تعلیمی ادارے

تعلیمی ادارے
کسی بھی  تعلیمی ادارے کو قائم کرنے اور اس کو چلانے کے لئے عمارت، عملہ بشمول اساتذہ اور طلباء کے علاوہ جو چیز بہت ضروری تصور کی جاتی ہے وہ ہے نصاب اور درسی کتب۔ اِن مرئی  عناصر  بھی ایک تعلیمی ادارے کی ضرورت ہوتے ہیں۔ مثلاً اُس ادارے میں ڈسپلن ، ماحول ، اساتذہ اور طلباء کی لیاقت اور قابلیت کا معیار وغیرہ۔ لیکن دیکھا جائے تو کیا ایک تعلیمی درس گاہ قائم کرنے کے لئے کیا صرف یہی کچھ درکار ہوتا ہے اور کیا یہی کچھ واقعی کافی ہے ؟ اگر یہ سب کچھ واقعی کافی ہوتا تو پھر ہم سب من حیث القوم کس امر کی بابت شکوہ سنج ہیں؟ آخر وہ کیا ہے جو ان سب کچھ کے ہونے کے باوجود ہمیں نہیں مل رہا اور ہم اپنے تعلیمی نظام سے، اپنی تعلیمی درس گاہوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہو پا رہے ہیں۔ کچھ تو ایسا ہے جس کی کمی ہم محسوس کرتے ہیں لیکن اس کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا ر ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہی ہوگی کہ جس  کمی کی طرف نہ صرف ہمارا وجدان بلکہ ملکی اور عالمی حالات بھی اشارہ کناں ہیں وہ  کمی ہے کیا اور ہم اس کمی کو اگر دور کرنا چاہتے ہیں تو ایسا ہونا کیسے ممکن بنایا جاسکتا؟
ایسا نہیں ہے کہ سب ہی تعلیمی اداروں میں یہ سب کچھ پوری طرح دستیاب ہے لیکن ایسا بھی تو نہیں کہ سب ہی تعلیمی ادارے ان سب چیزوں سے کلی طور پر محروم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں اور درس گاہوں کی غالب اکثریت ان سہولتوں سے جزوی طور پر ضرور محروم ہے۔ لیکن جن اداروں اور درس گاہوں میں یہ سب کچھ پوری طرح دستیاب ہے کیا ہم ان کی کارکردگی کو پوری طرح سے اطمینان بخش قرار دے سکے ہیں؟اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر ہم اُن کی کارکردگی سے واقعی مطمئن ہوتے تو ہمارا سیدھا ادا سا مطالبہ یہ ہوتا کہ ہمارے باقی تعلیمی اداروں کو بھی اُن ہی جیسا بنا دیا جائے۔
اب واقعتاً  یہ ایک عجیب سی بات ہے کہ ہم اپنے شکوہ کا اظہار تو کرتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام اور اُس کے تحت کام کرنے والے ادارے اور درس گاہیں ٹھیک ہونے چاہئیں لیکن کسی ایک بھی درس گاہ کا نام بطور ماڈل یا مثال دینے سے کتراتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ بعض لوگوں کے نزدیک ہوسکتا ہے کہ اس کی یہ وجہ ہو کہ 'اجی کچھ نہیں' سب ٹھیک ہے، ہم تو اس بحث کو بس یونہی بطور فیشن کیا کرتے ہیں۔ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ کچھ کے نزدیک یہ سب محض ہماری ناشکری کے ذیل میں آتا ہو کہ ہم تو بس یونہی با وجہ ہی شا کی ہیں ورنہ اب اس سے بہتر اور کیا ہو؟ اور کچھ ایسا ہے بھی جو ابھی نہیں ہو پا رہا تو وہ سب اپنے وقت پہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔
لیکن معدودے چند افراد ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ چیز جس کا فقدان ہے اور ہم اس کی صحیح نشاندہی نہیں کر پا رہے ، وہ ہے درست مقصد اور مناسب عزم۔
سرکاری انتظام کے تحت بننے والی درس گاہیں ہوں یا نجی شعبے میں قائم ہونے والے تعلیمی ادارے، ہر دو کے اصل مقاصد اور لوگو کو بتائے گئے مقاصد میں اتنا زیادہ فرق اور تفاوت ہوتا ہے کہ ان دونوں کا موازنہ کرنے پر ایک کو غلط اور جھوٹ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔
سرداری انتظام  کے تحت قائم ہونے والے تعلیمی ادارے اور سکولوں کے بنانے کا اصل مقصد عوام کا ایک مطالبہ پورا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کیونکہ حکومت عوام سے جو ٹیکس اکٹھے کرتی ہے اُن کی بابت یہی بتاتی ہے کہ وہ انہیں عوام کی بھلائی کے کاموں پر خرچ کرے گی۔ اب اس مد میں کل بجٹ کا جتنے فیصد صرف کیا جاتا رہا ہے اُس کو دیکھتے ہوئے تو اس بات کو بھی تسلیم کرنا دشوار ہی لگتا ہے۔ بہر حال لوگوں کو بتایا یہ جاتا ہے کہ حکومت یہ کام اس لئے کر رہی ہے تاکہ لوگوں کو خواندہ بنایا جاسکے ، ان کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا جاسکے تاکہ ملک ترقی کر سکے، ملک میں خوشحالی آسکے ، وغیرہ وغیرہ۔ ادھر نجی شعبے میں قائم کی جانے والی درس گا ہوں میں اصل مقصد اپنے لئے روزگار اور کمائی کا ایک سلسلہ قائم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا لیکن کہنا اُن کا بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ عوام کے غم میں دبلے ہو رہے ہیں اور خدمتِ خلق کے جذبے کے ہاتھوں مجبور ہوکر انہوں نے یہ بھاری بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔ اب اگر یہ دونوں یعنی سرکاری شعبہ اور نجی اور غیر سرکاری ادارے اپنے بتائے گئے مقاصد کو ہی اپنے اصل مقاصد بنا لیں اور پورے عزم سے ان کے حصول کے لئے کوشاں ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ حالات میں سدھار پیدا نہ ہو۔
اس سے بھی زیادہ بہتر بات تو یہ ہوگی کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں اور درس گاہوں کے قیام کے اصل مقاصد کو از سرِ نو واضح کریں۔ یہ طے کریں کہ ہم یہ سب اس لئے کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر انسان بنانا ہے، اُن کو اس لئے خواندہ بنانا ہے کہ وہ کتابیں پڑ ھ کر علم حاصل کر سکیں۔ نا خواندگی   کے  خلاف اس لئے جنگ کرنا کہ اس سے دوسرے ملکوں اور عالمی اداروں سے امداد ملتی ہے اور اس لئے جنگ کرنا کہ ہم دوسری عوام کے سامنے سر بلند ہو سکیں کہ ہم وہ قوم ہیں جس کا بچہ بچہ پڑھا لکھا ہے ، ان دونوں باتوں میں  جو فرق ہے کاش کہ وہ فرق ہم پہ کچھ اس طرح سے واضح ہو جائے کہ ہم اول الذّکر کے لئے  سوچنا تک چھوڑ دیں۔ ہم پڑھنا لکھنا اس لئے نہ سکھائیں کہ اس سے ہمیں کچی یا پکی نوکری ملے گی بلکہ لکھنا پڑھنا اس لئے ہو کہ اس سے ہمارے ذہن کھلیں گے، ہماری سوچوں کو جِلا ملے گی، ہمارے افکار سدھریں گے، ہماری شخصیت میں نکھار آئے گا اور ہمارا کردا ر بنے گا۔
حکیم محمد سعید (مرحوم) نے یہ بات اپنی زندگی میں بار بار کہی کہ تعلیم بہت ہو چکی اب تربیت ہونا چاہئے۔ اس بات سے اُن کا مقصد بالکل واضح تھا کہ اب ہمارے تعلیمی اداروں کو اپنی  نہج تبدیل کرکے لوگوں کو محض خواندہ بنانے سے بڑھ کر اُنکی ایسی تربیت کرنا  چاہئے جس سے وہ ایک بہتر انسان، اچھے شہری اور معاشرے کے کار آمد فرد بن سکیں۔
اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں اور درس گاہوں کا انتظام چلانے والے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ کسی بھی درسگاہ، خواہ وہ  کسی دیہات کا ایک پرائمری سکول ہی کیوں نہ ہو، اپنے یہاں داخل ہونے والے بچوں کی شخصیت کی تنظیم اور کردار سازی پر آمادہ و تیار نہیں ہو جاتی کچھ نہیں بدل سکتا۔ سب کچھ ایسا ہی رہے گا۔ نہ جہالت ختم ہوگی اور نہ کرپشن۔
تعمیر و  تنظیمِ شخصیت اور کردار سازی کے کام کا آغاز کرنے کے لئے نہ تو کسی دوسرے ملک سے ماہرین منگوانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی عالمی ادارے کے سامنے امداد کے لئے دستِ سوال دراز کرنے کی کوئی حاجت۔ ضرورت ہے تو صرف اپنے اندر یہ ارادہ کرنے کی کہ ہ  اپنے بچوں کو ایسی تربیت دے کر رہیں گے جس سے اُن کی شخصیت ابھرے اور ان کا اندر کا اچھا انسان پوری طرح سے باہر آسکے۔ انہی عمارات، انہی میز کرسیوں ، ڈیسکوں یا ٹاٹوں اور چٹائیوں پر بیٹھنے والے طلباء کو یہی اساتذہ جو کچھ بتا اور سکھا رہے ہیں اُس میں اتنی سی تبدیلی ہی تو لانا ہے کہ بتانے والے کے جذبات اور زاویہ نظر بدل جائیں، اس کی اپنی شخصیت اتنی مسحو رکن  ہو جائے کہ بچے اُس کی بتائی ہوئی بات کو اپنانے کے لئے مچل مچل جائیں، ان کو سکھانے والے کا کردار اتنا شاندار نہ سہی اتنا جاندار تو ہو کہ وہ خود بچوں کے لئے ماڈل بن جائیں نہ کہ وہ تاریخ کے ایسے کرداروں کو ہی ڈال بنا کر پیش کرتے رہیں جن کے بارے میں بڑے ہوکر بچوں کے نظریات اُلٹی قلا بازی کھا جاتے ہیں۔
ہوسکتا ہے سوچنے میں یہ کام بہت دشوار ہو لیکن درحقیقت اتنا دشوار ہر گز نہیں ہے۔ اس ام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ صرف اپنے اندر خلوص پیدا کرنے کی، اپنے کام سے محبت پیدا کرنے کی اور اپنے اندر دوسروں کی بہتری کے لئے کوشاں ہونے کی خواہش کو پروان چڑھانے کی۔ جب تک ہم اپنے اندر یہ صفات پیدا کرنے سے کتراتے رہیں گے ہم دوسروں سے اور خصوصاً اپنے شاگردوں، طلباء اور تلامذہ سے کس منہ سے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ وہ ان صفات کے حامل ہوں۔ یاد رکھنے کو اتنا ہی بہت ہے کہ اگر ایک کام ہم خود نہیں کرسکتے تو دوسرے سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہمارے کہنے پر اسے کرتا رہے گا، ایک خوش فہمی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
اگر ہمارے تعلیمی اداروں کے مالکان درس و تدریس کے اس پیغمبری کام کو پروفیشن  (Profession)  کے بجائے اس کو اپنا پیشن (Passion)  بنالیں تو کیا  اُن کی کمائی میں کوئی کمی واقع ہو جائے گی  یا اُن کو تنخواہ نہیں ملے گی؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں اُس کو بہتر انداز اور زیادہ  سلیقے سے کرنے میں آپ کی نیک نامی میں اضافہ ہی ہوگا، کمی نہیں۔ دوسروں کا بھلا ہوگا تو آپ کا کیسے نہیں ہوگا؟
اس وقت جو صورتِ حال ہے اس پیشِ نظریہ بات بڑے ہی و ثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ پیشن   (Passion)  تو بہت دور کی بات ہے، اس وقت تو ہم اس کو بطور پروفیشن  (Profession)  بھی نہیں کر رہے ۔ اگر درس و تدریس کو ہم نے پروفیشنل اپروچ کے ساتھ ہی نبھایا ہوتا  تو بھی حالات اتنے دگر گوں نہ ہو چکے ہوتے کہ سرِ عام ڈگریاں تک بکنے لگتیں اور ملک انتہائی کرپٹ ممالک کی فہرست میں شامل ممالک کی سربراہی کے اعزاز سے نوازا جا رہا ہوتا۔ ایٹمی طاقت ہونے کے اعزاز سے مشرف ہونے کے باوجود  خطِ غربت کے حوالے سے ۱۴۷ واں ملک بن کر فخر سے پھولے نہ سما رہا ہوتا۔
اس وقت ہمارے تعلیمی ادارے اور درس گاہیں درپیش حالات کے دباؤ، اپنے مفادات اور وقتی فوائد کے حصول کی خاطر محض درسی اور نصابی سرگرمیوں (Academics)  تک محدود ہو کر رہ چکے ہیں۔ غیر نصابی (Extra Curricular)   سر گرمیوں کا مطلب سال میں ایک آدھ بار سٹڈی ٹور کے نام پر پکنک منانے کا مترادف بن چکا ہے۔
نصابی سرگرمیوں کا مفہوم محدود ترین معنوں میں لیتے ہوئے تعلیمی اداروں میں نصاب میں شامل کتب کی خواندگی کروانا اور انہیں حفظ یاد کروانا کافی  سمجھا جاتا ہے۔  اس کی بنیادی وجہ ہمارا امتحانی نام ہے، جو حافظے کی بنیاد پر قابلیتوں کی سند جاری کرکے یہ باور کروا رہا ہے کہ لوگوں میں لیاقت اور اہلیت بھی پیدا کر دی گئی ہے۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ گریجویشن کرنے تک ایک مضمون کی محض ایک کتاب پڑھنے میں پورا ایک سال اور بعض صورتوں میں تو دو سال کا عرصہ بھی  صرف ہو جاتا ہے اور اُس کے باوجود کتاب ہے کہ ختم ہوکر نہیں دیتی۔ اکثر طلباء اس امر کی شکایت کرتے ملتے ہیں کہ ہمارا کورس مکمل نہیں ہو سکا اب ہم امتحان میں کیا کریں گے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب طلباء کتابوں سے ہی بیزار ہوکر نصاب کی اصل کتب کی بجائے گائیڈوں اور خلاصوں پہ تکیہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں ہمارا کتب بینی کے ذوق کے فقدان کا ماتم کیا معنیٰ رکھتا ہے؟
کتنے تعلیمی ادارے ایسے ہیں جہاں طلباء میں غور و فکر کی صلاحیتوں کو ابھارنے، ان  میں سوچ بچار کی عادت کو راسخ کرنے اور معاملہ فہمی کی تربیت دینے کا کوئی باقاعدہ انتظام ہے؟ شاید ایک بھی نہیں۔بلکہ یہاں تو حالت یہ ہے کہ اگر کوئی بچہ فطری تجسس سے مجبور ہوکر کسی بات کو سمجھنے کے لئے پہ در پہ چند ایک سوال پوچھ لے تو اس کو ڈانٹ دیا جاتا ہے اور بعض اداروں میں تو ایسے بچوں کو سزا تک دینے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اس کی بالکل سامنے کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ خود اساتذہ کرام ایسی صفات سے عاری اور نابلد ہونے کے سبب بچوں کو بھی ان سے محروم کرنا ضروری گرد انتے ہیں۔ حالانکہ اگر فقط اسی بات کو یقینی بنا لیا جائے کہ بچوں کو اُن کے پوچھے گئے سوالوں کے تسلی بخش اور شافی جواب ملیں اور سوال پوچھنے والے بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو طلباء کے اندر غور و فکر کرنے کی صلاحیت ابھرنے کے امکانات بہت بڑھ سکتے ہیں۔
اسی طرح  تعمیر و تنظیمِ شخصیت حوالے سے دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی ایسا طالبِ علم ہو جو اپنی شخصیت کی دلکشی کا ذمہ دار اس تعلیمی ادارے کو قرار دینے پر آمادہ ہو جہاں اس نے تعلیم پائی ہو۔ خوش مزاجی،برداشت اور وسیع القلمی سے آراستہ بچہ ہر ایک کو بھلا لگتا ہے۔ ان صفات کو بچوں میں پیدا کرنے اور ابھارنے کے لئے تعلیمی ادارے کے ماحول میں جو تبدیلی ناگزیر ہے وہ یہ ہے کہ اُس میں ڈر اور  خوف کی بجائے تقدیس کا احساس ہو۔ ڈسپلن کی بنیاد خوف کی بجائے احترام کروانے کے لئے محض احکامات کا سہارا لینے کی بجائے اساتذہ کو اپنی شخصیت میں سر  بلندی اور وقار پیدا کرنا ہوگا۔
اس کا ایک آسان اور مجرب طریقہ تعلیمی ادارے میں بچوں کے شخصی اور ذاتی مسائل کے حل اور ان کی پریشانیوں کا علاج تجویز کرنے کا ایک علیحدہ انتظام کر دینا بھی ہو کتا ہے۔ اس انتظام کا فوری فائدہ ایک تو یہ ہوتا ہے کہ بچوں میں اپنے اساتذہ پہ بھروسہ اور اعتماد بڑھ جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ اساتذہ کو یہ موقع بھی ملتا ہے کہ وہ اپنے تلامذہ میں پیدا ہونے والے کسی بھی قسم کے احساس کمتری یا بر تری کا بروقت تدارک کر سکتے ہیں۔ اس سے جہاں ایک طرف بچوں کے مسائل کے حل ہونے کی راہ نکلتی ہے وہاں دوسری طرف بچوں کے دل میں اپنے اساتذہ کے لئے محبت اور احترام کے جذبات جا گزیں ہونا شروع ہو تے ہیں۔
اسی طرح کردار سازی کی  بابت بھی کسی درس گاہ یا تعلیمی ادارے میں کوئی خاص انتظام یا اہتمام نہیں ملتا۔ جہاں کہیں کوئی کوشش اور کاوش ہو بھی رہی ہوتی ہے تو اس کو محض ایک انفرادی استثنا کے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ کسی بھی انسان کے کردار کی سب سے بڑی خوبی اس کا مخلص ہونا ہے۔ محض خطوط کے آخر میں 'فقط آپ کا مخلص' لکھنا سیکھ لینے  سے کوئی نہ تو مخلص ہوا ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ اس خوبی کو اپنے اندر باقاعدہ کاشت کرنا پڑتا ہے، ہر روز ہر دن اور ہر لمحہ اس کی مشق کرنا پڑتی ہے تب کہیں جا کر دوسروں کو اس خوبی کے آپ کے اندر موجود ہونے کی اطلاع ہوتی ہے۔
اگر اساتذہ خود مخلص ہوں گے تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اُن کے تلامذہ بھی  اس خاصیت سے متصف ہو جائیں گے۔ مخلص ہونے کی بات کی جاتی ہے تو ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ یہ تو بہت مشکل اور ناممکن امر ہے۔ جب کہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ خلوص کا تعلق انسان کے طرزِ فکر سے ہوتا ہے۔ اگر انسان کی سوچ میں اخلاص ہے تو وہ اپنے ساتھ مخلص ہوگا، اپنے کام سے مخلص ہوگا، اپنے متعلقین کے ساتھ مخلص ہوگا، اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ مخلص ہوگا۔ علمائے باطن کے نزدیک خلوص اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ انسان کسی بھی کام کو محض اس لئے کرے کہ وہ کام ہو جائے اور اس ضمن میں کسی لالچ اور خوف کو آڑے نہ آنے دیا جائے۔ اس کا سیدھے سادھے الفاظ میں یہی مطلب بنتا ہے کہ انسان کام اس لئے نہ کرے کہ اُس کو معاوضہ ملے گا یا یہ کام نہ ہوا تو تنخواہ کٹے گی یا کوئی اور سزا ملے گی۔ ہر وہ کام جو معاوضے کے لالچ اور سزا کے خوف سے بالاتر  ہو کر کیا جائے، وہ خود بخود اخلاص کے دائرے میں آجاتا ہے۔ اس بات کی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ ایک مخلص انسان کردار کی تمام اعلیٰ صفات سے رفتہ رفتہ خود بخود و متصف ہوتا چلا جاتا ہے۔
تعلیمی اداروں اور درس گاہوں کے حوالے سے درحقیقت یہ وہ چند باتیں ہیں جن کی کمی کو ہر آدمی کا شعور محسوس تو کرتا ہے لیکن اپنے علم کے ادھورے پن کے سبب ان کی نشاندہی سے قاصر رہتا ہے یا اس کو مناسب الفاظ میں ظاہر کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا ۔ اگر تعلیمی اداروں اور درس گاہوں کے منتظمین یہ طے کر لیں کہ وہ نصابی درس و تدریس کے علاوہ ایسی غیر نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کریں گے جوا ن کے یہاں تعلیم پانے والے طلباء کو ایک بیدار مغز، معاملہ فہم اور مخلص انسان بننے میں مدد کر سکیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں اچھے انسانوں کی کمی پوری نہ ہو۔
مخلص لوگ ناقد اور عیب جو نہیں ہوا کرتے۔ تنقید برائے تنقید اور عیب جوئی کا فن ہمیں ہمارے تعلیمی اداروں میں کچھ اس انداز میں تعلیم کیا جاتا ہے کہ ہم ساری زندگی اس ہنر کی مشق کرتے اسی فن میں طاق ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس سے نہ کبھی کوئی خامی دور ہو سکی ہے اور نہ ہی کبھی کوئی بہتری پیدا ہو سکی ہے۔ اس سے صرف اتنا ہی ہوا ہے کہ آج ہمیں کسی بھی شخص میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی ۔ اس اکا ایک نہایت منفی اثر ن یہ نکلا ہے کہ ہر آدمی اپنی خامیاں دیکھنے کی بجائے اپنی مفروضہ خوبیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہو چکا ہے۔ اگر ہماری تعلیمی اداروں میں اس بات کا تھوڑا سا بھی اہتمام کر لیا جائے کہ خامیاں تلا ش کرنے کی بجائے خوبیاں تلاش کرنے کا  زاویہ اپنا نے پہ اصرار ہو تو لوگوں کو اپنی خامیاں اور دوسروں کی خوبیاں بھی نظر آنا شروع ہو سکتی ہیں۔
انبیاء کی طرزِ فکر کے تحت کسی  کا احتساب کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے اور کرنا ہی ہے تو خود اپنی عیب جوئی کریں، خود اپنی غلطیوں کا محاسبہ کریں، خود اپنے کئے گئے کاموں پہ تنقید کو اپنا شعار بنائیں نہ کہ دوسروں کی عیب جوئی اور تنقید کو اپنا شعار بنا کر کڑھ کڑھ کر بیمار ہوتے رہیں۔ خود احتسابی کے جہاں اور  بہت سے فائدے ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خود احتسابی کا عادی انسان خود کو بہتر سے بہتر بنانے کا جذبہ رکھنے کے سبب خود کو ترقی دینے اور بڑھانے کی طرف مائل رہنے کی عادت اپنا لیتا ہے۔ اس امر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کبھی نہ کبھی حسبِ دلخواہ کامیابی سے ضرور ہمکنار ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس عیب جوئی کی عادت میں مبتلا لوگ کسی کا کچھ بھلا کر سکیں یا نہ کر سکیں خود کو دوہرے نقصان سے ہر وقت کو دوسروں کے عیبوں کی بات کرنے میں صرف کیا اور دوسرے یہ کہ لوگوں کے نقائص کی تلاش میں اپنی غلطیاں نظر سے اوجھل ہونے لگتی ہیں۔ اچھی باتوں کے فائدے ہوتے ہیں اور اس کی وجہ ے ہم یہ طلب تو ضرور رکھتے ہیں کہ ہم سب ایسا ہی کریں لیکن وہ جہاں پہ ان سب باتوں کی عملی تربیت مل  سکتی ہے وہ جگہ ہیں ہمارے تعلیمی ادارے۔ وہاں پہ ان باتوں کو باقاعدہ سکھانے کا اہتمام کرنے کی ضرورت پہ توجہ دینے کا خیال اگر اب بھی اپنا لیا جائے تو بہت کچھ بہتر ہو سکتا ہے۔
تعلیمی اداروں کی پالیسی میں اگر یہ بات شامل ہو کہ وہ تعلیم دینے کے کام کا خواہ بزنس سمجھ کر کریں یا اسے ایک مشن مان کر کریں، وہ اس کام کو پوری  ایمانداری اور دیانت سے سرانجام دیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ اُن کے اساتذہ بچوں کی لکھائی درست کرنے ، اُن کو سبق یاد کروانے، اُن کی مشکلات کو حل کرنے ، اُن کو کردار اور شخصیت کے اعلیٰ اوصاف سے متصف کرنے اور اُن میں غور و فکر اور تحقیق اور جستجو کا مادہ پیدا کرنے میں  کوئی کوتاہی کرنے کے مرتکب ہو سکیں۔ جب کسی تعلیمی ادارے کی ترجیحات میں یہ باتیں شامل ہو جائیں گی تو لا محالہ وہ ادارے اپنے اساتذہ  کی تربیت پہ بھی توجہ دے سکیں گے ۔ اساتذہ کی تربیت اور اُن سے مناسب انداز میں کام لینے کی ذمہ داری بہر حال تعلیمی اداروں کے سر ہی جاتی ہے۔

اس کے ساتھ سا تھ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کس استاذ میں کتنے بچوں کو سنبھالنے کی کتنی سکت ہے، اور کس استا ذ  کو کون سی اور کتنی ذمہ داری دی جانی چاہئے۔ اگر کسی تعلیمی ادارے کی انتظامیہ ان باتوں کا خیال رکھنے میں کامیاب نہیں ہے تو اُس کو اپنا فرض نبھانے میں دشواریوں کا سامنا رہنا کوئی اچنبھے کی بات  نہیں ہو سکتی۔

Comments

Popular posts from this blog

GUIDANCE NEEDS AND PROBLEMS OF YOUNG PEOPLE

HISTORY OF THE GUIDANCE MOVEMENT

"Aims and Objectives of Education"