نصابی سرگرمیاں

نصابی سرگرمیاں
درس و تدریس کی بات ہو تو نصابِ تعلیم اور اس نصاب سے متعلق سرگرمیوں کا ذکر کئے بغیر بات مکمل نہیں ہوسکتی۔ دیکھا جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ محض مقررہ نصاب کی تکمیل کو ہی ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی مقصد بنا دیا گیا ہے۔ درسگاہیں امتحانات میں کامیاب ہونے والے طلباء کی شرح کا صد فی صد ہونے اور کورس اور نصاب کا وقت مقررہ پہ ختم ہونے کو اپنی ایک بڑی کامیابی قرار دیتی  اور اُس کی تشہیر کرتی ہیں۔ امتحان میں کامیاب نہ ہو سکنے والے طلباء اپنی نا کامی کی ایک بڑی وجہ اسی بات کو قرار دیتے ہیں کہ ہمارے سکول یا کالج میں اس دفعہ کورس مکمل نہیں ہو سکا۔ ایسے طلباء ایک اور بات کا بھی بہت تذکرہ کرتے ہیں کہ اس دفعہ تو پرچے 'بالکل ہی آوٹ آف کورس' تھے۔ امتحان کے دوران اکثر اس بات پہ بہت لے دے بھی ہو جاتی ہے کہ پرچے میں پوچھے گئے  سوال تو ہم کو کبھی پڑھائے ہی نہیں گئے اس لئے ہم اس کا جواب بھلا کیسے دے سکتے ہیں۔ بعض اوقات تو بات اتنی بڑھا دی جاتی ہے کہ اخبارات و رسائل میں بھی اُس کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔
نصاب تعلیم کے حوالے سے اکثر اس بات کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے کہ ہمارا تدریسی نصاب وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ دورِ جدید کے علوم  کا احاطہ نہیں کرتا۔ اس میں وہی پرانی اور گھسی پٹی باتیں شامل رکھی جا رہی ہیں۔ اُدھر دوسری طرف نصاب مقرر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم اُن کی اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی نئی بات شامل نصاب کرتے ہیں تو تب یہ ہا ہا کار مچتی ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اس مضمون کی بھلا کیا ضرورت تھی؟ ہماری معاشرتی قدروں پر اس کے اثرات اچھے نہیں ہوں گے اور نہ جانے کیا کچھ کہ دیا جاتا  ہے۔ ان حالات میں جب کچھ کیا جائے تب بھی بُرے بنے اور نہ کیا جائے تو تب بھی بُرا بننا پڑتا ہو، تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔
اگر ہم ان سب باتوں کا  ایک سر سری سا جائزہ بھی لیں تو پہلی بات تو یہ سامنے آتی ہے کہ چونکہ نصاب کی تیاری حکومت نے اپنے ذمے  لے رکھی ہے اس لئے وہ اس میں اپنی ترجیحات اور مصلحتوں کو پیشِ نظر رکھتی ہے۔ حالانکہ ہے کہ حکومت یہ کہتی ہے کہ پورے ملک کو ایک نصاب دینے اور درس گاہوں کے علمی معیار کی یکسانی کی خاطر اس کو یہ ذمہ داری اپنے سر لینا پڑی ہے اور اس نصاب کہ کوئی اور نہیں بلکہ خود  اساتذہ ہی تیار کرتے اور ٹیکسٹ بکس  بورڈ تو فقط اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ایک سا نصاب پورے ملک کی درسگاہوں میں دستیاب کر دیا جائے۔
کچھ لوگ اس ضمن میں ایک اور زاویہ نظر بھی رکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ نصاب کے حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ یکسانی نصاب کے چکر میں بچے کے انفرادی افتاد طبع، میلانِ طبعیت اور رحجان ذوق کی بات بالکل ہی نظر انداز ہوجاتی ہے۔ ملک بھر کے بچے، جن میں ذہین اور فطین بچوں سے لے کر کند ذہن اور غبی قسم کے تمام ہی بچے شامل ہیں، جب ایک ہی نصابی کتاب پڑھیں گے تو سب اس سے یکساں فائدہ کیسے اور کیونکر اُٹھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر جبکہ کسی بھی دو بچوں کی دلچسپیاں اور شوق مختلف ہی نہیں بلکہ بعض اوقات تو بالکل ہی متضاد ہوتے ہیں۔
غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ تمام درس گاہوں کا علمی معیار یکساں ہو، خواہش کی حد تک تو یہ بات بہت ہی اچھی ہے لیکن کیا ایسا ہونا واقعی ممکن بھی ہو سکتا ہے یا نہیں؟ محض یکساں نصاب تیار کر دینے سے کیا تمام بچوں کے سیکھنے کی اہلیت بھی یکساں ہوسکتی ہے؟ کیا ہر استاذ اُس نصاب کو یکساں قابلیت سے پڑھا بھی سکتا ہے یا نہیں؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کی انفرادی شخصیت، اُن کے سیکھنے کی اہلیت، ان کی دلچسپیوں کا تنوع اور اساتذہ کی قابلیت کا مختلف ہونا، ایسے حقائق ہیں جن کو نظر انداز کرتے ہوئے محض نصاب کو سب کے لئے یکساں بنا دینے سے درسگاہوں کا علمی معیار کبھی بھی نہ تو یکساں ہو سکتا ہے اور نہ ہی بہتر۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ درس و تدریس کے لئے جو نصاب طے کیا جاتا ہے اُس میں چند ایک ایسی باتوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے جو طلباء اور اساتذہ دونوں کو تدریسی عمل کے لئے ایک اسی راہ کو فراہم کرنے میں مدد گار ثابت ہوں جس راہ پر اساتذہ اپنے تلامذہ کو لے کر قدم قدم آگے بڑھ سکیں۔ یعنی نصابِ تعلیم علم کی راہ کا تعین کرنا ہوتا ہے لیکن ہمارے یہاں اساتذہ اور طلباء دونوں نے اسی کو منزل قرار دیا ہوا ہے۔
نصابِ تعلیم کو اگر راہِ علم کے طور پر لیا جائے تو جو کچھ تعلیمی ماہرین طے کر دیتے ہیں، قابل اور اہل اساتذہ اپنے شاگردوں کو اسی راہ پر چلا کر بھی علم کی منزل تک پہنچا سکتے ہیں لیکن جب راہ گز رکو ہی منزل مان لیا تو پھر قدم کیوں کر آگے اور کونسی منزل کی طرف بڑھیں گے اور آخر کیوں بڑھیں گے؟ نصاب مرتب کرنے والے شاید اس بات کا مکمل ادراک رکھتے ہیں تبھی تو وہ نصابی کتب کے دیبا چوں میں یہ بات واشگاف لکھ دیتے ہیں کہ ہم نے جو کرنا تھا اور جو کچھ ہم  کرسکتے تھے ہم نے اپنی بساط کے مطابق کر دیا ہے اب باقی کام اساتذہ کرام کا ہے کہ وہ کلاسوں میں اپنے شاگردوں کو اس بات سے آگاہ کریں کہ یہ نصاب اس مضمون کے علم پہ حرفِ آخر نہیں ہے یہ تو محض ایک دریچہ ہے، ایک نشانِ راہ ہے، علم کی منزل نہیں ہے۔ منزل تک پہنچنے کے لئے مسافر کو خود ہی قدم بڑھانا ہوتے ہیں۔ کبھی کسی نے منزل کی طرف اشارہ کرکے راہنمائی کر دی یا قدم لینا سکھا دیا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ آپ منزلِ مراد تک بنا قدم اٹھائے ہی پہنچ سکیں گے۔ ایسا نہ تو کبھی ہوا ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ لیکن کتنے لوگ ہیں جو ذوقِ مطالعہ سے اس حد تک آراستہ ہیں کہ درسی کتب کا دیباچہ تک اُن کے مطالعہ کی زد سے نہیں بچتا۔ عام مشاہدہ تو یہی ہے کہ لوگ درسی کتب کے صرف وہی ابواب پڑھنا گوارا کرتے ہیں جو امتحانی نکتہ نظر سے اہم ہوں۔ اس  وقت اس ملک میں شاید ہی کوئی ایسا قسمت استاذ ہو جس کے تلامذہ اُس سے امتحان کے دنوں میں Guess  نہ مانگتے ہوں۔
نصاب تعلیم میں جن چند تبدیلیوں کی حقیقتاً ضرورت ہے وہ یہ ہیں کہ ہر درجے کی اگر تمام نہیں تو چند ایک لازمی مضامین کی کتب میں ایسی مشقیں شامل کر دی جائیں جن پر عمل کرنے سے طلباء کی ذہنی سکت، شعور کی استعدادِ کار اور یکسوئی میں اضافہ ہو سکے۔ اور ان مشقوں پر عمل کروانے کا ایسا اہتمام ہو کہ بچے کا شعور زیادہ مزاحمت نہ کر سکے۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ کتنی ہی مفید بات کیوں نہ ہو، اگر انسان کے شعور میں وہ کوئی جگہ نہ بنا سکے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کرتا، بلکہ اکثر شعور کی مزاحمت کے باعث وہ الٹا نقصان کا موجب بن جاتی ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ ہر درس گاہ میں ہر روز، ہر جماعت کے طلباء کو وہ مشق اجتماعی طور پر کروائی جائے بالکل اسی طرح جس طرح پی ٹی کروائی جاتی ہے۔ اجتماعی طور پر کام کرنے اور کروانے سے شعور کی مزاحمت کم ہوجاتی ہے۔ یہ بات تو اور بھی بہتر ہوگی کہ اگر ہر درس گاہ میں یہ اہتمام کر دیا جائے کہ تمام بچوں کو پندرہ بیس منٹ کی یہ مشقیں اسکول یا کالج کے اوقات میں اجتماعی طور پر کروا دی جائیں۔
اس قسم کی مشقوں کی ضرورت اور اہمیت اب اس لئے بھی بہت بڑھ گئی ہے کہ آج ہمیں جس دھماکہ خیز اطلاعاتی دھارے، 'بلاسٹ آف انفارمیشن' کا سامنا ہے، اس نے ہمارے اندر ایک ہیجانی کیفیت ہی پیدا نہیں کی بلکہ ہمیں ہر طرح کے انتشار کا شکار بنا دیا  ہے۔ اس منتشر الخیالی اور انتشار فکر کو روکنے اور اپنے ذہنوں میں یکسوئی اور ارتکاز توجہ پیدا کرنے کی ضرورت اور اہمیت سے تو اب بچے بھی انکار نہیں کر سکتے۔
اسی طرح دیکھا جائے تو امتحانی پرچے حل کرنے کے لئے جو تین گھنٹوں کا وقت مقرر کیا گیا ہے کیا وہ اسی مفروضے کے تحت نہیں کیا گیا کہ سب بچے ایک سی اہلیت، ایک سی قابلیت اور ایک ہی رفتار سے سوچنے اور لکھنے پر قادر ہیں۔ اس بات کا ا س بھی عجیب پہلو یہ ہے کہ پورا سال تو بچوں کو کبھی بٹھا کر ہم اُن سے لگا تار تین چار گھنٹے لکھنے کی مشق تو کرواتے نہیں اور سمجھتے ہیں کہ امتحان کے وقت بچے خود ہی کچھ کر لیں گے۔ اب بچے جو کچھ کرتے ہیں وہ تو یہ ہے کہ امتحان کے فو بیا کا شکار  ہو کر اعصابی مریض بن رہے ہیں اور یا پھر بوٹی مافیا کا رکن بننے کے چکر میں عقل کا پورا استعمال کرکے نقل کے نت نئے اور جدید طریقے وضع کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اُن کی محدود عقل اُن کو یہی آسان اور مختصر راستہ سُجھاتی ہے۔ اگر ہم نے اُن کو ذہنی طور پر یکسو ہونا اور دماغ کو موضوع پہ مرتکز کرنا سکھانے کے ساتھ ساتھ اُن کو تین گھنٹے لگا تار لکھنے کی سکت کا حامل بنا دیا ہوتا تو نہ تو وہ کسی فوبیے کا اور نہ ہی کسی مافیا کا شکار ہوتے۔
اکثر طلباء اور اساتذہ اس ضمن میں شاید یہ دلیل دیں کہ سکول یا کالج میں کوئی مشق لگا تار تین گھنٹے تک کروانا کیسے ممکن ہوسکتا ہے  جب کہ ایک پیرڈ پینتالیس یا چالیس منٹ سے زیادہ کا نہیں ہوتا اور پھر یہ تو بچوں کے لئے بہت ہی مشکل ہو جائے گا کہ کل پانچ چھ گھنٹوں کی پڑھائی  میں سے جن میں اتنے بہت  سے مضامین پڑھائے جانے ہوتے ہیں اب یہ مزید تین گھنٹے کہاں سے لائے جائیں ؟ اس بات کا ایک جواب تو یہ بنتا ہے کہ جب آپ پورے سال کی پڑھائی کا امتحان ایک ہی پرچے میں لگاتار تین گھنٹے لکھوا کر لینا کیوں ضروری سمجھتے ہیں؟ کیا اس سے بچوں کو مشکل نہیں ہوتی؟ جب بچے اس مشکل کو محنت کرکے آسان کرسکتے ہیں تو ہم اُن کو ان تین گھنٹوں کی اس آزمائش میں کامیاب کروانے کے لئے اُن کو زیادہ نہیں تو تین گھنٹوں کی مشق کیوں نہیں کروا سکتے؟ اس حوالے سے اگر یہ سوچ لیا جائے کہ ایک باکسر، پہلو ان یا کسی کھیل کا کوئی کھلاڑی جب کسی مقابلے میں حصہ لیتا ہے تو اُس مقابلے کے لئے تیاری میں صرف ہونے والا وقت اُس مقابلے کے دورانیے سے کئی گنا زیادہ نہیں ہوتا؟ اُس وقت تو یہ کہا جاتا ہے کہ کھلاڑی کا اسٹیمنا تب تک بن ہی نہیں سکتا جب تک وہ آدھے پونے گھنٹے کے کھیل کے لئے ہر روز کئی کئی گھنٹے ورزش اور اس کھیل کی مختلف انداز سے مشق کرنے میں صرف نہ کرے۔
اسی طرح اگر امتحان کے پرچوں کے دورانیے کے برابر وقت تک لکھنے کا اسٹیمنا پیدا کرنا ہوتا امتحان کے لئے تیاری کی خاطر کم از کم انتی ہی دیر تک لکھنے کی مشق کروانا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس پر ہو سکتا ہے کہ یہ کہا جائے کہ سارا دن بچے سکول میں لکھنا پڑھنا ہی تو کرتے ہیں اب اُن کو الگ سے اس مشق کی بھلا کی ضرورت رہ  جاتی  ہے؟ اسکی بابت اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ تین گھنٹوں میں چار پیریڈ میں چار اساتذہ سے مختلف مضامین پڑھنا، ان کی بابت اساتذہ سے وضاحتیں کروانا اور پوری یکسوئی سے لگا تار تین گھنٹے ایک مضمون کی بابت سوچنے اور لکھنے میں جو فرق ہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے کسی خاص جمع تفریق کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ دونوں صورتیں ایک نہیں ہو سکتیں اور نہ ہی یہ ایک ہیں۔
اس لئے اب اس تمام صورت حال کو درست کرنے کا جو درست طریقہ ہے اُس کو اپنانا چاہئے۔ درست طریقہ تو یہی ہے کہ ہم بچوں کی ذہنی سکت، یکسوئی اور ارتکازِ خیال میں اضافہ کرنے کا اہتمام کرنے کو اپنے نصابِ تعلیم کا ایک مناسب حد تک جزو بنا دیں۔ اس اہتمام کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ماہرین نفسیات کے مشورے سے مختلف درجات کے طلباء کے لئے ایسی مشقیں تجویز کی جائیں جن پر عمل کرنے سے بچوں کے ذہنوں کا تزکیہ بھی ہوتا رہے اور کتھارسس بھی۔ ان مشقوں پہ عمل درآمد ہوگا تو  بچوں میں یکسوئی پیدا ہوگی اور وہ اپنے خیالات کو ایک نکتے پر مرتکز رکھنا بھی سیکھ جائیں گے۔ ذہنی یکسوئی اور ارتکاز کی صلاحیت بڑھنے کے ساتھ ساتھ اُن کی سکت بھی بڑھے گی، علمی استعداد میں بھی اضافہ ہوگا اور قوت کار میں بھی ترقی ہو گا اور ان سب سے بڑھ کر یہ ہوگا کہ  وہ سوچنا، سمجھنا اور غور و فکر کرنا بھی سیکھ جائیں گے۔ جب کسی فرد کو غور و فکر کرنا آجائے تو اس کی سوچوں میں گہرائی پیدا ہونے لگتی ہے۔ افکار میں گہرائی اور جامعیت ہو تو تب ہی شخصیت اور کردار بنتے ہیں۔ یعنی یہ سب ایک کڑی در کڑی عمل کی طرح ہوتا چلا جاتا ہے۔
موجودہ صورت احوال کچھ یوں ہے کہ اگر ہم اس زاویے سے اپنے نصابِ تعلیم کا جائزہ لیں کہ اس وقت ہمارے نصاب میں اس کری در کڑی عمل کو آغاز دینے کا کتنا اور کیا کچھ اہتمام کیا گیا ہے تو یہ دیکھ کر اپنی تہی دامنی پہ رونا آتا ہے کہ ہم نے یہ لکھ کر کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے، لالچ بُری بلا ہے، غرور کا  سر نیچا ہوتا ہے، اور اس طرح کی بہت سی اچھی باتوں کو نصاب میں شامل کرکے یہ سمجھ لیا کہ محض اتنا لکھ دینے سے جھوٹ، لالچ اور غرور جیسی گہری جڑیں رکھنے والی بیماریوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہم  یہ نہیں کہتے کہ ان مضامین کو نصاب میں شامل نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ کہنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ کیا محض چند مضامین شامل درس کرکے یہ سمجھنا کہ ہمارا فرض پورا ہوگیا، درست رویہ ہے؟ شخصیت میں بہتر تبدیلی تبھی لائی جاسکتی ہے جب اس کے لئے باقاعدہ اہتمام کیا جائے۔
نصابی سرگرمیوں سے محض خواندہ بنانے کی کوششیں ہرگز بھی مراد نہیں لی جانی چاہئے۔ خواندگی کو مطالعہ کی سیڑھی بنا کر علم میں اضافہ کرنے کی راہ ہموار کرنے کے علاوہ تعمیر و تنظیم شخصیت اور کردار سازی کے لئے عملی اقدامات کئے بغیر نہ نصاب مکمل ہوسکتا ہے اور نہ ہی تعلیم و تربیت۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے نصاب کو ان خطوط پہ استوار کریں جن سے ان مقاصد کا حصول ممکن ہوسکے جو نظامِ تعلیم کے حقیقی مقاصد ہوتے ہیں۔
یہاں اس بات کو بیان کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ نصاب تعلیم خواہ کتنا ہی ارفع اور اعلیٰ کیوں نہ ہو اگر اس پہ عمل درآمد درست اور صحیح انداز میں نہیں  ہوگا تو دلخواہ نتائج کا حصول خام خیالی کے سوا اور کچھ نہیں کہلا سکتا۔ قرآن حکیم سے بڑھ کر اور کونسا دستور العمل اور نصاب ہوگا لیکن جب اُس پر عمل نہیں کیا گیا اور نہ ہی کیا جا رہا ہے تو پھر ہم آخر اور کیا چاہتے ہیں؟ اللہ نے ایک دستور العمل دے کر ہم پر واجب کر دیا کہ ہم اس پر عمل پیرا ہو ں، خود غور کرنا سیکھیں اور اپنے اندر اُتر کر اُس علم تک رسائی حاصل کر لیں جس کی بابت یہ ارشاد ہوا ہے کہ یہ وہ علم ہے جو اللہ براہ راست اپنی رحمت سے اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے۔
اس علم کو علمائے باطن علم لُدنی کے نام سے جانتے ہیں۔ اسی علم کے جاننے والا ایک بندہ  پلک جھپکنے سے بھی کم وقت میں ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمانؑ کے دربار میں حاضر کرکے اپنے شرف کا ثبوت دیتا ہے اور نوعِ اجنہ پہ اپنی برتری عملی طور پر ثابت کر دیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اللہ نے مسجود ملائک کیا ہے۔ ای سبب سے انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اب اگر انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ ملائکہ جنہوں نے اُس کو سجدہ کیا تھا اب اس کے کہنے کو نہیں مانیں گے تو یہ درست نہ ہوگا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ اس انسان کو کہنا مانتے ہیں جو اپنے علم میں اتنا بڑھا ہوا ہوتا کہ وہ اُن کو نہ صرف یہ کہ دیکھ بھی رہا ہوتا ہے بلکہ اُن سے گفتگو بھی کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اُن سے تبھی مخاطب ہوا جاسکتا ہے جب وہ نظر آ رہے ہوں۔ اگر وہ نظر ہی نہیں آرہے تو نہ تو اُن سے مخاطب ہوا جاسکتا ہے اور نہ ہی اُن سے اپنی بات منوائی جاسکتی ہے۔ علم لُدنی کا حامل فرد ہی ایسا بندہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنی نیابت سے سرفراز کیا کرتے ہیں۔
اِن سب باتوں کو اللہ نے حضورؐ کے ذریعے قرآن حکیم میں بیان کر دیا ہے۔ اَن تمام باتوں کو سمجھنے کی واحد شرط جو خود اللہ نے طے کر دی ہے  وہ اس الہامی کتاب کے مندرجات  پہ  غور و فکر کرنا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم دنیا میں ترقی کریں اور اقوام عالم میں معزز اور ممتاز ہو جائیں تو ہمیں نہ صرف اُن باتوں کو سمجھنا ہوگا جو اللہ نے ممتاز اور معزز ہونے کے لئے ضروری قرار دے دی ہیں بلکہ اُن پہ عمل پیرا بھی ہونا پڑے گا۔ آج اقوام مغرب انہی باتوں پہ محض جزوی طور پر عمل کرکے اپنی دھاک بٹھائے ہوئے ہیں تو ہم ان باتوں پہ پوری طرح سے عمل کرکے معزز اور کیوں نہیں ہوسکتے؟ یہ نہیں ہے کہ ہم ایسا کرنا نہیں چاہتے ۔ ہم سب چاہتے  تو یہی ہیں لیکن کر اِس لئے نہیں پا رہے کہ ہم نے اصل بات کو درست طور پر سمجھا نہیں ہے ۔ کسی بھی بات کو عملی جامہ تبھی پہنایا جاسکتا ہے جب اُس کو اُس کی جزئیات سمیت پوری وضاحت کے ساتھ سمجھ لیا جائے۔
سمجھنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ نوعِ انسانی کو خالقِ کائنات کا دیا ہوا  نصاب یعنی ' قرآن کو ہمارا نصاب ہونا چاہئے تھا یا نہیں؟ ہم نے کیا کیا ؟  ہم نے اپنے نصاب کو اجزائے قرآن سے سجانے کی بجائے قرآن حکیم کو اپنے نصاب کا جزو تو بنا لیا لیکن وہ بھی اس طرح سے کہ  نہ کسی سکول، نہ کسی کالج اور، حد تو یہ ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی کے مطابق، نہ ہی کسی دینی مدرسے میں قرآن فہمی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اب جا کر کہیں اتنا تو ہونا شروع ہوا ہے کہ چند آیات قرآن فہمی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اب جا کر کہیں اتنا تو ہونا شروع ہوا ہے کہ چند آیات قرآنی  کو با ترجمہ پڑھانے کو جزوِ نصاب بنا دیا گیا ہے۔ لیکن وہ بھی چونکہ محض خانہ پوری  کے انداز میں کیا گیا ہے اس لئے اساتذہ کرام بھی اُس میں واجبی سی دلچسپی لے کر حجت تمام کر رہے ہیں۔
بات کو درست طور پر سمجھنے کے لئے ذہن کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ ذہن کی تیاری تبھی ممکن ہوسکتی ہے جب اس بات کو کچھ وقعت دی جائے اور اس کا کچھ اہتمام بھی کیا جائے۔ محض چند کتب میں سے کچھ منتخب حصوں کورٹ  کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کی توقع رکھنے والوں کا وہی حشر ہوا کرتا ہے جو اس وقت ہمارا ہو چکا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ذہن فہم وا دراک سے آراستہ ہوں تو اس کے لئے ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے انسان کے اندر تجسس کی فطری صلاحیت ابھرے، اُس کے اندر نا معلوم کرنے کا جذبہ بیدار ہو، وہ حقائق کو دریافت کرنے کے لئے آمادہ اور کمر بستہ رہے۔ جب تجسس کی حرکت کو مناسب راہ ملتی ہے تو ذہن میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ ذہن کی گہرائی انسان کو اپنے معاملات کی درست فہم میں مددگار ہو جاتی ہے اور جب معاملات کی درست تفہیم ہو تو انسان کو تو موت بھی پریشان نہیں کرسکتی چہ جائیکہ کوئی عام سا مسئلہ بے چینی اور اضطراب کا سبب بن سکے۔


Comments

Popular posts from this blog

GUIDANCE NEEDS AND PROBLEMS OF YOUNG PEOPLE

HISTORY OF THE GUIDANCE MOVEMENT

"Aims and Objectives of Education"