تسلیم و رضا

تسلیم  و رضا
بحیثیت مسلم تسلیم و رضا ہماری خو ہونی چاہئے۔ اس بات کو اصلاً تو سب ہی مانتے ہیں لیکن جب عمل  کا وقت آتا ہے تو باہمی اختلافات کو گروہ بندیوں اور تفرقہ بازی تک پہنچا دینے سے شاید ہی کبھی کوئی کترایا ہو۔ حالانکہ اگر صرف اتنی سی ایک بات کسی طور ہمارے پلے بندھ جائے کہ حقیقت صرف ایک ہی ہوا کرتی ہے، جب حقیقت ایک ہی ہو تو اُس میں اختلاف کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ حقیقت شناسی کی بجائے ہم اپنے حقِ اختلافِ رائے کے استعمال پر اصرار کرنے کی ایسی بُری اور مضر لت کا شکار ہیں کہ آج اختلافِ رائے کے نام پر افراد سے لے کر اقوام تک سب ہی تفرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
اختلاف ہمارے اندازِ نظر کا ہوسکتا ہے، ہمارے طرزِ فکر کا ہو سکتا ہے یا پھر ہماری فہم کے فرق کا ہوسکتا ہے۔ حقائق میں نہ کبھی کوئی اختلاف ہوا ہے اور ہی  کبھی کوئی اختلاف ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے جس صلاحیت کی آبیاری کرنے کی ضرورت آج کسی بھی کام سے زیادہ ہوسکتی ہے، وہ ہے حقیقت شناسی کا ذوق۔ جب کسی فرد میں حقیقت شناسی کا ذوق پیدا ہو جاتا ہے تو اس کو دوسرے کا زاویہ نظر سمجھ بھی آ رہا ہوتا ہے اور وہ اُس فرق کو بھی دیکھ رہا ہوتا ہے جو اختلاف کا باعث ہوتا ہے۔
حقیقت شناسی کا ذوق پیدا کرنے کے لئے جس بات کی اہمیت سب سے زیادہ بنتی ہے وہ ہے غیر جانبدارانہ اندازِ نظر۔ کسی بھی معاملہ کی درست تفہیم تبھی ممکن ہوسکتی ہے جب اس معاملے کا جائزہ غیر جانبداری سے لیا جائے گا۔ کسی معاملے میں جس قدر جانبداری ہوگی معاملہ درست طور پر سمجھنا اسی قدر دشوار رہے گا۔ انسان کسی بھی معاملے کو یا تو جانبدار ہوکر سنتا اور سمجھتا ہے اور یا پھر غیر جانبدار ہوکر۔ جب انسان کسی معاملے کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھتا ہے تو وہ جانبدار ہوکر اس کو سمجھنا چاہتا ہے۔ تعصب اور ذاتی پسند و ناپسند اسی وجہ سے بنتے ہیں کہ انسان اُس معاملے کو غیر جانبداری سے نہیں دیکھ رہا ہوتا۔ اسی جانبدارانہ سوچ کو ہم ذاتی مفادات سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ اقربا پروری بھی اسی جانبدارانہ سوچ کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ میرٹ کا مطلب غیر جانبدار ہو جاتا ہی بنتا ہے۔ جب تک کسی معاشرے میں غیر جانبدارانہ سوچ کی طرزیں  عام نہیں ہو جاتیں اس معاشرے میں اقربا پروری، ذاتی مفادات اور رشوت کی لعنت پھٹکار بن کر برستی رہتی ہے اور جس معاشرے یا افراد کے گروہ میں غیر جانبدار انداز نظر عام ہو جاتا ہے وہاں میرٹ کا بول بلا تو ہوتا ہی ہے، تفرقی بازی اور گروہی اختلافات بھی ختم ہوکر رہ جاتے ہیں۔
بحث و مباحثہ اور مناظرے سب اسی جانبدارانہ انداز نظر کے شاخ سانے ہیں۔ کیونکہ ہر آدمی اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے جوش میں ہوش کا دامن تار تار کر رہا ہوتا ہے۔ اگر  گلیلیو نے کلیسا سے بحث نہیں کی تھ تو صرف اسی لئے کہ اس پر یہ حقیقت عیاں تھی کہ کسی حقیقت کو اپنے ثبوت کے لئے کسی چرب زبان کے لفظوں اور حرفوں کے کھیل کی کوئی ضرورت نہیں ہو کرتی۔ حقیقت میں اتنا تو دم ہوتا ہی ہے کہ وہ خود کو منوا سکتی ۔ اگر کسی حقیقت میں اتنا دم نہیں ہے تو پھر یا تو وہ حقیقت نہیں ہے اور یا پھر شعورِ انسانی اس کو سمجھنے ک ابھی اہل ہی نہیں ہو سکا۔ ہر دو صورتوں میں مناظرے اور مباحثے کی بہر حال کوئی گنجائش نہیں بنتی۔ جب مناظرے اور مباحثے کے دروازے بند ہو جائیں گے تو آپس کے اختلافات خود بخود کم ہوتے  ہوتے ختم ہوکر رہ جائیں گے۔ جب آپس کے جھگڑے کم ہوں گے تو ذہن تحقیق اور ریسرچ کی طرف متوجہ ہوں گے۔ اب یہ بات بڑو کی بجائے بچوں کو ہی سمجھا لی جائے تو شاید ہماری آنے والی نسلوں کو اغیار کے چنگل سے نکلنے کی راہ اپنانی آسان ہو جائے۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ سائنسی علوم کی تحقیق اور ریسرچ کی اولین شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنی پسند کے نتائج پر اصرار نہیں کریں گے اور جو آپ کے علم اور  مشاہدے میں آئے گا اُس کو نہایت غیرجانبداری سے نوٹ کرکے اس کو دوسروں کے سامنے پیش کر دیں گے اور اس بات کو سائنٹفک اپروچ کہ کر اس کی وکالت اور پرچار بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہ آج پوری دنیا میں سائنس کا بول بالا اور چلن تو ہے لیکن اس سائنٹفک اپروچ  کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہے۔ اس غیر جانبدارانہ انداز نظر کو جب تک لیباریڑی کی محدود فضا سے نکال کر اس کو اپنی پوری زندگی پر محیط نہیں کر دیا جائے گا انسان کو حقیقی معنوں میں گلوبل ولج کا باسی بننے میں دشواریاں پیش آتی رہیں گی۔
اگر کوئی وقم دنیا میں ممتاز و منفرد مقام حاصل کرنے کی حقیقی معنوں میں خواہش مند ہے تو اُس کو اپنے اساتذہ کرام سے یہ فرمائش ضرور کرنا ہوگی کہ وہ اپنے شاگردوں میں حقیقت شناسی کا ذوق ابھارنے میں اپنا کردار  ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہ ہونے دیں۔ اس ضمن میں معاشرے کے ہر فرد کو خواہ وہ والدین ہوں، اساتذہ ہوں، طلباء ہوں یا کوئی سرکاری اور غیر سرکاری اہل کار سب کو اپنے اپنے اندر غیر جانبدار اندازِ فکر و نظر پید ا کرنے کے لئے کو شان ہونا ہی ہوگا۔
غیر جانبدار اندازِ فکر و نظر کوئی ایسی چیز نہیں جو ہمارے لئے انوکھی یا اجنبی ہو۔ ہم عدالت کے جج کو یہی کام عملاً کرتے دیکھتے ہیں۔ وہ دونوں فریقوں کا مطمع  نظر الگ الگ سن کر غیر جانبداری سے فیصلہ کر دیتا ہے۔ نظامِ عدل کی پوری عمارت اسی غیر جانبداری کی بنیاد پر ہی تو کھڑی ہوتی ہے۔ اگر کسی فریق کو یہ شبہ بھی ہو جائے کہ ج غیر جانبدار نہیں رہا تو قانون   اس کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنا کیس کسی دوسرے جج کےپاس لے جائے۔ یہ جو ہمارے یہاں نظامِ عدل کی بابت تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے وہ اسی لئے ہوتا ہے کہ عدلیہ کی جانب سے غیر جانبداری کے مظاہرے میں کمی رہ جاتی ہے۔ اگر کسی ملک کی عدلیہ غیر جانبداری کا اظہار کرنے میں کوتاہی نہیں ہونے دیتی تو اُس ملک کا پورا نظامِ عدل انتہائی موقر اور معتبر مانا جاتا ہے۔
جب سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کرام اپنے شاگردوں کے غیر جانبداری کا درس نہیں دیتے تو وہ بچے بڑے ہوکر عدالت میں بیٹھ کر اگر غیر جانبداری کا  مظاہرہ کرنے میں کبھی کبھی ناکام ہو جاتے ہیں تو اس میں اُن کا انتا زیادہ قصور نہیں مانا جاسکتا۔ معاشرے میں عدل و انصاف کی حکمرانی کا تقاضا ہر ذی شعور انسان کرتا ہے۔ اس کا ا کے سواء اور کوئی حل ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم غیر جانبدار ہوکر سوچنے کی عادت کو عام کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ لوگوں  میں اس بات شعور پیدا کریں کہ غیر جانبدار طرزِ فکر سے ہی ہمارے معاشرتی اقدار میں قانون کا احترام بڑھے گا۔ لوگوں میں قانون سے استثنائیت اور اس سے بالاتر ہونے کا جو شوق روز افزوں ہوتا چلا جا رہا ہے اُس کو لگام دینے کا اگر کوئی ممکن  طریقہ ہے تو وہ یہی بنتا ہے کہ افراد معاشرہ غیر جانبدار طرز فکر کو خود اپنے اندر رائج کرنے کا تہیہ کرلیں۔ اگر معاشرے کا ایک فرد کسی قانون سے استثناء طلب کرتا ہے تو پھر پورا معاشرہ اُس بات کا بُرا مناتا ہے اور پھر وہ کچھ اور کرسکتا ہے یا نہیں کم از کم اس کے دل سے قانون کا احترام ضرور کم ہو جاتا ہے۔
بات قانون بنانے کی آجائے  تو غیر جانبدار طرزِ فکر کا حامل ہونا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اگر قانون بنانے والوں نے قانون کو کسی خاص گروہ کے مفاد کے پیش نظر بنایا ہو تو اس کا احترام زیادہ دیر تک نہیں کروایا جاسکتا۔ المیہ تو یہ ہے کہ مذاہب عالم میں سے کسی بھی مذہب کی تعلیمات اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہیں کہ انسان جانبدار سوچ کو اپنا کر زندگی کو محدود طرزوں میں بسر کرے۔ لیکن اس کے باوجود صورت حال کچھ یوں ہے کہ جس مذہب نے اس بات پر جتنا زیادہ اصرار کیا اور اپنی تعلیمات میں اس بات پہ جتنا زیادہ زور دیا اُسی مذہب کو ماننے والوں نے اتنا ہی اس بات کو کم سنا، اپنا یا اس بھی کم اور عمل اس سے بھی کم کیا۔ ملکی قانون  سازی، حکمرانی اور سیاست سب ہی شعبے اس صفت و صلاحیت کے بغیر وقتی اور انفرادی مفادات کا کھیل بن کر رہ جاتے ہیں۔ وقتی اور انفرادی مفادات کے کھیل کا احترام اتنی  ہی دیر ہوتا ہے جب تک بات لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے اور جب لوگ اس بات کو سمجھ لیتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ یہ اُن سے متعلق بات نہیں ہے وہ اس کا احترام کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
قوانین کا  احترام کرنے کی بات ہو یا  اپنی زندگی کو بہتر طور پر بسر کرنے اور گزارنے کی انسان اس ضمن میں حالات کا تذکرہ کئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ معاشرتی ادارے ہوں یا افرادِ معاشرہ کی انفرادی زندگی کے حالات ہر دو کو مختلف ادوار اور حالات سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ افراد ان حالات کو اچھا یا بُرا کہتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ انسانوں کے اعمال کے انعام یا  شامت کے طور پر سامنے آتے ہیں اور دوسرے  یہ کہ فطرت انسان کے اندر  پوشیدہ اور مستور صلاحیتوں کو سامنے لانے کے لئے، اُن کی شخصیت اور کردار کی مخفی گوشوں کو خود اُن پر آشکارا کرنے کے لئے انہیں اچھے اور بُرے حالات سے گزارتی ہے ۔ اچھے اور بُرے حالات کی بابت ایک سوچ یہ بھی ہے کہ بُرے حالات نہ ہوں تو اچھے کی قدر نہیں ہوسکتی اور ایک اندازِ فکر یہ بھی ہے درحقیقت حالات انسان کی شخصیت اور کردار کا اصل امتحان ہوتے ہیں۔ اچھے حالات میں تو ایک بُرا انسان بھی اچھے رویے کا مظاہرہ کر لیتا ہے لیکن اسل میں اچھا انسان وہی ہوتا ہے جو بُرے حالات میں بھی اچھے رویے کا مظاہرہ کر سکے۔ جس میں  صبر و رضا کا مادہ ہو وہی انسان حالات کی اچھائی اور برائی کی پرواہ کئے بغیر ان سے ہنسی خوشی گزرتا چلا جاتا ہے۔
صاحبانِ علم حضرات کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو صبر و رضا کے اصل مفہوم سے واقف ہونے کے بعد اس کے عامل بن جاتے ہیں وہ 'ابو الوقت' کہلاتے ہیں جبکہ ان صفات سے عاری لوگ ابن الوقتی سے آگے بڑھنے کی بات کو بھی ممکن نہیں مانتے، ان کو اپنانا اور  اِن پر کار بند رہنا تو بہت دور کی بات ٹھہرتی ہے۔ حالات کو اچھا بُرا ماننے کی حدوں سے گزرنے والے افراد کے ذہن میں اتنی قوت اور طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ خود اپنے حالات پیدا کرنے پر قدرت حاصل کر لیتے ہیں۔ عام آدمی کے نزدیک ایسی باتیں ایک چاشنی والے ادبی جملے سے شاید زیادہ نہ ہوں لیکن غیر جانبدارانہ اندازِ نظر رکھنے والا ذہن ان پر غور کرنے کے بعد اُس میکانزم کو دریافت کرسکتا ہے جس کو اپنانے کے بعد پا مردی اور استقامت سے حالات کا مقابلہ کرنے والے لوگ نا موافق  حالات کو بھی اپنے حق میں منقلب کرنے کی صلاحیت اور استعداد پیدا کرسکتے ہیں۔
جن لوگوں میں نا موافق حالات کو اپنے حق میں تبدیل کر لینے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے وہ سب بھی تو اسی دنیا کے باشندے ہوتے ہیں۔ ہمارے اور آپ جیسے لوگ، فرد و بشر ہی ہوتے  ہیں۔ ایسے افراد کی تربیت حالات اور زمانہ خود کرتے ہیں۔ اب سوال یہ  ہے کہ کیا ہمارے نظامِ تعلیم میں کوئی ایسی گنجائش ہے کہ ہم ایسے افراد کی امید کر سکیں جو زمانے سے اپنی شرائط منوانے کی ہمت اور سکت رکھتے ہوں اور حالات کو اپنی مرضی کی نہج پر موڑنے کا شعور اور استعداد رکھتے ہوں ایسی درس گاہوں کی جہاں ایسے افراد تیار کئے جاسکتے ہوں جتنی ضرورت آج کے دور کو ہے شاید آج سے پہلے کبھی کسی اور دور میں نہ تھی۔ ایسی صلاحیتوں کے حامل افراد کو تیار کرنے میں جو مشکل درپیش ہے وہ یہی ہے کہ ہمارے پاس ایسے اساتذہ کرام نہیں ہیں جو ایسے افراد کی تیاری کا عظیم کام اپنے توانا کندھوں پر اٹھا سکتے ہوں اور اگر کہیں ایسے اساتذہ ہیں بھی تو ایسے افراد دستیاب نہیں ہو پاتے جو اپنی صلاحیتوں کو اس حد تک نکھارنے پر آمادہ ہوں۔ نہ سرف آمادہ ہوں بلکہ اس کے لئے جس کٹھن تربیت سے گزرنا پڑ سکتا ہے اُسکے لئے بھی آمادہ تیار ہوں۔ وہ مکمل خود سپردگی جو اس قسم کی تربیت کے لئے شرطِ اول ہوا کرتی وہ آج کے مادیت پرست ماحول میں دستیاب ہونا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس کی ایک ہی صورت بن سکتی ہے کہ پہلے ہم اپنے نظام تعلیم کو ان خطوط پر استوار کرلیں جو بچوں اور طلباء کے ذہنوں سے اس مفادات کے حوالے سے سوچ کو اولیت دینے والے طرزِ فکر کی اصلاح کرسکتا ہو۔
جب ہماری ایک نسل ایسی طرزِ فکر کی حامل ہو جائے گی جس کے حامل افراد انفرادی سوچ، وقتی فائدے اور ذاتی مفادات سے اوپر اُٹھ کر اجتماعی سوچ رکھتے ہوں گے، دور اندیشی سے کام لینا جانتے ہوں گے اور ملکی اور قومی مفاد کو فوقیت دینے کا جذبہ رکھتے ہوں گے تو پھر یقیناً ایسے اساتذہ اور ایسے بچے وافر تعداد میں دستیاب ہوسکیں گے جو اپنے ذہن اور روح کی ایسی تربیت کے لئے خود کو مکمل طور پر وقف کر سکیں گے جس کے نتیجے میں وہ زمانے کی طنابیں اپنے ہاتھوں میں تھام سکیں گے۔ اقبال ایسے افراد کو مرد کامل کے نام سے ہم سب بہت پہلے متعارف کروا چکا ہے۔


Comments

Popular posts from this blog

GUIDANCE NEEDS AND PROBLEMS OF YOUNG PEOPLE

HISTORY OF THE GUIDANCE MOVEMENT

"Aims and Objectives of Education"