روحانی والدین

روحانی والدین
اساتذہ کرام کی بابت یہ بات کس کے علم میں نہیں کہ وہ اپنے وہ تلامذہ اور شاگردوں کے لئے روحانی والدین کی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو یہ دیکھ کر عقل و شعور اور وجدان اور آگہی سر پیٹ کر رہ  جاتے ہیں کہ ہم روحانی تو درکنار اساتذہ کرام کو محض والدین جتنا رتبہ دینے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
اس بات کا اگر اس حوالے سے جائزہ لیا جائے کہ ہماری اس ناکامی کی اصل وجوہات کیا ہیں اور اس تمام صورتِ حال کا غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تاکہ ان عوامل کا  کھوج لگایا جا سکے جو اُس دگرگوں حالت کا اصل سبب ہیں، تو پہلی بات جو ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ روحانی والدین ہونے کے اس منفرد اعزاز ، اعلیٰ مقام اور بلند رہے کو کھو دینے میں اساتذہ کرام کا اپنا قصور بہت ہی نمایاں ہے۔ آخر وہ بھی تو استاذ تھے جنہیں اُن کے تلامذہ اور شاگردوں نے اس لقب سے یاد کر اپنی سعادت سمجھا تھا۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کی تلاش کریں کہ آج کا استاذ اس مقامِ گم گشتہ کو حاصل کیونکر اور کیسے کرسکتا ہے۔
اساتذہ کی حالتِ زار اور تعلیمی نظام میں موجودہ خرابی اور بگاڑ وہاں سے شروع ہوا جب لوگوں نے خواہشِ قلبی اور جذبہ درس و تدریس کے تحت نہیں بلکہ محض اک وسیلہء روزگار کے طور پر استاذ بننا قبول کیا۔ درس و تدریس کی حرمت کو بچانے کے لئے جیسی شخصیت اور جتنی توانائی درکار تھی اس کی توقع ان سے کرنا جو کردار سے اس حد تک عاری ہوں کہ محض چند ٹکوں کی خاطر پر چوں میں ردو  بدل سے لے کر اضافی نمبر تک لگانے سے گریز نہ کرتے ہوں اور علم سے اس قدر بےگانہ ہوں کہ اگر کوئی شاگرد کوئی ایسا سوال دریافت کرلے جس کا جواب انہیں نہ آتا  ہو تو وہ اس بات کو اپنی بے عزتی پر محمول کرتے ہوں، ایک احمقانہ خواہش ہی ہوسکتی ہے اور اس لحاظ سے ہم سب ہی اسی احمقانہ خواہش کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس تیل سے یہ آگ جلنا شروع ہوئی تھی اُس ہی تیل کو اس آگ کو بجھانے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایسا سمجھنا ہماری سادگی سے  زیادہ جہالت ہی کی دلیل ہوسکتی ہے۔
اس صورت حال کو سمجھنے کے لئے اگر یہ سروے کیا جائے کہ آج کے طلباء کی آئیڈیل شخصیت ہے اور میں اپنی زندگی میں انہی جیسا انسان بننا چاہتا ہوں۔ ماضی میں بھی لے دے کر ہمیں ایک مولوی میر حسن ہی کی مثال ملتی ہے۔ آپ علامہ اقبال جیسی نابغہ روزگار ہستی کے استاذ تھے۔ جب حکومت برطانیہ  نے علامہ اقبال کو سرکا خطاب دیا تو انہوں نے فرمائش کی کہ اس خطاب کے اصل حقدار تو مولوی صاحب ہیں اس لئے آپ یہ خطاب انہیں کو دیں۔ اس پر کہتے ہیں کہ ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا انہوں نے بھی کوئی معرکتہ الآ راء کتاب  تصنیف کی ہے تو اقبال نے بڑی رسا نیت سے کہا تھا جی ہاں اور پھر اپنی طرف اشارہ  کرکے کہا کہ وہ کتاب میں ہوں۔
یاد رہے کہ مولوی میر حسن نے اقبال کو ان کی تعلیمی زندگی کے ابتدائی دور میں ہی  مستفیض کیا تھا۔اقبال نے بعد میں اور بہت سے اساتذہ سے بھی اکتسابِ فیض کیا لیکن سرکا خطاب لیتے وقت صرف انہی کو یاد کیا اور نہ صرف  یاد کیا  بلکہ انہی کو اس خطاب کا اصل حقدار بھی ٹھہرایا۔  اس میں اقبال کی احسان مندی کا جذبہ اپنی جگہ لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اقبال نے اپنی زندگی میں تو ملکی اور غیر ملکی، دیسی اور بدیشی بہت سے اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا تھا لیکن ان تمام میں سے انہوں نے صرف مولوی صاحب کا نام ہی کیوں لیا۔ کیا اُن کا یہ کہنا کم معنیٰ خیز ہے کہ میں خود انکی زندہ و جاوید تصنیف ہوں۔ مولوی میر حسن کے بعد سے آج تک کتنے اساتذہ نے ان کی قائم کی گئی مثال کے موجب کتنی زندہ و جاوید تصانیف اپنے پیچھے چھوڑی ہیں؟ یہ بات آج کے کتنے اساتذہ کا مقصد حیات ہے کہ وہ اپنے پیچھے زیادہ نہیں تو کوئی ایک آدھ انسان تو ایسا بنا جائیں جو اپنے ساتھ ان کی نیا کو بھی پار لگا سکتا ہو؟
اصل بات یہی ہے کہ اساتذہ کرام کو یہ بات سمجھنا  ہوگی کہ خود اُن کا اپنا بھی کوئی مقصد حیات ہونا چاہئے۔ جب اُن کی اپنی زندگی کا کوئی مقصد اُن کے پیشِ نظر ہوگا  تو وہ اپنے شاگردوں میں بھی کوئی نہ کوئی اعلیٰ نصب العین پیدا کر دیں گے۔ ورنہ تو بات لکھنا پڑھنا سکھانے تک ہی رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ اب رہی بات کہ  اساتذہ کا اپنا نصب العین کیا ہونا چاہئے تو اس ضمن میں اگر چہ یہ بات خود اساتذہ کرام کے اپنے طے کرنے کی ہے لیکن بطور ایک استاذ کے ان کا مقصد اور آدرش اس کے سواء اور کیا ہوگا کہ اپنے شاگردوں کو ایک بہترین انسان بنا دیں اور ظاہر ہے کہ کسی کو ایک بہتر انسان وہی بنا سکتا ہے جو خود اس صفت سے متصف ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر استاذ ، ہر ٹیچر اور ہر سکھانے والا اپنے اندر اُن صفات کو راسخ کرنے کی طرف متوجہ ہو جو وہ اپنے شاگردوں میں موجود دیکھنا چاہتا ہے۔ کیونکہ سیکھنے والوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ جو بات اُن کو تعلیم کی جائے اس کا عملی نمونہ وہ ضرور طلب کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی صاحب جو خود جھوٹ بولنے کو  بُرا نہ سمجھے ہوں اگر کسی سے یہ فرمائش کریں گے کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے تو لا محالہ سننے والا اگر منہ سے نہ بھی کہے تو کم از کم یہ سوچتا ضرور ہے کہ جب یہ صاحب خود اس بات کو بُرا نہیں سمجھتے تو مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ میں بوقتِ ضرورت بھی جھوٹ کا سہارا نہ لوں۔
اگر اساتذہ کرام میں یہ شعور اجاگر ہو جائے کہ محض لکھنا پڑھنا سکھا دینے سے کسی انسان کی شخصیت میں جاذبیت اور کردار میں دلنشینی کی توقع کرنا غلط ہے کیونکہ لکھنا پڑھنا سیکھ کر جب تک اس مفہوم کو سمجھانہ جائے جو بصورتِ تحریر ان کو مطالعہ کرایا جاتا ہے اور  سمجھ کر اس پر عمل پیرا نہ ہوا جائے تو شخصیت اور کردار میں اس کے اثرات کا  رچاؤ پیدا نہیں ہوسکتا۔  
اس معاملہ کا ایک اور زاویے سے بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے اور وہ کچھ یوں ہے کہ آج کے اساتذہ کرام کو جہاں ایک طرف آج کے دور کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، اپنے تلامذہ کو مطالعہ کرنا سکھانے ، نصاب میں شامل مضامین کو سمجھنے کا طریقہ تعلیم کرنے ، اس کو یاد رکھنے اور حافظے میں اتارنے کے گُر بتانے، اور امتحان پاس کرنے کے داؤ پیچ سکھانے، تیس چالیس بچوں کی کلاس اور ہوم ورک کی کاپیاں چیک کرنے، اپنی اسکول ڈائریاں لکھنے، پر چوں  کے انبار چیک کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے شاگردوں کو حاصل شدہ علم کو عملی طور پر برتنے، اس کو اپنی شخصیت اور کردار کا جزو بنانے کا ہنر اور فن بھی تعلیم کرنا ہوتا ہے وہاں ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ اپنے شاگردوں میں اخلاقی اقدار کا پاس رکھنے کا جذبہ ابھارنا، ایک دوسرے سے باہمی تعاون کرنا سکھانا، اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہونے دینے کی عادت پیدا کرنا بھی ا ساتذہ کرام ہی کی ذمہ داری قرار دیا جاتا ہے۔ ان سب کے بعد پرائیویٹ ٹیوشنز پڑھانا، امتحانات کی نگرانی سے لے کر مردم شماری اور الیکشن میں پولنگ کروانے کے فرائض کی ادائیگی ان سب پر مستزاد۔  الغرض یہ کہ اگر ہم اساتذہ گرام کی ذمہ داریوں اور ان باتوں کی فہرست بنائیں جن کی اُن سے توقع کی جاتی ہے تو یہ فہرست اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ اس کو پورا کرنا انسانی سکت سے باہر کی ایک ایسی مہم سے کم نہیں ہوسکتا جس کے لئے شائد عمر خضر بھی کم ہو ورنہ بصورتِ دیگر تو یہ سب کام پورا  کرنے کے لئے کسی بوتل کے جن کو ہی دریافت کرنا پڑے گا جب کہ یہ سب کام ہمارے اساتذہ کرام تو پہلے سے ہی کر رہے ہیں تو پھر آخر ہم اس سے اُسی تنخواہ میں مزید اور کیا کچھ کروانا چاہتے ہیں۔ اب وہ بچوں کے الٹے سیدھے سوالوں کے جواب بھی دیں، کلاس میں ڈسپلن بھی برقرار رکھیں، اپنے علم میں اضافے اور معلومات کو بڑھانے کے لئے خود مطالعہ بھی کریں، رزلٹ کارڈز بھی تیار کریں اور پھر شاگردوں کے والدین کو مطمئن کرنے کی کوششیں بھی انہی کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں۔ یہ سب اور ان کے علاوہ اور بہت سی باتیں ہمارے اساتذہ کرام جیسے تیسے بن پڑتا ہے، کر ہی رہے ہیں تو پھر مسئلہ کیا ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود ہمارا معیار تعلیم دن بدِن گرتا ہی چلا جارہا ہے اور ہم اس کو بہتر بنانے کے خواب دیکھنے کے باوجود اس کو بہتر کرنے میں ناکام ہونے کے بعد امتحانی نتائج کے ہندسوں میں ردو بدل تک کر گزر رہے ہیں۔
اس زاویے سے دیکھیں یا کسی اور زاویے سے ، پھر پھرا کر ہم اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسئلہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اپنے ملک کے گرتے ہوئے معیارِ تعلیم کو کیونکر بہتر کیا جائے؟ اس مسلئے کو حل کرنے کی بہت سی کوششیں کی گئی ہیں اور کی بھی جارہی ہیں۔ ہر کس  و ناکس، اپنی اپنی سمجھ کے مطابق، مقدور بھر ہمت بھی کر رہا ہے اور خواہش تو سب ہی کی ہے کہ کسی نہ کسی طور ، جتنی جلد ممکن ہو، ہم اس مسلئے کو حل کرلیں اور یہی وہ امید افزاء اور حوصلہ کن بات ہے جو ہمیں مایوس نہیں ہونے دے رہی ہے۔
اس مسلئے  کو نہ تو اکیلے حکومت نے حل کرنا ہے اور نہ ہی وہ اکیلے اس کو حل کر سکتی ہے۔ اسی طرح یہ سمجھنا بھی غلط ہی ہے کہ یہ مسئلہ محض والدین کی انفرادی سعی اور جدوجہد سے حل ہو سکتا ہے ۔  اور یہ سمجھنا کہ صرف اساتذہ کو مورد الزام ٹھہرا کر اور اس مسلئے کو حل کرنے کی ذمہ داری اُن کے کاندھوں پر ڈال دینے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، ہرگز بھی درست نہیں ہوگا۔ اسی طرح ہم محض اپنے بچوں سے ہی یہ آس لگا بیٹھیں کہ وہ خود ہی کچھ کر لیں گے تو یہ تو بالکل ہی ناروا سوچ ہوگی۔ کہنے کا مطلب فقط یہ ہے کہ اس مسلئے کا حل اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ نظامِ تعلیم سے متعلق چاروں حصہ دار اپنے اپنے حصے کا کام پورا کرنے کی ٹھان لیں۔ جو کام حکومت کے کرنے کے ہیں وہ اس کو کرنے چاہئیں، جو ماں باپ کے کرنے کے ہیں وہ انہی کو کرنا ہونگے، جو اساتذہ کرام کے کرنے کے ہیں وہ انہی کو پورا کریں اور جو کام بچوں کے کرنے کے ہیں ظاہر ہے کہ ان کو کوئی  دوسرا کرے بھی تو کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اس وقت بات چونکہ اساتذہ کرام کی ہو رہی ہے اس لئے ان کے حوالے سے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ اپنا کردار کس طرح ادا کریں کہ دلخواہ نتائج کا حصول ممکن ہو جائے۔
اس امر میں بہر حال کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا کہ درس وتدریس کے حوالے سے دیکھا جائے تو اساتذہ کرام کی ذمہ داریاں باقی حصہ داروں کی نسبت اس لئے بڑھ جاتی ہیں کیونکہ والدین اپنے بچے اسی مقصد کے لئے ان کے حوالے کرتے ہیں کہ وہ اُن کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کردیں اور ان کو اس کام کا معاوضہ بھی ادا کیا جاتا ہے۔ اُن کو  اُن کے وقت اور محنت کے عوض جو کچھ بھی دیا جاتا ہے یہی سمجھ کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کام کو بحسن و خوبی ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اب اس حوالے سے اساتذہ کرام کی ذمہ داریاں دیگر ہر رکن کی نسبت دو چند ہو جاتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ  ہونے کے لئے نہیں بلکہ خود اپنے اطمینانِ قلب اور روحانی تسکین کے لئے ضروری ہو جاتا  ہے کہ اساتذہ کرام اپنے کام کو محض کام سمجھ کر بیگار ٹالنے کی طرح کرنے کی بجائے اس کو اپنا فریضہ اور ایک سعادت سمجھ کر انجام دیں۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ ، جو علمائے باطن میں ایک منفرد مقام کے حامل ہیں، کافر مانا ہے کہ 'ایک استاذ کا اسل کام اپنے شاگرد میں کسی صلاحیت کو بیدار کرنے میں مدد کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ وہ مصور کی مثال دے کر فرماتے ہیں کہ مصوری کا فن سکھانے والا استاد یہ تو ضرور بتاتا ہے کہ پنسل کو کس طرح استعمال کیا جائے اور  کس عضو کے نقوش کو کس طرح ترتیب دیا  جائے لیکن تصویر کا عکس استاذ اُس کے ذہن میں منتقل نہیں کرتا۔ وہ اس کے باطن میں پلے سے موجود ہوتا ہے۔ استاذ اپنے شاگرد کی راہنمائی اس طرح سے کرتا ہے کہ وہ اپنے باطن میں موجود  خدوخال اور نقوش کو کاغذ پر منتقل کرلیتا ہے'۔
اساتذہ کرام خواہ وہ مادی فنون کی تدریس کرتے ہوں عملی ہنر مندی سکھاتے ہوں یا ادب اور فلسفے جیسے مضامین پڑھاتے ہوں اُن کو اس بات کو سمجھنا ہی پڑے گا ور اُن کو اپنی پوری توجہ اس امر پہ مبذول کرنا ہوگی کہ اُن کا اصل فریضہ اپنے تلامذہ کے اندر موجود صلاحیتوں کو ابھارنے میں معاونت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی مدِنظر رکھنا ہوگی کہ کسی خاص صلاحیت کو ابھارنے کے لئے ایک خاص قسم کی مشق کرنا لازم ہوتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح کسی بھی فن میں مہارت بہم پہنچانے کے لئے اس فن سے متعلق کچھ خاص قسم کی مشق کرنا ضروری ہوتا ہے۔
انبیاء کی تعلیمات کے مطابق علم خرج سے باطن میں داخل نہیں ہوا کرتا بلکہ باطن سے خارج کی سمت بہاؤ رکھتا ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی دلیل انبیاء کا اُمّی ہونے کے باوجود ہر دو عام اور خاص، مادی اور روحانی دونوں علوم میں نوع انسانی کی راہنمائی کے قابل ہونا ہے۔ اس لئے اگر آج کے اساتذہ کرام اس  نکتے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے تلامذہ کو اُن کے باطن کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ان کا کام بہت آسان ہو جائے گا۔ اس سے جہاں ایک طرف ان کے تلامذہ کی فکر میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوگی بلکہ ان کی شخصیت بھی نکھر تی چلی جائے گی اور وہ بہتر کردار کے حامل بھی ہوتے چلے جائیں گے ۔ بصورتِ دیگر ہر دو امرض میں اضافے کا سبب ہی بنتی رہی ہے سو آئندہ بھی بنتی ہی رہے گی۔ ہم فطری بہاؤ کے خلاف جتنی دیر تیر سکتے تھے ہم نے تیر لیا اگر ہم نے اب بھی فطری بہاؤ کے ساتھ تیرنا شروع کر دیا تو نہ صرف یہ کہ ہم ڈوبنے سے بچ جائیں گے بلکہ اپنی منزل تک بھی پہنچ جائیں گے۔
فطرت کا چلن کچھ یوں ہے کہ تشنگی اور پیاس کو بجھانے کے لئے پانی کی فراہمی دو ممکن انداز سے کرنے کے بعد اس بات  کا اختیار کرنا انسان پہ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ خارج میں موجود جو ہڑوں، ندی ، نالوں، چشموں اور دریاؤں سے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے یا اپنے گھر کے آنگن میں کنواں کھود کر پانی کے اس زیرِ زمین ذخیرے تک رسائی حاصل کرکے اس ضرورت کو پورا کرنے کا کوئی مستقل انتظام کرتا ہے، جو نہ ختم ہونے والا اور لامحدود  ہوتا ہے۔ علم و آگاہی کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ کتب و رسائل ، علم و عرفان رکھنے والے اصحاب کے فرمو دات، تجربات اور مشاہدات کی دستاویز ہوتے ہیں جو انہوں نے اپنے اپنے اندازِ نظر کے مطابق یا تو خود اپنے باطن میں اتر کر حاصل کئے ہوتے ہیں یا پھر کسی دانا اور بینا انسان کی قربت اور صحبت میں رہ کر سیکھے ہوتے ہیں اور اُن کو نوعِ انسانی کے دوسرے افراد کی راہنمائی کے جذبے کے تحت لکھ کر کتب کی صورت محفوظ کر دیتے ہیں۔ اساتذہ کرام جب تک خود کو ان کتب کی تدریس تک ہی محدود رکھتے ہیں وہ خود سے وابستہ تو قعات کو پورا  کرنے اور مطلوبہ نتائج کے حصول میں دشواریوں کا سامنا کرنے پر مجبور رہتے ہیں۔ اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ نہ صرف خود اپنے باطن کی طرف رجوع کرنا سیکھیں بلکہ اپنے تلامذہ  کو بھی ان کے باطن کی طرف مائل کریں۔ جب خارجی علوم کو باطنی علوم کے حصول کے ایک ذریعے اور واسطے کے طور پر برتا جاتا ہے تو اس سے دو ہرے نتائج اور فوائد کا حاصل ہونا یقینی ہو جاتا ہے ۔
مولوی میر حسن ایک ایسے ہی استاذ تھے۔ انہوں نے اقبال کے اندر موجود صلاحیتوں کو ابھارنے میں اُن کی مدد کی اور اُن کو اپنے باطن تک رسائی کا طریقہ تعلیم کرنے کے  بعد اس کی ایسی مشق کروائی کہ بعد میں ڈاکٹریٹ کرنے تک بیسیوں اساتذہ سے اکتسابِ فیض کرنے کے باوجود اقبال کسی اور کو اس  قابل نہ سمجھ سکے کہ اُن کو سر کا خطاب دیئے جانے کی فرمائش کرتے۔
مولوی میر حسن نے جو کام کیا آج کی جدید نفسیات کی اصطلاح میں اس کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اقبال کے شعور کو اتنا توانا اور اس قابل بنا دیا تھا جس سے اُن کا اپنے لا شعور سے شعور کا رابطہ قائم ہو جاتا ہے تو شعور کی ایسی جلا اور آب و تا ب ملتی کہ انسان ہیرے کی مانند دمکنے  لگتا ہے اور اللہ ایسے بندے سے کچھ ایسے کام کروا دیتا ہے کہ اس کا نام جاودانی ہو جاتا ہے۔
اگر اساتذہ کرام دلچسپی لیں اور خود اُن کا اپنا  ربط اور تعلق  لاشعور سے استوار ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے قابل نہ ہوں اور جب خود ان کا اپنا تعلق اور رابطہ لاشعور سے قائم ہوگا تو وہ اپنے تلامذہ کی راہنمائی اور ان کی صلاحیتوں  کو ابھارنے اور ان کو  جِلا  دینے کا فریضہ بخوبی سرانجام دے سکیں گے ورنہ تو علم  کے نام پر محض خواندگی ہو رہی ہے، سو  وہ ہوتی  رہے گی۔ بلا شبہ وہی اساتذہ روحانی والدین کہلانے کا استحقاق رکھتے ہیں جو اپنے تلامذہ کی ایسی تربیت کردیتے ہیں کہ علم و عرفان اور آگاہی کی راہ ہو یا دنیاوی معاملات کی عقدہ کشائی انہیں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آتی اور ایسے ہی والدین کے سکھائے اور سدھائے ہوئے لوگ اس دنیا کے محفوظ اور پُر امن مستقبل کی ضمانت بن سکتے ہیں ورنہ یہ دنیا والے چالیس ہزار ایٹم، ہائیڈروجن اور نیوٹران بموں کے علاوہ کیمیاوی اور جراثیمی ہتھیاروں کے انبار تو بنا ہی چکے ہیں اور اُن کے استعمال کے بہانے بھی تلاش کئے جا رہے ہیں۔
دنیاواری اور دولت پرستی کی لت میں گرفتار اذہان اس مادی شعور کی پیداوار  ہوتے ہیں جو لاشعور سے اپنا ہر ناتہ اور رشتہ توڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ مفاد پرستی اور موقع کی تاڑ میں رہنا ان کا شیوہ  اسی لئے بن چکا ہوتا ہے کیونکہ ان کا شعور ان کو یہی بتا تا ہے کہ اُن کی تمام خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ دنیا کے وسائل پر قابض ہوں ورنہ اُ ن کی ضرورتیں پوری نہیں ہوسکیں گی۔ جب اذہان مادی شعور کی گرفت میں ہوتے ہیں تو  ضرورتوں کے طو  مارکو پورا کرنے کے چکر میں پڑ کر انسان پریشانی، بے چینی ، بے سکونی اور خوف کا خود بھی شکار رہتا ہے اور دوسروں کو بھی ایسی ہی اذیتیں دیتا ہے ۔ اس صورت حال سے نپٹنے کا واحد اور تیر بہدف طریقہ یہی بنتا ہے کہ انسان کسی نہ کسی طور اپنا تعلق لاشعور سے جوڑ لے۔ جو اساتذہ اس نکتے کو سمجھ لیتے ہیں وہ اپنے شاگردوں کو بھی اس سے آگاہ  کردیتے ہیں۔ یہ آگاہی اساتذہ اور تلامذہ دونوں کی دنیا تو سنوارتی ہی ہے، ساتھ ساتھ ان کی آخرت بھی سدھر جاتی ہے۔
بچوں کی خفتہ صلاحیتوں کو ابھارنے میں وہ سرگرمی جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوسکتی ہے وہ بچوں کو سوال پوچھنے کا حوصلہ دینا اور اُن کے بظاہر  بے معنی سوال کو اپنے با معانی جواب سے سجا کر ان میں غور و فکر کو مہمیز کرنا ہی ہوسکتی ہے۔ اب اگر ایک بچہ کہیں سے سن کر اس الجھن میں گرفتار ہوہی چکا ہے کہ پہلے انڈا پیدا ہوا یا مرغی؟ اور وہ اپنے سکول میں کلا س ٹیچر سے یہ دریافت کرنے کا حوصلہ کر ہی لے، تو سمجھدار اساتذہ کرام اس صورت حال سے عہدہ برآ  ہونے کے لئے بچے کو  ڈانٹ کر چپ کروانے کی بجائے اس مسئلے کو کچھ یوں بھی نپٹا سکتے ہیں۔ وہ بچوں کو مخاطب کرکے پہلے تو سوال پوچھنے والے کی تعریف میں ایک دو جملے کہ کر یہ بتا سکتے ہیں کہ اس طرح کے سوال پوچھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے ذہن میں کوئی گرہ، کوئی  الجھن باقی نہیں رہتی۔ اس کے بعد وہ کہ سکتے ہیں اب یہ جو سوال ہے کہ پہلے مرغی یا پہلے انڈا تو اس قسم کے سوالوں کو اصطلاحاً (Brain Teaser) یعنی  'دق کرنے والے سوال' کہا جاتا ہے ۔ بظاہر ایسے سوالوں کا یا تو کوئی جواب ہوتا ہی نہیں یا پھر ان کے ایک سے زیادہ جواب ممکن ہوسکتے ہیں اس لئے جب آپ ایک جواب کو درست قرار دیتے ہیں تو دوسرا جواب آڑے آجاتا  ہے ۔ اس صورتِ حال سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہوسکتا ہے کہ بات کی تہ تک پہنچا جائے۔ اب اس صورت میں اصل بات یہ ہے کہ آپ جانتے ہیں ہ زندگی دائروں میں سفر کرتی ہے ۔ آپ نے سائنس کی کتا میں مکھی اور مچھر کی حیات کی بابت یہ تو پڑھا ہی ہے کہ انڈے سے لاروا بنتا ہے، لاروے سے پیوپا اور پھر پیوپے سے بالغ مکھی یا مچھر بنتا ہے اور جب وہ بالغ مکھی یا مچھر انڈا دیتے ہیں تو یہی چکر پھر سے شروع ہو جاتا  ہے۔ زندگی کے اس چکر کو دور حیات بھی کہتے ہیں اور دائرہ حیات بھی ۔ اب اُدھر آپ نے جیومیٹری میں دائرے کی بابت جو کچھ پڑھا ہے اس کے مطابق دائرے کے محیط پر واقع ہر نقطہ دائرے کا نقطہء آغاز بھی ہوتا ہے اور نقطہء اختتام  بھی۔ اس لئے اب اگر آپ مرغی کے دائرہ حیات میں چاہے مرغی کو نقطہء آغاز کہ دیں یا انڈے کو، ہر دو صورتوں میں جواب درست ہی ہوگا۔ یہ تو  ہوگیا اس سوال  کا ایک جواب لیکن اصل سوال تو پھر بھی حل نہیں ہوا یعنی یہ بات حتمی طور تو پر طے ہوئی ہی نہیں کہ اللہ نے پہلے انڈا پیدا کیا یا مرغی، تو اس کے لئے اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ وہ محض ایک لفظ 'کن' کہ کر پوری کائنات کو تخلیق کر دیتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ جس بھی چیز تخلیق کرتے ہیں اُس کو مکمل طور پر تخلیق کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسا بالکل نہیں کرتے کہ وہ ایک چیز کو بنا کر اس کو اس کے حال پہ چھوڑ دیں۔ اگر اللہ تعالیٰ انڈا بناتے تو اس سے چوزہ بننے کی بجائے وہ انڈا گندہ بھی تو ہوسکتا تھا اور اس سے کچھ بھی نہ بن سکتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مرغی کو مکمل طور تخلیق کیا اور اس کی نسل کو  برقرار رکھنے کے لئے اس سے انڈا پیدا کیا۔
اب اگر یہ سوچ کر دیکھا جائے کہ اس قسم کے سوال جواب سے بچوں کے ذہن کس قدر کھل سکیں گے تو اس بات کا اندازہ کرنا کچھ زیادہ دشوار نہیں ہے۔
یہاں ایک اور بات کا تذکرہ کر دینا  بےجانہ ہوگا۔  کسی بات کو سمجھ لینا یاک بات ہوتی ہے اور کسی بات کو سمجھانے کی صلاحیت ہونا ایک بالکل ہی دوسری بات۔ اب یہ ضروری نہیں ہے کہ جو آدمی بات سمجھ سکتا ہے وہ اُس  بات کو سمجھا ہے۔ اساتذہ کرام کے انتخاب میں حکومت اور والدین دونوں کو یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کسی بات کو کس قدر بہتر انداز میں سمجھا سکتے ہیں۔ اب یہاں اس مقام پر کسی بات کی اچھی طرح تشریح کرنا 'اور' بات سمجھانے' میں جو فرق ہے اس کو ملحوظِ  خاطر رکھنا بہت ضروری ہے۔ ایک ایم اے لیکچرار نصاب میں دیئے گئے نکات کی شرح وبسط  کے ساتھ وضاحت تو ضرور کرسکتا ہے لیکن کتنے لیکچرار ایسے ہوں گے  جو اس بات کا دعویٰ و ثوق سے کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے طلباء کو اُن نکات کی سمجھ اور فہم بھی عطا کرسکے ہیں؟اس بات کا جواب قارئین بخوبی جانتے ہیں۔
اس لئے اس بات کو اساتذہ کرام ہی یقینی بنا سکتے ہیں کہ کسی بات کو اپنے تلامذہ کی فہم میں اتارنے اور اُن کو کوئی بات پوری طرح سمجھانے کی صلاحیت کو وہ خود  فطری طور پر کس قدر بیدار کرسکتے ہیں؟ جو اساتذہ کرام اس منفرد اور ممتاز صلاحیت سے فطری طور پر متصف ہوتے ہیں  بعض اوقات وہ بھی اپنی اس صلاحیت کو پوری طرح سے بروئے کار لانے کا تکلف کرنے سے کراتے ہیں۔ اس بات کی بھی کچھ وجوہات ہوں گی لیکن کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اساتذہ کرام خود ہی ان وجوہات کا کھوج لگائیں اور نہ صرف یہ کہ کھوج لگائیں بلکہ ان کو رفع کرنے کے عملی اقدام بھی فرمائیں۔
اساتذہ کرام سے جس بات کی سب سے زیادہ توقع کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بات کو آسان اور دلنشین انداز میں سمجھا سکتے ہوں۔ انسان اپنی فطری تن آسانی اور آرام طلبی کے باعث ہر کام میں  آسانی اور سہولت چاہتا ہے ۔ اس بات کا مشاہدہ اساتذہ کرام کو زیادہ بہتر طور پر اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے طلباء کے سامنے کسی موضوع کی وضاحت کر رہے ہوتے ہیں۔ بچے ہوں یا بڑے کسی بات کو اسی وقت زیادہ بہتر طور سے سمجھ سکتے ہیں جب سنی گئی بات کے حوالے سے اس کے ذہن کی سکرین پر کوئی تصویر بن سکے۔ اگر کوئی استاذ اپنے بیان سے سننے والے کے ذہن میں کوئی تصویر ابھارنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو گویا اس نے اپنی بات اپنے سامع کے ذہن میں اتار دی۔
اس فن پر قدرت رکھنے والے ساتذہ کرام اپنی بات کی وضاحت کے لئے، موضوع کے حوالے سے طرح طرح کی مثالیں دینے کا ایک خاص قرینہ اور سلیقہ رکھتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق قرآنِ حکیم کے اسلوبِ بیان سے بھی ہو جاتی ہے۔ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ جگہ جگہ مثالیں دیتے ہوئے بات کی وضاحت فرماتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی ذہن کی ساخت ہی کچھ ایسی رکھی ہے کہ کوئی بھی بات اُس میں تبھی قرار پاتی ہے  جب اُس بات کے تصویری خدوخال اسی وقت اجاگر ہوتے ہیں جب وہ کسی ایسی بات کے حوالے سے بیان ہوں جو انسانی مشاہدے میں پہلے سے موجود ہو۔ پہلے  سے دیکھی اور سنی ہوئی بات جس کو انسانی فہم و ادراک محسوساتی طور پر جانتے ہوں، اُس بات کو بطور مثال بیان کرنے سے، اس بات کے حوالے سے تصویری خدوخال سہولت سے ابھر سکتے ہیں۔
جو اساتذہ کرام اس بات کا ادراک رکھتے ہیں وہ اپنے شاگردوں کو بات کچھ اس طرح سے سمجھاتے ہیں کہ اُن کے ذہنوں میں ایک ایسی تصویر بن جاتی ہے جو مٹائے نہیں مٹتی نہ صرف یہ کہ وہ انمٹ نقوش  انسان کا علم بن جاتے ہیں بلکہ ان نقوش کی مدد سے انسان خود بھی کئی نت نئے نقوش اور تصویریں وضع کر سکتا ہے۔ یہ نت نئے تصورات ہی انسانی ذہن کو تازہ اور جدید افکار سے روشناس کرواتے اور انسانی زندگی میں نت نئی ایجادات کے متنوع رنگوں سے سجانے  کا سبب بنتے ہیں۔
بات کو ذہن میں اتارنے کے بعد اس کو ذہن نشین کروانے کا مرحلہ طے کرنے کا اصولی طور پر جو طریقہ آزمودہ سمجھا جاتا ہے اس بات کی تکرار کا۔
بات کی تکرار کا مطلب الفاظ  کی تکرار اور دہرائی ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بات کے مفہوم کی وضاحت کو مختلف انداز کا برتنا  اور دی جانے والی امثال کو ادل بدل کے ساتھ پیش کرکے اُن کے مختلف پہلوؤں کو  ذہن نشین کروانے کی کوشش مراد لیا جائے تو مرتب ہونے والے نتائج زیادہ شاندار ہوسکتے ہیں۔
بات سمجھ لینے کے بعد ذہن میں اس کی دہرائی اور تکرار کے بغیر اس کا حافظے میں جڑ پکڑنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اس لئے ہوشیار اساتذہ اپنے شاگردوں کوئی بات سمجھا دینے کے بعد اُن کو کوئی ایسا کام ضرور تجویز کر دیتے ہیں جس سے ان کے شاگردوں کے ذہن میں اس بات کی تکرار ہوتی رہے۔ غور سے دیکھا جائے تو قرآن اور دیگر تمام الہامی کتابوں کا اسلوبِ تعلیم بھی یہی رہے۔ کہ اللہ تعالیٰ ایک بات فرما کر، اس بات کا بار بار اعادہ کرتے ہیں اور اس کو مختلف پیرا یہ بیاں میں اور مختلف مثالوں سے واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اہل ایمان پر ا کی دہرائی اور تکرار فرض کرنے کو اس کی تلاوت اور اس کے متن اور آیات پر غور فکر کا حکم دیتے ہیں۔

اب اگر دیکھا جائے تو ہمارے نظامِ، تعلیم میں عمومی طور پر کم و بیش یہی طریقہ ء تعلیم رائج ہے لیکن اس کے باوجود اس کے وہ اثرات اور نتائج مرتب نہیں ہوتے جن کو حسبِ دلخواہ قرار دیا  جاسکے۔ اب ہمارے سمجھنے کی بات یہ قرار پاتی ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ہم بظاہر درست طریقہ بھی اپنائے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارا معیار تعلیم ہے کہ دن بدن گرتا ہی چلا جارہا ہے۔ اس بات پہ غور کرنے کے بعد جو صورتحال سامنے آتی ہے وہ کچھ یوں ہے اگر ایک غلط بات کو درست طریقے سے بھی تعلیم کیا جائے تو اس سے وہ بات درست قرار نہیں دی جاسکتی۔ ہم کو تعلیم کی جانے والی بات کی درستی اور اصلاح پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت کا جتنا زیادہ اور اک حاصل ہوگا، اصلاح احوال میں بہتری اتنی ہی جلد مؤثر ہو سکے گی ورنہ تو سب ہی اپنے اپنے کئے کا جواز رکھتے ہی ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

GUIDANCE NEEDS AND PROBLEMS OF YOUNG PEOPLE

HISTORY OF THE GUIDANCE MOVEMENT

"Aims and Objectives of Education"