Posts

تین ستون

تین ستون کہا جاتا ہے کہ تعلیمی نظام کا خیمہ جن تین ستونوں پر کھڑا ہوتا ہے وہ والدین، طلباء اور اساتذہ کرام ہیں۔ یہ تینوں اس عمارت کے وہ ستون ہیں  جن میں سے ایک بھی کمزور ہو تو یہ عمارت اپنا و جود بر قرار نہیں رکھ سکتی۔ یہ تینوں ستون کسی مثلث کے تین اضلاع کی طرح ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ اگر  ایک بھی ضلع اپنی جگہ سے ہٹا دیا جائے تو مثلث باقی نہیں رہ سکتی۔ لیکن بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ان تین کے علاوہ ایک فریق اور بھی ہے جواس نظام کا ایک اہم رکن ہے اور وہ ہے حکومتِ وقت۔ حکومتِ وقت کا تعلق والدین ، طلباء اور اساتذہ کرام کی اس ٹرائیکا سے کچھ اس قسم کا ہے کہ وہ اس نظام کی مثلث کے گرد اگر د محیط ہوتی ہے اور اس مثلث کا ایسا   مرکزی نقطہ بھی ہوتی ہے جس پر اس مثلث کے تینوں زاویوں کا وجود قائم ہوتا ہے۔ بلکہ کچھ یوں ہے کہ حکومت وہ رسی ہے جو اس خیمے کے تینوں بانسوں کو آپس میں باندھے رکھنے کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ اگر حکومت کی گرفت کمزور ہو یا غلط ہو تو اول تو یہ خیمہ زمیں بوس ہو جاتا ہے ورنہ اس میں جھول تو ضرور ہی آجاتا ہے اور تیز ہوا کا ایک آدھا جھونکا ہی اس کوز میں بوس

تعلیمی ادارے

Image
تعلیمی ادارے کسی بھی  تعلیمی ادارے کو قائم کرنے اور اس کو چلانے کے لئے عمارت، عملہ بشمول اساتذہ اور طلباء کے علاوہ جو چیز بہت ضروری تصور کی جاتی ہے وہ ہے نصاب اور درسی کتب۔ اِن مرئی  عناصر  بھی ایک تعلیمی ادارے کی ضرورت ہوتے ہیں۔ مثلاً اُس ادارے میں ڈسپلن ، ماحول ، اساتذہ اور طلباء کی لیاقت اور قابلیت کا معیار وغیرہ۔ لیکن دیکھا جائے تو کیا ایک تعلیمی درس گاہ قائم کرنے کے لئے کیا صرف یہی کچھ درکار ہوتا ہے اور کیا یہی کچھ واقعی کافی ہے ؟ اگر یہ سب کچھ واقعی کافی ہوتا تو پھر ہم سب من حیث القوم کس امر کی بابت شکوہ سنج ہیں؟ آخر وہ کیا ہے جو ان سب کچھ کے ہونے کے باوجود ہمیں نہیں مل رہا اور ہم اپنے تعلیمی نظام سے، اپنی تعلیمی درس گاہوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہو پا رہے ہیں۔ کچھ تو ایسا ہے جس کی کمی ہم محسوس کرتے ہیں لیکن اس کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا ر ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہی ہوگی کہ جس  کمی کی طرف نہ صرف ہمارا وجدان بلکہ ملکی اور عالمی حالات بھی اشارہ کناں ہیں وہ  کمی ہے کیا اور ہم اس کمی کو اگر دور کرنا چاہتے ہیں تو ایسا ہونا کیسے ممکن بنایا جاسکتا؟ ایسا

کل آج اور کل

Image
کل آج اور کل نوع انسانی کی ابتداء اور آغاز کی بابت بنیادی طور پر دو قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں ۔ ایک انسان کی اپنی کاوشِ فکر کے تحت بننے والا نظریہ اور دوسرا الہامی طور پر سامنے آنے والا نظریہ ، یا  یوں کہ لیجئے کہ ایک نظریہ فلاسفہ اور حکماء کا وضع کردہ ہے اور دوسرا انبیاء کا ظاہرہ کردہ ۔ فلاسفہ اور حکماء کے وضع کردہ نظرئے مظاہر کو اولیت دینے اور قیاس کے زور پر قائم کردہ مفروضات کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں اور وحی اور الہام کی طرزوں پر حقیقت کی جستجو پر اصرار کرتے ہیں۔ اُن کی فکر خالقِ  کائنات کی سوچ، رضا اور مشیّت کو سمجھنے کی خوگر ہوتی ہے۔ وہ مظاہر کی اصل اور کُنہ تک رسائی میں کامیاب بھی رہتے ہیں کیونکہ خالقِ کائنات سے ربط اور تعلق کے سبب وہ اصل حقیقت سے آگاہ کئے گئے ہوتے ہیں۔ گروہِ فلاسفہ کے نظریہ کی بنیاد یہ ہے کہ یہ کائنات ایک اتفاقی حادثے کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اور اس میں ارتقاء کا عمل جاری و ساری ہے۔ اس سوچ کے تحت وہ سمجھتے ہیں کہ انسان پانی میں حادثاتی طور پر بننے والے خلیہ کی ایک انتہائی ترقی یافتہ  صورت ہے اور اس عملِ ارتقاء کی کڑیاں  گنواتے ہوئے وہ یہ