کل آج اور کل
کل
آج اور کل
نوع
انسانی کی ابتداء اور آغاز کی بابت بنیادی طور پر دو قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں ۔
ایک انسان کی اپنی کاوشِ فکر کے تحت بننے والا نظریہ اور دوسرا الہامی طور پر
سامنے آنے والا نظریہ ، یا یوں کہ لیجئے
کہ ایک نظریہ فلاسفہ اور حکماء کا وضع کردہ ہے اور دوسرا انبیاء کا ظاہرہ کردہ ۔ فلاسفہ
اور حکماء کے وضع کردہ نظرئے مظاہر کو اولیت دینے اور قیاس کے زور پر قائم کردہ
مفروضات کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں اور وحی اور الہام کی طرزوں پر حقیقت کی
جستجو پر اصرار کرتے ہیں۔ اُن کی فکر خالقِ کائنات کی سوچ، رضا اور مشیّت کو سمجھنے کی خوگر
ہوتی ہے۔ وہ مظاہر کی اصل اور کُنہ تک رسائی میں کامیاب بھی رہتے ہیں کیونکہ خالقِ
کائنات سے ربط اور تعلق کے سبب وہ اصل حقیقت سے آگاہ کئے گئے ہوتے ہیں۔
گروہِ
فلاسفہ کے نظریہ کی بنیاد یہ ہے کہ یہ کائنات ایک اتفاقی حادثے کے نتیجے میں وجود
میں آئی ہے اور اس میں ارتقاء کا عمل جاری و ساری ہے۔ اس سوچ کے تحت وہ سمجھتے
ہیں کہ انسان پانی میں حادثاتی طور پر بننے والے خلیہ کی ایک انتہائی ترقی یافتہ صورت ہے اور اس عملِ ارتقاء کی کڑیاں گنواتے ہوئے وہ یہ بتاتے ہیں کہ اول اول یک
خلیائی اور خوردبینی جاندار بنے جو کہ بعد میں کثیر خلیائی جانداروں کے لئے بنیاد
بنے اور یوں آبی مخلوقات کا ایک اژ دہام وجود میں آگیا۔ پھر آبی مخلوقات میں سے
کچھ خشکی پر آنے لگے۔ یہاں سے خشکی پر زندگی کا آغاز ہوا پھر رینگنے والے
جانوروں کے پیر نکلے اور رفتہ رفتہ چو پائے وجود میں آگئے۔ ان چوپایوں میں سے کچھ نے دو پیروں پر چلنا سیکھ
لیا اور انسان ان دو پیروں پر چلنے والے جانوروں کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔
ان
حکماء اور فلاسفہ کے مطابق علم خارج میں موجود مظاہر کی ہیت ترکیبی سے واقفیت اور
روشناسی کا نام ہے، اس لئے وہ مادے اور مادی وسائل کو اتنی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
مادے اور مادی وسائل کو اتنی اہمیت دئیے
جانے کے سبب زندگی کے بہت سے رخ تشنہ رہ جاتے ہیں یا انکی مکمل تشریح نہیں ہو پاتی اور یہی وجہ ہے
کہ حکماء کا پیش کردہ ہر نظریہ کسی نہ کسی مقام پر ادھورا، ناقص اور خام محسوس
ہوتا ہے اور بہت سے سوال تشنہ رہ جاتے ہیں
اور اگر کچھ سوالوں کے جواب دینے میں وہ کامیاب ہو بھی جائیں تو وہ کسی نہ کسی
دوسرے نظریے سے متصادم ہو رہے ہوتے ہیں۔
یہی سبب ہے کہ آج کے دور کا آئن سٹائن، مشہور فلاسفر اور ریاضی دان ، سٹیفن
ہاکنگ بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوا ہے
کہ ابھی بہت کچھ ہماری دسترس سے باہر ہے اور ہمیں ابھی بہت کچھ دریافت کرنا باقی
ہے، بہت سے سوال ایسے ہیں جن کے جواب ہمارے معلوم علوم کی روشنی میں نہیں دئیے جاسکتے۔
انبیاء
کی تعلیمات کے مطابق ایک انتہائی برتر، اعلیٰ اور لامحدود شور کی حامل ذات نے ایک
ارفع اور اعلیٰ مقصد کے حصول کے لئے کائنات کو تخلیق کیا۔ اس کائنات میں لاشمار مخلوقات
کو پیدا کیا، اُن چھانے کا انتظام کی، حیات و ممات کا سلسلہ قائم کیا، اس کو
برقرار رکھنے کے وسائل تخلیق کئے اور پھر انسان کو تخلیق کیا، اس کو علم سے
آراستہ کیا تکہ و خالقِ کائنات کے مقرر کردہ مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہے۔ علم
و آگہی سے سرفراز اس تخلیق کو خالقِ ارض و سما نے اپنی نیابت کے اعزاز سے شرف
کرتے ہوئے اس کو اشرف المخلوقات اور احسنِ تقویم قرار دیا۔
انبیاء
کے مطابق نہ تو یہ کائنات کسی حادثے کا نتیجہ ہے اور نہ ہی انسان کسی مفروضہ ارتقاء
کا ما حاصل۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انسانی شعور کا ارتقاء کی منازل طے کرنے کا پا بند
ہے اور شعور کا ارتقاء اس لئے ضروری ہے کہ انسان خالقِ کائنات کی مرضی اور مشیّت
سے پوری طرح درجہ بدرجہ آگاہ اور روشناس ہو سکے تاکہ نیابت ِ الٰہیہ کے فرائض کی
ادائیگی میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ انسان اور اس کائنات کے تمام مظاہر ایک الوہی
منصوبے کے تحت وجود میں لائے گئے ہیں اور انسان پہ یہ امر لازم کر دیا گیا ہے کہ
وہ اُس منصوبے کو سمجھے اور اُسی کے مطابق عمل کرے۔ اس سمجھ اور آگہی کے لئے اُس
کو غور و فکر کی صلاحیتوں سے آراستہ کرنے کے بعد اُس کو یہ اختیار بھی دے دیا کہ
اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرے یا نہ کرے، مثبت طرزوں میں استعمال کرے یا منفی
طرزوں میں ، تعمیری سوچ کو اپنا کر کام کرے یا تخریبی کاموں کو کرے۔ انبیاء نے
انسان کے ان دونوں قسم کے اعمال کے نتائج کو خوشی، اطمینان، سکون اور راحت اور غم،
پریشانی، بے سکونی اور تکلیف کی دو کیفیتوں کے حوالے سے واضح کرنے کو جنت اور دوزخ
کی دو اصطلاحات کا استعمال کرکے انسان کو یہ رغبت دائی کہ وہ ودیعت کر دہ صلاحیتوں
کو مثبت انداز میں تعمیری کاموں پر صرف کرے۔
انبیاء
کی تعلیمات کے مطابق یہ کائنات اور اس کے مظاہر دورخوں پر تخلیق کئے گئے ہیں۔وہ ان
دورخوں کو روح اور مادہ ، باطن اور ظاہر ، جسم و جاں جیسے ناموں سے متعارف کراتے
ہیں۔ انبیاء کے علوم کے تحت انسان دنیا کے ہر دو، باطنی اور خارجی پہلوں سے واقف
اور آگاہ ہو سکتا ہے۔اس لئے اس کا علم زیادہ بہتر اور مکمل ہوسکتا ہے۔ پیغمبرانہ
تعلیمات کے مطابق باطنی علوم ہی خارجی علوم کی بنیاد ہیں کیونکہ ہر مظہر کی کوئی
نہ کوئی بنیاد ضرور ہوتی ہے۔اس لئے ان کے نزدیک خارجی علوم پہ ہی انحصار کرنا کافی
نہیں۔ باطنی علوم کے ساتھ ساتھ خارجی علوم پہ دسترس رکھنا بھی ضروری ہے یعنی انسان
کے لئے لازم ہے کہ وہ کائنات اور اس میں رواں دواں زندگی کے باطنی اور خارجی ہر دو
پہلوں سے آگاہ اور واقف ہو۔
ہر نبی
اور پیغمبر کے پیروکار اور شاگرد وہی لوگ ہوا کرتے تھے جو اُ ن سے براہِ راست علم سیکھنے کے خواہش
مند ہوا کرتے تھے وہ اپنے نبی کی تعلیمات سے نہ صرف خود مستفیض ہوتے تھے بلکہ ان
سے سیکھے ہوئے علوم کو دوسروں تک پہنچانے کی تگ و دو بھی کرتے تھے۔ با الفاظِ دیگر انبیاء نے ہی اول اول درس و تدریس
کا نظام قائم کرکے شورِ انسانی کی تربیت کا اہتمام کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ درس
و تدریس کو پیغمبرانہ کام کہا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ انبیاء یہ سب کیوں کرتے تھے۔
تو اس کا واحد جواب تو یہی بنتا ہے کہ یہ فریضہ اللہ تعالیٰ ان کے ذمے گاتے تھے کہ
وہ شعورِ انسانی کی راہنمائی کریں اور لوگوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ نہ صرف اس
دنیا بلکہ مرنے کے بعد کی زندگی بھی کامیابی سے بسر کر سکیں۔ انبیاء کے تربیت
یافتہ لوگ ان سے حاصل کی گئی تعلیمات کو پھیلانے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کے
کام کو اپنا مشن بنا لیتے تھے اور اس کی تبلیغ اور اشاعت میں کوشاں رہتے تھے۔
چالاک
حکمران اور وقتی مفاد کو پیشِ نظر رکھنے والے لوگ جب یہ دیکھتے کہ لوگوں کی ایک
کثیر تعداد انبیاء کی تعلیمات کے زیرِ اثر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی ہے اور انہیں یہ خطرہ محسوس ہوتا کہ لوگوں کے
باشعور ہونے کے بعد وہ انہیں اپنی گرفت میں نہیں رکھ سکیں گے تو وہ انبیاء کی
پھیلتی تعلیمات میں بڑی ہوشیاری ، چالاکی اور طاقت سے اس طرح کا بگاڑ کی نشاندہی
کی کوشش کرتا بھی تو عوام کی اندھی عقیدت کا سہارا لے کر الٹا اُس بگاڑ کی نشاندہی
کرنے والے کو ہی معتوب قرار دیتے ہوئے،
اپنی طاقت کے بل بوتے پر اُس کو مٹا کر رکھ دیا جاتا۔ زیادہ چالاک اور ہوشیار حاکم
تو انبیاء کو ہی ٹھکانے لگانے میں عافیت محسوس کیا کرتے تھے۔
اس
بگاڑ کی سب سے عام صورت تو یہی رہی ہے کہ اس نبی یا اوتار کو خدا کا اتنا قریبی
بنا دیا جاتا کہ لوگ خدا کو چھوڑ کر اسی
نبی یا اوتار کا ہی بت پوجنا شروع کر دیتے۔ مصری، ہندو، یونانی اور رومن تہذیبوں
میں دیوی دیوتا ایسے ہی بگاڑوں کی پیداوار تھے۔ چالاک پروہت، پنڈت ، پادری اور
معبدوں کے متولّی حکمرانوں کے ساتھ مل کر
انہی دیوی دیوتاؤں کی دکانیں سجاتے اور عوام کو مذہبی رسومات کے نام پر بے وقوف
بنا کر لوٹا کرتے۔
خواہش
اقتدار کے ہاتھوں مغلوب لوگ بھلا اس بات کو کیسے گوارا کرسکے تھے کہ انبیاء کا دیا
ہوا نظامِ درس و تدریس قائم ہوا اور لوگ حکمرانوں اور کے گماشتوں کے گھڑے اور
پھیلائے ہوئے تو ہمات کے بندھنوں سے آزاد
ہو کر عقل و شعور سے آراستہ ہونے کے بعد
اس قابل ہو جائیں کہ حکمرانوں کو ان کے فرائض یاد دلا سکیں اور مذہبی اجارہ داروں
کی چالاکیاں بھانپ سکیں۔ اگر لوگ سوچنا اور سمجھنا سیکھ جاتے تو ظاہر ہے کہ وہ یہ
سب کچھ بھانپ لینے کے بعد بھلا اُن کے قابو کیوں آتے۔ لہٰذہ ظاہریت کے دلدادہ
حکماء اور مادیت کے عشق میں گرفتار فلاسفہ کی سرپرستی کی جاتی تاکہ اگر کہیں کوئی
مچھلی ان کے دام سے بچ کر نکل بھی جائے تو اس جال سے نہ بچ سکے۔
اگر
کبھی کوئی بادشاہ اپنی فطری نیک طبعی کے سبب عوام کچھ بھلا کرنے کی سوچتا بھی تو
اس کے گرد جمع مفاد پرست امیر و وزیر چند سطحی قسم کے اقدامات سے اس کو مطمئن کر
دیا کتے۔ بدھانے اسی لئے تو گھر بار چھوڑ
ا تھا، کیونکہ اس نے یہ بھانپ لیا تھا کہ
ان مفاد پرست وگوں کے نرغے میں رہتے ہوئے وہ اپنے عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکے گا۔اس
نے بادشاہت کو لات ماری ، خود کو آگہی سے آراستہ کیا اور لوگوں کو یہ درس دینے
بیٹھ گیا کہ انہیں خود اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرکے، انہیں استعمال کرکے، اپنی
دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو دریافت کرنے، انہیں
سنوارنے اور انہیں اپنے اور دوسروں کے کام لانے کا گُر اس نے یہ بتایا کہ اپنے
اندر کی دنیا میں اتر نا سیکھ لو۔ اُس کی تعلیمات کا جو حشر ہوا ہے وہ آج سب کے
سامنے ہے۔ وہ جس نے اپنے لئے نہیں بلکہ حکمرانوں اور انکے مفاد پرست گروہ کے
ہاتھوں پسے ہوئے عوام ی بہتری اور بھلائی
کی خاطر گھر بار چھوڑا، عیش و آرام کی زندگی قربان کی خود اُسی کو ترکِ دنیا اور رہبانیت کی سب سے بڑی مثال بنا کر رکھ
دیا گیا۔ وہ جس نے انسانوں کو یہ درس دیا تھا کہ ہر بت سے گزر کر ایک بر تر شعور
تک رسائی حاصل کرکے خود اپنے اندر مستور صلاحیتوں کو دریافت کریں اور انہیں
استعمال کریں، ستم ظریفوں نے خود اسی کے اتنے بت بنا کر پوجے کہ اس کی کوئی نظیر
تاریخ میں نہیں ملتی۔
اگر
چہ قبل مسیح کی تاریخ پر بہت سے پردے پڑے ہوئے ہیں لیکن الہامی کتب میں مندرج
قوموں کے عروج و زوال کے واقعات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خواہش ِ اقتدار،
حُبِ جاہ اور دولت پرستی نے شعورِ انسانی کی راہوں میں ہمیشہ کانٹے بوئے ہیں اور
اس کو سیدھی راہ سے بہکانے کی بھر پور جدوجہد کی ہے۔ اس بات کے ثبوت کو اتنی سی
بات ہ غور کرنا ہی کافی ہوگا کہ ہر مذہب میں بگاڑ کب پیدا ہوتا رہا ہے؟ جب بھی لوگوں
کی ایک قابلِ ذکر تعداد کسی مذہب کی حقانیت سے متاثر ہوتی تو چالاک اور مفاد پرست
لوگ اُس اجتماع میں شامل ہو جاتے اور اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے اثر و نفوذ پیدا کرنے کے بعد اس اجتماع کی سرداری حاصل
کر لیتے ہیں۔ شروع شروع میں وہ اس مذہب کی خیر خواہی بھی
چاہتے ہیں اور اس کی تعلیمات پر عمل بھی کرتے ہیں لیکن ان کے اندراس مذہب کی
تعلیمات کی پوری آگاہی نہ ہونے اور اس کی اصل روح سے نا واقفیت آڑے آتی ہے اور
وہ اپنی نفسانی خواہشوں کے زیرِ اثر دور اندیشی سے ہٹ جاتے ہیں اور وقتی اور عارضی
فوائد کے حصول کے لئے کو شاں ہو جاتے ہیں۔ یہاں وہ اپنے مذہب کی تعلیمات کی اصل
روح سے دور ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ محض اُن کی بے راہ
روی کا نتیجہ ہوتا ہے۔
اگر
ہم انبیاء کی تعلیمات کا علمی انداز میں تجزیہ کریں تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ
ہر پیغمبر اور نبی اُ ن علوم میں یکتا ہوا کرتا تھا جو اُن کے اس دور میں عام ہو
کرتے تھے جب ان کو بعثت سے سرفراز کیا جاتا تھا۔ وہ اس علم کا اظہار اس لئے کیا
کرتے تھے کہ لوگوں کو اس امر کی طرف متوجہ کر سکیں کہ اُ ن لوگوں کا علم محدود اور
مادے کی بیساکھیوں کا محتاج ہے جبکہ وہ اُن کو علم کی اُس سطح سے روشناس کروانا
چاہتے ہیں جہاں سے ایک لامحدود علم اُن کو مل سکتا ہے اور وہ مادے کی بیساکھیوں کے
محتاج بھی نہیں رہیں گے۔ لیکن ہوتا کیا رہا ہے؟ حضرت موسیؑ کے دور میں سحر، جادو،
طلسمات اور ٹونے ٹوٹکوں کا بہت رواج تھا۔اس علم کے حامل افراد کو شاہی درباروں میں
نہ صرف رسائی حاصل ہوا کرتی تھی بلکہ ان کو عزت و تکریم سے بھی نواز ا جاتا تھا۔
حضرت موسیؑ نے اللہ کے رحم پر جب اپنی عصاء جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کے
سامنے ڈالا اور اُس عصاء نے ایک اژدھے کا روپ دھار کر اُ س سانپوں کو نگل لیا تو
وہ جادوگر اس بات کو فوراً سمجھ گئے کہ موسیٰ کا علم اُن کے علم سے بر تر اور اعلیٰ
ہے۔ فرعون اس بات کو سمجھنا نہیں چاہتا تھا اور اگر وہ سمجھ بھی گیا تھا تو اُس نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے کتنے پیروکاروں نے حضت موسیٰ سے وہ علم
سیکھا اور اس کو آزمایا۔ کم از کم تاریخ میں ایسے کسی شخص کا کوئی نام کہیں بھی
مذکور نہیں۔
اسی
طرح حضرت صالحؑ کے دور میں سنگ تراشی کا فن اپنے عرو ج پر تھا۔ایک سے بڑھ کر ایک
سنگ تراش تھا۔ وہ پتھر سے جو بھی تراشتے ایسا تراشتے کہ حقیقت کا گمان ہوتا۔ اللہ
نے حضرت صالحؑ سے اہلِ مدائن کو انہی کے فن میں مات دینے کو اس معجزے سے نوازا
کہ انہوں نے چٹان میں سے ایک ایسی اونٹنی
تراش کر سامنے لاکھڑی کی جو زندگی سے اس قدر بھری ہوئی تھی کہ اس نے وہاں موجود
لوگوں کے سامنے بچے کو جنم دے کر ان کی آنکھیں کھول دیں۔ لیکن اس کے بعد کتنے
لوگوں کے بارے میں یہ بات کہی جاسکی ہے کہ انہوں نے حضرت صالحؑ سے کسب فیض کر کے
اونٹنی نہ سہی، کسی پتھر سے ایک چوہیا ہی پیدا کرکے دکھائی ہو۔
بالکل
اسی طرح حضرت عیسیٰؑ کے عہد میں حکمت اور
علاج معالجے کا بہت چرچا ہوا کرتا تھا۔
حضرت عیسیٰؑ نے اپنی قوم کو محض یہ سمجھا نے کے لئے کہ علاج معالجے کے فن
کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ کوڑھ ، برص اور پیدائشی اندھے پن جیسے لا علاج امراض تو
ہے ایک رف موت کا بھی علاج ممکن ہے اور وہ بھی محض ایک زیر لب جنبشِ زبان سے لیکن اس سے ہوا کیا؟ آج دنیا میں ایک ارب سے
زائد لوگو ں کو اُنؑ کی پیروی کا دعویٰ ہے لیکن اُن کے حواریوں سے لے کر آج کے پوپ اور
بشپ اعظم تک کتنے عیسائی ایسے ملتے ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰؑ ؑ کے طریقہ علاج کو
برتنا تو دور کی بات ہے سمجھ کر ہی دیا ہو۔ ہاں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے ہ علاج
معالجے کے حوالے سے اپنے نبی کی سنت کے احترام میں انہوں طب و جراحت کو بہت ترقی
دی۔ لیکن کیا حضرت عیسیٰؑ ؑ نے طب و جراحت
کا فن ہی بطور معجزہ پیش کیا تھا یا اُن سے پہلے بھی یہ رائج رہا تھا، اس بات کو
سوچنے کی فہرست مادی طرزوں کا حامل شعور کب دے گا؟
ہو
سکتا ہے کہ انبیاء کے پیروکاروں اور ماننے والوں نے ان سے درخواست کی بھی ہو کہ
آپ ہمیں اس خاص علم کی تعلیم دیں اور جب انبیاء نے اُن کو یہ بتایا ہو کہ اس علم
کے حصول کی اولین شرط یہ ہے کہ وہ اُن کو پہلے تزکیہ نفس کے مراحل سے گزاریں گے
تاکہ اس بات کا اطمینان رہے کہ وہ اتنے ارفع اور اعلیٰ علم کو سفلی قاصد کے لئے
استعمال نہیں کریں گے اور اس کے لئے وہ کردار سازی اور تنظیم شخصیت کے اسباق
پڑھانے لگے ہوں گے اور جب کوئی شاگرد تزکیہ نفس کے اُ س معیار پر پورا نہیں اتر تا
ہوگا تو ظاہر ہے کہ وہ علم بھی اُ س کو
سکھایا نہیں جاتا ہوگا۔ اور جو لوگ تزکیہ نفس کے مراحل سے گزر جاتے ہوں گے وہ
انبیاء کے اُن خاص علوم سے بہرہ مند بھی کر دئیے جاتے ہوں گے اور ان پر یہ قد غن
بھی عائد کر دی جاتی ہوگی کہ وہ ان علوم کو ہر کس و نا کس کو تعلیم کریں گے بلکہ
اپنے شاگردوں کے شعور کی سکت اور ان کے میلان طبعیت کو جانچ لینے کے بعد ہی وہ اُ
کو اُن خاص علوم کی تعلیم دیں گے ۔ بعد میں اگر کسی نے اُن کو اُن کے خصوصی علوم کی باب کریدا بھی ہوگا تو اُن علوم کے حامل افراد، اُن علوم کے نہ جاننے والوں
کو یہ کہ کر بہلا دیتے ہوں گے کہ یہ تو ایک معجزہ تھا اور معجزے تو صرف انبیاء سے
ہی صادر ہوا کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر علم کے الوہی اداروں سے کسب فیض میں کوتاہی کی
وجہ انسان کی تن آسانی ، سہل پسندی اور مفاد پرستی کے علاوہ اور کچھ نہیں، کیونکہ
اتنا تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ ایک علم ایسا
بھی ہے جس کو علم سینہ کہا جاتا ہے اور اس علم کو جاننے والے اپنے خاص اور
چنیدہ شاگردوں کو ہی تعلیم کیا کرتے ہیں۔
نبی آخرالزمان حضورﷺ کی دیگر انبیاء پہ فضیلت کو
ثابت کرنے کے لئے تو یہ واحد دلیل بھی بہت ہے کہ انہوں نے اپنی تعلیمات کو اپنی
امت کے ہر ہر فرد تک پہنچانے کا ایک ایسا رفیع الشان انتظام قائم فرما دیا کہ آج چودہ صدیاں
گزرنے کے بعد بھی انﷺ کی تعلیمات کا اصل تن بغیر کسی تحریف و ترمیم ہر
ہر فرد کے استفادے کے لئے دستیاب ہے۔ ہم نے اس سے کتنا استفادہ کیا ہے،اس کا ذکر
کرنے کا نہ یہ محل ہے اور نہ ہی موقع۔
حضور
نبی کریم ﷺ نے اپنی بعثت سے پہلے نبوت کی ذمہ داریوں سے عہدہ پر آہونے کے لئے
اللہ تعالیٰ سے براہِ راست تربیت پائی۔ یتیمی ، یسیری اور دوسروں کا دست نگر ہونا،
بکریاں چانا، امین اور صادق رہنا ، تجارت کرنا، متموّل ہونا، غارِ حرا میں قیام کے
دوران ریاضت، مراقبہ کرنا اور روزے رکھنا، یہ سب اللہ کی طرف سے حضورﷺ کی ذہنی اور
روحانی تربیت کے انتظام ہی کا ایک حصہ تھا۔ ایک حضورﷺ پر ہی کیا موقوف، اللہ تو ہر
فر کی تربیت کا انتظام فرماتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ رسولوں ، پیغمبروں اور انبیاء کی تربیت کا اہتمام کچھ زیادہ ہی
خصوصی ہوا کرتا ہے کیونکہ انہوں نے دوسروں کی راہنمائی اور راہبری کا فریضہ بھی
سرانجام دینا ہوتا ہے۔ یہ انکی اس خصوصیت راہبیت ہی کا اعجاز ہوتا ہے کہ وہ اپنے
جیسے دوسرے لوگوں کی بھلائی اور بہتی میں اس درجہ مخلص ہو جاتے ہیں کہ اپنی جانیں
تک وار دیتے ہیں اور اس فریضہ کی ادائیگی میں بڑی سے بڑی تکلیف اور آزمائش سے بھی
نہیں گھبراتے اور اُسے خندہ پیشانی سے جھیل جاتے ہیں۔
حضرت
یوسفؑ کا ماں باپ سے بچھڑنا ، بھائیوں کے
ہاتھوں کنویں میں گرایا جانا، بازار ِ مصر میں فروخت ہونا، زلیخا کا انہیں اپنی
طرف مائل کرنا اور کوشش میں ناکام ہوکر عزیز مصر سے انہیں گرفتار کروانا، ان کا سالوں جیل میں رہنا، حضرت موسیٰؑ کا دریا میں
بہایا جانا، فرعون کے محل میں پرورش ہونا، وہاں سے نکل کر کوہ طور پر چالیس دن اور
رات کا قیام کرنا، حضرت عیسیٰؑ کا جنگلوں اور بیابانوں میں آزمایا جانا یہ سب
انبیاء کو پیغمبری اور نبوت سے سرفراز کرنے سے پہلے ان کی تربیت کا حصہ ہی تو تھے۔
حضور
نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ کی تعلیم و تربیت کا جو پروگرام وضع کیا تھا اس کا جائزہ
لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُ ن کا پروگرام تین بنیادی مقاصد کا حامل تھا۔
1.
پہلا یہ کہ لوگوں میں غور و فکر کا ایک ایسا پیٹرن پیدا کر دیا
جائے جو انہیں اپنے اندر موجود صلاحیتوں سے اس طرح سے روشناس کروا دے کہ وہ اپنے
مسائل سے اپنی خدا داد صلاحیتوں کا بھر ور استعمال کرتے ہوئے، اپنے مسائل اور فرائض سے بخوبی عہدہ برآ
ہوتے ہوئے ایک پر مسرت ، مطمئن اور خشحال زندگی گزار سکیں۔ اس سے آپ ﷺ نے فرد کی
انفرادی زندگی میں بہتری کی بنیاد فراہم فرمائی۔
2.
دوسرا یہ کہ اپنے ماننے والوں میں ایک ایسا جاندار کردار
پیدا کر دیا جائے کہ غلط کو غلط اور درست و درست کہنے میں کوئی امر اُن کے مانع نہ
آسکے۔ اس سے آپ ﷺ نے فرد کو معاشرے کی ایک بہترین اکائی بننے کا درس دیا۔
3.
اور تیسرا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے قلب و نظر کا ایسا تزکیہ
کر دیا جائے کہ وہ ہر معاملے میں مکمل غیر جانبداری برتنے کے عادی ہو جائیں۔ کسی
بھی معاملے میں نہ کوئی تعصب آڑے آسکے اور نہ ہی کوئی ذاتی پسند یا مفاد اُن کی
رائے پر اثر انداز ہوسکے۔ اس سے آپ ﷺ نے فرد کے لئے پوری کائناتی برادری کا ایک
فعال کن بننے کی راہ ہموار فرمائی۔
ان
مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے جو اقدامات اٹھائے اُن تمام کی تفصیل سیت نبوی کی کتب کے مطالعے
سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ اجمالی طور پر اگر ہم اُنؑ کی تعلیمات
کا جائزہ لیں تو انہوںؐ نے جہاں ایک طرف
زبانی ہدایات جاری فرمائیں، وہاں دوسری برف وہی
کام خود بھی کرکے بھی دکھائے تاکہ عملی مثال دستیاب رہے۔ آپ ﷺ کی دی گئی
تمام ہدایات آج بھی قرآن کی صورت میں
ہمارے پاس موجود ہیں۔ اور ان ہدایات پہ جس طرح آپﷺ نے خود عمل فرمایا وہ سنتِ
رسول کے طور پر ہم تک پہنچا ہے۔
قرآن
میں ایک برف اللہ سے تعلق قائم کرنے کی بابت حکم دیا جاتا ہے تو دوسری جانب ا کے ساتھ ہی بندوں سے تعلق استوار
رکھنے کی بات بھی ارشاد فرمائی جاتی ہے۔ اللہ سے ربط پیدا کرنے کا یہ طریقہ تعلیم
کیا جاتا ہے کہ اللہ کی نشانیوں پہ غور کیا جائے اور فکر کو اس کی ضاعی اور
کاریگری کو سمجھنے میں لگائے رکھا جائے۔ بندوں سے تعلق استوار کرنے کو ہدایت کی
جاتی ہے اور اس کا عملی طریقہ یہ بتایا جاتا ہے کہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں وہ آپ
کو عزیز ہوتا چلا جاتا ہے۔ قرآن ایک طرف آدمی کو اپنے انفس سے روشناس کرواتا ہے
تو دوسری طرف اس کو آفاق کی تسخیر کا اہل بنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔
حضور
نبی کریم ﷺ نے یہ بات شرح وبسط سے واضح کی کہ اللہ نے انسان کو تمام کائنات کی
بابت علوم سے نوازا اور اُن تمام علوم کو
خود انسان کے اپنے اندر ذخیرہ کر دیا۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے باطن
میں اُتر کر ان علوم سے استفادہ کرتا ہے یا نہیں۔ یہ بات ہم سب ہی جاتے ہیں کہ
حضورﷺ کا ایک لقب امّی یعنی ناخواندہ ہونا بھی ہے۔ اس بات پہ غور کیا جائے تو
معلوم ہوتا ہے کہ محض دنیاوی علوم جاننے والا کوئی بندہ باطنی علوم سے واقف نہیں
ہوسکتا لیکن باطنی علوم کا حامل انسان دنیاوی علوم کی اصل حقیقت اور کنہ سے بھی
واقف ہوتا ہے۔
حضورﷺ
کا وضع کردہ نظامِ علیم ، معاشرت اور دنیاوی زندگی کی تعلیم دے کر، انسانی شعور کو
ظاہر ی علوم سے آراستہ کرکے، اس مادی زندگی کے تقاضوں سے بحسن و خوبی عہدہ برآ ہونے
کے قابل تو بنا تا ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ انسان کی باطنی تربت کا ایسا اہتمام بھی
کرتا ہے جس سے انسان اپنے لاشعور سے واقف اور آگاہ ہونے کے علاوہ ان علوم تک بھی رسائی حاصل
کرسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے لاشعور میں ذخیرہ کئے ہوئے ہیں۔ ان ہی علوم کو باطنی
اور روحانی علوم کہ کر ان کو بھی انسان کی دسترس سے باہر مانا جاتا رہا ہے۔
اصحاب
صُفہ وہ جلیل القدر صحابہ کرامؓ تھے جن کو
حضورﷺ نے باطنی علوم کی تعلیم کے لئے منتخب کیا تھا۔ حضورﷺ کے نظامِ درس و تدریس
کے گویا دو حصے تھے۔ ایک وہ جو مجد نبوی میں ہر خاص و عام کے لئے جاری تھا اور
دوسرا صُفہ جہاں منتخب صحابہ کرامؓ کو مختلف تربیتی مشقیں کروائی جاتی تھیں تاکہ
ان کا ایسا تزکیہ ہو جائے کہ وہ باطنی علوم سے سرفراز ہو سکیں۔ با الفاظِ دیگر
صُفہ صحیح معنوں میں پہلی روحانی یونیورسٹی تھی۔ ا صحابِ صُفہ نے ہی حضورﷺ سے
سیکھے ہوئے علوم کو ، ان علوم کی اصل روح کے ساتھ، آگے پھیلانے کا مشن پورا کیا۔
اسلام میں خانقاہی نظام یعنی روحانی ساسل درحقیقت وہ تدریسی ادارے ہیں، جہاں سے
ایسے صاحب کردار اور عالم با عمل لوگ
تربیت پاتے رہے جن کو کبھی کوئی بادشاہ یا سلطان نہ تو خرید سکا اور نہ ہی جھکا
سکا۔ یہی سبب تھا کہ اولیاء اللہ سے بادشاہوں اور سلاطین کی کم ہی بنی۔
باطنی
علوم ، رُشد و ہدایت اور اسلامی علوم کی
تعلیم کے لیے شروع میں مساجد کو ہی مدارس
کے طور پر استعمال یا جاتا ہا لیکن جب
سلاطین اور امراء نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مساجد پر اپنا کنٹرول اور اثر
رسوخ بڑھا کر انہیں اپنے تسلط میں لے لیا
اور علمائے باطن کو ستانا شروع کیا تو انہوں نے خانقاہوں میں پناہ لی اور وہاں پہ باطنی علوم کی درس تدریس
کا آغاز کر دیا۔ اس نسبت سے ہی اُن کے جاری کردہ نظامِ تربیت کو خانقاہی نظام کہا
جاتا رہا ہے۔مذہب اسلام کی اشاعت میں اپنے اپنے طور پر دینی مدارس اور خانقاہوں، ہر دو نے اپنا اپنا
بھر پور کردار ادا کیا۔ سلاطین اور بادشاہ اسلام کی اشاعت میں اپنے اندازِ فکر کے
مطابق دلچسپی لیتے تھے اور مدارس قائم کرتے تھے اور علمائے باطن اپنے اندازِ فکر
کے مطابق دلچسپی لیتے تھے اور مدارس قائم
کرتے تھے اور علمائے باطن اپنے اندازِ فکر کے مطابق تبلیغ اور اشاعت دین کا کام
کرتے رہے۔ خانقاہی نظام سے وابستہ افراد خدمتِ
خلق کرکے کاموں پر اصرار کرتے اور عوام اُن کی طرف ملتفت ہو جاتی۔ بادشاہ اور
سلاطین بلکہ اُن کے خواری اور درباری کے اس بات کو کہاں برداشت کرسکتے تھے نتیجے
میں سلاطین یہ باور کرنے کے بعد کہ یہ لوگ اُن کے لئے خطرہ ہیں ، اُن کے خلاف
اُلٹے سیدھے احکامات جاری کردیتے۔ علمائے باطن اپنی اعلیٰ ظرفی، وسعتِ علم اور بے
لوثی کے سبب عموماً صبر اور برداشت کی راہ اپنا تے رہے۔
اسلام
کی روشنی برصغیر میں محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کے ساتھ آئی اور حضرت داتا گنج
بخش علی ہجویریؒ جیسے عالی مقام صوفیاء کرام کی کوششوں سے جِلا پاتی چلی گئی۔سلطان
محمود غزنوی کے بعد بابر کے مغلیہ خاندان کی حکومت کی بنیاد رکھنے اور پھر مغلیہ
سلطنت کے زوال اور انگریزوں کی حکومت بننے تک ، بر صغیر میں لگ بھگ ایک ہزار سال
تک مسلمانوں کی عملداری رہی ۔ اس دور میں دو مختلف ، قدیم اور جدید تہذیبیں ایک
دوسرے کو متاثر کرتی اور ہوتی رہیں۔ ہندو مذہب کے تحت قائم معاشرے کی تاریخ کا
عرصہ یوں تو سات آٹھ ہزار سال پرانی مانی جاتی ہیں۔ اتنی پرانی تہذیب کے تانے اور
بانے میں جو پیچیدگیاں اور خامیاں پیدا ہو
چکی تھیں ان کے سبب اسلام کی نئی تہذیب اور تمدن کو یہاں جڑ پکڑنے کا موقع ملا۔
صوفیاء کرام نے انسانی فطرت کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی تعلیمات کو انہی کے رنگ
اور ڈھنگ میں ڈھال کر پیش کیا۔ پر ساد اور بھکشا کے مقابل لنگر اور خیرات ، بھجن
اور کیرتن کے مقابل قوالی اور سماع کی محافل اسی سلسلے کی کڑیاں مانی جاتی ہیں۔
وہاں کی بت پرستی کے مقابل یہاں قبر پرستی ، وہاں گرو چیلے تو یہاں پیر و مرید،
ادھر اُن کے ہاں کے رشی اور سادھوں کے مقابل یہاں کے صوفی اور فقیر، پنڈت اور
برہمن اُدھر، تو مولوی اور سیّد اِدھر، اپنے اپنے راگ الا پتے ایک
دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں پڑے رہے۔
آج
سے ڈیڑھ، دو سو سال قبل ، جب تجارت کے لئے آنے والے انگریزوں نے یہاں قدم جما لئے
تو عیسائی مشنری بھی میدان میں آگئے۔ انہوں نے آنے مذہب اور مفادات کے تحت لوگوں
کے لئے اسکول اور شفا خانے قائم کئے۔ ان
کی علمی برتری نے اپنا رنگ جمانا شروع کیا اور اِن دونوں فریقوں یعنی ہندوں اور
مسلمانوں کو اپنی طرف ملتفت کرنا شروع
کیا۔ عیسائیت کو فروغ ملنا شروع ہوا دونوں فریق چونکنے ہو گئے۔ مشنری سکولوں اور کالجوں کی طرز
پر انہوں نے بھی اپنے اپنے ادارے قائم کرنا اور اُن کو استوار کرنا شروع کر دیئے۔
علی
گڑھ محمڈن کالج جو بعد میں علی گڑھ یونیورسٹی بنا ، مسلمانوں کی اسی کوشش کی عکاسی
کرتا ہے۔ ان اداروں میں انگریزی اور دور جدید کے سائنسی مضامین کی تعلیم پر زور
دیا جانے لگا تاکہ یہاں کے لوگوں کو انگریزوں کے مقابل نہ سہی تو ان کے ساتھ بیٹنے کے قابل تو بنا ہی دیا جائے۔ جب
انگریزوں نے بھی ایسے اداروں سے فارغ
التحصیل طلباء کو سرکاری ملازمتیں فراہم کرنا شروع کریں تو ان اداروں کی ضرورت اور بھی مسلمہ ہوگئی۔ اسی لئے
ان اداروں کے مخالفین نے ایسی درس گاہوں کو کلرک سازی کے کار خانے تک کہا۔ اُدھر
جنگِ عظیم اول کے بعد طاقت کا توازن بگڑنا شروع ہوا اور جنگِ عظیم دوم کے بعد
انگریزوں کا سورجِ اقتدار ڈوبتا چلا گیا۔ انگریزوں کو کمزور پڑتے دیکھ کر ہندو اور
مسلمان دونوں نے آزادی کے لئے کوششیں شروع کردیں اور جنگِ عظیم دوم کے فوراً بعد
انگریزوں کو اس خطے کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ انہوں نے جانے سے پیشتر مسلمانوں
کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے مسلم اکثریت اور ہندو اکثریت کی بنیاد پر برصغیر کی
علاقائی تقسیم کی منظوری دے دی۔
پاکستان
وجود میں آگیا تو مختلف طریقوں اور شعبوں کے لوگوں میں اس مملکت خدا داد پہ زیادہ
سے زیادہ تصرف اور کنٹرول حاصل کرنے کی دوڑ شروع ہوگئی۔ اب یہاں کوئی بادشاہ تو
تھا نہیں اس لئے سب ہی بادشاہ بننے کی دوڑ میں لگ گئے۔ کیا سپاہی اور کیا بابو۔ شائد
اسی لئے کلرک بادشاہ اور سپاہی بادشاہ کے علاوہ نوکر شاہی کی اصطلاحات بھی سننے میں آتی رہی ہیں۔
جاگیردار طبقے کے سیاست دانوں نے اپنی حکومت مضبوط کرنے کے لئے کبھی سول انتظامیہ
اور کبھی فوج کا سہارا لیا۔ کمزور حاکم کے توانا ملازمین کی طرح کچھ دیر تو ان
سہارا دینے والوں نے صبر کیا لیکن آکر تا بہ کے ۔ اور جب انہیں یقین ہوگیا کہ ان
کے بغیر ان کمزور، نا اہل اور کوتاہ اندیش حکمرانوں کا کوئی کام نہیں چل سکتا تو انہوں نے خود ہی وہ
بوجھ باری باری اٹھانا شروع کر دیا جو انکے حکمرانوں کی سکت اور ہمت سے زیادہ تھا۔ اور اُن
کے اٹھائے بھی اُن سے نہیں اُٹھ پا رہا
تھا۔ یوں فوج اور انتظامیہ ( نوکر شاہی)، جاگیرداروں اور وڈیروں کی پشت پناہی سے،
اس ملک میں باری باری اقتدار میں آکر اپنے اپنے انداز میں عوام کی خدمت اور حکومت
کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اس سیاسی انتشار اور عدم استحکام کے ماحول میں کسی
بھی شعبے پر اتنی ہی توجہ دی جاسکتی تھی جتنی توجہ اس کا وجود برقرار رکھنے کے لئے
لازم ہو ورنہ جب تک کام چلتا ہے اسے چلنے دو کی پالیسی اور بھلا کب کام آتی؟
جب
حکومت کو شعبہء تعلیم پر توجہ دینے کا یارانہ ہوا تو متبادل اور متوازی نظام وجود
میں آتے چلے گئے ۔ قیام ِ پاکستان کے وقت تعلیمی ادارے نجی اور فلاحی اداروں کے
زیرِ انتظام تھے۔ پھر حکومت نے مقامی سطح پر میونسپلٹی کے زیر ِ انتظام اسکول
بنانے کا آغاز کیا۔ ان تعلیمی اداروں کے قیام کا بنیادی مقصد بے روزگار افراد کو کام پر لگانا اور ان کی
صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بچوں کو
زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔ یہاں سے ہمارا نظام تعلیم اردو اور انگلش میڈیم
کی دو واضح اقسام میں بٹ گیا۔ سرکاری سکول اور کالج اردو میڈیم کہلانے لگے اور نجی
شعبے میں قائم ہونے والے پبلک سکول اور کالج انگلش میڈیم۔ دینی مدارس اس دوڑ سے
دست بردار تو نہیں ہوئے لیکن انہوں نے یتیم خانوں کی جگہ لے لی اور مخّیر حضرات کے
چند ے اور سرداری گرانٹس پر تکیہ کر لیا۔ مشنری ادارے جو بنیا طور پر کسی نہ کسی چرچ
یا کلیسا کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کرتے ہیں، وہ بھی لوگوں کو اپنے انداز کی
تعلیم دینے کے اپنے کام میں مصروف رہے۔ پہلے مشنری اداروں نے چولا بدلا اور وہ تعلیم جو وہ مفت دیا کرتے
تھے ، اس سہولت کو انہوں نے صرف عیسائی بچوں کے لئے مخصوص کرتے ہوئے دیگر بچوں سے
بھاری فیسیں لینا شروع کردیں۔
1970ء
میں ملک میں جہاں صنعت و حرفت، بنکوں اور دیگر اداروں کو قومیایا گیا وہاں تعلیمی
ادارے بھی سرداری قرار پانے سے نہ بچ سکے۔ اس فیصلے کے پیچھے بھی بنیادی مقصد ملک
کے پڑھے لکھے لوگوں کو ملازمتیں مہیا کرنا ہی تھا۔ اس سے کچھ اور ہوا یا نہیں یہ
ضرور ہوا کہ سائز اور حجم کے لحاظ سے شعبہ تعلیم ہمارے ملک کا سب سے بڑا ادرہ بن
گیا۔ مقدار میں اضافے کا جنون معیار کا دشمن ہوا کرتا ہے۔ اساتذہ اور طلباء کے
علاوہ عمارات کی تعداد میں ایک کثیر اضافہ ہوا۔ معیارِ تعلیم کو تحفظ فراہم کرنے
کے لئے قانون سازی کی جانے لگی۔ اساتذہ سے باز پرس کا حق کیا ختم ہوا، معیار تعلیم
سر کے بل لڑھکنے لگا۔ اس حالتِ زار کی اصلاح کے نام پر مفاد پرستوں نے بہر مراعات
کی طلب بڑھائی اور حکومت نے جوابی پیشکشوں کی بولی لگانا شروع کی اور جب حکومت کو
اس بات کا احساس ہونے لگا کہ اس طرح تو
شاید ہی کوئی بہتری ہوسکے تو نجی شعبے میں
بھی تعلیمی ادارے قائم کرنے کی اجازت دے
دی گئی۔ جب یہ نظام کامیابی سے ہمکنار ہوتے دیکھا تو سمجھدار کاروبار ی حضرات بھی میدانِ عمل میں کود پڑے اور نجی شعبے میں پلے
نرسری، پریپ اور مانٹیسوری سکول بنے ، پھر
مڈل اور میٹرک ہوئے۔ جب حکومت نے دیکھا کہ ان کے حصے کا کام عوام خود ہی کرنے لگ
گئے ہیں تو انہوں نے ایک طرف تو نجی شعبے کو کالج قائم کرنے کی اجازت دے دی اور دوسری طرف سکولوں کی آمدن پر ٹیکس بھی لگا
دیا۔ اس مرحلے کی کامیابی کے بعد نجی شعبے کے حوصلوں کو اور بھی تاب ملی اور دنیا
کے دیگر ممالک کی تقلید میں یہاں نجی یونیورسٹیوں کا وجود عمل میں آنا شروع ہوا۔ یہ
نجی یونیورسٹیاں درس و تدریس کا مشنری کام کرنے کی بجائے ڈگریوں کے بیوپار یوں کا
روپ دھارتی چلی گئیں۔
سرکاری سرپرستی میں چلنے والے سکول اور کالج بھی دو
قسم کے ہیں ایک کیڈٹ سکول اور کالج دو قسم
کے ادارے اور دوسرے عام سرداری سکول اور
کالج۔ یعنی سرکاری انتظام کے تحت چنے والے تعلیم ادارے بھی دو قسموں کے ہیں۔ ایک
وہ جو فوج اور نوکر شاہی نے اپنی ضرورت کے افراد تیار کرنے کے لئے قائم کئے ہیں کیڈٹ
سکول اور کالج ہوں یا ٹیکنیکل اور ووکیشنل ادارے ، میڈیکل یا انجنیئرنگ اور دیگر پروفیشنل
تعلیم دینے والے ادارے، وہ سب اسی زمرے میں آتے ہیں اور دوسرے جہاں عوام کے بچوں
کو محض دن بھر کے لئے بٹھا کر عوام کے سر پہ
یہ احسان کیا
جاتا ہے کہ ہم نے آپ کے بچوں کی دن بھر دیکھ بھال کر دی اب اور کیا چاہئے۔ ایسے
اداروں کے اساتذہ سے آیا گیری یا بے بی سٹنگ کے علاوہ کسی اور کام کی توقع بھی
نہیں کی جاتی۔ اس لئے اگر بچے نے بڑھ لی تو سُبحان اللہ اور نہ اللہ اللہ خیر سلا۔
تعلیمی
اداروں کی ایک اور تقسیم شہری اور دیہاتی بھی کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
دیہاتی سکولوں اور کالجوں اور شہری سکولوں اور کالجوں کے ماحول میں وہی فرق ہوتا
ہے جو دیہاتوں اور شہروں کے ماحول میں پایا اور دیکھا جاسکتا ہے۔ آج کل شہروں کے
تعلیمی ادارے 'آئی ٹی' یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی زد میں ہیں۔ بچ بڑے سب
کمپیوٹر کا استعمال سیکھ رہے ہیں اور انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ اُن کے
سامنے اطلاعات کا ایک وسیع سمندر ٹھاٹھیں مار تو رہا ہے لیکن انہیں اس میں شناوری
کا طریقہ اور سلیقہ دونوں ہی ابھی سیکھنے باقی ہیں۔
اس
پسِ منظر میں قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک تعلیم و تدریس کے لئے جو ہوا اُس سے
کہیں زیادہ ہونا چاہئے تھا، کہیں زیادہ ہو سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب بھی کچھ زیادہ نہیں بگڑ ا، اگر ٹھیک کرنے کی
خواہش اور جذبہ بیدار ہوگیا تو آج ہی سے سب کچھ ٹھیک ہونا شروع ہو سکتا ہے۔
ہمارا
ملکی نظامِ تعلیم آج جو بھی کچھ بھی ہے اسے یہی کچھ ہونا چاہئے تھا۔ وہ لوگ جو زمینی
حقائق کو جانتے اور ا ن سے صرف، نظر بھی نہیں کرتے ، وقت اور حالات کی اس کروٹ کو
بھی گوارا تو کر ہی رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سوچتے ہیں کہ جب تعلیم دینا
بزنس بن ہی چکا ہے تو پھر ہم اسے پوری ایمانداری سے بزنس ہی کی طرح کیوں نہیں کر
رہے یعنی جیسے بزنس میں آپ موصولہ رقم کے برابر طے شدہ مال خریدار کے حوالے کرنے
کے پابند ہیں اور اگر نہیں کرتے تو آپ تعزیری قوانین کی زد میں آ جاتے ہیں لیکن
کیا یہ اندھیر نہیں کہ ایک عام دکاندار پیسے لے کر مال نہ دے، یا دینے میں لیت و لعل
کرے یا دے اور وہ گھٹیا کوالٹی کا ہو، تو ہم تھانے میں اس کے خلاف رپٹ کوا سکتے ہیں لیکن ایسے کسی ادارے کے خلاف کہیں ایسی کوئی رپٹ درج
نہیں ہوئی ہے، جس میں بچے کو پڑھانے میں ناکام رہنے اور بچے کے وقت کو ضائع کرنے
پر ادا شدہ رقم بمع حرجانہ واپس طلب کی گئی ہو۔ اس کی بہت سی وجوہات
میں سے ایک تو یہ ہے کہ ہم ایماندار نہیں ہیں، ہم میں منافقت بہت ہے اور ہم لاعلمی
کی انتہا کو چھو رہے ہیں اس لئے ہماری کہیں کوئی شنوائی بھی نہیں ہو پاتی۔
ایک
طرف سرکاری ملازمت کی خواہش ، دوسری طرف دولت مند بننے اور معاشرے میں ممتاز ہونے
کا جذبہ ، ہر ماں نے ایک ہی خواب دیکھنا شروع کر یا تھا کہ میرا بیٹا پڑھ لکھ کر
بڑا افسر بے۔ ادھر ہر بیٹا بھی اپنی ماں کے خوابوں کو اپنا کر ، اک ہجوم خواستگاراں میں شامل ہوکر، اپنی دنیا اور عاقبت
دونوں ہی سنوارنے کو ، جیسے تیسے بھی ہوا، پڑھنا سیکھنے کے بعد اُسے رٹ کر ، لکھنے
بیٹھ گیا۔ جو اس دوڑ میں کامیاب ہو گیا وہ بھی نا خوش کہ کچھ اور تیز دوڑ تا تو
شاید اور بہت کچھ حاصل کر لیتا اور جو نا مراد ہوئے اُن کا نا خوش ہونا تو یوں بھی
فطری تھا۔ آ ج پوری قوم فر سٹریشن کا شکار ہے۔ وہ ماں باپ ہوں ، اولاد ہو، اساتذہ
ہوں یا شاگرد اور طلباء سب ہی مایوسی، یا سیت بے یقینی کا شکار ہیں۔ انہیں ہونا ہی
تھا۔ کسی کے سامنے کوئی مقصد حیات ہوا ور نہ ہی زندہ رہنے کی کوئی وجہ، تو ایسا ہی
ہوا کرتا ہے۔
جو
زندگی کی دوڑ میں کہیں نہیں پہنچ سکتے ان کے لئے شعبہ تعلیم کی آغوش تو ہر وقت
کھلی ہے ہی۔ اساتذہ کی غالب اکثریت اُن لوگوں کی ہے جنہیں درس و تدریس کا نہ تو
کوئی ذوق ہے اور نہ شوق۔ وہ تو محض لگے بندھے اپنی تنخواہ کو جائز کرنے کا سوچ کر
پڑھا رہے ہیں اور جب تنخواہ میں پوری نہیں پڑتی تو بچوں سے آنے بہانے پیسے اینٹھے
جاتے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ محفوظ اور معروف طریقہ اپنے ہی سکول بلکہ اپنی ہی
کلاس کے بچوں کو پرائیویٹ ٹیوشن پڑھانا ہے۔ کسی کو یہ خیلا تک نہیں آتا کہ یہ
بدیانتی ہی کی ایک قسم ہے ۔ ظاہر ہے کہ کسی بچے کو پرائیویٹ ٹیوشن کی ضرورت تو تھی
محسوس ہوتی ہے جب وہ اپنی کلاس میں اپنے سبق پر اتنی توجہ نہیں دے سکا کہ اس کو جو
کچھ وہاں سمجھایا گیا تھا وہ اس کو سمجھ لیتا۔ اب اگر ایک بچہ اپنی کلاس میں پانچ
چھ گھنٹوں میں جو بات نہیں سمجھ سکا وہ محض ایک ڈیڑھ گھنٹے کی پرائیویٹ ٹیوشن کے
دوران کیونکر اور کیسے سمجھ لیتا ہے؟ا بات کا تجزیہ کرنے پر ایک اور پہلو یہ بھی
سامنے آتا ہے کہ بعض اساتذہ اس زائد کمائی کے لالچ میں کلاس میں بچوں کو اتنی
توجہ نہیں دیتے جو کسی بات کو بچوں کی فہم میں اتارنے کے لئے دی جانی لازم آتی
ہے۔ یہاں سے ایک ایسے منحوس گرداب کا آغاز ہوتا ہے جس سے مفر کی کوئی صورت نظر نہ
آنے کی وجہ سے سب ہی نے اس کو ایک ناگزیر برائی کے طور پر اپنا لیا ہے۔
آپ
کسی بھی استاذ ، ٹیچر، لیکچرار یا پروفیسر سے ان کا اپنی زندگی میں کچھ بننے کی
خواہش کے حوالے سے پوچھ کر دیکھیں۔ ایک غالب اکثریت کا جواب بہر حال یہ نہیں ہوگا
کہ وہ ایک استاذ بننا چاہتے تھے۔ ایسا کیوں ہے؟ تو اُس کی سیدھی اور سچھی وجہ تو
یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں استاذ کی کوئی عزت نہیں ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ ان سب
کے نزدیک جو ایسا کہتے اور سمجھتے ہیں عزت کا پیمانہ بھی گاڑی بنگلہ اور روپیہ ہی ہے۔ اُن کو یہ بات سکھائی ہی
نہیں گئی کہ عزت بھی کمائی جاتی ہے، کوئی بلا وجہ دان میں کسی کو عزت نہیں دے
دیتا۔ اور یہ وہ جنس نہیں جس کو پیسہ خرید سکے۔
الغرض
یہ کہ آج ہمارا نظام تعلیم ہماری معاشرت کا ایک جزوِ لاینفک ہے اور یہ وہی کچھ ہے جو کچھ ہمارا معاشرہ
ہے۔ ہم اپنے نظامِ تعلیم سے یہ توقع اور امید رکھتے ہیں کہ یہ ہمیں ایسے افراد دے
جو معاشرے کی بہتری کا سبب کا اور باعث بن سکیں۔ اُدھر نظامِ تعلیم سے وابستہ
افراد ، خصوصاً اساتذہ کرام، کی سوچ یہ ہے کہ معاشرہ اُن کے لئے کچھ ایسا کرے کہ
وہ ٹھیک ور بہتر ہو جائیں۔وہ انتظامی حوالے سے معاملات کی بہتری کے خواہاں ہیں، وہ
نصاب میں تبدیلیوں اوت بہتی کی ضرورت کی بات کرتے ہیں، امتحانی نظام کی فرسودگی
اور اس کے نقائص کو دور کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن نہیں کرتے تو اپنی شخصیت اور
کردار کو بہتر اور پُر اثر بنانے کی بات بالکل بھی نہیں کرتے۔
اس
بات کی ضرورت سے کوئی انکا نہیں کرتا کہ اگر اساتذہ پُر اثر شخصیت اور متاثر کن کردار کے حامل ہوں گے تو ان
کے تلامذہ اور شاگرد بھی اپنے اندر ویسی ہی خوبیاں ابھارنے کی کوشش کریں گے ورنہ
تو وہ فلمی اداکاروں سے ہی متاثر ہوکر انہی جیسی حرکتوں کے مرتکب
ہوتے رہیں گے۔
Comments
Post a Comment