحیتوں کا کھوج لگا کر اُن کو اپنے اور بنی نوع انسان کے کام لانے پہ کمر بستہ ہو جاتے ہیں اگر زیادہ نہیں اور فقط لاکھ، دس لاکھ یا کروڑ ڈیڑھ کروڑ خلیوں کو ہی کام میں لانا سیکھ لیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے انسان سے جس نے زندگی میں کل ڈیڑھ، دو سو خلیوں کا استعمال ہی کرنا سیکھا ہو، کس قدر زیادہ قابلیت اور اہلیت کا حامل ہو سکتا ہے۔
اب رہی بات کہ ہم اپنے دماغی خلیوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو کس طرح بروئے کار لا سکتے ہیں اور اپنی  خفتہ صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ  کس طرح بیدار کرسکتے ہیں تو اس کا طریقہ سوائے غور و فکر اور سوچ بچار کی عادت کو پختہ اور راسخ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اگر سوچ بچار  شعوری کیفیات کو ابھار دے تو اس سے دماغ کی گہرائی میں واقع خلیوں کو بھی کام کرنے کا موقع ملتا ہے اور انسان عام سطح سے کہیں زیادہ خلیوں  کے استعمال پر قادر ہو جاتا ہے۔ اس بات میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہو سکتا کہ نت نئی ایجادات اور دریافتوں کا سہرا صرف انہی لوگوں کے  سر بندھتا رہا ہے جنہوں نے غور و فکر اور سوچ بچار کی عادت کو اپنائے رکھا۔
تاریخ میں ایسی  مثالوں کی کمی نہیں ہے جن سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچائی جاسکتی ہے کہ غور و فکر کرنے کے خو گر افراد نے کس طرح لایخل  مسلوں کا حل دریافت کیا اور نوعِ انسانی کی ترقی اور ذہنی ارتقاء میں اپنا کردار ادا کیا لیکن ایک بہت ہی منفرد مثال اُس مفکر کی ہے جس نے نوعِ انسانی کو نا معلوم مقداروں کو معلوم کرنے کا طریقہ سکھایا۔ محمد بن موسیٰ الخوارزمی نوعِ انسانی کا ایک ایسا منفرد اور ممتاز فرد تھا جس نے علم کی ایک مکمل شاخ اکیلے اور تن تنہا دریافت کی۔ علم کی کسی بھی برانچ یا کسی بھی مضمون کا جائزہ لے کر دیکھ لیں وہ ایک دو نہیں دس بیس بلکہ سینکڑوں ہزاروں افراد کی دماغ سوزی، کاوش فکر اور کوششوں کے یک جا ہونے سے وجود میں آیا ہوتا ہے لیکن الجبرا ریاضی کی وہ برانچ ہے جو محمد بن موسیٰ الخوارزمی کے اکیلے ذہن کی پیداوار ہے۔ اُس نے کسی بھی نامعلوم مقدار کو معلوم کرنے کا ایک ایسا کلیہ دریافت کیا جس کو آج کی تمام تر ترقی کی بنیاد قرار دیا جاسکتا ہے۔ آج سائنس اپنی معراج کے جس بھی مقام پر ہے وہ اسی دریافت کے سبب ہے جو ایک بہت ہی گہری سوچ رکھنے والے بندے نے کی تھی۔ اُس نے اتنی گہری سوچ اور اتنا عمیق تفکر کہاں سے سیکھا؟
کہا جاتا ہے کہ ایک شخص نے الخوارزمی  کے علم کو آزمانے کو اس سے کہا کہ تم اتنے بڑے عالم ہونے کا دعویٰ کرتے ہو ذرا یہ تو بتاؤ کہ میری جیب میں کتنے سکے ہیں؟َ الخوارزمی نے اس سے کہا میں اس طرح کا علم تو نہیں رکھتا جس طرح کا تم سمجھے ہو لیکن پھر بھی اگر تم کوئی اشارہ دو تو میں ضرور بتا  دوں گا۔ اس پر اُس شخص نے کہا کہ میرے پاس جو سکے ہیں اگر ان کو اسی تعداد سے ضرب دے کر اُن کا دو چند اُن میں جمع کر دیا جائے تو وہ اصل کے دس گنا ہو جائیں گے۔ الخوارزمی نے ہاتھ میں پکڑے عصا سے زمین پر کچھ لکیریں لگائیں کچھ خانے بنائے اور کہا تمہارے کہنے کے مو جب تمہاری جیب میں کل آٹھ سکے ہیں۔
اب وہ لوگ جو الجبرا کی جان کاری رکھتے ہیں، جان سکتے ہیں کہ درحقیقت الخوارزمی نے  (Quadratic Equation)  یعنی دو درجی مساوات کا کلیہ استعمال کیا ہوگا۔ لیکن کیا اُس وقت کوئی دو درجی مساوات کا استعمال جانتا تھا اور الخوارزمی نے اُس سے سیکھا تھا؟ تو ایسا ویسا  کچھ نہیں تھا۔ الخوارزمی نے اُس وقت اس مسلئے کو مصری علم  ہندسہ اور یونان کے مشہور فلسفی کے دریافت کردہ مسئلہ فیثا  غورث کی مدد سے حل کیا تھا اور پھر بعد میں وہ جبر و مقابلہ  نامی کتاب لکھ کر ریاضی میں الجبرا نام کی علم کی ایک منفرد، مکمل اور مفید شاخ آنے والی نسلوں کے استفادے کے لئے چھوڑ گی۔ اس کتاب سے مغربی دنیا نے کتنا استعفادہ کی اور مشرق دنیا نے اُس نابغہ روزگار کی کیا گت بنائی، اِس بات پہ تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سوال اپنی جگہ رہا جاتا ہے کہ اس نے اتنا علم کہاں سے سیکھا؟ اس سوال کے بہت سے ممکنہ جواب ہو سکتے ہیں۔ ان بہت سے جوابوں میں سے ایک یہ بھی ہونا چاہئے کہ قرآن جیسے نصاب کے تحت تعلیم پانے کے سبب اس کے اندر غور و فکر کا ایک  ایسا پیٹرن بن گیا تھا کہ جب اُس سے ایک نامعلوم مقدار کو تلاش کرنے کی فرمائش کی گئی تو اس کا ذہن گہرائی میں اتر تا چلا گیا اور اس نے نہ صرف یہ کہ دریافت کئے گئے سوال کا جواب دے دیا بلکہ دوسروں کے استفادے کے لئے اور انہیں نا معلوم مقداروں تک پہنچنے کا ایک کلیہ اور فارمولہ بھی وضع کر دیا۔ اس کلیے ہی کی طفیل جب سائنس دانوں نے ہر نامعلوم مقدار کو معلوم کرنا شروع کیا تو وہ اس قابل ہوگئے کہ انہوں نے انسان کو اٹھا خلا میں پہنچا دیا۔

آج ہم ترقی یا فتہ قوموں کی تقلید پر مجبور ہیں کیونکہ ہم نے تحقیق اور ریسرچ سے منہ ہی نہیں موڑا بلکہ دامن بھی چھڑایا ہوا ہے اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم نے تفکر ، غور و فکر اور سوچ بچار کے دروازے خود اپنے  ہاتھوں  خود پہ بند کئے ہوئے ہیں۔ ہم غور و فکر سے اس لئے گھبراتے ہیں کہ ہمارے بڑے ہمیں اس کام سے صریح الفاظ میں منع کرتے ہیں اور یہ کہ کر ڈراتے ہیں کہ زیادہ سوچنے سے دماغ خراب ہو جاتا ہے، انسان پاگل ہو جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں تو سوچ سوچ کر پاگل ہونا روز مرہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں یہ روش بدلنا ہی  ہوگی۔ نقالی اور تقلید کرنے میں کتنی بھی آسان اور سہل لگے، اس کا انجام انسان کی ذلت اور اہانت کے سوا اور کچھ نہیں ہوا کرتا۔ یہ عمل انفرادی ہو تو بھی گوارا نہیں ہو سکتا چہ جائے کہ یہ اجتماعی صورت میں اپنا لیا جائے۔ اس صورت حال سے چھٹکارے کا صرف ایک ہی طریقہ بنتا ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پہ سوچ بچار اور غور و فکر کی عادت کو فروغ دیں۔

معاشرتی رویّے

معاشرتی رویّے
جب بھی کوئی صاحب بیرونِ ملک جاتے ہیں اور خصوصاً کسی مغربی ملک تو سب سے زیادہ وہ جس بات سے متاثر ہوتے ہیں، وہ اُن ممالک کے لوگوں کی قانون پسندی اور اُن کے معاشرتی رویوں کا بہت ہی گہرا تاثر لیتے ہیں اور اکثر اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں ہم ویسے کیوں نہیں ہیں؟ وہ اصول پسندی، احترامِ انسانیت، سچ بولنا، قانون کی پاسداری اور قانون کا ڈر اُس کے خوف کی بجائے قانون کے احترام کا جذبے کے تحت ، صفائی، سلیقہ اور ایک معاشرتی نظم و ضبط جیسی باتیں ہم میں کیوں پیدا نہیں ہوسکیں؟
ان سب باتوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو تان یہاں آکر توڑ دی جاتی ہے کہ یہ سب باتیں انہوں نے اسلام  کے زریں اصولوں سے اخذ کی ہیں۔ یہ سن کر ہم سب  اس سے آگے سوچنا بند کر دیتے ہیں اور اس فخر کا شکار ہو کر بے سدھ ہو جاتے ہیں کہ کچھ بھی ہو وہ ہیں تو ہم سے کمتر کہ انہوں نے سب کچھ ہم سے ہی تو سیکھا ہے۔ لیکن جب غیر جانبداری اور خلوصِ نیت سے اس بات کا تجزیہ کیا جائے کہ اس لفظ 'ہم' سے کیا مراد ہے، تو یہ دیکھ کر بہت عجیب سا لگتا ہے کہ اس سے مراد ہمارے وہ آباؤ اجداد  جنہوں نے کبھی اسلام کے زریں اصولوں کو اپنا کر تحقیق اور ریسرچ کا ایسا علم بلند لیا تھا کہ پوری دنیا کو رنگوں  کر لیا تھا۔ اسلام کے اصولوں کی جس کسی نے جب بھی کبھی پاسداری کی وہ سرخ رو ہوا۔ آج ہم محض اسلام کے نام لیوا تو ضرور ہیں لیکن اس کے عامل نہیں۔ اسلام کے اصول آفاقی سچائیوں کے حامل ہیں۔ جس کسی نے بھی ان پر عمل کیا چاہے اسلام کے اصولوں سے  پہلو تہی اور اجتناب کی روشن اپنائی وہ دوسروں کا دستِ نگر اور باجگز  اربن کر ہی زندہ رہ سکا۔
اسلام کی تعلیمات کو اپنی محدود سوچوں، بے عملی کی بڑھی ہوئی حد اور اپنے کام سے کام رکھنے کی بجائے ایک دوسرے کی کاٹ میں قوت اور وقت کا زیان کرنے کی عادت بد کے ہاتھوں ہم نے کتابوں میں مقید اور محبوس  کرکے کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا ہے۔ یہ تین بنیادی کمزور یاں ہیں جو ہمارے معاشرتی رویوں کی پوری دیوار کو ٹیڑھا کئے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنی سوچوں کو محدود طرزوں سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں، زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی کام کو فوقیت دینا سیکھ جائیں اور دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے اور بے مقصد نکتہ چینی کے بجائے ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کو اپنا چلن بنالیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے معاشرتی رویے درست نہ ہوسکیں۔
معاشرتی رویوں کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ ہم سے ہر ایک ان تین باتوں کو اپنے اندر پختہ اور راسخ کرلے اور اپنی پوری توانائی اس امر کو یقینی بنانے  میں صرف کرے کہ ہم اپنی سوچوں کو محدود نہیں رہنے دیں گے، اپنی توانائی کو مثبت طرزوں میں صرف کرنے کو شعار بنائیں گے اور غیبت اور نکتہ چینی کی بجائے اگر ہو سکا تو کوئی مفید مشورہ دے دیں گے ورنہ خاموش رہنے کی مشق کر بڑھائیں گے۔
اب یہ کہ دینے سے کہ ہم سب کو ایسا کرنا چاہئے، ایسا ہونے سے تو رہا۔  ایسا ویسا تب ہی ہوسکتا ہے جب اس پر عمل پیرا ہو جائے۔ استقامت اور ثابت قدمی سے ان باتوں کو اپنانے کی راہ پر گامزن رہا جائے۔ انتہائی نا مساعد حالات میں بھی اپنے عمل کو ترک نہ کی جائے تو تب کہیں جا کر یہ ممکن ہوگا  کہ ان باتوں کے مثبت اثرات ہمارے معاشرتی رویوں میں نظر آنا شروع ہو جائیں۔ ورنہ تو یہ خواب ہے اور اس کو عملی صورت دینے کی محض خواہش ہی کافی نہیں ہوسکتی اس کے لئے ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانا ہی ہوگی۔
ہمارا نظامِ تعلیم اور درس گاہیں اس ضمن میں جو کردار ادا کرسکتے ہیں وہ بہت مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ اساتذہ کرام اپنے شاگردوں کے اندر ان باتوں کو پختہ کرنے کی ابتدا کرسکتے ہیں۔ وہ اُن میں اس بات کا شعور اجاگر کریں، درس گاہ اور کلاس روم میں نظم و ضبط اور ڈسپلن کو فروغ دیں اور انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لائیں۔ اب کہنے اور سننے میں تو یہ بات بہت ہی خوش کن محسوس ہوتی ہے لیکن اس کو اساتذہ کرام عملی طور پر کیسے کریں گے؟ بنیادی طور پر تو یہ بات خود اساتذہ کرام ہی کے طے کرنے کی ہے کہ وہ اس کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں اور بعض اداروں کے اساتذہ تو ایسا کر بھی رہے ہیں۔ اب ایچی سن کالج، کا کول ملٹری اکیڈمی اور سول سروسز کے تربیتی اداروں کے فارغ التحصیل طلباء  کے معاشرتی رویے عام سکولوں اور کالجوں کے سٹوڈنٹس سے اسی لئے  تو اتنے مختلف ہوتے ہیں کہ وہاں پہ اساتذہ اس بات کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں کہ اُن کے یہاں تعلیم پانے والے ان باتوں سے آگاہ رہیں جن پہ آگے جا کر اُن کو کار بند رہنا چاہئے ۔ آخر وہ بھی تو اساتذہ ہی ہیں اور پھر اسی ملک کے اساتذہ۔
فرق ہے تو صرف اتنا کہ اُن اساتذہ کو ان اداروں کی انتظامیہ کی طرف سے جیسا کرنے کی ہدایات ملتی ہیں وہ ویسا ہی کرتے ہیں اور دوسرے اداروں کی انتظامیہ ان باتوں پہ زیادہ دھیان نہیں دیتی لہٰذہ وہاں پہ ان باتوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس لئے یہ سکولوں کی انتظامیہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کرام سے اس بات کی فرمائش کرے کہ وہ اپنے شاگردوں میں ان باتوں کا شعور اجاگر کرنے پہ  مناسب توجہ دیں۔
ان باتوں کا آغاز عملاً اُس وقت ہی ہو جاتا ہے جب ایک استاذ پہلی بار کلا س روم میں داخل ہوتا ہے ۔ بچے اس پہلی ملاقات پہ ہی یہ بات طے کر لیتے ہیں کہ اس استاذ کے ساتھ اُن کا آئندہ برتاؤ کیسا ہوگا اور وہ خود کو کس حد تک اُس کے حوالے کرنے پر آمادہ ہیں۔ وہ سمجھدار استاذ جن کو اپنے کام پر عبور حاصل ہوتا ہے اس موقعے کا پورا فائدہ اٹھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے ۔ وہ اپنا تعارف کروانے کے بعد براہ راست کتاب نکال کر پڑھانے کی بجائے اس بات کی وضاحت کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے تلامذہ سے کن کن باتوں کو توقع کرتے ہیں؟ پڑھانے کے لئے وہ کیسا ماحول چاہتے ہیں؟ اس ماحول کو بنانے میں انہیں اپنے طلباء سے کیا کیا تعاون درکار ہیں۔
اگر ایک استاذ سبق کا آغاز کرنے سے پہلے پانچ دس منٹ ایسی چند ایک باتوں کی وضاحت کر دے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہوتا ہے کہ بچے سبق کے لئے ذہنی طور پر آمادہ و تیار ہو جاتے ہیں اور انہیں یہ اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ یہ استاذ مزاجاً کس طبیعت کا ہے۔
اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کا ایک انداز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ استاذ طلباء سے صاف صاف کہ دے۔ "ایک استاذ ہونے کے ناطے میرا فرض ہے کہ میں اپنے شاگردون کی مدد کروں، اُن کو جو بات سمجھنے میں مشکل ہو اُس کو سمجھنے میں میں اُن کی مدد کروں۔ میں آپ کو پڑھانا تو سکھا سکتا ہوں لیکن پڑھنا تو خود آپ ہی کو ہوگا۔ اس لکھنا پڑھنے سیکھنے کے لئے ایک خاص قسم کے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ وہ ماحول کلاس کے اندر بنائے رکھیں گے تو آپ کو لکھنا پڑھنا سیکھنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوگی۔ جب آپ لکھنا پڑھنا سیکھ جائیں گے تو آپ ان کتب کا مطالعہ کریں گے۔ ان میں درج باتوں کو سمجھیں گے، اُن کو یاد کریں گے۔ پھر ہم آپ کو امتحان کے لئے تیاری کروائیں گے تاکہ آپ اچھے نمبروں سے امتیازی شان سے امتحان  میں کامیاب ہوسکیں۔ اس کے لئے آپ کو مجھ سے یہ عہد کرنا ہوگا کہ جو کچھ میں آپ سے کہوں گا آپ اُس پر خلوصِ دل سے عمل کریں گے اگر آپ کو اُس پر عمل پیرا ہونے میں کوئی دشواری ہو تو بلا جھجک مجھ سے پوچھیں گے۔ ہاں اس پوچھنے کو بھی ایک طریقہ ہونا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ سب ہی ایک ساتھ پوچھنا شروع کردیں۔ اس سے تو کلاس میں شور مچ جائے گا اور میں کسی کی بات بھی سن نہیں سکوں گا۔ اس لئے بھئی پہلا قانون یہ طے کر لیتے ہیں کہ جس نے کچھ پوچھنا ہو وہ ہاتھ کھڑا کرے گا اور اجازت  ملنے پر ہی بولے گا۔ کیوں بھئی ٹھیک ہے نا؟
اسی ماحول کو بنانے کے لئے ایک بہت ہی کار آمد بات یہ ہے کہ جب آپ کلاس میں بیٹھے ہوں تو کرسی  پہ اسی طرح بیٹھیں کہ آپ کی کمر سیدھی رہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ دیر تک بیٹھ کر کام کرنے کے باوجود تھکیں گے نہیں۔ کمر کو سیدھا رکھیں لیکن اس کو زیادہ اکڑانا بھی ٹھیک نہیں۔ جب چلیں تو کندھے ڈھلکے ہوئے نہیں ہونے چاہئیں اور پاؤں گھسیٹ کر تو بالکل بھی نہیں چلنا چاہئے۔ کرسی پہ  بیٹھے ہوں تو آپ کے گھنٹے آپ کے اپنے سامنے رہنے بہت ضروری ہیں کیونکہ میں کلاس میں ادھر اُدھر چلتے پھرتے آپ کے پیروں سے ٹکرایا تو یہ بہت بُرا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ مجھے چوٹ لگ جائے۔
سوال ضرور پوچھی۔ سوال پوچھنے میں شرم نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن سوال پوچھنے کا سلیقہ ہونا بہت ہی ضروری ہے۔ باری باری پوچھیں۔ ذاتی مسائل کے حل تو آپ مجھ سے کلاس کے بعد سٹاف روم میں آکر بھی پوچھ  سکتے ہیں۔ اب تک میں نے جو کچھ کہا اس کی مزید وضاحت کی کوئی ضرورت ہے یا میں آگے چلوں؟"
اس طرح جب استاذ یہ واضح کر دیتا ہے کہ وہ بچوں کے مسائل کو حل کرنے وہاں آیا ہے اور یہ کام وہ خوش مزاجی سے کر سکتا ہے تو بچے اُس کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ تیار ہو جاتے ہیں اور استاذ کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ بچوں کو کلاس میں ڈسپلن کی عادت پڑتی ہے اور رفتہ رفتہ نظم  و ضبط   ان کی عادت بنتا چلا جاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب تک اساتذہ کرام اس بات کو اپنے اندر راسخ نہیں کرلیتے کہ وہ اتنا ہی کہیں جس پر وہ  عمل کرا سکیں اور جتنا کہیں اس پر عمل کروانے کی پوری  کوشش کریں، تو اس وقت تک ایسی ویسی کسی بھی بات کا کچھ بھی مطلب نہیں نکل سکتا۔ یہ محض ایک ایسی ہی بات بن کر رہ جائے گی جس کو بچے ایک کان سے سن کر دوسرے سے اُڑا  دیا کرتے ہیں۔
جب بچے میں خود سپردگی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو اُس وقت استاذ اُس کے معاشرتی رویوں میں بہتری لانے کی بات تجویز کرسکتا ہے۔ لیکن جب تک بچے میں تسلیم و رضا کے جذبات ابھر نہیں آتے اس وقت تک ہوتا یہ ہے کہ اساتذہ کرام بچے کے ذہن میں ڈالتے ہیں کہ جھوٹ نہیں بولنا اور بچہ جب گھر جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کے ارد گرد  اکثر لوگ جھوٹ بولنے کو بُرا تو  کجانا روا بھی نہیں سمجھتے تو وہ الجھ کر رہ جاتا ہے اور اپنے ذہن میں ٹھان لیتا ہے کہ یہ سب منافقت کے شاخسانے ہیں ۔ اب اگر اس کو اپنے استاذ سے ذہنی ہم آہنگی ہو تو اس موضوع پر اُس سے کھل کر بات کر لے گا۔ جب بات کرے گا و استاذ اس کے ذہن کی الجھن یہ کہ کر رفع کرسکتا ہے کہ بھئی جھوٹ تو جھوٹ ہی ہے چاہئے سب ہی اسی روش پہ چلیں لیکن اگر صداقت  اور سچائی کو اپنایا ہی نہیں جائے گا تو بھلا اس کے فوائد کیسے حاصل ہو سکیں گے۔ اب حضورﷺ بھی تو ایک ایسے معاشرے میں حق و صداقت پہ قائم ہوگئے تھے جہاں سب ہی جھوٹ اور کفر بولتے تھے۔ جب اس قدر جھوٹے معاشرے نے انہیں ان کی سچائی کی بدولت صادق اور امین کے خطاب دے دیئے تو اس بات پہ بہت غور ہونا چاہئے کہ حضورﷺ کو لوگوں نے تکلیفیں سچ بولنے پر دی تھیں یا اس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ سچ بولنے پہ تو اُن کو کفار تک نے صادق اور امین ہی کہا تھا۔ وہ تو جب انہوں نے اللہ کے حکم کے مطابق ان کو ایک خدا کی پرستش اور اس  کے ساتھ کسی کو شریک نہ  کرنے کا کہا تو اُن کو لگا کہ حضورﷺ کی بات ماننے سے اُن کی چودھراہٹ ختم  ہو  جائے گی اس لئے انہوں نے پہلے تو انہیں لالچ دیئے لیکن جب حضورﷺ اپنی بات پہ ڈٹے رہے تو وہ اُن کے دشمن بن گئے۔ دیکھو بھئی میں تمہیں ایک راز  کی بات بتاؤں ۔ دراصل جھوٹ بولنے سے اور تو کچھ ہوتا ہے یا  نہیں لیکن اس سے انسان کے اندر ذخیرہ شدہ توانائی بہت ضائع ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر نبی اور ہر پیغمبر نے جھوٹ بولنے سے منع ہی فرمایا ہے۔
اس طرح جب عقلی دلائل کے ساتھ بات بچوں کو سمجھائی جاتی ہے تو اُس بات پہ قائم ہونے میں انہیں زیادہ وقت نہیں ہوتی۔ اور اگر کسی استاذ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ اساتذہ کیسا معاشرتی انقلاب لا سکتے ہیں۔ اساتذہ کرام کو اپنے معمار قوم ہونے کا مطلب سمجھنا ہی ہوگا ورنہ تو زمانہ قیامت کی چال چل ہی رہا ہے۔



امتحانی نظام

امتحانی نظام
درس و تدریس کے نظام میں یہ دیکھنے کے لئے کہ تعلیم پانے والوں نے اپنے اساتذہ سے کیا کچھ سیکھا ہے، اُن کا امتحان لیا جاتا ہے۔ امتحان لینے کے یوں تو کئی طریقے ہیں، لیکن معروف طریقہ یہی بن چکا ہے کہ طالب علم سے اس کی قابلیت جانچنے کے لئے کچھ سوال پوچھے جاتے ہیں۔ یہ سوال جواب زبانی بھی پوچھے جاسکتے ہیں اور تحریری طور پر بھی۔ اس کے علاوہ ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ شاگرد کو کوئی کام کرنے کو کہا جاتا ہے اور اُس اسائنمنٹ کی تکمیل پر یہ جانچا جاتا ہے کہ اُس نے وہ کام کیسے اور کس معیار کا کیا ہے۔ عام طور پر یہ طریقہ خاص خاص فنون جیسے میڈیکل یا انجنیئرنگ جیسے علوم میں زیادہ آزمایا جاتا ہے۔ اُن سوالوں سے جو امتحان میں پوچھے جاتے ہیں، اس بات کا بہت گہرا تعلق ہے کہ ہم کیا جانچنا چاہتے ہیں۔
اگر بچے کی یاداشت کو جانچنا ہو تو ایک قسم کے سوال پوچھے جاتے ہیں اور اگر یہ دیکھنا ہو کہ بچے کو بتائی گئی بات کی کتنی سمجھ آئی ہے اور ا س کے ذہن نے بتائی گئی بات کو کتنا اور کیسا جذب کیا ہے، تو دوسری قسم کے سوال پوچھ جاتے ہیں اور اگر یہ دیکھنا ہو کہ بچے کا ذہن کتنا کام کرتا ہے اور وہ اپنی بات کو کس حد تک منطقی دلائل سے ثابت کر سکتا ہے یا یہ کہ وہ کسی غیر متوقع صورت حال کا سامنا کرنے کی کتنی اہلیت رکھتا ہے تو ایک تیسری ہی قسم کا سوال پوچھا جاتا ضروری ہو جاتا ہے۔ یعنی پوچھے گئے سوال کا مقصد ہمارے امتحانی نظام کے معیار کا براہ راست تعلق ان پوچھے جانے والے سوالوں کی کوالٹی سے بنتا ہے۔ دوسری چیز جو امتحان کے معیار کی ضامن بنتی ہے ، وہ ہے ان سوالوں کے جوابات کو جانچنے کا طریقہ اور انداز۔ اگر یہ جانچنا ژرف نگاہی اور غیر جانبداری سے ہو تو بچوں کی قابلیت کو درست انداز سے جانچا جاسکتا ہے لیکن اگر کوئی عدیم  الفرصت صاحب  اس کو بیگار جان کر بے دلی سے کر رہے ہوں تو یہ جانچ کاری درست نتائج کی حامل نہیں ہوسکتی۔ علاوہ دیگر مضمرات کے اس کے نتیجے میں طلباء میں اضطراب پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے۔
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ بچے امتحان سے بہت گھبراتے ہیں۔ یہ کہنا کہ امتحان سے گھبراہٹ ہونا ایک فطری امر ہے، کسی حد تک تو درست ہوسکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس گھبراہٹ کی بہت سی اور وجوہات بھی ہوا کرتی ہیں۔ اُن میں سے سب سے بڑی وجہ تو یہی ہوتی ہے کہ بچہ امتحان کے لئے پوری طرح تیار نہیں ہوتا۔ اب اُس کی تیاری میں کیا اور کتنی کمی ہوتی ہے، اس بات کو جانچنا اور اُس کمی کو پورا کروانے کی ذمہ داری تو اساتذہ کرام ہی کے سر جاتی ہے لیکن اس کمی کو پورا کرنا تو بہر حال طلباء کا ہی فرض بنتا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے اور کروانے میں اساتذہ کو کیا کیا اقدامات لینے چاہئیں اور طلباء کو کیسے تیاری کرنی چاہئے، اس کا بھر پور جائزہ لینا  بہت ضروری ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ طلباء اور اساتذہ  اس کام پر آمادہ ہوں۔ جب تک طلباء پہ امتحان کی غرض و  غائیت  واضح کئے بغیر امتحان دلوائے جاتے رہیں گے وہ گائیڈز، خلاصے اور گیس پیپرز کا ہی سہارا لیتے رہیں گے۔ اور جب تک طلباء خود میں امتحان کا درست شعور اجاگر نہیں کر پائیں گے، وہ مجبوراً نقل ، میل ملاپ، سفارش اور زور زبردستی کے طریقے اختیار کرتے رہیں گے۔
اس ضمن میں سب سے پہلا کام جو حکومت کے کرنے کا بنتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ خلاصوں، گائیڈوں اور گیس پیپرز کی طباعت اور اشاعت پر کڑی پابندی عائد کر دے۔ دوسرا کام جو اس کے بس میں ہے اور اُس ہی کے کرنے سے ہوگا وہ یہ کہ اساتذہ کرام کو بچوں کو امتحان کی تیاری کروانے کی تیکنیک سیکھانے کے لئے خصوصی پروگرامز مثلاً شارٹ کورسز اور تربیتی ورکشاپ  کا اہتمام کیا جائے۔ کتابیں پڑھانا اور امتحان کی تیاری کروانا دو بالکل الگ نوعیت کے کام ہیں اور یہ سمجھنا کہ محض ایک دو بار کتاب پڑھا دینے سے بچہ امتحان دینا بھی سیکھ جائے گا تو یہ ایک لحاظ سے ک فہمی ہی ہو سکتی ہے۔
جب تک حکومت تعلیمی بورڈوں کے ذریعے اس کام کو آغاز نہیں کر  پاتی اُس وقت تک اس صورت حال کو بہتر کرنے کے لئے سکولوں اور کالجوں کی انتظامیہ اس قسم کے پروگرام خود مقامی سطح پر کر سکتی ہے۔ اس کے نہ کرنے سے جو نقصان ہو رہا ہے،  اُس کا تذکرہ کرنے سے بہتر ہے کہ اس کام سے ہونے والے سب سے بڑے فائدے کی بات کی جائے۔ سب سے بڑا فائدہ یہی ہوگا کہ بچوں کا رزلٹ سچ مچ بہتر ہوتا چلا جائے گا اور انہیں ناجائز امتحانی ذرائع بھی اختیار نہیں کرنا پڑیں گے۔
ہمارے موجودہ نظام میں امتحان دینا اس لئے ایک تیکنیک کا درجہ اختیار کر گیا  ہے کیونکہ امتحان لینے والوں نے امتحانی سوالوں کی تیاری اور اُن کی جانچ کاری کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ اُس سانچے اور پیٹرن کو سمجھے بغیر امتحان دینے بیٹھ جانے کا انجام یہی ہوتا ہے کہ بہت سے بچے تو بچے اُن کے والدین اور اساتذہ بھی یہی کہتے ملتے ہیں کہ بچہ یوں تو بہت لائق تھا، نہ جانے اس کو کیا ہوا کہ وہ امتحان میں اتنے اچھے نمبر ہیں آسکے۔ اور پھر اُس کے بعد امتحانی مراکز اور بورڈوں کی اندرونی حالتِ زار پہ تبصرے کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس بات کا کھوج لگانے کی ضرورت تھی کہ آخر وہ کیا کمی رہ گئی تھی کہ ایک لائق بچہ بھی امتحان میں حسبِ دلخواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔
کتاب پڑھ لینے، اُس کو سمجھ لینے اور اُس کے مندرجات کو یاد کرلینے کے بعد اگر اُس کتاب کی بابت کوئی بات دیافت کی جائے تو اُس کو زبانی طور پر بیان کرنا اتنا دشوار نہیں ہوا کرتا جتنا اُس کو لکھ کر بیان کرنا دشوار محسوس  ہوتا ہے۔ اس لئے پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنے کی مشق ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لکھنے کی مشق کروانے کے لئے  اساتذہ  کو چاہئے کہ وہ بچوں کو خوشخطی اور تیز رفتاری سے لکھنے کی عادت کو پختہ کروائیں۔ یہ کام اساتذہ کی مسلسل نگرانی اور اعانت کے بغیر ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اساتذہ کو اس سمت میں اپنا کردار بھرپور انداز میں انجام دینا ہی ہوگا۔
جب بچوں کو کتاب پڑھا دی جائے تو امتحان کی مشق کے نکتہ نظر سے بچوں کو بار بار ٹیسٹ دیا جائے۔ اس طرح سے اساتذہ اپنے بچوں سے اُن کے کلاس روم بار  بار امتحان لیں۔ اُن کے لئے بورڈ کے تیار کئے جانے والے پرچوں کی طرز پر سوالوں کے پرچے مرتب کریں۔ جب بچے حل کریں تو اُن کو پرچے حل کرنے کی تیکنیک بتائیں۔ یہ بھی بتائیں کہ دیئے گئے وقت میں ہی پرچے کو مکمل حل کرنے کے لئے وقت کو مطلوبہ سوالوں پہ کس طرح تقسیم کرنا چاہئے۔ ایک جواب کو کم سے کم کتنا اور زیادہ سے زیادہ کتنا لکھنا چاہئے۔ پرچوں میں لکھنے سے پہلے کاغذ کے دونوں طرف حاشیے لگانا کتنا ضروری ہے۔ نفسِ مضمون میں موجود نکات کو سرخیوں  اور ذیلی سرخیوں سے کیسے ابھارا جاتا ہے۔ اساتذہ بچوں کو اس پہ قائل کریں کہ تحریر کو لاگا تار لکھنے کی بجائے ہر ایک دو پیرا گرافس کے بعد  ایک آدھ سرخی لگانے سے تحریر کس طرح سج جاتی ہے۔ سرخیوں سے نکات واضح کر دینے سے ممتحن کو کیا سہولت رہتی ہے اور اس سے زیادہ نمبر کیوں ملتے ہیں۔
جب اساتذہ کرام پرچوں میں محض نمبر لگانے کی بجائے بچوں کے حل کئے ہوئے پرچوں میں موجود غلطیوں کی نشاندہی کریں گے کریں گے اور اس بات پہ اصرار کریں گے کہ آئندہ یہ غلطیاں دہرائی نہیں جانی چاہیں تو بچوں کو اس بات کی عملی طور پر آگاہی حاصل ہوگی کہ امتحانی پرچوں کو حل کرنے میں کیا کیا باتیں ضروری ہیں۔ تجربہ شاہد ہے کہ ان خطوط پر تیاری کرنے والے بچے امتحانوں میں نمایاں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔
اس طرح سے تیاری کروانے کا ایک مزید فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بچوں کو تین گھنٹوں تک لگا تار لکھنے کی مشق ہوتی ہے اور جب امتحان کے وقت انہیں لگاتار تین گھنٹے لکھنا پڑنا ہے تو ایسا کرنے میں انہیں کوئی وقت ہیں ہوتی۔ ورنہ تو امتحان گاہ میں یہ منظر ہر نگر ان کے مشاہدے میں رہتا ہے کہ اکثر بچے اِدھر اُدھر تانک جھانک کرنے اور لکھنے میں مصروف نظر آنے کی ایکٹنگ ہی کرتے رہتے ہیں۔
ممتحن حضرات کا پرچوں کو جانچنے کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟ اگر اساتذہ کرام بچوں کو اس کی بابت بتائیں تو اس سے بچوں  میں اپنے پرچے کو ممتحن کے نکتہ نظر سے پیس کرنے میں سہولت پیدا ہوسکتی ہے۔ ممتحن حضرات جب ایک پرچے کو ہاتھ میں لیتے ہیں تو اُن کا تجربہ ایسا ذہن بنا چکا ہوتا ہے کہ وہ یا تو پرچے میں موجود خوبیوں کے نمبر لگاتے ہیں یا پھر خامیوں اور کمی کے نمبر کاٹنے کی پالیسی اپنا کر نمبر لگاتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ کوئی بھی یہ اندازہ تو ر نہیں سکتا کہ اُس کا ممتحن اُس کے پرچے کی خوبیوں کو زیادہ سرا ہے گا یا  اُس کی خامیوں پہ پکڑ زیادہ کرے گا۔ اس لئے اساتذہ کرام کو چاہئے کہ وہ بچوں پہ یہ امر بالکل واضح فرما دیں کہ ان دونوں ہی صورتوں سے عہدہ برآ ہونے کی بہترین حکمت عملی یہی بنتی ہے  کہ وہ اپنے پرچے میں پوچھے گئے سوال کے جواب کو بہترین انداز میں پیش کرنے کی مشق اور مزید مشق کرتے رہیں اور اس مشق کے لئے جیسے تیسے بھی بن پرے وقت نکالیں۔
اساتذہ کرام بچوں کو اس امر پہ قائل کرنے کو کہ  انہیں محنت کرکے امتحان  دینا سیکھنا چاہئے اس قسم کی دلیل دے سکتے ہیں کہ صرف اس ہی طرح وہ نقل اور دیگر ناجائز ذرائع پہ کسی بھی قسم کا کوئی انحصار کرنے کی سوچ کو ترک کر سکتے ہیں۔ اساتذہ کرام بچوں کو یہ دلائل دے کر تبھی قائل کرسکتے ہیں جب خود اُن کو پوری طرح واضح ہو کہ انہوں نے کیا کرنا ہے اور پانے بچوں سے کیا کروانا ہے۔ کیونکہ اس نصیحت کا کوئی بھی اثر وہ تبھی لیں گے جب انہیں کلاس روم میں پوری تن دہی اور توجہ سے محنت کرنا پڑ ے گی ورنہ تو اُن کی فطرت کا وہ رخ ہی زیادہ متحرک رہے گا جو تن آسانی اور سہل پسندی کو اُن کے لئے پر کشش بنا کر دکھاتا ہے۔ اساتذہ کرام ہر ہر قدم پہ اُن کے اس رحجان پہ نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بچوں کی توجہ زیادہ سے زیادہ اس امر کی طرف مبذول رہے کہ انہوں نے محنت کرکے اپنی اُن کمی کو پورا کرنا جس کی نشاندہی اُن کے اساتذہ نے کی ہے۔

علاوہ اور باتوں کے اس سے یہ بھی ہوتا ہے پورے سکول میں ایک خاص ماحول بن سکتا ہے۔ بچے اُس ماحول میں آکر خود بخود اُس کے زیرِ اثر آتے چلے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو محنت کرتے دیکھتے ہیں تو اُن میں بھی یہ شوق پیدا ہوتا کہ وہ بھی کچھ کریں۔ اگر بچہ کچھ ایسا کرنے پر آمادہ ہوگیا جس سے اُس کا اپنا بھلا ہو سکتا ہو تو ایک استاذ اور ماں باپ کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔

نصابی سرگرمیاں

نصابی سرگرمیاں
درس و تدریس کی بات ہو تو نصابِ تعلیم اور اس نصاب سے متعلق سرگرمیوں کا ذکر کئے بغیر بات مکمل نہیں ہوسکتی۔ دیکھا جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ محض مقررہ نصاب کی تکمیل کو ہی ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی مقصد بنا دیا گیا ہے۔ درسگاہیں امتحانات میں کامیاب ہونے والے طلباء کی شرح کا صد فی صد ہونے اور کورس اور نصاب کا وقت مقررہ پہ ختم ہونے کو اپنی ایک بڑی کامیابی قرار دیتی  اور اُس کی تشہیر کرتی ہیں۔ امتحان میں کامیاب نہ ہو سکنے والے طلباء اپنی نا کامی کی ایک بڑی وجہ اسی بات کو قرار دیتے ہیں کہ ہمارے سکول یا کالج میں اس دفعہ کورس مکمل نہیں ہو سکا۔ ایسے طلباء ایک اور بات کا بھی بہت تذکرہ کرتے ہیں کہ اس دفعہ تو پرچے 'بالکل ہی آوٹ آف کورس' تھے۔ امتحان کے دوران اکثر اس بات پہ بہت لے دے بھی ہو جاتی ہے کہ پرچے میں پوچھے گئے  سوال تو ہم کو کبھی پڑھائے ہی نہیں گئے اس لئے ہم اس کا جواب بھلا کیسے دے سکتے ہیں۔ بعض اوقات تو بات اتنی بڑھا دی جاتی ہے کہ اخبارات و رسائل میں بھی اُس کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔
نصاب تعلیم کے حوالے سے اکثر اس بات کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے کہ ہمارا تدریسی نصاب وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ دورِ جدید کے علوم  کا احاطہ نہیں کرتا۔ اس میں وہی پرانی اور گھسی پٹی باتیں شامل رکھی جا رہی ہیں۔ اُدھر دوسری طرف نصاب مقرر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم اُن کی اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی نئی بات شامل نصاب کرتے ہیں تو تب یہ ہا ہا کار مچتی ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اس مضمون کی بھلا کیا ضرورت تھی؟ ہماری معاشرتی قدروں پر اس کے اثرات اچھے نہیں ہوں گے اور نہ جانے کیا کچھ کہ دیا جاتا  ہے۔ ان حالات میں جب کچھ کیا جائے تب بھی بُرے بنے اور نہ کیا جائے تو تب بھی بُرا بننا پڑتا ہو، تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔
اگر ہم ان سب باتوں کا  ایک سر سری سا جائزہ بھی لیں تو پہلی بات تو یہ سامنے آتی ہے کہ چونکہ نصاب کی تیاری حکومت نے اپنے ذمے  لے رکھی ہے اس لئے وہ اس میں اپنی ترجیحات اور مصلحتوں کو پیشِ نظر رکھتی ہے۔ حالانکہ ہے کہ حکومت یہ کہتی ہے کہ پورے ملک کو ایک نصاب دینے اور درس گاہوں کے علمی معیار کی یکسانی کی خاطر اس کو یہ ذمہ داری اپنے سر لینا پڑی ہے اور اس نصاب کہ کوئی اور نہیں بلکہ خود  اساتذہ ہی تیار کرتے اور ٹیکسٹ بکس  بورڈ تو فقط اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ایک سا نصاب پورے ملک کی درسگاہوں میں دستیاب کر دیا جائے۔
کچھ لوگ اس ضمن میں ایک اور زاویہ نظر بھی رکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ نصاب کے حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ یکسانی نصاب کے چکر میں بچے کے انفرادی افتاد طبع، میلانِ طبعیت اور رحجان ذوق کی بات بالکل ہی نظر انداز ہوجاتی ہے۔ ملک بھر کے بچے، جن میں ذہین اور فطین بچوں سے لے کر کند ذہن اور غبی قسم کے تمام ہی بچے شامل ہیں، جب ایک ہی نصابی کتاب پڑھیں گے تو سب اس سے یکساں فائدہ کیسے اور کیونکر اُٹھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر جبکہ کسی بھی دو بچوں کی دلچسپیاں اور شوق مختلف ہی نہیں بلکہ بعض اوقات تو بالکل ہی متضاد ہوتے ہیں۔
غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ تمام درس گاہوں کا علمی معیار یکساں ہو، خواہش کی حد تک تو یہ بات بہت ہی اچھی ہے لیکن کیا ایسا ہونا واقعی ممکن بھی ہو سکتا ہے یا نہیں؟ محض یکساں نصاب تیار کر دینے سے کیا تمام بچوں کے سیکھنے کی اہلیت بھی یکساں ہوسکتی ہے؟ کیا ہر استاذ اُس نصاب کو یکساں قابلیت سے پڑھا بھی سکتا ہے یا نہیں؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کی انفرادی شخصیت، اُن کے سیکھنے کی اہلیت، ان کی دلچسپیوں کا تنوع اور اساتذہ کی قابلیت کا مختلف ہونا، ایسے حقائق ہیں جن کو نظر انداز کرتے ہوئے محض نصاب کو سب کے لئے یکساں بنا دینے سے درسگاہوں کا علمی معیار کبھی بھی نہ تو یکساں ہو سکتا ہے اور نہ ہی بہتر۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ درس و تدریس کے لئے جو نصاب طے کیا جاتا ہے اُس میں چند ایک ایسی باتوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے جو طلباء اور اساتذہ دونوں کو تدریسی عمل کے لئے ایک اسی راہ کو فراہم کرنے میں مدد گار ثابت ہوں جس راہ پر اساتذہ اپنے تلامذہ کو لے کر قدم قدم آگے بڑھ سکیں۔ یعنی نصابِ تعلیم علم کی راہ کا تعین کرنا ہوتا ہے لیکن ہمارے یہاں اساتذہ اور طلباء دونوں نے اسی کو منزل قرار دیا ہوا ہے۔
نصابِ تعلیم کو اگر راہِ علم کے طور پر لیا جائے تو جو کچھ تعلیمی ماہرین طے کر دیتے ہیں، قابل اور اہل اساتذہ اپنے شاگردوں کو اسی راہ پر چلا کر بھی علم کی منزل تک پہنچا سکتے ہیں لیکن جب راہ گز رکو ہی منزل مان لیا تو پھر قدم کیوں کر آگے اور کونسی منزل کی طرف بڑھیں گے اور آخر کیوں بڑھیں گے؟ نصاب مرتب کرنے والے شاید اس بات کا مکمل ادراک رکھتے ہیں تبھی تو وہ نصابی کتب کے دیبا چوں میں یہ بات واشگاف لکھ دیتے ہیں کہ ہم نے جو کرنا تھا اور جو کچھ ہم  کرسکتے تھے ہم نے اپنی بساط کے مطابق کر دیا ہے اب باقی کام اساتذہ کرام کا ہے کہ وہ کلاسوں میں اپنے شاگردوں کو اس بات سے آگاہ کریں کہ یہ نصاب اس مضمون کے علم پہ حرفِ آخر نہیں ہے یہ تو محض ایک دریچہ ہے، ایک نشانِ راہ ہے، علم کی منزل نہیں ہے۔ منزل تک پہنچنے کے لئے مسافر کو خود ہی قدم بڑھانا ہوتے ہیں۔ کبھی کسی نے منزل کی طرف اشارہ کرکے راہنمائی کر دی یا قدم لینا سکھا دیا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ آپ منزلِ مراد تک بنا قدم اٹھائے ہی پہنچ سکیں گے۔ ایسا نہ تو کبھی ہوا ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ لیکن کتنے لوگ ہیں جو ذوقِ مطالعہ سے اس حد تک آراستہ ہیں کہ درسی کتب کا دیباچہ تک اُن کے مطالعہ کی زد سے نہیں بچتا۔ عام مشاہدہ تو یہی ہے کہ لوگ درسی کتب کے صرف وہی ابواب پڑھنا گوارا کرتے ہیں جو امتحانی نکتہ نظر سے اہم ہوں۔ اس  وقت اس ملک میں شاید ہی کوئی ایسا قسمت استاذ ہو جس کے تلامذہ اُس سے امتحان کے دنوں میں Guess  نہ مانگتے ہوں۔
نصاب تعلیم میں جن چند تبدیلیوں کی حقیقتاً ضرورت ہے وہ یہ ہیں کہ ہر درجے کی اگر تمام نہیں تو چند ایک لازمی مضامین کی کتب میں ایسی مشقیں شامل کر دی جائیں جن پر عمل کرنے سے طلباء کی ذہنی سکت، شعور کی استعدادِ کار اور یکسوئی میں اضافہ ہو سکے۔ اور ان مشقوں پر عمل کروانے کا ایسا اہتمام ہو کہ بچے کا شعور زیادہ مزاحمت نہ کر سکے۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ کتنی ہی مفید بات کیوں نہ ہو، اگر انسان کے شعور میں وہ کوئی جگہ نہ بنا سکے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کرتا، بلکہ اکثر شعور کی مزاحمت کے باعث وہ الٹا نقصان کا موجب بن جاتی ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ ہر درس گاہ میں ہر روز، ہر جماعت کے طلباء کو وہ مشق اجتماعی طور پر کروائی جائے بالکل اسی طرح جس طرح پی ٹی کروائی جاتی ہے۔ اجتماعی طور پر کام کرنے اور کروانے سے شعور کی مزاحمت کم ہوجاتی ہے۔ یہ بات تو اور بھی بہتر ہوگی کہ اگر ہر درس گاہ میں یہ اہتمام کر دیا جائے کہ تمام بچوں کو پندرہ بیس منٹ کی یہ مشقیں اسکول یا کالج کے اوقات میں اجتماعی طور پر کروا دی جائیں۔
اس قسم کی مشقوں کی ضرورت اور اہمیت اب اس لئے بھی بہت بڑھ گئی ہے کہ آج ہمیں جس دھماکہ خیز اطلاعاتی دھارے، 'بلاسٹ آف انفارمیشن' کا سامنا ہے، اس نے ہمارے اندر ایک ہیجانی کیفیت ہی پیدا نہیں کی بلکہ ہمیں ہر طرح کے انتشار کا شکار بنا دیا  ہے۔ اس منتشر الخیالی اور انتشار فکر کو روکنے اور اپنے ذہنوں میں یکسوئی اور ارتکاز توجہ پیدا کرنے کی ضرورت اور اہمیت سے تو اب بچے بھی انکار نہیں کر سکتے۔
اسی طرح دیکھا جائے تو امتحانی پرچے حل کرنے کے لئے جو تین گھنٹوں کا وقت مقرر کیا گیا ہے کیا وہ اسی مفروضے کے تحت نہیں کیا گیا کہ سب بچے ایک سی اہلیت، ایک سی قابلیت اور ایک ہی رفتار سے سوچنے اور لکھنے پر قادر ہیں۔ اس بات کا ا س بھی عجیب پہلو یہ ہے کہ پورا سال تو بچوں کو کبھی بٹھا کر ہم اُن سے لگا تار تین چار گھنٹے لکھنے کی مشق تو کرواتے نہیں اور سمجھتے ہیں کہ امتحان کے وقت بچے خود ہی کچھ کر لیں گے۔ اب بچے جو کچھ کرتے ہیں وہ تو یہ ہے کہ امتحان کے فو بیا کا شکار  ہو کر اعصابی مریض بن رہے ہیں اور یا پھر بوٹی مافیا کا رکن بننے کے چکر میں عقل کا پورا استعمال کرکے نقل کے نت نئے اور جدید طریقے وضع کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اُن کی محدود عقل اُن کو یہی آسان اور مختصر راستہ سُجھاتی ہے۔ اگر ہم نے اُن کو ذہنی طور پر یکسو ہونا اور دماغ کو موضوع پہ مرتکز کرنا سکھانے کے ساتھ ساتھ اُن کو تین گھنٹے لگا تار لکھنے کی سکت کا حامل بنا دیا ہوتا تو نہ تو وہ کسی فوبیے کا اور نہ ہی کسی مافیا کا شکار ہوتے۔
اکثر طلباء اور اساتذہ اس ضمن میں شاید یہ دلیل دیں کہ سکول یا کالج میں کوئی مشق لگا تار تین گھنٹے تک کروانا کیسے ممکن ہوسکتا ہے  جب کہ ایک پیرڈ پینتالیس یا چالیس منٹ سے زیادہ کا نہیں ہوتا اور پھر یہ تو بچوں کے لئے بہت ہی مشکل ہو جائے گا کہ کل پانچ چھ گھنٹوں کی پڑھائی  میں سے جن میں اتنے بہت  سے مضامین پڑھائے جانے ہوتے ہیں اب یہ مزید تین گھنٹے کہاں سے لائے جائیں ؟ اس بات کا ایک جواب تو یہ بنتا ہے کہ جب آپ پورے سال کی پڑھائی کا امتحان ایک ہی پرچے میں لگاتار تین گھنٹے لکھوا کر لینا کیوں ضروری سمجھتے ہیں؟ کیا اس سے بچوں کو مشکل نہیں ہوتی؟ جب بچے اس مشکل کو محنت کرکے آسان کرسکتے ہیں تو ہم اُن کو ان تین گھنٹوں کی اس آزمائش میں کامیاب کروانے کے لئے اُن کو زیادہ نہیں تو تین گھنٹوں کی مشق کیوں نہیں کروا سکتے؟ اس حوالے سے اگر یہ سوچ لیا جائے کہ ایک باکسر، پہلو ان یا کسی کھیل کا کوئی کھلاڑی جب کسی مقابلے میں حصہ لیتا ہے تو اُس مقابلے کے لئے تیاری میں صرف ہونے والا وقت اُس مقابلے کے دورانیے سے کئی گنا زیادہ نہیں ہوتا؟ اُس وقت تو یہ کہا جاتا ہے کہ کھلاڑی کا اسٹیمنا تب تک بن ہی نہیں سکتا جب تک وہ آدھے پونے گھنٹے کے کھیل کے لئے ہر روز کئی کئی گھنٹے ورزش اور اس کھیل کی مختلف انداز سے مشق کرنے میں صرف نہ کرے۔
اسی طرح اگر امتحان کے پرچوں کے دورانیے کے برابر وقت تک لکھنے کا اسٹیمنا پیدا کرنا ہوتا امتحان کے لئے تیاری کی خاطر کم از کم انتی ہی دیر تک لکھنے کی مشق کروانا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس پر ہو سکتا ہے کہ یہ کہا جائے کہ سارا دن بچے سکول میں لکھنا پڑھنا ہی تو کرتے ہیں اب اُن کو الگ سے اس مشق کی بھلا کی ضرورت رہ  جاتی  ہے؟ اسکی بابت اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ تین گھنٹوں میں چار پیریڈ میں چار اساتذہ سے مختلف مضامین پڑھنا، ان کی بابت اساتذہ سے وضاحتیں کروانا اور پوری یکسوئی سے لگا تار تین گھنٹے ایک مضمون کی بابت سوچنے اور لکھنے میں جو فرق ہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے کسی خاص جمع تفریق کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ دونوں صورتیں ایک نہیں ہو سکتیں اور نہ ہی یہ ایک ہیں۔
اس لئے اب اس تمام صورت حال کو درست کرنے کا جو درست طریقہ ہے اُس کو اپنانا چاہئے۔ درست طریقہ تو یہی ہے کہ ہم بچوں کی ذہنی سکت، یکسوئی اور ارتکازِ خیال میں اضافہ کرنے کا اہتمام کرنے کو اپنے نصابِ تعلیم کا ایک مناسب حد تک جزو بنا دیں۔ اس اہتمام کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ماہرین نفسیات کے مشورے سے مختلف درجات کے طلباء کے لئے ایسی مشقیں تجویز کی جائیں جن پر عمل کرنے سے بچوں کے ذہنوں کا تزکیہ بھی ہوتا رہے اور کتھارسس بھی۔ ان مشقوں پہ عمل درآمد ہوگا تو  بچوں میں یکسوئی پیدا ہوگی اور وہ اپنے خیالات کو ایک نکتے پر مرتکز رکھنا بھی سیکھ جائیں گے۔ ذہنی یکسوئی اور ارتکاز کی صلاحیت بڑھنے کے ساتھ ساتھ اُن کی سکت بھی بڑھے گی، علمی استعداد میں بھی اضافہ ہوگا اور قوت کار میں بھی ترقی ہو گا اور ان سب سے بڑھ کر یہ ہوگا کہ  وہ سوچنا، سمجھنا اور غور و فکر کرنا بھی سیکھ جائیں گے۔ جب کسی فرد کو غور و فکر کرنا آجائے تو اس کی سوچوں میں گہرائی پیدا ہونے لگتی ہے۔ افکار میں گہرائی اور جامعیت ہو تو تب ہی شخصیت اور کردار بنتے ہیں۔ یعنی یہ سب ایک کڑی در کڑی عمل کی طرح ہوتا چلا جاتا ہے۔
موجودہ صورت احوال کچھ یوں ہے کہ اگر ہم اس زاویے سے اپنے نصابِ تعلیم کا جائزہ لیں کہ اس وقت ہمارے نصاب میں اس کری در کڑی عمل کو آغاز دینے کا کتنا اور کیا کچھ اہتمام کیا گیا ہے تو یہ دیکھ کر اپنی تہی دامنی پہ رونا آتا ہے کہ ہم نے یہ لکھ کر کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے، لالچ بُری بلا ہے، غرور کا  سر نیچا ہوتا ہے، اور اس طرح کی بہت سی اچھی باتوں کو نصاب میں شامل کرکے یہ سمجھ لیا کہ محض اتنا لکھ دینے سے جھوٹ، لالچ اور غرور جیسی گہری جڑیں رکھنے والی بیماریوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہم  یہ نہیں کہتے کہ ان مضامین کو نصاب میں شامل نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ کہنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ کیا محض چند مضامین شامل درس کرکے یہ سمجھنا کہ ہمارا فرض پورا ہوگیا، درست رویہ ہے؟ شخصیت میں بہتر تبدیلی تبھی لائی جاسکتی ہے جب اس کے لئے باقاعدہ اہتمام کیا جائے۔
نصابی سرگرمیوں سے محض خواندہ بنانے کی کوششیں ہرگز بھی مراد نہیں لی جانی چاہئے۔ خواندگی کو مطالعہ کی سیڑھی بنا کر علم میں اضافہ کرنے کی راہ ہموار کرنے کے علاوہ تعمیر و تنظیم شخصیت اور کردار سازی کے لئے عملی اقدامات کئے بغیر نہ نصاب مکمل ہوسکتا ہے اور نہ ہی تعلیم و تربیت۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے نصاب کو ان خطوط پہ استوار کریں جن سے ان مقاصد کا حصول ممکن ہوسکے جو نظامِ تعلیم کے حقیقی مقاصد ہوتے ہیں۔
یہاں اس بات کو بیان کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ نصاب تعلیم خواہ کتنا ہی ارفع اور اعلیٰ کیوں نہ ہو اگر اس پہ عمل درآمد درست اور صحیح انداز میں نہیں  ہوگا تو دلخواہ نتائج کا حصول خام خیالی کے سوا اور کچھ نہیں کہلا سکتا۔ قرآن حکیم سے بڑھ کر اور کونسا دستور العمل اور نصاب ہوگا لیکن جب اُس پر عمل نہیں کیا گیا اور نہ ہی کیا جا رہا ہے تو پھر ہم آخر اور کیا چاہتے ہیں؟ اللہ نے ایک دستور العمل دے کر ہم پر واجب کر دیا کہ ہم اس پر عمل پیرا ہو ں، خود غور کرنا سیکھیں اور اپنے اندر اُتر کر اُس علم تک رسائی حاصل کر لیں جس کی بابت یہ ارشاد ہوا ہے کہ یہ وہ علم ہے جو اللہ براہ راست اپنی رحمت سے اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے۔
اس علم کو علمائے باطن علم لُدنی کے نام سے جانتے ہیں۔ اسی علم کے جاننے والا ایک بندہ  پلک جھپکنے سے بھی کم وقت میں ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمانؑ کے دربار میں حاضر کرکے اپنے شرف کا ثبوت دیتا ہے اور نوعِ اجنہ پہ اپنی برتری عملی طور پر ثابت کر دیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اللہ نے مسجود ملائک کیا ہے۔ ای سبب سے انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اب اگر انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ ملائکہ جنہوں نے اُس کو سجدہ کیا تھا اب اس کے کہنے کو نہیں مانیں گے تو یہ درست نہ ہوگا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ اس انسان کو کہنا مانتے ہیں جو اپنے علم میں اتنا بڑھا ہوا ہوتا کہ وہ اُن کو نہ صرف یہ کہ دیکھ بھی رہا ہوتا ہے بلکہ اُن سے گفتگو بھی کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اُن سے تبھی مخاطب ہوا جاسکتا ہے جب وہ نظر آ رہے ہوں۔ اگر وہ نظر ہی نہیں آرہے تو نہ تو اُن سے مخاطب ہوا جاسکتا ہے اور نہ ہی اُن سے اپنی بات منوائی جاسکتی ہے۔ علم لُدنی کا حامل فرد ہی ایسا بندہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنی نیابت سے سرفراز کیا کرتے ہیں۔
اِن سب باتوں کو اللہ نے حضورؐ کے ذریعے قرآن حکیم میں بیان کر دیا ہے۔ اَن تمام باتوں کو سمجھنے کی واحد شرط جو خود اللہ نے طے کر دی ہے  وہ اس الہامی کتاب کے مندرجات  پہ  غور و فکر کرنا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم دنیا میں ترقی کریں اور اقوام عالم میں معزز اور ممتاز ہو جائیں تو ہمیں نہ صرف اُن باتوں کو سمجھنا ہوگا جو اللہ نے ممتاز اور معزز ہونے کے لئے ضروری قرار دے دی ہیں بلکہ اُن پہ عمل پیرا بھی ہونا پڑے گا۔ آج اقوام مغرب انہی باتوں پہ محض جزوی طور پر عمل کرکے اپنی دھاک بٹھائے ہوئے ہیں تو ہم ان باتوں پہ پوری طرح سے عمل کرکے معزز اور کیوں نہیں ہوسکتے؟ یہ نہیں ہے کہ ہم ایسا کرنا نہیں چاہتے ۔ ہم سب چاہتے  تو یہی ہیں لیکن کر اِس لئے نہیں پا رہے کہ ہم نے اصل بات کو درست طور پر سمجھا نہیں ہے ۔ کسی بھی بات کو عملی جامہ تبھی پہنایا جاسکتا ہے جب اُس کو اُس کی جزئیات سمیت پوری وضاحت کے ساتھ سمجھ لیا جائے۔
سمجھنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ نوعِ انسانی کو خالقِ کائنات کا دیا ہوا  نصاب یعنی ' قرآن کو ہمارا نصاب ہونا چاہئے تھا یا نہیں؟ ہم نے کیا کیا ؟  ہم نے اپنے نصاب کو اجزائے قرآن سے سجانے کی بجائے قرآن حکیم کو اپنے نصاب کا جزو تو بنا لیا لیکن وہ بھی اس طرح سے کہ  نہ کسی سکول، نہ کسی کالج اور، حد تو یہ ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی کے مطابق، نہ ہی کسی دینی مدرسے میں قرآن فہمی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اب جا کر کہیں اتنا تو ہونا شروع ہوا ہے کہ چند آیات قرآن فہمی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اب جا کر کہیں اتنا تو ہونا شروع ہوا ہے کہ چند آیات قرآنی  کو با ترجمہ پڑھانے کو جزوِ نصاب بنا دیا گیا ہے۔ لیکن وہ بھی چونکہ محض خانہ پوری  کے انداز میں کیا گیا ہے اس لئے اساتذہ کرام بھی اُس میں واجبی سی دلچسپی لے کر حجت تمام کر رہے ہیں۔
بات کو درست طور پر سمجھنے کے لئے ذہن کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ ذہن کی تیاری تبھی ممکن ہوسکتی ہے جب اس بات کو کچھ وقعت دی جائے اور اس کا کچھ اہتمام بھی کیا جائے۔ محض چند کتب میں سے کچھ منتخب حصوں کورٹ  کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کی توقع رکھنے والوں کا وہی حشر ہوا کرتا ہے جو اس وقت ہمارا ہو چکا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ذہن فہم وا دراک سے آراستہ ہوں تو اس کے لئے ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے انسان کے اندر تجسس کی فطری صلاحیت ابھرے، اُس کے اندر نا معلوم کرنے کا جذبہ بیدار ہو، وہ حقائق کو دریافت کرنے کے لئے آمادہ اور کمر بستہ رہے۔ جب تجسس کی حرکت کو مناسب راہ ملتی ہے تو ذہن میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ ذہن کی گہرائی انسان کو اپنے معاملات کی درست فہم میں مددگار ہو جاتی ہے اور جب معاملات کی درست تفہیم ہو تو انسان کو تو موت بھی پریشان نہیں کرسکتی چہ جائیکہ کوئی عام سا مسئلہ بے چینی اور اضطراب کا سبب بن سکے۔


Featured Post

Adiala Jail's monitoring is strict, meetings are limited, 3 members of the party will be allowed to meet Pakistan Tehreek-e-Insaf founder Imran Khan, Naeem Panjotha, Khalid Shafiq and Naseeruddin Nair.

Adiala Jail's monitoring is strict, meetings are limited, 3 members of the party will be allowed to meet Pakistan Tehreek-e-Insaf founde...