ضرورتوں
کا علم
ٹی
وی پر ایک مذاکرہ ہو رہا تھا۔ مذاکرے کا عنوان تھا’ہمارا ملکی نظامِ
تعلیم’۔ سب شرکاء نے بڑھ چڑھ کر بحث میں حصّہ لیا۔
گھنٹے بھر کے پروگرام میں وہ کسی قابلِ عمل تجویز اور جامع قسم کے لائحہ عمل پہ متفق ہو ہی کہاں سکتے تھے۔ حسبِ دستور وقت کی
کمی کا رونا روتے ہوئے، اُس پروگرام کے اینکر پرسن نے بات سمیٹتے ہوئے کہا۔ علاوہ دیگر باتوں
کے یہ بات طے ہے کہ جتنا اہتمام ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو ضرورتوں کی تعلیم
دینے کا کیا ہے، اتنا اہتمام علم کی ضرورت کے حوالے سے کرنے میں ہم ناکام ہی رہے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم
ضرورتوں کا علم دینے کے ساتھ ساتھ علم کی ضرورت
کو بھی سمجھیں اور اپنے نظامِ تعلیم میں ایسی تبدیلیاں لائیں جو ہماری آنے والی
نسلوں کو سچ مچ علم سے آراستہ کرنے میں ممد و معاون ہوں۔
محض
کسی ایک مذاکرے یا مباحثہ میں کیا گیا اعتراف نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ
ہمارے ملک کے نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے کیونکہ جو نظام علم کی
بجائے محض ضرورتوں کی تعلیم دینے کا نظام بن چکا ہو و ہاں علم کی فرا وانی کی توقع
کرنا تو ایسا ہی ہے جیسا کسی گھسیارے سے سونے کو کندن بنانے کی فرمائش کرنا۔
معاش
اور معاشرت کی ضرورتیں، روٹی کمانا، شادی بیاہ، گھر بنانا اور گھر ہستی چلانا،
بچوں کی دیکھ بھال اور اُن کی تعلیم و تربیت یہ سب اور ان سے جڑی دیگر بہت سی
ضرورتیں ایسی ہیں جن کو احسن طور پر پورا کرنے کے لئے انسان کو متعلقہ باتوں کا
بھر پور علم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ علم خالق کائنات کی ایک ایسی بیش بہا عطا ہے جو ایک طرف انسان کو شعور ، آگہی اور
عرفان سے آراستہ کرتا ہے اور دوسری طرف انسان کو اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے
لئے درکار وسائل پہ تصرف و اختیار عطا کرتا ہے بلکہ مزید وسائل پیدا کرنے کے قابل
بھی بنا دیتا ہے۔ لیکن جب ہم خود کو محض ضرورتوں کی بابت علم حاصل کرنے تک محدود
کر لیتے ہیں تو ہوتا یہ ہے کہ ہم ضرورتوں کو پورا کرنے والے وسائل پہ دسترس کھو
بیٹھتے ہیں اور جب ضرورتوں کے لئے درکار وسائل ہماری دسترس میں نہیں آتے تو یہ
صورتِ حال ہم میں بے بسی، مایوسی اور محرومی کا احساس پیدا کرنے کا باعث بن جاتی
ہے۔ اپنی ضرورتوں کے لئے درکار وسائل ہماری دسترس میں نہیں آتے تو یہ صورتِ حال ہم
میں بے بسی، مایوسی اور محرومی کا احساس پیدا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ اپنی
ضرورتوں کے لئے درکار وسائل پیدا کرنے کی اہلیت علم سے پیدا ہوتی اور ریاضت سے
جِلا پاتی ہے۔ علم کے حصول کی ہدایت میں پنہاں حکمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس
سے ضرورتوں کی تکمیل کے لئے درکار وسائل انسان کی پہنچ اور دسترس میں آسکتے ہیں۔
اپنی
ضرورتوں کے لئے درکار وسائل تک نارسائی انسان میں ایک طرف تو محرومی اور یاسیت کا
سبب بنتی ہے اور دوسری طرف اس کے اندر مسائل کو حل کرنے کی فطری صلاحیت بھی گہنا
جاتی ہے۔ مسائل کو حل کرنے کی فطری صلاحیت کے مناسب استعمال میں نہ آنے سے ہوتا
یہ ہے کہ انسان اپنی جلد بازی میں مسائل کے حل کے لئے آسان ، فوری اور مختصراً ہیں اختیار کرنے کے چکر میں پڑ جاتا ہے۔ اور
اپنی لاعلمی کے ہاتھوں ناجائز ، غیر اخلاقی اور غیر قانونی راہوں پہ چلنے کا رحجان پیدا ہونے لگتا ہے۔ تن آسانی اور سہل پسندی کو
یوں تو سبھی بُرا مانتے اور جانتے ہیں لیکن وقت پڑنے پر کم ہی اس سے اجتناب کرنے
کی طاقت اور ہمت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ اب یہ ہے وہ گھمبیر صورتِ حال جس سے آج
ہمارا پورا معاشرہ دو چار ہے اور اس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ ہمیں سو جھائی نہیں
دے رہی کیونکہ بے بسی، مایوسی اور لا چاری جہاں ایک طرف ذہنی انتشار اور پراگندگی
کا سبب بنتی ہے وہاں دوسری طرف وہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی کردار سے بھی محروم
کرنے کی بنیادی وجہ ہے۔
انفرادی
یا قومی اور اجتماعی کردار انہی تمام باتوں کا عکس ہوا کرتا ہے جو ہم سیکھتے ہیں،
جو ہم اپنا لیتے ہیں اور پھر اُن پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں اور وہ ہماری زندگی کے
معمولات بن جاتی ہیں۔ ہم کسی بھی شخص کے کردار کا اندازہ اُس میں موجود اُن
خصوصیات سے لگاتے ہیں جو اُس نے اپنے لئے پسند کرنے کے بعد اپنا لی ہوتی ہیں اور
وہ ان پر عمل پیرا رہتا ہے۔ اگر کسی شخص نے اچھی ، مفید اور دوسروں کے کام آسکنے
والی خصوصیات اپنا رکھی ہوں تو ہم اُس کو اچھے کردار کا حامل شخص گردانتے ہیں ورنہ
بصورتِ دیگر اُس کو برے کردار کا مالک قرار دے دیتے ہیں۔ باالفاظ ِ دیگر انسانی کردار
انسان کی آزمودہ علمیت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔
اس
بحث سے قطع نظر کہ کسی انسان کی شخصیت اور کردار میں کیا فرق ہوتا ہے،اتنی سی بات
واضح کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہر بچہ پیدائشی طور پر اپنی ایک انفرادی
شخصیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کا کردار ان باتوں سے تشکیل پاتا ہے جو وہ حالات ،
واقعات اور معاشرے اور ہر تہذیب میں یہ کوششیں بالعموم کی جاتی رہی ہیں کہ دنیا میں آنے والے ہر بچے کو وہ باتیں
سکھا دی جائیں جو اس کو ایک بہتر انسان بننے اور ایک کامیاب زندگی گزارنے میں مدد
دے سکیں۔ اس سیکھنے سکھانے کا آغاز ماں
کی گود سے ہی ہو جاتا ہے اور جوں جوں بچہ بڑا ہوتا چلا جاتا ہے خاندان اور پھر
معاشرے کے دیگر افراد اس کام میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے لے
کر آخری دین تک آنے والا مذہب اس سیکھنے
سکھانے کے عمل کے الوہی ادارے ہی تو تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہر مذہب اور دین کی
تعلیمات میں بالخصوص انسان کی شخصیت کی تعمیر و تنظیم اور کردار سازی پر بہت زیادہ
توجہ دینے کی ہدایات ملتی ہیں تا کہ انسان اسفل سطح سے ابھر کر اُس شرف سے آراستہ
ہو جائے جس کے سبب وہ مسجودِ ملائک اور اشرف المخلوقات قرار دیا جاتا ہے۔
اس
سیکھنے سکھانے کے عمل نے کب ایک باقاعدہ اور منظم ادارے کی صورت اختیار کی اس کی
بابت یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اتنا تو ضرور طے ہے کہ جس دن بچے نے باپ سے شکار کرنے یا کسی
درندے سے بچ کر بھاگنے کی بات پہلی بار سنی تھی، درس و تدریس کا آغاز ہو گیا تھا
اور جب انسان نے بولی جانے والی آوازوں کو تحریر کی شکل میں ڈھالنے کا فن سیکھ
لیا تو انسانی شعور کی گرفت میں آنے والا علم آنے والی نسلوں تک منتقل ہونا شروع
ہو گیا تھا۔ غاروں کی دیواروں پر کندہ ہونے والے تصویری نقوش سے آغاز پانے والی
تحریر، پتھر کی سلوں ، لکڑی اور دھات کی تختیوں سے ہوتی ہوئی چمڑے، کپڑے اور پھر کاغذ پر منتقل ہو کر کمپیوٹر کی سکرین پر جھلملا
نے لگی ہے۔ دنیا سمٹ کر ایک گلو بل ولج بن
گئی ہے۔ جہاں کبھی اطلاعات کی ترسیل ایک مسئلہ ہوا کرتی تھی وہاں آج کے فرد کو
اطلاعاتی دھارے ( Blast of Information ) کے سامنے جمے رہنا دو بھر ہو رہا ہے۔
آج
ہم آگ کی دریافت ، پہیے کی ایجاد ، پتھر ، دھات اور کاغذ کے ادوار سے گزر کر سائبرایج
( Cyber Age ) میں داخل ہو چکے ہیں۔ آگ کی دریافت سے لے کر سائبرایج تک کے اس
تمام تر فاصلے کو انسان نے لگ بھگ دس ہزار
سال میں طے کیا ہے۔ اور یہاں تک وہ اسی
لئے پہنچا ہے کیونکہ اس کو آگے بڑھانے کے لئے اس کی سوچ اور فکر کو سنوارنے کے
لئے درس و تدریس اور تعلّم و تعلیم کا ایک نظام کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔
یہ بات بھی ہمارے علم میں ہے کہ انسانی شعور میں جو وسعت گذشتہ پانچ چھ دہائیوں
میں آئی ہے، اور جتنا فروغ علم کو گذشتہ
نصف صدی کے دوران ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں جتنی ایجادات ہوئی ہیں، اس کو دیکھ
کر کچھ یوں لگتا ہے گویا انسانی عقل و شعور نے ترقی کی طرف ایک بہت بڑی زقند لگائی
ہے۔ آج پوری دنیا اس تیز رفتاری کے ساتھ دینے ، بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق خود
کو ڈھالنے اور دورِ جدید کی ضرورتوں سے ہم
آہنگ ہونے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔
ان
حالات میں جب ہم اپنے ملک میں رائج تعلیمی نظام کی بات کرتے ہیں تو اس بات سے کوئی
بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں اصلاح کی گنجائش نہیں ہے یا
یہ کہ اس نظام میں تبدیلیاں نہیں ہونی چاہیں۔ یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ اساتذہ
ہوں یا والدین، طلباء ہوں یا معاشرے کا کوئی اور طبقہ، کوئی بھی موجودہ تعلیمی
نظام کی صور حال سے مطمئن نہیں ہے۔ ہر ایک
اس بات پہ متفق ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم فرسودہ اور ناقص ہے۔ یہ غیر معیاری ہے۔
آج کے دور کے تقاضوں اور فرد کی بدلتی ہوئی ضرورتوں کا ساتھ دینے کا اہل نہیں ہے۔
المیہ
یہ نہیں ہے کہ آج ہمارے ملک میں درس و تدریس کو صنعت کا درجہ کیوں دے دیا گیا ہے۔
اصل المیہ تو یہ ہے کہ اس انڈسٹری کی مصنوعات غیر معیاری اور تھرڈ کلاس کیوں ہیں۔ جب سب ہی طلباء ایک ہی
قسم کی درسی کتب پڑھتے ہیں، ایک سا وقت بھی صرف کرتے ہیں اور بڑھ چڑھ کر فیسیں بھی
دیتے ہیں تو پھر اتنی بھاری اکثریت سے فیل کیوں ہوتے ہیں اور جب ہر سال لاکھوں بچے
جو فیل ہو جاتے ہیں ان کی ناکامی کا ذمہ کس کے سر جاتا ہے؟ جنہوں نے سالوں سال
بچوں کے والدین سے فیسوں کے نام پر بھاری رقوم لی تھیں اور اس وعدے اور یقین دہانی
پر لیں تھیں کہ وہ بچے کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کریں گے، کیا کبھی اُن سے کسی نے
یہ باز پرس کی کہ وہ اپنے طلباء کو سبق یاد کرانے میں کیوں کامیاب نہیں ہوسکے؟ اور
جو پاس ہو بھی جاتے ہیں تو ان میں اتنی کثیر تعداد تھرڈ ڈویثرن والوں
کی کیوں ہوتی ہے یا جیسا کہ آج کل کہا جاتا ہے یہ ڈی اور ای گریڈ ہی اتنے زیادہ
کیوں آتے ہیں؟ اور پھر کتنے افراد ایسے ہوتے ہیں جو اردو، عربی یا انگریزی میں
ایم اے کریں اور انہیں اُس معیار کی اردو، عربی یا انگریزی بھی آتی ہو، جو کہ ایک
ایم اے کی سند رکھنے والے کے شایانِ شان ہو؟ اک لساّنیات پر ہی کیا مؤقف ، ہر
مضمون اور ہر شعبہء تدریس کا کیا یہی عالم
نہیں؟ طلباء درس گاہوں سے فارغ تو ہو جاتے ہیں لیکن نہ تو انہیں سوچنا آتا ہے، نہ
سمجھنا۔ اور نہ ہی وہ کردار سے آراستہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی شخصیت کی دلاویزی
میں کوئی اضافہ ہوا ہوتا ہے۔ یہ ہی نہیں بلکہ اکثریت تو آدابِ مجلس اور حفظ مراتب
کے مفہوم تک سے بھی نا آشنا ہی رہتی ہے
ان پر عمل پیرا ہونا اور کار بند رہنا تو بہت دور کی بات ہے۔ Mannerism اور Etiquette es کی بات کرنے والے کو تو نکو بنا کر رکھ دیا
جاتا ہے۔
اتنا
ہی نہیں کہ جو ہونا چاہئے وہ نہیں ہو رہا بلکہ ستم تو یہ ہے کہ جو نہیں ہونا چاہئے
وہ ہو رہا ہے۔ طلباء درس گاہوں اور تعلیمی
اداروں سے فارغ ہوتے ہیں تو اُن میں تلاش اور جستجو، تحقیق اور دریافت کی خواہش
سکڑ اور سمٹ کر لے دے کر محض ایک نوکری کی تلاش تک محدود ہو کر رہ چکی ہوتی ہے۔
طلبِ دنیا، حسبِ جاہ اور نمود و نمائش کی خواہش ایک آسیب بن کر چمٹی ہوئی ہوتی
ہے۔ لالچ اور خود غرضی اُن کے اندر اس قدر
توانا ہو چکی ہوتی ہے کہ ایثار اور قربانی
کی باتیں اُنہیں فرسودہ اور فالتو دِکھتی
ہیں۔اپنی مطلب براری کے لئے غلط بیان اور جھوٹ کا سہارا لینا انہیں کوئی عیب
ہی محسوس نہیں ہوتا ۔ ان ہی سب باتوں کا
تو یہ نتیجہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود اسمگلنگ، رشوت اور دیگر ناجائز ذرائع
سے کمائی ہوئی دولت بھی شرمندگی اور ندامت کی بجائے وجہ ء افتخار اور باعثِ رشک بن
چکی ہے۔ اس دولت پرستی کے عام ہونے کا ایک
نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ اخلاقی قدریں ختم اور اعلیٰ صفاتِ کردار مفقود ہو چکی
ہیں۔ ہم اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے سلسلے میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ جائز اور نا
جائز کی تمیز ختم اور بحث عبث ہو کر رہ گئی ہے۔
اس
تمام تر تمہید کا مقصد یہ امر واضح کرنا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام چند ایسے نقائص اور خامیوں کا حامل ہے جن کی اصلاح اب
وقت کا تقاضا اور ضرورت ہی نہیں بلکہ ایک امر نا گزیر ہے۔
No comments:
Post a Comment