نئی نسل
نئی نسل
دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ جہاں خود ایک طرف نئی نسل
کا رکن بنتا ہے وہیں دوسری طرف وہ اپنے ماں باپ
کو نئی نسل کی صف سے نکال کر پرانی نسل کی قطار میں کھڑا کر دیتا ہے۔ ماں
باپ اپنے بچے کو خود سے بہتر بنانا چاہتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں بھی کر پاتے تو
یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ اُن کا بچہ زندگی میں ان سے بہتر مقام تک نہیں پہنچتا
تو کم از کم کامیابی کی اس منزل تک تو ضرور پہنچ جائے جہاں وہ خود کو پاتے ہیں۔ اب
یہ بتانا تو دشوار ہے کہ فطرت ان کی اس خواہش کے پیشِ نظر اُن کے دل میں اپنی
اولاد کے لئے پیا بھر دیتی ہے یا پھر اپنی اولاد کے پیار کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ ایسی خواہش کرتے ہیں۔ بہر حال اس
بحث سے قطع نظر کہ ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ ایسی خواہش پیدا ہوتی ہے یا اولاد
کی بہتری کی خواہش ممتا کو جنم دیتی ہے،
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ اولاد کے حوالے سے ماں باپ کی ہر خواہش اپنی اولاد کی
بہتری کے لئے ہی ہوتی ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کے ہاتھوں ماں باپ پہلے روز سے ہی بچے
کی دیکھ بھال، نگہداشت، پرداخت اور تربیت میں جُت جاتے ہیں۔
اس تربیت کا انداز ہر ماں باپ کی اپنی ذہنی سکت، علمیت،
قابلیت اور اس معاشرتی رتبے اور مقام کا آئینہ دار ہوتا ہے جو انہوں نے خود اپنی
زندگی میں بنایا یا حاصل کیا ہوتا ہے۔غریب آدمی اپنے بچے کو صاحب لوگوں کی عزت
کرنے کا درس ہی دیتا ہے اور امیر لوگ اپنے بچوں کو غریبوں کو ایک فاصلے پر رکھنے
کو اسی لئے کہتے ہیں کہ ہر دو اپنے بچوں کو کسی بھی اسی صورتِ حال سے بچانا چاہتے
ہیں جو ان کے لئے پریشانی یا شرمندگی کا موجب ہو۔ اسی طرح ایک غیر تعلیم یافتہ باپ
اپنے بچے کو جو کچھ سکھاتا ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو تعلیم یافتہ والدین
اپنے بچے کو تعلیم کرتے ہیں۔ بچوں کو جیسے کپڑے اور لباس اس کے و الدین پہناتے ہیں
وہی ان کا پہناوا بن جاتے ہیں۔ جو کچھ ماں باپ کھانے کی ترغیب دیتے ہیں وہی کچھ
بچے کھاتے اور پیتے ہیں۔ جو خوراک چینی اور جاپانی والدین اپنے بچوں کو مہیا کرتے
ہیں ہمارے بچے اس کے لئے ضد کریں تو والدین اُن کی ذہنی صحت کے حوالے سے متردّد ہو
جائیں۔ اسی طرح جہاں شہری علاقوں کے بچوں کو طہارت کے لئے پانی کے استعمال کی عادت
ڈالی جاتی ہے وہاں دیہاتوں میں اس کے بغیر ہی گزارا کرنا سکھا دیا جاتا ہے۔
جب بچے اسکول جانے کے قابل ہو جاتے ہیں تو ماں باپ انہیں
لکھنا پڑھنا سکھانے کے لئے مدرسوں اور اسکولوں میں داخل کروا دیتے ہیں۔ اب یہاں سے
بچوں کی زندگی میں اساتذہ کا عمل دخل آغاز ہو جاتا ہے۔ بچہ جب پہلے دن سکول جاتا
ہے تو وہ اپنے والدین کی دی ہوئی تربیت کے زیرِ اثر سیکھی ہوئی باتوں کو اپنے ساتھ
لے کر جاتا ہے۔ وہاں پہ اساتذہ اُس کی اچھی باتوں کی تعریف اور بُری باتوں کی
تنقیص کرکے اُس کو اِس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ گھر سے سیکھ کر آنے والی
باتوں کی بجائے اُن کی تعلیم کردہ باتوں کو اپنا لے۔ بچے کونت نئے دوست بنانے کا
موقع بھی نہیں ملتا ہے اور اِس طرح اُس کی زندگی میں اثر پذیر ہونے والے افراد کا
ایک نیا دریچہ وا ہو جاتا ہے۔ اب وہ اپنے معاملات میں اپنے دوستوں سے مشورے کرتا
اور ان سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اگر والدین اور اساتذہ کی تعلیم زیادہ متاثر کن نہ
ہو تو وہ اپنے دوستوں کی صحبت میں جو کچھ سیکھتا ہے اس کے اثرات اس کی شخصیت میں
زیادہ جذب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ اثرات اچھے ہوتے ہیں یا بُرے، اس بات کا فیصلے
کرنے کے لئے بچے کا شعور کافی نہیں ہوسکتا اس لئے یہ ذمہ داری والدین اور اساتذہ
کرام، دونوں کی بنتی ہے کہ بچوں کی اچھے دوستوں کے انتخاب میں راہنمائی کریں ورنہ
بڑے ہوکر تو بچے اپنے بُرے اور بھلے کا فیصلہ کر ہی لیتے ہیں۔
ہمارے یہاں سکولوں اور تعلیمی اداروں کی بنیادی طور پر دو
قسمیں ہیں۔ دینی مدرسے اور سکول۔سکول بھی ادارو اور انگلش میڈیم کی دو اقسام کے
ہوتے ہیں۔ مڈل تک کم و بیش نو دس سال تک یہی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ سکولوں میں جانے
والے بچے اس کے بعد آرٹس، پری انجنیئرنگ یا میڈیکل میں سے کسی ایک شعبے کا انتخاب
کرنے کے بعد میٹرک کرتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ بچے کالجوں کا رخ کرتے ہیں اور باقی کو
معاشرہ اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ کالجوں کا ماحول سکولوں کی نسبت کافی مختلف ہوتا
ہے یہاں آکر بچے ایک طرح کی آزادی محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ ذمہ داری کا احساس
کرنا سیکھتے ہیں۔ میٹرک کے بعد گریجویشن تک ، چار سال صرف ہوا کرتے تھے اب نئی
ہدایات کے تحت وہ چھ کر دئیے گئے ہیں، بچہ مزید باشعور ہو جاتا ہے اب اکثر بچے
روزگار کی تلاش کی طرف مائل ہونے پر مجبور کئے جاتے ہیں یا وہ ہو جاتے ہیں۔ جن
بچوں کو دل پسند نوکری یا روزگار نہیں
ملتا وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ محض اس لئے کرتے ہیں کہ بہتر ڈگری کے حصول
کے بعد اُن کو روزگار کے بہتر مواقع مل سکیں۔
روزگار کے حصول کے بعد بچوں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی شادی
بیاہ کا ہوتا ہے اور شادی کے بعد بچے خود ماں باپ بن کر اپنے بچوں کی دیکھ بھال
کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تویوں لگتا ہے ہ سب ٹھیک ہی ہے
لیکن غور و فکر کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ سب اتنا بھی ٹھیک نہیں ہے کہ ہم بیٹھ کر چین کی بانسری ہی بجانا شروع کردیں۔
یعنی ابھی بہت کچھ ہوسکتا ہے اور بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس بہت کچھ میں اس بات کا
جائزہ لینا بھی شام ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کے لئے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اُس میں
وہ خود ہماری کیا اور کتنی مدد کرسکتے ہیں؟
اس بات کو سمجھنے سے پہلے اگر ہم یہ طے کرلیں کہ تعلیمی
نظام کا چوتھا رکن ہونے کے ناتے ہماری نئی نسل کی بھی کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں۔
ایسا ہر گز نہیں ہے کہ فرائض اور تو سب کی سب حکومت، والدین اور اساتذہ کرام کے سر
ڈال دی جائیں اور تمام حقوق بشمول حقِ تنقید اور احتساب اُن کے حوالے کر دیا جائے
جو خود اپنی تربیت کروانے پر بھی رضامند نہ ہوں ۔ ہمارے نظامِ تعلیم کی دگر گو
حالت کی ایک بڑی وجہ یہی تو ہے کہ نئی نسل اپنے فرائض سے غفلت اور کوتاہی کو بھی
اپنا حق سمجھتے ہوئے ہر اس کام سے پلو تہی کی مرتکب ہو رہی ہے جس میں خود ان کی
اپنی بہتری اور بھلائی مضمر ہوتی ہے۔ اب کتاب نہ پڑھنا ، اس کو سمجھنے کی کوشش ہی
نہ کرنا، سمجھ کر اس پر مثبت انداز میں عمل نہ کرنا اور سمجھنا کہ تعلیم ان کو
فائدہ نہیں پہنچا رہی ، کیا یہ وہی صورت حال نہیں کہ ایک مریض ڈاکٹر کے پاس چلا تو
جائے لیکن نہ تو اس کے مشورے پر عمل کرے، نہ اس کی تجویز کردہ دوا کھائے اور نہ ہی
ان باتوں سے پرہیز کرے جن سے ڈاکٹر نے منع کیا تو ایسے مریض کی شفا یا بی کا کتنا
امکان ہوسکتا ہے۔ ان سب باتوں کے بعد شکوہ سنج ہوکر یہ کہنا کہ اُن کے ساتھ جو کچھ
ہو رہا ہے وہ سب غلط ہے، کس حد تک درست موقف ہوسکتا ہے؟
درحقیقت نئی نسل کا یہ مسئلہ اصل میں ویسا نہیں ہے جیسا کہ
ہمارے یہاں در آنے والی زرد صحافت اس کو بنا کر پیش کرتی ہے۔ ہماری نئی نسل کو یہ
بنیادی بات سمجھنا چاہئے کہ کسی عالم کے علم کی بابت کسی بے علم کی رائے کوئی وقعت
نہیں رکھتی۔ ایک نہ جاننے والا کسی جانکاری رکھنے والے کی بات کو سمجھنے میں
دشواری تو محسوس کرتا ہی ہے لیکن اس دشواری کے سبب وہ علم رکھنے والے کے علم ہی کو
رد کر دے، یہ جہالت ہی کا کارنامہ ہوسکتا ہے۔ والدین جب بچوں سے یہ دریافت کرتے
ہیں کہ تمہارا فلاں استاذ کیسا پڑھاتا ہے اور بچہ ٹھنک کر فیصلہ دے دیتا ہے کہ وہ
تو ٹھی طرح نہیں پڑھاتے تو والدین کو چاہئے کہ وہ ایک طرف تو اپنے بچے کو یہ سمجھائیں کہ اچھا بچہ تو وہی
ہوتا ہے جو خود سیکھنے کی طلب رکھتا ہے اور بُری طرح پڑھانے والوں سے بھی سیکھ کر
دکھاتا ہے اور دوسری طرف خود اس بات کی کھوج لگائیں کہ اصل معاملہ کیا ہے اور جب
یہ طے ہو جائے کہ مذکورہ استاذ بچوں کو پڑھانے کا واقعتاً اہل نہیں ہے تو انہیں یہ
کوشش کرنی چاہئے کہ یا تو وہ استاذ خود کو سدھار لیں اور یا پھر وہ اپنے بچے کو
اُس کی تحویل سے ہٹا دیں۔
ادھر نئی نسل سمجھتی ہے کہ والدین اور اساتذہ کرام ان کے
لئے کچھ نہیں کر رہے، اُن کو اُن کے مسائل کو کوئی شعور ہی نہیں اور اُدھر والدین
اور اساتذہ کرام دونوں شاکی ہیں کہ نئی نسل اُن کی بات پر دھیان نہیں دیتی، اُن کی
عزت نہیں کرتی، اُن کی بات نہیں مانتی، جو کچھ ان کو کرنے کو کہا جائے وہ ویسا
بالکل بھی نہیں کرتے۔ یہ بہت غور طلب بات ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اگر نئی نسل کے نکتہ
نظر کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے بارے میں ہل من مزید کا
نعرہ تو بلند کرتے ہیں لیکن انہیں انکے فرائض کی بروقت اور بھر پور ادائیگی کی طرف
متوجہ کرنے میں والدین اور اساتذہ دونوں ہی ناکام ہے ہیں۔ اسی طرح اگر والدین اور
اساتذہ کے نکتہ نظر کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو وہ چاہتے ہیں اس کی
بنیاد خواہش اقتدار کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ وہ اپنی نئی نسل کی تربیت میں ایثار
اور قربانی کے بجائے محض اپنی بڑائی اور بزرگی کے زعم میں اپنی احکامات کی تکمیل تو
چاہتے ہیں لیکن بچوں کو اُن احکامات میں مستور حکمت کو سمجھنے کا شعور بیدار نہیں
کرتے لہٰذہ بچے اس رویے کا مظاہرہ کر بیٹھتے ہیں جو مغربی معاشرے میں جنریشن گیپ کہلایا۔ حالانکہ وہ خود
اس صورت حال کو بچوں اور بڑوں کے مابین Lack of Communication یعنی رابطے
کا فقدان مانتے ہیں اور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کے دونوں کو آپس میں رابطہ بھی
رکھنا چاہئے اور ایک دوسرے کی بات سمجھنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔سیدھی سی بات ہے کہ اگر والدین
اور اساتذہ اپنے بچوں کو اپنے نکتہء نظر کی وضاحت منطقی انداز اور عقلی دلائل کے
ساتھ کرنے کی زحمت گوارا کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ نئی نسل قائل ہوکر ان کا کہا نہ مانے۔ اس بات کا دھیان رکھنے
کی ضرورت ہے کہ بچے ماں باپ یا اساتذہ کرام کی بات نہ ماننے کے مرتکب کب ہوتے ہیں
اور کیا اس وقت والدین یا اساتذہ اُن کے ساتھ کھلے ذہن کے ساتھ بات کرنے پر آمادہ
ہوتے ہیں یا نہیں۔ اور اگر بچے کبھی
اپنے والدین کے کسی فیصلے یا طرزِ عمل پر تنقید کر بیٹھتے
ہیں تو کیا وہ اس تنقید کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان سے بات کرکے اپنے نکتہ نظر کی
وضاحت کرتے اور اُن کو اعتماد میں لیتے ہیں یا اپنی سہولت کے لئے اپنے حق برتری کا
استعمال کرتے ہوئے ان کو ڈپٹ کر چپ کروا دینے کی راہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر
والدین اور اساتذہ اتنی سکت بھی نہیں رکھتے کہ ایک بچے کو اپنا نکتہ نظر سمجھا کر
اُس کو اپنا ہم نو بنا سکیں تو بات نہ منوا
سکنے کا الزام تو انہی کے سر رہا نہ کہ اس کا قصور دار بچے کو ٹھہر کر اس
کو قابلِ گردن زدنی قرار دے دیا جائے۔
داناوں کا کہنا ہے کہ اگر بچے بڑوں کی بات نہیں مانتے اور
بڑے کسی بھی طور ان کو اپنی بات ماننے پر قائل نہ کر سکیں تو بڑوں کو چاہئے کہ وہ
ان کی بات مان لیں خاص طور پر جب کہ معاملہ خود بچوں کی اپنی زندگی کو ہو۔ کیونکہ
اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہی بنتا ہے کہ اب بچہ بڑا ہوگیا ے کہ وہ خود اپنے بُرے
بھلے کو اپنے بڑوں سے بہتر سمجھنے لگا ہے اور یا پھر یہ کہ اسے اپنے بڑوں پر وہ
اعتماد نہیں رہا جس کے زیرِ اثر وہ ان کی بات مان سکتا تھا۔ اِن میں سے جو بھی
صورت ہو اپنی اور بچے کی خاطر عافیت اسی میں ہے کہ اس کی بات مان لی جائے۔ اگر وقت نے بچے کی بات درست ثابت کر دی تو بہت خوب
ورنہ اس طرح بچہ عملی طور پر ناکامی سے دو چار ہوکر جو سبق سیکھے گا وہ بالآخر
اسی کی کام آئے گا اور بڑے اس کی نگاہ میں مزید محترم ہو جائیں گے کیونکہ اس طرح
اس پر یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ کچھ غلط نہ کہتے تھے۔
Comments
Post a Comment