روحانی والدین

روحانی والدین
اساتذہ کرام کی بابت یہ بات کس کے علم میں نہیں کہ وہ اپنے وہ تلامذہ اور شاگردوں کے لئے روحانی والدین کی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو یہ دیکھ کر عقل و شعور اور وجدان اور آگہی سر پیٹ کر رہ  جاتے ہیں کہ ہم روحانی تو درکنار اساتذہ کرام کو محض والدین جتنا رتبہ دینے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
اس بات کا اگر اس حوالے سے جائزہ لیا جائے کہ ہماری اس ناکامی کی اصل وجوہات کیا ہیں اور اس تمام صورتِ حال کا غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تاکہ ان عوامل کا  کھوج لگایا جا سکے جو اُس دگرگوں حالت کا اصل سبب ہیں، تو پہلی بات جو ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ روحانی والدین ہونے کے اس منفرد اعزاز ، اعلیٰ مقام اور بلند رہے کو کھو دینے میں اساتذہ کرام کا اپنا قصور بہت ہی نمایاں ہے۔ آخر وہ بھی تو استاذ تھے جنہیں اُن کے تلامذہ اور شاگردوں نے اس لقب سے یاد کر اپنی سعادت سمجھا تھا۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کی تلاش کریں کہ آج کا استاذ اس مقامِ گم گشتہ کو حاصل کیونکر اور کیسے کرسکتا ہے۔
اساتذہ کی حالتِ زار اور تعلیمی نظام میں موجودہ خرابی اور بگاڑ وہاں سے شروع ہوا جب لوگوں نے خواہشِ قلبی اور جذبہ درس و تدریس کے تحت نہیں بلکہ محض اک وسیلہء روزگار کے طور پر استاذ بننا قبول کیا۔ درس و تدریس کی حرمت کو بچانے کے لئے جیسی شخصیت اور جتنی توانائی درکار تھی اس کی توقع ان سے کرنا جو کردار سے اس حد تک عاری ہوں کہ محض چند ٹکوں کی خاطر پر چوں میں ردو  بدل سے لے کر اضافی نمبر تک لگانے سے گریز نہ کرتے ہوں اور علم سے اس قدر بےگانہ ہوں کہ اگر کوئی شاگرد کوئی ایسا سوال دریافت کرلے جس کا جواب انہیں نہ آتا  ہو تو وہ اس بات کو اپنی بے عزتی پر محمول کرتے ہوں، ایک احمقانہ خواہش ہی ہوسکتی ہے اور اس لحاظ سے ہم سب ہی اسی احمقانہ خواہش کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس تیل سے یہ آگ جلنا شروع ہوئی تھی اُس ہی تیل کو اس آگ کو بجھانے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایسا سمجھنا ہماری سادگی سے  زیادہ جہالت ہی کی دلیل ہوسکتی ہے۔
اس صورت حال کو سمجھنے کے لئے اگر یہ سروے کیا جائے کہ آج کے طلباء کی آئیڈیل شخصیت ہے اور میں اپنی زندگی میں انہی جیسا انسان بننا چاہتا ہوں۔ ماضی میں بھی لے دے کر ہمیں ایک مولوی میر حسن ہی کی مثال ملتی ہے۔ آپ علامہ اقبال جیسی نابغہ روزگار ہستی کے استاذ تھے۔ جب حکومت برطانیہ  نے علامہ اقبال کو سرکا خطاب دیا تو انہوں نے فرمائش کی کہ اس خطاب کے اصل حقدار تو مولوی صاحب ہیں اس لئے آپ یہ خطاب انہیں کو دیں۔ اس پر کہتے ہیں کہ ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا انہوں نے بھی کوئی معرکتہ الآ راء کتاب  تصنیف کی ہے تو اقبال نے بڑی رسا نیت سے کہا تھا جی ہاں اور پھر اپنی طرف اشارہ  کرکے کہا کہ وہ کتاب میں ہوں۔
یاد رہے کہ مولوی میر حسن نے اقبال کو ان کی تعلیمی زندگی کے ابتدائی دور میں ہی  مستفیض کیا تھا۔اقبال نے بعد میں اور بہت سے اساتذہ سے بھی اکتسابِ فیض کیا لیکن سرکا خطاب لیتے وقت صرف انہی کو یاد کیا اور نہ صرف  یاد کیا  بلکہ انہی کو اس خطاب کا اصل حقدار بھی ٹھہرایا۔  اس میں اقبال کی احسان مندی کا جذبہ اپنی جگہ لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اقبال نے اپنی زندگی میں تو ملکی اور غیر ملکی، دیسی اور بدیشی بہت سے اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا تھا لیکن ان تمام میں سے انہوں نے صرف مولوی صاحب کا نام ہی کیوں لیا۔ کیا اُن کا یہ کہنا کم معنیٰ خیز ہے کہ میں خود انکی زندہ و جاوید تصنیف ہوں۔ مولوی میر حسن کے بعد سے آج تک کتنے اساتذہ نے ان کی قائم کی گئی مثال کے موجب کتنی زندہ و جاوید تصانیف اپنے پیچھے چھوڑی ہیں؟ یہ بات آج کے کتنے اساتذہ کا مقصد حیات ہے کہ وہ اپنے پیچھے زیادہ نہیں تو کوئی ایک آدھ انسان تو ایسا بنا جائیں جو اپنے ساتھ ان کی نیا کو بھی پار لگا سکتا ہو؟
اصل بات یہی ہے کہ اساتذہ کرام کو یہ بات سمجھنا  ہوگی کہ خود اُن کا اپنا بھی کوئی مقصد حیات ہونا چاہئے۔ جب اُن کی اپنی زندگی کا کوئی مقصد اُن کے پیشِ نظر ہوگا  تو وہ اپنے شاگردوں میں بھی کوئی نہ کوئی اعلیٰ نصب العین پیدا کر دیں گے۔ ورنہ تو بات لکھنا پڑھنا سکھانے تک ہی رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ اب رہی بات کہ  اساتذہ کا اپنا نصب العین کیا ہونا چاہئے تو اس ضمن میں اگر چہ یہ بات خود اساتذہ کرام کے اپنے طے کرنے کی ہے لیکن بطور ایک استاذ کے ان کا مقصد اور آدرش اس کے سواء اور کیا ہوگا کہ اپنے شاگردوں کو ایک بہترین انسان بنا دیں اور ظاہر ہے کہ کسی کو ایک بہتر انسان وہی بنا سکتا ہے جو خود اس صفت سے متصف ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر استاذ ، ہر ٹیچر اور ہر سکھانے والا اپنے اندر اُن صفات کو راسخ کرنے کی طرف متوجہ ہو جو وہ اپنے شاگردوں میں موجود دیکھنا چاہتا ہے۔ کیونکہ سیکھنے والوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ جو بات اُن کو تعلیم کی جائے اس کا عملی نمونہ وہ ضرور طلب کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی صاحب جو خود جھوٹ بولنے کو  بُرا نہ سمجھے ہوں اگر کسی سے یہ فرمائش کریں گے کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے تو لا محالہ سننے والا اگر منہ سے نہ بھی کہے تو کم از کم یہ سوچتا ضرور ہے کہ جب یہ صاحب خود اس بات کو بُرا نہیں سمجھتے تو مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ میں بوقتِ ضرورت بھی جھوٹ کا سہارا نہ لوں۔
اگر اساتذہ کرام میں یہ شعور اجاگر ہو جائے کہ محض لکھنا پڑھنا سکھا دینے سے کسی انسان کی شخصیت میں جاذبیت اور کردار میں دلنشینی کی توقع کرنا غلط ہے کیونکہ لکھنا پڑھنا سیکھ کر جب تک اس مفہوم کو سمجھانہ جائے جو بصورتِ تحریر ان کو مطالعہ کرایا جاتا ہے اور  سمجھ کر اس پر عمل پیرا نہ ہوا جائے تو شخصیت اور کردار میں اس کے اثرات کا  رچاؤ پیدا نہیں ہوسکتا۔  
اس معاملہ کا ایک اور زاویے سے بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے اور وہ کچھ یوں ہے کہ آج کے اساتذہ کرام کو جہاں ایک طرف آج کے دور کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، اپنے تلامذہ کو مطالعہ کرنا سکھانے ، نصاب میں شامل مضامین کو سمجھنے کا طریقہ تعلیم کرنے ، اس کو یاد رکھنے اور حافظے میں اتارنے کے گُر بتانے، اور امتحان پاس کرنے کے داؤ پیچ سکھانے، تیس چالیس بچوں کی کلاس اور ہوم ورک کی کاپیاں چیک کرنے، اپنی اسکول ڈائریاں لکھنے، پر چوں  کے انبار چیک کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے شاگردوں کو حاصل شدہ علم کو عملی طور پر برتنے، اس کو اپنی شخصیت اور کردار کا جزو بنانے کا ہنر اور فن بھی تعلیم کرنا ہوتا ہے وہاں ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ اپنے شاگردوں میں اخلاقی اقدار کا پاس رکھنے کا جذبہ ابھارنا، ایک دوسرے سے باہمی تعاون کرنا سکھانا، اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہونے دینے کی عادت پیدا کرنا بھی ا ساتذہ کرام ہی کی ذمہ داری قرار دیا جاتا ہے۔ ان سب کے بعد پرائیویٹ ٹیوشنز پڑھانا، امتحانات کی نگرانی سے لے کر مردم شماری اور الیکشن میں پولنگ کروانے کے فرائض کی ادائیگی ان سب پر مستزاد۔  الغرض یہ کہ اگر ہم اساتذہ گرام کی ذمہ داریوں اور ان باتوں کی فہرست بنائیں جن کی اُن سے توقع کی جاتی ہے تو یہ فہرست اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ اس کو پورا کرنا انسانی سکت سے باہر کی ایک ایسی مہم سے کم نہیں ہوسکتا جس کے لئے شائد عمر خضر بھی کم ہو ورنہ بصورتِ دیگر تو یہ سب کام پورا  کرنے کے لئے کسی بوتل کے جن کو ہی دریافت کرنا پڑے گا جب کہ یہ سب کام ہمارے اساتذہ کرام تو پہلے سے ہی کر رہے ہیں تو پھر آخر ہم اس سے اُسی تنخواہ میں مزید اور کیا کچھ کروانا چاہتے ہیں۔ اب وہ بچوں کے الٹے سیدھے سوالوں کے جواب بھی دیں، کلاس میں ڈسپلن بھی برقرار رکھیں، اپنے علم میں اضافے اور معلومات کو بڑھانے کے لئے خود مطالعہ بھی کریں، رزلٹ کارڈز بھی تیار کریں اور پھر شاگردوں کے والدین کو مطمئن کرنے کی کوششیں بھی انہی کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں۔ یہ سب اور ان کے علاوہ اور بہت سی باتیں ہمارے اساتذہ کرام جیسے تیسے بن پڑتا ہے، کر ہی رہے ہیں تو پھر مسئلہ کیا ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود ہمارا معیار تعلیم دن بدِن گرتا ہی چلا جارہا ہے اور ہم اس کو بہتر بنانے کے خواب دیکھنے کے باوجود اس کو بہتر کرنے میں ناکام ہونے کے بعد امتحانی نتائج کے ہندسوں میں ردو بدل تک کر گزر رہے ہیں۔
اس زاویے سے دیکھیں یا کسی اور زاویے سے ، پھر پھرا کر ہم اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسئلہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اپنے ملک کے گرتے ہوئے معیارِ تعلیم کو کیونکر بہتر کیا جائے؟ اس مسلئے کو حل کرنے کی بہت سی کوششیں کی گئی ہیں اور کی بھی جارہی ہیں۔ ہر کس  و ناکس، اپنی اپنی سمجھ کے مطابق، مقدور بھر ہمت بھی کر رہا ہے اور خواہش تو سب ہی کی ہے کہ کسی نہ کسی طور ، جتنی جلد ممکن ہو، ہم اس مسلئے کو حل کرلیں اور یہی وہ امید افزاء اور حوصلہ کن بات ہے جو ہمیں مایوس نہیں ہونے دے رہی ہے۔
اس مسلئے  کو نہ تو اکیلے حکومت نے حل کرنا ہے اور نہ ہی وہ اکیلے اس کو حل کر سکتی ہے۔ اسی طرح یہ سمجھنا بھی غلط ہی ہے کہ یہ مسئلہ محض والدین کی انفرادی سعی اور جدوجہد سے حل ہو سکتا ہے ۔  اور یہ سمجھنا کہ صرف اساتذہ کو مورد الزام ٹھہرا کر اور اس مسلئے کو حل کرنے کی ذمہ داری اُن کے کاندھوں پر ڈال دینے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، ہرگز بھی درست نہیں ہوگا۔ اسی طرح ہم محض اپنے بچوں سے ہی یہ آس لگا بیٹھیں کہ وہ خود ہی کچھ کر لیں گے تو یہ تو بالکل ہی ناروا سوچ ہوگی۔ کہنے کا مطلب فقط یہ ہے کہ اس مسلئے کا حل اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ نظامِ تعلیم سے متعلق چاروں حصہ دار اپنے اپنے حصے کا کام پورا کرنے کی ٹھان لیں۔ جو کام حکومت کے کرنے کے ہیں وہ اس کو کرنے چاہئیں، جو ماں باپ کے کرنے کے ہیں وہ انہی کو کرنا ہونگے، جو اساتذہ کرام کے کرنے کے ہیں وہ انہی کو پورا کریں اور جو کام بچوں کے کرنے کے ہیں ظاہر ہے کہ ان کو کوئی  دوسرا کرے بھی تو کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اس وقت بات چونکہ اساتذہ کرام کی ہو رہی ہے اس لئے ان کے حوالے سے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ اپنا کردار کس طرح ادا کریں کہ دلخواہ نتائج کا حصول ممکن ہو جائے۔
اس امر میں بہر حال کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا کہ درس وتدریس کے حوالے سے دیکھا جائے تو اساتذہ کرام کی ذمہ داریاں باقی حصہ داروں کی نسبت اس لئے بڑھ جاتی ہیں کیونکہ والدین اپنے بچے اسی مقصد کے لئے ان کے حوالے کرتے ہیں کہ وہ اُن کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کردیں اور ان کو اس کام کا معاوضہ بھی ادا کیا جاتا ہے۔ اُن کو  اُن کے وقت اور محنت کے عوض جو کچھ بھی دیا جاتا ہے یہی سمجھ کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کام کو بحسن و خوبی ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اب اس حوالے سے اساتذہ کرام کی ذمہ داریاں دیگر ہر رکن کی نسبت دو چند ہو جاتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ  ہونے کے لئے نہیں بلکہ خود اپنے اطمینانِ قلب اور روحانی تسکین کے لئے ضروری ہو جاتا  ہے کہ اساتذہ کرام اپنے کام کو محض کام سمجھ کر بیگار ٹالنے کی طرح کرنے کی بجائے اس کو اپنا فریضہ اور ایک سعادت سمجھ کر انجام دیں۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ ، جو علمائے باطن میں ایک منفرد مقام کے حامل ہیں، کافر مانا ہے کہ 'ایک استاذ کا اسل کام اپنے شاگرد میں کسی صلاحیت کو بیدار کرنے میں مدد کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ وہ مصور کی مثال دے کر فرماتے ہیں کہ مصوری کا فن سکھانے والا استاد یہ تو ضرور بتاتا ہے کہ پنسل کو کس طرح استعمال کیا جائے اور  کس عضو کے نقوش کو کس طرح ترتیب دیا  جائے لیکن تصویر کا عکس استاذ اُس کے ذہن میں منتقل نہیں کرتا۔ وہ اس کے باطن میں پلے سے موجود ہوتا ہے۔ استاذ اپنے شاگرد کی راہنمائی اس طرح سے کرتا ہے کہ وہ اپنے باطن میں موجود  خدوخال اور نقوش کو کاغذ پر منتقل کرلیتا ہے'۔
اساتذہ کرام خواہ وہ مادی فنون کی تدریس کرتے ہوں عملی ہنر مندی سکھاتے ہوں یا ادب اور فلسفے جیسے مضامین پڑھاتے ہوں اُن کو اس بات کو سمجھنا ہی پڑے گا ور اُن کو اپنی پوری توجہ اس امر پہ مبذول کرنا ہوگی کہ اُن کا اصل فریضہ اپنے تلامذہ کے اندر موجود صلاحیتوں کو ابھارنے میں معاونت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی مدِنظر رکھنا ہوگی کہ کسی خاص صلاحیت کو ابھارنے کے لئے ایک خاص قسم کی مشق کرنا لازم ہوتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح کسی بھی فن میں مہارت بہم پہنچانے کے لئے اس فن سے متعلق کچھ خاص قسم کی مشق کرنا ضروری ہوتا ہے۔
انبیاء کی تعلیمات کے مطابق علم خرج سے باطن میں داخل نہیں ہوا کرتا بلکہ باطن سے خارج کی سمت بہاؤ رکھتا ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی دلیل انبیاء کا اُمّی ہونے کے باوجود ہر دو عام اور خاص، مادی اور روحانی دونوں علوم میں نوع انسانی کی راہنمائی کے قابل ہونا ہے۔ اس لئے اگر آج کے اساتذہ کرام اس  نکتے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے تلامذہ کو اُن کے باطن کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ان کا کام بہت آسان ہو جائے گا۔ اس سے جہاں ایک طرف ان کے تلامذہ کی فکر میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوگی بلکہ ان کی شخصیت بھی نکھر تی چلی جائے گی اور وہ بہتر کردار کے حامل بھی ہوتے چلے جائیں گے ۔ بصورتِ دیگر ہر دو امرض میں اضافے کا سبب ہی بنتی رہی ہے سو آئندہ بھی بنتی ہی رہے گی۔ ہم فطری بہاؤ کے خلاف جتنی دیر تیر سکتے تھے ہم نے تیر لیا اگر ہم نے اب بھی فطری بہاؤ کے ساتھ تیرنا شروع کر دیا تو نہ صرف یہ کہ ہم ڈوبنے سے بچ جائیں گے بلکہ اپنی منزل تک بھی پہنچ جائیں گے۔
فطرت کا چلن کچھ یوں ہے کہ تشنگی اور پیاس کو بجھانے کے لئے پانی کی فراہمی دو ممکن انداز سے کرنے کے بعد اس بات  کا اختیار کرنا انسان پہ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ خارج میں موجود جو ہڑوں، ندی ، نالوں، چشموں اور دریاؤں سے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے یا اپنے گھر کے آنگن میں کنواں کھود کر پانی کے اس زیرِ زمین ذخیرے تک رسائی حاصل کرکے اس ضرورت کو پورا کرنے کا کوئی مستقل انتظام کرتا ہے، جو نہ ختم ہونے والا اور لامحدود  ہوتا ہے۔ علم و آگاہی کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ کتب و رسائل ، علم و عرفان رکھنے والے اصحاب کے فرمو دات، تجربات اور مشاہدات کی دستاویز ہوتے ہیں جو انہوں نے اپنے اپنے اندازِ نظر کے مطابق یا تو خود اپنے باطن میں اتر کر حاصل کئے ہوتے ہیں یا پھر کسی دانا اور بینا انسان کی قربت اور صحبت میں رہ کر سیکھے ہوتے ہیں اور اُن کو نوعِ انسانی کے دوسرے افراد کی راہنمائی کے جذبے کے تحت لکھ کر کتب کی صورت محفوظ کر دیتے ہیں۔ اساتذہ کرام جب تک خود کو ان کتب کی تدریس تک ہی محدود رکھتے ہیں وہ خود سے وابستہ تو قعات کو پورا  کرنے اور مطلوبہ نتائج کے حصول میں دشواریوں کا سامنا کرنے پر مجبور رہتے ہیں۔ اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ نہ صرف خود اپنے باطن کی طرف رجوع کرنا سیکھیں بلکہ اپنے تلامذہ  کو بھی ان کے باطن کی طرف مائل کریں۔ جب خارجی علوم کو باطنی علوم کے حصول کے ایک ذریعے اور واسطے کے طور پر برتا جاتا ہے تو اس سے دو ہرے نتائج اور فوائد کا حاصل ہونا یقینی ہو جاتا ہے ۔
مولوی میر حسن ایک ایسے ہی استاذ تھے۔ انہوں نے اقبال کے اندر موجود صلاحیتوں کو ابھارنے میں اُن کی مدد کی اور اُن کو اپنے باطن تک رسائی کا طریقہ تعلیم کرنے کے  بعد اس کی ایسی مشق کروائی کہ بعد میں ڈاکٹریٹ کرنے تک بیسیوں اساتذہ سے اکتسابِ فیض کرنے کے باوجود اقبال کسی اور کو اس  قابل نہ سمجھ سکے کہ اُن کو سر کا خطاب دیئے جانے کی فرمائش کرتے۔
مولوی میر حسن نے جو کام کیا آج کی جدید نفسیات کی اصطلاح میں اس کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اقبال کے شعور کو اتنا توانا اور اس قابل بنا دیا تھا جس سے اُن کا اپنے لا شعور سے شعور کا رابطہ قائم ہو جاتا ہے تو شعور کی ایسی جلا اور آب و تا ب ملتی کہ انسان ہیرے کی مانند دمکنے  لگتا ہے اور اللہ ایسے بندے سے کچھ ایسے کام کروا دیتا ہے کہ اس کا نام جاودانی ہو جاتا ہے۔
اگر اساتذہ کرام دلچسپی لیں اور خود اُن کا اپنا  ربط اور تعلق  لاشعور سے استوار ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے قابل نہ ہوں اور جب خود ان کا اپنا تعلق اور رابطہ لاشعور سے قائم ہوگا تو وہ اپنے تلامذہ کی راہنمائی اور ان کی صلاحیتوں  کو ابھارنے اور ان کو  جِلا  دینے کا فریضہ بخوبی سرانجام دے سکیں گے ورنہ تو علم  کے نام پر محض خواندگی ہو رہی ہے، سو  وہ ہوتی  رہے گی۔ بلا شبہ وہی اساتذہ روحانی والدین کہلانے کا استحقاق رکھتے ہیں جو اپنے تلامذہ کی ایسی تربیت کردیتے ہیں کہ علم و عرفان اور آگاہی کی راہ ہو یا دنیاوی معاملات کی عقدہ کشائی انہیں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آتی اور ایسے ہی والدین کے سکھائے اور سدھائے ہوئے لوگ اس دنیا کے محفوظ اور پُر امن مستقبل کی ضمانت بن سکتے ہیں ورنہ یہ دنیا والے چالیس ہزار ایٹم، ہائیڈروجن اور نیوٹران بموں کے علاوہ کیمیاوی اور جراثیمی ہتھیاروں کے انبار تو بنا ہی چکے ہیں اور اُن کے استعمال کے بہانے بھی تلاش کئے جا رہے ہیں۔
دنیاواری اور دولت پرستی کی لت میں گرفتار اذہان اس مادی شعور کی پیداوار  ہوتے ہیں جو لاشعور سے اپنا ہر ناتہ اور رشتہ توڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ مفاد پرستی اور موقع کی تاڑ میں رہنا ان کا شیوہ  اسی لئے بن چکا ہوتا ہے کیونکہ ان کا شعور ان کو یہی بتا تا ہے کہ اُن کی تمام خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ دنیا کے وسائل پر قابض ہوں ورنہ اُ ن کی ضرورتیں پوری نہیں ہوسکیں گی۔ جب اذہان مادی شعور کی گرفت میں ہوتے ہیں تو  ضرورتوں کے طو  مارکو پورا کرنے کے چکر میں پڑ کر انسان پریشانی، بے چینی ، بے سکونی اور خوف کا خود بھی شکار رہتا ہے اور دوسروں کو بھی ایسی ہی اذیتیں دیتا ہے ۔ اس صورت حال سے نپٹنے کا واحد اور تیر بہدف طریقہ یہی بنتا ہے کہ انسان کسی نہ کسی طور اپنا تعلق لاشعور سے جوڑ لے۔ جو اساتذہ اس نکتے کو سمجھ لیتے ہیں وہ اپنے شاگردوں کو بھی اس سے آگاہ  کردیتے ہیں۔ یہ آگاہی اساتذہ اور تلامذہ دونوں کی دنیا تو سنوارتی ہی ہے، ساتھ ساتھ ان کی آخرت بھی سدھر جاتی ہے۔
بچوں کی خفتہ صلاحیتوں کو ابھارنے میں وہ سرگرمی جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوسکتی ہے وہ بچوں کو سوال پوچھنے کا حوصلہ دینا اور اُن کے بظاہر  بے معنی سوال کو اپنے با معانی جواب سے سجا کر ان میں غور و فکر کو مہمیز کرنا ہی ہوسکتی ہے۔ اب اگر ایک بچہ کہیں سے سن کر اس الجھن میں گرفتار ہوہی چکا ہے کہ پہلے انڈا پیدا ہوا یا مرغی؟ اور وہ اپنے سکول میں کلا س ٹیچر سے یہ دریافت کرنے کا حوصلہ کر ہی لے، تو سمجھدار اساتذہ کرام اس صورت حال سے عہدہ برآ  ہونے کے لئے بچے کو  ڈانٹ کر چپ کروانے کی بجائے اس مسئلے کو کچھ یوں بھی نپٹا سکتے ہیں۔ وہ بچوں کو مخاطب کرکے پہلے تو سوال پوچھنے والے کی تعریف میں ایک دو جملے کہ کر یہ بتا سکتے ہیں کہ اس طرح کے سوال پوچھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے ذہن میں کوئی گرہ، کوئی  الجھن باقی نہیں رہتی۔ اس کے بعد وہ کہ سکتے ہیں اب یہ جو سوال ہے کہ پہلے مرغی یا پہلے انڈا تو اس قسم کے سوالوں کو اصطلاحاً (Brain Teaser) یعنی  'دق کرنے والے سوال' کہا جاتا ہے ۔ بظاہر ایسے سوالوں کا یا تو کوئی جواب ہوتا ہی نہیں یا پھر ان کے ایک سے زیادہ جواب ممکن ہوسکتے ہیں اس لئے جب آپ ایک جواب کو درست قرار دیتے ہیں تو دوسرا جواب آڑے آجاتا  ہے ۔ اس صورتِ حال سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہوسکتا ہے کہ بات کی تہ تک پہنچا جائے۔ اب اس صورت میں اصل بات یہ ہے کہ آپ جانتے ہیں ہ زندگی دائروں میں سفر کرتی ہے ۔ آپ نے سائنس کی کتا میں مکھی اور مچھر کی حیات کی بابت یہ تو پڑھا ہی ہے کہ انڈے سے لاروا بنتا ہے، لاروے سے پیوپا اور پھر پیوپے سے بالغ مکھی یا مچھر بنتا ہے اور جب وہ بالغ مکھی یا مچھر انڈا دیتے ہیں تو یہی چکر پھر سے شروع ہو جاتا  ہے۔ زندگی کے اس چکر کو دور حیات بھی کہتے ہیں اور دائرہ حیات بھی ۔ اب اُدھر آپ نے جیومیٹری میں دائرے کی بابت جو کچھ پڑھا ہے اس کے مطابق دائرے کے محیط پر واقع ہر نقطہ دائرے کا نقطہء آغاز بھی ہوتا ہے اور نقطہء اختتام  بھی۔ اس لئے اب اگر آپ مرغی کے دائرہ حیات میں چاہے مرغی کو نقطہء آغاز کہ دیں یا انڈے کو، ہر دو صورتوں میں جواب درست ہی ہوگا۔ یہ تو  ہوگیا اس سوال  کا ایک جواب لیکن اصل سوال تو پھر بھی حل نہیں ہوا یعنی یہ بات حتمی طور تو پر طے ہوئی ہی نہیں کہ اللہ نے پہلے انڈا پیدا کیا یا مرغی، تو اس کے لئے اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ وہ محض ایک لفظ 'کن' کہ کر پوری کائنات کو تخلیق کر دیتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ جس بھی چیز تخلیق کرتے ہیں اُس کو مکمل طور پر تخلیق کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسا بالکل نہیں کرتے کہ وہ ایک چیز کو بنا کر اس کو اس کے حال پہ چھوڑ دیں۔ اگر اللہ تعالیٰ انڈا بناتے تو اس سے چوزہ بننے کی بجائے وہ انڈا گندہ بھی تو ہوسکتا تھا اور اس سے کچھ بھی نہ بن سکتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مرغی کو مکمل طور تخلیق کیا اور اس کی نسل کو  برقرار رکھنے کے لئے اس سے انڈا پیدا کیا۔
اب اگر یہ سوچ کر دیکھا جائے کہ اس قسم کے سوال جواب سے بچوں کے ذہن کس قدر کھل سکیں گے تو اس بات کا اندازہ کرنا کچھ زیادہ دشوار نہیں ہے۔
یہاں ایک اور بات کا تذکرہ کر دینا  بےجانہ ہوگا۔  کسی بات کو سمجھ لینا یاک بات ہوتی ہے اور کسی بات کو سمجھانے کی صلاحیت ہونا ایک بالکل ہی دوسری بات۔ اب یہ ضروری نہیں ہے کہ جو آدمی بات سمجھ سکتا ہے وہ اُس  بات کو سمجھا ہے۔ اساتذہ کرام کے انتخاب میں حکومت اور والدین دونوں کو یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کسی بات کو کس قدر بہتر انداز میں سمجھا سکتے ہیں۔ اب یہاں اس مقام پر کسی بات کی اچھی طرح تشریح کرنا 'اور' بات سمجھانے' میں جو فرق ہے اس کو ملحوظِ  خاطر رکھنا بہت ضروری ہے۔ ایک ایم اے لیکچرار نصاب میں دیئے گئے نکات کی شرح وبسط  کے ساتھ وضاحت تو ضرور کرسکتا ہے لیکن کتنے لیکچرار ایسے ہوں گے  جو اس بات کا دعویٰ و ثوق سے کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے طلباء کو اُن نکات کی سمجھ اور فہم بھی عطا کرسکے ہیں؟اس بات کا جواب قارئین بخوبی جانتے ہیں۔
اس لئے اس بات کو اساتذہ کرام ہی یقینی بنا سکتے ہیں کہ کسی بات کو اپنے تلامذہ کی فہم میں اتارنے اور اُن کو کوئی بات پوری طرح سمجھانے کی صلاحیت کو وہ خود  فطری طور پر کس قدر بیدار کرسکتے ہیں؟ جو اساتذہ کرام اس منفرد اور ممتاز صلاحیت سے فطری طور پر متصف ہوتے ہیں  بعض اوقات وہ بھی اپنی اس صلاحیت کو پوری طرح سے بروئے کار لانے کا تکلف کرنے سے کراتے ہیں۔ اس بات کی بھی کچھ وجوہات ہوں گی لیکن کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اساتذہ کرام خود ہی ان وجوہات کا کھوج لگائیں اور نہ صرف یہ کہ کھوج لگائیں بلکہ ان کو رفع کرنے کے عملی اقدام بھی فرمائیں۔
اساتذہ کرام سے جس بات کی سب سے زیادہ توقع کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بات کو آسان اور دلنشین انداز میں سمجھا سکتے ہوں۔ انسان اپنی فطری تن آسانی اور آرام طلبی کے باعث ہر کام میں  آسانی اور سہولت چاہتا ہے ۔ اس بات کا مشاہدہ اساتذہ کرام کو زیادہ بہتر طور پر اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے طلباء کے سامنے کسی موضوع کی وضاحت کر رہے ہوتے ہیں۔ بچے ہوں یا بڑے کسی بات کو اسی وقت زیادہ بہتر طور سے سمجھ سکتے ہیں جب سنی گئی بات کے حوالے سے اس کے ذہن کی سکرین پر کوئی تصویر بن سکے۔ اگر کوئی استاذ اپنے بیان سے سننے والے کے ذہن میں کوئی تصویر ابھارنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو گویا اس نے اپنی بات اپنے سامع کے ذہن میں اتار دی۔
اس فن پر قدرت رکھنے والے ساتذہ کرام اپنی بات کی وضاحت کے لئے، موضوع کے حوالے سے طرح طرح کی مثالیں دینے کا ایک خاص قرینہ اور سلیقہ رکھتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق قرآنِ حکیم کے اسلوبِ بیان سے بھی ہو جاتی ہے۔ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ جگہ جگہ مثالیں دیتے ہوئے بات کی وضاحت فرماتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی ذہن کی ساخت ہی کچھ ایسی رکھی ہے کہ کوئی بھی بات اُس میں تبھی قرار پاتی ہے  جب اُس بات کے تصویری خدوخال اسی وقت اجاگر ہوتے ہیں جب وہ کسی ایسی بات کے حوالے سے بیان ہوں جو انسانی مشاہدے میں پہلے سے موجود ہو۔ پہلے  سے دیکھی اور سنی ہوئی بات جس کو انسانی فہم و ادراک محسوساتی طور پر جانتے ہوں، اُس بات کو بطور مثال بیان کرنے سے، اس بات کے حوالے سے تصویری خدوخال سہولت سے ابھر سکتے ہیں۔
جو اساتذہ کرام اس بات کا ادراک رکھتے ہیں وہ اپنے شاگردوں کو بات کچھ اس طرح سے سمجھاتے ہیں کہ اُن کے ذہنوں میں ایک ایسی تصویر بن جاتی ہے جو مٹائے نہیں مٹتی نہ صرف یہ کہ وہ انمٹ نقوش  انسان کا علم بن جاتے ہیں بلکہ ان نقوش کی مدد سے انسان خود بھی کئی نت نئے نقوش اور تصویریں وضع کر سکتا ہے۔ یہ نت نئے تصورات ہی انسانی ذہن کو تازہ اور جدید افکار سے روشناس کرواتے اور انسانی زندگی میں نت نئی ایجادات کے متنوع رنگوں سے سجانے  کا سبب بنتے ہیں۔
بات کو ذہن میں اتارنے کے بعد اس کو ذہن نشین کروانے کا مرحلہ طے کرنے کا اصولی طور پر جو طریقہ آزمودہ سمجھا جاتا ہے اس بات کی تکرار کا۔
بات کی تکرار کا مطلب الفاظ  کی تکرار اور دہرائی ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بات کے مفہوم کی وضاحت کو مختلف انداز کا برتنا  اور دی جانے والی امثال کو ادل بدل کے ساتھ پیش کرکے اُن کے مختلف پہلوؤں کو  ذہن نشین کروانے کی کوشش مراد لیا جائے تو مرتب ہونے والے نتائج زیادہ شاندار ہوسکتے ہیں۔
بات سمجھ لینے کے بعد ذہن میں اس کی دہرائی اور تکرار کے بغیر اس کا حافظے میں جڑ پکڑنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اس لئے ہوشیار اساتذہ اپنے شاگردوں کوئی بات سمجھا دینے کے بعد اُن کو کوئی ایسا کام ضرور تجویز کر دیتے ہیں جس سے ان کے شاگردوں کے ذہن میں اس بات کی تکرار ہوتی رہے۔ غور سے دیکھا جائے تو قرآن اور دیگر تمام الہامی کتابوں کا اسلوبِ تعلیم بھی یہی رہے۔ کہ اللہ تعالیٰ ایک بات فرما کر، اس بات کا بار بار اعادہ کرتے ہیں اور اس کو مختلف پیرا یہ بیاں میں اور مختلف مثالوں سے واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اہل ایمان پر ا کی دہرائی اور تکرار فرض کرنے کو اس کی تلاوت اور اس کے متن اور آیات پر غور فکر کا حکم دیتے ہیں۔

اب اگر دیکھا جائے تو ہمارے نظامِ، تعلیم میں عمومی طور پر کم و بیش یہی طریقہ ء تعلیم رائج ہے لیکن اس کے باوجود اس کے وہ اثرات اور نتائج مرتب نہیں ہوتے جن کو حسبِ دلخواہ قرار دیا  جاسکے۔ اب ہمارے سمجھنے کی بات یہ قرار پاتی ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ہم بظاہر درست طریقہ بھی اپنائے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارا معیار تعلیم ہے کہ دن بدن گرتا ہی چلا جارہا ہے۔ اس بات پہ غور کرنے کے بعد جو صورتحال سامنے آتی ہے وہ کچھ یوں ہے اگر ایک غلط بات کو درست طریقے سے بھی تعلیم کیا جائے تو اس سے وہ بات درست قرار نہیں دی جاسکتی۔ ہم کو تعلیم کی جانے والی بات کی درستی اور اصلاح پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت کا جتنا زیادہ اور اک حاصل ہوگا، اصلاح احوال میں بہتری اتنی ہی جلد مؤثر ہو سکے گی ورنہ تو سب ہی اپنے اپنے کئے کا جواز رکھتے ہی ہیں۔
کلیدی کردار
والدین، حکومت ، اساتذہ اور طلباء نظامِ تعلیم کے ایسے اراکین ہیں کہ اگر ان میں سے ایک رکن بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کا مرتک ہو ہزار کوششوں کے باوجود ہم تعلیمی میدان میں اس نتیجے کی توقع نہیں کر سکتے جس کی آرزو  ہر سمجھدار اور ذہنی شعور انسان کرتا ہے اور اس کا خواب دیکھتا ہے۔ ہمیں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جہاں والدین یا اساتذہ کی انفرادی طور پر کی گئی  کا وشوں کے سبب بہت سے طلباء قابل، محنتی، با صلاحیت اور باشعور افراد بن کر اپنے اور معاشرے کے لئے سود مند ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مجموعی طور پر صورت حال قابلِ فخر اور اطمینان بخش تو کجا محض تسلی بخش بھی نہیں کہی جاسکتی۔
تعلیمی نظام کے حوالے سے دیکھا جائے تو اجتماعی طور پر والدین اور اساتذہ کرام دونوں کے کردار، یہاں کردار کے ہر دو مفہوم  (Role and Character) میں بہتری اور اصلاحِ احوال کی ضرورت سے انکار کی گنجائش کم  ہی نکلتی ہے۔ یہ نہیں کہ تمام تر ذمہ داری اساتذہ کے سر ڈال دینے کے بعد والدین کا کردار ختم ہو جاتا ہے یا یہ کہ بچے کو اسکول بھیجنے سے پہلے والدین کو بچے کی تربیت مکمل کر لینی ضروری ہے۔ یہ دونوں ہی باتیں اگر ممکن بھی ہوں تو بھی درست قرار نہیں دی جاسکتیں۔
بچوں کی پرورش، نگہداشت اور پرداخت کے علاوہ بچوں کی شخصیت کی تعمیر اور اُن کے کردار کی خوبیوں کے حوالے سے والدین کا کردار جبکہ بچوں کی تعلیم و تربیت، علم و آگہی اور اُن کو باشعور بنانے کے حوالے سے اساتذہ کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل مانا تو جاتا ہے لیکن کتنے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کی تربیت سے خود بھی مطمئن ہیں اور ان کے بچے بھی اپنی شخصیت اور کردار کی خوبیوں کو اپنے والدین کی تربیت کا اعجاز مانتے ہیں؟ کہنے کی حد تک تو ہر بچہ مانتا ہے کہ اُس کے والدین نے اُس کی پرورش میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کی لیکن جب کبھی وہ اپنے والدین سے شکوہ کرتا ہے تو یہی کہتا  ہے کہ انہوں نے وہ سب کچھ نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیئے تھا۔
اس صورت حال کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ خاندان جہاں والدین ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا بہت خیال  رکھتے ہیں ایسے والدین کی اولاد نیک اور سعادت مند ہونے کے علاوہ شخصیت اور کردار کی خوبیوں سے بھی مالا مال ہوتی ہے۔ اس لئے ہر ماں باپ کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی خاطر ایک دوسرے سے ذہنی اور قلبی ہم آہنگی کا محض اظہار ہی نہ کریں بلکہ اس کو سچ مچ پیدا کریں اور اس کو باہمی معاملات میں فروغ بھی دیں۔
دیکھا جائے تو ہر بچے نے ایک نہ ایک روز شوہر یا بیوی اور پھر ماں یا باپ بننا ہوتا ہے لیکن نہ تو کسی لڑکے کو یہ سیکھایا جاتا ہے کہ شادی کے بعد ایک اچھا شوہر اور جب صاحب اولاد ہو جائے  تو وہ خود کو ایک اچھا باپ کیسے اور کیونکر ثابت کرسکتا ہے۔ اور نہ ہی کسی لڑکی کو یہ بات سمجھائی جاتی ہے کہ بڑے ہوکر اس نے محض گھرداری ہی نہیں کرنی بلکہ ایک کامیاب بیوی اور بہترین ماں بھی بننا ہے۔ اور اگر کچھ سمجھدار مائیں اپنی بچیوں کو اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں کچھ بتا بھی دیتی ہیں تو وہ اتنا  مؤثر  اس لئے ثابت نہیں ہوتا کیونکہ بچیوں نے اس کو سیکھنے کے حوالے سے نہیں سنا ہوتا۔ کسی  بات کو محض بتا دینے اور درست انداز میں سیکھانے میں جو فرق ہے اُس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔
پوری دنیا میں جہاں کہیں کسی نے اس بات کی ضرورت اور اہمیت پہ زور دیا بھی ہے تو وہاں اس سے زیادہ سے زیادہ بچوں کو جنس کی بابت  تعلیم دیا جانا ہی مراد لیا گیا ہے ۔ جب کہ شادی کے بعد کی زندگی میں جنس کا عمل دخل ایک جزو تو ضرور ہے لیکن سب کچھ یہی تو نہیں ہے۔ لڑکوں کو بطور شوہر اور والد  انکے فرائض سے آگاہ کر دینا ہی کافی نہیں ہوسکتا بلکہ اُن کو اپنے فرائض سے بخوبی عہدہ برآ ہونے کا ہنر اور فن دونوں سیکھائے جانے ضروری ہیں۔ اور اسی طرح لڑکیوں کو بطور بیوی اور پھر ایک ماں ہونے کے ناتے اپنے فرائض سے با احسن و خوبی عہدہ برآ ہونا سیکھایا جانا چاہئے۔ میاں بیوی کے مابین تنازعات کی سب سے بڑی وجہ یہ دیکھی گئی ہے کہ یہ دونوں اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی کی بابت اتنے چوکنے نہیں ہوتے ہیں جتنا کہ وہ اپنے حقوق کو پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
یعنی اگر ہر بچے کو خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی اگر والدین اور اساتذہ اس بات کی تعلیم دیں کہ ان کو اپنی عملی زنگی میں ہر حیثیت میں پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ اپنے فرائض سے بخوبی عہدہ برآ ہو رہے ہیں یا نہیں۔ اگر یہ بات ان کے اندر راسخ ہو جائے گی کہ انہیں اپنے حقوق کی طلب کی بجائے اپنے فرائض کی ادائیگی کو اولیت دینا ہے تو پھر گھر ہو یا دفتر ، کاروباری معاملات ہوں یا  ازد واجی زندگی کے مسائل، وہ ان سب سے بحسن و خوبی نپٹ سکیں گے، ورنہ بصورت دیگر ہر وقت شکوہ اور شکایت، کھنچاؤ  اور تناؤ ، بک بک جھک جھک اور لڑائی جھگڑے سے مفر کی کوئی صورت نظر آنا محال ہی ہے۔
اگر ماں باپ آپس میں ذہنی ہم آہنگی اور قلبی لگاؤ  رکھتے ہوں گے تو ان کی اولاد بھی سکون آشنا  ہوگی اور اُن میں کسی قسم کی کوئی نفسیاتی الجھن اور پیچیدگی بھی پیدا نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس صورت حال میں اولاد کھنچاؤ اور تناؤ کا شکار رہنے کے سبب متعدد نفسیاتی الجھنوں اور پیچیدگیوں کا شکار ہو سکتی ہے۔ ایسی الجھنوں میں سرِ فہرست تو یہی بات ہے کہ بچوں کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا۔ بلکہ یہ کہنا  زیادہ درست ہوگا کہ لگ ہی نہیں سکتا ۔ اس لئے اساتذہ کرام کو چاہئے کہ وہ ایک طرف تو بچوں و بہتر والدین بننے کے گُر تعلیم کریں اور دوسری طرف والدین کی توجہ اس طرف مبذول کروانے کا جتن کریں کہ ان کو خانگی زندگی میں پر سکون رویئے اپنانے چاہئیں۔
اسی طرح والدین کو اپنے بچوں کے رویوں پہ بہت کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر بچے کا رویہ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں ، خاندان کے دیگر افراد، دوستوں اور گھر سے باہر کے افراد سے ایسا ہے جس سے تلخی پیدا ہوتی ہو تو اس کی اصلاح کی فوری کوشش ہونی چاہئے۔ یہی رویئے بعد میں پختہ اور راسخ ہوکر بچے کی آئندہ زندگی میں مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ جہاں تک انسانی رویوں کے بننے اور ان کی اصلاح کا تعلق ہے تو اس کے لئے ہمیں انسان کی طرزِ فکر کو مثبت طرزوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انسان کا کوئی بھی رویہ ہو وہ اُس کی طرزِ فکر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اگر انسان کی طرزِ فکر میں مثبت طرزیں راسخ ہوں تو اس کا ہر رویہ مثبت ہوتا ہے۔ یعنی اگر طرزِ فکر میں اخلاص اور ہمدردی ہوگی تو ایسے انسان کا ہر رویہ خلوص اور ہمدردی کا حامل ہوگا اور اگر طرزِ فکر میں لالچ اور خود غرضی کا عنصر شامل ہوگا تو پھر انسان کے ہر رویئے میں بھی یہی بات نمایاں ہوگی۔
اگر ماں باپ تنقید و تنقیص کے عادی ہوں اور ہر بات کا منفی رخ دیکھنے ، ہر بات پہ غصہ اور جھنجھلاہٹ کا اظہار کرنے کی عادت میں مبتلا ہوں تو اولاد پہ ہر وقت ایک بے جا دباؤ رہتا ہے۔ یہ دباؤ ب بچوں کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو دیمک بن کر چاٹ جاتا ہے۔ بچے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہونے کی سبب اندیشوں ، وسوسوں اور خوف کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ گھر میں نظم و ضبط برقرار رکھنا ایک فن سے کم نہیں ہوتا۔ یہ بہت ضروری ہے، لیکن اس کے لئے خوف اور دباؤ پیدا کرنے سے پرہیز ہی کرنا چاہئے۔ خوف کا شکار رہنے والے افراد کا شعور کچھ ایسی طرزوں کا حامل ہو جاتا ہے جو ان کو کسی بھی کام کا آغاز کرنے، اُس کو بحسن و خوبی پایہء تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت سے محروم کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خوف کا شکار رہنے والا بچہ کسی بھی کام کا آغاز خود اعتمادی سے نہیں کر سکتا۔ اب اس کے بعد اس صورت حال سے پیدا ہونے والے نتائج کا اندازہ کرنا کچھ اتنا بھی دشوار نہیں رہ جاتا۔
خود اعتمادی سے محرومی زندگی میں قدم قدم پر دشواریوں کا موجب تو بنتی ہی ہے، اس کے باعث ہونے والی ناکامیاں انسان کی شخصیت میں طرح طرح کی پیچیدگیوں کو بھی جنم دیتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بچوں کو اتنی کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ وہ آزادی اظہار کا مطلب گستاخی اور بدتمیزی ہی لے بیٹھیں۔ توازن اور اعتدال کا دامن جہاں بھی ہاتھ سے چھوڑا جاتا ہے بہترین صفات بھی بری لگنے لگتی ہیں۔ اس لئے والدین کو اپنے بچوں کی تربیت کے ہر ہر مرحلے پہ خود بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے اور ساتھ ساتھ بچوں میں بھی یہ بات راسخ کرنی چاہئے کہ وہ میانہ روی اور معتدل رویئے کو بہر صورت قائم رکھیں۔
بچے اپنی بات منوانے کے لئے عموماً ضد کا  ہتھکنڈا استعمال کرتے ہیں۔ بچوں کی کونسی بات کب ماننی چاہئے یہ فیصلہ ماں باپ کو کرنا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فرمائش کرنا بچوں کا حق ہوتا ہے لیکن فرمائش کو پورا کروانے کے لئے ضد کرنے کا حق دینے سے بچوں میں غلط رحجانات پیدا ہونا فطری بات ہے۔ معروف روحانی سکالر جناب خواجہ شمش الدین عظیمیؒ اپنی والدہ صاحبہ کے اندازِ تربیت کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی بچہ دسترخوان پہ بیٹھ کر یہ ضد کرتا کہ وہ یہ نہیں کھائے گا بلکہ فلاں چیز کھانا چاہتا ہے تو والدہ محترمہ اس کو یہ کہ کر  دسترخوان سے اٹھا دیا کرتی تھیں "تمہیں بھوک نہیں ہے، تم رہنے دو"۔ اور جب بچے کو بعد میں بھوک لگتی تو وہ خو ہی اپنے لئے رکھا کھانا یا کرتا ۔ اگر بچے ضد کرتے تو وہ کچھ زیادہ پراہ نہیں کیا کرتیں۔ ہا البتہ اگلے روز دسترخوان پہ اس بچے کی فرمائش کو پورا کرنے کو اس کی پسندیدہ چیز  موجود ہوتی۔
بعض بچوں میں فطری طور پر انرجی کچھ زیادہ ہوتی ہے اور کچھ کرنے کی خواہش کے جذبے کے زیرِ اثر بعض اوقات جذباتیت اور انتہا پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسے بچے کے والد نے جب یہ محسوس کیا کہ اس کا بچہ جذباتی اور انتہا پسند ہوتا چلا جا رہا ہے تو اُس نے ایک دن موقع دیکھ کر، جب بیٹے نے اپنے کسی کام میں درپیش الجھن کی بابت اُسے رائے طلب کی تو اُس نے اُس کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
'بیٹا ! انفرادی سطح پہ انتہا پسندی کبھی کبھی مثبت نتائج ضرور دیتی ہے لیکن اجتماعی سطح پہ جہا دوسروں سے واسطہ ہوتا ہے یہ انتہائی مضر ہو جاتی ہے کیونکہ دوسرا شخص چونکہ آپ کی رفتارِ فکر اور قوت کار کا ساتھ نہیں دے سکتا اور اس وجہ آپ کو مسئلہ پیش آتا ہے لہٰذہ اگر اس مسلئے کو حل کرنا چاہتے ہو تو دوسروں کا خیال رکھنا سیکھو اور جذباتی ہو کر مت سوچا کرو'۔
یہ اندازہ کرنا کہ اپنے والد کے اس متوازن اور پرُ حکمت تبصرے نے اُس بیٹے پر کیا اثر مرتب کیا ہوگا کچھ اتنا دشوار بھی نہیں۔ مذکورہ مثال میں خاص طور پر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اُس باپ نے بیٹے کے مسلے کو وقتی اور فوری طور پر حل کرنے کی بجائے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اُس کو ایک اسی بات تعلیم کی جس سے بچے کی شخصیت میں پیدا ہونے والی ممکنہ کجی کا سدِ باب بھی ہوسکے اور بچے کو خود اُس کی اپنی شخصیت کو سنورنے کی مائل کر دینے کی زبر دست حکمت بھی نظر آتی ہے۔
ہمارے بزرگوں اور اسلاف کی تعلیمات میں ایک بات بہت چرچا رہا ہے۔ وہ 'با ادب، با نصیب اور بے ادب ، بے نصیب' کے مقولے کے بہت زیادہ قائل تھے۔ ان کی سوچ کچھ غلط بھی نہ تھی آج بھی ہر  ماں اور ہر باپ اپنی اولاد سے یہ توقع رکھتا ہے کہ اس کے بچے اسکا  ادب اور لحاظ کریں۔ سطحی سوچ کے عام ہونے کے سبب جہاں اور بہت سی باتوں کا مفہوم خبط ہوکر رہ گیا ہے اور ان کی اصل روح سے ہم دور ہوچکے ہیں وہاں اس مقولے کا بھی کچھ ایسا ہی حشر ہوا ہے۔ آج کل ادب کا مفہوم کہی گئی بات کو اُ س کی اصل روح کے مطابق ماننے اور اس پہ عمل پیرا ہونے کی بجائے خاموش ہو رہنا اور سوال نہ پوچنے کا  متبادل ہوچکا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو اس بات کا فرق ضرور تعلیم کریں کہ با ادب ہوکر با نصیب بننے کے لئے لازم ہے کہ کہی گئی بات کی اصل روح کو سمجھنے ، اس کو ماننے اور اس پر اچھی طرح  سے عمل کرنے سے کیا ہوتا ہے اور کہی گئی بات پہ سوچنے اور اس سمجھنے کی زحمت گوارا نہ کرنے، اس کونہ ماننے اور اس پہ عمل نہ کرنے کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ظاہر ہے ان نتائج کو بدنصیبی کے علاوہ اور  کچھ بھی تو نہیں کہا جاسکتا ۔
کسی بھی بچے کے والدین اس امر کو کسی بھی طور یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ ان کے بچے اپنی زندگی میں کسی بھی قسم کی بدنصیبی کا سامنا کریں۔ اس کے لئے اپنے بچوں کو با نصیب بنانے کے اس چھوٹے سے چٹکلے پر عمل کرنے اور اپنے بچوں کو با ادب بنانے کے لئے والدین میں شعور اجاگر کرنے کی جو ضرورت ہے اس سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے۔ یہ بات بہر حال طے ہے کہ اس کام میں اگر چہ والدین کی تربیت بنیادی  کردار ادا کرسکتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے  کہ اساتذہ کرام اپنے تلامذہ، شاگردوں اور  طلبا ء میں یہ صفت پیدا کرنے کی ذمہ داری سے فارغ ہی کر دیئے جائیں۔ بچوں میں یہ صفت اور خوبی پیدا کرنا سب سے پہلے بچوں کی اپنی ذمہ داری قرار پاتی ہے۔ دوسرے نمبر پہ والدین، تیسرے نمبر پر اساتذہ کرام کی اور اس کے بعد معاشرے کے ہر فرد کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس بات پہ نہ صرف ف خود عمل پیرا ہو بلکہ دوسروں کو بھی اس بات کی تلقین کو اپنا شعار بنا لے ۔ یہاں اس  بات کا اعادہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ انسان کے ست بستہ کھڑے ہوکر مودب ہونے کی ادا کاری کرنے سے نہ کبھی کوئی با ادب بن سکتا ہے اور نہ ہی بانصیب ۔ بانصیب بنا دینے والے ادب کا اصل مفہوم، نہ صرف یہ کہ، خود سمجھا جانا ضروری ہے بلکہ دوسروں کو بھی سمجھایا جانا لازم آتا ہے۔ ورنہ تو بڑے ہوٹلوں میں دست بستہ ، منظرِ حکم اور مودب کھڑے بیروں اور دفاتر کے باہر کھڑے چپڑاسیوں سے بڑ ھ کر اور کون بانصیب ہونے کا حقدار ہو سکتا ہے؟


تین ستون

تین ستون
کہا جاتا ہے کہ تعلیمی نظام کا خیمہ جن تین ستونوں پر کھڑا ہوتا ہے وہ والدین، طلباء اور اساتذہ کرام ہیں۔ یہ تینوں اس عمارت کے وہ ستون ہیں  جن میں سے ایک بھی کمزور ہو تو یہ عمارت اپنا و جود بر قرار نہیں رکھ سکتی۔ یہ تینوں ستون کسی مثلث کے تین اضلاع کی طرح ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ اگر  ایک بھی ضلع اپنی جگہ سے ہٹا دیا جائے تو مثلث باقی نہیں رہ سکتی۔ لیکن بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ان تین کے علاوہ ایک فریق اور بھی ہے جواس نظام کا ایک اہم رکن ہے اور وہ ہے حکومتِ وقت۔
حکومتِ وقت کا تعلق والدین ، طلباء اور اساتذہ کرام کی اس ٹرائیکا سے کچھ اس قسم کا ہے کہ وہ اس نظام کی مثلث کے گرد اگر د محیط ہوتی ہے اور اس مثلث کا ایسا   مرکزی نقطہ بھی ہوتی ہے جس پر اس مثلث کے تینوں زاویوں کا وجود قائم ہوتا ہے۔ بلکہ کچھ یوں ہے کہ حکومت وہ رسی ہے جو اس خیمے کے تینوں بانسوں کو آپس میں باندھے رکھنے کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ اگر حکومت کی گرفت کمزور ہو یا غلط ہو تو اول تو یہ خیمہ زمیں بوس ہو جاتا ہے ورنہ اس میں جھول تو ضرور ہی آجاتا ہے اور تیز ہوا کا ایک آدھا جھونکا ہی اس کوز میں بوس کرنے کو کافی ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں حکومت کی  رسی کا پھندا والدین اور طلباء کے گرد اتنا کسا ہوا نہیں ہے جس قدریہ اساتذہ اور بھی سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے گرد لپٹا ہوا نظر آتا ہے۔ پرائمری ، مڈل اور میٹرک تک کی کلاسوں کو پڑھانے والے اساتذہ کو ملازمت دینا، ان کی سکولوں ، درس گاہوں میں بچوں کو تعلیم دینے سے لے کر انتخابی عمل کی سرگرمیوں کو سرانجام دینے تک کے فرائض کی ادائیگی کے لئے اُن کی تقرری اور تعیناتی ، ان کی تنخواہوں ، اور دیگر واجبات کی ادائیگی کے معاملات کی دیکھ بھال صوبائی اور ضلع سطح پر ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کی ذمہ داری قرار دیئے گئے ہیں۔
ایک ادارہ ٹیکسٹ بکس بورڈ کا بھی ہے جو پورے ملک میں امتحانی بورڈوں سے منسلک سکولوں کے لئے نصابی کتب کی تیاری اور ان کی اشاعت سے متعلق معاملات ت کا ذمہ دار ہے ان کے علاوہ سرکاری سطح پر امتحان منعقد کرانے اور نجی سکولوں اور کالجوں کے معاملات کی دیکھ بھال کے لئے بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بھی قائم کئے گئے ہیں۔ ان کے فرائض میں میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانی پرچوں کی تیاری، امتحانی مراکز کا تعین، ان مراکز کے لئے نگران عملے کی فراہمی، امتحانات کا انعقاد ، پرچوں کی جانچ پڑتال اور نتائج کی لسٹوں کی تیاری اور ان نتائج کی بنیاد پر اسناد کا اجرا وغیرہ کے علاوہ نجی شعبے کے سکولوں اور کالجوں کی کارکردگی اور معیار کی جانچ وغیرہ جیسے کام شامل ہیں۔
ایک ادارہ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کا بھی ہے اور جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے تکنیکی فنون کی تعلیم دینے والی درس گاہوں کے معاملات اور ان کے لئے حکومت اپنی صوابدید پر افسران کا تقرر کرتی ہے۔
گریجویشن ، پوسٹ گریجویشن اور ڈاکٹریٹ کی سطح تک کے علوم اور فنون کی تدریس، امتحانات کا انعقاد اور ملحقہ کالجوں کے معاملات کی دیکھ بھال کا کام یونیورسٹیوں کے دائرہ اختیار میں دیا گیا ہے۔ یونیورسٹیوں  کے اساتذہ اور معلمین کا تقرر اور تعیناتی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتا ہے۔ صوبے کا گورنر صوبے کی یونیورسٹیوں کا انتظامی سربراہ ہوتا ہے اور وہ ان یونیورسٹیوں کے معاملات وائس چانسلر کے ذریعے چلاتا ہے اور عملاً انہی کو یونیورسٹی کا سربراہ مانا جاتا ہے۔
ملکی نظامِ تعلیم کے اس انتظامی ڈھانچے کا ایک مختصر سا تذکرہ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ یہ دکھایا جاسکے کہ کس طرح حکومت بھی اس نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔ جب بھی حکومتی سطح پہ نظامِ تعلیم کو بہتر بنانے کی بات ہوتی ے۔ حکومت چند ایک سطحی (Cosmetic) قسم کی اصلاحات کرکے یہ سمجھ لیتی ہے کہ مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہ آج کل مختلف امتحانات کے نتائج کو انٹرنیٹ کے ذریعے  دیکھا جاسکتا ہے۔
لیکن اس سے امتحانی نظام میں کیا اصلاح ہوئی؟ کیا امتحان کو حافظے اور یاد اشت کی جانچ (Memory testing)  سے آگے بڑھایا جاسکا؟ کیا قابلیت اور اہلیت کو ماپنے کا کوئی بہتر اور قابلِ اعتماد پیمانہ طے ہوا؟ بچوں کے  اندر اپنے مسائل حل کرنے کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کا کوئی طریقہ متعارف کروایا گیا؟  طلباء کی علمی استعداد کے بڑھنے اور ان کے شعور کی سکت کو جانچنے کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا گیا جس کو دنیا میں نہ سہی تو اپنے ملک میں ہی کوئی وقعت  اور پذیرائی مل سکی ہو؟ کیا ہمارے ملکی نظام کے تحت تعلیم پانے والے طلباء کو دنیا کے اہم ادارے قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں؟ اور کیا اب یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلباء کو ملازمت ملنے کے بعد انہیں اپنے آجروں سے ازسرِنو ٹرینگ لینے کی ضرورت نہیں رہے گی؟
جب یہ طے ہوگیا کہ سالانہ نظامِ امتحان مطلوبہ اہداف کے حصول میں ناکام رہا ہے تو سمسٹر سسٹم متعارف کروا کر یہ سمجھا گیا کہ اب سب ٹھیک ہوگیا ہے۔ لیکن بات تو وہی رہی۔ اُسی نصاب کو اُسی سابقہ انداز میں ، اُسی بے دلی اور بے رغبتی کے ساتھ چار قسطوں میں پڑھایا جانا، مسلے کا حل کیسے ہوگیا ؟ وہی خواندگی اور مزید خواندگی۔ نہ علم حاصل ہوا، نہ دماغ روشن ہوا،نہ کسی مسلے کو حل کرنے کی صلاحیت بیدار ہوئی اور نہ ہی کسی اور طرح کی کوئی ایسی خوبی ابھر سکی کہ ماں باپ سمجھیں کہ بارہ چودہ سال ضائع نہیں گئے، بچے نے کچھ تو ایسا سیکھا جو خود اُ س کے اور دوسروں کے کام آسکے گا۔
ابھی حال ہی میں حکومت نے یہ حکم صادر کیا ہے کہ آئندہ انٹر کے بعد گریجویشن دو کی بجائے چار سال میں کروائی جائے گیا اور اُس میں بھی نصاب چھ قسطوں (سیمسٹرز) میں پڑھایا جائے گا۔ نوجوان نسل کی بہتری کے نام پر کئے گئے اس فیصلے کے اصل محرکات کیا واقعتاً  وہی ہیں جو مشتہر کئے جا رہے ہیں؟
اس فیصلے سے تو یہ امر پایِہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ وقت کی تیز رفتاری کے مقابل ہمارے ذہنوں کی رفتار سست تر ہوگئی ہے اور وہی نصاب جو نصب صدی سے ہم دو سالوں میں جیسے تیسے ہوتا رہا ، مکمل کرتے چلے آرہے تھے ۔ اب ہم اُسی نصاب کو چار سالوں میں پورا کیا کریں گے ۔ نہ جانے ہم کس منہ سے نہ صرف ترقی کرلی ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم طلباء کے ذہنوں کی رفتار بڑھانے کا اہتمام کرتے، اُلٹا ہم نے اُن کی آہستہ روی کو سندِ قبولیت سے ہی نواز دیا۔ اب ہم کس منہ سے اپنے آنے والی نسلوں سے قیامت کی چال چلتے زمانے سے آگے بڑھنے کی فرمائش کر سکیں گے؟ آگے نکلنا تو دور کی بات رہی اب تو یہ آس بھی ٹوٹتی جا رہی ہے کہ ہم اس رفتار کا ساتھ بھی دے پائیں گے جو آج کی دنیا میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے۔
حکومت کو ملکی نظامِ تعلیم بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس بات کو  سبھی مانتے ہیں۔ خود اہل کارانِ حکومت، وزرائے تعلیم سے لے کر محکمہ تعلیم کے ادنیٰ ترین ملازمین تک اس امر کی ضرورت کا احساس رکھتے ہیں لیکن سب ہی ایک دوسرے کا منہ تکنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا کرنا چاہئے، کیسے کرنا چاہئے اور کون کرے؟
نچلی سطح کے اہل کار اوپر دیکھنے میں لگے ہوئے ہیں کہ اوپر سے کیا حکم صادر ہوتا ہے اور اُپر والے نچلوں کی طرف سے بھیجی گئی تجاویز کا انتظار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی تجویز نہیں آ رہی تو اس کا مطلب ہے کہ سب ٹھیک کام کو کرنے کے لئے اور خاص طور پر جبکہ اُس میں کوئی ذاتی فائدہ بھی نہ ہو، اجتماعی سوچ سے محروم معاشرے کے  افراد کے لئے ایک 'کشٹ' سے کم نہیں ہوتا۔
اجتماعی سوچ رکھنے والے افراد محض تعلیم سے نہیں بنتے، ایسے افراد حاصل ہوتے ہیں ایک باقاعدہ، منظم اور لگاتار تربیت سے۔ اور جب ایسی تربیت گاہوں کا ہی فقدان ہو تو انفرادی سوچ رکھنے والے افراد کا اکثریت میں ہونا تو لازم ہے اور جب اکثریت انفرادی سوچ کے حامل افراد کی ہو تو معاشرے میں ایسی ہی نفسا نفسی عام ہو جاتی ہے جس سے اس وقت ہمارا پورا معاشرہ دوچار ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں بہتری کی توقع سوائے اس کے کیوں کر ہوسکتی ہے کہ ہم نہ صرف اپنے اندر اجتماعی سوچ ابھاریں اور اس کو فروغ دیں بلکہ اس کے لئے عملی طور پر کوششیں بھی کریں۔
محض حکومت سے یہ توقع کرنا کہ وہ حالات کو سدھارے گی، ایک غیر حقیقی خواہش ہی ہوگی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس نظام سے متعلق ہر رکن اپنا اپنا کردار پوری دیانتداری اور اخلاص سے ادا کرنے پر آمادہ ہوا اور اس کے لئے پوری تن دہی سے کوشاں بھی ہو جائے۔ حکومت اپنے حصے کا کام کرے، اساتذہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں ، طلباء بتائی گئی باتوں پر پوری دلجمعی سے عمل پرا ہوں اور والدین بچوں کی مادی ضروریات پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی اور نفسیاتی تربیت کے حوالے سے کچھ مزید زیادہ  چوکنے ہو جائیں تو کو ئی وجہ نہیں کہ ہماری اگلی نسل ہم سے ایسے شکوے کرے، جو آج ہماری عادت بنتے جا رہے ہیں۔
نظامِ تعلیم  کے حوالے سے حکومت کا اصل کردار ایک (Facilitator) یعنی ایک سہولت مہیا کرنے والے کا ہونا چاہئے۔ حکومت یہ انتظام تو کر ہی رہی ہے کہ  درس گاہوں کے لئے عمارتیں مہیا کر رہی ہے، اساتذہ کو ملازمتیں دی رہی ہے، اپنے بجٹ میں تعلیمی اخراجات کے لئے رقوم بھی فراہم کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تو ہونا چاہئے کہ حکومت اپنے ملازمین کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لئے کوشاں ہو اور اُن پر اس حوالے سے زور دیا جائے کہ اُن کا فرض اپنے طلباء کو محض خواندہ بنانا  ہی  نہیں ہے بلکہ اُن کی اخلاقی ، ذہنی ، نفسیاتی اور روحانی تربیت کا فریضہ بھی انہی کو سرانجام دینا ہے اور یہ کام وہ اُس وقت تک ہرگز بھی نہیں کرسکتے جب تک کہ وہ خود اپنی شخصیت میں وہ خوبیاں پیدا نہیں کرلیتے جو وہ خود اپنے تلامذہ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
اس کے لئے حکومت ملک میں اساتذہ کے لئے ایسے تربیتی پروگراموں کا ایک سلسلہ آغاز کر سکتی ہے جو کردار سازی اور شخصیت کی تعمیر و تنظیم میں معاون ہوں۔ ان تربیتی پروگراموں میں اساتذہ کو یہ سکھایا جائے کہ وہ اپنے طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کو کیسے اور کیوں کر ابھار سکتے ہیں۔ بچوں میں ذہنی یکسوئی کی کمی آج کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کمی کا سدِ باب کرنے کے لئے اساتذہ کو اس طرف متوجہ کرنا ضروری ہے۔ ذہنی یکسوئی کے حامل افراد اپنا ہر کام کامیابی اور خوش اسلوبی سے مکمل کرسکتے ہیں اور اساتذہ کرام اپنے تلامذہ کی اس کمی کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان پروگراموں میں اساتذہ کرام کو طلبا ء میں ذہنی یکسوئی پیدا کرنے اور اس کو بڑھانے کے عملی طریقے سکھائے جائیں۔ ذہنی یکسوئی کو بڑھانے اور منتشر خیالی سے نجات پانے کے لئے بعض مجرب مشقیں ہر درجہ تعلیم کے نصاب کا جزو ہونی چاہئیں۔ بچوں میں آدابِ مجلس اور حفظِ مراتب کا شعور اجاگر کرنے کے لئے ان تربیتی پروگراموں میں اساتذہ کرام کی خصوصی راہنمائی کی جانی چاہئے۔
اس وقت اساتذہ کرام کے حوالے سے ٹرینڈ اور اَن ٹرینڈ ٹیچر ز کی اصطلاح بہت عام ہے۔ اس کا عموماً مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جس کسی نے پیٹی سی، بی ٹی یا بی ایڈ کی سند حاصل کر رکھی ہو وہ ٹرینڈ یعنی تربیت یافتہ استاذ کہلانے کا حقدار ہے اور جس کے پا س یہ سند نہیں ہے وہ اگر استاذ ہو بھی تو اس کو اَن ٹرینڈ ہی کہا جاتا ہے۔ لیکن اس بات کا کیا جواز ہے کہ وہ جو کسی بھی مضمون میں ایم اے کی سند رکھتا  ہو اس کو بغیر کسی تربیت کے ہی استاذ بھی مان لیا جائے اور لیکچرار کے خطاب اور مراعات سے بھی نوازا جائے ۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اساتذہ کے تربیتی پروگراموں کو بیک جنبش قلم ختم ہی کر دیا جائے بلکہ ضروری قرار دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اساتذہ کرام کے تربیتی کورسز میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جن کی بدولت اُن میں درس و تدریس کا ذوق پیدا ہو، وہ اس کام کو ایک مشنری جذبے سے  سرانجام دینے پر آمادہ تیار ہوں ، ان کی شخصیت اور کردار میں استاذانہ وسعت، ہمہ گیری اور عظمت پیدا ہوسکے۔ پڑھائے جانے والے مضمون کی تدریس میں مہارت سکھایا جائے۔
ان تربیتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ حکومت آئندہ درپیش ضرورتوں کے مطابق مختلف شعبوں میں درکار افراد کی تعداد کا تعین کرے اور مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ اُن اُن شعبوں کے لئے درکار افراد کی تعلیم و تربیت کا اہتمام خود بھی کرے اور دیگر نجی اداروں سے بھی کروانے کا بندوبست کرے۔ اگر یہ منصوبہ بندی جامع ہوگی اور اس کی مناسب اشاعت اور تشہیر کا انتظام بھی ہوگا تو بہت سے مسائل کی جڑ ہی کٹ جائے گی۔ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس منصوبہ بندی کو ملک کے سالانہ بجٹ کا ایک حصہ ہی بنا دیا جائے اور جہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ فلاں مد میں اتنی رقوم مختص اور خرچ کی جائیں گی وہاں یہ بھی بتایا جائے کہ فلاں فلاں شعبے میں اس اس قابلیت کے حامل اتنے  اتنے افراد کو کھپایا گیا ہے اور آئندہ اتنے اتنے افراد اس اس شعبے میں درکار ہوں گے۔ اس سے لوگوں کو اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے میں سہولت ہوسکتی ہے اور اس وقت جو بد نظمی اور بد انتظامی کی کیفیت محسوس ہوتی ہے اور کوفت کا سبب بنتی ہے اس سے نجات مل سکتی ہے شائد اسی لئے کئی ایک ڈاکٹر اور انجنیئر صاحباں مناسب نوکری کے حصول میں ناکامی کے بعد سنٹرل سپیریئر سروسز کا امتحان پاس کرکے اعلیٰ اختیاراتی ملازمت کے لئے کوشاں ہونے پر مجبور جاتے ہیں۔
حکومت کے کردار کا ایک پہلو یہ بھی بنتا ہے کہ وہ اپنی مفروضہ کامیابیوں کا ڈھنڈورہ پیٹنے کے لئے تہیری مہمات کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے تعلیمی نظام کے دیگر تینوں اراکین کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور ایک مناسب تعلیمی ماحول پیدا کرنے کا اہتمام کے اور ایسے افراد کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرے جو تعلیمی نظام کی اصل روح کے مطابق نمایا ں کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ حکومت اپنا یہ کردار  کھبی ادا کرسکتی ہے جب جملہ نمائندگان حکومت اور سرکاری اہل کار ان کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح سے واضح ہو کہ حکومت کا مطلب صرف بے جا اختیارات کا حامل ہونا ہی نہیں ہوتا بلکہ اِ ن اختیارات کو عوام کی بہتری اور بھلائی کے لئے پدرانہ شفقت کے ساتھ استعمال کرنا لازم آتا ہے۔ اگر حکام وقت کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ انہیں حکومت کو ایک خاندان کے سربراہ کی حیثیت کا حامل بنانا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملکی انتظام کے تمام ہی شعبوں کی کارکردگی بہتر سے بہتر نہ ہوتی چلی جائے۔

اگر حکومت نے اتنا کچھ بھی کر لیا تو سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہوگا کہ یہ تعلیمی صنعت حکومت کو زیادہ فعال کارکن، معاشرے کو قابل شہری اور ملک کو بہتر افراد دینے کے وہ قابل ہو جائے گی۔

تعلیمی ادارے

تعلیمی ادارے
کسی بھی  تعلیمی ادارے کو قائم کرنے اور اس کو چلانے کے لئے عمارت، عملہ بشمول اساتذہ اور طلباء کے علاوہ جو چیز بہت ضروری تصور کی جاتی ہے وہ ہے نصاب اور درسی کتب۔ اِن مرئی  عناصر  بھی ایک تعلیمی ادارے کی ضرورت ہوتے ہیں۔ مثلاً اُس ادارے میں ڈسپلن ، ماحول ، اساتذہ اور طلباء کی لیاقت اور قابلیت کا معیار وغیرہ۔ لیکن دیکھا جائے تو کیا ایک تعلیمی درس گاہ قائم کرنے کے لئے کیا صرف یہی کچھ درکار ہوتا ہے اور کیا یہی کچھ واقعی کافی ہے ؟ اگر یہ سب کچھ واقعی کافی ہوتا تو پھر ہم سب من حیث القوم کس امر کی بابت شکوہ سنج ہیں؟ آخر وہ کیا ہے جو ان سب کچھ کے ہونے کے باوجود ہمیں نہیں مل رہا اور ہم اپنے تعلیمی نظام سے، اپنی تعلیمی درس گاہوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہو پا رہے ہیں۔ کچھ تو ایسا ہے جس کی کمی ہم محسوس کرتے ہیں لیکن اس کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا ر ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہی ہوگی کہ جس  کمی کی طرف نہ صرف ہمارا وجدان بلکہ ملکی اور عالمی حالات بھی اشارہ کناں ہیں وہ  کمی ہے کیا اور ہم اس کمی کو اگر دور کرنا چاہتے ہیں تو ایسا ہونا کیسے ممکن بنایا جاسکتا؟
ایسا نہیں ہے کہ سب ہی تعلیمی اداروں میں یہ سب کچھ پوری طرح دستیاب ہے لیکن ایسا بھی تو نہیں کہ سب ہی تعلیمی ادارے ان سب چیزوں سے کلی طور پر محروم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں اور درس گاہوں کی غالب اکثریت ان سہولتوں سے جزوی طور پر ضرور محروم ہے۔ لیکن جن اداروں اور درس گاہوں میں یہ سب کچھ پوری طرح دستیاب ہے کیا ہم ان کی کارکردگی کو پوری طرح سے اطمینان بخش قرار دے سکے ہیں؟اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر ہم اُن کی کارکردگی سے واقعی مطمئن ہوتے تو ہمارا سیدھا ادا سا مطالبہ یہ ہوتا کہ ہمارے باقی تعلیمی اداروں کو بھی اُن ہی جیسا بنا دیا جائے۔
اب واقعتاً  یہ ایک عجیب سی بات ہے کہ ہم اپنے شکوہ کا اظہار تو کرتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام اور اُس کے تحت کام کرنے والے ادارے اور درس گاہیں ٹھیک ہونے چاہئیں لیکن کسی ایک بھی درس گاہ کا نام بطور ماڈل یا مثال دینے سے کتراتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ بعض لوگوں کے نزدیک ہوسکتا ہے کہ اس کی یہ وجہ ہو کہ 'اجی کچھ نہیں' سب ٹھیک ہے، ہم تو اس بحث کو بس یونہی بطور فیشن کیا کرتے ہیں۔ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ کچھ کے نزدیک یہ سب محض ہماری ناشکری کے ذیل میں آتا ہو کہ ہم تو بس یونہی با وجہ ہی شا کی ہیں ورنہ اب اس سے بہتر اور کیا ہو؟ اور کچھ ایسا ہے بھی جو ابھی نہیں ہو پا رہا تو وہ سب اپنے وقت پہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔
لیکن معدودے چند افراد ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ چیز جس کا فقدان ہے اور ہم اس کی صحیح نشاندہی نہیں کر پا رہے ، وہ ہے درست مقصد اور مناسب عزم۔
سرکاری انتظام کے تحت بننے والی درس گاہیں ہوں یا نجی شعبے میں قائم ہونے والے تعلیمی ادارے، ہر دو کے اصل مقاصد اور لوگو کو بتائے گئے مقاصد میں اتنا زیادہ فرق اور تفاوت ہوتا ہے کہ ان دونوں کا موازنہ کرنے پر ایک کو غلط اور جھوٹ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔
سرداری انتظام  کے تحت قائم ہونے والے تعلیمی ادارے اور سکولوں کے بنانے کا اصل مقصد عوام کا ایک مطالبہ پورا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کیونکہ حکومت عوام سے جو ٹیکس اکٹھے کرتی ہے اُن کی بابت یہی بتاتی ہے کہ وہ انہیں عوام کی بھلائی کے کاموں پر خرچ کرے گی۔ اب اس مد میں کل بجٹ کا جتنے فیصد صرف کیا جاتا رہا ہے اُس کو دیکھتے ہوئے تو اس بات کو بھی تسلیم کرنا دشوار ہی لگتا ہے۔ بہر حال لوگوں کو بتایا یہ جاتا ہے کہ حکومت یہ کام اس لئے کر رہی ہے تاکہ لوگوں کو خواندہ بنایا جاسکے ، ان کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا جاسکے تاکہ ملک ترقی کر سکے، ملک میں خوشحالی آسکے ، وغیرہ وغیرہ۔ ادھر نجی شعبے میں قائم کی جانے والی درس گا ہوں میں اصل مقصد اپنے لئے روزگار اور کمائی کا ایک سلسلہ قائم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا لیکن کہنا اُن کا بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ عوام کے غم میں دبلے ہو رہے ہیں اور خدمتِ خلق کے جذبے کے ہاتھوں مجبور ہوکر انہوں نے یہ بھاری بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔ اب اگر یہ دونوں یعنی سرکاری شعبہ اور نجی اور غیر سرکاری ادارے اپنے بتائے گئے مقاصد کو ہی اپنے اصل مقاصد بنا لیں اور پورے عزم سے ان کے حصول کے لئے کوشاں ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ حالات میں سدھار پیدا نہ ہو۔
اس سے بھی زیادہ بہتر بات تو یہ ہوگی کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں اور درس گاہوں کے قیام کے اصل مقاصد کو از سرِ نو واضح کریں۔ یہ طے کریں کہ ہم یہ سب اس لئے کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر انسان بنانا ہے، اُن کو اس لئے خواندہ بنانا ہے کہ وہ کتابیں پڑ ھ کر علم حاصل کر سکیں۔ نا خواندگی   کے  خلاف اس لئے جنگ کرنا کہ اس سے دوسرے ملکوں اور عالمی اداروں سے امداد ملتی ہے اور اس لئے جنگ کرنا کہ ہم دوسری عوام کے سامنے سر بلند ہو سکیں کہ ہم وہ قوم ہیں جس کا بچہ بچہ پڑھا لکھا ہے ، ان دونوں باتوں میں  جو فرق ہے کاش کہ وہ فرق ہم پہ کچھ اس طرح سے واضح ہو جائے کہ ہم اول الذّکر کے لئے  سوچنا تک چھوڑ دیں۔ ہم پڑھنا لکھنا اس لئے نہ سکھائیں کہ اس سے ہمیں کچی یا پکی نوکری ملے گی بلکہ لکھنا پڑھنا اس لئے ہو کہ اس سے ہمارے ذہن کھلیں گے، ہماری سوچوں کو جِلا ملے گی، ہمارے افکار سدھریں گے، ہماری شخصیت میں نکھار آئے گا اور ہمارا کردا ر بنے گا۔
حکیم محمد سعید (مرحوم) نے یہ بات اپنی زندگی میں بار بار کہی کہ تعلیم بہت ہو چکی اب تربیت ہونا چاہئے۔ اس بات سے اُن کا مقصد بالکل واضح تھا کہ اب ہمارے تعلیمی اداروں کو اپنی  نہج تبدیل کرکے لوگوں کو محض خواندہ بنانے سے بڑھ کر اُنکی ایسی تربیت کرنا  چاہئے جس سے وہ ایک بہتر انسان، اچھے شہری اور معاشرے کے کار آمد فرد بن سکیں۔
اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں اور درس گاہوں کا انتظام چلانے والے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ کسی بھی درسگاہ، خواہ وہ  کسی دیہات کا ایک پرائمری سکول ہی کیوں نہ ہو، اپنے یہاں داخل ہونے والے بچوں کی شخصیت کی تنظیم اور کردار سازی پر آمادہ و تیار نہیں ہو جاتی کچھ نہیں بدل سکتا۔ سب کچھ ایسا ہی رہے گا۔ نہ جہالت ختم ہوگی اور نہ کرپشن۔
تعمیر و  تنظیمِ شخصیت اور کردار سازی کے کام کا آغاز کرنے کے لئے نہ تو کسی دوسرے ملک سے ماہرین منگوانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی عالمی ادارے کے سامنے امداد کے لئے دستِ سوال دراز کرنے کی کوئی حاجت۔ ضرورت ہے تو صرف اپنے اندر یہ ارادہ کرنے کی کہ ہ  اپنے بچوں کو ایسی تربیت دے کر رہیں گے جس سے اُن کی شخصیت ابھرے اور ان کا اندر کا اچھا انسان پوری طرح سے باہر آسکے۔ انہی عمارات، انہی میز کرسیوں ، ڈیسکوں یا ٹاٹوں اور چٹائیوں پر بیٹھنے والے طلباء کو یہی اساتذہ جو کچھ بتا اور سکھا رہے ہیں اُس میں اتنی سی تبدیلی ہی تو لانا ہے کہ بتانے والے کے جذبات اور زاویہ نظر بدل جائیں، اس کی اپنی شخصیت اتنی مسحو رکن  ہو جائے کہ بچے اُس کی بتائی ہوئی بات کو اپنانے کے لئے مچل مچل جائیں، ان کو سکھانے والے کا کردار اتنا شاندار نہ سہی اتنا جاندار تو ہو کہ وہ خود بچوں کے لئے ماڈل بن جائیں نہ کہ وہ تاریخ کے ایسے کرداروں کو ہی ڈال بنا کر پیش کرتے رہیں جن کے بارے میں بڑے ہوکر بچوں کے نظریات اُلٹی قلا بازی کھا جاتے ہیں۔
ہوسکتا ہے سوچنے میں یہ کام بہت دشوار ہو لیکن درحقیقت اتنا دشوار ہر گز نہیں ہے۔ اس ام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ صرف اپنے اندر خلوص پیدا کرنے کی، اپنے کام سے محبت پیدا کرنے کی اور اپنے اندر دوسروں کی بہتری کے لئے کوشاں ہونے کی خواہش کو پروان چڑھانے کی۔ جب تک ہم اپنے اندر یہ صفات پیدا کرنے سے کتراتے رہیں گے ہم دوسروں سے اور خصوصاً اپنے شاگردوں، طلباء اور تلامذہ سے کس منہ سے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ وہ ان صفات کے حامل ہوں۔ یاد رکھنے کو اتنا ہی بہت ہے کہ اگر ایک کام ہم خود نہیں کرسکتے تو دوسرے سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہمارے کہنے پر اسے کرتا رہے گا، ایک خوش فہمی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
اگر ہمارے تعلیمی اداروں کے مالکان درس و تدریس کے اس پیغمبری کام کو پروفیشن  (Profession)  کے بجائے اس کو اپنا پیشن (Passion)  بنالیں تو کیا  اُن کی کمائی میں کوئی کمی واقع ہو جائے گی  یا اُن کو تنخواہ نہیں ملے گی؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں اُس کو بہتر انداز اور زیادہ  سلیقے سے کرنے میں آپ کی نیک نامی میں اضافہ ہی ہوگا، کمی نہیں۔ دوسروں کا بھلا ہوگا تو آپ کا کیسے نہیں ہوگا؟
اس وقت جو صورتِ حال ہے اس پیشِ نظریہ بات بڑے ہی و ثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ پیشن   (Passion)  تو بہت دور کی بات ہے، اس وقت تو ہم اس کو بطور پروفیشن  (Profession)  بھی نہیں کر رہے ۔ اگر درس و تدریس کو ہم نے پروفیشنل اپروچ کے ساتھ ہی نبھایا ہوتا  تو بھی حالات اتنے دگر گوں نہ ہو چکے ہوتے کہ سرِ عام ڈگریاں تک بکنے لگتیں اور ملک انتہائی کرپٹ ممالک کی فہرست میں شامل ممالک کی سربراہی کے اعزاز سے نوازا جا رہا ہوتا۔ ایٹمی طاقت ہونے کے اعزاز سے مشرف ہونے کے باوجود  خطِ غربت کے حوالے سے ۱۴۷ واں ملک بن کر فخر سے پھولے نہ سما رہا ہوتا۔
اس وقت ہمارے تعلیمی ادارے اور درس گاہیں درپیش حالات کے دباؤ، اپنے مفادات اور وقتی فوائد کے حصول کی خاطر محض درسی اور نصابی سرگرمیوں (Academics)  تک محدود ہو کر رہ چکے ہیں۔ غیر نصابی (Extra Curricular)   سر گرمیوں کا مطلب سال میں ایک آدھ بار سٹڈی ٹور کے نام پر پکنک منانے کا مترادف بن چکا ہے۔
نصابی سرگرمیوں کا مفہوم محدود ترین معنوں میں لیتے ہوئے تعلیمی اداروں میں نصاب میں شامل کتب کی خواندگی کروانا اور انہیں حفظ یاد کروانا کافی  سمجھا جاتا ہے۔  اس کی بنیادی وجہ ہمارا امتحانی نام ہے، جو حافظے کی بنیاد پر قابلیتوں کی سند جاری کرکے یہ باور کروا رہا ہے کہ لوگوں میں لیاقت اور اہلیت بھی پیدا کر دی گئی ہے۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ گریجویشن کرنے تک ایک مضمون کی محض ایک کتاب پڑھنے میں پورا ایک سال اور بعض صورتوں میں تو دو سال کا عرصہ بھی  صرف ہو جاتا ہے اور اُس کے باوجود کتاب ہے کہ ختم ہوکر نہیں دیتی۔ اکثر طلباء اس امر کی شکایت کرتے ملتے ہیں کہ ہمارا کورس مکمل نہیں ہو سکا اب ہم امتحان میں کیا کریں گے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب طلباء کتابوں سے ہی بیزار ہوکر نصاب کی اصل کتب کی بجائے گائیڈوں اور خلاصوں پہ تکیہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں ہمارا کتب بینی کے ذوق کے فقدان کا ماتم کیا معنیٰ رکھتا ہے؟
کتنے تعلیمی ادارے ایسے ہیں جہاں طلباء میں غور و فکر کی صلاحیتوں کو ابھارنے، ان  میں سوچ بچار کی عادت کو راسخ کرنے اور معاملہ فہمی کی تربیت دینے کا کوئی باقاعدہ انتظام ہے؟ شاید ایک بھی نہیں۔بلکہ یہاں تو حالت یہ ہے کہ اگر کوئی بچہ فطری تجسس سے مجبور ہوکر کسی بات کو سمجھنے کے لئے پہ در پہ چند ایک سوال پوچھ لے تو اس کو ڈانٹ دیا جاتا ہے اور بعض اداروں میں تو ایسے بچوں کو سزا تک دینے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اس کی بالکل سامنے کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ خود اساتذہ کرام ایسی صفات سے عاری اور نابلد ہونے کے سبب بچوں کو بھی ان سے محروم کرنا ضروری گرد انتے ہیں۔ حالانکہ اگر فقط اسی بات کو یقینی بنا لیا جائے کہ بچوں کو اُن کے پوچھے گئے سوالوں کے تسلی بخش اور شافی جواب ملیں اور سوال پوچھنے والے بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو طلباء کے اندر غور و فکر کرنے کی صلاحیت ابھرنے کے امکانات بہت بڑھ سکتے ہیں۔
اسی طرح  تعمیر و تنظیمِ شخصیت حوالے سے دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی ایسا طالبِ علم ہو جو اپنی شخصیت کی دلکشی کا ذمہ دار اس تعلیمی ادارے کو قرار دینے پر آمادہ ہو جہاں اس نے تعلیم پائی ہو۔ خوش مزاجی،برداشت اور وسیع القلمی سے آراستہ بچہ ہر ایک کو بھلا لگتا ہے۔ ان صفات کو بچوں میں پیدا کرنے اور ابھارنے کے لئے تعلیمی ادارے کے ماحول میں جو تبدیلی ناگزیر ہے وہ یہ ہے کہ اُس میں ڈر اور  خوف کی بجائے تقدیس کا احساس ہو۔ ڈسپلن کی بنیاد خوف کی بجائے احترام کروانے کے لئے محض احکامات کا سہارا لینے کی بجائے اساتذہ کو اپنی شخصیت میں سر  بلندی اور وقار پیدا کرنا ہوگا۔
اس کا ایک آسان اور مجرب طریقہ تعلیمی ادارے میں بچوں کے شخصی اور ذاتی مسائل کے حل اور ان کی پریشانیوں کا علاج تجویز کرنے کا ایک علیحدہ انتظام کر دینا بھی ہو کتا ہے۔ اس انتظام کا فوری فائدہ ایک تو یہ ہوتا ہے کہ بچوں میں اپنے اساتذہ پہ بھروسہ اور اعتماد بڑھ جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ اساتذہ کو یہ موقع بھی ملتا ہے کہ وہ اپنے تلامذہ میں پیدا ہونے والے کسی بھی قسم کے احساس کمتری یا بر تری کا بروقت تدارک کر سکتے ہیں۔ اس سے جہاں ایک طرف بچوں کے مسائل کے حل ہونے کی راہ نکلتی ہے وہاں دوسری طرف بچوں کے دل میں اپنے اساتذہ کے لئے محبت اور احترام کے جذبات جا گزیں ہونا شروع ہو تے ہیں۔
اسی طرح کردار سازی کی  بابت بھی کسی درس گاہ یا تعلیمی ادارے میں کوئی خاص انتظام یا اہتمام نہیں ملتا۔ جہاں کہیں کوئی کوشش اور کاوش ہو بھی رہی ہوتی ہے تو اس کو محض ایک انفرادی استثنا کے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ کسی بھی انسان کے کردار کی سب سے بڑی خوبی اس کا مخلص ہونا ہے۔ محض خطوط کے آخر میں 'فقط آپ کا مخلص' لکھنا سیکھ لینے  سے کوئی نہ تو مخلص ہوا ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ اس خوبی کو اپنے اندر باقاعدہ کاشت کرنا پڑتا ہے، ہر روز ہر دن اور ہر لمحہ اس کی مشق کرنا پڑتی ہے تب کہیں جا کر دوسروں کو اس خوبی کے آپ کے اندر موجود ہونے کی اطلاع ہوتی ہے۔
اگر اساتذہ خود مخلص ہوں گے تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اُن کے تلامذہ بھی  اس خاصیت سے متصف ہو جائیں گے۔ مخلص ہونے کی بات کی جاتی ہے تو ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ یہ تو بہت مشکل اور ناممکن امر ہے۔ جب کہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ خلوص کا تعلق انسان کے طرزِ فکر سے ہوتا ہے۔ اگر انسان کی سوچ میں اخلاص ہے تو وہ اپنے ساتھ مخلص ہوگا، اپنے کام سے مخلص ہوگا، اپنے متعلقین کے ساتھ مخلص ہوگا، اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ مخلص ہوگا۔ علمائے باطن کے نزدیک خلوص اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ انسان کسی بھی کام کو محض اس لئے کرے کہ وہ کام ہو جائے اور اس ضمن میں کسی لالچ اور خوف کو آڑے نہ آنے دیا جائے۔ اس کا سیدھے سادھے الفاظ میں یہی مطلب بنتا ہے کہ انسان کام اس لئے نہ کرے کہ اُس کو معاوضہ ملے گا یا یہ کام نہ ہوا تو تنخواہ کٹے گی یا کوئی اور سزا ملے گی۔ ہر وہ کام جو معاوضے کے لالچ اور سزا کے خوف سے بالاتر  ہو کر کیا جائے، وہ خود بخود اخلاص کے دائرے میں آجاتا ہے۔ اس بات کی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ ایک مخلص انسان کردار کی تمام اعلیٰ صفات سے رفتہ رفتہ خود بخود و متصف ہوتا چلا جاتا ہے۔
تعلیمی اداروں اور درس گاہوں کے حوالے سے درحقیقت یہ وہ چند باتیں ہیں جن کی کمی کو ہر آدمی کا شعور محسوس تو کرتا ہے لیکن اپنے علم کے ادھورے پن کے سبب ان کی نشاندہی سے قاصر رہتا ہے یا اس کو مناسب الفاظ میں ظاہر کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا ۔ اگر تعلیمی اداروں اور درس گاہوں کے منتظمین یہ طے کر لیں کہ وہ نصابی درس و تدریس کے علاوہ ایسی غیر نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کریں گے جوا ن کے یہاں تعلیم پانے والے طلباء کو ایک بیدار مغز، معاملہ فہم اور مخلص انسان بننے میں مدد کر سکیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں اچھے انسانوں کی کمی پوری نہ ہو۔
مخلص لوگ ناقد اور عیب جو نہیں ہوا کرتے۔ تنقید برائے تنقید اور عیب جوئی کا فن ہمیں ہمارے تعلیمی اداروں میں کچھ اس انداز میں تعلیم کیا جاتا ہے کہ ہم ساری زندگی اس ہنر کی مشق کرتے اسی فن میں طاق ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس سے نہ کبھی کوئی خامی دور ہو سکی ہے اور نہ ہی کبھی کوئی بہتری پیدا ہو سکی ہے۔ اس سے صرف اتنا ہی ہوا ہے کہ آج ہمیں کسی بھی شخص میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی ۔ اس اکا ایک نہایت منفی اثر ن یہ نکلا ہے کہ ہر آدمی اپنی خامیاں دیکھنے کی بجائے اپنی مفروضہ خوبیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہو چکا ہے۔ اگر ہماری تعلیمی اداروں میں اس بات کا تھوڑا سا بھی اہتمام کر لیا جائے کہ خامیاں تلا ش کرنے کی بجائے خوبیاں تلاش کرنے کا  زاویہ اپنا نے پہ اصرار ہو تو لوگوں کو اپنی خامیاں اور دوسروں کی خوبیاں بھی نظر آنا شروع ہو سکتی ہیں۔
انبیاء کی طرزِ فکر کے تحت کسی  کا احتساب کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے اور کرنا ہی ہے تو خود اپنی عیب جوئی کریں، خود اپنی غلطیوں کا محاسبہ کریں، خود اپنے کئے گئے کاموں پہ تنقید کو اپنا شعار بنائیں نہ کہ دوسروں کی عیب جوئی اور تنقید کو اپنا شعار بنا کر کڑھ کڑھ کر بیمار ہوتے رہیں۔ خود احتسابی کے جہاں اور  بہت سے فائدے ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خود احتسابی کا عادی انسان خود کو بہتر سے بہتر بنانے کا جذبہ رکھنے کے سبب خود کو ترقی دینے اور بڑھانے کی طرف مائل رہنے کی عادت اپنا لیتا ہے۔ اس امر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کبھی نہ کبھی حسبِ دلخواہ کامیابی سے ضرور ہمکنار ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس عیب جوئی کی عادت میں مبتلا لوگ کسی کا کچھ بھلا کر سکیں یا نہ کر سکیں خود کو دوہرے نقصان سے ہر وقت کو دوسروں کے عیبوں کی بات کرنے میں صرف کیا اور دوسرے یہ کہ لوگوں کے نقائص کی تلاش میں اپنی غلطیاں نظر سے اوجھل ہونے لگتی ہیں۔ اچھی باتوں کے فائدے ہوتے ہیں اور اس کی وجہ ے ہم یہ طلب تو ضرور رکھتے ہیں کہ ہم سب ایسا ہی کریں لیکن وہ جہاں پہ ان سب باتوں کی عملی تربیت مل  سکتی ہے وہ جگہ ہیں ہمارے تعلیمی ادارے۔ وہاں پہ ان باتوں کو باقاعدہ سکھانے کا اہتمام کرنے کی ضرورت پہ توجہ دینے کا خیال اگر اب بھی اپنا لیا جائے تو بہت کچھ بہتر ہو سکتا ہے۔
تعلیمی اداروں کی پالیسی میں اگر یہ بات شامل ہو کہ وہ تعلیم دینے کے کام کا خواہ بزنس سمجھ کر کریں یا اسے ایک مشن مان کر کریں، وہ اس کام کو پوری  ایمانداری اور دیانت سے سرانجام دیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ اُن کے اساتذہ بچوں کی لکھائی درست کرنے ، اُن کو سبق یاد کروانے، اُن کی مشکلات کو حل کرنے ، اُن کو کردار اور شخصیت کے اعلیٰ اوصاف سے متصف کرنے اور اُن میں غور و فکر اور تحقیق اور جستجو کا مادہ پیدا کرنے میں  کوئی کوتاہی کرنے کے مرتکب ہو سکیں۔ جب کسی تعلیمی ادارے کی ترجیحات میں یہ باتیں شامل ہو جائیں گی تو لا محالہ وہ ادارے اپنے اساتذہ  کی تربیت پہ بھی توجہ دے سکیں گے ۔ اساتذہ کی تربیت اور اُن سے مناسب انداز میں کام لینے کی ذمہ داری بہر حال تعلیمی اداروں کے سر ہی جاتی ہے۔

اس کے ساتھ سا تھ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کس استاذ میں کتنے بچوں کو سنبھالنے کی کتنی سکت ہے، اور کس استا ذ  کو کون سی اور کتنی ذمہ داری دی جانی چاہئے۔ اگر کسی تعلیمی ادارے کی انتظامیہ ان باتوں کا خیال رکھنے میں کامیاب نہیں ہے تو اُس کو اپنا فرض نبھانے میں دشواریوں کا سامنا رہنا کوئی اچنبھے کی بات  نہیں ہو سکتی۔

Featured Post

Adiala Jail's monitoring is strict, meetings are limited, 3 members of the party will be allowed to meet Pakistan Tehreek-e-Insaf founder Imran Khan, Naeem Panjotha, Khalid Shafiq and Naseeruddin Nair.

Adiala Jail's monitoring is strict, meetings are limited, 3 members of the party will be allowed to meet Pakistan Tehreek-e-Insaf founde...