تین ستون

تین ستون
کہا جاتا ہے کہ تعلیمی نظام کا خیمہ جن تین ستونوں پر کھڑا ہوتا ہے وہ والدین، طلباء اور اساتذہ کرام ہیں۔ یہ تینوں اس عمارت کے وہ ستون ہیں  جن میں سے ایک بھی کمزور ہو تو یہ عمارت اپنا و جود بر قرار نہیں رکھ سکتی۔ یہ تینوں ستون کسی مثلث کے تین اضلاع کی طرح ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ اگر  ایک بھی ضلع اپنی جگہ سے ہٹا دیا جائے تو مثلث باقی نہیں رہ سکتی۔ لیکن بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ان تین کے علاوہ ایک فریق اور بھی ہے جواس نظام کا ایک اہم رکن ہے اور وہ ہے حکومتِ وقت۔
حکومتِ وقت کا تعلق والدین ، طلباء اور اساتذہ کرام کی اس ٹرائیکا سے کچھ اس قسم کا ہے کہ وہ اس نظام کی مثلث کے گرد اگر د محیط ہوتی ہے اور اس مثلث کا ایسا   مرکزی نقطہ بھی ہوتی ہے جس پر اس مثلث کے تینوں زاویوں کا وجود قائم ہوتا ہے۔ بلکہ کچھ یوں ہے کہ حکومت وہ رسی ہے جو اس خیمے کے تینوں بانسوں کو آپس میں باندھے رکھنے کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ اگر حکومت کی گرفت کمزور ہو یا غلط ہو تو اول تو یہ خیمہ زمیں بوس ہو جاتا ہے ورنہ اس میں جھول تو ضرور ہی آجاتا ہے اور تیز ہوا کا ایک آدھا جھونکا ہی اس کوز میں بوس کرنے کو کافی ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں حکومت کی  رسی کا پھندا والدین اور طلباء کے گرد اتنا کسا ہوا نہیں ہے جس قدریہ اساتذہ اور بھی سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے گرد لپٹا ہوا نظر آتا ہے۔ پرائمری ، مڈل اور میٹرک تک کی کلاسوں کو پڑھانے والے اساتذہ کو ملازمت دینا، ان کی سکولوں ، درس گاہوں میں بچوں کو تعلیم دینے سے لے کر انتخابی عمل کی سرگرمیوں کو سرانجام دینے تک کے فرائض کی ادائیگی کے لئے اُن کی تقرری اور تعیناتی ، ان کی تنخواہوں ، اور دیگر واجبات کی ادائیگی کے معاملات کی دیکھ بھال صوبائی اور ضلع سطح پر ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کی ذمہ داری قرار دیئے گئے ہیں۔
ایک ادارہ ٹیکسٹ بکس بورڈ کا بھی ہے جو پورے ملک میں امتحانی بورڈوں سے منسلک سکولوں کے لئے نصابی کتب کی تیاری اور ان کی اشاعت سے متعلق معاملات ت کا ذمہ دار ہے ان کے علاوہ سرکاری سطح پر امتحان منعقد کرانے اور نجی سکولوں اور کالجوں کے معاملات کی دیکھ بھال کے لئے بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بھی قائم کئے گئے ہیں۔ ان کے فرائض میں میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانی پرچوں کی تیاری، امتحانی مراکز کا تعین، ان مراکز کے لئے نگران عملے کی فراہمی، امتحانات کا انعقاد ، پرچوں کی جانچ پڑتال اور نتائج کی لسٹوں کی تیاری اور ان نتائج کی بنیاد پر اسناد کا اجرا وغیرہ کے علاوہ نجی شعبے کے سکولوں اور کالجوں کی کارکردگی اور معیار کی جانچ وغیرہ جیسے کام شامل ہیں۔
ایک ادارہ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کا بھی ہے اور جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے تکنیکی فنون کی تعلیم دینے والی درس گاہوں کے معاملات اور ان کے لئے حکومت اپنی صوابدید پر افسران کا تقرر کرتی ہے۔
گریجویشن ، پوسٹ گریجویشن اور ڈاکٹریٹ کی سطح تک کے علوم اور فنون کی تدریس، امتحانات کا انعقاد اور ملحقہ کالجوں کے معاملات کی دیکھ بھال کا کام یونیورسٹیوں کے دائرہ اختیار میں دیا گیا ہے۔ یونیورسٹیوں  کے اساتذہ اور معلمین کا تقرر اور تعیناتی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتا ہے۔ صوبے کا گورنر صوبے کی یونیورسٹیوں کا انتظامی سربراہ ہوتا ہے اور وہ ان یونیورسٹیوں کے معاملات وائس چانسلر کے ذریعے چلاتا ہے اور عملاً انہی کو یونیورسٹی کا سربراہ مانا جاتا ہے۔
ملکی نظامِ تعلیم کے اس انتظامی ڈھانچے کا ایک مختصر سا تذکرہ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ یہ دکھایا جاسکے کہ کس طرح حکومت بھی اس نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔ جب بھی حکومتی سطح پہ نظامِ تعلیم کو بہتر بنانے کی بات ہوتی ے۔ حکومت چند ایک سطحی (Cosmetic) قسم کی اصلاحات کرکے یہ سمجھ لیتی ہے کہ مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہ آج کل مختلف امتحانات کے نتائج کو انٹرنیٹ کے ذریعے  دیکھا جاسکتا ہے۔
لیکن اس سے امتحانی نظام میں کیا اصلاح ہوئی؟ کیا امتحان کو حافظے اور یاد اشت کی جانچ (Memory testing)  سے آگے بڑھایا جاسکا؟ کیا قابلیت اور اہلیت کو ماپنے کا کوئی بہتر اور قابلِ اعتماد پیمانہ طے ہوا؟ بچوں کے  اندر اپنے مسائل حل کرنے کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کا کوئی طریقہ متعارف کروایا گیا؟  طلباء کی علمی استعداد کے بڑھنے اور ان کے شعور کی سکت کو جانچنے کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا گیا جس کو دنیا میں نہ سہی تو اپنے ملک میں ہی کوئی وقعت  اور پذیرائی مل سکی ہو؟ کیا ہمارے ملکی نظام کے تحت تعلیم پانے والے طلباء کو دنیا کے اہم ادارے قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں؟ اور کیا اب یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلباء کو ملازمت ملنے کے بعد انہیں اپنے آجروں سے ازسرِنو ٹرینگ لینے کی ضرورت نہیں رہے گی؟
جب یہ طے ہوگیا کہ سالانہ نظامِ امتحان مطلوبہ اہداف کے حصول میں ناکام رہا ہے تو سمسٹر سسٹم متعارف کروا کر یہ سمجھا گیا کہ اب سب ٹھیک ہوگیا ہے۔ لیکن بات تو وہی رہی۔ اُسی نصاب کو اُسی سابقہ انداز میں ، اُسی بے دلی اور بے رغبتی کے ساتھ چار قسطوں میں پڑھایا جانا، مسلے کا حل کیسے ہوگیا ؟ وہی خواندگی اور مزید خواندگی۔ نہ علم حاصل ہوا، نہ دماغ روشن ہوا،نہ کسی مسلے کو حل کرنے کی صلاحیت بیدار ہوئی اور نہ ہی کسی اور طرح کی کوئی ایسی خوبی ابھر سکی کہ ماں باپ سمجھیں کہ بارہ چودہ سال ضائع نہیں گئے، بچے نے کچھ تو ایسا سیکھا جو خود اُ س کے اور دوسروں کے کام آسکے گا۔
ابھی حال ہی میں حکومت نے یہ حکم صادر کیا ہے کہ آئندہ انٹر کے بعد گریجویشن دو کی بجائے چار سال میں کروائی جائے گیا اور اُس میں بھی نصاب چھ قسطوں (سیمسٹرز) میں پڑھایا جائے گا۔ نوجوان نسل کی بہتری کے نام پر کئے گئے اس فیصلے کے اصل محرکات کیا واقعتاً  وہی ہیں جو مشتہر کئے جا رہے ہیں؟
اس فیصلے سے تو یہ امر پایِہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ وقت کی تیز رفتاری کے مقابل ہمارے ذہنوں کی رفتار سست تر ہوگئی ہے اور وہی نصاب جو نصب صدی سے ہم دو سالوں میں جیسے تیسے ہوتا رہا ، مکمل کرتے چلے آرہے تھے ۔ اب ہم اُسی نصاب کو چار سالوں میں پورا کیا کریں گے ۔ نہ جانے ہم کس منہ سے نہ صرف ترقی کرلی ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم طلباء کے ذہنوں کی رفتار بڑھانے کا اہتمام کرتے، اُلٹا ہم نے اُن کی آہستہ روی کو سندِ قبولیت سے ہی نواز دیا۔ اب ہم کس منہ سے اپنے آنے والی نسلوں سے قیامت کی چال چلتے زمانے سے آگے بڑھنے کی فرمائش کر سکیں گے؟ آگے نکلنا تو دور کی بات رہی اب تو یہ آس بھی ٹوٹتی جا رہی ہے کہ ہم اس رفتار کا ساتھ بھی دے پائیں گے جو آج کی دنیا میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے۔
حکومت کو ملکی نظامِ تعلیم بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس بات کو  سبھی مانتے ہیں۔ خود اہل کارانِ حکومت، وزرائے تعلیم سے لے کر محکمہ تعلیم کے ادنیٰ ترین ملازمین تک اس امر کی ضرورت کا احساس رکھتے ہیں لیکن سب ہی ایک دوسرے کا منہ تکنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا کرنا چاہئے، کیسے کرنا چاہئے اور کون کرے؟
نچلی سطح کے اہل کار اوپر دیکھنے میں لگے ہوئے ہیں کہ اوپر سے کیا حکم صادر ہوتا ہے اور اُپر والے نچلوں کی طرف سے بھیجی گئی تجاویز کا انتظار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی تجویز نہیں آ رہی تو اس کا مطلب ہے کہ سب ٹھیک کام کو کرنے کے لئے اور خاص طور پر جبکہ اُس میں کوئی ذاتی فائدہ بھی نہ ہو، اجتماعی سوچ سے محروم معاشرے کے  افراد کے لئے ایک 'کشٹ' سے کم نہیں ہوتا۔
اجتماعی سوچ رکھنے والے افراد محض تعلیم سے نہیں بنتے، ایسے افراد حاصل ہوتے ہیں ایک باقاعدہ، منظم اور لگاتار تربیت سے۔ اور جب ایسی تربیت گاہوں کا ہی فقدان ہو تو انفرادی سوچ رکھنے والے افراد کا اکثریت میں ہونا تو لازم ہے اور جب اکثریت انفرادی سوچ کے حامل افراد کی ہو تو معاشرے میں ایسی ہی نفسا نفسی عام ہو جاتی ہے جس سے اس وقت ہمارا پورا معاشرہ دوچار ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں بہتری کی توقع سوائے اس کے کیوں کر ہوسکتی ہے کہ ہم نہ صرف اپنے اندر اجتماعی سوچ ابھاریں اور اس کو فروغ دیں بلکہ اس کے لئے عملی طور پر کوششیں بھی کریں۔
محض حکومت سے یہ توقع کرنا کہ وہ حالات کو سدھارے گی، ایک غیر حقیقی خواہش ہی ہوگی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس نظام سے متعلق ہر رکن اپنا اپنا کردار پوری دیانتداری اور اخلاص سے ادا کرنے پر آمادہ ہوا اور اس کے لئے پوری تن دہی سے کوشاں بھی ہو جائے۔ حکومت اپنے حصے کا کام کرے، اساتذہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں ، طلباء بتائی گئی باتوں پر پوری دلجمعی سے عمل پرا ہوں اور والدین بچوں کی مادی ضروریات پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی اور نفسیاتی تربیت کے حوالے سے کچھ مزید زیادہ  چوکنے ہو جائیں تو کو ئی وجہ نہیں کہ ہماری اگلی نسل ہم سے ایسے شکوے کرے، جو آج ہماری عادت بنتے جا رہے ہیں۔
نظامِ تعلیم  کے حوالے سے حکومت کا اصل کردار ایک (Facilitator) یعنی ایک سہولت مہیا کرنے والے کا ہونا چاہئے۔ حکومت یہ انتظام تو کر ہی رہی ہے کہ  درس گاہوں کے لئے عمارتیں مہیا کر رہی ہے، اساتذہ کو ملازمتیں دی رہی ہے، اپنے بجٹ میں تعلیمی اخراجات کے لئے رقوم بھی فراہم کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تو ہونا چاہئے کہ حکومت اپنے ملازمین کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لئے کوشاں ہو اور اُن پر اس حوالے سے زور دیا جائے کہ اُن کا فرض اپنے طلباء کو محض خواندہ بنانا  ہی  نہیں ہے بلکہ اُن کی اخلاقی ، ذہنی ، نفسیاتی اور روحانی تربیت کا فریضہ بھی انہی کو سرانجام دینا ہے اور یہ کام وہ اُس وقت تک ہرگز بھی نہیں کرسکتے جب تک کہ وہ خود اپنی شخصیت میں وہ خوبیاں پیدا نہیں کرلیتے جو وہ خود اپنے تلامذہ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
اس کے لئے حکومت ملک میں اساتذہ کے لئے ایسے تربیتی پروگراموں کا ایک سلسلہ آغاز کر سکتی ہے جو کردار سازی اور شخصیت کی تعمیر و تنظیم میں معاون ہوں۔ ان تربیتی پروگراموں میں اساتذہ کو یہ سکھایا جائے کہ وہ اپنے طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کو کیسے اور کیوں کر ابھار سکتے ہیں۔ بچوں میں ذہنی یکسوئی کی کمی آج کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کمی کا سدِ باب کرنے کے لئے اساتذہ کو اس طرف متوجہ کرنا ضروری ہے۔ ذہنی یکسوئی کے حامل افراد اپنا ہر کام کامیابی اور خوش اسلوبی سے مکمل کرسکتے ہیں اور اساتذہ کرام اپنے تلامذہ کی اس کمی کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان پروگراموں میں اساتذہ کرام کو طلبا ء میں ذہنی یکسوئی پیدا کرنے اور اس کو بڑھانے کے عملی طریقے سکھائے جائیں۔ ذہنی یکسوئی کو بڑھانے اور منتشر خیالی سے نجات پانے کے لئے بعض مجرب مشقیں ہر درجہ تعلیم کے نصاب کا جزو ہونی چاہئیں۔ بچوں میں آدابِ مجلس اور حفظِ مراتب کا شعور اجاگر کرنے کے لئے ان تربیتی پروگراموں میں اساتذہ کرام کی خصوصی راہنمائی کی جانی چاہئے۔
اس وقت اساتذہ کرام کے حوالے سے ٹرینڈ اور اَن ٹرینڈ ٹیچر ز کی اصطلاح بہت عام ہے۔ اس کا عموماً مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جس کسی نے پیٹی سی، بی ٹی یا بی ایڈ کی سند حاصل کر رکھی ہو وہ ٹرینڈ یعنی تربیت یافتہ استاذ کہلانے کا حقدار ہے اور جس کے پا س یہ سند نہیں ہے وہ اگر استاذ ہو بھی تو اس کو اَن ٹرینڈ ہی کہا جاتا ہے۔ لیکن اس بات کا کیا جواز ہے کہ وہ جو کسی بھی مضمون میں ایم اے کی سند رکھتا  ہو اس کو بغیر کسی تربیت کے ہی استاذ بھی مان لیا جائے اور لیکچرار کے خطاب اور مراعات سے بھی نوازا جائے ۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اساتذہ کے تربیتی پروگراموں کو بیک جنبش قلم ختم ہی کر دیا جائے بلکہ ضروری قرار دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اساتذہ کرام کے تربیتی کورسز میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جن کی بدولت اُن میں درس و تدریس کا ذوق پیدا ہو، وہ اس کام کو ایک مشنری جذبے سے  سرانجام دینے پر آمادہ تیار ہوں ، ان کی شخصیت اور کردار میں استاذانہ وسعت، ہمہ گیری اور عظمت پیدا ہوسکے۔ پڑھائے جانے والے مضمون کی تدریس میں مہارت سکھایا جائے۔
ان تربیتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ حکومت آئندہ درپیش ضرورتوں کے مطابق مختلف شعبوں میں درکار افراد کی تعداد کا تعین کرے اور مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ اُن اُن شعبوں کے لئے درکار افراد کی تعلیم و تربیت کا اہتمام خود بھی کرے اور دیگر نجی اداروں سے بھی کروانے کا بندوبست کرے۔ اگر یہ منصوبہ بندی جامع ہوگی اور اس کی مناسب اشاعت اور تشہیر کا انتظام بھی ہوگا تو بہت سے مسائل کی جڑ ہی کٹ جائے گی۔ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس منصوبہ بندی کو ملک کے سالانہ بجٹ کا ایک حصہ ہی بنا دیا جائے اور جہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ فلاں مد میں اتنی رقوم مختص اور خرچ کی جائیں گی وہاں یہ بھی بتایا جائے کہ فلاں فلاں شعبے میں اس اس قابلیت کے حامل اتنے  اتنے افراد کو کھپایا گیا ہے اور آئندہ اتنے اتنے افراد اس اس شعبے میں درکار ہوں گے۔ اس سے لوگوں کو اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے میں سہولت ہوسکتی ہے اور اس وقت جو بد نظمی اور بد انتظامی کی کیفیت محسوس ہوتی ہے اور کوفت کا سبب بنتی ہے اس سے نجات مل سکتی ہے شائد اسی لئے کئی ایک ڈاکٹر اور انجنیئر صاحباں مناسب نوکری کے حصول میں ناکامی کے بعد سنٹرل سپیریئر سروسز کا امتحان پاس کرکے اعلیٰ اختیاراتی ملازمت کے لئے کوشاں ہونے پر مجبور جاتے ہیں۔
حکومت کے کردار کا ایک پہلو یہ بھی بنتا ہے کہ وہ اپنی مفروضہ کامیابیوں کا ڈھنڈورہ پیٹنے کے لئے تہیری مہمات کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے تعلیمی نظام کے دیگر تینوں اراکین کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور ایک مناسب تعلیمی ماحول پیدا کرنے کا اہتمام کے اور ایسے افراد کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرے جو تعلیمی نظام کی اصل روح کے مطابق نمایا ں کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ حکومت اپنا یہ کردار  کھبی ادا کرسکتی ہے جب جملہ نمائندگان حکومت اور سرکاری اہل کار ان کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح سے واضح ہو کہ حکومت کا مطلب صرف بے جا اختیارات کا حامل ہونا ہی نہیں ہوتا بلکہ اِ ن اختیارات کو عوام کی بہتری اور بھلائی کے لئے پدرانہ شفقت کے ساتھ استعمال کرنا لازم آتا ہے۔ اگر حکام وقت کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ انہیں حکومت کو ایک خاندان کے سربراہ کی حیثیت کا حامل بنانا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملکی انتظام کے تمام ہی شعبوں کی کارکردگی بہتر سے بہتر نہ ہوتی چلی جائے۔

اگر حکومت نے اتنا کچھ بھی کر لیا تو سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہوگا کہ یہ تعلیمی صنعت حکومت کو زیادہ فعال کارکن، معاشرے کو قابل شہری اور ملک کو بہتر افراد دینے کے وہ قابل ہو جائے گی۔

تعلیمی ادارے

تعلیمی ادارے
کسی بھی  تعلیمی ادارے کو قائم کرنے اور اس کو چلانے کے لئے عمارت، عملہ بشمول اساتذہ اور طلباء کے علاوہ جو چیز بہت ضروری تصور کی جاتی ہے وہ ہے نصاب اور درسی کتب۔ اِن مرئی  عناصر  بھی ایک تعلیمی ادارے کی ضرورت ہوتے ہیں۔ مثلاً اُس ادارے میں ڈسپلن ، ماحول ، اساتذہ اور طلباء کی لیاقت اور قابلیت کا معیار وغیرہ۔ لیکن دیکھا جائے تو کیا ایک تعلیمی درس گاہ قائم کرنے کے لئے کیا صرف یہی کچھ درکار ہوتا ہے اور کیا یہی کچھ واقعی کافی ہے ؟ اگر یہ سب کچھ واقعی کافی ہوتا تو پھر ہم سب من حیث القوم کس امر کی بابت شکوہ سنج ہیں؟ آخر وہ کیا ہے جو ان سب کچھ کے ہونے کے باوجود ہمیں نہیں مل رہا اور ہم اپنے تعلیمی نظام سے، اپنی تعلیمی درس گاہوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہو پا رہے ہیں۔ کچھ تو ایسا ہے جس کی کمی ہم محسوس کرتے ہیں لیکن اس کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا ر ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہی ہوگی کہ جس  کمی کی طرف نہ صرف ہمارا وجدان بلکہ ملکی اور عالمی حالات بھی اشارہ کناں ہیں وہ  کمی ہے کیا اور ہم اس کمی کو اگر دور کرنا چاہتے ہیں تو ایسا ہونا کیسے ممکن بنایا جاسکتا؟
ایسا نہیں ہے کہ سب ہی تعلیمی اداروں میں یہ سب کچھ پوری طرح دستیاب ہے لیکن ایسا بھی تو نہیں کہ سب ہی تعلیمی ادارے ان سب چیزوں سے کلی طور پر محروم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں اور درس گاہوں کی غالب اکثریت ان سہولتوں سے جزوی طور پر ضرور محروم ہے۔ لیکن جن اداروں اور درس گاہوں میں یہ سب کچھ پوری طرح دستیاب ہے کیا ہم ان کی کارکردگی کو پوری طرح سے اطمینان بخش قرار دے سکے ہیں؟اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر ہم اُن کی کارکردگی سے واقعی مطمئن ہوتے تو ہمارا سیدھا ادا سا مطالبہ یہ ہوتا کہ ہمارے باقی تعلیمی اداروں کو بھی اُن ہی جیسا بنا دیا جائے۔
اب واقعتاً  یہ ایک عجیب سی بات ہے کہ ہم اپنے شکوہ کا اظہار تو کرتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام اور اُس کے تحت کام کرنے والے ادارے اور درس گاہیں ٹھیک ہونے چاہئیں لیکن کسی ایک بھی درس گاہ کا نام بطور ماڈل یا مثال دینے سے کتراتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ بعض لوگوں کے نزدیک ہوسکتا ہے کہ اس کی یہ وجہ ہو کہ 'اجی کچھ نہیں' سب ٹھیک ہے، ہم تو اس بحث کو بس یونہی بطور فیشن کیا کرتے ہیں۔ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ کچھ کے نزدیک یہ سب محض ہماری ناشکری کے ذیل میں آتا ہو کہ ہم تو بس یونہی با وجہ ہی شا کی ہیں ورنہ اب اس سے بہتر اور کیا ہو؟ اور کچھ ایسا ہے بھی جو ابھی نہیں ہو پا رہا تو وہ سب اپنے وقت پہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔
لیکن معدودے چند افراد ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ چیز جس کا فقدان ہے اور ہم اس کی صحیح نشاندہی نہیں کر پا رہے ، وہ ہے درست مقصد اور مناسب عزم۔
سرکاری انتظام کے تحت بننے والی درس گاہیں ہوں یا نجی شعبے میں قائم ہونے والے تعلیمی ادارے، ہر دو کے اصل مقاصد اور لوگو کو بتائے گئے مقاصد میں اتنا زیادہ فرق اور تفاوت ہوتا ہے کہ ان دونوں کا موازنہ کرنے پر ایک کو غلط اور جھوٹ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔
سرداری انتظام  کے تحت قائم ہونے والے تعلیمی ادارے اور سکولوں کے بنانے کا اصل مقصد عوام کا ایک مطالبہ پورا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کیونکہ حکومت عوام سے جو ٹیکس اکٹھے کرتی ہے اُن کی بابت یہی بتاتی ہے کہ وہ انہیں عوام کی بھلائی کے کاموں پر خرچ کرے گی۔ اب اس مد میں کل بجٹ کا جتنے فیصد صرف کیا جاتا رہا ہے اُس کو دیکھتے ہوئے تو اس بات کو بھی تسلیم کرنا دشوار ہی لگتا ہے۔ بہر حال لوگوں کو بتایا یہ جاتا ہے کہ حکومت یہ کام اس لئے کر رہی ہے تاکہ لوگوں کو خواندہ بنایا جاسکے ، ان کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا جاسکے تاکہ ملک ترقی کر سکے، ملک میں خوشحالی آسکے ، وغیرہ وغیرہ۔ ادھر نجی شعبے میں قائم کی جانے والی درس گا ہوں میں اصل مقصد اپنے لئے روزگار اور کمائی کا ایک سلسلہ قائم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا لیکن کہنا اُن کا بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ عوام کے غم میں دبلے ہو رہے ہیں اور خدمتِ خلق کے جذبے کے ہاتھوں مجبور ہوکر انہوں نے یہ بھاری بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔ اب اگر یہ دونوں یعنی سرکاری شعبہ اور نجی اور غیر سرکاری ادارے اپنے بتائے گئے مقاصد کو ہی اپنے اصل مقاصد بنا لیں اور پورے عزم سے ان کے حصول کے لئے کوشاں ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ حالات میں سدھار پیدا نہ ہو۔
اس سے بھی زیادہ بہتر بات تو یہ ہوگی کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں اور درس گاہوں کے قیام کے اصل مقاصد کو از سرِ نو واضح کریں۔ یہ طے کریں کہ ہم یہ سب اس لئے کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر انسان بنانا ہے، اُن کو اس لئے خواندہ بنانا ہے کہ وہ کتابیں پڑ ھ کر علم حاصل کر سکیں۔ نا خواندگی   کے  خلاف اس لئے جنگ کرنا کہ اس سے دوسرے ملکوں اور عالمی اداروں سے امداد ملتی ہے اور اس لئے جنگ کرنا کہ ہم دوسری عوام کے سامنے سر بلند ہو سکیں کہ ہم وہ قوم ہیں جس کا بچہ بچہ پڑھا لکھا ہے ، ان دونوں باتوں میں  جو فرق ہے کاش کہ وہ فرق ہم پہ کچھ اس طرح سے واضح ہو جائے کہ ہم اول الذّکر کے لئے  سوچنا تک چھوڑ دیں۔ ہم پڑھنا لکھنا اس لئے نہ سکھائیں کہ اس سے ہمیں کچی یا پکی نوکری ملے گی بلکہ لکھنا پڑھنا اس لئے ہو کہ اس سے ہمارے ذہن کھلیں گے، ہماری سوچوں کو جِلا ملے گی، ہمارے افکار سدھریں گے، ہماری شخصیت میں نکھار آئے گا اور ہمارا کردا ر بنے گا۔
حکیم محمد سعید (مرحوم) نے یہ بات اپنی زندگی میں بار بار کہی کہ تعلیم بہت ہو چکی اب تربیت ہونا چاہئے۔ اس بات سے اُن کا مقصد بالکل واضح تھا کہ اب ہمارے تعلیمی اداروں کو اپنی  نہج تبدیل کرکے لوگوں کو محض خواندہ بنانے سے بڑھ کر اُنکی ایسی تربیت کرنا  چاہئے جس سے وہ ایک بہتر انسان، اچھے شہری اور معاشرے کے کار آمد فرد بن سکیں۔
اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں اور درس گاہوں کا انتظام چلانے والے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ کسی بھی درسگاہ، خواہ وہ  کسی دیہات کا ایک پرائمری سکول ہی کیوں نہ ہو، اپنے یہاں داخل ہونے والے بچوں کی شخصیت کی تنظیم اور کردار سازی پر آمادہ و تیار نہیں ہو جاتی کچھ نہیں بدل سکتا۔ سب کچھ ایسا ہی رہے گا۔ نہ جہالت ختم ہوگی اور نہ کرپشن۔
تعمیر و  تنظیمِ شخصیت اور کردار سازی کے کام کا آغاز کرنے کے لئے نہ تو کسی دوسرے ملک سے ماہرین منگوانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی عالمی ادارے کے سامنے امداد کے لئے دستِ سوال دراز کرنے کی کوئی حاجت۔ ضرورت ہے تو صرف اپنے اندر یہ ارادہ کرنے کی کہ ہ  اپنے بچوں کو ایسی تربیت دے کر رہیں گے جس سے اُن کی شخصیت ابھرے اور ان کا اندر کا اچھا انسان پوری طرح سے باہر آسکے۔ انہی عمارات، انہی میز کرسیوں ، ڈیسکوں یا ٹاٹوں اور چٹائیوں پر بیٹھنے والے طلباء کو یہی اساتذہ جو کچھ بتا اور سکھا رہے ہیں اُس میں اتنی سی تبدیلی ہی تو لانا ہے کہ بتانے والے کے جذبات اور زاویہ نظر بدل جائیں، اس کی اپنی شخصیت اتنی مسحو رکن  ہو جائے کہ بچے اُس کی بتائی ہوئی بات کو اپنانے کے لئے مچل مچل جائیں، ان کو سکھانے والے کا کردار اتنا شاندار نہ سہی اتنا جاندار تو ہو کہ وہ خود بچوں کے لئے ماڈل بن جائیں نہ کہ وہ تاریخ کے ایسے کرداروں کو ہی ڈال بنا کر پیش کرتے رہیں جن کے بارے میں بڑے ہوکر بچوں کے نظریات اُلٹی قلا بازی کھا جاتے ہیں۔
ہوسکتا ہے سوچنے میں یہ کام بہت دشوار ہو لیکن درحقیقت اتنا دشوار ہر گز نہیں ہے۔ اس ام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ صرف اپنے اندر خلوص پیدا کرنے کی، اپنے کام سے محبت پیدا کرنے کی اور اپنے اندر دوسروں کی بہتری کے لئے کوشاں ہونے کی خواہش کو پروان چڑھانے کی۔ جب تک ہم اپنے اندر یہ صفات پیدا کرنے سے کتراتے رہیں گے ہم دوسروں سے اور خصوصاً اپنے شاگردوں، طلباء اور تلامذہ سے کس منہ سے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ وہ ان صفات کے حامل ہوں۔ یاد رکھنے کو اتنا ہی بہت ہے کہ اگر ایک کام ہم خود نہیں کرسکتے تو دوسرے سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہمارے کہنے پر اسے کرتا رہے گا، ایک خوش فہمی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
اگر ہمارے تعلیمی اداروں کے مالکان درس و تدریس کے اس پیغمبری کام کو پروفیشن  (Profession)  کے بجائے اس کو اپنا پیشن (Passion)  بنالیں تو کیا  اُن کی کمائی میں کوئی کمی واقع ہو جائے گی  یا اُن کو تنخواہ نہیں ملے گی؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں اُس کو بہتر انداز اور زیادہ  سلیقے سے کرنے میں آپ کی نیک نامی میں اضافہ ہی ہوگا، کمی نہیں۔ دوسروں کا بھلا ہوگا تو آپ کا کیسے نہیں ہوگا؟
اس وقت جو صورتِ حال ہے اس پیشِ نظریہ بات بڑے ہی و ثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ پیشن   (Passion)  تو بہت دور کی بات ہے، اس وقت تو ہم اس کو بطور پروفیشن  (Profession)  بھی نہیں کر رہے ۔ اگر درس و تدریس کو ہم نے پروفیشنل اپروچ کے ساتھ ہی نبھایا ہوتا  تو بھی حالات اتنے دگر گوں نہ ہو چکے ہوتے کہ سرِ عام ڈگریاں تک بکنے لگتیں اور ملک انتہائی کرپٹ ممالک کی فہرست میں شامل ممالک کی سربراہی کے اعزاز سے نوازا جا رہا ہوتا۔ ایٹمی طاقت ہونے کے اعزاز سے مشرف ہونے کے باوجود  خطِ غربت کے حوالے سے ۱۴۷ واں ملک بن کر فخر سے پھولے نہ سما رہا ہوتا۔
اس وقت ہمارے تعلیمی ادارے اور درس گاہیں درپیش حالات کے دباؤ، اپنے مفادات اور وقتی فوائد کے حصول کی خاطر محض درسی اور نصابی سرگرمیوں (Academics)  تک محدود ہو کر رہ چکے ہیں۔ غیر نصابی (Extra Curricular)   سر گرمیوں کا مطلب سال میں ایک آدھ بار سٹڈی ٹور کے نام پر پکنک منانے کا مترادف بن چکا ہے۔
نصابی سرگرمیوں کا مفہوم محدود ترین معنوں میں لیتے ہوئے تعلیمی اداروں میں نصاب میں شامل کتب کی خواندگی کروانا اور انہیں حفظ یاد کروانا کافی  سمجھا جاتا ہے۔  اس کی بنیادی وجہ ہمارا امتحانی نام ہے، جو حافظے کی بنیاد پر قابلیتوں کی سند جاری کرکے یہ باور کروا رہا ہے کہ لوگوں میں لیاقت اور اہلیت بھی پیدا کر دی گئی ہے۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ گریجویشن کرنے تک ایک مضمون کی محض ایک کتاب پڑھنے میں پورا ایک سال اور بعض صورتوں میں تو دو سال کا عرصہ بھی  صرف ہو جاتا ہے اور اُس کے باوجود کتاب ہے کہ ختم ہوکر نہیں دیتی۔ اکثر طلباء اس امر کی شکایت کرتے ملتے ہیں کہ ہمارا کورس مکمل نہیں ہو سکا اب ہم امتحان میں کیا کریں گے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب طلباء کتابوں سے ہی بیزار ہوکر نصاب کی اصل کتب کی بجائے گائیڈوں اور خلاصوں پہ تکیہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں ہمارا کتب بینی کے ذوق کے فقدان کا ماتم کیا معنیٰ رکھتا ہے؟
کتنے تعلیمی ادارے ایسے ہیں جہاں طلباء میں غور و فکر کی صلاحیتوں کو ابھارنے، ان  میں سوچ بچار کی عادت کو راسخ کرنے اور معاملہ فہمی کی تربیت دینے کا کوئی باقاعدہ انتظام ہے؟ شاید ایک بھی نہیں۔بلکہ یہاں تو حالت یہ ہے کہ اگر کوئی بچہ فطری تجسس سے مجبور ہوکر کسی بات کو سمجھنے کے لئے پہ در پہ چند ایک سوال پوچھ لے تو اس کو ڈانٹ دیا جاتا ہے اور بعض اداروں میں تو ایسے بچوں کو سزا تک دینے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اس کی بالکل سامنے کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ خود اساتذہ کرام ایسی صفات سے عاری اور نابلد ہونے کے سبب بچوں کو بھی ان سے محروم کرنا ضروری گرد انتے ہیں۔ حالانکہ اگر فقط اسی بات کو یقینی بنا لیا جائے کہ بچوں کو اُن کے پوچھے گئے سوالوں کے تسلی بخش اور شافی جواب ملیں اور سوال پوچھنے والے بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو طلباء کے اندر غور و فکر کرنے کی صلاحیت ابھرنے کے امکانات بہت بڑھ سکتے ہیں۔
اسی طرح  تعمیر و تنظیمِ شخصیت حوالے سے دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی ایسا طالبِ علم ہو جو اپنی شخصیت کی دلکشی کا ذمہ دار اس تعلیمی ادارے کو قرار دینے پر آمادہ ہو جہاں اس نے تعلیم پائی ہو۔ خوش مزاجی،برداشت اور وسیع القلمی سے آراستہ بچہ ہر ایک کو بھلا لگتا ہے۔ ان صفات کو بچوں میں پیدا کرنے اور ابھارنے کے لئے تعلیمی ادارے کے ماحول میں جو تبدیلی ناگزیر ہے وہ یہ ہے کہ اُس میں ڈر اور  خوف کی بجائے تقدیس کا احساس ہو۔ ڈسپلن کی بنیاد خوف کی بجائے احترام کروانے کے لئے محض احکامات کا سہارا لینے کی بجائے اساتذہ کو اپنی شخصیت میں سر  بلندی اور وقار پیدا کرنا ہوگا۔
اس کا ایک آسان اور مجرب طریقہ تعلیمی ادارے میں بچوں کے شخصی اور ذاتی مسائل کے حل اور ان کی پریشانیوں کا علاج تجویز کرنے کا ایک علیحدہ انتظام کر دینا بھی ہو کتا ہے۔ اس انتظام کا فوری فائدہ ایک تو یہ ہوتا ہے کہ بچوں میں اپنے اساتذہ پہ بھروسہ اور اعتماد بڑھ جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ اساتذہ کو یہ موقع بھی ملتا ہے کہ وہ اپنے تلامذہ میں پیدا ہونے والے کسی بھی قسم کے احساس کمتری یا بر تری کا بروقت تدارک کر سکتے ہیں۔ اس سے جہاں ایک طرف بچوں کے مسائل کے حل ہونے کی راہ نکلتی ہے وہاں دوسری طرف بچوں کے دل میں اپنے اساتذہ کے لئے محبت اور احترام کے جذبات جا گزیں ہونا شروع ہو تے ہیں۔
اسی طرح کردار سازی کی  بابت بھی کسی درس گاہ یا تعلیمی ادارے میں کوئی خاص انتظام یا اہتمام نہیں ملتا۔ جہاں کہیں کوئی کوشش اور کاوش ہو بھی رہی ہوتی ہے تو اس کو محض ایک انفرادی استثنا کے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ کسی بھی انسان کے کردار کی سب سے بڑی خوبی اس کا مخلص ہونا ہے۔ محض خطوط کے آخر میں 'فقط آپ کا مخلص' لکھنا سیکھ لینے  سے کوئی نہ تو مخلص ہوا ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ اس خوبی کو اپنے اندر باقاعدہ کاشت کرنا پڑتا ہے، ہر روز ہر دن اور ہر لمحہ اس کی مشق کرنا پڑتی ہے تب کہیں جا کر دوسروں کو اس خوبی کے آپ کے اندر موجود ہونے کی اطلاع ہوتی ہے۔
اگر اساتذہ خود مخلص ہوں گے تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اُن کے تلامذہ بھی  اس خاصیت سے متصف ہو جائیں گے۔ مخلص ہونے کی بات کی جاتی ہے تو ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ یہ تو بہت مشکل اور ناممکن امر ہے۔ جب کہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ خلوص کا تعلق انسان کے طرزِ فکر سے ہوتا ہے۔ اگر انسان کی سوچ میں اخلاص ہے تو وہ اپنے ساتھ مخلص ہوگا، اپنے کام سے مخلص ہوگا، اپنے متعلقین کے ساتھ مخلص ہوگا، اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ مخلص ہوگا۔ علمائے باطن کے نزدیک خلوص اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ انسان کسی بھی کام کو محض اس لئے کرے کہ وہ کام ہو جائے اور اس ضمن میں کسی لالچ اور خوف کو آڑے نہ آنے دیا جائے۔ اس کا سیدھے سادھے الفاظ میں یہی مطلب بنتا ہے کہ انسان کام اس لئے نہ کرے کہ اُس کو معاوضہ ملے گا یا یہ کام نہ ہوا تو تنخواہ کٹے گی یا کوئی اور سزا ملے گی۔ ہر وہ کام جو معاوضے کے لالچ اور سزا کے خوف سے بالاتر  ہو کر کیا جائے، وہ خود بخود اخلاص کے دائرے میں آجاتا ہے۔ اس بات کی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ ایک مخلص انسان کردار کی تمام اعلیٰ صفات سے رفتہ رفتہ خود بخود و متصف ہوتا چلا جاتا ہے۔
تعلیمی اداروں اور درس گاہوں کے حوالے سے درحقیقت یہ وہ چند باتیں ہیں جن کی کمی کو ہر آدمی کا شعور محسوس تو کرتا ہے لیکن اپنے علم کے ادھورے پن کے سبب ان کی نشاندہی سے قاصر رہتا ہے یا اس کو مناسب الفاظ میں ظاہر کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا ۔ اگر تعلیمی اداروں اور درس گاہوں کے منتظمین یہ طے کر لیں کہ وہ نصابی درس و تدریس کے علاوہ ایسی غیر نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کریں گے جوا ن کے یہاں تعلیم پانے والے طلباء کو ایک بیدار مغز، معاملہ فہم اور مخلص انسان بننے میں مدد کر سکیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں اچھے انسانوں کی کمی پوری نہ ہو۔
مخلص لوگ ناقد اور عیب جو نہیں ہوا کرتے۔ تنقید برائے تنقید اور عیب جوئی کا فن ہمیں ہمارے تعلیمی اداروں میں کچھ اس انداز میں تعلیم کیا جاتا ہے کہ ہم ساری زندگی اس ہنر کی مشق کرتے اسی فن میں طاق ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس سے نہ کبھی کوئی خامی دور ہو سکی ہے اور نہ ہی کبھی کوئی بہتری پیدا ہو سکی ہے۔ اس سے صرف اتنا ہی ہوا ہے کہ آج ہمیں کسی بھی شخص میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی ۔ اس اکا ایک نہایت منفی اثر ن یہ نکلا ہے کہ ہر آدمی اپنی خامیاں دیکھنے کی بجائے اپنی مفروضہ خوبیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہو چکا ہے۔ اگر ہماری تعلیمی اداروں میں اس بات کا تھوڑا سا بھی اہتمام کر لیا جائے کہ خامیاں تلا ش کرنے کی بجائے خوبیاں تلاش کرنے کا  زاویہ اپنا نے پہ اصرار ہو تو لوگوں کو اپنی خامیاں اور دوسروں کی خوبیاں بھی نظر آنا شروع ہو سکتی ہیں۔
انبیاء کی طرزِ فکر کے تحت کسی  کا احتساب کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے اور کرنا ہی ہے تو خود اپنی عیب جوئی کریں، خود اپنی غلطیوں کا محاسبہ کریں، خود اپنے کئے گئے کاموں پہ تنقید کو اپنا شعار بنائیں نہ کہ دوسروں کی عیب جوئی اور تنقید کو اپنا شعار بنا کر کڑھ کڑھ کر بیمار ہوتے رہیں۔ خود احتسابی کے جہاں اور  بہت سے فائدے ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خود احتسابی کا عادی انسان خود کو بہتر سے بہتر بنانے کا جذبہ رکھنے کے سبب خود کو ترقی دینے اور بڑھانے کی طرف مائل رہنے کی عادت اپنا لیتا ہے۔ اس امر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کبھی نہ کبھی حسبِ دلخواہ کامیابی سے ضرور ہمکنار ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس عیب جوئی کی عادت میں مبتلا لوگ کسی کا کچھ بھلا کر سکیں یا نہ کر سکیں خود کو دوہرے نقصان سے ہر وقت کو دوسروں کے عیبوں کی بات کرنے میں صرف کیا اور دوسرے یہ کہ لوگوں کے نقائص کی تلاش میں اپنی غلطیاں نظر سے اوجھل ہونے لگتی ہیں۔ اچھی باتوں کے فائدے ہوتے ہیں اور اس کی وجہ ے ہم یہ طلب تو ضرور رکھتے ہیں کہ ہم سب ایسا ہی کریں لیکن وہ جہاں پہ ان سب باتوں کی عملی تربیت مل  سکتی ہے وہ جگہ ہیں ہمارے تعلیمی ادارے۔ وہاں پہ ان باتوں کو باقاعدہ سکھانے کا اہتمام کرنے کی ضرورت پہ توجہ دینے کا خیال اگر اب بھی اپنا لیا جائے تو بہت کچھ بہتر ہو سکتا ہے۔
تعلیمی اداروں کی پالیسی میں اگر یہ بات شامل ہو کہ وہ تعلیم دینے کے کام کا خواہ بزنس سمجھ کر کریں یا اسے ایک مشن مان کر کریں، وہ اس کام کو پوری  ایمانداری اور دیانت سے سرانجام دیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ اُن کے اساتذہ بچوں کی لکھائی درست کرنے ، اُن کو سبق یاد کروانے، اُن کی مشکلات کو حل کرنے ، اُن کو کردار اور شخصیت کے اعلیٰ اوصاف سے متصف کرنے اور اُن میں غور و فکر اور تحقیق اور جستجو کا مادہ پیدا کرنے میں  کوئی کوتاہی کرنے کے مرتکب ہو سکیں۔ جب کسی تعلیمی ادارے کی ترجیحات میں یہ باتیں شامل ہو جائیں گی تو لا محالہ وہ ادارے اپنے اساتذہ  کی تربیت پہ بھی توجہ دے سکیں گے ۔ اساتذہ کی تربیت اور اُن سے مناسب انداز میں کام لینے کی ذمہ داری بہر حال تعلیمی اداروں کے سر ہی جاتی ہے۔

اس کے ساتھ سا تھ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کس استاذ میں کتنے بچوں کو سنبھالنے کی کتنی سکت ہے، اور کس استا ذ  کو کون سی اور کتنی ذمہ داری دی جانی چاہئے۔ اگر کسی تعلیمی ادارے کی انتظامیہ ان باتوں کا خیال رکھنے میں کامیاب نہیں ہے تو اُس کو اپنا فرض نبھانے میں دشواریوں کا سامنا رہنا کوئی اچنبھے کی بات  نہیں ہو سکتی۔

کل آج اور کل

کل آج اور کل
نوع انسانی کی ابتداء اور آغاز کی بابت بنیادی طور پر دو قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں ۔ ایک انسان کی اپنی کاوشِ فکر کے تحت بننے والا نظریہ اور دوسرا الہامی طور پر سامنے آنے والا نظریہ ، یا  یوں کہ لیجئے کہ ایک نظریہ فلاسفہ اور حکماء کا وضع کردہ ہے اور دوسرا انبیاء کا ظاہرہ کردہ ۔ فلاسفہ اور حکماء کے وضع کردہ نظرئے مظاہر کو اولیت دینے اور قیاس کے زور پر قائم کردہ مفروضات کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں اور وحی اور الہام کی طرزوں پر حقیقت کی جستجو پر اصرار کرتے ہیں۔ اُن کی فکر خالقِ  کائنات کی سوچ، رضا اور مشیّت کو سمجھنے کی خوگر ہوتی ہے۔ وہ مظاہر کی اصل اور کُنہ تک رسائی میں کامیاب بھی رہتے ہیں کیونکہ خالقِ کائنات سے ربط اور تعلق کے سبب وہ اصل حقیقت سے آگاہ کئے گئے ہوتے ہیں۔
گروہِ فلاسفہ کے نظریہ کی بنیاد یہ ہے کہ یہ کائنات ایک اتفاقی حادثے کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اور اس میں ارتقاء کا عمل جاری و ساری ہے۔ اس سوچ کے تحت وہ سمجھتے ہیں کہ انسان پانی میں حادثاتی طور پر بننے والے خلیہ کی ایک انتہائی ترقی یافتہ  صورت ہے اور اس عملِ ارتقاء کی کڑیاں  گنواتے ہوئے وہ یہ بتاتے ہیں کہ اول اول یک خلیائی اور خوردبینی جاندار بنے جو کہ بعد میں کثیر خلیائی جانداروں کے لئے بنیاد بنے اور یوں آبی مخلوقات کا ایک اژ دہام وجود میں آگیا۔ پھر آبی مخلوقات میں سے کچھ خشکی پر آنے لگے۔ یہاں سے خشکی پر زندگی کا آغاز ہوا پھر رینگنے والے جانوروں کے پیر نکلے   اور رفتہ رفتہ چو پائے وجود میں آگئے۔ ان  چوپایوں میں سے کچھ نے دو پیروں پر چلنا سیکھ لیا اور انسان ان دو پیروں پر چلنے والے جانوروں کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔   
ان حکماء اور فلاسفہ کے مطابق علم خارج میں موجود مظاہر کی ہیت ترکیبی سے واقفیت اور روشناسی کا نام ہے، اس لئے وہ مادے اور مادی وسائل کو اتنی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ مادے اور مادی وسائل کو اتنی  اہمیت دئیے جانے کے سبب زندگی  کے بہت سے  رخ تشنہ رہ جاتے ہیں  یا انکی مکمل تشریح نہیں ہو پاتی اور یہی وجہ ہے کہ حکماء کا پیش کردہ ہر نظریہ کسی نہ کسی مقام پر ادھورا، ناقص اور خام محسوس ہوتا  ہے اور بہت سے سوال تشنہ رہ جاتے ہیں اور اگر کچھ سوالوں کے جواب دینے میں وہ کامیاب ہو بھی جائیں تو وہ کسی نہ کسی دوسرے نظریے  سے متصادم ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج کے دور کا آئن سٹائن، مشہور فلاسفر اور ریاضی دان ، سٹیفن ہاکنگ  بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوا ہے کہ ابھی بہت کچھ ہماری دسترس سے باہر ہے اور ہمیں ابھی بہت کچھ دریافت کرنا باقی ہے، بہت سے سوال ایسے ہیں جن کے جواب ہمارے معلوم علوم کی روشنی میں نہیں دئیے  جاسکتے۔
انبیاء کی تعلیمات کے مطابق ایک انتہائی برتر، اعلیٰ اور لامحدود شور کی حامل ذات نے ایک ارفع اور اعلیٰ مقصد کے حصول کے لئے کائنات کو تخلیق کیا۔ اس کائنات میں لاشمار مخلوقات کو پیدا کیا، اُن چھانے کا انتظام کی، حیات و ممات کا سلسلہ قائم کیا، اس کو برقرار رکھنے کے وسائل تخلیق کئے اور پھر انسان کو تخلیق کیا، اس کو علم سے آراستہ کیا تکہ و خالقِ کائنات کے مقرر کردہ مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہے۔ علم و آگہی سے سرفراز اس تخلیق کو خالقِ ارض و سما نے اپنی نیابت کے اعزاز سے شرف کرتے ہوئے اس کو اشرف المخلوقات اور احسنِ تقویم قرار دیا۔
انبیاء کے مطابق نہ تو یہ کائنات کسی حادثے کا نتیجہ ہے اور نہ ہی انسان کسی مفروضہ ارتقاء کا ما حاصل۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انسانی شعور کا ارتقاء کی منازل طے کرنے کا پا بند ہے اور شعور کا ارتقاء اس لئے ضروری ہے کہ انسان خالقِ کائنات کی مرضی اور مشیّت سے پوری طرح درجہ بدرجہ آگاہ اور روشناس ہو سکے تاکہ نیابت ِ الٰہیہ کے فرائض کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ انسان اور اس کائنات کے تمام مظاہر ایک الوہی منصوبے کے تحت وجود میں لائے گئے ہیں اور انسان پہ یہ امر لازم کر دیا گیا ہے کہ وہ اُس منصوبے کو سمجھے اور اُسی کے مطابق عمل کرے۔ اس سمجھ اور آگہی کے لئے اُس کو غور و فکر کی صلاحیتوں سے آراستہ کرنے کے بعد اُس کو یہ اختیار بھی دے دیا کہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرے یا نہ کرے، مثبت طرزوں میں استعمال کرے یا منفی طرزوں میں ، تعمیری سوچ کو اپنا کر کام کرے یا تخریبی کاموں کو کرے۔ انبیاء نے انسان کے ان دونوں قسم کے اعمال کے نتائج کو خوشی، اطمینان، سکون اور راحت اور غم، پریشانی، بے سکونی اور تکلیف کی دو کیفیتوں کے حوالے سے واضح کرنے کو جنت اور دوزخ کی دو اصطلاحات کا استعمال کرکے انسان کو یہ رغبت دائی کہ وہ ودیعت کر دہ صلاحیتوں کو مثبت انداز میں تعمیری کاموں پر صرف کرے۔
انبیاء کی تعلیمات کے مطابق یہ کائنات اور اس کے مظاہر دورخوں پر تخلیق کئے گئے ہیں۔وہ ان دورخوں کو روح اور مادہ ، باطن اور ظاہر ، جسم و جاں جیسے ناموں سے متعارف کراتے ہیں۔ انبیاء کے علوم کے تحت انسان دنیا کے ہر دو، باطنی اور خارجی پہلوں سے واقف اور آگاہ ہو سکتا ہے۔اس لئے اس کا علم زیادہ بہتر اور مکمل ہوسکتا ہے۔ پیغمبرانہ تعلیمات کے مطابق باطنی علوم ہی خارجی علوم کی بنیاد ہیں کیونکہ ہر مظہر کی کوئی نہ کوئی بنیاد ضرور ہوتی ہے۔اس لئے ان کے نزدیک خارجی علوم پہ ہی انحصار کرنا کافی نہیں۔ باطنی علوم کے ساتھ ساتھ خارجی علوم پہ دسترس رکھنا بھی ضروری ہے یعنی انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ کائنات اور  اس  میں رواں دواں زندگی کے باطنی اور خارجی ہر دو پہلوں سے آگاہ اور واقف ہو۔
ہر نبی اور پیغمبر کے پیروکار اور شاگرد وہی لوگ ہوا  کرتے تھے جو اُ ن سے براہِ راست علم سیکھنے کے خواہش مند ہوا کرتے تھے وہ اپنے نبی کی تعلیمات سے نہ صرف خود مستفیض ہوتے تھے بلکہ ان سے سیکھے ہوئے علوم کو دوسروں تک پہنچانے کی تگ و دو بھی کرتے تھے۔ با  الفاظِ دیگر انبیاء نے ہی اول اول درس و تدریس کا نظام قائم کرکے شورِ انسانی کی تربیت کا اہتمام کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ درس و تدریس کو پیغمبرانہ کام کہا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ انبیاء یہ سب کیوں کرتے تھے۔ تو اس کا واحد جواب تو یہی بنتا ہے کہ یہ فریضہ اللہ تعالیٰ ان کے ذمے گاتے تھے کہ وہ شعورِ انسانی کی راہنمائی کریں اور لوگوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ نہ صرف اس دنیا بلکہ مرنے کے بعد کی زندگی بھی کامیابی سے بسر کر سکیں۔ انبیاء کے تربیت یافتہ لوگ ان سے حاصل کی گئی تعلیمات کو پھیلانے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کے کام کو اپنا مشن بنا لیتے تھے اور اس کی تبلیغ اور اشاعت میں کوشاں رہتے تھے۔
چالاک حکمران اور وقتی مفاد کو پیشِ نظر رکھنے والے لوگ جب یہ دیکھتے کہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد انبیاء کی تعلیمات کے زیرِ اثر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی  ہے اور انہیں یہ خطرہ محسوس ہوتا کہ لوگوں کے باشعور ہونے کے بعد وہ انہیں اپنی گرفت میں نہیں رکھ سکیں گے تو وہ انبیاء کی پھیلتی تعلیمات میں بڑی ہوشیاری ، چالاکی اور طاقت سے اس طرح کا بگاڑ کی نشاندہی کی کوشش کرتا بھی تو عوام کی اندھی عقیدت کا سہارا لے کر الٹا اُس بگاڑ کی نشاندہی کرنے والے کو ہی معتوب قرار  دیتے ہوئے، اپنی طاقت کے بل بوتے پر اُس کو مٹا کر رکھ دیا جاتا۔ زیادہ چالاک اور ہوشیار حاکم تو انبیاء کو ہی ٹھکانے لگانے میں عافیت محسوس کیا کرتے تھے۔
اس بگاڑ کی سب سے عام صورت تو یہی رہی ہے کہ اس نبی یا اوتار کو خدا کا اتنا قریبی بنا دیا  جاتا کہ لوگ خدا کو چھوڑ کر اسی نبی یا اوتار کا ہی بت پوجنا شروع کر دیتے۔ مصری، ہندو، یونانی اور رومن تہذیبوں میں دیوی دیوتا ایسے ہی بگاڑوں کی پیداوار تھے۔ چالاک پروہت، پنڈت ، پادری اور معبدوں کے متولّی  حکمرانوں کے ساتھ مل کر انہی دیوی دیوتاؤں کی دکانیں سجاتے اور عوام کو مذہبی رسومات کے نام پر بے وقوف بنا کر لوٹا کرتے۔
خواہش اقتدار کے ہاتھوں مغلوب لوگ بھلا اس بات کو کیسے گوارا کرسکے تھے کہ انبیاء کا دیا ہوا نظامِ درس و تدریس قائم ہوا اور لوگ حکمرانوں اور کے گماشتوں کے گھڑے اور پھیلائے  ہوئے تو ہمات کے بندھنوں سے آزاد  ہو کر عقل و شعور سے آراستہ ہونے کے بعد اس قابل ہو جائیں کہ حکمرانوں کو ان کے فرائض یاد دلا سکیں اور مذہبی اجارہ داروں کی چالاکیاں بھانپ سکیں۔ اگر لوگ سوچنا اور سمجھنا سیکھ جاتے تو ظاہر ہے کہ وہ یہ سب کچھ بھانپ لینے کے بعد بھلا اُن کے قابو کیوں آتے۔ لہٰذہ ظاہریت کے دلدادہ حکماء اور مادیت کے عشق میں گرفتار فلاسفہ کی سرپرستی کی جاتی تاکہ اگر کہیں کوئی مچھلی ان کے دام سے بچ کر نکل بھی جائے تو اس جال سے نہ بچ سکے۔
اگر کبھی کوئی بادشاہ اپنی فطری نیک طبعی کے سبب عوام کچھ بھلا کرنے کی سوچتا بھی تو اس کے گرد جمع مفاد پرست امیر و وزیر چند سطحی قسم کے اقدامات سے اس کو مطمئن کر دیا کتے۔ بدھانے اسی لئے  تو گھر بار چھوڑ ا  تھا، کیونکہ اس نے یہ بھانپ لیا تھا کہ ان مفاد پرست وگوں کے نرغے میں رہتے ہوئے وہ اپنے عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکے گا۔اس نے بادشاہت کو لات ماری ، خود کو آگہی سے آراستہ کیا اور لوگوں کو یہ درس دینے بیٹھ گیا کہ انہیں خود اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرکے، انہیں استعمال کرکے، اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو دریافت کرنے، انہیں سنوارنے اور انہیں اپنے اور دوسروں کے کام لانے کا گُر اس نے یہ بتایا کہ اپنے اندر کی دنیا میں اتر نا سیکھ لو۔ اُس کی تعلیمات کا جو حشر ہوا ہے وہ آج سب کے سامنے ہے۔ وہ جس نے اپنے لئے نہیں بلکہ حکمرانوں اور انکے مفاد پرست گروہ کے ہاتھوں  پسے ہوئے عوام ی بہتری اور بھلائی کی خاطر گھر بار چھوڑا، عیش و آرام کی زندگی قربان کی خود اُسی کو ترکِ  دنیا اور رہبانیت کی سب سے بڑی مثال بنا کر رکھ دیا گیا۔ وہ جس نے انسانوں کو یہ درس دیا تھا کہ ہر بت سے گزر کر ایک بر تر شعور تک رسائی حاصل کرکے خود اپنے اندر مستور صلاحیتوں کو دریافت کریں اور انہیں استعمال کریں، ستم ظریفوں نے خود اسی کے اتنے بت بنا کر پوجے کہ اس کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔
اگر چہ قبل مسیح کی تاریخ پر بہت سے پردے پڑے ہوئے ہیں لیکن الہامی کتب میں مندرج قوموں کے عروج و زوال کے واقعات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خواہش ِ اقتدار، حُبِ جاہ اور دولت پرستی نے شعورِ انسانی کی راہوں میں ہمیشہ کانٹے بوئے ہیں اور اس کو سیدھی راہ سے بہکانے کی بھر پور جدوجہد کی ہے۔ اس بات کے ثبوت کو اتنی سی بات ہ غور کرنا ہی کافی ہوگا کہ ہر مذہب میں بگاڑ کب پیدا ہوتا رہا ہے؟ جب بھی لوگوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد کسی مذہب کی حقانیت سے متاثر ہوتی تو چالاک اور مفاد پرست لوگ اُس اجتماع میں شامل ہو جاتے اور اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے اثر و  نفوذ پیدا کرنے کے بعد اس اجتماع کی سرداری حاصل کر لیتے ہیں۔   شروع شروع میں وہ اس مذہب کی خیر خواہی بھی چاہتے ہیں اور اس کی تعلیمات پر عمل بھی کرتے ہیں لیکن ان کے اندراس مذہب کی تعلیمات کی پوری آگاہی نہ ہونے اور اس کی اصل روح سے نا واقفیت آڑے آتی ہے اور وہ اپنی نفسانی خواہشوں کے زیرِ اثر دور اندیشی سے ہٹ جاتے ہیں اور وقتی اور عارضی فوائد کے حصول کے لئے کو شاں ہو جاتے ہیں۔ یہاں وہ اپنے مذہب کی تعلیمات کی اصل روح سے دور ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ محض اُن کی بے راہ روی کا نتیجہ ہوتا ہے۔
اگر ہم انبیاء کی تعلیمات کا علمی انداز میں تجزیہ کریں تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ہر پیغمبر اور نبی اُ ن علوم میں یکتا ہوا کرتا تھا جو اُن کے اس دور میں عام ہو کرتے تھے جب ان کو بعثت سے سرفراز کیا جاتا تھا۔ وہ اس علم کا اظہار اس لئے کیا کرتے تھے کہ لوگوں کو اس امر کی طرف متوجہ کر سکیں کہ اُ ن لوگوں کا علم محدود اور مادے کی بیساکھیوں کا محتاج ہے جبکہ وہ اُن کو علم کی اُس سطح سے روشناس کروانا چاہتے ہیں جہاں سے ایک لامحدود علم اُن کو مل سکتا ہے اور وہ مادے کی بیساکھیوں کے محتاج بھی نہیں رہیں گے۔ لیکن ہوتا کیا رہا ہے؟ حضرت موسیؑ کے دور میں سحر، جادو، طلسمات اور ٹونے ٹوٹکوں کا بہت رواج تھا۔اس علم کے حامل افراد کو شاہی درباروں میں نہ صرف رسائی حاصل ہوا کرتی تھی بلکہ ان کو عزت و تکریم سے بھی نواز ا جاتا تھا۔ حضرت موسیؑ نے اللہ کے رحم پر جب اپنی عصاء جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کے سامنے ڈالا اور اُس عصاء نے ایک اژدھے کا روپ دھار کر اُ س سانپوں کو نگل لیا تو وہ جادوگر اس بات کو فوراً سمجھ گئے کہ موسیٰ کا علم اُن کے علم سے بر تر اور اعلیٰ ہے۔ فرعون اس بات کو سمجھنا نہیں چاہتا تھا اور اگر وہ سمجھ بھی گیا تھا تو  اُس نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے کتنے پیروکاروں نے حضت موسیٰ سے وہ علم سیکھا اور اس کو آزمایا۔ کم از کم تاریخ میں ایسے کسی شخص کا کوئی نام کہیں بھی مذکور نہیں۔
اسی طرح حضرت صالحؑ کے دور میں سنگ تراشی کا فن اپنے عرو ج پر تھا۔ایک سے بڑھ کر ایک سنگ تراش تھا۔ وہ پتھر سے جو بھی تراشتے ایسا تراشتے کہ حقیقت کا گمان ہوتا۔ اللہ نے حضرت صالحؑ سے اہلِ مدائن کو انہی کے فن میں مات دینے کو اس معجزے سے نوازا کہ  انہوں نے چٹان میں سے ایک ایسی اونٹنی تراش کر سامنے لاکھڑی کی جو زندگی سے اس قدر بھری ہوئی تھی کہ اس نے وہاں موجود لوگوں کے سامنے بچے کو جنم دے کر ان کی آنکھیں کھول دیں۔ لیکن اس کے بعد کتنے لوگوں کے بارے میں یہ بات کہی جاسکی ہے کہ انہوں نے حضرت صالحؑ سے کسب فیض کر کے اونٹنی نہ سہی، کسی پتھر سے ایک چوہیا ہی پیدا کرکے دکھائی ہو۔
بالکل  اسی طرح حضرت عیسیٰؑ کے عہد میں حکمت اور علاج  معالجے کا بہت چرچا ہوا کرتا تھا۔ حضرت عیسیٰؑ  نے اپنی قوم  کو محض یہ سمجھا نے کے لئے کہ علاج معالجے کے فن کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ کوڑھ ، برص اور پیدائشی اندھے پن جیسے لا علاج امراض تو ہے ایک رف موت کا بھی علاج ممکن ہے اور وہ بھی محض ایک زیر لب جنبشِ زبان سے  لیکن اس سے ہوا کیا؟ آج دنیا میں ایک ارب سے زائد لوگو ں کو اُنؑ کی پیروی کا دعویٰ ہے  لیکن اُن کے حواریوں سے لے کر آج کے پوپ اور بشپ اعظم تک کتنے عیسائی ایسے ملتے ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰؑ ؑ کے طریقہ علاج کو برتنا تو دور کی بات ہے سمجھ کر ہی دیا ہو۔ ہاں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے ہ علاج معالجے کے حوالے سے اپنے نبی کی سنت کے احترام میں انہوں طب و جراحت کو بہت ترقی دی۔ لیکن  کیا حضرت عیسیٰؑ ؑ نے طب و جراحت کا فن ہی بطور معجزہ پیش کیا تھا یا اُن سے پہلے بھی یہ رائج رہا تھا، اس بات کو سوچنے کی فہرست مادی طرزوں کا حامل شعور کب دے گا؟
ہو سکتا ہے کہ انبیاء کے پیروکاروں اور ماننے والوں نے ان سے درخواست کی بھی ہو کہ آپ ہمیں اس خاص علم کی تعلیم دیں اور جب انبیاء نے اُن کو یہ بتایا ہو کہ اس علم کے حصول کی اولین شرط یہ ہے کہ وہ اُن کو پہلے تزکیہ نفس کے مراحل سے گزاریں گے تاکہ اس بات کا اطمینان رہے کہ وہ اتنے ارفع اور اعلیٰ علم کو سفلی قاصد کے لئے استعمال نہیں کریں گے اور اس کے لئے وہ کردار سازی اور تنظیم شخصیت کے اسباق پڑھانے لگے ہوں گے اور جب کوئی شاگرد تزکیہ نفس کے اُ س معیار پر پورا نہیں اتر تا ہوگا تو ظاہر ہے  کہ وہ علم بھی اُ س کو سکھایا نہیں جاتا ہوگا۔ اور جو لوگ تزکیہ نفس کے مراحل سے گزر جاتے ہوں گے وہ انبیاء کے اُن خاص علوم سے بہرہ مند بھی کر دئیے جاتے ہوں گے اور ان پر یہ قد غن بھی عائد کر دی جاتی ہوگی کہ وہ ان علوم کو ہر کس و نا کس کو تعلیم کریں گے بلکہ اپنے شاگردوں کے شعور کی سکت اور ان کے میلان طبعیت کو جانچ لینے کے بعد ہی وہ اُ کو اُن خاص علوم کی تعلیم دیں گے ۔ بعد میں اگر کسی نے اُن کو اُن کے  خصوصی علوم کی باب کریدا بھی ہوگا تو اُن  علوم کے حامل افراد، اُن علوم کے نہ جاننے والوں کو یہ کہ کر بہلا دیتے ہوں گے کہ یہ تو ایک معجزہ تھا اور معجزے تو صرف انبیاء سے ہی صادر ہوا کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر علم کے الوہی اداروں سے کسب فیض میں کوتاہی کی وجہ انسان کی تن آسانی ، سہل پسندی اور مفاد پرستی کے علاوہ اور کچھ نہیں، کیونکہ اتنا تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ ایک علم ایسا  بھی ہے جس کو علم سینہ کہا جاتا ہے اور اس علم کو جاننے والے اپنے خاص اور چنیدہ شاگردوں کو ہی تعلیم کیا کرتے ہیں۔
نبی  آخرالزمان حضورﷺ کی دیگر انبیاء پہ فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے تو یہ واحد دلیل بھی بہت ہے کہ انہوں نے اپنی تعلیمات کو اپنی امت کے ہر ہر فرد تک پہنچانے کا ایک ایسا رفیع  الشان انتظام قائم فرما دیا کہ آج چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی انﷺ کی تعلیمات کا اصل تن بغیر کسی تحریف و  ترمیم  ہر ہر فرد کے استفادے کے لئے دستیاب ہے۔ ہم نے اس سے کتنا استفادہ کیا ہے،اس کا ذکر کرنے کا نہ یہ محل ہے اور نہ ہی موقع۔
حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی بعثت سے پہلے نبوت کی ذمہ داریوں سے عہدہ پر آہونے کے لئے اللہ تعالیٰ سے براہِ راست تربیت پائی۔ یتیمی ، یسیری اور دوسروں کا دست نگر ہونا، بکریاں چانا، امین اور صادق رہنا ، تجارت کرنا، متموّل ہونا، غارِ حرا میں قیام کے دوران ریاضت، مراقبہ کرنا اور روزے رکھنا، یہ سب اللہ کی طرف سے حضورﷺ کی ذہنی اور روحانی تربیت کے انتظام ہی کا ایک حصہ تھا۔ ایک حضورﷺ پر ہی کیا موقوف، اللہ تو ہر فر کی تربیت کا انتظام فرماتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ رسولوں ، پیغمبروں  اور انبیاء کی تربیت کا اہتمام کچھ زیادہ ہی خصوصی ہوا کرتا ہے کیونکہ انہوں نے دوسروں کی راہنمائی اور راہبری کا فریضہ بھی سرانجام دینا ہوتا ہے۔ یہ انکی اس خصوصیت راہبیت ہی کا اعجاز ہوتا ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی بھلائی اور بہتی میں اس درجہ مخلص ہو جاتے ہیں کہ اپنی جانیں تک وار دیتے ہیں اور اس فریضہ کی ادائیگی میں بڑی سے بڑی تکلیف اور آزمائش سے بھی نہیں گھبراتے اور اُسے خندہ پیشانی سے جھیل جاتے ہیں۔
حضرت یوسفؑ  کا ماں باپ سے بچھڑنا ، بھائیوں کے ہاتھوں کنویں میں گرایا جانا، بازار ِ مصر میں فروخت ہونا، زلیخا کا انہیں اپنی طرف مائل کرنا اور کوشش میں ناکام ہوکر عزیز مصر سے انہیں گرفتار کروانا، ان کا  سالوں جیل میں رہنا، حضرت موسیٰؑ کا دریا میں بہایا جانا، فرعون کے محل میں پرورش ہونا، وہاں سے نکل کر کوہ طور پر چالیس دن اور رات کا قیام کرنا، حضرت عیسیٰؑ کا جنگلوں اور بیابانوں میں آزمایا جانا یہ سب انبیاء کو پیغمبری اور نبوت سے سرفراز کرنے سے پہلے ان کی تربیت کا حصہ ہی تو تھے۔
حضور نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ کی تعلیم و تربیت کا جو پروگرام وضع کیا تھا اس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُ ن کا پروگرام تین بنیادی مقاصد کا حامل تھا۔
1.                  پہلا یہ کہ لوگوں میں غور و فکر کا ایک ایسا پیٹرن پیدا کر دیا جائے جو انہیں اپنے اندر موجود صلاحیتوں سے اس طرح سے روشناس کروا دے کہ وہ اپنے مسائل سے اپنی خدا داد صلاحیتوں کا بھر ور استعمال کرتے  ہوئے، اپنے مسائل اور فرائض سے بخوبی عہدہ برآ ہوتے ہوئے ایک پر مسرت ، مطمئن اور خشحال زندگی گزار سکیں۔ اس سے آپ ﷺ نے فرد کی انفرادی زندگی میں بہتری کی بنیاد فراہم فرمائی۔
2.                  دوسرا یہ کہ اپنے ماننے والوں میں ایک ایسا جاندار کردار پیدا کر دیا جائے کہ غلط کو غلط اور درست و درست کہنے میں کوئی امر اُن کے مانع نہ آسکے۔ اس سے آپ ﷺ نے فرد کو معاشرے کی ایک بہترین اکائی بننے کا درس دیا۔
3.                  اور تیسرا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے قلب و نظر کا ایسا تزکیہ کر دیا جائے کہ وہ ہر معاملے میں مکمل غیر جانبداری برتنے کے عادی ہو جائیں۔ کسی بھی معاملے میں نہ کوئی تعصب آڑے آسکے اور نہ ہی کوئی ذاتی پسند یا مفاد اُن کی رائے پر اثر انداز ہوسکے۔ اس سے آپ ﷺ نے فرد کے لئے پوری کائناتی برادری کا ایک فعال کن بننے کی راہ ہموار فرمائی۔
ان مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے جو اقدامات اٹھائے اُن تمام کی تفصیل سیت نبوی کی کتب کے مطالعے سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ اجمالی طور پر اگر ہم اُنؑ کی تعلیمات کا جائزہ لیں تو انہوںؐ  نے جہاں ایک طرف زبانی ہدایات جاری فرمائیں، وہاں دوسری برف وہی  کام خود بھی کرکے بھی دکھائے تاکہ عملی مثال دستیاب رہے۔ آپ ﷺ کی دی گئی تمام  ہدایات آج بھی قرآن کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ اور ان ہدایات پہ جس طرح آپﷺ نے خود عمل فرمایا وہ سنتِ رسول کے طور  پر ہم تک پہنچا ہے۔
قرآن میں ایک برف اللہ سے تعلق قائم کرنے کی بابت حکم دیا جاتا ہے تو  دوسری جانب ا کے ساتھ ہی بندوں سے تعلق استوار رکھنے کی بات بھی ارشاد فرمائی جاتی ہے۔ اللہ سے ربط پیدا کرنے کا یہ طریقہ تعلیم کیا جاتا ہے کہ اللہ کی نشانیوں پہ غور کیا جائے اور فکر کو اس کی ضاعی اور کاریگری کو سمجھنے میں لگائے رکھا جائے۔ بندوں سے تعلق استوار کرنے کو ہدایت کی جاتی ہے اور اس کا عملی طریقہ یہ بتایا جاتا ہے کہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں وہ آپ کو عزیز ہوتا چلا جاتا ہے۔ قرآن ایک طرف آدمی کو اپنے انفس سے روشناس کرواتا ہے تو دوسری طرف اس کو آفاق کی تسخیر کا اہل بنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے یہ بات شرح وبسط سے واضح کی کہ اللہ نے انسان کو تمام کائنات کی بابت علوم سے نوازا  اور اُن تمام علوم کو خود انسان کے اپنے اندر ذخیرہ کر دیا۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے باطن میں اُتر کر ان علوم سے استفادہ کرتا ہے یا نہیں۔ یہ بات ہم سب ہی جاتے ہیں کہ حضورﷺ کا ایک لقب امّی یعنی ناخواندہ ہونا بھی ہے۔ اس بات پہ غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ محض دنیاوی علوم جاننے والا کوئی بندہ باطنی علوم سے واقف نہیں ہوسکتا لیکن باطنی علوم کا حامل انسان دنیاوی علوم کی اصل حقیقت اور کنہ سے بھی واقف ہوتا ہے۔
حضورﷺ کا وضع کردہ نظامِ علیم ، معاشرت اور دنیاوی زندگی کی تعلیم دے کر، انسانی شعور کو ظاہر ی علوم سے آراستہ کرکے، اس مادی زندگی کے تقاضوں سے بحسن و خوبی عہدہ برآ ہونے کے قابل تو بنا تا ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ انسان کی باطنی تربت کا ایسا اہتمام بھی کرتا ہے جس سے انسان اپنے لاشعور سے واقف اور آگاہ ہونے کے علاوہ ان علوم تک بھی رسائی حاصل کرسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے لاشعور میں ذخیرہ کئے ہوئے ہیں۔ ان ہی علوم کو باطنی اور روحانی علوم کہ کر ان کو بھی انسان کی دسترس سے باہر مانا جاتا رہا ہے۔
اصحاب صُفہ وہ جلیل القدر صحابہ کرامؓ  تھے جن کو حضورﷺ نے باطنی علوم کی تعلیم کے لئے منتخب کیا تھا۔ حضورﷺ کے نظامِ درس و تدریس کے گویا دو حصے تھے۔ ایک وہ جو مجد نبوی میں ہر خاص و عام کے لئے جاری تھا اور دوسرا صُفہ جہاں منتخب صحابہ کرامؓ کو مختلف تربیتی مشقیں کروائی جاتی تھیں تاکہ ان کا ایسا تزکیہ ہو جائے کہ وہ باطنی علوم سے سرفراز ہو سکیں۔ با الفاظِ دیگر صُفہ صحیح معنوں میں پہلی روحانی یونیورسٹی تھی۔ ا صحابِ صُفہ نے ہی حضورﷺ سے سیکھے ہوئے علوم کو ، ان علوم کی اصل روح کے ساتھ، آگے پھیلانے کا مشن پورا کیا۔ اسلام میں خانقاہی نظام یعنی روحانی ساسل درحقیقت وہ تدریسی ادارے ہیں، جہاں سے ایسے صاحب کردار اور عالم  با عمل لوگ تربیت پاتے رہے جن کو کبھی کوئی بادشاہ یا سلطان نہ تو خرید سکا اور نہ ہی جھکا سکا۔ یہی سبب تھا کہ اولیاء اللہ سے بادشاہوں اور سلاطین کی کم ہی بنی۔
باطنی علوم ، رُشد و  ہدایت اور اسلامی علوم کی تعلیم  کے لیے شروع میں مساجد کو ہی مدارس کے طور  پر استعمال یا جاتا ہا لیکن جب سلاطین اور امراء نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مساجد پر اپنا کنٹرول اور اثر رسوخ  بڑھا کر انہیں اپنے تسلط میں لے لیا اور علمائے باطن کو ستانا شروع کیا تو انہوں نے خانقاہوں میں  پناہ لی اور وہاں پہ باطنی علوم کی درس تدریس کا آغاز کر دیا۔ اس نسبت سے ہی اُن کے جاری کردہ نظامِ تربیت کو خانقاہی نظام کہا جاتا رہا ہے۔مذہب اسلام کی اشاعت میں اپنے اپنے طور  پر دینی مدارس اور خانقاہوں، ہر دو نے اپنا اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ سلاطین اور بادشاہ اسلام کی اشاعت میں اپنے اندازِ فکر کے مطابق دلچسپی لیتے تھے اور مدارس قائم کرتے تھے اور علمائے باطن اپنے اندازِ فکر کے مطابق  دلچسپی لیتے تھے اور مدارس قائم کرتے تھے اور علمائے باطن اپنے اندازِ فکر کے مطابق تبلیغ اور اشاعت دین کا کام کرتے رہے۔ خانقاہی نظام سے وابستہ افراد  خدمتِ خلق کرکے کاموں پر اصرار کرتے اور عوام اُن کی طرف ملتفت ہو جاتی۔ بادشاہ اور سلاطین بلکہ اُن کے خواری اور درباری کے اس بات کو کہاں برداشت کرسکتے تھے نتیجے میں سلاطین یہ باور کرنے کے بعد کہ یہ لوگ اُن کے لئے خطرہ ہیں ، اُن کے خلاف اُلٹے سیدھے احکامات جاری کردیتے۔ علمائے باطن اپنی اعلیٰ ظرفی، وسعتِ علم اور بے لوثی کے سبب عموماً صبر اور برداشت کی راہ اپنا تے رہے۔
اسلام کی روشنی برصغیر میں محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کے ساتھ آئی اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ جیسے عالی مقام صوفیاء کرام کی کوششوں سے جِلا پاتی چلی گئی۔سلطان محمود غزنوی کے بعد بابر کے مغلیہ خاندان کی حکومت کی بنیاد رکھنے اور پھر مغلیہ سلطنت کے زوال اور انگریزوں کی حکومت بننے تک ، بر صغیر میں لگ بھگ ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی عملداری رہی ۔ اس دور میں دو مختلف ، قدیم اور جدید تہذیبیں ایک دوسرے کو متاثر کرتی اور ہوتی رہیں۔ ہندو مذہب کے تحت قائم معاشرے کی تاریخ کا عرصہ یوں تو سات آٹھ ہزار سال پرانی مانی جاتی ہیں۔ اتنی پرانی تہذیب کے تانے اور بانے  میں جو پیچیدگیاں اور خامیاں  پیدا  ہو چکی تھیں ان کے سبب اسلام کی نئی تہذیب اور تمدن کو یہاں جڑ پکڑنے کا موقع ملا۔ صوفیاء کرام نے انسانی فطرت کی ضرورتوں کو  مد نظر رکھتے ہوئے اپنی تعلیمات کو انہی کے رنگ اور ڈھنگ میں ڈھال کر پیش کیا۔ پر ساد اور بھکشا کے مقابل لنگر اور خیرات ، بھجن اور کیرتن کے مقابل قوالی اور سماع کی محافل اسی سلسلے کی کڑیاں مانی جاتی ہیں۔ وہاں کی بت پرستی کے مقابل یہاں قبر پرستی ، وہاں گرو چیلے تو یہاں پیر و مرید، ادھر اُن کے ہاں کے رشی اور سادھوں کے مقابل یہاں کے صوفی اور فقیر، پنڈت اور برہمن اُدھر، تو مولوی اور سیّد اِدھر، اپنے اپنے راگ الا  پتے  ایک دوسرے کو نیچا  دکھانے کے چکر میں پڑے رہے۔
آج سے ڈیڑھ، دو سو سال قبل ، جب تجارت کے لئے آنے والے انگریزوں نے یہاں قدم جما لئے تو عیسائی مشنری بھی میدان میں آگئے۔ انہوں نے آنے مذہب اور مفادات کے تحت لوگوں کے لئے اسکول اور شفا  خانے قائم کئے۔ ان کی علمی برتری نے اپنا رنگ جمانا شروع کیا اور اِن دونوں فریقوں یعنی ہندوں اور مسلمانوں کو اپنی  طرف ملتفت کرنا شروع کیا۔ عیسائیت کو فروغ  ملنا شروع ہوا  دونوں فریق  چونکنے ہو گئے۔ مشنری سکولوں اور کالجوں کی طرز پر انہوں نے بھی اپنے اپنے ادارے قائم کرنا اور اُن کو استوار کرنا شروع کر دیئے۔
علی گڑھ محمڈن کالج جو بعد میں علی گڑھ یونیورسٹی بنا ، مسلمانوں کی اسی کوشش کی عکاسی کرتا ہے۔ ان اداروں میں انگریزی اور دور جدید کے سائنسی مضامین کی تعلیم پر زور دیا جانے لگا تاکہ یہاں کے لوگوں کو انگریزوں کے مقابل نہ سہی تو ان  کے ساتھ بیٹنے کے قابل تو بنا ہی دیا جائے۔ جب انگریزوں نے بھی ایسے اداروں سے  فارغ التحصیل طلباء کو سرکاری ملازمتیں فراہم کرنا شروع کریں تو  ان  اداروں کی ضرورت اور بھی مسلمہ ہوگئی۔ اسی لئے ان اداروں کے مخالفین نے ایسی درس گاہوں کو کلرک سازی کے کار خانے تک کہا۔ اُدھر جنگِ عظیم اول کے بعد طاقت کا توازن بگڑنا شروع ہوا اور جنگِ عظیم دوم کے بعد انگریزوں کا سورجِ اقتدار ڈوبتا چلا گیا۔ انگریزوں کو کمزور پڑتے دیکھ کر ہندو اور مسلمان دونوں نے آزادی کے لئے کوششیں شروع کردیں اور جنگِ عظیم دوم کے فوراً بعد انگریزوں کو اس خطے کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ انہوں نے جانے سے پیشتر مسلمانوں کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے مسلم اکثریت اور ہندو اکثریت کی بنیاد پر برصغیر کی علاقائی تقسیم کی منظوری دے دی۔
پاکستان وجود میں آگیا تو مختلف طریقوں اور شعبوں کے لوگوں میں اس مملکت خدا داد پہ زیادہ سے زیادہ تصرف اور کنٹرول حاصل کرنے کی دوڑ شروع ہوگئی۔ اب یہاں کوئی بادشاہ تو تھا نہیں اس لئے سب ہی بادشاہ بننے کی دوڑ میں لگ گئے۔ کیا سپاہی اور کیا بابو۔ شائد اسی لئے کلرک بادشاہ اور سپاہی بادشاہ کے علاوہ نوکر شاہی  کی اصطلاحات بھی سننے میں آتی رہی ہیں۔ جاگیردار طبقے کے سیاست دانوں نے اپنی حکومت مضبوط کرنے کے لئے کبھی سول انتظامیہ اور کبھی فوج کا سہارا لیا۔ کمزور حاکم کے توانا ملازمین کی طرح کچھ دیر تو ان سہارا دینے والوں نے صبر کیا لیکن آکر تا بہ کے ۔ اور جب انہیں یقین ہوگیا کہ ان کے بغیر ان کمزور، نا اہل اور کوتاہ اندیش حکمرانوں  کا کوئی کام نہیں چل سکتا تو انہوں نے خود ہی وہ بوجھ باری باری اٹھانا شروع کر دیا جو انکے حکمرانوں کی سکت اور ہمت سے زیادہ تھا۔ اور اُن کے اٹھائے بھی اُن سے نہیں اُٹھ  پا رہا تھا۔ یوں فوج اور انتظامیہ ( نوکر شاہی)، جاگیرداروں اور وڈیروں کی پشت پناہی سے، اس ملک میں باری باری اقتدار میں آکر اپنے اپنے انداز میں عوام کی خدمت اور حکومت کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اس سیاسی انتشار اور عدم استحکام کے ماحول میں کسی بھی شعبے پر اتنی ہی توجہ دی جاسکتی تھی جتنی توجہ اس کا وجود برقرار رکھنے کے لئے لازم ہو ورنہ جب تک کام چلتا ہے اسے چلنے دو کی پالیسی اور بھلا کب کام آتی؟
جب حکومت کو شعبہء تعلیم پر توجہ دینے کا یارانہ ہوا تو متبادل اور متوازی نظام وجود میں آتے چلے گئے ۔ قیام ِ پاکستان کے وقت تعلیمی ادارے نجی اور فلاحی اداروں کے زیرِ انتظام تھے۔ پھر حکومت نے مقامی سطح پر میونسپلٹی کے زیر ِ انتظام اسکول بنانے کا آغاز کیا۔ ان تعلیمی اداروں کے قیام کا بنیادی مقصد بے  روزگار افراد کو کام پر لگانا اور ان کی صلاحیتوں  کو بروئے کار لاتے ہوئے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔ یہاں سے ہمارا نظام تعلیم اردو اور انگلش میڈیم کی دو واضح اقسام میں بٹ گیا۔ سرکاری سکول اور کالج اردو میڈیم کہلانے لگے اور نجی شعبے میں قائم ہونے والے پبلک سکول اور کالج انگلش میڈیم۔ دینی مدارس اس دوڑ سے دست بردار تو نہیں ہوئے لیکن انہوں نے یتیم خانوں کی جگہ لے لی اور مخّیر حضرات کے چند ے اور سرداری گرانٹس پر تکیہ کر لیا۔ مشنری ادارے جو بنیا طور پر کسی نہ کسی چرچ یا کلیسا کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کرتے ہیں، وہ بھی لوگوں کو اپنے انداز کی تعلیم دینے کے اپنے کام میں مصروف رہے۔ پہلے مشنری اداروں  نے چولا بدلا اور وہ تعلیم جو وہ مفت دیا کرتے تھے ، اس سہولت کو انہوں نے صرف عیسائی بچوں کے لئے مخصوص کرتے ہوئے دیگر بچوں سے بھاری فیسیں لینا شروع کردیں۔
1970؁ء میں ملک میں جہاں صنعت و حرفت، بنکوں اور دیگر اداروں کو قومیایا گیا وہاں تعلیمی ادارے بھی سرداری قرار پانے سے نہ بچ سکے۔ اس فیصلے کے پیچھے بھی بنیادی مقصد ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کو ملازمتیں مہیا کرنا ہی تھا۔ اس سے کچھ اور ہوا یا نہیں یہ ضرور ہوا کہ سا‏ئز اور حجم کے لحاظ سے شعبہ تعلیم ہمارے ملک کا سب سے بڑا ادرہ بن گیا۔ مقدار میں اضافے کا جنون معیار کا دشمن ہوا کرتا ہے۔ اساتذہ اور طلباء کے علاوہ عمارات کی تعداد میں ایک کثیر اضافہ ہوا۔ معیارِ تعلیم کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے قانون سازی کی جانے لگی۔ اساتذہ سے باز پرس کا حق کیا ختم ہوا، معیار تعلیم سر کے بل لڑھکنے لگا۔ اس حالتِ زار کی اصلاح کے نام پر مفاد پرستوں نے بہر مراعات کی طلب بڑھائی اور حکومت نے جوابی پیشکشوں کی بولی لگانا شروع کی اور جب حکومت کو اس بات کا احساس ہونے لگا  کہ اس طرح تو شاید ہی کوئی بہتری ہوسکے تو نجی شعبے  میں بھی تعلیمی ادارے  قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ جب یہ نظام کامیابی سے ہمکنار ہوتے دیکھا تو سمجھدار کاروبار ی حضرات بھی  میدانِ عمل میں کود پڑے اور نجی شعبے میں پلے نرسری، پریپ  اور مانٹیسوری سکول بنے ، پھر مڈل اور میٹرک ہوئے۔ جب حکومت نے دیکھا کہ ان کے حصے کا کام عوام خود ہی کرنے لگ گئے ہیں تو انہوں نے ایک طرف تو نجی شعبے کو کالج قائم کرنے کی اجازت دے دی  اور دوسری طرف سکولوں کی آمدن پر ٹیکس بھی لگا دیا۔ اس مرحلے کی کامیابی کے بعد نجی شعبے کے حوصلوں کو اور بھی تاب ملی اور دنیا کے دیگر ممالک کی تقلید میں یہاں نجی یونیورسٹیوں کا وجود عمل میں آنا شروع ہوا۔ یہ نجی یونیورسٹیاں درس و تدریس کا مشنری کام کرنے کی بجائے ڈگریوں کے بیوپار یوں کا روپ دھارتی چلی گئیں۔
سرکاری  سرپرستی میں چلنے والے سکول اور کالج بھی دو قسم کے ہیں ایک کیڈٹ سکول اور کالج  دو قسم  کے ادارے اور دوسرے عام سرداری سکول اور کالج۔ یعنی سرکاری انتظام کے تحت چنے والے تعلیم ادارے بھی دو قسموں کے ہیں۔ ایک وہ جو فوج اور نوکر شاہی نے اپنی ضرورت کے افراد تیار کرنے کے لئے قائم کئے ہیں کیڈٹ سکول اور کالج ہوں یا ٹیکنیکل اور ووکیشنل ادارے ، میڈیکل یا انجنیئرنگ اور دیگر پروفیشنل تعلیم دینے والے ادارے، وہ سب اسی زمرے میں آتے ہیں اور دوسرے جہاں عوام کے بچوں کو محض دن بھر کے لئے بٹھا کر عوام کے سر پہ  یہ احسان  کیا جاتا ہے کہ ہم نے آپ کے بچوں کی دن بھر دیکھ بھال کر دی اب اور کیا  چاہئے۔  ایسے اداروں کے اساتذہ سے آیا گیری یا بے بی سٹنگ کے علاوہ کسی اور کام کی توقع بھی نہیں کی جاتی۔ اس لئے اگر بچے نے بڑھ لی تو سُبحان اللہ اور نہ اللہ اللہ خیر سلا۔
تعلیمی اداروں کی ایک اور تقسیم شہری اور دیہاتی بھی کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دیہاتی سکولوں اور کالجوں اور شہری سکولوں اور کالجوں کے ماحول میں وہی فرق ہوتا ہے جو دیہاتوں اور شہروں کے ماحول میں پایا اور دیکھا جاسکتا ہے۔ آج کل شہروں کے تعلیمی ادارے 'آئی ٹی' یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی زد میں ہیں۔ بچ بڑے سب کمپیوٹر کا استعمال سیکھ رہے ہیں اور انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ اُن کے سامنے اطلاعات کا ایک وسیع سمندر ٹھاٹھیں مار تو رہا ہے لیکن انہیں اس میں شناوری کا طریقہ اور سلیقہ دونوں ہی ابھی سیکھنے باقی ہیں۔
اس پسِ منظر میں قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک تعلیم و تدریس کے لئے جو ہوا اُس سے کہیں زیادہ ہونا چاہئے تھا، کہیں زیادہ ہو سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔  اب بھی کچھ زیادہ نہیں بگڑ ا، اگر ٹھیک کرنے کی خواہش اور جذبہ بیدار ہوگیا تو آج ہی سے سب کچھ ٹھیک ہونا شروع ہو سکتا ہے۔
ہمارا ملکی نظامِ تعلیم آج جو بھی کچھ بھی ہے اسے یہی کچھ ہونا چاہئے تھا۔ وہ لوگ جو زمینی حقائق کو جانتے اور ا ن سے صرف، نظر بھی نہیں کرتے ، وقت اور حالات کی اس کروٹ کو بھی گوارا تو کر ہی رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سوچتے ہیں کہ جب تعلیم دینا بزنس بن ہی چکا ہے تو پھر ہم اسے پوری ایمانداری سے بزنس ہی کی طرح کیوں نہیں کر رہے یعنی جیسے بزنس میں آپ موصولہ رقم کے برابر طے شدہ مال خریدار کے حوالے کرنے کے پابند ہیں اور اگر نہیں کرتے تو آپ تعزیری قوانین کی زد میں آ جاتے ہیں لیکن کیا یہ اندھیر نہیں کہ ایک عام دکاندار پیسے لے کر مال نہ دے، یا  دینے میں لیت  و لعل  کرے یا دے اور وہ گھٹیا کوالٹی کا ہو، تو ہم تھانے میں اس کے خلاف رپٹ کوا سکتے ہیں لیکن  ایسے کسی ادارے کے خلاف کہیں ایسی کوئی رپٹ  درج نہیں ہوئی ہے، جس میں بچے کو پڑھانے میں ناکام رہنے اور بچے کے وقت کو ضائع کرنے پر ادا شدہ رقم  بمع  حرجانہ واپس طلب کی گئی ہو۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک تو یہ ہے کہ ہم ایماندار نہیں ہیں، ہم میں منافقت بہت ہے اور ہم لاعلمی کی انتہا کو چھو رہے ہیں اس لئے ہماری کہیں کوئی شنوائی بھی نہیں ہو پاتی۔

ایک طرف سرکاری ملازمت کی خواہش ، دوسری طرف دولت مند بننے اور معاشرے میں ممتاز ہونے کا جذبہ ، ہر ماں نے ایک ہی خواب دیکھنا شروع کر یا تھا کہ میرا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا افسر بے۔ ادھر ہر بیٹا بھی اپنی ماں کے خوابوں کو اپنا کر ، اک ہجوم  خواستگاراں میں شامل ہوکر، اپنی دنیا اور عاقبت دونوں ہی سنوارنے کو ، جیسے تیسے بھی ہوا، پڑھنا سیکھنے کے بعد اُسے رٹ کر ، لکھنے بیٹھ گیا۔ جو اس دوڑ میں کامیاب ہو گیا وہ بھی نا خوش کہ کچھ اور تیز دوڑ تا تو شاید اور بہت کچھ حاصل کر لیتا اور جو نا مراد ہوئے اُن کا نا خوش ہونا تو یوں بھی فطری تھا۔ آ ج پوری قوم فر سٹریشن کا شکار ہے۔ وہ ماں باپ ہوں ، اولاد ہو، اساتذہ ہوں یا شاگرد اور طلباء سب ہی مایوسی، یا سیت بے یقینی کا شکار ہیں۔ انہیں ہونا ہی تھا۔ کسی کے سامنے کوئی مقصد حیات ہوا ور نہ ہی زندہ رہنے کی کوئی وجہ، تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
جو زندگی کی دوڑ میں کہیں نہیں پہنچ سکتے ان کے لئے شعبہ تعلیم کی آغوش تو ہر وقت کھلی ہے ہی۔ اساتذہ کی غالب اکثریت اُن لوگوں کی ہے جنہیں درس و تدریس کا نہ تو کوئی ذوق ہے اور نہ شوق۔ وہ تو محض لگے بندھے اپنی تنخواہ کو جائز کرنے کا سوچ کر پڑھا رہے ہیں اور جب تنخواہ میں پوری نہیں پڑتی تو بچوں سے آنے بہانے پیسے اینٹھے جاتے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ محفوظ اور معروف طریقہ اپنے ہی سکول بلکہ اپنی ہی کلاس کے بچوں کو پرائیویٹ ٹیوشن پڑھانا ہے۔ کسی کو یہ خیلا تک نہیں آتا کہ یہ بدیانتی ہی کی ایک قسم ہے ۔ ظاہر ہے کہ کسی بچے کو پرائیویٹ ٹیوشن کی ضرورت تو تھی محسوس ہوتی ہے جب وہ اپنی کلاس میں اپنے سبق پر اتنی توجہ نہیں دے سکا کہ اس کو جو کچھ وہاں سمجھایا گیا تھا وہ اس کو سمجھ لیتا۔ اب اگر ایک بچہ اپنی کلاس میں پانچ چھ گھنٹوں میں جو بات نہیں سمجھ سکا وہ محض ایک ڈیڑھ گھنٹے کی پرائیویٹ ٹیوشن کے دوران کیونکر اور کیسے سمجھ لیتا ہے؟ا بات کا تجزیہ کرنے پر ایک اور پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ بعض اساتذہ اس زائد کمائی کے لالچ میں کلاس میں بچوں کو اتنی توجہ نہیں دیتے جو کسی بات کو بچوں کی فہم میں اتارنے کے لئے دی جانی لازم آتی ہے۔ یہاں سے ایک ایسے منحوس گرداب کا آغاز ہوتا ہے جس سے مفر کی کوئی صورت نظر نہ آنے کی وجہ سے سب ہی نے اس کو ایک ناگزیر برائی کے طور پر اپنا لیا ہے۔
آپ کسی بھی استاذ ، ٹیچر، لیکچرار یا پروفیسر سے ان کا اپنی زندگی میں کچھ بننے کی خواہش کے حوالے سے پوچھ کر دیکھیں۔ ایک غالب اکثریت کا جواب بہر حال یہ نہیں ہوگا کہ وہ ایک استاذ بننا چاہتے تھے۔ ایسا کیوں ہے؟ تو اُس کی سیدھی اور سچھی وجہ تو یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں استاذ کی کوئی عزت نہیں ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ ان سب کے نزدیک جو ایسا کہتے اور سمجھتے ہیں عزت کا پیمانہ بھی گاڑی  بنگلہ اور روپیہ ہی ہے۔ اُن کو یہ بات سکھائی ہی نہیں گئی کہ عزت بھی کمائی جاتی ہے، کوئی بلا وجہ دان میں کسی کو عزت نہیں دے دیتا۔ اور یہ وہ جنس نہیں جس کو پیسہ خرید سکے۔
الغرض یہ کہ آج ہمارا نظام تعلیم ہماری معاشرت کا ایک جزوِ  لاینفک ہے اور یہ وہی کچھ ہے جو کچھ ہمارا معاشرہ ہے۔ ہم اپنے نظامِ تعلیم سے یہ توقع اور امید رکھتے ہیں کہ یہ ہمیں ایسے افراد دے جو معاشرے کی بہتری کا سبب کا اور باعث بن سکیں۔ اُدھر نظامِ تعلیم سے وابستہ افراد ، خصوصاً اساتذہ کرام، کی سوچ یہ ہے کہ معاشرہ اُن کے لئے کچھ ایسا کرے کہ وہ ٹھیک ور بہتر ہو جائیں۔وہ انتظامی حوالے سے معاملات کی بہتری کے خواہاں ہیں، وہ نصاب میں تبدیلیوں اوت بہتی کی ضرورت کی بات کرتے ہیں، امتحانی نظام کی فرسودگی اور اس کے نقائص کو دور کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن نہیں کرتے تو اپنی شخصیت اور کردار کو بہتر اور پُر اثر بنانے کی بات بالکل بھی نہیں کرتے۔
اس بات کی ضرورت سے کوئی انکا نہیں کرتا کہ اگر اساتذہ پُر اثر  شخصیت اور متاثر کن کردار کے حامل ہوں گے تو ان کے تلامذہ اور شاگرد بھی اپنے اندر ویسی ہی خوبیاں ابھارنے کی کوشش کریں گے ورنہ تو وہ فلمی  اداکاروں  سے ہی متاثر ہوکر انہی جیسی حرکتوں کے مرتکب ہوتے رہیں گے۔


ضرورتوں کا علم

ضرورتوں کا علم
ٹی وی پر ایک مذاکرہ ہو رہا تھا۔ مذاکرے کا عنوان تھاہمارا ملکی نظامِ تعلیم۔ سب شرکاء نے بڑھ چڑھ کر بحث میں حصّہ لیا۔ گھنٹے بھر کے پروگرام میں وہ کسی قابلِ عمل تجویز اور جامع قسم کے لائحہ عمل پہ  متفق ہو ہی کہاں سکتے تھے۔ حسبِ دستور وقت کی کمی کا رونا روتے ہوئے، اُس پروگرام کے اینکر  پرسن نے بات سمیٹتے ہوئے کہا۔ علاوہ دیگر باتوں کے یہ بات طے ہے کہ جتنا اہتمام ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو ضرورتوں کی تعلیم دینے کا کیا ہے، اتنا اہتمام علم کی ضرورت کے حوالے سے کرنے میں ہم  ناکام ہی رہے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ضرورتوں کا علم دینے کے ساتھ ساتھ علم  کی ضرورت کو بھی سمجھیں اور اپنے نظامِ تعلیم میں ایسی تبدیلیاں لائیں جو ہماری آنے والی نسلوں کو سچ مچ علم سے آراستہ کرنے میں ممد و معاون ہوں۔
محض کسی ایک مذاکرے یا مباحثہ میں کیا گیا اعتراف نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے کیونکہ جو نظام علم کی بجائے محض ضرورتوں کی تعلیم دینے کا نظام بن چکا ہو و ہاں علم کی فرا وانی کی توقع کرنا تو ایسا ہی ہے جیسا کسی گھسیارے سے سونے کو کندن بنانے کی فرمائش کرنا۔
معاش اور معاشرت کی ضرورتیں، روٹی کمانا، شادی بیاہ، گھر بنانا اور گھر ہستی چلانا، بچوں کی دیکھ بھال اور اُن کی تعلیم و تربیت یہ سب اور ان سے جڑی دیگر بہت سی ضرورتیں ایسی ہیں جن کو احسن طور پر پورا کرنے کے لئے انسان کو متعلقہ باتوں کا بھر پور علم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ علم خالق کائنات کی ایک ایسی بیش بہا  عطا ہے جو ایک طرف انسان کو شعور ، آگہی اور عرفان سے آراستہ کرتا ہے اور دوسری طرف انسان کو اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے درکار وسائل پہ تصرف و اختیار عطا کرتا ہے بلکہ مزید وسائل پیدا کرنے کے قابل بھی بنا دیتا ہے۔ لیکن جب ہم خود کو محض ضرورتوں کی بابت علم حاصل کرنے تک محدود کر لیتے ہیں تو ہوتا یہ ہے کہ ہم ضرورتوں کو پورا کرنے والے وسائل پہ دسترس کھو بیٹھتے ہیں اور جب ضرورتوں کے لئے درکار وسائل ہماری دسترس میں نہیں آتے تو یہ صورتِ حال ہم میں بے بسی، مایوسی اور محرومی کا احساس پیدا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ اپنی ضرورتوں کے لئے درکار وسائل ہماری دسترس میں نہیں آتے تو یہ صورتِ حال ہم میں بے بسی، مایوسی اور محرومی کا احساس پیدا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ اپنی ضرورتوں کے لئے درکار وسائل پیدا کرنے کی اہلیت علم سے پیدا ہوتی اور ریاضت سے جِلا پاتی ہے۔ علم کے حصول کی ہدایت میں پنہاں حکمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے ضرورتوں کی تکمیل کے لئے درکار وسائل انسان کی پہنچ اور دسترس میں آسکتے ہیں۔
اپنی ضرورتوں کے لئے درکار وسائل تک نارسائی انسان میں ایک طرف تو محرومی اور یاسیت کا سبب بنتی ہے اور دوسری طرف اس کے اندر مسائل کو حل کرنے کی فطری صلاحیت بھی گہنا جاتی ہے۔ مسائل کو حل کرنے کی فطری صلاحیت کے مناسب استعمال میں نہ آنے سے ہوتا یہ ہے کہ انسان اپنی جلد بازی میں مسائل کے حل کے لئے آسان ، فوری اور مختصراً   ہیں اختیار کرنے کے چکر میں پڑ جاتا ہے۔ اور اپنی لاعلمی کے ہاتھوں ناجائز ، غیر اخلاقی اور غیر قانونی راہوں پہ چلنے کا  رحجان  پیدا ہونے لگتا ہے۔ تن آسانی اور سہل پسندی کو یوں تو سبھی بُرا مانتے اور جانتے ہیں لیکن وقت پڑنے پر کم ہی اس سے اجتناب کرنے کی طاقت اور ہمت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ اب یہ ہے وہ گھمبیر صورتِ حال جس سے آج ہمارا پورا معاشرہ دو چار ہے اور اس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ ہمیں سو جھائی نہیں دے رہی کیونکہ بے بسی، مایوسی اور لا چاری جہاں ایک طرف ذہنی انتشار اور پراگندگی کا سبب بنتی ہے وہاں دوسری طرف وہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی کردار سے بھی محروم کرنے کی بنیادی وجہ ہے۔
انفرادی یا قومی اور اجتماعی کردار انہی تمام باتوں کا عکس ہوا کرتا ہے جو ہم سیکھتے ہیں، جو ہم اپنا لیتے ہیں اور پھر اُن پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں اور وہ ہماری زندگی کے معمولات بن جاتی ہیں۔ ہم کسی بھی شخص کے کردار کا اندازہ اُس میں موجود اُن خصوصیات سے لگاتے ہیں جو اُس نے اپنے لئے پسند کرنے کے بعد اپنا لی ہوتی ہیں اور وہ ان پر عمل پیرا رہتا ہے۔ اگر کسی شخص نے اچھی ، مفید اور دوسروں کے کام آسکنے والی خصوصیات اپنا رکھی ہوں تو ہم اُس کو اچھے کردار کا حامل شخص گردانتے ہیں ورنہ بصورتِ دیگر اُس کو برے کردار کا مالک قرار دے دیتے ہیں۔ باالفاظ ِ دیگر انسانی کردار انسان کی آزمودہ علمیت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔
اس بحث سے قطع نظر کہ کسی انسان کی شخصیت اور کردار میں کیا فرق ہوتا ہے،اتنی سی بات واضح کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہر بچہ پیدائشی طور پر اپنی ایک انفرادی شخصیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کا کردار ان باتوں سے تشکیل پاتا ہے جو وہ حالات ، واقعات اور معاشرے اور ہر تہذیب میں یہ کوششیں بالعموم کی جاتی رہی  ہیں کہ دنیا میں آنے والے ہر بچے کو وہ باتیں سکھا دی جائیں جو اس کو ایک بہتر انسان بننے اور ایک کامیاب زندگی گزارنے میں مدد دے سکیں۔ اس سیکھنے سکھانے کا  آغاز ماں کی گود سے ہی ہو جاتا ہے اور جوں جوں بچہ بڑا ہوتا چلا جاتا ہے خاندان اور پھر معاشرے کے دیگر افراد اس کام میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر آخری  دین تک آنے والا مذہب اس سیکھنے سکھانے کے عمل کے الوہی ادارے ہی تو تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہر مذہب اور دین کی تعلیمات میں بالخصوص انسان کی شخصیت کی تعمیر و تنظیم اور کردار سازی پر بہت زیادہ  توجہ دینے کی ہدایات ملتی ہیں تا کہ  انسان اسفل سطح سے ابھر کر اُس شرف سے آراستہ ہو جائے جس کے سبب وہ مسجودِ ملائک اور اشرف المخلوقات قرار دیا جاتا ہے۔
اس سیکھنے سکھانے کے عمل نے کب ایک باقاعدہ اور منظم ادارے کی صورت اختیار کی اس کی بابت یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اتنا تو ضرور  طے ہے کہ جس دن بچے نے باپ سے شکار کرنے یا کسی درندے سے بچ کر بھاگنے کی بات پہلی بار سنی تھی، درس و تدریس کا آغاز ہو گیا تھا اور جب انسان نے بولی جانے والی آوازوں کو تحریر کی شکل میں ڈھالنے کا فن سیکھ لیا تو انسانی شعور کی گرفت میں آنے والا علم آنے والی نسلوں تک منتقل ہونا شروع ہو گیا تھا۔ غاروں کی دیواروں پر کندہ ہونے والے تصویری نقوش سے آغاز پانے والی تحریر، پتھر کی سلوں ، لکڑی اور دھات کی تختیوں سے ہوتی ہوئی چمڑے، کپڑے اور  پھر کاغذ پر منتقل ہو کر کمپیوٹر کی سکرین پر جھلملا نے لگی ہے۔ دنیا سمٹ کر ایک گلو بل  ولج بن گئی ہے۔ جہاں کبھی اطلاعات کی ترسیل ایک مسئلہ ہوا کرتی تھی وہاں آج کے فرد کو اطلاعاتی دھارے  ( Blast of Information ) کے سامنے جمے رہنا دو بھر ہو رہا ہے۔
آج ہم آگ کی دریافت ، پہیے کی ایجاد ، پتھر ، دھات اور کاغذ کے ادوار سے گزر کر سائبرایج  ( Cyber Age ) میں داخل ہو چکے ہیں۔ آگ کی دریافت سے لے کر سائبرایج تک کے اس تمام تر فاصلے کو انسان نے لگ بھگ  دس ہزار سال میں طے کیا ہے۔ اور یہاں تک  وہ اسی لئے پہنچا ہے کیونکہ اس کو آگے بڑھانے کے لئے اس کی سوچ اور فکر کو سنوارنے کے لئے درس و تدریس اور تعلّم و تعلیم کا ایک نظام کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ یہ بات بھی ہمارے علم میں ہے کہ انسانی شعور میں جو وسعت گذشتہ پانچ چھ دہائیوں میں آئی  ہے، اور جتنا فروغ علم کو گذشتہ نصف صدی کے دوران ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں جتنی ایجادات ہوئی ہیں، اس کو دیکھ کر کچھ یوں لگتا ہے گویا انسانی عقل و شعور نے ترقی کی طرف ایک بہت بڑی زقند لگائی ہے۔ آج پوری دنیا اس تیز رفتاری کے ساتھ دینے ، بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے اور دورِ  جدید کی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہونے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔
ان حالات میں جب ہم اپنے ملک میں رائج تعلیمی نظام کی بات کرتے ہیں تو اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں اصلاح کی گنجائش نہیں ہے یا یہ کہ اس نظام میں تبدیلیاں نہیں ہونی چاہیں۔ یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ اساتذہ ہوں یا والدین، طلباء ہوں یا معاشرے کا کوئی اور طبقہ، کوئی بھی موجودہ تعلیمی نظام کی صور حال سے مطمئن نہیں ہے۔  ہر ایک اس بات پہ متفق ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم فرسودہ اور ناقص ہے۔ یہ غیر معیاری ہے۔ آج کے دور کے تقاضوں اور فرد کی بدلتی ہوئی ضرورتوں کا ساتھ دینے کا اہل نہیں ہے۔
المیہ یہ نہیں ہے کہ آج ہمارے ملک میں درس و تدریس کو صنعت کا درجہ کیوں دے دیا گیا ہے۔ اصل المیہ تو یہ ہے کہ اس انڈسٹری کی مصنوعات غیر معیاری  اور تھرڈ کلاس کیوں ہیں۔ جب سب ہی طلباء ایک ہی قسم کی درسی کتب پڑھتے ہیں، ایک سا وقت بھی صرف کرتے ہیں اور بڑھ چڑھ کر فیسیں بھی دیتے ہیں تو پھر اتنی بھاری اکثریت سے فیل کیوں ہوتے ہیں اور جب ہر سال لاکھوں بچے جو فیل ہو جاتے ہیں ان کی ناکامی کا ذمہ کس کے سر جاتا ہے؟ جنہوں نے سالوں سال بچوں کے والدین سے فیسوں کے نام پر بھاری رقوم لی تھیں اور اس وعدے اور یقین دہانی پر لیں تھیں کہ وہ بچے کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کریں گے، کیا کبھی اُن سے کسی نے یہ باز پرس کی کہ وہ اپنے طلباء کو سبق یاد کرانے میں کیوں کامیاب نہیں ہوسکے؟ اور جو پاس ہو بھی جاتے ہیں تو ان میں اتنی کثیر تعداد تھرڈ  ڈویثرن  والوں کی کیوں ہوتی ہے یا جیسا کہ آج کل کہا جاتا ہے یہ ڈی اور ای گریڈ ہی اتنے زیادہ کیوں آتے ہیں؟ اور پھر کتنے افراد ایسے ہوتے ہیں جو اردو، عربی یا انگریزی میں ایم اے کریں اور انہیں اُس معیار کی اردو، عربی یا انگریزی بھی آتی ہو، جو کہ ایک ایم اے کی سند رکھنے والے کے شایانِ شان ہو؟ اک لساّنیات پر ہی کیا مؤقف ، ہر مضمون اور ہر شعبہء  تدریس کا کیا یہی عالم نہیں؟ طلباء درس گاہوں سے فارغ تو ہو جاتے ہیں لیکن نہ تو انہیں سوچنا آتا ہے، نہ سمجھنا۔ اور نہ ہی وہ کردار سے آراستہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی شخصیت کی دلاویزی میں کوئی اضافہ ہوا ہوتا ہے۔ یہ ہی نہیں بلکہ اکثریت تو آدابِ مجلس اور حفظ مراتب کے مفہوم تک سے بھی نا  آشنا ہی رہتی ہے ان پر عمل پیرا ہونا اور کار بند رہنا تو بہت دور کی بات ہے۔ Mannerism  اور  Etiquette   es کی بات کرنے والے کو تو نکو  بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔
اتنا ہی نہیں کہ جو ہونا چاہئے وہ نہیں ہو رہا بلکہ ستم تو یہ ہے کہ جو نہیں ہونا چاہئے وہ ہو رہا ہے۔  طلباء درس گاہوں اور تعلیمی اداروں سے فارغ ہوتے ہیں تو اُن میں تلاش اور جستجو، تحقیق اور دریافت کی خواہش سکڑ اور سمٹ کر لے دے کر محض ایک نوکری کی تلاش تک محدود ہو کر رہ چکی ہوتی ہے۔ طلبِ دنیا، حسبِ جاہ اور نمود و نمائش کی خواہش ایک آسیب بن کر چمٹی ہوئی ہوتی ہے۔ لالچ اور خود غرضی اُن  کے اندر اس قدر توانا  ہو چکی ہوتی ہے کہ ایثار اور قربانی کی باتیں اُنہیں فرسودہ اور فالتو  دِکھتی ہیں۔اپنی مطلب براری کے لئے غلط بیان اور جھوٹ کا سہارا لینا انہیں کوئی عیب ہی  محسوس نہیں ہوتا ۔ ان ہی سب باتوں کا تو یہ نتیجہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود اسمگلنگ، رشوت اور دیگر ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت بھی شرمندگی اور ندامت کی بجائے وجہ ء افتخار اور باعثِ رشک بن چکی ہے۔ اس دولت پرستی کے عام  ہونے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ اخلاقی قدریں ختم اور اعلیٰ صفاتِ کردار مفقود ہو چکی ہیں۔ ہم اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے سلسلے میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ جائز اور نا جائز کی تمیز ختم اور بحث عبث ہو کر رہ گئی ہے۔

اس تمام تر تمہید کا مقصد یہ امر واضح کرنا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام چند ایسے  نقائص اور خامیوں کا حامل ہے جن کی اصلاح اب وقت کا تقاضا اور ضرورت ہی نہیں بلکہ ایک امر نا گزیر ہے۔ 

Featured Post

Adiala Jail's monitoring is strict, meetings are limited, 3 members of the party will be allowed to meet Pakistan Tehreek-e-Insaf founder Imran Khan, Naeem Panjotha, Khalid Shafiq and Naseeruddin Nair.

Adiala Jail's monitoring is strict, meetings are limited, 3 members of the party will be allowed to meet Pakistan Tehreek-e-Insaf founde...