حرفِ آخر
حرفِ آخر نہ مانا جائے تو کوئی بات بھی حرفِ آخر نہیں ہوتی اور اگر مان لیا جائے تو کوئی بھی بات جو دل میں اتر جائے وہی حرفِ اول بھی ہوجاتی ہے اور اسی کو حرف آخر بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں نظامِ تعلیم کی بابت جو کچھ کہا گیا ہے وہ اس نظام میں بہتری لانے کی اس خواہش کے تحت کہا گیا ہے جو ہم سب کی ایک مشترک آرزو ہے۔ یہ خواہش بھی کوئی نئی آرزو نہیں ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کی طرف گامزن رہنا چاہتی ہے۔ جو حاصل ہو جاتا ہے اس سے مزید بہتر کی طلب کرتی ہے۔ جب بچہ گود سے اتر کر گھٹنوں کے بل چلنا شروع کرتا ہے تو کیا ماں اور کیا باپ بلکہ بچہ خود بھی پیروں پہ کھڑا ہونے کی تگ ودو شروع کر دیتا ہے اور جب وہ قدم قدم چلنا سیکھ جاتا ہے تو وہ دوڑنے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔ آج ہمارا نظامِ تعلیم جس بھی مقام پر ہے وہ اس مقام تک اچانک اور اتفاقی طور پر نہیں پہنچ گیا۔ اس کے لئے کی گئی انفرادی اور اجتماعی کوششیں نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔ قیام پاکستان کے وقت ملک میں ہائیر سیکنڈری سکولوں کی تعداد ۴۵۴ تھ جو اب پندرہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ سب کچھ یونہی نہیں ہوگیا۔ اس ترقی پہ ہم اللہ تعالی