عملی منصوبہ بندی

عملی منصوبہ بندی
جب ہم جانوروں کی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اُن کے یہاں پانچ سالہ یا دس سالہ منصوبے نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بہت ہو تو کچھ جانوروں میں ایک موسم  سے دوسرے موسم تک خوراک ذخیرہ کرنے کا ایک جبلی نظام ضرور دیکھنے میں آتا ہے ۔ وہ گرم موسم میں ایک جبلی تقاضے کے تحت اپنا فالتو وقت سرد  موسم کے لئے خوراک جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن یہ حرکت بھی لے دے کے چیونٹی، شہد کی مکھی اور گلہری جیسے چھوٹے جانوروں ہی میں نظر آتی ہے۔ کبھی کسی اور چو پائے،  درندے اور پرندے کو یہ کام کرتے شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔ وہ آج بلکہ ابھی اور اسی وقت کی حد تک ہی کی سوچ کا حامل ہوتے ہیں۔ ان میں اتنا وژن  نہیں ہوتا کہ وہ اپنی حیوانی سطح سے اُوپر اٹھ کر آنے والے وقتوں کی فکر کر سکیں۔
انسان نے جہاں اور بہت سی باتیں جانوروں سے اخذ کی ہیں وہاں اس نے ایڈ ہاک ازم بھی شاید انہی سے سیکھا ہے۔ آج گزارہ کرو یا آج کا وقت تو گزارو، کل کی کل دیکھی جائے گی۔ اس پالیسی پہ عمل پیرا لوگوں کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ وہ توّکل اور اللہ کے بھرو سے پر زندگی کا سفر طے کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اِس خوش عقیدگی میں مبتلا ہیں کہ کل کی فکر کرنا درویشی کی شان کے خلاف ہے۔ اگر ہم نے فکرِ فراد کا علَم بلند کیا تو اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہو جائیں گے۔ ایک طرف یہ سوچ انفرادی سطح پر افراد کو مفلوج کرتی ہے اور دوسری طرف اجتماعی سطح پر قوموں کو فکر فردا کے گوہر سے محروم کرتی ہے۔ اس سوچ کے حامی اور موید نہ جانے اس بات پہ دھیان کیوں نہیں دے پاتے کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں حضرت یوسفؑ کے قصے میں کتنی شرح و بسط کے ساتھ اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ عزیزِ مصر کو اللہ نے ایک خواب کے ذریعے آنے والے چودہ سالوں میں پہلے افراطِ رزق اور پھر قحط کی اطلاع دی۔ اس اطلاع کی تشریح کے لئے حضرت یوسفؑ جیسے صاحبِ علم نبی کو مامور کیا۔ اب حضرت یوسفؑ نے   تو ایسا ویسا کچھ نہیں کہا کہ ہمیں کل کی کوئی فکر نہیں کرنا چاہئے، کل کی کل دیکھیں گے یا یہ کہ کل کا اللہ مالک ہے۔ بلکہ اُنہوں نے آنے والے چودہ سالوں کے لئے ایسی جامع منصوبہ بندی کی بات فرمائی کہ عزیزِ  مصر عشَ عشَ کر اٹھا اور اُس  نے اُنہی کو اِس منصوبے کی تکمیل اور عمل درآمد کی وزارت کا ذمہ سونپ دیا۔
حضرت یوسفؑ نے ایسا انتظام کیا کہ جب خوب بارشیں ہوئیں اور اناج کی فراوانی ہوئی تو انہوں نے اس اناج کی راشن بندی کی۔ جتنا ضرورت سے زیادہ تھا اس کو محفوظ کرنے کا اہتمام کیا۔ ایسے سٹور ہاؤس تعمیر کئے  جن میں رکھا جانے والا غلہ سالوں سال بھی خراب نہ ہو سکے۔  ان گوداموں کو ہم آج بھی اہرامِ مصر کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اگر وہ بھی ایڈ ہاک ازم کا درس دیتے اس کو تو کل اور اللہ پر بھروسہ قرار دے کر جب اناج کی فراوانی ہوتی،  خوب کھاتے اور جب قحط سالی ہوتی تو فاقوں کے ہاتھوں چپ چاپ موت کی گود میں جا بیٹھتے اور اللہ تعالیٰ اس بات کا تذکرہ ان کی ایک خوبی کے طور پر کرتے تو ہمیں مان لینا چاہئے تھا کہ فکرِ فردا کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور صفتِ انسانی یہی ہے کہ وہ خود کو محض  آج کے دن تک محدود رکھے۔  لیکن اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ اس قدر تفصیل سے اس بات کو واضح فرما رہے ہیں کہ آنے والوں اچھے اور بُرے وقتوں کے لئے تیاری کرنا اصل میں صفت ِ انسانی ہے اور تمام انبیاء نے دور اندیشی اور بصیرت کا مظاہرہ فرماتے ہوئے فکرا مروز و فردا کا نہایت متوازن انداز اپنایا، ہمارے لئے اس بات کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ ہم خود کو فکرِ امروز تک ہی محدود کر لیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ محض آنے والے کل کی فکر میں ہلکان ہونے اور اندیشہ فردا ہی کا شکار رہنے  کی بھی ممانعت ہے۔ اس بات کی کوئی گنجائش نہیں دی گئی ہے کہ انسان آنے والے بُرے وقتوں کے نام پر مال و دولت کے انبار ہی لگاتا چلا جائے۔ لیکن بہر حال اس کی بھی ممانعت ہی کی گئی ہے کہ انسان آئندہ کی  فکر ہی نہ کرے۔ بلکہ اس بات کا حکم ہی ملتا ہے کہ اللہ جو رزق دیتا ہے اس کو خرچ کیا جائے اور اس  کو مال و دولت کی صورت جمع  کرنے والوں کے لئے   عذاب الیم کی خبر دی گئی  ہے۔  مناسب ہوگا کہ یہاں اس بات کا جائزہ لے لیا جائے کہ قرآن حکیم میں ایک طرف تو مال و دولت  جمع نہ کرنے کا حکم ہے اور دوسری طرف آنے والے اچھے وقتوں کو لانے کی تیاری اور کوشش کرنے اور بُرے وقتوں  سے بچاؤ کی تدبیر اور تیاری کی جو ترغیب اور حکم دیا گیا ہے، ان دونوں باتوں میں وہ کون سی قدرِ مشترک ہے جس کو دیکھنے میں نا کام رہتے ہیں اور اس ہی وجہ سے ہم یا تو صرف مال و دولت جمع کرنے  کے چکر میں پڑ جاتے ہیں اور یا پھر گھڑے تک بھی پھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
وہ قدرِ مشترک توازن اور اعتدال کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ انسان جب اپنی روح کے اعلیٰ درجات کی تحریکات کو سمجھنے کا وقوف پیدا کر لیتا ہے تو  وہ ایسے کام کرتا ہے جن میں اُس کی صلاحیتوں اور قوتوں کا استعمال مثبت اور تعمیری انداز میں ہوتا ہے اور وہ ایسے کاموں سے بچتا ہے جن میں اس کی صلاحیتوں اور قوتوں کا زیاں ہو یا وہ تخریبی انداز میں استعمال ہوں۔ اندیشہ فردا اور فکرِ فردا میں یہی فرق ہے کہ آنے والی کل اور  مستقبل کا خوف سر پر سوار رہتا ہے یا استقبالِ مستقبل کی تیاری کی جارہی  ہے۔ اندیشہ فردا میں مستقبل خوف بن جاتا ہے اور فکرِ فردا اس خوف سے نجات کا سامان کرواتی ہے۔ مال و دولت جمع کرنا حرص اور لالچ کے تحت ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کی عطا  کردہ صلاحیتوں کا منفی استعمال ہونے کے ناتے قال مذمت اور قابلِ تعزیر ہو جاتا ہے اور کسی کام اور ضرورت کو پورا  کرنے، کسی مشن کی تکمیل کی خاطر ہو تو یہی کام صلاحیتوں کا مثبت استعمال ہونے کے سبب قابلِ  انعام و جزاء بن جاتا ہے۔
جب انسان روحِ حیوانی کی تحریکات کے زیرِ اثر زندگی بسر کر رہا ہو تو وہ جانوروں کی طرح زندگی کے دن پورے کر رہا ہوتا ہے اور جب انسان روحِ انسانی کے تحت زندگی گزار نا سیکھ لیتا ہے تو وہ جانوروں کی سطح سے بلند ہوکر اپنی زندگی کو کسی نہ کسی مقصد کی تکمیل میں صرف کرنا سعادت سمجھتا ہے۔ اور جو لوگ روحِ اعظم کی تحریکات سے وابستہ ہو جاتے ہیں وہ ایسے کاموں کی تکمیل میں لگ جاتے ہیں جو اُن کی تخلیق کا مقصد ہوتا ہے۔ ایک ایسا مقصد جو خالقِ کائنات نے ان کے لئے مقدور کیا ہوتا ہے۔
روحِ حیوانی کی تحریکات تک محدود رہنے والے ذہن کو روحِ انسانی کی سطح کی تحریکات سمجھنے میں اُتنی ہی دشواری ہوتی ہے جتنی ایک پانچ سالہ بچے کو کسی فلسفیانہ نظریہ کی فہم میں ہوسکتی ہے۔ جب ذہن انسانی میں تعلیم و تربیت کے زیر اثر وسعت اور پھیلاؤ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ روحِ انسانی کی تحریکات کو ایسے ہی قبول کرتا ہے جیسے جانور روحِ حیوانی کی تحریکات کو قبول کرتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کے پورے نظام کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ انسان کا ذہن نشو و نما پا کر پھیلے اور اتنی وسعت کا حامل ہو جائے کہ وہ پہلے تو اِس دنیا میں سکون آشنا زندگی کو اپنا ۓ اور پھر اِس سکون اور طمانیت کی دولت  سے اِتنا مالا مال ہو جائے کہ جب وہ اپنی زندگی کے اگلے مرحلے پر اگلے جہاں منتقل ہو تو وہ یہ دولت وہاں اپنے ہمراہ پائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے کس قدر جامع منصوبہ بندی درکار ہوسکتی ہے، اس کا اندازہ کرنا کچھ بھی تو دشوار نہیں۔ ایک مضمون لکھنے کے لئے بھی ذہن کو منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے اور ایک پروجیکٹ کی تکمیل  بھی تبھی ممکن ہوا کرتی ہے  جب اُس کے لئے کوئی مناسب منصوبہ سازی کی گئی ہو تو۔  پھر یہ کس طرح ممکن ہے اس جہاں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اگلے جہاں کی زندگی کو درست اور بہتر بنانے جیسا اہم اور بڑا کام محض اتفاقی طور پر ہی درست طور پر انجام پا جائے؟
حضرت یوسفؑ نے جس طرح سے آنے والے دنوں میں فراوانی کو سنبھالنے کا انتظام کیا وہ کوئی اتفاق نہیں تھا۔ انہوں نے اس کے لئے منصوبہ  بندی کی۔ غلہ ذخیرہ کرنے کے لئے ایسے گودام تعمیر کروائے جن میں غلہ  گھن لگنے سے محفوظ رہے، اس کو کیڑا نہ لگے، جانور خراب نہ کر سکیں اور وہ چوری بھی نہ کیا جا سکے۔ یہ اُن کی منصوبہ سازی کا ہی کمال تھا کہ اُس طویل قحط میں انہوں نے نہ صرف اپنے ملک کے لوگوں بلکہ ارد گرد ممالک کے لوگوں کی غذائی ضرورت کو بھی پورا کیا۔ اس کا انعام اللہ نے انہیں کیا دیا؟ اس دنیا میں نام ور  بھی ہوئے، انہیں اپنے بچھڑے بھائی اور باپ بھی ملا، اُن کی سلطنت کو استحکام اور پائیداری ملی اور ان سب کا حاصل یہ ہوا کہ وہ نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں  کے لئے بھی سکون اور چین کا سبب بن گئے۔
ہمیں اپنے بچوں میں یہ شعور اُجاگر کرنے کے لئے بہت زیادہ تگ و دو کرنا چاہئے کہ وہ ہر کام باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کرنے کی عادت اپنائیں۔ بچوں سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ وہ بڑے ہوکر کیا بنیں گے اور وہ جواب میں کہتے ہیں کہ وہ بڑے ہوکر ڈاکٹر، انجنیئر یا اعلیٰ سرکاری افسر بنیں گے تو اس بات کو سمجھانے کے لئے اُن سے یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ وہ ایسا کیسے کریں گے؟ محض کہ دینے سے تو ڈاکٹر ، انجنیئر یا افسر بننے سے رہے۔ ہمیں ان کی یہ مدد کرنی چاہئے کہ جب وہ کسی کام کو سرانجام دینے کا قصد کریں تو ہم اس کام کی انجام دہی میں درپیش مراحل اور اس کام کی تکمیل میں درکار وسائل کی بابت  ان سے ضرور بات کریں۔ انہیں بتائیں کہ کسی بھی کام کو اچھی طرح سرانجام دینے کے لئے ضروری ہوتا  ہے کہ اُس کام کے مختلف مراحل ذہن میں طے کر لئے جائیں۔ کون سا کام پہلے کرنا چاہئے اور  کون سا کام بعد میں۔ کسی بھی کام کے تمام مراحل کو ایک ساتھ شروع کرنے میں کیا قباحتیں ہوسکتی ہیں اور اس کو مرحلہ وار طے کرنے میں کیا سہولتیں ہوں گی یہ بات ضرور واضح ہونی چاہئے۔ کس مرحلے پہ کن وسائل کی کس مقدار میں ضرورت ہوگی اور اس کا انتظام کیسے ہوگا، یہ بات بھی ضرور سوچ لینی چاہئے۔
منصوبہ سازی بنیادی طور پر دو قسم کی ہو سکتی ہے۔ ایک طویل مدت کے لئے اور دوسرے مختصر وقت کے لئے۔ حضرت یوسفؑ کے واقعے میں انہوں نے جو منصوبہ بندی کی وہ چودہ سال کے لئے تھی۔ اس منصوبے کے دو حصے تھے۔ پہلے ساتھ سال انہوں نے فراوانی کی پیشین گوئی کے مطابق تیاری کی۔ زیادہ سے زیادہ زمین کو زیرِ کاشت لائے۔ اس سے حاصل ہونے والے اناج کو سٹور کرنے کے لئے مخصوص ساخت کے گودام تعمیر کروائے۔ منصوبے کے دوسرے حصے میں انہوں نے راشن بندی کے قانون نافذ کئے۔ ہر ایک کو ناپ تول کر غلہ دیا جانا طے کیا اور اس کے لئے ایک لگا بندھا طریقہ مقرر فرما دیا۔ اُس طریقے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا انتظام کرنے کو انہوں نے اس پورے کام کی نگرانی خود فرمائی۔ یہ سب باتیں انہوں نے اُس منصوبے کو سوچتے وقت ہی طے کر لی تھیں۔
اس ضمن میں خاص طور پر نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ حضرت یوسفؑ نے سب کچھ کیوں اورکس کے لئے کیا؟ کیا انہوں  نے یہ سب کچھ اپنے نام و نمود اور ذاتی مفاد کی خاطر کیا یا ان کی اس تمام کاوشِ فکر کے پیچھے اجتماعی فائدہ اور رضائے الٰہی اُن کا مطمعِ نظر تھا؟
بچوں کو جانوروں کی مثالیں اور کہانیاں سنانے کی بجائے اگر ہم ان کے سامنے انبیاء کی مثالیں اور کہانیاں بیان کرکے ان میں پنہاں حکمتوں کو ان پر واضح کرنے کی حکمت عملی اپنائیں گے تو وہ چوہوں سے مدد کی توقع ، لومڑی کی چالاکی، کوئے کی عیاری اور بھیڑیے کا ظلم سیکھنے کی بجائے انبیاء کی طرزِ فکر سے روشناس ہوتے چلے جائیں گے۔ انسان نے جانوروں سے جو کچھ اور جتنا کچھ سیکھنا تھا اس نے  سیکھ لیا ہے اب اگر ا س کو جانوروں کی سطح سے بلند ہو کر انسانیت کی سطح پر لانا ہے تو ہمیں اس چلن کو تبدیل کرکے اپنی توجہ نوعِ انسانی کے جو ہر خالص انبیاء علیھم السلام   کی  طرزِ فکر کو اپنانے کی طرف مبذول کرنا ہی ہوگی ورنہ تو ہم اتنے ترقی یافتہ  تو ہو ہی چکے  ہیں کہ آج ہم جانوروں کو کھا رہے ہیں اور جانور ہمیں نہیں کھا سکتے۔
منصوبہ بندی کے ضمن میں اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اپنے وقت کا درست استعمال بھی منصوبہ بندی ہی کے ذیل میں آتا ہے۔ یوں تو ٹائم مینجمنٹ ایک ایسا موضوع ہے جس کی بابت ہر شخص ایک جدا نکتہِ نظر کا حامل ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے وقت کا استعمال اپنے ذہن کے مطابق کرتا ہے اور اُسی کو درست گردانتا ہے۔ اس کی ایک مثال ہم گھر میں اُس وقت دیکھ سکتے ہیں جب بچے کھیلنا اور ماں باپ انہیں پڑھائی کی طرف راغب دیکھنا چاہتے ہیں۔ بچو ں کو کھیل کود میں وقت صرف کرنا ہی اپنے وقت کا درست استعمال نظر آتا ہے جبکہ والدین کے نزدیک اُن کے وقت کا درست استعمال اُس کو پڑھائی میں صرف کرنا ہی ہوسکتا ہے۔
اس اختلافی اندازِ  نظر سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ٹائم مینجمنٹ کا اصل مفہوم یہ بنتا ہے کہ محدود وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کیسے کئے جاسکتے ہیں اور ایک وقت میں ایک کام کی مقدار کو کیونکر بڑھایا جاسکتا ہے۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ کام کرنا ہوتا ہے اُس کو کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن اکثر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ایسے موقعوں پر لوگ گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہوکر کچھ بھی نہیں دیتا یا وہ  کچھ بھی  کر نہیں پاتے۔ اس کے برعکس معدودے چند لوگ اُن سب کو مو ں کا اُسی محدود وقت میں مکمل کرکے بھی دکھا دیتے ہیں۔ اب اگر اس بات پہ غور کیا جائے کہ وہ ایسا کیسے کر لیتے ہیں اور دوسرے ویسا کیوں نہیں کر پاتے تو ہمیں یہ ماننا ہی پڑے گا کہ یا تو وہ اس وقت   اپنی  قوتِ کار میں اضافہ کر لیتے ہیں اور یا پھر ان کے کام کرنے کی  رفتار اُس وقت بڑھ جاتی ہے۔
سکول اور کالج کے اکثر طلباء ہوم ورک نہ کرنے کا یہی عذر پیش کرتے ہیں کہ اُن کو کئی مضامین کا ہوم ورک ملا تھا اس لئے وہ ہوم ورک مکمل نہیں کر پائے ہیں یا یہ کہ مہمان آگئے تھے اور گھر کے دیگر کاموں کی مصروفیت کے باعث اپنا ہوم ورک مکمل نہیں کر سکے۔ ہمارے یہاں اس موقعےپر ٹائم کو مینج کرنا سکھانے کے لئے شاید ہی کبھی کسی نے توجہ دی ہو۔ حالانکہ جب بچہ اس مشکل کا اظہار کر رہا ہو کہ وہ  اپنے  وقت کو درست انداز میں استعمال نہیں کر پایا تو ا سے بہتر موقع اور کون سا ہوسکتا ہے جب اُس کو کم وقت میں زیادہ کام کرنا کا ہنر تعلیم کیا جائے۔ کم وقت میں زیادہ کام کرنا اور کام کو جلدی سے مکمل کر لینا ایک ہی بات ہے اس لئے کام کو تیز رفتاری  سے کرنے کی ترغیب دینا ضروری ہو جاتا ہے۔
اس بات کو اساتذہ کرام اپنے تلامذہ سے کچھ یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ کسی بھی کام کو تیز رفتاری سے کرنے کے لئے اپنے ذہن کی رفتار کو بڑھانا پڑتا ہے، جس روز آپ اپنے ذہن کی رفتار کو بڑھا لیں گے، آپ ایسے عذر پیش کرنے سے بچ جائیں گے جن کو سننے والا یہ جان لیتا ہو کہ آپ  کا ذہن تھکا ہوا ہے اور تیز رفتاری کی صلاحیت سے محروم ہے۔ ذہنی رفتار میں اضافے کا ایک طریقہ جو جدید نفسیات بتاتی ہے وہ یہ   ہے کہ انسان خود پہ اس کام کی اہمیت سوار کر لے تو انسان خود کو ایک تناؤ میں محسوس کرتا ہے اور اس تناؤ کی حالت میں اُس کا ذہن برق رفتاری سے  کام  کرتا ہے۔ یہ طریقہ ہوسکتا ہے کہ ذہنی طور پر بہت توانا لوگوں کے لئے تو  مناسب ہو لیکن عام طور پر اس طریقے کو برتنے کے نتائج اعصابی تناؤ کی ایک مستقل کیفیت کی صورت میں بھی نکل سکتے ہیں اور اعصابی نظام میں مسلسل تناؤ کبھی کبھار نروس بریک  ڈاؤن کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ اس لئے اس طریقہ کو کوئی محفوظ طریقہ تسلیم نہیں کیا  جاسکتا۔
ذہن کی قوت کار اور اسکی کارکردگی کی رفتار بڑھانے کا مناسب اور محفوظ طریقہ یہی بنتا ہے کہ ذہن کی سکت اور رفتار میں اضافے کی طرف توجہ دی جائے۔ کسی کام  کو پوری توجہ، یکسوئی اور دلچسپی سے کرنے سے ذہن کی سکت اور رفتارِ کارکردگی میں خود بخود اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا ایک اور مجرّب طریقہ یہ ہے کہ ذہن کی سکت اور رفتار  بڑھانے کی کوئی ایک آدھ مشق علیحدہ سے تجویز کی جائے۔ اس مشق کو کلاس  میں اجتماعی طور پر بھی کروایا جاسکتا ہے اور انفرادی طور پر، اپنے اپنے گھر میں، سونے سے پیشتر کرنے کی بھی ہدایت کی جاسکتی ہے۔ تجویز کی جانے والی مشق ایسی ہونی چاہئے کہ اس کے نتیجے میں ذہن کی اچھل کود کم ہو سکے۔ جب ذہن کی اچھل کود کم ہو جاتی ہے تو توجہ کو ایک نکتے پر مرکوز کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے اور جب توجہ کسی ایک نکتے پر مرتکز ہو جاتی ہے تو انسان میں یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے۔ یکسوئی پیدا ہو جائے تو ذہن کی رفتار اور کارکردگی دونوں بہت بڑھ سکتی ہیں۔
اساتذہ کرام ایسی مشقوں کی بابت اپنے علم میں جتنا اضافہ کر سکیں وہ ان کے اپنے اور ان کے تلامذہ دونوں کے لئے بہت سود مند ہوسکتا ہے۔ صوفیاء کرام کے  مراقبہ جات سے لے کر یوگا کی دھیان گیان کی مشقوں تک اور جدید نفسیات کی فری رائٹنگ اور تلازم خیال سے لے کر مابعد النفسیاتی علوم کی ارتکازِ توجہ کی مشقوں تک کے ذخیرے میں بہت سی مشقیں ایسی ہیں جنہیں ان مقاصد کے لئے بہت محفوظ طریقے سے آزمایا جاسکتا ہے۔
ذہن میں فاسد، رد کئے ہوئے اور معاشرے کے خوف سے دبائے گئے خیالات، جن کو ہم اپنی طرف سے بھول کے خانے میں ڈال چکے ہوتے ہیں وہ تمام خیالات ذہن کو غیر محسوس طور پر اپنی گرفت میں لئے رہتے ہیں۔ ان کی موجودگی کو ظاہر ہونے سے روکنے میں ذہن کی بہت سی توانائی بلا وجہ صرف ہوتی رہتی ہے۔ اس قسم کے خیالات کے ذہن میں رہنے سے ذہن کئی طرح کے دباؤ محسوس کرتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذہن اپنی رفتار اور بہتر کارکردگی سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کا ایک حل طلباء کو فری رائٹنگ کی مشق کرنا تجویز کرکے بھی کیا جاسکتا ہے۔ یوں تو ماہرینِ نفسیات اس مشق کو ایسے مریضوں پہ آزماتے ہیں جو اعصابی امراض کا شکار ہوں لیکن اس مشق کا ایک فائدہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس کے کرنے سے ذہن فاسد خیالات سے پاک ہو جاتا ہے، ذہن کی قوتِ ارتکاز میں اضافہ ہو جاتا ہے، بہت سی نفسیاتی گرہیں  خود بخود تحلیل ہو جاتی ہیں، قوتِ ارادی اور قوتِ فیصلہ میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ذہن کے اندر موجود رکاوٹیں ختم ہونے سے اس کی رفتار اور کارکردگی بڑھنے لگتی ہے۔
اس مشق کا طریقہ بھی کچھ زیادہ دشوار نہیں ہے۔ ایک وقت مقرر کرکے تنہائی میں کاغذ اور قلم لے کر بیٹھ جائیں۔ اور جو ذہن میں آئے اس کو کاغذ پر منتقل کرتے   جائیں۔ ایک آدھے گھنٹے تک بلا سوچے سمجھے قلم برداشتہ قلم کو کاغذ پر چلاتے رہنا ہے۔ اگر ذہن میں کوئی با ربط جملہ نہیں بن رہا ہے تو بے ربط جملے اور الفاظ ہی لکھتے جائیں اور اگر کوئی لفظ بھی ذہن میں نہ آئے تو جیسے جی میں آئے کاغذ پر لکیریں ہی لگاتے رہیں۔ یہ کام پورے آدھ گھنٹے تک روزانہ مقررہ وقت پر باقاعدگی سے اکیس دن تک کرنے سے مطلوبہ فوائد حاصل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ اس  مشق کے دوران لکھا جائے وہ کسی کو دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اکیس دن کے بعد اس ڈائری یا ان کاغذات کو جو اس دوران لکھے گئے ہیں، خود پڑھ لیں اور انہیں ضائع کر دیں۔
تین ہفتوں کی اس مشق کے بعد اس مشق سے حاصل ہونے والے فوائد پائیدار بنانے  کے لئے اگر یہ مشق مزید شروع کروا دی جائے تو بہت مفید  اثرات  مرتب ہوتے ہیں۔ اس دوسری مشق کا طریقہ یہ ہے کہ اس مشق کو کرنے والا وقتِ مقررہ  پر کسی پرسکون جگہ پر آرام دہ نشست میں بیٹھ جاتا ہے۔ چند ایک بار گہرے سانس آہستہ آہستہ لینے کے بعد آنکھیں بند کی جاتی ہیں اور یہ تصوّر کیا جاتا ہے کہ آسمان سے نیلے رنگ کی ایک روشن شعاع میرے سر پر پڑ رہی ہے اور یہ نیلی روشنی سر میں جذب ہو ر ہی ہے۔ سر میں جذب ہوتے ہوتے کا سہِ  سر اس روشنی سے بھر گیا ہے۔ اس کے بعد یہ نیلے رنگ کی روشنی رفتہ رفتہ پورے جسم میں سرائیت کر گئی ہے۔ جب پورا جسم اس روشنی سے معمور ہو جائے تو یہ روشنی پیروں کے راستے زمین ارتھ ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اس تصوّر میں بیس منٹ سے لیکر آدھ گھنٹے تک کا وقت صرف کرنا بہت کافی رہتا ہے۔ ہر رو صرف آدھ گھنٹہ رات سونے سے پہلے اس مشق کو باقاعدگی سے کرنے والے افراد کی قوتِ حافظہ اور قوتِ ارادی دونوں میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ذہن کی کارکردگی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس مشق کو سالوں کیا جائے تو بھی کوئی مضر اثرات نہیں ہوتے۔ اس مشق کو زندگی میں کم از کم چھ ماہ تک ضرور کرنا چاہئے۔ مراقبہ ٹیکنالوجی کو عوام میں متعارف کروانے اور اس کو پوری دنیا میں پھیلانے کی جد و جہد کرنے والے معروف روحانی سکالر اور بہاؤالدین  ذکریا یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر جناب خواجہ شمس الدین عظیمیؒ صاحب کا کہنا ہے کہ اس مشق کو باقاعدگی سے کرنے والے کے ذہن کے خلیات  میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت ہوتی رہتی ہے۔ انسان ہر وقت ذہنی طور پر  ترو تازہ اور چُست  و ہشیار رہتا ہے۔ ذہنی خلفشار سے نجات پا جاتا ہے اور نفسیاتی الجھنوں سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
سکول اور کالج میں طلباء کی جسمانی صحت کے لئے ورزش اور کھیل کود کا باقاعدہ اِہتمام کیا جاتا ہے اور اس کے لئے باقاعدہ نظام الاوقات مقرر ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی یعنی فزیکل ٹرینگ انسٹر کٹر  بھی تعینات کئے جاتے ہیں لیکن جہاں تک طلباء کی ذہنی صحت اور تندرستی کا تعلق ہے اس کے لئے نہ تو کوئی ورزش تجویز کی جاتی ہے، نہ ہی اس کے لئے کوئی پیریڈ مختص ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ماہر ِنفسیات یا مائنڈ ٹریننگ انسٹر کٹر نام کا کوئی عہدہ بنانے کا کسی کو کبھی کوئی خیال ہی آیا ہے۔ کیوں ؟ اس کا جواب شاید  یہی دیا جائے کہ ہم اپنے جسم کی حد تک ہی سوچ سکتے ہیں۔ جب کبھی ہم اپنے ذہن کی حد تک سوچنے کی اہلیت پیدا کرلیں گے  تو ہم لامحالہ اپنے طلباء کے ذہن کی ٹرینگ کا بھی بندوبست کر ہی لیں گے۔
اِس ضمن میں یہ بات نہایت قابلِ توجہ ہے کہ انسانی ذہن جسم کے تابع ہر گز   نہیں ہے، بلکہ جسم انسانی ذہن کے تابع ہوتا ہے اور ذہن جسم پہ اس حد تک حاکم اور نگران ہوتا ہے کہ جسم کی نشوونما سے لے کر تمام حرکات و سکنات  اسی پہ منحصر ہوتی ہیں۔ اس لئے اگر ذہن توانا اور طاقتور ہو تو جسم بھی اتنی ہی قوت اور طاقت کا حامل ہوگا۔ اس بات کی وضاحت کو ایک صوفی درویش جن کا نام تاریخ کی کتب میں ابراہیم مذکور ہے کا واقعہ نہایت سبق آموز ہوسکتا ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ چنگیز اور ہلاکو  کے بعد  قبلائی خان نامی منگول تا تاریوں کا سربراہ بنا۔ کسی نے اس کے سامنے ابراہیم کا ذکر کیا کہ وہ نہایت اعلیٰ شخصیت اور کردار کے حامل بزرگ ہیں۔ اُس دور میں مسلمانوں کے کچلے جانے کے بعد منگول اُن کی بابت جس قسم کی رائے رکھ سکتے تھے اُسی قسم کی رائے قبلائی خان کی بھی تھی۔ بہر حال اُس نے اُن کواپنے دربار میں طلب کر لیا۔ ابراہیم آئے  تو قبلائی خان موجود نہ تھا۔ ان کو انتظار کا کہا گیا۔ جب قبلائی خان آیا۔ گھوڑے سے اترا تو اس کا کتا اپنے مالک کو دیکھ کر دُم ہلاتا  آگے بڑھا۔ قبلائی خان نے ابراہیم کو دیکھا اور دریافت کیا اور معلوم  ہونے پر کہ یہی وہ صاحب ہیں جن کو اس نے اُن کی شہرت سن کر طلب کیا تھا  تو اس کو ان کا چھریرا بدن اور سادہ وضع قطع قطعاً متاثر نہ کر سکی۔ اس نے اپنے کتے کی طرف اشارہ کرکے اُن سے کہا۔ " کیا  میرے کتے کی دم تمہاری ڈاڑھی سے بہتر نہیں ہے؟ " ابراہیم نے کہا۔ " اگر میری ڈاڑھی اپنے مالک کی اطاعت میں ہلے تو میری ڈاڑھی بہتر ہے ورنہ تو آپ کے کتے کی دُم ہی بہتر ہے"۔  قبلائی خان اُن کے اِس جواب کو سن کر اگر متاثر ہوا بھی تو اس نے اِس کا اظہار نہیں کیا۔ اُس نے اس سے کہا میں نے آپ کی بابت بہت کچھ سنا ہے لیکن میں جسمانی طور پر کسی کمزور انسان کو اچھا نہیں مانتا۔ اس لئے اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کی بات سنوں تو آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آپ کمزور نہیں ہیں۔ اور اس کے لئے اس نے اُن کو اپنے دربار کے سب سے قوی ہیکل پہلوان سے مقابلے کی دعوت دی۔ ابراہیم خلاف توقع مان گئے۔ لوگوں نے منع بھی کیا کہ یہ اس ظالم کی چال ہے یہ آپ کو مروا دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا۔ آج مجھے یہ ثابت کرنا ہے کہ روح اور ذہن کی قوت کے سامنے جسم کی طاقت کچھ نہیں اور وہ اس پہلوان کے مقابلے پہ میدان میں آگئے۔ اس پہلوان نے اُن کی تضحیک کرنے کو انہیں پہلے وار کرنے کی دعوت دی۔ اس پر ابراہیم نہایت اطمینان سے آگے بڑھے اور اس پہلوان کو اتنے  زور سے ایک چانٹا مارا کہ وہ زمین بوس ہوگیا۔ جب وہ کافی دیر تک بھی اُٹھنے میں کامیاب  نہ ہو سکا تو قبلائی خان اُن سے اتنا مرعوب ہو چکا تھا کہ اس نے اُن کی مصاحبت اختیار  کر لی۔ کہتے ہیں کہ قبلائی خان اُن کے دستِ حق پر ست پر اسلام لے آیا تھا لیکن اُس نے اپنے قبیلے سے اس بات کو چھپائے ہی رکھا۔
اس واقعے سے ابراہیم کی قوتِ برداشت اور ان کے ذہن کی جس طاقت کا علم ہوتا ہے اس کے پیشِ نظر یہ کیا جاسکتا ہے کہ روح اور ذہن کی طاقت ہی جسمانی قوت کا  سر چشمہ ہوتی ہے  ۔ اس لئے صرف جسمانی صحت پہ توجہ مرکوز نہیں رہنی چاہئے بلکہ جسم کے ساتھ ساتھ ذہن کی صحت اور تندرستی کا شعور بھی پیدا کرنا ہی ہوگا۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم کو اپنے بچوں کی ذہنی صحت کی خاطر ایسے شعبے اپنے نظامِ  تعلیم کا حصہ بنائیں جو ذہن کی نشو و نما اور بہتر کارکردگی کو یقینی بنانے کی کوشش میں اپنا کردار مؤثر طور پر سرانجام دینے کے ذمہ دار ہوں۔ اس کے لئے چند  آسان اور بے ضرر سی ذہنی ورزشیں ماہرینِ نفسیات سے تجویز کروا کر نصابی یا غیر نصابی سرگرمیوں کے طور پر تعلیمی معمول کا حصہ بنائی جاسکتی ہیں۔ اِن ورزشوں کی مشق اگر سکول اور کالج میں اساتذہ کی زیرِ نگرانی کروائی جاسکے تو اس کے فوائد دو چند ہو سکتے ہیں۔ اس کے لئے پہلے اساتذہ کرام کو مختصر دورانیے کے ریفر شر کورسز بھی کروائے جاسکتے ہیں تاکہ وہ ایسی مشقوں کی نگرانی بخوبی اور با احسن طریقے سے کر سکیں۔
ذہنی رفتار اور کارکردگی میں اضافہ کرنے کے لئے جب تک ہم کوئی عملی اقدام نہیں کریں گے تب تک ایسا ہونے کی امید رکھنا بھی نادانی ہی کی بات ہوگی۔ محض سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لیکچرز سن سن کر اگر ذہن کی رفتار اور کارکردگی میں کوئی اضافہ ممکن ہوتا تو آج پوری قوم یک زبان ہوکر نظامِ تعلیم میں بہتری کا مطالبہ نہ کر رہی ہوتی۔
پہلے وقتوں میں پڑھنے لکھنے والا فرد بیک وقت ماہر  ریاضی دان بھی ہوتا تھا، طب اور حکمت میں بھی درک رکھتا تھا، علم بیّت اور فلکیات کی بھی شد بدھ ہوتی تھی، فلسفہ اور ادب پہ بھی اظہار خیال کر لیتا تھا۔ لیکن اب اگر کوئی شاعر ہے اور وہ بینک میں کام بھی کرتا ہو تو فوراً یہ فتویٰ صادر کر دیا جاتا ہے کہ یا تو وہ ایک اچھا بینکار نہیں ہو گا اور یا پھر شاعر ہونے میں کسی کمال کا حامل نہیں ہوگا۔ اس بات کا ایک تجزیہ کچھ یوں کیا جاتا ہے کہ پہلے علم زیادہ نہیں ہوتا تھا  اس  لئے ایک وقت میں کئی کئی علوم میں مہارت بہم پہنچانا اتنا دشوار نہیں ہوتا تھا جب کہ آج کل علم اتنا بڑھ گیا ہے کہ آپ کا ذہن کسی ایک بھی علم کا پوری طرح احاطہ کر لے تو یہ بہت بڑی بات ہوگی۔
اس جواب پہ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی شعور نے اپنی سہل پسندی کے ہاتھوں علم کے اضافے کو آڑ بناتے ہوئے علوم کے حصول سے پہلو تہی کی ہے۔ کیونکہ ایسا نہیں ہے۔ آج بھی محنت کرنے والے کئی کئی مضامین میں بیک وقت مہارت حاصل کر لیتے ہیں بلکہ بعض لوگ تو کئی کئی مضامین میں ایم اے بھی کر دکھاتے ہیں۔ اگر علم بڑھ گیا ہے تو اس کا احاطہ کرنے کے لئے ہم نے اپنے ذہن کی ان صلاحیتوں کو بڑھانے میں کتنی محنت کی جو حصولِ علم کے لئے لازمی ہونا چاہئیں۔ کیا ہم نے اپنے ذہن کی وسعت اور پھیلاؤ کا کوئی باقاعدہ اہتمام کیا؟ کیا ہم نے روزانہ زیادہ نہیں تو سود و سو صفحات کا مطالعہ کرنا سیکھا؟ کیا ہم نے ذہنی یکسوئی حاصل کرنے کا ہنر آزمایا ؟  کیا ہم نے ارتکاز توجہ کے فوائد جاننے کےبعد کوئی ایسی کوشش کی کہ اُس سے ہمارے ذہن کی اس صلاحیت میں حقیقتاً کوئی اضافہ ہوا ہو؟ اگر ان سب باتوں کا جواب نفی میں ہو تو اس کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ اگر آج بھی ذہن میں دَم ہو تو ایک انسان بیک وقت کئی علوم و فنون کا ماہر ہوسکتا ہے۔
جن لوگوں کے ذہنوں میں پہلے دور میں بھی دم نہیں ہوتا تھا وہ بھی کئی علوم میں مہارت رکھنا تو دور کی بات ہے کسی ایک آدھ مضمون کو سمجھنے کی بھی سکت سے عاری ہی ہوا کرتے تھے۔ اُس دور میں بھی صرف وہی لوگ کئی کئی علوم میں مہارت کے حامل ہوسکے تھے جنہوں نے محنت  کو اپنا شعار بنائے رکھا، اپنے ذہن کی  خدا داد صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا اور سوچ بچار اور غور و فکر کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ اگر ہم خود میں وہ صفات .پیدا کرلیں  تو آج ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں ورنہ تو بہانے اور حیلے بنانے کا فن تو ہم بچپن سے آزما ہی رہے ہیں۔


(ازکتاب نظامِ تعلیم
مؤلف : ڈاکٹر مقصود عظیمی)



فکر و تدبّر
1.       حضرت یوسفؑ کے قرآنی قصے سے منصوبہ بندی کے بارے میں ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟
2.       اللہ پر توکّل اور بھروسے سے کیا مراد ہے؟ کیا  کَل کی فکر کرنا اسلام کے خلاف ہے؟
3.       یہ ایڈ ہاک ایزم کیا ہوتا ہے؟ یہ اچھی یا بُری خوبی ہے اور کیوں؟
4.       "آنے والے اچھے اور بُرے وقتوں  کے لئے تیاری کرنا اصل میں صفت انسانی ہے۔ اور تمام انبیاء نے دُور اندیشی اور بصیرت کا مظاہرہ فرماتے ہوئے فکرِ امروز اور فکرِ  فردا کا نہایت متوازن انداز اپنایاگیااس سے آپ اتفاق کرتے ہیں۔ اِ دونوں میں قدر مشتک کیا ہے؟ مثالیں دے کر سمجھائیں؟
5.       کیا آج کا  انسان  رویے حیوانی کے تحریکات کے زیر اثر زندگی بسر کر رہا ہے؟ یہ روحِ انسانی کے تحت زندگی گزارنا کیا چیز ہے؟
6.       تعلیم و تربیت کے پورے نظام کا اصل مقصد  کیا ہے؟ اس کے حصول کے لئے کی / کسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے؟
7.       آپ بطور اُستاد بچوں میں منصوبہ بندی  کا شعور کیلئے اُجاگر کریں گے؟
8.       زندگی میں وقت کا بہترین استعمال کرنا کتنا اہم ہے؟ بچوں میں یہ عادت کیس پیدا کی جاسکتی ہے؟
9.       انسانی ذہن کی قوت کار اور  کارکردگی کی  رفتار بڑھانے کا کیا طریقہ ہے؟
10.   یہ "فری رائٹنگ" کیا چیز  ہے اور اِس کے کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟
11.   کیا  اساتذہ صرف پڑھاتے ہیں یا " مائنڈ ٹریننگ انٹر کنٹر"  بھی ہیں وہ کام کیسے بہتیرین طریقے سے سرانجام دے سکتے ہیں؟
12.   "روحے اور ذہن کی قوت کے سامنے جسم کی طاقت کچھ نہیں " یہ کس نے کہا؟ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟
عملی اقدامات
1.      اُس مضمون میں جن خیالات کا اظہار ہوا ہے، اِن کی ایک مختصر لیٹ بنالیں اور قابل عمل اقدامات کی نشاندہی کریں۔
2.      ہم اپنے تعلیمی ادارے میں ان اقدامات کو کیسے اپنے نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں شامل کرکے بچوں کی تربیت کر سکتے ہیں؟

3.      مراقبہ کے دیئے ہوئے طریقے کو عملی طور پر کرکے دکھائیں۔ کیا اس سے واقعی فرق پڑ سکتا ہے؟ آئیے ایکس دنوں کے لئے کرکے دیکھ لیں۔

Comments

Popular posts from this blog

GUIDANCE NEEDS AND PROBLEMS OF YOUNG PEOPLE

HISTORY OF THE GUIDANCE MOVEMENT

"Aims and Objectives of Education"