Posts

Dharamveer Singh Ashok (BSP)

Image

So, what exactly is Zionism and why are the event organizers trying to h...

Image

حرفِ آخر

حرفِ آخر نہ مانا جائے تو کوئی بات بھی حرفِ آخر نہیں ہوتی اور اگر مان لیا جائے تو کوئی بھی بات جو دل میں اتر جائے وہی حرفِ اول بھی ہوجاتی ہے اور اسی کو حرف آخر بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں نظامِ تعلیم کی بابت جو کچھ کہا گیا ہے وہ اس نظام میں بہتری لانے کی اس خواہش کے تحت کہا گیا ہے جو ہم سب کی ایک مشترک آرزو ہے۔ یہ خواہش بھی کوئی نئی آرزو نہیں ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کی طرف گامزن رہنا چاہتی ہے۔ جو حاصل ہو جاتا ہے اس سے مزید بہتر کی طلب کرتی ہے۔ جب بچہ گود سے اتر کر گھٹنوں کے بل چلنا شروع کرتا ہے تو کیا ماں اور کیا باپ بلکہ بچہ خود بھی پیروں پہ کھڑا ہونے کی تگ ودو شروع کر دیتا ہے اور جب وہ قدم قدم چلنا سیکھ جاتا ہے تو وہ دوڑنے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔ آج ہمارا نظامِ تعلیم جس بھی مقام  پر ہے وہ اس مقام تک اچانک اور اتفاقی طور پر نہیں پہنچ گیا۔ اس کے لئے کی گئی انفرادی اور اجتماعی کوششیں نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔ قیام پاکستان کے وقت ملک میں ہائیر سیکنڈری سکولوں کی تعداد ۴۵۴ تھ جو اب پندرہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ سب کچھ یونہی نہیں ہوگیا۔ اس ترقی پہ ہم اللہ تعالی

عملی منصوبہ بندی

عملی منصوبہ بندی جب ہم جانوروں کی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اُن کے یہاں پانچ سالہ یا دس سالہ منصوبے نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بہت ہو تو کچھ جانوروں میں ایک موسم  سے دوسرے موسم تک خوراک ذخیرہ کرنے کا ایک جبلی نظام ضرور دیکھنے میں آتا ہے ۔ وہ گرم موسم میں ایک جبلی تقاضے کے تحت اپنا فالتو وقت سرد  موسم کے لئے خوراک جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن یہ حرکت بھی لے دے کے چیونٹی، شہد کی مکھی اور گلہری جیسے چھوٹے جانوروں ہی میں نظر آتی ہے۔ کبھی کسی اور چو پائے،  درندے اور پرندے کو یہ کام کرتے شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔ وہ آج بلکہ ابھی اور اسی وقت کی حد تک ہی کی سوچ کا حامل ہوتے ہیں۔ ان میں اتنا وژن  نہیں ہوتا کہ وہ اپنی حیوانی سطح سے اُوپر اٹھ کر آنے والے وقتوں کی فکر کر سکیں۔ انسان نے جہاں اور بہت سی باتیں جانوروں سے اخذ کی ہیں وہاں اس نے ایڈ ہاک ازم بھی شاید انہی سے سیکھا ہے۔ آج گزارہ کرو یا آج کا وقت تو گزارو، کل کی کل دیکھی جائے گی۔ اس پالیسی پہ عمل پیرا لوگوں کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ وہ توّکل اور اللہ کے بھرو سے پر زندگی کا سفر طے کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اِس خوش

ترتیب و تنظیمِ افکار

ترتیب و تنظیمِ افکار زندگی کا کوئی بھی پہلو ہو، کوئی بھی کام ہو یا کوئی بھی عمل ہو اگر اس کو ایک خاص ترتیب سے سرانجام نہ دیا جائے تو وہ فعل، عمل یا پہلو مکمل نہیں ہوسکتا۔ بلکہ بعض صورتوں میں تو ہوسکتا ہے کہ وہ سرے سے وقوع پذیر ہی نہ ہوسکے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو کرنا چاہ رہے ہوں اس کے بالکل ہی برعکس کچھ اور ہی ہو جائے۔ جسمانی اعمال اور افعال سے لیکر ذہنی سرگرمیوں تک ہر کام ایک ترتیب اور ضابطے کے تحت ہوتا ہے۔ صبح سو کر اٹھنے سے لے کر رات کو دوبارہ  سونے تک انسان جتنے بھی کام کرتا ہے وہ سب کے سب ایک ضابطے اور ترتیب کے پابند ہوتے ہیں اور تو اور انسان اپنی زندگی کے وقت کا ایک ایک لمحہ، ایک کے بعد دوسرا گھنٹہ، ایک کے بعد دوسرا دن، ایک کے بعد دوسرا مہینہ اور اسی طرح ایک کے بعد دوسرا سال گزارنا ضروری ہے۔ اتوار کے بعد منگل نہیں آسکتا جب تک اتوار سے منگل تک ایک ایک  لمحہ، ایک ترتیب سے، یکے بعد دیگرے، گزر نہ جائے۔ یا جنوری کے بعد مئی یا جون اُس وقت تک نہیں آسکتے جب تک جنوری سے لے کر مئی یا جون تک کا ایک ایک دن یکے بعد دیگر ے بسر نہ کر لیا جائے۔ اسی طرح کھانا کھانے سے لیکر لکھنے پڑھنے او

افتاد و رحجانِ طبع

افتاد و رحجانِ طبع عملی زندگی  یا اُس سے قبل اپنی زندگی میں انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اگر وہ اس کی افتاد طبع سے میل کھاتا ہو اور اُس کی طبیعت کا رحجان بھی اُسی کام کی طرف ہو تو اُس میدان میں اس کی کامیابی یا با الفاظ دیگر آگے جانے کے امکانات تو روشن ہوتے ہی ہیں، اُس کو کوئی ایسا کام کرنا سہل اور آسان بھی لگتا ہے اور اچھا بھی۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے اور اُس کو کوئی ایسا کام کرنا پڑے جس کی طرف اُس کا میلانِ طبیعت نہ ہو تو اس کام میں نہ تو اس کا دل لگتا ہے اور نہ ہی وہ اُسی میں کوئی نام کما سکتا ہے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر انسان عملی زندگی میں اپنے لئے اُن  راہوں کا انتخاب کرے جو اس کے رحجانِ طبیعت کے مطابق ہوں تو وہ اُن راہوں کا انتخاب کرے جو اس کے رحجانِ طبیعت کے مطابق ہوں تو وہ اُن راہوں پر زیادہ کامیاب ہوسکتا ہے ہمارے یہاں چونکہ زیادہ تر لوگ حالات کے دباؤ تر لوگ حالات کے دباؤ کے پیشِ نظر طبع آزمائی کرتے ہیں اس لئے عمر کے کسی نہ حصے میں وہ یہ  ضرور محسوس کرتے ہیں کہ اُن سے غلط  انتخاب ہوگیا ہے اور انہیں اس میدان میں طبع آزمائی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اکثر افسران ایسے ما

تسلیم و رضا

تسلیم  و رضا بحیثیت مسلم تسلیم و رضا ہماری خو ہونی چاہئے۔ اس بات کو اصلاً تو سب ہی مانتے ہیں لیکن جب عمل  کا وقت آتا ہے تو باہمی اختلافات کو گروہ بندیوں اور تفرقہ بازی تک پہنچا دینے سے شاید ہی کبھی کوئی کترایا ہو۔ حالانکہ اگر صرف اتنی سی ایک بات کسی طور ہمارے پلے بندھ جائے کہ حقیقت صرف ایک ہی ہوا کرتی ہے، جب حقیقت ایک ہی ہو تو اُس میں اختلاف کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ حقیقت شناسی کی بجائے ہم اپنے حقِ اختلافِ رائے کے استعمال پر اصرار کرنے کی ایسی بُری اور مضر لت کا شکار ہیں کہ آج اختلافِ رائے کے نام پر افراد سے لے کر اقوام تک سب ہی تفرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اختلاف ہمارے اندازِ نظر کا ہوسکتا ہے، ہمارے طرزِ فکر کا ہو سکتا ہے یا پھر ہماری فہم کے فرق کا ہوسکتا ہے۔ حقائق میں نہ کبھی کوئی اختلاف ہوا ہے اور ہی  کبھی کوئی اختلاف ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے جس صلاحیت کی آبیاری کرنے کی ضرورت آج کسی بھی کام سے زیادہ ہوسکتی ہے، وہ ہے حقیقت شناسی کا ذوق۔ جب کسی فرد میں حقیقت شناسی کا ذوق پیدا ہو جاتا ہے تو اس کو دوسرے کا زاویہ نظر سمجھ بھی آ رہا ہوتا ہے اور وہ اُس فرق کو بھی دیکھ رہا ہوتا ہے