شرفِ انسانی

شرفِ انسانی
انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف حاصل ہے، کون ہے جو اس بات کو نہیں جانتا۔ کہنے کو سب کہتے ہیں اور مانتے بھی ہیں کہ انسان کو دیگر تمام مخلوقات پہ ایک برتری اور فضیلت حاصل ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ جب اُس شرف کی بابت کسی سے دریافت کیا جائے کہ انسان کو حاصل وہ شرف اصل میں کیا ہے، عقلِ سلیم اُس کو سن کر مطمئن نہیں ہو پاتی۔ مثلاً جس بات کا سب سے زیادہ اعادہ کیا جاتا ہے وہ یہ کہا جانا ہے کہ انسان کو یہ شرف عقل اور فہم کی وجہ سے حاصل ہے کیونکہ اسی کی وجہ سے وہ دوسری مخلوقات سے بہتر ہے اور اُن سے خدمت لیتا اور اُن پر حکومت کرتا ہے۔ اگر ہم اس بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انسان کی بہت سی ایجادات ایسی ہیں جو اُس نے جانوروں سے نقل کی ہیں۔ گھر بنانا ہو یا ہوا میں اڑنا، لاسلکی نظام ہو یا گھروں میں روشنی بہم پہنچانا یہ سب انسان نے جانوروں سے اخذ کیا اور سیکھا۔ اس کا صاف اور سیدھا مطلب تو یہی ہوا کہ جانوروں میں انسان سے زیادہ عقل و شعور ہے۔ اسی طرح جانوروں میں موجود صلاحیتوں کو دیکھیں تو انسان میں موجود ہر صلاحیت کسی نہ کسی دوسرے جاندار میں انسان سے کہیں زیادہ دستیاب نظر آتی ہے۔ کتنے کے سونگھنے کی حس ، عقاب کے دیکھنے کی صلاحیت، قوت اور طاقت کا اظہار ہو، خطرات کو بھانپنے کی حس ہو یا زلزلے کی آمد سے پیشتر بے چینی کا اطہار کرنے کی بات آئے تو جانور انسانوں سے کہیں زیادہ آگے نظر آتے ہیں۔
مطلب یہ ہوا کہ انسان کی اصل فضیلت اور شرف وہ نہیں ہے جو کہ ہم نے اپنی دانست میں سمجھ رکھا ہے۔ ہم اُس چیز کو بھلا کیسے اور کیونکر حاصل کرسکتے ہیں جس کی بابت ہماری معلومات مکمل نہ ہوں۔ اگر ہم اس شرف کو جو اللہ نے انسان کو عطا کیا ہے سچ مچ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اُس کی بابت اپنی معلومات اور فہم کو مکمل کرنا ہوگا۔ جب ہم اس بات سے پوری طرح آگاہ ہو جائیں گے کہ وہ شرف اصل میں کیا ہے، جس کی بنیاد پر انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے، تب ہی ہم خود کو اس کے لئے تیار کر سکیں گے ورنہ کہی ہوئی بات ہے، سن کر اس کا مزہ لیا اور اللہ اللہ خیر صلا۔
الہامی کتب اور قرآنِ حکیم میں انسان کی تخلیق کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ احسن الخالقین نے اس کو خلافت الٰہیہ کے جلیل القدر منصب پر فائز کرنے کے لئے وجود بخشا اور اس دنیا میں بھیجا۔ انسان کا  خلافتِ الٰہیہ کے قابل ہونا ہی اس کا اسل شرف اور فضیلت ہے۔ لیکن اگر غیر جانبداری سے اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ ہم میں سے کتنے انسان اس منصب جلیلہ کے واقعی اہل ہوسکے ہیں، اہل ہونا تو دور کی بات ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو اس بات کا درست ادراک رکھتے ہیں اور اس کے لئے باقاعدہ کوشاں بھی ہیں کہ ہم خود کو اس اعزاز کا اہل ثابت کر سکیں، تو یہ دیکھ کر شعور و
وجدان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ اس کا جواب اثبات میں دینا اگر نا ممکن نہیں تو بہت دشوار ضرور ہے۔
اس بات کا سیدھا اور سامنے کا حل تو یہی بنتا ہے کہ ہم کو سب سے پہلے تو یہ بات شعوری طور پر نہایت وضاحت سے سمجھنا ہوگی کہ خلافتِ الٰہیہ کا اصل مفہوم کیا ہے اور جب ہمیں یہ بات  درست طور پر سمجھ آ جائے تو ہم اس کے حصول کے لئے عملی طور پر کوشاں ہو جائیں۔ اگر ہمارے نظام درس و تدریس کو اس بنیاد پر استوار کیا جا سکے تو فرد کی انفرادی اور اجتماعی زندگی، اس کے ارد گرد کے ماحول اور اس کے معاشرے کے علاوہ انسان کی آخروی زندگی بھی سنور سکتی ہے۔
انسانی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں کچھ ایسے اعمال اور افعال سرانجام دیتا ہے جو انسان اور تمام جانداروں میں مشترک ہیں۔ مثلاً سونا، جاگنا، کھانا،پینا ، غصہ کرنا، آپس میں لڑنا ، افزائش نسل  کرنا، اپنے بچوں کی پرورش اور پرداخت کا اہتمام کرنا، گروہی اور معاشرتی نظام کے تحت زندگی بسر کرنا وغیرہ ایسے اعمال اور افعال ہیں جو جانور بھی کرتے ہیں اور انسان بھی۔ یہ اور ایسے دیگر تمام افعال کی بابت گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حیوانی سطح کے اعمال اور افعال ہیں۔
علمائے باطن ایسے اعمال اور افعال کو روحِ حیوانی سے منسوب کرتے ہوئے  انسان کو اس کی روح کی برتر سطح کی طرف متوجہ کرنے میں کوشاں رہتے ہیں اور بتاتیں ہیں کہ کچھ اعمال اور افعال ایسے ہوتے ہیں جو نہ تو جانور سرانجام دیتے ہیں اور نہ ہی دے سکتے ہیں کیونکہ یہ وہ اعمال اور افعال ہوتے ہیں جو روحِ انسانی ہی کے تحت انجام پاتے ہیں۔ تصویر بنانا، کتب تحریر کرنا، کتب کا مطالعہ کرنا ، فلم بنانا، دیکھنا، کاروبار کرنا، ایجادات کرنا، علم حاصل کرنا وغیرہ ایسے کام ہیں جن کو کرنے سے جانور اس لئے عاجز ہیں کیونکہ ان میں روح کی وہ سطح موجود نہیں ہوتی جو انسان کو عطا ہوئی ہے۔ روح کی اس سطح کو روحِ  انسانی کا نام دیا جاتا ہے۔ روحِ انسانی کے تحت سرانجام دیئے جانے والے کام انسان کا طرہ ء امتیاز تو ضرور ہیں لیکن یہ سب کچھ بھی کرنے کی اہلیت اور قابلیت رکھنا بھی وہ شرف نہیں  جن کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات کہلاتا ہے۔
قرآنِ حکیم کی تعلیمات کے مطابق انسان کا اصل شرف یہ ہے کہ اُس کو اللہ نے روح کی اُس برتر سطح سے نوازا ہے جس کو علمائے باطن روحِ اعظم کہ کر متعارف کرواتے ہیں۔ جو انسان اپنی روح کی اس برتر اور اعلیٰ سطح کا ادراک حاصل کر لیتا ہے وہی انسان خلافت الٰہیہ کے جلیل القدر نصب پر فائز ہونے  کا امیدوار ہوسکتا ہے۔ شرف انسانی اصل میں یہی ہے کہ انسان ایسے کام کرکے دکھائے جو انسان بھی نہیں کرتے۔ یعنی شرفِ انسان ایسے کام کرنے پہ آمادہ ہو جو اللہ کی سنت کے ذیل میں آتے ہیں۔ معروف روحانی سکالر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمیؒ فرماتے ہیں کہ مخلوق کی خدمت اللہ کی ایسی سنت ہے کہ جس نے بھی اس راہ کو ثابت قدمی اور استقامت سے اختیار کیا، وہی عزیز جہاں بھی ہوا اور اللہ کا دوست بھی بنا۔ اور انسان کے قبضہ قدرت میں اتنا ہی ہے کہ وہ مخلوق خدا کی خدمت کو اپنا شعار بنا کر اللہ کے دوستوں میں شامل ہو جائے۔ اب اللہ اپنے دوستوں میں سے کس کو اپنی نیابت کے کیسے فرائض کی انجام وہی پر مامور کرتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مرضی اور مصلحت پہ منحصر ہے۔
خود شناسی اور خدا شناسی کی تمام راہوں کا نقطہ آغاز یہی بات ہے کہ انسان اپنے شعور کو ایسی طرزوں پہ استوار کرلے جو اس قدم قدم چلا کر ایک طرف الہ سے اور دوسری طرف مخلوق خدا سے ہم رشتہ کر دیں۔ انبیاء کرام انسان کو جس طرزِ فکر سے متعارف کروانے کا اہتمام کرتے تھے اُس طرز فکر کو رحمانی طرزِ فکر کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اُن کی طرزِ فکر میں مثبت اور تعمیری اندازِ نظر کے ساتھ ساتھ خلوص اور ہمدردی کے جذبات کو بنیادی مقام حاصل ہوا کرتا تھا۔ طرزِ فکر میں خلوص ہو تو انسان خالقِ کائنات سے ، اور ہمدردی ہو تو مخلوق خدا سے تعلق استوار کرنے کے ہزاروں راستے بن ہی جایا کرتے ہیں۔ طرزِ فکر میں خود غرضی اور خود نمائی ہو تو خلوص اور ہمدردی جیسی اعلیٰ صفات بھی منفی اور تخریبی انداز میں استعمال ہونے لگتی ہیں۔ ایسی طرزِ فکر کو  شیطانی  طرزِ ہی کہا جاسکتا ہے۔
اساتذہ کرام کو یہ بات ذہن نشین کرنے اور عملی طور پر اس پر کار بند رہنے کی ضرورت ہے کہ اہ اپنے تلامذہ میں وہی طرزِ فکر پیدا کرسکتے ہیں، جو خود اُن کی اپنی طرزِ فکر ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ خود تو آپ کی طرزِ فکر کچھ اور ہوا اور آپ کے شاگردوں میں کوئی اور طرزِ فکر راسخ ہوسکے۔ اس لئے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے تلامذہ میں رحمانی طرزِ  فکر نہ صرف یہ کہ پیدا ہو جائے بلکہ وہ اُس کو اپنا بھی لیں ، تو سب سے پہلے خود آپ کو اس طرزِ فکر کا عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا ورنہ بصورتِ دیگر آپ کہیں گے کچھ اور آپ کے تلامذہ سمجھیں گے کچھ اور، اور نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کہتے ہی رہ جائیں گے اور ہوگا کچھ بھی نہیں۔ اس کی نہایت ہی عام سی  مثال یہ ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے شاگردوں میں ہمدردی ہو اور وہ مخلوق خدا کی خدمت میں عملی طور پر کوشاں ہوں۔تو جب تک آپ زبان سے کہتے رہیں گے کسی کی سمجھ میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی کہ ہمدردی کسے کہتے ہیں اور ہمدردی کا عملی اظہار کیسے کرنا بہتر رہے گا، کس سے ہمدردی کریں اور کس سے ہمدردی نہیں کی جانی چاہئے اور یہ کہ ہمدردی کا رشتہ مخلوق خدا کی خدمت سے کیسے اور کیونکر جوڑا جا سکتا ہے؟ اس لئے یہ بات بہت ہی ضروری ہو جاتی ہے کہ اس بات سمجھنے میں آسانی  ہو جائے گی کہ ہمدردی کا اسل مفہوم یہ نہیں ہے کہ انسان کسی چالاک اور چرب زبان آدمی کے ہاتھوں بے وقوف بن کر بھی یہی سمجھتا رہے کہ وہ ہمدردی کر رہا ہے۔
اور اس بات سے بھلا کس کو انکار ہوسکتا ہے کہ جب تک کہی گئی بات پوری طرح سمجھ میں نہ آئے اُس پر عمل کرنا اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ اس لئے ہمارے نظامِ تعلیم کے تمام اراکین خواہ وہ حکومت ہو، والدین ہوں ، اساتذہ کرام ہوں یا طلباء سب کے لئے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس پہ کار بند اور عمل پیرا ہونے کے لئے شرف انسانی کی اصل روح کو سمجھیں اور باقاعدہ طور پر ایک لائحہ عمل طے کرکے اس کے حصول کے لئے عملی طور پر کوشاں ہو جائیں۔
یہاں اس بات کا تذکرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ طرزِ فکر ہی وہ اساس ہے جس پر تمام اعمال اور افعال انسانی کا دارومدار ہوا کرتا ہے۔ اگر طرزِ فکر تعمیری رحجان نمایاں ہوگا تو طرزِ عمل بھی تعمیری انداز اختیار کرلے گا اور اگر طرزِ فکر  میں تخریب اور منفیت ہوگی تو طرزِ عمل میں تعمیر کی توقع کرنا محض خام خیالی ہی ہوسکتی ہے۔
طرزِ فکر سے مراد انسانی سوچ کا وہ سانچہ ہے جو انسان کے اندر موجود جذبات اور ذہن میں آنے والے خیالات کو ایک مخصوص طرز اور نہج کے مطابق ڈھال دیتی ہے۔ اگر انسان کی طرزِ فکر میں ہمدردی ہوگی تو ایسا انسان دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے کا جذبہ بھی رکھتا ہوگا اور ایسے آدمی کو اگر غصہ آبھی جاتا ہے تو  وہ یہ سوچ کر کہ اُس کے غصے سے دوسرے  کا دل دُکھے گا ، غصے سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس مثال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ طرزِ فکر کے درست ہونے سے انسانی جذبات کا اظہار مناسب انداز میں ہونے لگتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسانی رویے مثبت انداز اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ جب کسی انسان کا رویہ درست ہو جاتا ہے تو نہ صرف یہ کہ دوسروں کو اس کی ذات سے تکلیف نہیں پہنچتی بلکہ خود اُس کی اپنی پریشانیاں بھی کم ہوجاتی ہیں اور اُس کی کامیابیوں کا تناسب بھی بڑھ جاتا ہے۔
طرزِ فکر کے ضمن میں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ طرزِ فکر کوئی ایسی چیز  نہیں ہے کہ جس کی بابت محض کسی سے سن کر اُس کو اپنایا بھی جاسکتا ہے۔ کسی بھی قسام کے طرزِ فکر کے حصول کے لئے کسی ایسے بندے کی قربت بہت ضروری ہے جس کو وہ طرزِ فکر حاصل ہو۔ اگر کسی کو کاروبار سیکھنے کی خواہش ہو تو اُس کے لئے کسی ایسے شخص کی قربت اور صحبت اختیار کرنا ضروری ہے جو کاروباری ذہن کا مالک ہو۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ کاروبار نہیں کر سکتا۔ یہ سمجھنا کہ محض کتاب پڑھ کر اور ایسے اساتذہ کے لیکچر سن کر وہ کاروبار کر بھی سکے گا جنہوں نے نہ تو خود کبھی کاروبار کیا ہو اور نہ ہی یہ سمجھا ہو کہ کاروبار کسے کہتے ہیں، تو یہ درست نہیں ہوگا کیونکہ جب تک ذہن میں کاروباری فکر کی طرزیں راسخ نہ ہوں وہ جو بھی کام کرے گا اُس میں نقصان ہی اُٹھائے گا۔ بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ فلاں صاحب نے نیا نیا کاروبار شروع کیا اور اُس میں اُن کو بہت فائدہ بھی ہوا۔ اگر اُن صاحب کی زندگی کا قریب سے جائزہ لیا جائے تو اُن کے اصحاب میں کوئی نہ کوئی ایسا فرد ضرور مل جائے گا جو کاروباری ذہن کا حامل ہوگا اور وہ صاحب اُن سے متاثر بھی بہت ہوں گے۔ شعوری طور پر نہیں تو انہوں نے لاشعوری طور پر اُن سے ضرور اکتسابِ فیض کیا ہوگا۔
اسی طرح بچے بھی اپنے اُن اساتذہ کرام کی طرزِ فکر کو شعوری یا لاشعوری طور پر اپنا لیتے ہیں جن کی فکر، باتوں، عادات اور رویے سے وہ کسی نہ کسی طور متاثر ہوتے ہیں۔ اور جب بات متاثر ہونے کی ہو تو اساتذہ کرام کو یہ بات ذہن نشین کرنا ہی ہو گی کہ اُن کی شخصیت میں اتنی اثر پذیری ہونا کس قدر ضروری ہے کہ اُن کہ تلامذہ اُس سے متاثر ہوکر اُن کی طرزِ فکر کو اپنا لیں۔
اس بارے میں بعض اساتذہ کرام کا خیال یہ ہے کہ محض پینتالیس منٹ کے ایک پیریڈ میں وہ کیا کریں۔ ادھر جب کبھی وہ بچوں کی توجہ اپنی طرف جذب کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو ادھر گھنٹی بج جاتی ہے اور بچے چونک کر اُن کی شخصیت اور گفتار دونوں کے سحر سے نکل جاتے ہیں اور ساری محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ اس بات کا حل وہی اساتذہ نکال  سکتے ہیں جو اپنی شخصیت اور کردار کی اثر پذیری سے اپنے تلامذہ کو حقیقتاً متاثر کرنے کے آرزومند ہوں۔ اس ضمن میں وہ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ پہلے ایک ہی استاذ تمام وقت بچوں کے سامنے ہوا کرتا تھا اور اس لئے ان کو اُس کی شخصیت سے متاثر ہونے کا، اس کی شخصیت کو اپنے اندر جذب کرنے کا بھر پور موقع ملتا تھا۔ اب جبکہ سبجیکٹ سپیشلائزیشن کا دور ہے ایک ٹیچر  کو اتنا وقت ہی کہاں ملتا ہے کہ وہ بچوں کو اپنی شخصیت سے متعارف کروا سکے۔

لیکن اس کے برعکس ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ایک اچھی شخصیت کا حامل بندہ اپنے اظہار میں ایسے کسی خیال کو رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔ وہ خواہ کچھ بھی پڑھاتا ہو، وہ کچھ بھی کرتا ہو اگر اس کی شخصیت میں کشش اور اثر پذیری ہے تو وہ ہر حال میں اپنا تاثر قائم کرے گا۔ لیکن ہم اس دوڑ میں حصہ لینے پر تبھی آمادہ ہوں گے جب پیسے اور دولت کی دوڑ سے فراغت پا سکیں گے اور جب تک ایسا نہیں ہو جاتا تو کیا کیا جاسکتا ہے؟

Comments

Popular posts from this blog

GUIDANCE NEEDS AND PROBLEMS OF YOUNG PEOPLE

HISTORY OF THE GUIDANCE MOVEMENT

"Aims and Objectives of Education"