کل آج اور کل

کل آج اور کل
نوع انسانی کی ابتداء اور آغاز کی بابت بنیادی طور پر دو قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں ۔ ایک انسان کی اپنی کاوشِ فکر کے تحت بننے والا نظریہ اور دوسرا الہامی طور پر سامنے آنے والا نظریہ ، یا  یوں کہ لیجئے کہ ایک نظریہ فلاسفہ اور حکماء کا وضع کردہ ہے اور دوسرا انبیاء کا ظاہرہ کردہ ۔ فلاسفہ اور حکماء کے وضع کردہ نظرئے مظاہر کو اولیت دینے اور قیاس کے زور پر قائم کردہ مفروضات کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں اور وحی اور الہام کی طرزوں پر حقیقت کی جستجو پر اصرار کرتے ہیں۔ اُن کی فکر خالقِ  کائنات کی سوچ، رضا اور مشیّت کو سمجھنے کی خوگر ہوتی ہے۔ وہ مظاہر کی اصل اور کُنہ تک رسائی میں کامیاب بھی رہتے ہیں کیونکہ خالقِ کائنات سے ربط اور تعلق کے سبب وہ اصل حقیقت سے آگاہ کئے گئے ہوتے ہیں۔
گروہِ فلاسفہ کے نظریہ کی بنیاد یہ ہے کہ یہ کائنات ایک اتفاقی حادثے کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اور اس میں ارتقاء کا عمل جاری و ساری ہے۔ اس سوچ کے تحت وہ سمجھتے ہیں کہ انسان پانی میں حادثاتی طور پر بننے والے خلیہ کی ایک انتہائی ترقی یافتہ  صورت ہے اور اس عملِ ارتقاء کی کڑیاں  گنواتے ہوئے وہ یہ بتاتے ہیں کہ اول اول یک خلیائی اور خوردبینی جاندار بنے جو کہ بعد میں کثیر خلیائی جانداروں کے لئے بنیاد بنے اور یوں آبی مخلوقات کا ایک اژ دہام وجود میں آگیا۔ پھر آبی مخلوقات میں سے کچھ خشکی پر آنے لگے۔ یہاں سے خشکی پر زندگی کا آغاز ہوا پھر رینگنے والے جانوروں کے پیر نکلے   اور رفتہ رفتہ چو پائے وجود میں آگئے۔ ان  چوپایوں میں سے کچھ نے دو پیروں پر چلنا سیکھ لیا اور انسان ان دو پیروں پر چلنے والے جانوروں کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔
ان حکماء اور فلاسفہ کے مطابق علم خارج میں موجود مظاہر کی ہیت ترکیبی سے واقفیت اور روشناسی کا نام ہے، اس لئے وہ مادے اور مادی وسائل کو اتنی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ مادے اور مادی وسائل کو اتنی  اہمیت دئیے جانے کے سبب زندگی  کے بہت سے  رخ تشنہ رہ جاتے ہیں  یا انکی مکمل تشریح نہیں ہو پاتی اور یہی وجہ ہے کہ حکماء کا پیش کردہ ہر نظریہ کسی نہ کسی مقام پر ادھورا، ناقص اور خام محسوس ہوتا  ہے اور بہت سے سوال تشنہ رہ جاتے ہیں اور اگر کچھ سوالوں کے جواب دینے میں وہ کامیاب ہو بھی جائیں تو وہ کسی نہ کسی دوسرے نظریے  سے متصادم ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج کے دور کا آئن سٹائن، مشہور فلاسفر اور ریاضی دان ، سٹیفن ہاکنگ  بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوا ہے کہ ابھی بہت کچھ ہماری دسترس سے باہر ہے اور ہمیں ابھی بہت کچھ دریافت کرنا باقی ہے، بہت سے سوال ایسے ہیں جن کے جواب ہمارے معلوم علوم کی روشنی میں نہیں دئیے  جاسکتے۔
انبیاء کی تعلیمات کے مطابق ایک انتہائی برتر، اعلیٰ اور لامحدود شور کی حامل ذات نے ایک ارفع اور اعلیٰ مقصد کے حصول کے لئے کائنات کو تخلیق کیا۔ اس کائنات میں لاشمار مخلوقات کو پیدا کیا، اُن چھانے کا انتظام کی، حیات و ممات کا سلسلہ قائم کیا، اس کو برقرار رکھنے کے وسائل تخلیق کئے اور پھر انسان کو تخلیق کیا، اس کو علم سے آراستہ کیا تکہ و خالقِ کائنات کے مقرر کردہ مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہے۔ علم و آگہی سے سرفراز اس تخلیق کو خالقِ ارض و سما نے اپنی نیابت کے اعزاز سے شرف کرتے ہوئے اس کو اشرف المخلوقات اور احسنِ تقویم قرار دیا۔
انبیاء کے مطابق نہ تو یہ کائنات کسی حادثے کا نتیجہ ہے اور نہ ہی انسان کسی مفروضہ ارتقاء کا ما حاصل۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انسانی شعور کا ارتقاء کی منازل طے کرنے کا پا بند ہے اور شعور کا ارتقاء اس لئے ضروری ہے کہ انسان خالقِ کائنات کی مرضی اور مشیّت سے پوری طرح درجہ بدرجہ آگاہ اور روشناس ہو سکے تاکہ نیابت ِ الٰہیہ کے فرائض کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ انسان اور اس کائنات کے تمام مظاہر ایک الوہی منصوبے کے تحت وجود میں لائے گئے ہیں اور انسان پہ یہ امر لازم کر دیا گیا ہے کہ وہ اُس منصوبے کو سمجھے اور اُسی کے مطابق عمل کرے۔ اس سمجھ اور آگہی کے لئے اُس کو غور و فکر کی صلاحیتوں سے آراستہ کرنے کے بعد اُس کو یہ اختیار بھی دے دیا کہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرے یا نہ کرے، مثبت طرزوں میں استعمال کرے یا منفی طرزوں میں ، تعمیری سوچ کو اپنا کر کام کرے یا تخریبی کاموں کو کرے۔ انبیاء نے انسان کے ان دونوں قسم کے اعمال کے نتائج کو خوشی، اطمینان، سکون اور راحت اور غم، پریشانی، بے سکونی اور تکلیف کی دو کیفیتوں کے حوالے سے واضح کرنے کو جنت اور دوزخ کی دو اصطلاحات کا استعمال کرکے انسان کو یہ رغبت دائی کہ وہ ودیعت کر دہ صلاحیتوں کو مثبت انداز میں تعمیری کاموں پر صرف کرے۔
انبیاء کی تعلیمات کے مطابق یہ کائنات اور اس کے مظاہر دورخوں پر تخلیق کئے گئے ہیں۔وہ ان دورخوں کو روح اور مادہ ، باطن اور ظاہر ، جسم و جاں جیسے ناموں سے متعارف کراتے ہیں۔ انبیاء کے علوم کے تحت انسان دنیا کے ہر دو، باطنی اور خارجی پہلوں سے واقف اور آگاہ ہو سکتا ہے۔اس لئے اس کا علم زیادہ بہتر اور مکمل ہوسکتا ہے۔ پیغمبرانہ تعلیمات کے مطابق باطنی علوم ہی خارجی علوم کی بنیاد ہیں کیونکہ ہر مظہر کی کوئی نہ کوئی بنیاد ضرور ہوتی ہے۔اس لئے ان کے نزدیک خارجی علوم پہ ہی انحصار کرنا کافی نہیں۔ باطنی علوم کے ساتھ ساتھ خارجی علوم پہ دسترس رکھنا بھی ضروری ہے یعنی انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ کائنات اور  اس  میں رواں دواں زندگی کے باطنی اور خارجی ہر دو پہلوں سے آگاہ اور واقف ہو۔
ہر نبی اور پیغمبر کے پیروکار اور شاگرد وہی لوگ ہوا  کرتے تھے جو اُ ن سے براہِ راست علم سیکھنے کے خواہش مند ہوا کرتے تھے وہ اپنے نبی کی تعلیمات سے نہ صرف خود مستفیض ہوتے تھے بلکہ ان سے سیکھے ہوئے علوم کو دوسروں تک پہنچانے کی تگ و دو بھی کرتے تھے۔ با  الفاظِ دیگر انبیاء نے ہی اول اول درس و تدریس کا نظام قائم کرکے شورِ انسانی کی تربیت کا اہتمام کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ درس و تدریس کو پیغمبرانہ کام کہا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ انبیاء یہ سب کیوں کرتے تھے۔ تو اس کا واحد جواب تو یہی بنتا ہے کہ یہ فریضہ اللہ تعالیٰ ان کے ذمے گاتے تھے کہ وہ شعورِ انسانی کی راہنمائی کریں اور لوگوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ نہ صرف اس دنیا بلکہ مرنے کے بعد کی زندگی بھی کامیابی سے بسر کر سکیں۔ انبیاء کے تربیت یافتہ لوگ ان سے حاصل کی گئی تعلیمات کو پھیلانے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کے کام کو اپنا مشن بنا لیتے تھے اور اس کی تبلیغ اور اشاعت میں کوشاں رہتے تھے۔
چالاک حکمران اور وقتی مفاد کو پیشِ نظر رکھنے والے لوگ جب یہ دیکھتے کہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد انبیاء کی تعلیمات کے زیرِ اثر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی  ہے اور انہیں یہ خطرہ محسوس ہوتا کہ لوگوں کے باشعور ہونے کے بعد وہ انہیں اپنی گرفت میں نہیں رکھ سکیں گے تو وہ انبیاء کی پھیلتی تعلیمات میں بڑی ہوشیاری ، چالاکی اور طاقت سے اس طرح کا بگاڑ کی نشاندہی کی کوشش کرتا بھی تو عوام کی اندھی عقیدت کا سہارا لے کر الٹا اُس بگاڑ کی نشاندہی کرنے والے کو ہی معتوب قرار  دیتے ہوئے، اپنی طاقت کے بل بوتے پر اُس کو مٹا کر رکھ دیا جاتا۔ زیادہ چالاک اور ہوشیار حاکم تو انبیاء کو ہی ٹھکانے لگانے میں عافیت محسوس کیا کرتے تھے۔
اس بگاڑ کی سب سے عام صورت تو یہی رہی ہے کہ اس نبی یا اوتار کو خدا کا اتنا قریبی بنا دیا  جاتا کہ لوگ خدا کو چھوڑ کر اسی نبی یا اوتار کا ہی بت پوجنا شروع کر دیتے۔ مصری، ہندو، یونانی اور رومن تہذیبوں میں دیوی دیوتا ایسے ہی بگاڑوں کی پیداوار تھے۔ چالاک پروہت، پنڈت ، پادری اور معبدوں کے متولّی  حکمرانوں کے ساتھ مل کر انہی دیوی دیوتاؤں کی دکانیں سجاتے اور عوام کو مذہبی رسومات کے نام پر بے وقوف بنا کر لوٹا کرتے۔
خواہش اقتدار کے ہاتھوں مغلوب لوگ بھلا اس بات کو کیسے گوارا کرسکے تھے کہ انبیاء کا دیا ہوا نظامِ درس و تدریس قائم ہوا اور لوگ حکمرانوں اور کے گماشتوں کے گھڑے اور پھیلائے  ہوئے تو ہمات کے بندھنوں سے آزاد  ہو کر عقل و شعور سے آراستہ ہونے کے بعد اس قابل ہو جائیں کہ حکمرانوں کو ان کے فرائض یاد دلا سکیں اور مذہبی اجارہ داروں کی چالاکیاں بھانپ سکیں۔ اگر لوگ سوچنا اور سمجھنا سیکھ جاتے تو ظاہر ہے کہ وہ یہ سب کچھ بھانپ لینے کے بعد بھلا اُن کے قابو کیوں آتے۔ لہٰذہ ظاہریت کے دلدادہ حکماء اور مادیت کے عشق میں گرفتار فلاسفہ کی سرپرستی کی جاتی تاکہ اگر کہیں کوئی مچھلی ان کے دام سے بچ کر نکل بھی جائے تو اس جال سے نہ بچ سکے۔
اگر کبھی کوئی بادشاہ اپنی فطری نیک طبعی کے سبب عوام کچھ بھلا کرنے کی سوچتا بھی تو اس کے گرد جمع مفاد پرست امیر و وزیر چند سطحی قسم کے اقدامات سے اس کو مطمئن کر دیا کتے۔ بدھانے اسی لئے  تو گھر بار چھوڑ ا  تھا، کیونکہ اس نے یہ بھانپ لیا تھا کہ ان مفاد پرست وگوں کے نرغے میں رہتے ہوئے وہ اپنے عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکے گا۔اس نے بادشاہت کو لات ماری ، خود کو آگہی سے آراستہ کیا اور لوگوں کو یہ درس دینے بیٹھ گیا کہ انہیں خود اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرکے، انہیں استعمال کرکے، اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو دریافت کرنے، انہیں سنوارنے اور انہیں اپنے اور دوسروں کے کام لانے کا گُر اس نے یہ بتایا کہ اپنے اندر کی دنیا میں اتر نا سیکھ لو۔ اُس کی تعلیمات کا جو حشر ہوا ہے وہ آج سب کے سامنے ہے۔ وہ جس نے اپنے لئے نہیں بلکہ حکمرانوں اور انکے مفاد پرست گروہ کے ہاتھوں  پسے ہوئے عوام ی بہتری اور بھلائی کی خاطر گھر بار چھوڑا، عیش و آرام کی زندگی قربان کی خود اُسی کو ترکِ  دنیا اور رہبانیت کی سب سے بڑی مثال بنا کر رکھ دیا گیا۔ وہ جس نے انسانوں کو یہ درس دیا تھا کہ ہر بت سے گزر کر ایک بر تر شعور تک رسائی حاصل کرکے خود اپنے اندر مستور صلاحیتوں کو دریافت کریں اور انہیں استعمال کریں، ستم ظریفوں نے خود اسی کے اتنے بت بنا کر پوجے کہ اس کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔
اگر چہ قبل مسیح کی تاریخ پر بہت سے پردے پڑے ہوئے ہیں لیکن الہامی کتب میں مندرج قوموں کے عروج و زوال کے واقعات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خواہش ِ اقتدار، حُبِ جاہ اور دولت پرستی نے شعورِ انسانی کی راہوں میں ہمیشہ کانٹے بوئے ہیں اور اس کو سیدھی راہ سے بہکانے کی بھر پور جدوجہد کی ہے۔ اس بات کے ثبوت کو اتنی سی بات ہ غور کرنا ہی کافی ہوگا کہ ہر مذہب میں بگاڑ کب پیدا ہوتا رہا ہے؟ جب بھی لوگوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد کسی مذہب کی حقانیت سے متاثر ہوتی تو چالاک اور مفاد پرست لوگ اُس اجتماع میں شامل ہو جاتے اور اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے اثر و  نفوذ پیدا کرنے کے بعد اس اجتماع کی سرداری حاصل کر لیتے ہیں۔   شروع شروع میں وہ اس مذہب کی خیر خواہی بھی چاہتے ہیں اور اس کی تعلیمات پر عمل بھی کرتے ہیں لیکن ان کے اندراس مذہب کی تعلیمات کی پوری آگاہی نہ ہونے اور اس کی اصل روح سے نا واقفیت آڑے آتی ہے اور وہ اپنی نفسانی خواہشوں کے زیرِ اثر دور اندیشی سے ہٹ جاتے ہیں اور وقتی اور عارضی فوائد کے حصول کے لئے کو شاں ہو جاتے ہیں۔ یہاں وہ اپنے مذہب کی تعلیمات کی اصل روح سے دور ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ محض اُن کی بے راہ روی کا نتیجہ ہوتا ہے۔
اگر ہم انبیاء کی تعلیمات کا علمی انداز میں تجزیہ کریں تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ہر پیغمبر اور نبی اُ ن علوم میں یکتا ہوا کرتا تھا جو اُن کے اس دور میں عام ہو کرتے تھے جب ان کو بعثت سے سرفراز کیا جاتا تھا۔ وہ اس علم کا اظہار اس لئے کیا کرتے تھے کہ لوگوں کو اس امر کی طرف متوجہ کر سکیں کہ اُ ن لوگوں کا علم محدود اور مادے کی بیساکھیوں کا محتاج ہے جبکہ وہ اُن کو علم کی اُس سطح سے روشناس کروانا چاہتے ہیں جہاں سے ایک لامحدود علم اُن کو مل سکتا ہے اور وہ مادے کی بیساکھیوں کے محتاج بھی نہیں رہیں گے۔ لیکن ہوتا کیا رہا ہے؟ حضرت موسیؑ کے دور میں سحر، جادو، طلسمات اور ٹونے ٹوٹکوں کا بہت رواج تھا۔اس علم کے حامل افراد کو شاہی درباروں میں نہ صرف رسائی حاصل ہوا کرتی تھی بلکہ ان کو عزت و تکریم سے بھی نواز ا جاتا تھا۔ حضرت موسیؑ نے اللہ کے رحم پر جب اپنی عصاء جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کے سامنے ڈالا اور اُس عصاء نے ایک اژدھے کا روپ دھار کر اُ س سانپوں کو نگل لیا تو وہ جادوگر اس بات کو فوراً سمجھ گئے کہ موسیٰ کا علم اُن کے علم سے بر تر اور اعلیٰ ہے۔ فرعون اس بات کو سمجھنا نہیں چاہتا تھا اور اگر وہ سمجھ بھی گیا تھا تو  اُس نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے کتنے پیروکاروں نے حضت موسیٰ سے وہ علم سیکھا اور اس کو آزمایا۔ کم از کم تاریخ میں ایسے کسی شخص کا کوئی نام کہیں بھی مذکور نہیں۔
اسی طرح حضرت صالحؑ کے دور میں سنگ تراشی کا فن اپنے عرو ج پر تھا۔ایک سے بڑھ کر ایک سنگ تراش تھا۔ وہ پتھر سے جو بھی تراشتے ایسا تراشتے کہ حقیقت کا گمان ہوتا۔ اللہ نے حضرت صالحؑ سے اہلِ مدائن کو انہی کے فن میں مات دینے کو اس معجزے سے نوازا کہ  انہوں نے چٹان میں سے ایک ایسی اونٹنی تراش کر سامنے لاکھڑی کی جو زندگی سے اس قدر بھری ہوئی تھی کہ اس نے وہاں موجود لوگوں کے سامنے بچے کو جنم دے کر ان کی آنکھیں کھول دیں۔ لیکن اس کے بعد کتنے لوگوں کے بارے میں یہ بات کہی جاسکی ہے کہ انہوں نے حضرت صالحؑ سے کسب فیض کر کے اونٹنی نہ سہی، کسی پتھر سے ایک چوہیا ہی پیدا کرکے دکھائی ہو۔
بالکل  اسی طرح حضرت عیسیٰؑ کے عہد میں حکمت اور علاج  معالجے کا بہت چرچا ہوا کرتا تھا۔ حضرت عیسیٰؑ  نے اپنی قوم  کو محض یہ سمجھا نے کے لئے کہ علاج معالجے کے فن کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ کوڑھ ، برص اور پیدائشی اندھے پن جیسے لا علاج امراض تو ہے ایک رف موت کا بھی علاج ممکن ہے اور وہ بھی محض ایک زیر لب جنبشِ زبان سے  لیکن اس سے ہوا کیا؟ آج دنیا میں ایک ارب سے زائد لوگو ں کو اُنؑ کی پیروی کا دعویٰ ہے  لیکن اُن کے حواریوں سے لے کر آج کے پوپ اور بشپ اعظم تک کتنے عیسائی ایسے ملتے ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰؑ ؑ کے طریقہ علاج کو برتنا تو دور کی بات ہے سمجھ کر ہی دیا ہو۔ ہاں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے ہ علاج معالجے کے حوالے سے اپنے نبی کی سنت کے احترام میں انہوں طب و جراحت کو بہت ترقی دی۔ لیکن  کیا حضرت عیسیٰؑ ؑ نے طب و جراحت کا فن ہی بطور معجزہ پیش کیا تھا یا اُن سے پہلے بھی یہ رائج رہا تھا، اس بات کو سوچنے کی فہرست مادی طرزوں کا حامل شعور کب دے گا؟
ہو سکتا ہے کہ انبیاء کے پیروکاروں اور ماننے والوں نے ان سے درخواست کی بھی ہو کہ آپ ہمیں اس خاص علم کی تعلیم دیں اور جب انبیاء نے اُن کو یہ بتایا ہو کہ اس علم کے حصول کی اولین شرط یہ ہے کہ وہ اُن کو پہلے تزکیہ نفس کے مراحل سے گزاریں گے تاکہ اس بات کا اطمینان رہے کہ وہ اتنے ارفع اور اعلیٰ علم کو سفلی قاصد کے لئے استعمال نہیں کریں گے اور اس کے لئے وہ کردار سازی اور تنظیم شخصیت کے اسباق پڑھانے لگے ہوں گے اور جب کوئی شاگرد تزکیہ نفس کے اُ س معیار پر پورا نہیں اتر تا ہوگا تو ظاہر ہے  کہ وہ علم بھی اُ س کو سکھایا نہیں جاتا ہوگا۔ اور جو لوگ تزکیہ نفس کے مراحل سے گزر جاتے ہوں گے وہ انبیاء کے اُن خاص علوم سے بہرہ مند بھی کر دئیے جاتے ہوں گے اور ان پر یہ قد غن بھی عائد کر دی جاتی ہوگی کہ وہ ان علوم کو ہر کس و نا کس کو تعلیم کریں گے بلکہ اپنے شاگردوں کے شعور کی سکت اور ان کے میلان طبعیت کو جانچ لینے کے بعد ہی وہ اُ کو اُن خاص علوم کی تعلیم دیں گے ۔ بعد میں اگر کسی نے اُن کو اُن کے  خصوصی علوم کی باب کریدا بھی ہوگا تو اُن  علوم کے حامل افراد، اُن علوم کے نہ جاننے والوں کو یہ کہ کر بہلا دیتے ہوں گے کہ یہ تو ایک معجزہ تھا اور معجزے تو صرف انبیاء سے ہی صادر ہوا کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر علم کے الوہی اداروں سے کسب فیض میں کوتاہی کی وجہ انسان کی تن آسانی ، سہل پسندی اور مفاد پرستی کے علاوہ اور کچھ نہیں، کیونکہ اتنا تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ ایک علم ایسا  بھی ہے جس کو علم سینہ کہا جاتا ہے اور اس علم کو جاننے والے اپنے خاص اور چنیدہ شاگردوں کو ہی تعلیم کیا کرتے ہیں۔
نبی  آخرالزمان حضورﷺ کی دیگر انبیاء پہ فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے تو یہ واحد دلیل بھی بہت ہے کہ انہوں نے اپنی تعلیمات کو اپنی امت کے ہر ہر فرد تک پہنچانے کا ایک ایسا رفیع  الشان انتظام قائم فرما دیا کہ آج چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی انﷺ کی تعلیمات کا اصل تن بغیر کسی تحریف و  ترمیم  ہر ہر فرد کے استفادے کے لئے دستیاب ہے۔ ہم نے اس سے کتنا استفادہ کیا ہے،اس کا ذکر کرنے کا نہ یہ محل ہے اور نہ ہی موقع۔
حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی بعثت سے پہلے نبوت کی ذمہ داریوں سے عہدہ پر آہونے کے لئے اللہ تعالیٰ سے براہِ راست تربیت پائی۔ یتیمی ، یسیری اور دوسروں کا دست نگر ہونا، بکریاں چانا، امین اور صادق رہنا ، تجارت کرنا، متموّل ہونا، غارِ حرا میں قیام کے دوران ریاضت، مراقبہ کرنا اور روزے رکھنا، یہ سب اللہ کی طرف سے حضورﷺ کی ذہنی اور روحانی تربیت کے انتظام ہی کا ایک حصہ تھا۔ ایک حضورﷺ پر ہی کیا موقوف، اللہ تو ہر فر کی تربیت کا انتظام فرماتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ رسولوں ، پیغمبروں  اور انبیاء کی تربیت کا اہتمام کچھ زیادہ ہی خصوصی ہوا کرتا ہے کیونکہ انہوں نے دوسروں کی راہنمائی اور راہبری کا فریضہ بھی سرانجام دینا ہوتا ہے۔ یہ انکی اس خصوصیت راہبیت ہی کا اعجاز ہوتا ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی بھلائی اور بہتی میں اس درجہ مخلص ہو جاتے ہیں کہ اپنی جانیں تک وار دیتے ہیں اور اس فریضہ کی ادائیگی میں بڑی سے بڑی تکلیف اور آزمائش سے بھی نہیں گھبراتے اور اُسے خندہ پیشانی سے جھیل جاتے ہیں۔
حضرت یوسفؑ  کا ماں باپ سے بچھڑنا ، بھائیوں کے ہاتھوں کنویں میں گرایا جانا، بازار ِ مصر میں فروخت ہونا، زلیخا کا انہیں اپنی طرف مائل کرنا اور کوشش میں ناکام ہوکر عزیز مصر سے انہیں گرفتار کروانا، ان کا  سالوں جیل میں رہنا، حضرت موسیٰؑ کا دریا میں بہایا جانا، فرعون کے محل میں پرورش ہونا، وہاں سے نکل کر کوہ طور پر چالیس دن اور رات کا قیام کرنا، حضرت عیسیٰؑ کا جنگلوں اور بیابانوں میں آزمایا جانا یہ سب انبیاء کو پیغمبری اور نبوت سے سرفراز کرنے سے پہلے ان کی تربیت کا حصہ ہی تو تھے۔
حضور نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ کی تعلیم و تربیت کا جو پروگرام وضع کیا تھا اس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُ ن کا پروگرام تین بنیادی مقاصد کا حامل تھا۔
1.                پہلا یہ کہ لوگوں میں غور و فکر کا ایک ایسا پیٹرن پیدا کر دیا جائے جو انہیں اپنے اندر موجود صلاحیتوں سے اس طرح سے روشناس کروا دے کہ وہ اپنے مسائل سے اپنی خدا داد صلاحیتوں کا بھر ور استعمال کرتے  ہوئے، اپنے مسائل اور فرائض سے بخوبی عہدہ برآ ہوتے ہوئے ایک پر مسرت ، مطمئن اور خشحال زندگی گزار سکیں۔ اس سے آپ ﷺ نے فرد کی انفرادی زندگی میں بہتری کی بنیاد فراہم فرمائی۔
2.                 دوسرا یہ کہ اپنے ماننے والوں میں ایک ایسا جاندار کردار پیدا کر دیا جائے کہ غلط کو غلط اور درست و درست کہنے میں کوئی امر اُن کے مانع نہ آسکے۔ اس سے آپ ﷺ نے فرد کو معاشرے کی ایک بہترین اکائی بننے کا درس دیا۔
3.                 اور تیسرا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے قلب و نظر کا ایسا تزکیہ کر دیا جائے کہ وہ ہر معاملے میں مکمل غیر جانبداری برتنے کے عادی ہو جائیں۔ کسی بھی معاملے میں نہ کوئی تعصب آڑے آسکے اور نہ ہی کوئی ذاتی پسند یا مفاد اُن کی رائے پر اثر انداز ہوسکے۔ اس سے آپ ﷺ نے فرد کے لئے پوری کائناتی برادری کا ایک فعال کن بننے کی راہ ہموار فرمائی۔
ان مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے جو اقدامات اٹھائے اُن تمام کی تفصیل سیت نبوی کی کتب کے مطالعے سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ اجمالی طور پر اگر ہم اُنؑ کی تعلیمات کا جائزہ لیں تو انہوںؐ  نے جہاں ایک طرف زبانی ہدایات جاری فرمائیں، وہاں دوسری برف وہی  کام خود بھی کرکے بھی دکھائے تاکہ عملی مثال دستیاب رہے۔ آپ ﷺ کی دی گئی تمام  ہدایات آج بھی قرآن کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ اور ان ہدایات پہ جس طرح آپﷺ نے خود عمل فرمایا وہ سنتِ رسول کے طور  پر ہم تک پہنچا ہے۔
قرآن میں ایک برف اللہ سے تعلق قائم کرنے کی بابت حکم دیا جاتا ہے تو  دوسری جانب ا کے ساتھ ہی بندوں سے تعلق استوار رکھنے کی بات بھی ارشاد فرمائی جاتی ہے۔ اللہ سے ربط پیدا کرنے کا یہ طریقہ تعلیم کیا جاتا ہے کہ اللہ کی نشانیوں پہ غور کیا جائے اور فکر کو اس کی ضاعی اور کاریگری کو سمجھنے میں لگائے رکھا جائے۔ بندوں سے تعلق استوار کرنے کو ہدایت کی جاتی ہے اور اس کا عملی طریقہ یہ بتایا جاتا ہے کہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں وہ آپ کو عزیز ہوتا چلا جاتا ہے۔ قرآن ایک طرف آدمی کو اپنے انفس سے روشناس کرواتا ہے تو دوسری طرف اس کو آفاق کی تسخیر کا اہل بنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے یہ بات شرح وبسط سے واضح کی کہ اللہ نے انسان کو تمام کائنات کی بابت علوم سے نوازا  اور اُن تمام علوم کو خود انسان کے اپنے اندر ذخیرہ کر دیا۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے باطن میں اُتر کر ان علوم سے استفادہ کرتا ہے یا نہیں۔ یہ بات ہم سب ہی جاتے ہیں کہ حضورﷺ کا ایک لقب امّی یعنی ناخواندہ ہونا بھی ہے۔ اس بات پہ غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ محض دنیاوی علوم جاننے والا کوئی بندہ باطنی علوم سے واقف نہیں ہوسکتا لیکن باطنی علوم کا حامل انسان دنیاوی علوم کی اصل حقیقت اور کنہ سے بھی واقف ہوتا ہے۔
حضورﷺ کا وضع کردہ نظامِ علیم ، معاشرت اور دنیاوی زندگی کی تعلیم دے کر، انسانی شعور کو ظاہر ی علوم سے آراستہ کرکے، اس مادی زندگی کے تقاضوں سے بحسن و خوبی عہدہ برآ ہونے کے قابل تو بنا تا ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ انسان کی باطنی تربت کا ایسا اہتمام بھی کرتا ہے جس سے انسان اپنے لاشعور سے واقف اور آگاہ ہونے کے علاوہ ان علوم تک بھی رسائی حاصل کرسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے لاشعور میں ذخیرہ کئے ہوئے ہیں۔ ان ہی علوم کو باطنی اور روحانی علوم کہ کر ان کو بھی انسان کی دسترس سے باہر مانا جاتا رہا ہے۔
اصحاب صُفہ وہ جلیل القدر صحابہ کرامؓ  تھے جن کو حضورﷺ نے باطنی علوم کی تعلیم کے لئے منتخب کیا تھا۔ حضورﷺ کے نظامِ درس و تدریس کے گویا دو حصے تھے۔ ایک وہ جو مجد نبوی میں ہر خاص و عام کے لئے جاری تھا اور دوسرا صُفہ جہاں منتخب صحابہ کرامؓ کو مختلف تربیتی مشقیں کروائی جاتی تھیں تاکہ ان کا ایسا تزکیہ ہو جائے کہ وہ باطنی علوم سے سرفراز ہو سکیں۔ با الفاظِ دیگر صُفہ صحیح معنوں میں پہلی روحانی یونیورسٹی تھی۔ ا صحابِ صُفہ نے ہی حضورﷺ سے سیکھے ہوئے علوم کو ، ان علوم کی اصل روح کے ساتھ، آگے پھیلانے کا مشن پورا کیا۔ اسلام میں خانقاہی نظام یعنی روحانی ساسل درحقیقت وہ تدریسی ادارے ہیں، جہاں سے ایسے صاحب کردار اور عالم  با عمل لوگ تربیت پاتے رہے جن کو کبھی کوئی بادشاہ یا سلطان نہ تو خرید سکا اور نہ ہی جھکا سکا۔ یہی سبب تھا کہ اولیاء اللہ سے بادشاہوں اور سلاطین کی کم ہی بنی۔
باطنی علوم ، رُشد و  ہدایت اور اسلامی علوم کی تعلیم  کے لیے شروع میں مساجد کو ہی مدارس کے طور  پر استعمال یا جاتا ہا لیکن جب سلاطین اور امراء نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مساجد پر اپنا کنٹرول اور اثر رسوخ  بڑھا کر انہیں اپنے تسلط میں لے لیا اور علمائے باطن کو ستانا شروع کیا تو انہوں نے خانقاہوں میں  پناہ لی اور وہاں پہ باطنی علوم کی درس تدریس کا آغاز کر دیا۔ اس نسبت سے ہی اُن کے جاری کردہ نظامِ تربیت کو خانقاہی نظام کہا جاتا رہا ہے۔مذہب اسلام کی اشاعت میں اپنے اپنے طور  پر دینی مدارس اور خانقاہوں، ہر دو نے اپنا اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ سلاطین اور بادشاہ اسلام کی اشاعت میں اپنے اندازِ فکر کے مطابق دلچسپی لیتے تھے اور مدارس قائم کرتے تھے اور علمائے باطن اپنے اندازِ فکر کے مطابق  دلچسپی لیتے تھے اور مدارس قائم کرتے تھے اور علمائے باطن اپنے اندازِ فکر کے مطابق تبلیغ اور اشاعت دین کا کام کرتے رہے۔ خانقاہی نظام سے وابستہ افراد  خدمتِ خلق کرکے کاموں پر اصرار کرتے اور عوام اُن کی طرف ملتفت ہو جاتی۔ بادشاہ اور سلاطین بلکہ اُن کے خواری اور درباری کے اس بات کو کہاں برداشت کرسکتے تھے نتیجے میں سلاطین یہ باور کرنے کے بعد کہ یہ لوگ اُن کے لئے خطرہ ہیں ، اُن کے خلاف اُلٹے سیدھے احکامات جاری کردیتے۔ علمائے باطن اپنی اعلیٰ ظرفی، وسعتِ علم اور بے لوثی کے سبب عموماً صبر اور برداشت کی راہ اپنا تے رہے۔
اسلام کی روشنی برصغیر میں محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کے ساتھ آئی اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ جیسے عالی مقام صوفیاء کرام کی کوششوں سے جِلا پاتی چلی گئی۔سلطان محمود غزنوی کے بعد بابر کے مغلیہ خاندان کی حکومت کی بنیاد رکھنے اور پھر مغلیہ سلطنت کے زوال اور انگریزوں کی حکومت بننے تک ، بر صغیر میں لگ بھگ ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی عملداری رہی ۔ اس دور میں دو مختلف ، قدیم اور جدید تہذیبیں ایک دوسرے کو متاثر کرتی اور ہوتی رہیں۔ ہندو مذہب کے تحت قائم معاشرے کی تاریخ کا عرصہ یوں تو سات آٹھ ہزار سال پرانی مانی جاتی ہیں۔ اتنی پرانی تہذیب کے تانے اور بانے  میں جو پیچیدگیاں اور خامیاں  پیدا  ہو چکی تھیں ان کے سبب اسلام کی نئی تہذیب اور تمدن کو یہاں جڑ پکڑنے کا موقع ملا۔ صوفیاء کرام نے انسانی فطرت کی ضرورتوں کو  مد نظر رکھتے ہوئے اپنی تعلیمات کو انہی کے رنگ اور ڈھنگ میں ڈھال کر پیش کیا۔ پر ساد اور بھکشا کے مقابل لنگر اور خیرات ، بھجن اور کیرتن کے مقابل قوالی اور سماع کی محافل اسی سلسلے کی کڑیاں مانی جاتی ہیں۔ وہاں کی بت پرستی کے مقابل یہاں قبر پرستی ، وہاں گرو چیلے تو یہاں پیر و مرید، ادھر اُن کے ہاں کے رشی اور سادھوں کے مقابل یہاں کے صوفی اور فقیر، پنڈت اور برہمن اُدھر، تو مولوی اور سیّد اِدھر، اپنے اپنے راگ الا  پتے  ایک دوسرے کو نیچا  دکھانے کے چکر میں پڑے رہے۔
آج سے ڈیڑھ، دو سو سال قبل ، جب تجارت کے لئے آنے والے انگریزوں نے یہاں قدم جما لئے تو عیسائی مشنری بھی میدان میں آگئے۔ انہوں نے آنے مذہب اور مفادات کے تحت لوگوں کے لئے اسکول اور شفا  خانے قائم کئے۔ ان کی علمی برتری نے اپنا رنگ جمانا شروع کیا اور اِن دونوں فریقوں یعنی ہندوں اور مسلمانوں کو اپنی  طرف ملتفت کرنا شروع کیا۔ عیسائیت کو فروغ  ملنا شروع ہوا  دونوں فریق  چونکنے ہو گئے۔ مشنری سکولوں اور کالجوں کی طرز پر انہوں نے بھی اپنے اپنے ادارے قائم کرنا اور اُن کو استوار کرنا شروع کر دیئے۔
علی گڑھ محمڈن کالج جو بعد میں علی گڑھ یونیورسٹی بنا ، مسلمانوں کی اسی کوشش کی عکاسی کرتا ہے۔ ان اداروں میں انگریزی اور دور جدید کے سائنسی مضامین کی تعلیم پر زور دیا جانے لگا تاکہ یہاں کے لوگوں کو انگریزوں کے مقابل نہ سہی تو ان  کے ساتھ بیٹنے کے قابل تو بنا ہی دیا جائے۔ جب انگریزوں نے بھی ایسے اداروں سے  فارغ التحصیل طلباء کو سرکاری ملازمتیں فراہم کرنا شروع کریں تو  ان  اداروں کی ضرورت اور بھی مسلمہ ہوگئی۔ اسی لئے ان اداروں کے مخالفین نے ایسی درس گاہوں کو کلرک سازی کے کار خانے تک کہا۔ اُدھر جنگِ عظیم اول کے بعد طاقت کا توازن بگڑنا شروع ہوا اور جنگِ عظیم دوم کے بعد انگریزوں کا سورجِ اقتدار ڈوبتا چلا گیا۔ انگریزوں کو کمزور پڑتے دیکھ کر ہندو اور مسلمان دونوں نے آزادی کے لئے کوششیں شروع کردیں اور جنگِ عظیم دوم کے فوراً بعد انگریزوں کو اس خطے کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ انہوں نے جانے سے پیشتر مسلمانوں کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے مسلم اکثریت اور ہندو اکثریت کی بنیاد پر برصغیر کی علاقائی تقسیم کی منظوری دے دی۔
پاکستان وجود میں آگیا تو مختلف طریقوں اور شعبوں کے لوگوں میں اس مملکت خدا داد پہ زیادہ سے زیادہ تصرف اور کنٹرول حاصل کرنے کی دوڑ شروع ہوگئی۔ اب یہاں کوئی بادشاہ تو تھا نہیں اس لئے سب ہی بادشاہ بننے کی دوڑ میں لگ گئے۔ کیا سپاہی اور کیا بابو۔ شائد اسی لئے کلرک بادشاہ اور سپاہی بادشاہ کے علاوہ نوکر شاہی  کی اصطلاحات بھی سننے میں آتی رہی ہیں۔ جاگیردار طبقے کے سیاست دانوں نے اپنی حکومت مضبوط کرنے کے لئے کبھی سول انتظامیہ اور کبھی فوج کا سہارا لیا۔ کمزور حاکم کے توانا ملازمین کی طرح کچھ دیر تو ان سہارا دینے والوں نے صبر کیا لیکن آکر تا بہ کے ۔ اور جب انہیں یقین ہوگیا کہ ان کے بغیر ان کمزور، نا اہل اور کوتاہ اندیش حکمرانوں  کا کوئی کام نہیں چل سکتا تو انہوں نے خود ہی وہ بوجھ باری باری اٹھانا شروع کر دیا جو انکے حکمرانوں کی سکت اور ہمت سے زیادہ تھا۔ اور اُن کے اٹھائے بھی اُن سے نہیں اُٹھ  پا رہا تھا۔ یوں فوج اور انتظامیہ ( نوکر شاہی)، جاگیرداروں اور وڈیروں کی پشت پناہی سے، اس ملک میں باری باری اقتدار میں آکر اپنے اپنے انداز میں عوام کی خدمت اور حکومت کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اس سیاسی انتشار اور عدم استحکام کے ماحول میں کسی بھی شعبے پر اتنی ہی توجہ دی جاسکتی تھی جتنی توجہ اس کا وجود برقرار رکھنے کے لئے لازم ہو ورنہ جب تک کام چلتا ہے اسے چلنے دو کی پالیسی اور بھلا کب کام آتی؟
جب حکومت کو شعبہء تعلیم پر توجہ دینے کا یارانہ ہوا تو متبادل اور متوازی نظام وجود میں آتے چلے گئے ۔ قیام ِ پاکستان کے وقت تعلیمی ادارے نجی اور فلاحی اداروں کے زیرِ انتظام تھے۔ پھر حکومت نے مقامی سطح پر میونسپلٹی کے زیر ِ انتظام اسکول بنانے کا آغاز کیا۔ ان تعلیمی اداروں کے قیام کا بنیادی مقصد بے  روزگار افراد کو کام پر لگانا اور ان کی صلاحیتوں  کو بروئے کار لاتے ہوئے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔ یہاں سے ہمارا نظام تعلیم اردو اور انگلش میڈیم کی دو واضح اقسام میں بٹ گیا۔ سرکاری سکول اور کالج اردو میڈیم کہلانے لگے اور نجی شعبے میں قائم ہونے والے پبلک سکول اور کالج انگلش میڈیم۔ دینی مدارس اس دوڑ سے دست بردار تو نہیں ہوئے لیکن انہوں نے یتیم خانوں کی جگہ لے لی اور مخّیر حضرات کے چند ے اور سرداری گرانٹس پر تکیہ کر لیا۔ مشنری ادارے جو بنیا طور پر کسی نہ کسی چرچ یا کلیسا کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کرتے ہیں، وہ بھی لوگوں کو اپنے انداز کی تعلیم دینے کے اپنے کام میں مصروف رہے۔ پہلے مشنری اداروں  نے چولا بدلا اور وہ تعلیم جو وہ مفت دیا کرتے تھے ، اس سہولت کو انہوں نے صرف عیسائی بچوں کے لئے مخصوص کرتے ہوئے دیگر بچوں سے بھاری فیسیں لینا شروع کردیں۔
1970؁ء میں ملک میں جہاں صنعت و حرفت، بنکوں اور دیگر اداروں کو قومیایا گیا وہاں تعلیمی ادارے بھی سرداری قرار پانے سے نہ بچ سکے۔ اس فیصلے کے پیچھے بھی بنیادی مقصد ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کو ملازمتیں مہیا کرنا ہی تھا۔ اس سے کچھ اور ہوا یا نہیں یہ ضرور ہوا کہ سا‏ئز اور حجم کے لحاظ سے شعبہ تعلیم ہمارے ملک کا سب سے بڑا ادرہ بن گیا۔ مقدار میں اضافے کا جنون معیار کا دشمن ہوا کرتا ہے۔ اساتذہ اور طلباء کے علاوہ عمارات کی تعداد میں ایک کثیر اضافہ ہوا۔ معیارِ تعلیم کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے قانون سازی کی جانے لگی۔ اساتذہ سے باز پرس کا حق کیا ختم ہوا، معیار تعلیم سر کے بل لڑھکنے لگا۔ اس حالتِ زار کی اصلاح کے نام پر مفاد پرستوں نے بہر مراعات کی طلب بڑھائی اور حکومت نے جوابی پیشکشوں کی بولی لگانا شروع کی اور جب حکومت کو اس بات کا احساس ہونے لگا  کہ اس طرح تو شاید ہی کوئی بہتری ہوسکے تو نجی شعبے  میں بھی تعلیمی ادارے  قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ جب یہ نظام کامیابی سے ہمکنار ہوتے دیکھا تو سمجھدار کاروبار ی حضرات بھی  میدانِ عمل میں کود پڑے اور نجی شعبے میں پلے نرسری، پریپ  اور مانٹیسوری سکول بنے ، پھر مڈل اور میٹرک ہوئے۔ جب حکومت نے دیکھا کہ ان کے حصے کا کام عوام خود ہی کرنے لگ گئے ہیں تو انہوں نے ایک طرف تو نجی شعبے کو کالج قائم کرنے کی اجازت دے دی  اور دوسری طرف سکولوں کی آمدن پر ٹیکس بھی لگا دیا۔ اس مرحلے کی کامیابی کے بعد نجی شعبے کے حوصلوں کو اور بھی تاب ملی اور دنیا کے دیگر ممالک کی تقلید میں یہاں نجی یونیورسٹیوں کا وجود عمل میں آنا شروع ہوا۔ یہ نجی یونیورسٹیاں درس و تدریس کا مشنری کام کرنے کی بجائے ڈگریوں کے بیوپار یوں کا روپ دھارتی چلی گئیں۔
سرکاری  سرپرستی میں چلنے والے سکول اور کالج بھی دو قسم کے ہیں ایک کیڈٹ سکول اور کالج  دو قسم  کے ادارے اور دوسرے عام سرداری سکول اور کالج۔ یعنی سرکاری انتظام کے تحت چنے والے تعلیم ادارے بھی دو قسموں کے ہیں۔ ایک وہ جو فوج اور نوکر شاہی نے اپنی ضرورت کے افراد تیار کرنے کے لئے قائم کئے ہیں کیڈٹ سکول اور کالج ہوں یا ٹیکنیکل اور ووکیشنل ادارے ، میڈیکل یا انجنیئرنگ اور دیگر پروفیشنل تعلیم دینے والے ادارے، وہ سب اسی زمرے میں آتے ہیں اور دوسرے جہاں عوام کے بچوں کو محض دن بھر کے لئے بٹھا کر عوام کے سر پہ  یہ احسان  کیا جاتا ہے کہ ہم نے آپ کے بچوں کی دن بھر دیکھ بھال کر دی اب اور کیا  چاہئے۔  ایسے اداروں کے اساتذہ سے آیا گیری یا بے بی سٹنگ کے علاوہ کسی اور کام کی توقع بھی نہیں کی جاتی۔ اس لئے اگر بچے نے بڑھ لی تو سُبحان اللہ اور نہ اللہ اللہ خیر سلا۔
تعلیمی اداروں کی ایک اور تقسیم شہری اور دیہاتی بھی کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دیہاتی سکولوں اور کالجوں اور شہری سکولوں اور کالجوں کے ماحول میں وہی فرق ہوتا ہے جو دیہاتوں اور شہروں کے ماحول میں پایا اور دیکھا جاسکتا ہے۔ آج کل شہروں کے تعلیمی ادارے 'آئی ٹی' یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی زد میں ہیں۔ بچ بڑے سب کمپیوٹر کا استعمال سیکھ رہے ہیں اور انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ اُن کے سامنے اطلاعات کا ایک وسیع سمندر ٹھاٹھیں مار تو رہا ہے لیکن انہیں اس میں شناوری کا طریقہ اور سلیقہ دونوں ہی ابھی سیکھنے باقی ہیں۔
اس پسِ منظر میں قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک تعلیم و تدریس کے لئے جو ہوا اُس سے کہیں زیادہ ہونا چاہئے تھا، کہیں زیادہ ہو سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔  اب بھی کچھ زیادہ نہیں بگڑ ا، اگر ٹھیک کرنے کی خواہش اور جذبہ بیدار ہوگیا تو آج ہی سے سب کچھ ٹھیک ہونا شروع ہو سکتا ہے۔
ہمارا ملکی نظامِ تعلیم آج جو بھی کچھ بھی ہے اسے یہی کچھ ہونا چاہئے تھا۔ وہ لوگ جو زمینی حقائق کو جانتے اور ا ن سے صرف، نظر بھی نہیں کرتے ، وقت اور حالات کی اس کروٹ کو بھی گوارا تو کر ہی رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سوچتے ہیں کہ جب تعلیم دینا بزنس بن ہی چکا ہے تو پھر ہم اسے پوری ایمانداری سے بزنس ہی کی طرح کیوں نہیں کر رہے یعنی جیسے بزنس میں آپ موصولہ رقم کے برابر طے شدہ مال خریدار کے حوالے کرنے کے پابند ہیں اور اگر نہیں کرتے تو آپ تعزیری قوانین کی زد میں آ جاتے ہیں لیکن کیا یہ اندھیر نہیں کہ ایک عام دکاندار پیسے لے کر مال نہ دے، یا  دینے میں لیت  و لعل  کرے یا دے اور وہ گھٹیا کوالٹی کا ہو، تو ہم تھانے میں اس کے خلاف رپٹ کوا سکتے ہیں لیکن  ایسے کسی ادارے کے خلاف کہیں ایسی کوئی رپٹ  درج نہیں ہوئی ہے، جس میں بچے کو پڑھانے میں ناکام رہنے اور بچے کے وقت کو ضائع کرنے پر ادا شدہ رقم  بمع  حرجانہ واپس طلب کی گئی ہو۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک تو یہ ہے کہ ہم ایماندار نہیں ہیں، ہم میں منافقت بہت ہے اور ہم لاعلمی کی انتہا کو چھو رہے ہیں اس لئے ہماری کہیں کوئی شنوائی بھی نہیں ہو پاتی۔

ایک طرف سرکاری ملازمت کی خواہش ، دوسری طرف دولت مند بننے اور معاشرے میں ممتاز ہونے کا جذبہ ، ہر ماں نے ایک ہی خواب دیکھنا شروع کر یا تھا کہ میرا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا افسر بے۔ ادھر ہر بیٹا بھی اپنی ماں کے خوابوں کو اپنا کر ، اک ہجوم  خواستگاراں میں شامل ہوکر، اپنی دنیا اور عاقبت دونوں ہی سنوارنے کو ، جیسے تیسے بھی ہوا، پڑھنا سیکھنے کے بعد اُسے رٹ کر ، لکھنے بیٹھ گیا۔ جو اس دوڑ میں کامیاب ہو گیا وہ بھی نا خوش کہ کچھ اور تیز دوڑ تا تو شاید اور بہت کچھ حاصل کر لیتا اور جو نا مراد ہوئے اُن کا نا خوش ہونا تو یوں بھی فطری تھا۔ آ ج پوری قوم فر سٹریشن کا شکار ہے۔ وہ ماں باپ ہوں ، اولاد ہو، اساتذہ ہوں یا شاگرد اور طلباء سب ہی مایوسی، یا سیت بے یقینی کا شکار ہیں۔ انہیں ہونا ہی تھا۔ کسی کے سامنے کوئی مقصد حیات ہوا ور نہ ہی زندہ رہنے کی کوئی وجہ، تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
جو زندگی کی دوڑ میں کہیں نہیں پہنچ سکتے ان کے لئے شعبہ تعلیم کی آغوش تو ہر وقت کھلی ہے ہی۔ اساتذہ کی غالب اکثریت اُن لوگوں کی ہے جنہیں درس و تدریس کا نہ تو کوئی ذوق ہے اور نہ شوق۔ وہ تو محض لگے بندھے اپنی تنخواہ کو جائز کرنے کا سوچ کر پڑھا رہے ہیں اور جب تنخواہ میں پوری نہیں پڑتی تو بچوں سے آنے بہانے پیسے اینٹھے جاتے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ محفوظ اور معروف طریقہ اپنے ہی سکول بلکہ اپنی ہی کلاس کے بچوں کو پرائیویٹ ٹیوشن پڑھانا ہے۔ کسی کو یہ خیلا تک نہیں آتا کہ یہ بدیانتی ہی کی ایک قسم ہے ۔ ظاہر ہے کہ کسی بچے کو پرائیویٹ ٹیوشن کی ضرورت تو تھی محسوس ہوتی ہے جب وہ اپنی کلاس میں اپنے سبق پر اتنی توجہ نہیں دے سکا کہ اس کو جو کچھ وہاں سمجھایا گیا تھا وہ اس کو سمجھ لیتا۔ اب اگر ایک بچہ اپنی کلاس میں پانچ چھ گھنٹوں میں جو بات نہیں سمجھ سکا وہ محض ایک ڈیڑھ گھنٹے کی پرائیویٹ ٹیوشن کے دوران کیونکر اور کیسے سمجھ لیتا ہے؟ا بات کا تجزیہ کرنے پر ایک اور پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ بعض اساتذہ اس زائد کمائی کے لالچ میں کلاس میں بچوں کو اتنی توجہ نہیں دیتے جو کسی بات کو بچوں کی فہم میں اتارنے کے لئے دی جانی لازم آتی ہے۔ یہاں سے ایک ایسے منحوس گرداب کا آغاز ہوتا ہے جس سے مفر کی کوئی صورت نظر نہ آنے کی وجہ سے سب ہی نے اس کو ایک ناگزیر برائی کے طور پر اپنا لیا ہے۔
آپ کسی بھی استاذ ، ٹیچر، لیکچرار یا پروفیسر سے ان کا اپنی زندگی میں کچھ بننے کی خواہش کے حوالے سے پوچھ کر دیکھیں۔ ایک غالب اکثریت کا جواب بہر حال یہ نہیں ہوگا کہ وہ ایک استاذ بننا چاہتے تھے۔ ایسا کیوں ہے؟ تو اُس کی سیدھی اور سچھی وجہ تو یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں استاذ کی کوئی عزت نہیں ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ ان سب کے نزدیک جو ایسا کہتے اور سمجھتے ہیں عزت کا پیمانہ بھی گاڑی  بنگلہ اور روپیہ ہی ہے۔ اُن کو یہ بات سکھائی ہی نہیں گئی کہ عزت بھی کمائی جاتی ہے، کوئی بلا وجہ دان میں کسی کو عزت نہیں دے دیتا۔ اور یہ وہ جنس نہیں جس کو پیسہ خرید سکے۔
الغرض یہ کہ آج ہمارا نظام تعلیم ہماری معاشرت کا ایک جزوِ  لاینفک ہے اور یہ وہی کچھ ہے جو کچھ ہمارا معاشرہ ہے۔ ہم اپنے نظامِ تعلیم سے یہ توقع اور امید رکھتے ہیں کہ یہ ہمیں ایسے افراد دے جو معاشرے کی بہتری کا سبب کا اور باعث بن سکیں۔ اُدھر نظامِ تعلیم سے وابستہ افراد ، خصوصاً اساتذہ کرام، کی سوچ یہ ہے کہ معاشرہ اُن کے لئے کچھ ایسا کرے کہ وہ ٹھیک ور بہتر ہو جائیں۔وہ انتظامی حوالے سے معاملات کی بہتری کے خواہاں ہیں، وہ نصاب میں تبدیلیوں اوت بہتی کی ضرورت کی بات کرتے ہیں، امتحانی نظام کی فرسودگی اور اس کے نقائص کو دور کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن نہیں کرتے تو اپنی شخصیت اور کردار کو بہتر اور پُر اثر بنانے کی بات بالکل بھی نہیں کرتے۔
اس بات کی ضرورت سے کوئی انکا نہیں کرتا کہ اگر اساتذہ پُر اثر  شخصیت اور متاثر کن کردار کے حامل ہوں گے تو ان کے تلامذہ اور شاگرد بھی اپنے اندر ویسی ہی خوبیاں ابھارنے کی کوشش کریں گے ورنہ تو وہ فلمی  اداکاروں  سے ہی متاثر ہوکر انہی جیسی حرکتوں کے مرتکب ہوتے رہیں گے۔


ضرورتوں کا علم

ضرورتوں کا علم
ٹی وی پر ایک مذاکرہ ہو رہا تھا۔ مذاکرے کا عنوان تھاہمارا ملکی نظامِ تعلیم۔ سب شرکاء نے بڑھ چڑھ کر بحث میں حصّہ لیا۔ گھنٹے بھر کے پروگرام میں وہ کسی قابلِ عمل تجویز اور جامع قسم کے لائحہ عمل پہ  متفق ہو ہی کہاں سکتے تھے۔ حسبِ دستور وقت کی کمی کا رونا روتے ہوئے، اُس پروگرام کے اینکر  پرسن نے بات سمیٹتے ہوئے کہا۔ علاوہ دیگر باتوں کے یہ بات طے ہے کہ جتنا اہتمام ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو ضرورتوں کی تعلیم دینے کا کیا ہے، اتنا اہتمام علم کی ضرورت کے حوالے سے کرنے میں ہم  ناکام ہی رہے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ضرورتوں کا علم دینے کے ساتھ ساتھ علم  کی ضرورت کو بھی سمجھیں اور اپنے نظامِ تعلیم میں ایسی تبدیلیاں لائیں جو ہماری آنے والی نسلوں کو سچ مچ علم سے آراستہ کرنے میں ممد و معاون ہوں۔
محض کسی ایک مذاکرے یا مباحثہ میں کیا گیا اعتراف نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے کیونکہ جو نظام علم کی بجائے محض ضرورتوں کی تعلیم دینے کا نظام بن چکا ہو و ہاں علم کی فرا وانی کی توقع کرنا تو ایسا ہی ہے جیسا کسی گھسیارے سے سونے کو کندن بنانے کی فرمائش کرنا۔
معاش اور معاشرت کی ضرورتیں، روٹی کمانا، شادی بیاہ، گھر بنانا اور گھر ہستی چلانا، بچوں کی دیکھ بھال اور اُن کی تعلیم و تربیت یہ سب اور ان سے جڑی دیگر بہت سی ضرورتیں ایسی ہیں جن کو احسن طور پر پورا کرنے کے لئے انسان کو متعلقہ باتوں کا بھر پور علم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ علم خالق کائنات کی ایک ایسی بیش بہا  عطا ہے جو ایک طرف انسان کو شعور ، آگہی اور عرفان سے آراستہ کرتا ہے اور دوسری طرف انسان کو اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے درکار وسائل پہ تصرف و اختیار عطا کرتا ہے بلکہ مزید وسائل پیدا کرنے کے قابل بھی بنا دیتا ہے۔ لیکن جب ہم خود کو محض ضرورتوں کی بابت علم حاصل کرنے تک محدود کر لیتے ہیں تو ہوتا یہ ہے کہ ہم ضرورتوں کو پورا کرنے والے وسائل پہ دسترس کھو بیٹھتے ہیں اور جب ضرورتوں کے لئے درکار وسائل ہماری دسترس میں نہیں آتے تو یہ صورتِ حال ہم میں بے بسی، مایوسی اور محرومی کا احساس پیدا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ اپنی ضرورتوں کے لئے درکار وسائل ہماری دسترس میں نہیں آتے تو یہ صورتِ حال ہم میں بے بسی، مایوسی اور محرومی کا احساس پیدا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ اپنی ضرورتوں کے لئے درکار وسائل پیدا کرنے کی اہلیت علم سے پیدا ہوتی اور ریاضت سے جِلا پاتی ہے۔ علم کے حصول کی ہدایت میں پنہاں حکمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے ضرورتوں کی تکمیل کے لئے درکار وسائل انسان کی پہنچ اور دسترس میں آسکتے ہیں۔
اپنی ضرورتوں کے لئے درکار وسائل تک نارسائی انسان میں ایک طرف تو محرومی اور یاسیت کا سبب بنتی ہے اور دوسری طرف اس کے اندر مسائل کو حل کرنے کی فطری صلاحیت بھی گہنا جاتی ہے۔ مسائل کو حل کرنے کی فطری صلاحیت کے مناسب استعمال میں نہ آنے سے ہوتا یہ ہے کہ انسان اپنی جلد بازی میں مسائل کے حل کے لئے آسان ، فوری اور مختصراً   ہیں اختیار کرنے کے چکر میں پڑ جاتا ہے۔ اور اپنی لاعلمی کے ہاتھوں ناجائز ، غیر اخلاقی اور غیر قانونی راہوں پہ چلنے کا  رحجان  پیدا ہونے لگتا ہے۔ تن آسانی اور سہل پسندی کو یوں تو سبھی بُرا مانتے اور جانتے ہیں لیکن وقت پڑنے پر کم ہی اس سے اجتناب کرنے کی طاقت اور ہمت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ اب یہ ہے وہ گھمبیر صورتِ حال جس سے آج ہمارا پورا معاشرہ دو چار ہے اور اس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ ہمیں سو جھائی نہیں دے رہی کیونکہ بے بسی، مایوسی اور لا چاری جہاں ایک طرف ذہنی انتشار اور پراگندگی کا سبب بنتی ہے وہاں دوسری طرف وہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی کردار سے بھی محروم کرنے کی بنیادی وجہ ہے۔
انفرادی یا قومی اور اجتماعی کردار انہی تمام باتوں کا عکس ہوا کرتا ہے جو ہم سیکھتے ہیں، جو ہم اپنا لیتے ہیں اور پھر اُن پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں اور وہ ہماری زندگی کے معمولات بن جاتی ہیں۔ ہم کسی بھی شخص کے کردار کا اندازہ اُس میں موجود اُن خصوصیات سے لگاتے ہیں جو اُس نے اپنے لئے پسند کرنے کے بعد اپنا لی ہوتی ہیں اور وہ ان پر عمل پیرا رہتا ہے۔ اگر کسی شخص نے اچھی ، مفید اور دوسروں کے کام آسکنے والی خصوصیات اپنا رکھی ہوں تو ہم اُس کو اچھے کردار کا حامل شخص گردانتے ہیں ورنہ بصورتِ دیگر اُس کو برے کردار کا مالک قرار دے دیتے ہیں۔ باالفاظ ِ دیگر انسانی کردار انسان کی آزمودہ علمیت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔
اس بحث سے قطع نظر کہ کسی انسان کی شخصیت اور کردار میں کیا فرق ہوتا ہے،اتنی سی بات واضح کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہر بچہ پیدائشی طور پر اپنی ایک انفرادی شخصیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کا کردار ان باتوں سے تشکیل پاتا ہے جو وہ حالات ، واقعات اور معاشرے اور ہر تہذیب میں یہ کوششیں بالعموم کی جاتی رہی  ہیں کہ دنیا میں آنے والے ہر بچے کو وہ باتیں سکھا دی جائیں جو اس کو ایک بہتر انسان بننے اور ایک کامیاب زندگی گزارنے میں مدد دے سکیں۔ اس سیکھنے سکھانے کا  آغاز ماں کی گود سے ہی ہو جاتا ہے اور جوں جوں بچہ بڑا ہوتا چلا جاتا ہے خاندان اور پھر معاشرے کے دیگر افراد اس کام میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر آخری  دین تک آنے والا مذہب اس سیکھنے سکھانے کے عمل کے الوہی ادارے ہی تو تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہر مذہب اور دین کی تعلیمات میں بالخصوص انسان کی شخصیت کی تعمیر و تنظیم اور کردار سازی پر بہت زیادہ  توجہ دینے کی ہدایات ملتی ہیں تا کہ  انسان اسفل سطح سے ابھر کر اُس شرف سے آراستہ ہو جائے جس کے سبب وہ مسجودِ ملائک اور اشرف المخلوقات قرار دیا جاتا ہے۔
اس سیکھنے سکھانے کے عمل نے کب ایک باقاعدہ اور منظم ادارے کی صورت اختیار کی اس کی بابت یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اتنا تو ضرور  طے ہے کہ جس دن بچے نے باپ سے شکار کرنے یا کسی درندے سے بچ کر بھاگنے کی بات پہلی بار سنی تھی، درس و تدریس کا آغاز ہو گیا تھا اور جب انسان نے بولی جانے والی آوازوں کو تحریر کی شکل میں ڈھالنے کا فن سیکھ لیا تو انسانی شعور کی گرفت میں آنے والا علم آنے والی نسلوں تک منتقل ہونا شروع ہو گیا تھا۔ غاروں کی دیواروں پر کندہ ہونے والے تصویری نقوش سے آغاز پانے والی تحریر، پتھر کی سلوں ، لکڑی اور دھات کی تختیوں سے ہوتی ہوئی چمڑے، کپڑے اور  پھر کاغذ پر منتقل ہو کر کمپیوٹر کی سکرین پر جھلملا نے لگی ہے۔ دنیا سمٹ کر ایک گلو بل  ولج بن گئی ہے۔ جہاں کبھی اطلاعات کی ترسیل ایک مسئلہ ہوا کرتی تھی وہاں آج کے فرد کو اطلاعاتی دھارے  ( Blast of Information ) کے سامنے جمے رہنا دو بھر ہو رہا ہے۔
آج ہم آگ کی دریافت ، پہیے کی ایجاد ، پتھر ، دھات اور کاغذ کے ادوار سے گزر کر سائبرایج  ( Cyber Age ) میں داخل ہو چکے ہیں۔ آگ کی دریافت سے لے کر سائبرایج تک کے اس تمام تر فاصلے کو انسان نے لگ بھگ  دس ہزار سال میں طے کیا ہے۔ اور یہاں تک  وہ اسی لئے پہنچا ہے کیونکہ اس کو آگے بڑھانے کے لئے اس کی سوچ اور فکر کو سنوارنے کے لئے درس و تدریس اور تعلّم و تعلیم کا ایک نظام کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ یہ بات بھی ہمارے علم میں ہے کہ انسانی شعور میں جو وسعت گذشتہ پانچ چھ دہائیوں میں آئی  ہے، اور جتنا فروغ علم کو گذشتہ نصف صدی کے دوران ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں جتنی ایجادات ہوئی ہیں، اس کو دیکھ کر کچھ یوں لگتا ہے گویا انسانی عقل و شعور نے ترقی کی طرف ایک بہت بڑی زقند لگائی ہے۔ آج پوری دنیا اس تیز رفتاری کے ساتھ دینے ، بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے اور دورِ  جدید کی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہونے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔
ان حالات میں جب ہم اپنے ملک میں رائج تعلیمی نظام کی بات کرتے ہیں تو اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں اصلاح کی گنجائش نہیں ہے یا یہ کہ اس نظام میں تبدیلیاں نہیں ہونی چاہیں۔ یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ اساتذہ ہوں یا والدین، طلباء ہوں یا معاشرے کا کوئی اور طبقہ، کوئی بھی موجودہ تعلیمی نظام کی صور حال سے مطمئن نہیں ہے۔  ہر ایک اس بات پہ متفق ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم فرسودہ اور ناقص ہے۔ یہ غیر معیاری ہے۔ آج کے دور کے تقاضوں اور فرد کی بدلتی ہوئی ضرورتوں کا ساتھ دینے کا اہل نہیں ہے۔
المیہ یہ نہیں ہے کہ آج ہمارے ملک میں درس و تدریس کو صنعت کا درجہ کیوں دے دیا گیا ہے۔ اصل المیہ تو یہ ہے کہ اس انڈسٹری کی مصنوعات غیر معیاری  اور تھرڈ کلاس کیوں ہیں۔ جب سب ہی طلباء ایک ہی قسم کی درسی کتب پڑھتے ہیں، ایک سا وقت بھی صرف کرتے ہیں اور بڑھ چڑھ کر فیسیں بھی دیتے ہیں تو پھر اتنی بھاری اکثریت سے فیل کیوں ہوتے ہیں اور جب ہر سال لاکھوں بچے جو فیل ہو جاتے ہیں ان کی ناکامی کا ذمہ کس کے سر جاتا ہے؟ جنہوں نے سالوں سال بچوں کے والدین سے فیسوں کے نام پر بھاری رقوم لی تھیں اور اس وعدے اور یقین دہانی پر لیں تھیں کہ وہ بچے کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کریں گے، کیا کبھی اُن سے کسی نے یہ باز پرس کی کہ وہ اپنے طلباء کو سبق یاد کرانے میں کیوں کامیاب نہیں ہوسکے؟ اور جو پاس ہو بھی جاتے ہیں تو ان میں اتنی کثیر تعداد تھرڈ  ڈویثرن  والوں کی کیوں ہوتی ہے یا جیسا کہ آج کل کہا جاتا ہے یہ ڈی اور ای گریڈ ہی اتنے زیادہ کیوں آتے ہیں؟ اور پھر کتنے افراد ایسے ہوتے ہیں جو اردو، عربی یا انگریزی میں ایم اے کریں اور انہیں اُس معیار کی اردو، عربی یا انگریزی بھی آتی ہو، جو کہ ایک ایم اے کی سند رکھنے والے کے شایانِ شان ہو؟ اک لساّنیات پر ہی کیا مؤقف ، ہر مضمون اور ہر شعبہء  تدریس کا کیا یہی عالم نہیں؟ طلباء درس گاہوں سے فارغ تو ہو جاتے ہیں لیکن نہ تو انہیں سوچنا آتا ہے، نہ سمجھنا۔ اور نہ ہی وہ کردار سے آراستہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی شخصیت کی دلاویزی میں کوئی اضافہ ہوا ہوتا ہے۔ یہ ہی نہیں بلکہ اکثریت تو آدابِ مجلس اور حفظ مراتب کے مفہوم تک سے بھی نا  آشنا ہی رہتی ہے ان پر عمل پیرا ہونا اور کار بند رہنا تو بہت دور کی بات ہے۔ Mannerism  اور  Etiquette   es کی بات کرنے والے کو تو نکو  بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔
اتنا ہی نہیں کہ جو ہونا چاہئے وہ نہیں ہو رہا بلکہ ستم تو یہ ہے کہ جو نہیں ہونا چاہئے وہ ہو رہا ہے۔  طلباء درس گاہوں اور تعلیمی اداروں سے فارغ ہوتے ہیں تو اُن میں تلاش اور جستجو، تحقیق اور دریافت کی خواہش سکڑ اور سمٹ کر لے دے کر محض ایک نوکری کی تلاش تک محدود ہو کر رہ چکی ہوتی ہے۔ طلبِ دنیا، حسبِ جاہ اور نمود و نمائش کی خواہش ایک آسیب بن کر چمٹی ہوئی ہوتی ہے۔ لالچ اور خود غرضی اُن  کے اندر اس قدر توانا  ہو چکی ہوتی ہے کہ ایثار اور قربانی کی باتیں اُنہیں فرسودہ اور فالتو  دِکھتی ہیں۔اپنی مطلب براری کے لئے غلط بیان اور جھوٹ کا سہارا لینا انہیں کوئی عیب ہی  محسوس نہیں ہوتا ۔ ان ہی سب باتوں کا تو یہ نتیجہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود اسمگلنگ، رشوت اور دیگر ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت بھی شرمندگی اور ندامت کی بجائے وجہ ء افتخار اور باعثِ رشک بن چکی ہے۔ اس دولت پرستی کے عام  ہونے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ اخلاقی قدریں ختم اور اعلیٰ صفاتِ کردار مفقود ہو چکی ہیں۔ ہم اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے سلسلے میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ جائز اور نا جائز کی تمیز ختم اور بحث عبث ہو کر رہ گئی ہے۔

اس تمام تر تمہید کا مقصد یہ امر واضح کرنا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام چند ایسے  نقائص اور خامیوں کا حامل ہے جن کی اصلاح اب وقت کا تقاضا اور ضرورت ہی نہیں بلکہ ایک امر نا گزیر ہے۔ 

Will Pakistan be fragmented?

Will Pakistan be fragmented?
Monday, November 2, 2009
Sandwiched between United States, European, Israeli and Indian designs and Pakistani Quislings.
By
Latheef Farook   (November 02, Colombo, Sri Lanka Guardian)
Will Pakistan, the only Muslim nuclear country, be fragmented as it was done in Iraq? This is the common fear among Pakistanis in view of the forces-United States, Europe and Israel, which turned Iraq and Afghanistan into slaughterhouses, are responsible for the deepening quagmire unfolding in Pakistan.

Pakistanis fear that the US led war on Islam and Muslims, under the guise of fighting war on terrorism, AlQaeda and Taleban, is extended to Pakistan .They are putting the Pakistani government of quislings against Pakistanis threatening the very survival of Pakistan. India remains an active partner in this US led conspiracy to destabilize yet another Muslim country.

President Barack Obama signed the 7.5 billion dollar aid package in mid October 2009 demanding Pakistan to launch military strike against its Pashtun tribes in wild South Waziristan. Pakistanis consider the numerous conditions linked to the aid package as insult to their country and many described the aid package as a Big Bribe that will go into the usual pockets.

Within days President Asif Zardari obediently unleashed a ferocious ground and air attack, using American-upgraded F-16s and helicopter gunships, indiscriminately killing, among the others, innocent civilians and destroying their shelters in the South Waziristan region amidst public outrage accusing the government of betraying Pakistan's national interests at home, in Afghanistan and in Kashmir.

Hundreds of thousands of innocent men, women, children and the aged were made refugees overnight with no food, water or any other essential as it happened in Swat Valley in April this year.

Under this mercenary military offensive on Washington’s orders, the Pakistani government also permitted US to secretly create a mercenary army inside Pakistan pushing the military to the point of revolt.

United States, European and Israeli designs on Pakistan.

It appears that the American strategy in Pakistan is to Pakistani government against Pakistanis, provoke a civil war and plunge the country into chaos to neutralize its nuclear arsenal that has been US neoconservatives’ urgent priority. The Americans are not interested in Pakistan or its people. They only wanted collaborators and quislings and they found a willing partner in the Asif Zardari government.

Some accuse US of playing double game by financing the Taliban and demanding the government to fight the Taleban . Justifying this fear Pakistani daily “NEWS” stated that the US-led NATO forces vacated more than half a dozen security check posts, together with some posts close to North Waziristan, on the Afghan side of the border, just five days before the Pakistani military offensive began.

This facilitated Afghan Taliban to cross over to Pakistan and support fighters in striking back at the Pakistani security forces in the troubled tribal area-raising many eyebrows in the government and military circles. Shocked and intrigued by its timing the NWFP government and civilian and military officials alerted Islamabad.

Pakistanis consider America to be the greatest threat, worse than the arch rival India, to their sovereignty and independence .They are aware that already a map showing a truncated Pakistan has been in circulation and the ever growing collaborations among India, Afghanistan US, Europe and Israel.

Aggravating this fear, US plans to build the second largest embassy in the world in Islamabad, after its embassy in Baghdad, and reportedly demanding indirect veto power over promotions in Pakistan's armed forces and intelligence agency-ISI. This crude attempt to exert more US influence over Pakistan's 617,000-man military has enraged the armed forces and set off alarm bells.

Dealing with the US-European, Israeli and Indian conspiracy to destabilize Pakistan columnist Atif F Qureshi stated that;

* The ’surge’ in American troops in Afghanistan accompanied a ’surge’ in terrorism in Pakistan. While the Afghan Taliban never threatened Pakistani sovereignty, since 2001 thousands of innocents have been killed in a wave of suicide bombings in Pakistan that ‘coincidently’, began only after the US invasion and occupation of Afghanistan in 2001.

* The Afghan occupation is deliberately extended into Pakistan and both countries are treated as a single ‘battlefield’ called AfPak .This is laughable because one is war-torn and primitive while the other has a sophisticated civic society .The purpose is to enable American forces to strike into Pakistan.

* Wave after wave of callous and imprecise drone attacks murdering innocent civilians and riling up the Pakistani public who despair at their feckless government for being complicit in continual violations of the nation’s sovereignty and dignity.

* The never-ending American pressure for Pakistan to “DO MORE!” Though no nation has done or sacrificed more to combat terrorism in its own self-interest. The number of soldiers martyred, wealth spent and tears of widows and orphans shed remain testimony to the truth that those who claim that Pakistan is half-hearted in this effort are liars.

* The CIA-sponsored democratic farce whereby American engineered its puppets to seize the reigns in Pakistan’s recent elections. For those who still deny that the Pakistani elections were engineered, think for a moment how is it possible that the most corrupt and despised man in Pakistan’s entire history, Asif Zardari would become the president of Pakistan if the elections were truly and fairly democratic?

* Even though our ‘popularly elected’ politicians are in the pocket of the Americans, they remain frustrated that certain institutions in Pakistan remain out of their reach. The black propaganda targeting Pakistan’s patriotic armed forces, intelligence services and nuclear weapons arsenal reveals their obvious intent. Well aware that these are the only institutions that truly have Pakistan’s interests at heart, the public do not appreciate the Am-Brit campaign to malign them.

* The exposure of blatant double-standards is evident as America turns on the weapons tap for India, whom it wishes to turn into its 21st century ’slave soldier’ in order to counter China, while Pakistani officials are left dangling and must debase and humiliate themselves in order to ensure the delivery of a trifling number of F-16’s and helicopters to fight the same enemies that America is sponsoring.

* The CIA shield, protect and nurture anti-Pakistan insurgent groups on Pakistani soil. The so-called ‘Baluchistan Liberation Army and ‘Tehrik-e-Taliban Pakistan’ are only a few of many of these groups base their insidious operations from inside US occupied Afghanistan.

The pockets of resistance demonstrate the existence of an honorable people who are not prepared to compromise on their dignity. The recent polling is cause for great hope. It proves what was never in doubt – the Pakistani population will not stand for these US violations of Pakistan’s sovereignty and national interest for much longer.

We know that we fear Allah more than we fear America, but the nation must now realize another profound truth – salvation does not lie in continued cooperation and debasement in front of America, but only in faith in Allah and is His Messenger (SAW). It is time for this nation to throw off its shackles and re-declare its independence.

Recently, in the officer's mess in Bajaur, the northern tribal region where the Pakistani Army is tied down fighting the militants, one officer told a visiting journalist that” Osama bin Laden does not exist”.

Explaining the American involvement in Swat Valley in last April columnist Bill Van Auken wrote in the website WSW on 16 September that;

There is mounting evidence that the Pentagon and the CIA are engaged in a war against the population of the region involving death squads, disappearances and torture. Swat Valley, near Afghanistan’s eastern border, provides a gruesome indication of the kind of war that the Pentagon and its local allies are waging.

The Pakistani army offensive in Swat Valley, carried out on the direct and highly public insistence of US envoy Richard Holbrooke, and senior American military officers, unleashed a humanitarian catastrophe. In what amounted to a massive exercise in collective punishment, many civilians were killed or wounded and some 2.5 million people were driven from their homes.

Now, the Pakistani military continues to occupy the area, carrying out a reign of terror in which individuals identified as opponents of the government and the US occupation across the border are being picked up and tortured to death.

New York Times stated on 15 September 2009 that with the military occupation of the Swat Valley “a new campaign of fear has taken hold, with scores, perhaps hundreds, of bodies dumped on the streets in what human rights advocates and local residents say is the work of the military.”

In addition to bearing marks of brutal torture, many of the bodies are discovered with their hands tied behind their backs and with a bullet in the back of the neck. In some cases, corpses have been beheaded. American officials have praised the Pakistani military for its campaign in the Swat Valley, with US Ambassador Anne Patterson visiting Mingora, Swat’s largest town, to congratulate the army.

Now the Pakistani government replicates this bloody campaign in South Waziristan. A similar offensive is already underway in the Khyber Agency, site of the Khyber Pass, a key route for supplies to the US occupation force in Afghanistan.UN officials report that 100,000 people have been displaced by the attack.

There is every reason to suspect that the wave of disappearances, torture and death squad assassinations in Pakistan are also “made in the USA”. US Special Forces “trainers” are operating on Pakistani soil, instructing Pakistani forces in the kind of tactics that yield the bound and battered bodies dumped in the streets of Swat.

Indian design to destabilize and, perhaps, further divide Pakistan

It is common knowledge that India wanted to destabilize and partition Pakistan from the day it came into being in 1947. India played a crucial role in breaking up Pakistan and creating Bangladesh in its eastern wing facilitated by the blunders of the Pakistani’s ruling elite.

India, hand in glove with American installed Hamid Karzai’s puppet regime, has 14 consulates in Afghanistan from which RAW operates and the US has turned a blind eye. Pakistan has stockpiles of evidence against Indian consulates in Afghanistan used to fund terrorism in Pakistan through Baitullah Mehsud’s TTP as well as Brahamdagh Bugti and his Baluch Liberation Army-BLA.

According to DAWN, a dossier containing proof of India’s involvement in “subversive activities” in Pakistan was handed over by Prime Minister Yousuf Raza Gilani to his Indian counterpart Manmohan Singh during their meeting at Sharm el-Sheikh in July 2009.The dossier, broadly covering the Indian connection in terror financing in Pakistan, is also said to list the safe houses being run by RAW in Afghanistan where terrorists are trained and launched for missions in Pakistan.

The dossier also mentions an India-funded training camp in Kandahar where Baluch insurgents, particularly those from Bugti clan, were being trained and provided arms and ammunition for sabotage activities in the Pakistani province. Although the information given to India is being kept highly secret, broad outlines of the dossier available with Dawn reveal details of Indian contacts with those involved in attacks on the Sri Lankan cricket team and the Manawan police station,” the newspaper said.

“Operatives of RAW who remained in touch with the perpetrators of the attacks have been identified and proof of their interaction has been attached,” it added.

A description of Indian arms and explosives used in the attack on the Sri Lankan team has been made part of the dossier, besides which the names and particulars of the perpetrators, who illegally entered Pakistan from India and joined their accomplices who had reached Lahore from Waziristan, have been mentioned, the report said.

Here is what Christine Fair of RAND Corporation had to say about what the Indian consulates are up to in Afghanistan and Iran:

“I think it would be a mistake to completely disregard Pakistan’s regional perceptions due to doubts about Indian competence in executing covert operations. That misses the point entirely. In addition, I think it is unfair to dismiss the notion that Pakistan’s apprehensions about Afghanistan stem in part from its security competition with India. Having visited the Indian mission in Zahedan, Iran, I can assure you they are not issuing visas as the main activity! Moreover, India has run operations from its mission in Mazar (through which it supported the Northern Alliance) and is likely doing so from the other consulates it has reopened in Jalalabad and Qandahar along the border. Indian officials have told me privately that they are pumping money into Baluchistan. Kabul has encouraged India to engage in provocative activities such as using the Border Roads Organization to build sensitive parts of the Ring Road and use the Indo-Tibetan police force for security. It is also building schools on a sensitive part of the border in Kunar–across from Bajaur. Kabul’s motivations for encouraging these activities are as obvious as India’s interest in engaging in them. Even if by some act of miraculous diplomacy the territorial issues were to be resolved, Pakistan would remain an insecure state. Given the realities of the subcontinent (e.g., India’s rise and its more effective foreign relations with all of Pakistan’s near and far neighbors), these fears are bound to grow, not lessen. This suggests that without some means of compelling Pakistan to abandon its reliance upon militancy, it will become ever more interested in using it — and the militants will likely continue to proliferate beyond Pakistan’s control.”

Confirming the Indian support to TTP in Pakistan The Foreign Policy magazine said: “The Indians are up to their necks in supporting the Taliban against the Pakistani government in Afghanistan and Pakistan,” a former intelligence official who served in both countries said.

“The same anti-Pakistani forces in Afghanistan also shooting at American soldiers are getting support from India. India should close its diplomatic establishments in Afghanistan and get the Christ out of there.”

Afghan officials have also confirmed that India is using Afghanistan to stir trouble in Pakistan.“India is using Afghan soil to destabilize Pakistan and Afghan security agencies are unable to stop Indian intervention due to absence of centralized government mechanism”, said Afghan Government’s Advisor, Ehsanullah Aryanzai on sidelines of Pak-Afgan Parliamentary Jirga at a local hotel on April 2, 2009.

Pakistani Taleban using American, Nato, Indian and German weapons

An Islamabad datelined report by Akhtar Jamal Wednesday, 21 October 2009 stated that: Reports reaching here confirm that hundreds of militants from Tehreek-i-Taliban Pakistan (TTP), and other associated groups are equipped with most sophisticated American, Indian and German weapons.

According to a survey the weapons in the possession of these militants included U.S. made M249 automatic machine guns, U.S.-made Glock pistols, Indian hand guns, FN Browning GP35 9mmx19mm, Indian automatic machine pistols GLOCK 17 9mmx19mm, Indian machine guns Heckler & Koch MP5A3 9mmx19mm, Indian made Sterling L2A1 sub machine guns, Israeli licensed Indian made UZI 9mmx19mm sub machine guns and German Walther-P1 pistols.

During Swat operation, a number of the Indian army used Vickers-Berthier (VB) light machine guns were also recovered. The recoveries of Indian designed weapons were not astonishing for Pakistan. However, what was more surprising is that the U.S. and German weapons were recently introduced in the Waziristan area.

Ruling Elite

Pakistan’s ruling elite comprising the armed forces, bureaucracy, feudal landlords and capitalists never learnt any lesson. In fact, within a quarter century after Pakistan was created they created the conditions, exploited by India and other hostile forces, to create Bangladesh.

Columnist Ahmed Quraishi pointed out that “ fake democrats produce a fake democracy. This is what our westernized Pakistani elite and some of the self-styled ‘liberals’ in our media don’t understand. A Parliament filled with feudal lords who rape the women of the peasants on their lands and operate secret prisons, and then come to the Parliament in expensive shiny cars and jewelry thanks to political parties where another set of feudal run them as family grocery shops - this is no democracy.

Accusing main political parties and their leaderships of undermining the existence of Pakistan Dr. Hasan, co-founder of the Pakistan People’s Party with Zulfiqar Ali Bhutto in 1967 said:” over the years, they have failed to understand that the state of Pakistan is unraveling. The administrative structure of the state is no longer capable of ensuring the performance of the basic duties of the state, mainly the protection of life, property and dignity of the people, dispensation of justice to all citizens as equals, semblance of equitability in the distribution of wealth and assuring a sense of belonging to the Balochs, Pashtuns, Sindhis and Punjabis that the Government at Islamabad is their Government.

The gulf between the rich and the poor has widened enormously. 98 % of the population is in a state of despair and frustration and has lost hope. The wealthy 2 %, armed with foreign passports and visas with huge wealth stashed abroad, are ready to leave the country any time.

The old grievances among the provinces of Sindh, Punjab, Balochistan and NWFP have reached all time high. Cooperation at the federal level has disappeared; complaints and prejudices have taken the place of patriotic fervor.

What had begun in the early years of Pakistan as grievances and complaints between East and West Pakistan, between the Bengalis and Punjabis, has now been replaced by tensions between Punjabis, Sindhis and Mohajirs and between independence-seeking Balochs and Pashtuns.The absence of cooperation between the provinces has snowballed, making Pakistan a fragile state.

It was under this unfortunate circumstance Asif Zardari was elected as President showing the depth to which the state assemblies had descended. Zardari is neither a politician nor a professional. He was known as the husband of assassinated prime Minister Benazir Bhutto, twice elected as prime minister and dismissed on both times on corruption charges. Zardari, better known as Mr. 10 Percent, has been accused of corruption, fraud, underworld links and even murder. Even after elected president, he was implicated in several scandals including an alleged submarine deal for Pakistan Navy.

Eric S. Margolis, a contributing editor to the Toronto Sun chain of newspapers, said in an article that;

“Zardari has been dogged for decades by corruption charges. Washington seems unaware of the fury its crude, counter-productive policies have whipped up in Pakistan. The Obama administration listens to Washington-based pro-Israel neo-conservatives, military hawks, and “experts” who tell it what it wants to hear, not the facts. Pakistan’s military, the nation’s premier institution, is being pushed to the point of revolt. Against the backdrop of bombings and shootings, come rumors the heads of Pakistan’s armed forces and intelligence may be replaced. Pakistanis are calling for the removal of the Zardari regime’s strongman, Interior Minister Rehman Malik. The possibility of a military coup against the Zardari regime grows. However, Pakistan is dependent on US money, and fears India. Can its generals afford to break with patron Washington?

It was in this context one should view Zardari’s military onslaught on his own people to please President Obama who began drone attacks, almost immediately after he assumed office, violating Pakistan’s sovereignty, killing hundreds of innocent civilians in the footsteps of his predecessor George Bush.

In fact in a report presented to the UN General Assembly on Tuesday 26 October 2009 ,UN Special Rapporteur on Extrajudicial Executions Philip Alston described US drone strikes against suspected terrorists in Afghanistan and Pakistan may well violate international humanitarian law and international human rights law.

” My concern is that these attacks in Afghanistan and northwestern Pakistan have often resulted in civilian deaths and drawn bitter criticism from local populations. Since August 2008, around 70 strikes by unmanned aircraft have killed close to 600 people in northwestern Pakistan,” said Philip Alston.

Meanwhile after Pakistan launched its military strike there were several deadly bomb explosions including the one on the International Islamic University in Islamabad and the market place in Peshawar.

Taleban denied responsibility. However, analysts were quick to accuse the notorious US security firm Blackwater, known for its heinous crimes - rape, torture and bombings - in Iraq and Afghanistan, perhaps aimed at putting the government and the so-called Taleban against each other.

Erik Prince, the founder and the boss of Blackwater ,world's most powerful mercenary army, accused in court papers of seeking to wipe out Muslims, views himself as a Christian crusader tasked with eliminating Muslims and the Islamic faith from the planet, according to a former employee. These Blackwater mercenaries are in Pakistan and the question is why did the Pakistani government allow them into the country?

In the midst, US Secretary of State Hillary Clinton arrived in Pakistan on a stormy three days visit on Wednesday 28 October 2009 to convey the Obama administration's support, praise the Pakistani government for its military offensive, and tackle rising anti-US feelings among the Pakistani people.

She was greeted with a sophisticated bomb in busy Meena Bazar market in Peshawar killing more than 107 people- most of them innocent women and children. Taleban denied. So the question is who planted such a sophisticated bomb?

She faced sharp rebukes from Pakistani citizens and journalist on the third day of her visit when a woman who chastised the US stating, “Using aerial drones to target terrorists amounted to "executions without trial." while another journalist said “we’ve been fighting your war”.

US appeared to be trying to push the government go beyond South Waziristan when she warned,” after South Waziristan, the Pakistanis will have to go on to root out other terrorist groups”. She never spoke a word about the devastating impact on the entire civilian population in South Waziristan forced to flee for their lives as villages and towns were literally being bombed into rubble.

The question is what next? Will Pakistan be next Iraq? How far the Pakistani government could go in killing its own people to please US?

It appears a poem by Khalil Gibran written in 1934, and now in circulation in e-mails, suit Pakistan’s current dilemma?

Pity the nation that raises not its voice
save when it walks in a funeral,
boasts not except among its ruins,
and will rebel not save when its neck is laid
between the sword and the block.

Pity the nation whose statesman is a fox,
whose philosopher is a juggler,
and whose art is the art of patching and mimicking.

Pity the nation that welcomes its new ruler with trumpeting,
and farewells him with hooting,
only to welcome another with trumpeting again.

Pity the nation whose sages are dumb with years
and whose strong men are yet in the cradle.
Pity the nation divided into fragments,


Why Outdoor Sports in this School?

Why Outdoor Sports in this School?
We, in The Leaders International School & College, have spent crores of Rupees to purchase over 100 kanals of land for outdoor sports activities within the campus, like Foot Ball, Cricket, Hockey, Athletics, Swimming, Basket Ball, Soft Ball, Lawn Tennis, Rugby, Badminton, Volley Ball etc.  Why? We owe an explanation to our valued parents indeed.
It is an established fact that sports activities have a major and everlasting impact on developing health and character building of the players. We shall emphasize on our students to play at least three outdoor and three indoor games. They shall be properly coached. Such activities, along with many other extra-curricular activities, shall greatly contribute to achieve the following traits in our students which will translate beyond the playing field to all aspects of life whether it is in the classroom, at home, at work, or in the community:
Character Building
ü Good Leadership Skills.
ü Better Team Work and Social Skills.
ü Inculcation of Fairness, Honesty and Integrity.
ü Better Responsibility Skills.
ü Planning, Execution and Administration Skills.
ü Develop Habit of Hard Work, and Perseverance.
ü Development of Self-Esteem and Confidence.
ü Elimination of Ethnic, Racial, Linguistic and Cultural Barriers.
ü Healthy Competition and Realization of Shared Goals.
ü More Caring, Friendly, Balanced and Ethical Behavior.

Health
ü Physical Fitness and Balanced Development of all Physical Abilities.
ü Promoting Good Health and Preventing Diseases.
ü Alert & Fresh Mind leading to Better Academic Performance.
Recreation
ü Happy and Tension-Free Behavior.
ü Motivation to perform much better all over.
ü Violence level goes down, Satisfaction level goes up.


Why did GOD Create the Universe?

Why did God Create the Universe?
Description: PDFDescription: PrintDescription: E-mail
Last Updated on Wednesday, 14 June 2006 14:00 by Fethullah Gülen Thursday, 13 September 2001 17:41

When analysing this issue, some facts must be kept in mind. While we perceive things from a human perspective, God does not. While we act out of necessity or desire, God does not. In other words, we cannot ascribe human attributes and motivations to God.
Who is distressed by the universe's creation? Who does not desire to enjoy its benefits or seek happiness? Very few people express real sorrow at being in this world. Some have killed themselves, but their numbers are very small. The overwhelming majority of people are glad to be alive, to be here, and to be human. Who complains of being cared for by his or her parents, or of being nourished by that love during childhood? Who complains of being a young person, during which time the exhilaration of life is felt in the very bones? Which mature adult complains of having a family, children, and leading a harmonious life with them? How can we hope to measure the happiness of Muslims who, even as they are cultivating the seed for the next world, are ensuring success in this world? They are discovering the keys to the gates of ultimate happiness, and so are content and feel no distress.
The universe, which has been ornamented with every sort of art, is like an endless parade or exhibition designed to attract us and make us reflect. Its extraordinary diversity and magnificent adornment, the sheer abundance and flow of events, present a certain reality to our senses and minds. This reality indicates the existence of an agent who brings it into being. Through the reality of His works and deeds we come to know the Doer, and so His Names. Through these Names, we try to know His Attributes. Through the channels and prayers opened to our hearts, we strive to know Him in Himself. This raising up of our being is inspired across a wide domain of reality—things, events, the vast realm of humanity's stewardship, as well as the relation or connection between us and the universe and the realm of God's Names and Attributes.
But why did God create all of this? Consider the following: Great sculptors can produce, from the hardest stone or wood, life-like statues that express the most delicate feelings. But we cannot know these sculptors as sculptors unless their abilities are revealed. We can come to know or deduce their abilities from the statues or the process used to produce them. Every potentiality wishes to reveal the reality hidden within itself, to demonstrate what it knows by assuming an outward form. Seeds strive to sprout, sperms strive to join the egg in the womb, and floating bubbles strive to reach ground as drops of water.
The urge to show our potentialities, and thus to be seen and known by others, is an expression of weakness or defect, as all beings and their wishes are merely shadows of the original essence. However, the Creator has no defect or weakness. Remember that no single or composite manifestation of the essence is similar to the actual essence.
All artistry in the universe informs us of God's Names. Each Name, displayed by what has been created, illuminates our way and guides us to knowledge of the Creator's Attributes. They stimulate and awaken our hearts by His signs and messages carried to our senses.
The Creator wills to introduce Himself to us clearly and thoroughly. He wills to show His Splendor through the variety and beauty of creation; His Will and Might through the universe's magnificent order and harmony; His Mercy, Compassion, and Grace through His bestowal of everything upon us, including our most secret wishes and desires. And He has many more Names and Attributes through which He wills to make Himself known.
In other words, He creates and places things in this world to manifest His Might and Will. By passing all things through the prism of the intellect and understanding of conscious beings, He arouses their wonder, admiration, and appreciation. Great artists manifest their talents through works of art; the Owner of the universe created it simply to manifest the Might and Omnipotence of His Creativity.


Featured Post

Adiala Jail's monitoring is strict, meetings are limited, 3 members of the party will be allowed to meet Pakistan Tehreek-e-Insaf founder Imran Khan, Naeem Panjotha, Khalid Shafiq and Naseeruddin Nair.

Adiala Jail's monitoring is strict, meetings are limited, 3 members of the party will be allowed to meet Pakistan Tehreek-e-Insaf founde...