افتاد و رحجانِ طبع

افتاد و رحجانِ طبع
عملی زندگی  یا اُس سے قبل اپنی زندگی میں انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اگر وہ اس کی افتاد طبع سے میل کھاتا ہو اور اُس کی طبیعت کا رحجان بھی اُسی کام کی طرف ہو تو اُس میدان میں اس کی کامیابی یا با الفاظ دیگر آگے جانے کے امکانات تو روشن ہوتے ہی ہیں، اُس کو کوئی ایسا کام کرنا سہل اور آسان بھی لگتا ہے اور اچھا بھی۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے اور اُس کو کوئی ایسا کام کرنا پڑے جس کی طرف اُس کا میلانِ طبیعت نہ ہو تو اس کام میں نہ تو اس کا دل لگتا ہے اور نہ ہی وہ اُسی میں کوئی نام کما سکتا ہے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر انسان عملی زندگی میں اپنے لئے اُن  راہوں کا انتخاب کرے جو اس کے رحجانِ طبیعت کے مطابق ہوں تو وہ اُن راہوں کا انتخاب کرے جو اس کے رحجانِ طبیعت کے مطابق ہوں تو وہ اُن راہوں پر زیادہ کامیاب ہوسکتا ہے ہمارے یہاں چونکہ زیادہ تر لوگ حالات کے دباؤ تر لوگ حالات کے دباؤ کے پیشِ نظر طبع آزمائی کرتے ہیں اس لئے عمر کے کسی نہ حصے میں وہ یہ  ضرور محسوس کرتے ہیں کہ اُن سے غلط  انتخاب ہوگیا ہے اور انہیں اس میدان میں طبع آزمائی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اکثر افسران ایسے ماتحتوں کو مس فِٹ قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ بھی محسوس نہیں کرتے۔
اس بات پہ اگر غور کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس افتادِ طبع اور میلانِ طبعیت کی اسل کیا ہے اور اس کا خیال رکھنا بھی چاہئے یا نہیں اور اگر رکھا جانا چاہئے تو کس حد تک؟ افتاد اور میلان طبعیت اصل میں انسان کے اندر کی صدا ہوا  کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک آدمی  لوہار یا ترکھان بننا مشکل کام نہیں سمجھتا لیکن اگر اُس آدمی سے آپ یہ کہیں کہ وہ سٹاک ایکسچینج میں بیٹھ کر صرف شیئرز خریدا اور بیچا کرے  تو وہ اس کام کو پنے لئے ناممکن گردانتے ہوئے کبھی  اس کی طرف مائل نہیں ہوگا۔ یا اسی طرح کسی اخبار نویسی سے آپ  پوچھ کر دیکھ لیں کہ اُس نے فوٹو گرافی یا مصوری کی طرف کیوں دھیا ن نہیں دیا۔ تو یا تو وہ یہ کہے گا کہ میں نے کوشش تو کی تھی مگ جی نہیں لگا اور یا پھر یہ کہ دے گا کہ یہ کام میرے بس کا نہیں تھا ورنہ شاید میں یہی کرتا۔ ہر دو صورتوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جی نہ لگنا اور بس میں نہ ہونے کا اقرار کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ یہ صرف انسان کے اندر کی آواز ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس کام کو کرنے کے لئے پیدا کیا ہوتا وہ بات اُس کے اندر گونجتی رہتی ہے اور جب تک انسان اُس کام کو کرنے کے لئے پیدا کیا ہوتا ہے وہ بات اُس کو کرنے نہیں لگے جاتا  باطن کی صدا اُس کو اُس  کام کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے جس کے لئے خالق نے اُس کو وجود بخشا ہوتا ہے۔
اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر سب ہی لوگ کا دستکاری کرنے لگ جاتے تو جوتے کون بناتا  اور کپڑے کون بناتا۔ اللہ نے اس کائناتی نظام کو چلانے کے  لئے مخلوق کو تخلیق کیا۔ ہر مخلوق کے ذمے کوئی کام بھی لگایا تاکہ اس کے ہونے کو کوئی جواز بنا رہے۔ انسان اس دنیا میں آتا ہے تو وہ خود کو ایک دائرے کے مرکزی نقطے کی طرح سب کو اپنی خدمت میں مصرف پاتا ہے۔ ماں باپ اس کی دیکھ بھال کر رہے ہوتے ہیں، اُس کو خوراک مہیا کر رہے ہوتے ہیں، کوئی اُس کے لئے گرمی سردی سے بچاؤ کا انتظام کرنے کو گھر بنا رہا ہے تو کوئی اُس کے لئے پوشاک تیار کر رہا ہوتا ہے۔ قدرے بڑا ہوتا ہے تو اساتذہ  اس کی تربیت پہ معمور ہو جاتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ وہ خود بھی اسی قطار میں لگ جاتا ہے اور دوسروں کے  لئے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ پہلے وہ اوروں سے اپنے ہونے کا خراج وصول کرتا  ہے پھر وہ دوروں کو ان کے ہونے کا خراج دیتے دیتے اس دنیا کی زندگی کے دن پورے کرکے اگلے جہاں چلا جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو انسان جتنا دوسروں سے وصول کرتا ہے اتنا اُن کو دیتا نہیں ہے لیکن پھر بھی شکوہ سنج ہی رہتا ہے کہ لوگ میرے لئے کچھ نہیں کرتے۔ ایک دفعہ بھی کسنے یہ نہیں سوچا کہ میں درختوں سے کتنا کچھ لیتا ہوں لیکن میں ان کے لئے کبھی کچھ کیا؟ میں جانوروں سے کتنا کچھ لیتا ہوں لیکن کی میں نے کبھی ان کے لئے کچھ  کیا۔ اب اگر دیکھا جائے تو انسان کی بیشتر ضروریات تو یہی دو ذرائع یعنی نباتات اور حیوانات ہی پوری کرتے ہیں۔ مادی ضروریات کو ان ذرائع سے پورا کرنے کے بعد اپنی غیر مادی ضرورتوں کے لئے انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا سہارا لیتا ہے یعنی ہر سطح پہ انسان دوسروں سے کچھ نہ کچھ وصول کرتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ ساری زندگی چلتا ہی رہتا ہے۔ اگر کبھی بتوفیقِ ایزدی وہ کسی کے لئے کچھ کرنے میں  کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو وہ اس کو دوسروں پہ اک احسان ہی مانتا ہے۔
اب اگر حقیقت شناس نظروں سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ انسان جب ساری زندگی دوسری مخلوق سے خدمت لیتا رہتا ہے تو یہ بھی اُن دوسری  مخلوقات اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے لئے کچھ کرتا رہے۔ اللہ کی اس چاہت کے پورا ہونے کی ایک صورت تو یہ ہوتی ہے کہ آدمی چاہے یا نہ چاہے، جانتا ہو یا یہ جانتا ہو، وہ اس کام کو ارادی طور پر کرے یا غیر اختیاری طور پر کرے، اس کو وہ سب کچھ کرنا تو ویسا ہی پڑتا ہے جو اللہ اس سے کروانا چاہتا ہے۔ اب جب وہ یہ سب کچھ غیر اختیاری طور پر لاعملی اور نادانستگی میں کرتا ہے تو ایک تو وہ سب کچھ محدود طرزوں  میں کر رہا ہوتا ہے اور دوسرے چونکہ وہ یہ سب کچھ   انجانے میں سرانجام دے رہا ہوتا ہے اس لئے اس کا کوئی اجر و ثواب بھی اُس کو نہیں بھی اُس کو نہیں ملتا۔ کسی کام کو اچھی طرح کر لینے سے بڑھ کر اور کیا اجر و ثواب ہو سکتا ہے کیونکہ اچھی طرح کئے گئے کام سے حاصل ہونے والے اطمینان اور سکون انگیز مسرت کے لطف سے بڑھ کر اور کونسی شرابِ طہورا ہوگی؟
اس لئے اساتذہ کرام کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے تلامذہ میں اس بات کا شعور اجاگر کریں کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اپنے اندر کی صدا کو ضرور سنیں۔ علم نفسیات میں یہ جو رحجانِ طبع کو جانچنے کے لئے ٹیسٹ لئے جاتے ہیں اُن کا اصل مدعا یہی ہوتا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں جو بھی کام کرے وہ ایسے ہوں کہ وہ اُن کو روکر نہ کرتا رہے بلکہ اُن کے کرنے سے اُس کو خوشی اور اطمینان حاصل ہو۔ ماں باپ کو بھی چاہئے کہ بچے کے رحجان طبع، افتاد اور میلانِ طبیعت کا سراغ ضرور رکھیں اور اسی میدان میں اپنے بچے کی زیادہ حوصلہ افزائی کریں۔ جس کی طرف وہ فطری میلان رکھتا ہو۔ یہ پالیسی کسی بھی طور درست نہیں ہے کہ ماں باپ اپنی نا آسودہ خواہشات کی تکمیل کی امید اپنی اولاد سے رکھیں۔ ہر ماں باپ کو یہ سوچنا چاہئے کہ جو میری خواہشات تھیں وہ تو خود مجھ کو ہی پورا کرنا واجب تھیں، اب اگر میری کوئی خواہش پوری نہیں ہو سکی تو مجھے تو یہ چاہئے کہ اسکا کفارہ میں اس طرح ادا کروں کہ اپنی اولاد کی خواہش کے پورا کرنے میں اُن کا مدد گار بن جاؤں نہ کہ اُن پہ یہ پابندی لگا دی جائے کہ وہ اپنی خواہش  کو ترک کرکے اُن کی خواہشات  کو پرا کرنے کا بیڑا اٹھا لیں۔ ایسا ہونے سے کچھ بھی نہیں ہو پاتا نہ تو اس طرح سے کبھی کسی ماں باپ کی خواہش تکمیل کو پہنچتی ہے اور نہ ہی اولاد اپنی کسی خواہش اور خواب کی تکمیل کرنے کے قا بل ہوئی ہے۔ جس طرح اگر ایک ترکھان کا بیٹا  پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننا چاہتا ہے اور اس کا باپ اُس کی خواہش کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتا اسی طرح اس کو اُس وقت بھی اپنی اولاد کی خواہش اور افتاد کے خلاف یہ فیصلہ نہیں دینا چاہئے کہ وہ ترکھان نہ بنے۔ ایک غیر جانبدار سوچ رکھنے والے انسان کو ایسے وقت ہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کو اولاد اس لئے نہیں دی کہ اہ اُن سے اپنی  نا آسودہ  خواہشوں  کی تکمیل چاہے بلکہ اس لئے دی ہے کہ وہ اُن کو ایک بہتر انسان بننے میں  مدد دے ،  اُن کی تربیت اس نہج پر کر دے کہ وہ اپنی زندگی کو کوئی فیصلہ کرتے وقت اس بات کو خود ہی دھیان میں رکھ سکیں کہ اللہ تعالیٰ اُن سے کیا خدمت لینا چاہتے ہیں۔
اس بات  کو یاد رکھنا چاہئے کہ انسانوں میں تو یہ طریقہ ہے کہ وہ کسی فرد کی صلاحیتیں دیکھ کر اس کو کوئی کام تفویض کرتے ہیں۔ یہ ملازمت اور نوکریوں کے لئے  انٹرویو اسی لئے تو لئے جاتے ہیں تا کہ یہ جانچا جاسکے کہ امیدوار مطلوبہ معیار کی صلاحیت، اہلیت اور قابلیت ہے بھی یا نہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کسی فرد سے کوئی کام لینا چاہتے ہیں تو اس کام کے لئے  درکار صلاحیت،اہلیت اور قابلیت اس میں پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ با الفاظِ دیگر اللہ کی طرف سے کسی کام کے تفویض کئے جانے کی صورت میں آدمی کو مطلوبہ صلاحیتوں کا پیکج بھی ساتھ ہی مل جاتا ہے اور انسان اس کام کو سرانجام دینے کے قابل ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ڈالتے ہیں۔ اب انسان اگر سمجھتا ہے  کہ یہ صلاحیتیں اس کو اپنی ذاتی خوبی کی وجہ سے ہیں تو یہاں سے بات بگڑنا شروع ہو جاتی ہے اور انسان سے پہ در پہ ایسی غلطیاں سرزد ہونے لگتی ہیں کہ اس  کے دن کا چین اور رات کا سکون کو بچانے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے لیکن اس کی ہر کوشش کا انجام اُس کی حسرتوں میں اضافے کے سوا اور  کچھ بھی تو نہیں نکلتا۔
اس ساری بات کا نتیجہ یہی بنتا ہے کہ انسان کو اپنی افتاد طبع اور میلانِ طبعیت کے مطابق ہی اپنی زندگی کی راہوں کا انتخاب کرنا چاہئے کیونکہ اس طرح وہ الٰہی پروگرام کے مطابق زندگی بسر کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ لیکن اس بارے ایک  بہت ہی ضروری بات کو دھیان میں رکھنا چاہئے۔ افتاد طبع اور کام نہ کرنے کی خواہش یا ہڈ حرامی کی طرف رحجان جیسے منفی میلانات کے بے رحمی سے کچل دینے کی ہمت پیدا کرنا فرد کا ہی فریضہ  بنتا ہے۔ کیونکہ سہل پسندی اور آرام طبلی ایسی نفسانی طلب ہے کہ اگر اس کی واضح شناخت نہ ہو تو بندہ ایسی باتوں کو جو من جانب اللہ نہیں ہوتیں ان کو اللہ سے منسوب کرکے کام اور محنت سے جی چرا کر اس کو اپنی طبیعت کا تقاضا سمجھ کر کمر ہمت کھول دیتا ہے اور منزل اس کے خود تک پہنچنے کے انتظار ہی میں رہ جاتی ہے۔ محنت کرنے کے بعد ذہن اور جسم کو آرام دینے کی خاطر کچھ وقت تک کام نہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے لیکن فقط آرام، آرام اور مزید آرام کو ہی اپنا و طیرہ بنا لینا تو کسی بھی طور احسن نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ نے انسان کو ہاتھ پیر اس لئے نہیں دیئے کہ انسان توکل کے نام پر انہیں توڑ کر  ہی بیٹھ رہے۔ اللہ نے یہ جو اعضاء اور جوارح عطا کئے ہیں ان سے کام نہ لینے والوں سے ضرور باز پرس ہوگی۔
اس دنیا کے نظام کا قریب ے جائزہ لینے پر کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ پورا کائناتی نظام گروہ بندی کے تحت بنایا ہے۔ پرندے  ہوں یا درندے، چرندے ہوں یا حشرات الاض اور آبی جاندار، نباتات ہوں یا اجرام سِماوی کوئی ایسی مخلوق نہیں ہے جو کثرت سے نہ ہوا اور پھر ہو قسم کی مخلوق طرح طرح کی قسموں اور گروہوں میں تقسیم در تقسیم نہ ہوئی ہو۔ انسانوں کے اندر بھی یہ تقسیم کئی طرح سے نظر آتی ہے کہیں یہ عورت اور مرد ہے تو کہیں گورا، کالا، زرد اور گندمی۔ کہیں یہ تقسیم ملکوں اور برآعظموں کے حوالے سے ہوتی ہے اور کہیں ذات پات، برادری اور قبیلے اس بنیاد بن جاتے ہیں۔ کہیں یہ طبقاتی بنیادوں پر ہوتی ہے اور کہیں شعبہ جاتی۔
الغرض بہت سے عنوانات کے تحت کی جانے والی اس تقسیم میں ایک عنوان اچھے اور بُرے افراد کا بھی تسلیم کیا جاتا ہے اور اُن کے ذیلی گروہوں میں افسروں، ماتحتوں ، ملکوں اور ملازموں کے علاوہ راشی، کام چور، بد معاش، شرابی اور جوئے باز، ان پڑھ اور جاہل لوگوں کے اپنے اپنے گروہ ہوتے ہیں اور محنتی، مخلص، ایماندار، قابل، پڑھے لکھے اور علم رکھنے والے لوگوں کے بھی اپنے اپنے گروہ ہوتے ہیں۔ اب یہ گرو ہی اور طبقاتی تقسیم کون کرتا ہے۔ کچھ توہ ہے جو الہ نے خود کر دی ہے اور کچھ انسانوں کی اپنی اختراع اور ایجاد ہوتی ہے۔ مثلاً عورت یا مرد ہونا، کالا یا گورا ہونا، عرب یا عجم ہونا ایسی تقسیم ہے جس میں انسان کونہ تو کوئی اختیار ہے اور نہ ہی اُس کی اِس ضمن میں کوئی پیش چلتی ہے لیکن جہاں تک اچھا یا بُرا ہونے کا تعلق ہے تو یہ انسان کے اپنے بس میں ہوتا ہے۔ اور اس ہی وجہ سے انسان کو مکلّف قرار دے کر اس کو اس کے اعمال کا جواب دہ گر دانا جاتا ہے۔
انسان کے اندر نصب کمپیوٹر سے انسان کے لئے معین انفرادی پروگرام کی بابت جو اطلاعات انسان کے ذہن کی سکرین پر نشر ہوتی رہتی ہیں انسان کو ان اطلاعات کو کیسے موصول کرتا ہے  اور اُن پر کس حد تک عمل پیرا ہوتا ہے، یہ انسان کی اپنی صوابدید پر منحصر  ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خیر اور شر دونوں کا خالق تو ضرور ہے لیکن ان کے انتخاب کا حق اور اختیار اللہ نے انسان کو تفویض کیا ہوا ہے۔ انسان چاہے تو خیر کو اختیار کر لے اور چاہے تو نہ کرے ، چاہے تو شر کو اپنا لے اور چاہے تو اُس کو رد کر دے۔ انسان کے اندر ضمیر اُس قم قدم پہ راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اب انسان اپنے اختیار سے کام لیتے ہوئے اس راہنمائی کو قبول کرتا ہے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص ضمیر کی اس راہنمائی کو مسلسل اور لگا تار رد کرتا اور اس کے کہنے کے خلاف کرتا رہتا ہے تو بلا آخر ضمیر خاموش ہوتا چلا جاتا ہے۔ ضمیر  کی آواز کو سننے اور اُس پر دلجمعی سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنے والوں کو ضمیر کی راہنمائی سے زندگی میں کبھی محروم نہیں رہنا پڑتا۔ ضمیر کی آواز کیا ہے اس سے استعفا دے کا کی طریقہ ہوسکتا ہے؟ اس کے لئے آسان سا پیمانہ تو یہ ہے کہ ہر وہ کام جس کو کرنے کے بعد بُرا محسوس ہو، پشیمانی اور ندامت کا احساس ہو وہ درست نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ بُرا محسوس ہونا اور ندامت اور پشیمانی ضمیر انسانی کی طرف سے دی جانے والے اطلاع کی ہی ایک صورت ہوا کرتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی کام کو انجام دینے کے بعد خوشی اور طمانیت قلب کا احساس ہو تو وہ ضرور کوئی اچھا  کام ہوگا کیونکہ کسی کام کو کرنے کے بعد خوشی اور اطمینان  محسوس کرنا بھی ضمیر کی طرف سے فراہم کی جانے والی اطلاع ہی کی  ایک صورت ہوا کرتا ہے۔
اس ہی بات کا پھیلاؤ افتا د طبع  اور میلانِ طبیعت بھی ہے انسان کی طبیعت اسی کام کی  طرف رحجان رکھتی ہے جو کام کرنا اُس کو اچھا لگے اور اُس کو کرنے میں اُس کا دل لگے۔ اس ہی واسطے اساتذہ کرام اپنے  شاگردوں کو ان کی افتاد طبع اور میلان فطرت کے مطابق تربیت دینے پہ اصرار کرتے ہیں۔  اور اس ہی لئے وہ لوگ جو خود درس و تدریس کی طرف فطری میلا نہیں رکھتے وہ کوئی زیادہ کامیاب استاذ  بن بھی نہیں پاتے۔ اس سے ہی اس بات کو طے کرنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ ہر  بچے کو  ڈاکٹر  بنانے، انجنیئر بنانے، سائنسدان بنانے یا مصنف اور سیاستدان بنانے کی سوچ نہیں ہوسکتی حکومت اور اساتذہ  کے ساتھ ساتھ  والدین کو بھی اس بات کو  سمجھنا پڑے گا کہ بچوں کو اُن کی افتاد ، میلان اور رحجان کے مطابق ہی آئندہ شعبہ زندگی کا انتخاب کرنے دیا جائے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اُن کو یہ  ضرور سمجھایا جائے کہ وہ جس بھی شعبے کا انتخاب کریں اس کو درجہ کمال تک پہنچانے میں کوشاں رہیں۔
انسان جس بھی شعبہ کو اپنا لے اُس میں اپنی اپچ اور  ذہن کی وسعت کے مطابق وہ جتنی چاہے ترقی کر سکتا ہے۔ ایک بار حضرت خواجہ شمس الدین عظیمیؒ نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک شخص جوتے مرمت کرتا ہے۔ وہ دن بھر میں پرانے جوتوں کی مرمت اور پالش کرکے پچاس ساٹھ  روپے کما لیتا ہے۔ اب اگر وہ پرانے جوتوں کی مرمت کے ساتھ ایک آدھ نیا جوتا بنا کر فروخت کرنا شروع کر دیتا ہے تو لامحالہ اس کی آمدن بڑھ جائے گی اب اگر وہ صرف نئے جوتے بنانے کا کام کرنے لگ جائے اور دن بھر میں ایک یا دو جوڑے بھی بنا کر فروخت کر لے تو اُس کی آمدن ڈیڑھ دو سو روپے روزانہ ہو جائے گی۔ اب اگر وہ دو چار شاگرد پیشہ افراد کو ساتھ لگا لیتا ہے اور دن بھر میں آٹھ دس جوڑے بنا کر فروخت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے  تو اس کی آمدن تمام اخراجات کو نکال کر پانچ چھ سو روپے روزانہ تک ہوسکتی ہے۔ اور اگر اُس کے ذہن  میں سکت اور طاقت ہو اور وہ اس سطح سے بھی اوپر جاتا چاہے تو وہ کچھ سرمایہ جمع کرکے ایک آدھ سلائی مشین لے کر اپنے سامان کی تیاری  میں اضافہ کرکے پندرہ بیس جوڑے روزانہ بنا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب باٹا بھی تو ایک آدمی ہی تھا۔ اس نے اپنے ذہن اور اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا اور جوتے بنانے کا کارخانہ لگایا۔ اُنکی فروخت کا ایک نظام قائم کیا۔ اب پاکستان کے کس شہر، قصبے اور گاؤں میں   باٹا کا نام نہیں جانا جاتا۔ ہزاروں  جوڑے جوتوں کے بنتے ہیں۔ عورتوں مردوں کے علاوہ بچوں کے لئے طرح طرح کے ڈیزائنوں اور مختلف سا‏ئز کے جوتے بنانے کے لئے ، ان کے لئے خام مال کی خریداری سے لے کر اُن کی تیاری اور فروخت تک کا سارا نظام اُس نے اکیلے تنِ تنہا تو نہیں چلانا تھا۔ اُس نے کتنے ہی لوگوں کو اپنے ساتھ لگا لیا۔ یہ سب اپنے ذہن کو استعمال کرنے کی بات ہے۔ جو اپنے ذہن کا جتنا استعمال کرتا ہے۔ اتنا ہی وہ اس کام میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ اب اگر باٹا کے ذہن میں وسعت نہ ہوتی تو کیا وہ اپنے کام کو اتنا پھیلا سکتا تھا؟

اسی طرح آپ کسی بھی کام کو دیکھیں۔ آپ کو ایسی بے شمار مثالیں ملیں گی۔ جہاں کچھ لوگ ایک کام کو چھوٹے پیمانے پر کر رہے ہیں وہاں وہی کام کوئی دوسرا شخص بڑے پیمانے پر بھی کر رہا ہوتا ہے۔ اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر انسان اپنی افتاد طبع کے مطابق کوئی کام کرتا ہے اور اگر اس کے ذہن میں پھیلاؤ اور وسعت ہو تو وہ اُس کام کو بڑے پیمانے اور اچھے طریقے سے بھی کر سکتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

GUIDANCE NEEDS AND PROBLEMS OF YOUNG PEOPLE

HISTORY OF THE GUIDANCE MOVEMENT

"Aims and Objectives of Education"