علم اور تعلیم

علم اور تعلیم
علم کی بات ہو تو ذہن میں اس مفہوم جان کاری، آگاہی اور واقف ہونا ہی آتا ہے۔ عرفان و آگہی اسی لئے علم سے متعلق قرار دیئے جاتے ہیں کہ علم حاصل ہونے کے نتیجے میں وہ ذہن تشکیل پاتا ہے جو انسان کو خارج سے حاصل ہونے والی معلومات کی سطح سے اوپر اٹھ کر اپنے باطن میں موجود حقائق سے روشناس ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ تعلیم کا مطلب درحقیقت تحصیل علم ہی ہے اور اس ہی لئے طالبِ علم، متعلم اور معلم کی اصطلاحات عم کے حاصل کرنے اور علم کی راہ پر گامزن کرنے اور اس کے حصول میں مدد کرنے والوں کے لئے استعمال ہونا شروع ہوئیں۔
حصول علم کا مستند ذریعہ تو مشاہدہ ہی ہے۔ یہ مشاہدہ خارج میں موجود اشیاء کا بھی ہوسکتا ہے اور اشیاء اور شاہد کے باطن میں موجود حقائق کا بھی۔ کسی بات کا تجربہ کرنا مشاہدہ کے لوازم میں آتا ہے۔ یعنی تجربہ مشاہدے کے لئے اساس فراہم کرتا ہے اور تجربے کے نتیجے میں کچھ حقائق انسان کے مشاہدے میں آ جاتے ہیں۔ انسان ان حقائق کی بنیاد پر جو اس کو اپنے مشاہدات کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں، کچھ نتائج اخذ کرکے اپنی زندگی ان کی روشنی میں بسر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان کی قوتِ مشاہدہ جس قدر توانا ہوتی ہے اس کے مشاہدات بھی اسی قدر جامع اور مکمل  ہوتے ہیں اور جس قدر مشاہدات جامع اور مکمل ہوتے ہیں وہ حقائق کی اصل کے اتنے ہی قریب ہو جاتا ہے  اب جتنا زیادہ کوئی حقیقت کے قریب ہوتا ہے اسی قدر اس کی زندگی بہتر ہوتی چلی جاتی ہے۔
مشاہداتی طرزوں سے محروم انسان کے پاس حصولِ علم کا جو راستہ باقی رہ جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے کے مشاہدات سے استفادہ کرے۔ بچہ اپنے ماں باپ کا کہا مان کر ان کے تجربات اور مشاہدات ہی سے تو استفادہ کرتا ہے۔  ماں باپ کے بعد وہ اپنے اساتذہ کرام کی باتیں سن کر ان کے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں اپنی زندگی کا سفر طے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اساتذہ کرام اپنے تلامذہ کو جو کتب پڑھاتے ہیں وہ ان کتب کے مصنفین کے علم، تجربے اور مشاہدات کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ یعنی کتب کا مطالعہ دوسروں کے تجربات اور مشاہدات سے استفادے کا ایک ذریعہ ہے مطالعہ کرنا  تحصیل علم کا ایک ذریعہ تو ضرور ہے مگر ہم نے اسی کو علم کے برابر قرار دے کر علم و آگاہی کی پوری دیوار ہی کج کی ہوئی ہے۔
مطاعہ کتب کا اصل مقصد دوسروں کے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں اپنے تجربات اور مشاہدات کو بہتر کرنا ہو تو علم میں واقعتاً اضافہ ہوسکتا ہے لیکن اگر مقصد محض امتحان پاس کرنا ہو تو پھر اکثر ایسا نہیں بھی ہو پاتا ۔ نہ ہی علم میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی امتحان میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ جب مطالعہ کا اصل مقصد ہی حذف ہو چکا ہو تو اس کے منطقی نتائج کی توقع بھی عبث ہی قرار پائے گی یعنی علم سے محروم ہی رہا جائے گا۔ ہمارے پورے تعلیمی نظام میں انقلاب تبھی آسکتا ہے جب ہم اپنے بچوں ، شاگردوں اور طلباء میں مطالعہ کا درست شعور اجاگر کر سکیں گے۔ مطالعہ اور خواندگی میں جو فرق ہے ہمیں اس کو خود بھی سمجھنا ہوگا اور دوسروں کو بھی بتانا ہوگا۔
خواندگی کا مطب ہے کسی تحریر کو پڑھ لینے کی قابلیت ہونا۔ تعلیم بالغان اور پرائمری درجات میں سارا زور خواندگی سکھانے پر ہوتا ہے۔ حروف کی شناخت اور ان سے متعلقہ آوازوں کی ادائیگی  کے بعد حروف کی متعلقہ آوازوں کو ملا کر ادا کرنا اور الفاظ کو ایک ایک کرکے پڑھتے ہوئے اس قابل ہو جانا کہ پورے پورے جملے اور پھر صفحوں کے صفحے پڑھ لینا، یہ سب محض خواندگی کے زمرے میں آتا ہے۔ خواندگی سیکھنے کے بعد اس کی بھر پور مشق ہونے کے نتیجے میں پڑھنے کی رفتار بننا شروع ہو جاتی ہے۔ اب اگر توجہ پڑھی جانے والی تحریر کے مفہوم پر مرکوز ہو تو اس تحریر کے ذریعے بیان کی جانے والی بات سمجھ آنے لگتی ہے۔ باالفاظِ دیگر اگر کسی تحریر کو پڑھ کر یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ مصنف نے کیا کہا ہے اور کے کہنے کا اصل مقصد و مدعا کیا تھا تو یہ اس تحریر کی محض خواندگی ہی ہوئی۔ خواندگی میں اعضائے جسمانی کی حرکات یعنی آنکھ سے دیکھنا، دماغ کے شعبہ یاداشت سے شناخت کرنا اور منہ سے الفاظ کی ادائیگی جیسے اعمال ہی سرزد  ہوتے ہیں اور انہی کی تکرار ہوتی رہتی ہے۔ جب کہ مطالعہ کے دوران قوائے جسمانی کے ساتھ، ساتھ قوتِ متخیلہ اور قوتِ فیصلہ جیسی باطنی صفات بھی حرکت میں رہتی ہیں اور مطالعہ کرنے والے کو ان صفات کے استعمال کی مشق کے مواقعے فراوانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔
مطالعہ درحقیقت کسی تحریر میں مستور اُن تصاویر کو اپنے ذہن کی سکرین پر اجاگر کرنے کا عم ہے جو کسی مصنف نے الفاظ کی مدد سے صفحہ قرطاس پر سجائی ہوتی ہیں۔ اگر کسی تحریر کو خواہ وہ نثر ہو یا شاعری، پڑھنے کے دوران اگر قاری کے ذہن میں کوئی تصویر نہیں بن رہی تو یہ عمل خواندگی تو ضرور ہوا لیکن مطالعہ نہیں ہوسکتا۔ اس بات کی وضاحت کچھ یوں بھی کی  جاسکتی ہے کہ ایک مصنف جو کچھ لکھتا ہے وہ کسی نہ کسی خیال کی وضاحت کے لئے تحریر کرتا ہے اور اگر قاری اُس خیال کو اپنے ذہن کی گرفت میں لے لیتا ہے تو تحریر کی خواندگی مطالعہ کی حدود میں داخل ہو جتی ہے۔
جب قاری لکھنے والے کے خیال سے اتفاق کرتا ہے یا نہیں، اُس کو رد کر دیتا ہے یا اُس میں کی کمی کی نشاندہی کرتا ہے، یہ سب باتیں مطالعہ کے اجزائے ترکیبی کہلاتی ہیں۔ اس قسم کے مطالعہ ہی سے انسان کے ذہن میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوسکتی ہے ورنہ تو ہم قرآن  ناظرہ کی تلاوت بھی صدیوں سے کر ہی رہے ہیں۔
خواندگی کی سطح سے بلند ہوکر مطالعہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ الفاظ کے معانی اور مفاہیم کا مناسب ذخیرہ بھی یاداشت میں محفوظ ہو۔ اس کے لئے اساتذہ کرام کو اپنے تلامذہ میں لغت اور ڈکشنری کے استعمال کا شعور اجاگر کرنے پر مناسب توجہ دینی چاہئے۔ اس کا آسان سا طریقہ تو یہی بنتا ہے کہ وہ اپنے تلامذہ کو مختلف الفاظ دے اس بات کا پابند کریں کہ وہ ان کے مطالب کے ساتھ، ساتھ بھی بتائیں کہ یہ الفاظ کس مادے سے بنے ہیں اور اصل میں کس زبان کے ہیں۔ اس سے ملتے جلتے کئی اور طریقے بھی وضع کئے جاسکتے ہیں جن سے لغت اور ڈکشنری کے استعمال کی حوصلہ افزائی ہو اور طلباء  کی رغبت اور شوق میں اضافہ ہوسکے۔
ہمارے یہاں کئی سکولوں میں بچوں کے بستوں میں ڈکشنریوں کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اصل بات تو اُن کافر وانی سے استعمال کرنے کی عادت ہے۔ بچے ڈکشنری کھولنے اور اُس میں مطلوبہ لفظ کی تلاش کی زحمت سے بچنے کے لئے اپنے اساتذہ سے اس کا مطلب دریافت کرنے کی آسان راہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اساتذہ کرام کو چاہئے کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اُن کو اس بات پہ ابھاریں کہ وہ مطلوبہ لفظ کا مطلب خود ڈکشنری میں دیکھ کر اُن کو بتائیں۔
جب طلباء کو درست طور پر مطالعہ کرنا آتا ہوگا تو وہ خواندگی کی سطح سے بلند ہوکر افکار و نظریات میں دلچسپی لے سکیں گے۔ اساتذہ کا اصل کردار اپنے شاگردوں کو درست اور غلط افکار و نظریات میں تمیز کرنا سکھانا ہو تو تعلیم کے میدان میں اٹھنے والا ہر قدم راست سمت میں ہوتا ہے اور جب اساتذہ خود کو الفاظ کا مطلب بتانے کے کام تک محدود کر لیتے ہیں تو نتیجہ وہی کچھ ہوسکتا ہے جس سے اس وقت پوری قوم دوچار ہے اور اس سے نجات کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی۔
اس بات کی وضاحت سے یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ دو دو سال تک ایک ہی کتاب کی محض خواندگی ہی ہوتی رہتی ہے اگر ذوق مطالعہ اجاگر اور تجسس کی فطری قوت کو درست انداز میں تربیت دی جائے تو ایک کتاب کا مطالعہ سالوں اور مہینوں نہیں بلکہ محض گھنٹوں اور دنوں کی بت رہ جاتی ہے۔ اس بات کو کسی بھی زاویے سے دیکھیں اور حساب لگائیں کہ اگر ایک آدمی دوسو صفحات کی ایک کتاب کا مطالعہ دو سال میں بھی مکمل نہیں کرسکتا تو جب وہ کسی دفتر میں کام پر لگایا جائے گا اور اس کو زیادہ نہیں تو پانچ چھ فائلیں، جن میں سے ہر فائل چالیس تا پچاس صفحات کی ہو، پڑھ کر ان کے مندرجات کی بابت کوئی فیصلہ کرنا ہوگا تو اُس کو کتنی مدت درکار ہوگی؟ اگر وہ عملی زندگی میں آنے کے بعد اپنی رفتارِ خواندگی میں دوگنا اضافہ بھی کر لے تب بھی ان پاچ چھ فائلوں کو ان صاحب کی میز سے آگے جانے میں سال ڈیڑھ تو لگ ہی جائے  گا۔ اور اس میں اچنبھا بھی کیا ہے؟ کیا یہاں ہر دفتر میں اکثر یہی کچھ نہیں ہو رہا؟
اگر رفتار مطالعہ کو طالب علمی ہی کے زمانے میں نہ بڑھایا جائے تو بعد میں اس کو بڑھانے میں وقت ہوتی ہے اور زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔ مطالبہ کی رفتار بڑھانے کا سب سے اچھا طریقہ تیز رفتاری سے پڑھنے کی مشق کرنا ہی ہے۔ اس کے لئے پہلی بات تو یہ ضروری ہے کہ انسان مطالعہ کے دوران زبان حرکات کو مکمل طور پر روک کر صرف نگاہوں سے پڑھنے کی عادت کو اپنائے۔ آغاز میں گھڑی پاس رکھ کر مطالعہ شروع کیا جائے اور دیکھا جائے  کہ پانچ دس صفحات کتنی دیر میں پڑھے جاتے ہیں اور پھر انہی صفحات کو دوبارہ اور سہ بار پڑھ کر اپنے پڑھنے کی رفتار کو بتدریج بڑھایا جائے ۔ اگر اس قسم کے مطالعے کے لئے کسی ایسی کتاب کا انتخاب کیا جائے جو ذوق کے مطابق ہو اور اس کے موضوع میں پڑھنے والے کی دلچسپی بھی ہو تو بہتر نتائج کے حصول میں آسانی اور سہولت ہو جاتی ہے۔
جب ذوق مطالعہ کی بنیاد پڑ جاتی ہے تو انسان جو کچھ پڑھتا ہے، اسے سمجھ کر پڑھتا ہے اور قانون یہ ہے کہ جو بات سمجھ آجاتی ہے اس کو حافظہ بھی آسانی سے اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے اس کی نہایت عام سی مچال یہ ہے کہ ہم دیکھی ہوئی اشیاء ، مناظر اور واقعات کو با آسانی یاد کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ یہ کہ بچے دیکھی ہوئی فلموں کے مناظر کی تفصیل تو وضاحت سے بیان کرسکتے ہیں لیکن پڑھی ہوئی بات کو حافظے کی سطح پر اجاگر تفصیل تو وضاحت سے بیان کرسکتے ہیں لیکن پڑھی ہوئی بات کو حافظے کی سطح پر اجاگر کرنے ین انہیں وقت ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ بچوں کو فلمیں دیکھنے کی غیر ضروری ترغیب دی جانی چاہئے اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ بچوں اور بڑوں کو چاہئے کہ وہ مطالعہ کے دوران اپنے ذہن کی سکرین پر اس تصویر کو اجاگر کریں جو مصنف کے ذہن میں موجود آتی  اور اُس نے رنگوں کے بجائے الفاظ کے تانے بانے کی مدد سے اُ س کو قاری کے ذہن میں اجاگر کرنے کی کوشش کیا ہے اگر ایک دفعہ قاری کا ذہن اس منظر، واقعہ یا خیال کی تصویر کو دیکھ لیتا ہے جو مصنف دکھانا چاہتا ہے تو اس کا حافظہ اس کو باآسانی یاد میں واپس لا سکتا ہے۔
جب مطالعہ اس طرز سے ہوتا ہے تو انسان کی فہم بھی بڑھتی ہے اور اسطرح سیکھی گئی بات کو کبھی بھی اور کہیں بھی دہرایا جاسکتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ امتحان پاس کرلینے کے بعد بھی وہ حافظے  میں محفوظ رہتی ہے اور عملی زندگی میں کام بھی آتی ہے۔ پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنا سیکھنا بھی خواندگی کا ایک جزو ہے۔ لکھنے سے اصل میں تو یہی بات مراد ہوتی ہے کہ انسان نے بولی جانے والی آوازوں کے ٹکڑے کرکے ان کی مفرد حالتوں کے لئے مختلف علامات مقرر رکھیں اور ان علامات کو حروف تہجی کا نام دے دیا ہے۔ جب کسی لفظ کی مقررہ صوتی علامات یعنی حروفِ تہجی کو ترتیب سے صفحہ قر طاس پر ظاہر کر دیا جاتا ہے تو اس عمل کو تحریر کرنا یا لکھنا کہا جاتا ہے۔ اس عمل کی جوں جوں مشق ہوتی چلی جاتی ہے انسان کے لکھنے کی رفتار بھی اسی نسبت سے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ حروف تہجی کی مقررہ اصوات کو اردو، عربی اور فارسی وغیرہ جیسی زبانوں میں مختلف اعراب لگا کر کئی مزید آہنگ بھی احاطہ تحریر میں لانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
لکھنا سیکھنے کے ضروری ہے کہ انسان حروف کی اصوات کو ذہن نشین کر لے۔ اس کا ایک طریقہ یہ بی آزمایا گیا ہے کہ کسی حرف کو اس کے نام سے یا کرنے کی بجائے اس کی آواز سے یاد کیا اور کروایا جائے۔ مثلاً الف کو الف یاد کرنے کی بجائے اس کو اس کی آواز  یعنی 'آ' سے یاد کیا جائے۔ اسی طرح بے پے تے کی بجائے با، پا اور تا کہنے اور یاد کرنے سے لکھنے میں سہولت اور آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ طریقہ بہر حال کچھ بھی ہو لکھنے کی مشق کئے بغیر یہ سمجھنا کہ لکھنے میں روانی اور خوشخطی میں اضافہ ممکن ہوسکتا ہے محض ایک خام خیالی ہی ہوگی۔
لکھنے کی رفتار اور خوشخطی دونوں کو بیک وقت قائم رکھنا عام طور پر دشوار سمجھا جاتا ہے  اور یہ کہ کر بات کو ٹال دیا جاتا ہے کہ یہ خدا داد صلاحیت ہے۔ حالانکہ یہ محفل مشق کا کمال ہوتا ہے۔ اس کا طریقہ بھی کچھ زیادہ دشوار نہیں۔ لکھنا سیکھنے کے لئے الفاظ کی آوازوں کے ٹکڑے جوڑنا جس کو عرف عام میں ہجے کرنا کہتے ہیں، سیکھنا چاہئے۔ اس سے املا درست ہوجاتی ہے۔ ساتھ ساتھ تحریر کے حسن کا خیال رکھنے کو اگر یہ بھی بتایا جاتا رہے کہ خوشخطی کا اردو کے لئے آسان طریقہ یہ ہے کہ کھڑے حروف یعنی الف لام اور میم کو زاویہ قائمہ پہ سیدھا رکھا جائے اور بیضوی حروف یعنی  جیم ، چے ، سین شین صاد وغیرہ کو بیضوی شکل میں بنانے کی کوشش الگ سے کی جائے۔ جو حروف سطر کے ساتھ لٹا کر لکھے ہیں جیسے بے ، پے، تے وغیرہ کو سطر کے ساتھ لٹا کر لکھنے اور ان حروف کے سا‏ئز میں تناسب کا خیال رکھنے سے لکھائی خوشخط ہو جاتی ہے ۔ محض بچوں کی کاپیوں پی اتنا لکھ دینے سے کہ لکھائی بہتر کریں، لکھائی بہتر ہونے سے تو رہی۔
یوں تو ہر استاذ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے تلامذہ کی تحریر خوشخط ہو اور وہ اس کے لئے کوشش بھی کرتے ہیں لیکن اگر وہ اوپر بیان کردہ چند جملے بچوں کے گوش گزار کرنے کے بعد اس بات کو یقینی بنالیں کہ ان کے شاگرد ان باتوں پر کار بند بھی رہیں تو یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جہاں تلامذہ کی خوشخطی دیکھ کر ایک طرف اساتذہ اور والدین خوش ہوں گے وہاں دوسری طرف بچے ساری عمر اپنے اساتذہ کو دعائیں دیا کریں  گے کہ انہوں نے ان کی لکھائی کو خوش خط بنانے میں اپنا کردار پوری طرح ادا کیا۔
مناسب ہوگا کہ چلتے چلتے انگریزی کا خط درست کرنے کی بابت بھی چند ایک باتیں عرض کر دی جائیں۔ انگریزی لکھنے میں کل چار باتوں کا خیال رکھنے سے انگریزی کی تحریر بھی خوشخط ہوتی ہے۔ انگریزی میں لکھنے کے دو ہی طریقے ہیں ایک جس میں حروف کو الگ الگ لکھا جاتا ہے اس کو پرنٹ رائٹنگ کہتے ہیں اور دوسرا جس میں حروف کو ملا کر قلم بند کیا جاتا ہے اس کو Joining  رائٹنگ کہا جاتا ہے۔ بچوں کو اول اول پرنٹ رائٹنگ پہ ڈالا جاتا ہے اور جب ان کا ہاتھ قدرے رواں ہو جاتا ہے تو ان کو ملا کر لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں خوشخطی کے لئے ضروری ہے کہ
۱۔ حروف کے سا‏ئز یکساں ہوں،
۲۔ حروف اور الفاظ کے درمیان فاصلہ برابر ہو،
۳۔ ہر حرف ایک سے زاویے پہ جھکاؤ رکھتا ہو یعنی لکھے جانے والے تمام حروف میں ایک سا ترچھا پن ہو اور تمام حروف لائن کو دھیان میں رکھ کر لکھے جائیں،۔
۴۔ ہر حرف کی بناوٹ متناسب ہو۔
تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی بچہ بد خط رہ جائے لیکن شرط صرف یہی ہے کہ یہ باتیں بچوں کو کچھ اس طرح ذہن نشین کروا دی جائیں کہ وہ ان کے اندر پختہ اور راسخ ہو جائیں ۔ اور یہ کام مسلسل نگرانی کے بغیر ہو نہیں سکتا۔ اگر اساتذہ کرام زیادہ نہیں تو کم از کم ایک دو ماہ اس بات کی نگرانی کو یقینی بنا کر بچوں پہ یہ احسان کرسکتے ہیں کہ ان کی اردو اور انگریزی دونوں قسم کی لکھائی کو خوشخط بنوا سکتے ہیں۔
یہ نگرانی کی شرط اس لئے ضروری ہے کہ جب انسان کوئی نیا کام سیکھنا شروع کرتا ہے تو وہ اس کام کو ارادی طور کرتا ہے اور یہ انسانی فطرت ہے کہ جب اسکو کوئی کام ارادی طور پر کرنا پڑے تو وہ اس میں غلطیاں بھی کرتا ہے اور اس سے اکتاہٹ بھی محسوس کرتا ہے لیکن جب وہ اس کام کو اچھی طرح کرنا سیکھ لیتا ہے تو پھر وہ اس کام کو غیر ارادی طور  پر کرنے لگتا ہے۔ جب ایسا ہونے لگتا ہے تو پھر اسی کام کو وہ سہولت اور آسانی سے کرنے لگتا ہے۔ جب ایسا ہونے لگتا ہے تو پھر اسی کام کو وہ اس کام کو غیر ارادی طور پر کرنے لگتا ہے۔ جب ایسا ہونے لگتا ہے تو پھر اسی کام کو وہ سہولت اور آسانی سے کرنے لگتا ہے۔ اس کی ایک مثال سائیکل چلانا سیکھنا بھی ہے۔ جب ہم شروع شروع میں سائیکل چلانا سیکھتے ہیں تو چونکہ ہم اس کو ارادی طور پر کرتے ہیںاس لئے بار بار گرتے اور ٹکراتے ہیں۔ لیکن بار بار کی مشق سے جب ہم اس کام کو سیکھ لیتے ہیں تو پھر سائیکل چلانا ہمارے لئے ایک غیر ارادی فعل کی حچیت اختیار کر لیتا ہے اور ہمیں اس کو کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی۔ یہی حال مطالعہ سیکھنے اور اپنی لکھائی کو خوشخط بنانے کا بھی ہے۔ جب تک ہم مطالعہ اور تحریر کے کام کو  ارادی طور پر کرنا چاہتے ہیں، ہمیں اس میں دشواری بھی محسوس ہوتی ہے اور ہم غلطیاں بھی کرتے ہیں اور جب ہم مشق اور لگاتار مشق کرتے کرتے اس مقام کو حاصل کر لیتے ہیں جب یہ کام غیر ارادی افعال کی طرح سرانجام پانے لگتے ہیں تو یہی کام ہمارے لئے باعثِ خوشی ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ منزل حاصل کرنے میں سولہ سترہ سال لگا کر بھی ناکام رہنا، کیا یہ ہمارے نظام کا قصور ہے، ہمارے اساتذہ کی کوتاہی ہے یا خود ہماری اپنی نا اہلی؟
اگر بچوں کو یہ بات سمجھا دی جائے کہ خوشخطی کے حامل افراد کو دو فائدے ہمیشہ حاصل ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ چونکہ اچھا خط دیکھنے میں بھلا لگتا ہے اس لئے ممتحن حضرات خوشخط لکھنے والوں کو زیادہ نمبروں سے نوازتے ہیں اور دوسرے، جو کہ اس سے بھی زیادہ اہم ہے، وہ یہ ہے کہ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ تحریر انسان کے باطن کا عکس ہوتی ہے اور اس لئے خوشخط آدمی اچھی سوچ، اچھے ذہن اور صاف حمیدہ کا حامل گردانا جاتا ہے اور برا خط رکھنے والے کی بابت اس کے برعکس اندازہ کیا جاتا ہے، تو دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بچے بھر  پور کوشش کرتے ہیں کہ کچھ اور ہو یا نہ ہو ، کم از کم ان کا خط تو بہتر ہو جائے۔
انگریزی کے مضمون کی تدریس کے دوران ایک اور مسئلہ بھی اکثر تلامذہ کو درپیش رہتا ہے اور وہ ہے ہجے یاد رکھنے کا مسئلہ۔ اس کا بظاہر واحد حل تو یہی ہے کہ ہجے یاد کئے جائیں۔ اساتذہ اس ضمن میں بچوں کی یہ مدد کرسکتے ہیں کہ ان کو یہ بات سمجھا دیں کہ وہ حروف تہجی کی آوازوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہجے یاد کریں گے تو ان کو ہجے یاد کرنے میں سہولت ہوگی۔ چونکہ انگریزی میں اعراب نہیں استعمال کئے جاتے اس لئے وہاں حروف تہجی میں سے حروفِ علت  ( Vowels)  چار چار اور پانچ پانچ اصوات کے حامل ہوتے ہیں اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ اُن کی آوازوں کو اچھی طرح سے ذہن نشین کروایا جائے۔ اس سے جہاں انگریزی کو انگریزوں ہی کی طرح انگریزی لب و لہجے میں پڑھنے میں سہولت ہوتی ہے وہاں اس طریقے سے یاد کئے گئے ہجے اگر بھول بھی جائیں تو لفظ کی آواز کے ٹکڑوں کی مدد سے انہیں یا داشت میں واپس لایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے بچوں کو املا بول کر الفاظ کو آواز کی مدد سے لکھنے کی مشق کروانے سے ان کو یہ مہارت بہتر طور پر حاصل ہوسکتی ہے۔
ان چند ایک استاذانہ جٹکلوں کو بیان کرنے کا اصل مقصد اس بت کی وضاحت کرنا بھی تھا کہ یہ چند ایک کام ایسے ہیں جو بنیادی اہمیت کے حال ہونے کے باوجود سب کچھ نہیں۔ لیکن ہم یا تو ان بنیادی کاموں کو بھی پوری طرح کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور یا پھر ہم انہی چند ایک کاموں کو سب کچھ مانتے ہوئے، صرف انہی کو انجام دینے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرکے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے اپنا فریضہ ادا کر دیا  ہے، اب دوسروں کا فرض ہے کہ وہ ساتھ ساتھ ہمارا بوجھ بھی اٹھائیں۔
جب بچے لکھنا سیکھ جاتے ہیں تو کوشش کی جاتی ہے کہ اب وہ اپنے ذہن میں آنے والے خیالات کو ایک ترتیب اور سلیقے سے لکھ کر دکھا سکیں۔ اس ضمن میں ان کو مضمون نویسی کی مشقیں کروائی جاتی ہیں ۔ چونکہ بچوں کو اپنے ذہن میں آنے والے خیالات کو نوٹ کرنے کی تربیت نہیں دی گئی ہوتی اور اگر سی بچے میں یہ صلاحیت فطرتاً موجود ہوتی بھی ہے تو اس کو اپنے خیالات کو منظم انداز اور ایک ترتیب سے پیش کرنے کا سلیقہ تعلیم نہ ہونے کے سبب وہ سکڑ اور سمٹ کر اس صلاحیت سے عملاً کنارہ کش ہو  جاتے  ہیں۔
رہ گئی بات مقابلہ مضمون نویسی میں حصہ لینے کی تو اس کا حل بچوں نے یہ تلاش کر لیا ہے کہ وہ چند گھسے پٹے مضامین رٹ کر امتحان میں اتنے نمبر لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ عزتِ اساتذہ بھی رہ جاتی ہے اور اُن کا کام بھی ہو جاتا ہے لیکن اسل مزہ تو اس وقت آتا ہے جب ایک کالج یا یونیورسٹی کا فارغ التحصیل طالب علم کسی فائل پر چند جملے لکھنے کی اہلیت کا مظاہرہ  کرنے میں ناکام ہو کر اس نظامِ تعلیم کو کوسنے بیٹھ جاتا ہے جس نے اس کو چودہ، سولہ سال تک امتحان تو پاس کروا دیئے لیکن اس قابل نہ بنا سکا کہ وہ خود سے چند جملے سوچ کر لکھ لیتا۔
خواندگی کی مانند لکھنے کی اہلیت رکھنے کا مطلب بھی محض کاغذ پر پنے ہاتھ سے کچھ تحریر کر دینا ہی لیا جانے کا انجام ہے کہ آج  شاذ و نادر ہی ایسے لوگ سامنے آتے ہیں جو خود اپنے ذہن میں آنے والے خیالات کو تحریر کا جامہ پہنا سکتے ہوں۔ حالانکہ بات فقط اتنی سی ہے کہ لکھنے کی اہلیت کا اصل مفہوم ہی یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن میں آنے والے خیالات اور افکار کو صفحہ قرطاس کی زینت بنا سکتا ہو۔ یعنی کسی موضوع پر غور کرنے کے نتیجے میں جو بات اس کے ذہن میں آئے وہ اُس بات کو اس طرح سے بیان کرسکتا ہو کہ اُس تحریر کو پڑھنے والے کا ذہن بھی اس بات کا ادراک کرلے۔ اس بات کا تجزیہ کیا جائے تو پہلی بات یہ سامنے آتی ہے کہ اساتذہ کرام کو اپنے شاگردوں کے ذہن کو اتنا زرخیز بنانا ہوتا ہے کہ اُن کے ذہن کی زمین افار و خیالات کی افزائش کے قابل ہو جائے۔ جب ذہن میں خیالات کی افزائش کا  آغاز ہوتا ہے تو اُن خیالات کی حیثیت خود رد پھولوں کی سی ہوتی ہے۔ قاابل اساتذہ اپنے شاگردوں کو ان افکار میں سے انتخاب کا سلیقہ سکھاتے ہیں اور منتخب خیالات کو ایک ترتیب سے بیان کرنے کا فن تعلیم کرتے ہیں۔ اب یہ بیان تحریر کی صورت میں ہوتا ہے یا تقریر کی، یہ بات موقع محل اور شاگرد کی افتاد پر منحصر  ہوتا ہے۔
تقریر کرنا یا لوگوں کے سامنے اپنی بات دلنشین پیرائے میں بیان کرنے کی اہلیت بھی مشق کی متقاضی ہوتی ہے۔ ہماری درس گاہوں میں یوں تو اس بات کا کافی اہتمام کیا جاتا ہے کہ بچوں کو اپنی بات بیان کرنے کی مشق بہم پہنچائی جائے۔ اسمبلی میں تلاوت و ترانے، جماعت میں سبق کو باری باری پڑھانے اور سال میں ایک دو مواقع پر تقریری مقابلے منعقد کروانا وغیرہ بچوں کی اس ضرورت کے پیشِ نظر کیا جاتا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ان مواقع سے زیادہ تر وہ بچے ہی استفادہ کرتے ہیں جن میں اس بات کا فطری رحجان ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کو نمایاں کریں۔ لیکن وہ بچے جو کس قدر شرمیلے ہوتے ہیں وہ اکثر و بیشتر نظر انداز ہو جاتے ہیں، خواہ وہ کتنے ہی قابل کیوں نہ ہوں۔
حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اساتذہ کرام اُن بچوں کو زیادہ توجہ دیں اور ان کو اپنے شرمیلے پن پر قابو پانے میں مدد دیں۔ اس بات کو سب ہی جانتے ہیں کہ کوئی آدمی تقریر کرنے سٹیج پر آتا ہے تو  وہ گھبراہٹ محسوس کرتا ہے۔ آغازِ تقریر میں گھبراہٹ محسوس کرنے کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہوتی ہیں۔پہلی تو یہ کہ آدمی جس موضوع پر بات کرنا چاہتا ہے اُس کو اُس موضوع پہ گرفت حاصل نہیں ہے جس پر وہ بات کرنا چاہتا ہے۔ موضوع کی بابت نا کافی معلومات ہونا یا اس موضوع جس پر وہ بات کرنا چاہتا ہے۔ موضوع کی بابت نا کافی معلومات ہونا یا اس موضوع کی بابت اپنے خیالات کو مناسب ترتیب نہ دے سکنا، یا اس قسم کی دیگر باتیں موضوع پہ گرفت نہ ہونے کی دلیل ہوا کرتی ہیں۔ دوسری وجہ جو بہت ہی عام ہے وہ یہ کہ مقرر لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول پا کر ، اُن کی توجہ کی لہروں کو جذب نہیں کر پاتا اور اپنی توجہ کو موضوع سخن پر قائم رکھنے میں ناکام ہوکر گھبراہٹ کا شکار جاتا ہے۔ اس صورت حال کا واحد علاج یہی ہے کہ اساتذہ کرام اپنے تلامذہ کو یکسو ہوکر اپنی توجہ ایک ہی نکتے پر مرکوز رکھنا سکھائیں۔ جب کوئی آدمی یکسوئی حاصل کر لیتا ہے تو اُس کو اپنے خیالات کو ایک نکتے پر مرکوز رکھنے، انہیں مناسب انداز میں ترتیب دینے اور دوسروں کی توجہ کی لہروں کو نظر انداز کرنے میں دشواری نہیں ہوتی اور وہ اپنی بات سہولت اور آسانی سے بیان کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ اگر تعلیم کا مقصد محض خواندگی ہے تو ہم خیر سے اس کام میں پوری طرح سے کامیاب ہیں کیونکہ دس تا سولہ سترہ سال بعد ہر کوئی کتاب پڑھ بھی سکتا ہے اور خوشخط یا  بد خط اردو اور انگریزی لکھ بھی لیتا ہی ہے۔ لیکن اگر اس کا مطلب حصولِ علم اور اس علم کا تقریر و تحریر کے ذریعے اظہار ہے، تو ہم کامیابی کی منزل سے ابھی کوسوں دور ہیں اور ابھی ہمیں اس جہت میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

اس ضمن میں یہ بات بہت ہی غور طلب ہے کہ اگر محض خواندگی کے مراحل ہم دس بارہ سالوں میں عبور کرتے ہیں تو مزید پانچ یا چھ سال کس مد میں صرف کرتے ہیں؟ اگر یہ مان لیا جائے کہ میٹرک تک بچوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھایا جاتا ہے اور اس کے بعد انہیں کسی ہنر، فن یا علم میں طاق کرنے میں پانچ چھ سال مزید لگ جاتے ہیں۔ کہنے کی حد تک تو یہ بات بہت ہی احسن اور صائب لگتی ہے لیکن فی الواقع  اور عملاً جو صورتحال ہم دیکھتے ہیں وہ تو اس کے بالکل ہی متضاد ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ان مزید پانچ چھ سالوں میں بھی ہم اپنے تلامذہ کو محض خواندگی ہی کی مزید مشق         کروانے میں لگے رہتے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

GUIDANCE NEEDS AND PROBLEMS OF YOUNG PEOPLE

HISTORY OF THE GUIDANCE MOVEMENT

"Aims and Objectives of Education"