کلیدی کردار

کلیدی کردار
والدین، حکومت ، اساتذہ اور طلباء نظامِ تعلیم کے ایسے اراکین ہیں کہ اگر ان میں سے ایک رکن بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کا مرتک ہو ہزار کوششوں کے باوجود ہم تعلیمی میدان میں اس نتیجے کی توقع نہیں کر سکتے جس کی آرزو  ہر سمجھدار اور ذہنی شعور انسان کرتا ہے اور اس کا خواب دیکھتا ہے۔ ہمیں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جہاں والدین یا اساتذہ کی انفرادی طور پر کی گئی  کا وشوں کے سبب بہت سے طلباء قابل، محنتی، با صلاحیت اور باشعور افراد بن کر اپنے اور معاشرے کے لئے سود مند ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مجموعی طور پر صورت حال قابلِ فخر اور اطمینان بخش تو کجا محض تسلی بخش بھی نہیں کہی جاسکتی۔
تعلیمی نظام کے حوالے سے دیکھا جائے تو اجتماعی طور پر والدین اور اساتذہ کرام دونوں کے کردار، یہاں کردار کے ہر دو مفہوم  (Role and Character) میں بہتری اور اصلاحِ احوال کی ضرورت سے انکار کی گنجائش کم  ہی نکلتی ہے۔ یہ نہیں کہ تمام تر ذمہ داری اساتذہ کے سر ڈال دینے کے بعد والدین کا کردار ختم ہو جاتا ہے یا یہ کہ بچے کو اسکول بھیجنے سے پہلے والدین کو بچے کی تربیت مکمل کر لینی ضروری ہے۔ یہ دونوں ہی باتیں اگر ممکن بھی ہوں تو بھی درست قرار نہیں دی جاسکتیں۔
بچوں کی پرورش، نگہداشت اور پرداخت کے علاوہ بچوں کی شخصیت کی تعمیر اور اُن کے کردار کی خوبیوں کے حوالے سے والدین کا کردار جبکہ بچوں کی تعلیم و تربیت، علم و آگہی اور اُن کو باشعور بنانے کے حوالے سے اساتذہ کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل مانا تو جاتا ہے لیکن کتنے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کی تربیت سے خود بھی مطمئن ہیں اور ان کے بچے بھی اپنی شخصیت اور کردار کی خوبیوں کو اپنے والدین کی تربیت کا اعجاز مانتے ہیں؟ کہنے کی حد تک تو ہر بچہ مانتا ہے کہ اُس کے والدین نے اُس کی پرورش میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کی لیکن جب کبھی وہ اپنے والدین سے شکوہ کرتا ہے تو یہی کہتا  ہے کہ انہوں نے وہ سب کچھ نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیئے تھا۔
اس صورت حال کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ خاندان جہاں والدین ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا بہت خیال  رکھتے ہیں ایسے والدین کی اولاد نیک اور سعادت مند ہونے کے علاوہ شخصیت اور کردار کی خوبیوں سے بھی مالا مال ہوتی ہے۔ اس لئے ہر ماں باپ کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی خاطر ایک دوسرے سے ذہنی اور قلبی ہم آہنگی کا محض اظہار ہی نہ کریں بلکہ اس کو سچ مچ پیدا کریں اور اس کو باہمی معاملات میں فروغ بھی دیں۔
دیکھا جائے تو ہر بچے نے ایک نہ ایک روز شوہر یا بیوی اور پھر ماں یا باپ بننا ہوتا ہے لیکن نہ تو کسی لڑکے کو یہ سیکھایا جاتا ہے کہ شادی کے بعد ایک اچھا شوہر اور جب صاحب اولاد ہو جائے  تو وہ خود کو ایک اچھا باپ کیسے اور کیونکر ثابت کرسکتا ہے۔ اور نہ ہی کسی لڑکی کو یہ بات سمجھائی جاتی ہے کہ بڑے ہوکر اس نے محض گھرداری ہی نہیں کرنی بلکہ ایک کامیاب بیوی اور بہترین ماں بھی بننا ہے۔ اور اگر کچھ سمجھدار مائیں اپنی بچیوں کو اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں کچھ بتا بھی دیتی ہیں تو وہ اتنا  مؤثر  اس لئے ثابت نہیں ہوتا کیونکہ بچیوں نے اس کو سیکھنے کے حوالے سے نہیں سنا ہوتا۔ کسی  بات کو محض بتا دینے اور درست انداز میں سیکھانے میں جو فرق ہے اُس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔
پوری دنیا میں جہاں کہیں کسی نے اس بات کی ضرورت اور اہمیت پہ زور دیا بھی ہے تو وہاں اس سے زیادہ سے زیادہ بچوں کو جنس کی بابت  تعلیم دیا جانا ہی مراد لیا گیا ہے ۔ جب کہ شادی کے بعد کی زندگی میں جنس کا عمل دخل ایک جزو تو ضرور ہے لیکن سب کچھ یہی تو نہیں ہے۔ لڑکوں کو بطور شوہر اور والد  انکے فرائض سے آگاہ کر دینا ہی کافی نہیں ہوسکتا بلکہ اُن کو اپنے فرائض سے بخوبی عہدہ برآ ہونے کا ہنر اور فن دونوں سیکھائے جانے ضروری ہیں۔ اور اسی طرح لڑکیوں کو بطور بیوی اور پھر ایک ماں ہونے کے ناتے اپنے فرائض سے با احسن و خوبی عہدہ برآ ہونا سیکھایا جانا چاہئے۔ میاں بیوی کے مابین تنازعات کی سب سے بڑی وجہ یہ دیکھی گئی ہے کہ یہ دونوں اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی کی بابت اتنے چوکنے نہیں ہوتے ہیں جتنا کہ وہ اپنے حقوق کو پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
یعنی اگر ہر بچے کو خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی اگر والدین اور اساتذہ اس بات کی تعلیم دیں کہ ان کو اپنی عملی زنگی میں ہر حیثیت میں پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ اپنے فرائض سے بخوبی عہدہ برآ ہو رہے ہیں یا نہیں۔ اگر یہ بات ان کے اندر راسخ ہو جائے گی کہ انہیں اپنے حقوق کی طلب کی بجائے اپنے فرائض کی ادائیگی کو اولیت دینا ہے تو پھر گھر ہو یا دفتر ، کاروباری معاملات ہوں یا  ازد واجی زندگی کے مسائل، وہ ان سب سے بحسن و خوبی نپٹ سکیں گے، ورنہ بصورت دیگر ہر وقت شکوہ اور شکایت، کھنچاؤ  اور تناؤ ، بک بک جھک جھک اور لڑائی جھگڑے سے مفر کی کوئی صورت نظر آنا محال ہی ہے۔
اگر ماں باپ آپس میں ذہنی ہم آہنگی اور قلبی لگاؤ  رکھتے ہوں گے تو ان کی اولاد بھی سکون آشنا  ہوگی اور اُن میں کسی قسم کی کوئی نفسیاتی الجھن اور پیچیدگی بھی پیدا نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس صورت حال میں اولاد کھنچاؤ اور تناؤ کا شکار رہنے کے سبب متعدد نفسیاتی الجھنوں اور پیچیدگیوں کا شکار ہو سکتی ہے۔ ایسی الجھنوں میں سرِ فہرست تو یہی بات ہے کہ بچوں کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا۔ بلکہ یہ کہنا  زیادہ درست ہوگا کہ لگ ہی نہیں سکتا ۔ اس لئے اساتذہ کرام کو چاہئے کہ وہ ایک طرف تو بچوں و بہتر والدین بننے کے گُر تعلیم کریں اور دوسری طرف والدین کی توجہ اس طرف مبذول کروانے کا جتن کریں کہ ان کو خانگی زندگی میں پر سکون رویئے اپنانے چاہئیں۔
اسی طرح والدین کو اپنے بچوں کے رویوں پہ بہت کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر بچے کا رویہ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں ، خاندان کے دیگر افراد، دوستوں اور گھر سے باہر کے افراد سے ایسا ہے جس سے تلخی پیدا ہوتی ہو تو اس کی اصلاح کی فوری کوشش ہونی چاہئے۔ یہی رویئے بعد میں پختہ اور راسخ ہوکر بچے کی آئندہ زندگی میں مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ جہاں تک انسانی رویوں کے بننے اور ان کی اصلاح کا تعلق ہے تو اس کے لئے ہمیں انسان کی طرزِ فکر کو مثبت طرزوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انسان کا کوئی بھی رویہ ہو وہ اُس کی طرزِ فکر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اگر انسان کی طرزِ فکر میں مثبت طرزیں راسخ ہوں تو اس کا ہر رویہ مثبت ہوتا ہے۔ یعنی اگر طرزِ فکر میں اخلاص اور ہمدردی ہوگی تو ایسے انسان کا ہر رویہ خلوص اور ہمدردی کا حامل ہوگا اور اگر طرزِ فکر میں لالچ اور خود غرضی کا عنصر شامل ہوگا تو پھر انسان کے ہر رویئے میں بھی یہی بات نمایاں ہوگی۔
اگر ماں باپ تنقید و تنقیص کے عادی ہوں اور ہر بات کا منفی رخ دیکھنے ، ہر بات پہ غصہ اور جھنجھلاہٹ کا اظہار کرنے کی عادت میں مبتلا ہوں تو اولاد پہ ہر وقت ایک بے جا دباؤ رہتا ہے۔ یہ دباؤ ب بچوں کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو دیمک بن کر چاٹ جاتا ہے۔ بچے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہونے کی سبب اندیشوں ، وسوسوں اور خوف کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ گھر میں نظم و ضبط برقرار رکھنا ایک فن سے کم نہیں ہوتا۔ یہ بہت ضروری ہے، لیکن اس کے لئے خوف اور دباؤ پیدا کرنے سے پرہیز ہی کرنا چاہئے۔ خوف کا شکار رہنے والے افراد کا شعور کچھ ایسی طرزوں کا حامل ہو جاتا ہے جو ان کو کسی بھی کام کا آغاز کرنے، اُس کو بحسن و خوبی پایہء تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت سے محروم کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خوف کا شکار رہنے والا بچہ کسی بھی کام کا آغاز خود اعتمادی سے نہیں کر سکتا۔ اب اس کے بعد اس صورت حال سے پیدا ہونے والے نتائج کا اندازہ کرنا کچھ اتنا بھی دشوار نہیں رہ جاتا۔
خود اعتمادی سے محرومی زندگی میں قدم قدم پر دشواریوں کا موجب تو بنتی ہی ہے، اس کے باعث ہونے والی ناکامیاں انسان کی شخصیت میں طرح طرح کی پیچیدگیوں کو بھی جنم دیتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بچوں کو اتنی کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ وہ آزادی اظہار کا مطلب گستاخی اور بدتمیزی ہی لے بیٹھیں۔ توازن اور اعتدال کا دامن جہاں بھی ہاتھ سے چھوڑا جاتا ہے بہترین صفات بھی بری لگنے لگتی ہیں۔ اس لئے والدین کو اپنے بچوں کی تربیت کے ہر ہر مرحلے پہ خود بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے اور ساتھ ساتھ بچوں میں بھی یہ بات راسخ کرنی چاہئے کہ وہ میانہ روی اور معتدل رویئے کو بہر صورت قائم رکھیں۔
بچے اپنی بات منوانے کے لئے عموماً ضد کا  ہتھکنڈا استعمال کرتے ہیں۔ بچوں کی کونسی بات کب ماننی چاہئے یہ فیصلہ ماں باپ کو کرنا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فرمائش کرنا بچوں کا حق ہوتا ہے لیکن فرمائش کو پورا کروانے کے لئے ضد کرنے کا حق دینے سے بچوں میں غلط رحجانات پیدا ہونا فطری بات ہے۔ معروف روحانی سکالر جناب خواجہ شمش الدین عظیمیؒ اپنی والدہ صاحبہ کے اندازِ تربیت کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی بچہ دسترخوان پہ بیٹھ کر یہ ضد کرتا کہ وہ یہ نہیں کھائے گا بلکہ فلاں چیز کھانا چاہتا ہے تو والدہ محترمہ اس کو یہ کہ کر  دسترخوان سے اٹھا دیا کرتی تھیں "تمہیں بھوک نہیں ہے، تم رہنے دو"۔ اور جب بچے کو بعد میں بھوک لگتی تو وہ خو ہی اپنے لئے رکھا کھانا یا کرتا ۔ اگر بچے ضد کرتے تو وہ کچھ زیادہ پراہ نہیں کیا کرتیں۔ ہا البتہ اگلے روز دسترخوان پہ اس بچے کی فرمائش کو پورا کرنے کو اس کی پسندیدہ چیز  موجود ہوتی۔
بعض بچوں میں فطری طور پر انرجی کچھ زیادہ ہوتی ہے اور کچھ کرنے کی خواہش کے جذبے کے زیرِ اثر بعض اوقات جذباتیت اور انتہا پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسے بچے کے والد نے جب یہ محسوس کیا کہ اس کا بچہ جذباتی اور انتہا پسند ہوتا چلا جا رہا ہے تو اُس نے ایک دن موقع دیکھ کر، جب بیٹے نے اپنے کسی کام میں درپیش الجھن کی بابت اُسے رائے طلب کی تو اُس نے اُس کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
'بیٹا ! انفرادی سطح پہ انتہا پسندی کبھی کبھی مثبت نتائج ضرور دیتی ہے لیکن اجتماعی سطح پہ جہا دوسروں سے واسطہ ہوتا ہے یہ انتہائی مضر ہو جاتی ہے کیونکہ دوسرا شخص چونکہ آپ کی رفتارِ فکر اور قوت کار کا ساتھ نہیں دے سکتا اور اس وجہ آپ کو مسئلہ پیش آتا ہے لہٰذہ اگر اس مسلئے کو حل کرنا چاہتے ہو تو دوسروں کا خیال رکھنا سیکھو اور جذباتی ہو کر مت سوچا کرو'۔
یہ اندازہ کرنا کہ اپنے والد کے اس متوازن اور پرُ حکمت تبصرے نے اُس بیٹے پر کیا اثر مرتب کیا ہوگا کچھ اتنا دشوار بھی نہیں۔ مذکورہ مثال میں خاص طور پر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اُس باپ نے بیٹے کے مسلے کو وقتی اور فوری طور پر حل کرنے کی بجائے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اُس کو ایک اسی بات تعلیم کی جس سے بچے کی شخصیت میں پیدا ہونے والی ممکنہ کجی کا سدِ باب بھی ہوسکے اور بچے کو خود اُس کی اپنی شخصیت کو سنورنے کی مائل کر دینے کی زبر دست حکمت بھی نظر آتی ہے۔
ہمارے بزرگوں اور اسلاف کی تعلیمات میں ایک بات بہت چرچا رہا ہے۔ وہ 'با ادب، با نصیب اور بے ادب ، بے نصیب' کے مقولے کے بہت زیادہ قائل تھے۔ ان کی سوچ کچھ غلط بھی نہ تھی آج بھی ہر  ماں اور ہر باپ اپنی اولاد سے یہ توقع رکھتا ہے کہ اس کے بچے اسکا  ادب اور لحاظ کریں۔ سطحی سوچ کے عام ہونے کے سبب جہاں اور بہت سی باتوں کا مفہوم خبط ہوکر رہ گیا ہے اور ان کی اصل روح سے ہم دور ہوچکے ہیں وہاں اس مقولے کا بھی کچھ ایسا ہی حشر ہوا ہے۔ آج کل ادب کا مفہوم کہی گئی بات کو اُ س کی اصل روح کے مطابق ماننے اور اس پہ عمل پیرا ہونے کی بجائے خاموش ہو رہنا اور سوال نہ پوچنے کا  متبادل ہوچکا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو اس بات کا فرق ضرور تعلیم کریں کہ با ادب ہوکر با نصیب بننے کے لئے لازم ہے کہ کہی گئی بات کی اصل روح کو سمجھنے ، اس کو ماننے اور اس پر اچھی طرح  سے عمل کرنے سے کیا ہوتا ہے اور کہی گئی بات پہ سوچنے اور اس سمجھنے کی زحمت گوارا نہ کرنے، اس کونہ ماننے اور اس پہ عمل نہ کرنے کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ظاہر ہے ان نتائج کو بدنصیبی کے علاوہ اور  کچھ بھی تو نہیں کہا جاسکتا ۔
کسی بھی بچے کے والدین اس امر کو کسی بھی طور یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ ان کے بچے اپنی زندگی میں کسی بھی قسم کی بدنصیبی کا سامنا کریں۔ اس کے لئے اپنے بچوں کو با نصیب بنانے کے اس چھوٹے سے چٹکلے پر عمل کرنے اور اپنے بچوں کو با ادب بنانے کے لئے والدین میں شعور اجاگر کرنے کی جو ضرورت ہے اس سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے۔ یہ بات بہر حال طے ہے کہ اس کام میں اگر چہ والدین کی تربیت بنیادی  کردار ادا کرسکتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے  کہ اساتذہ کرام اپنے تلامذہ، شاگردوں اور  طلبا ء میں یہ صفت پیدا کرنے کی ذمہ داری سے فارغ ہی کر دیئے جائیں۔ بچوں میں یہ صفت اور خوبی پیدا کرنا سب سے پہلے بچوں کی اپنی ذمہ داری قرار پاتی ہے۔ دوسرے نمبر پہ والدین، تیسرے نمبر پر اساتذہ کرام کی اور اس کے بعد معاشرے کے ہر فرد کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس بات پہ نہ صرف ف خود عمل پیرا ہو بلکہ دوسروں کو بھی اس بات کی تلقین کو اپنا شعار بنا لے ۔ یہاں اس  بات کا اعادہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ انسان کے ست بستہ کھڑے ہوکر مودب ہونے کی ادا کاری کرنے سے نہ کبھی کوئی با ادب بن سکتا ہے اور نہ ہی بانصیب ۔ بانصیب بنا دینے والے ادب کا اصل مفہوم، نہ صرف یہ کہ، خود سمجھا جانا ضروری ہے بلکہ دوسروں کو بھی سمجھایا جانا لازم آتا ہے۔ ورنہ تو بڑے ہوٹلوں میں دست بستہ ، منظرِ حکم اور مودب کھڑے بیروں اور دفاتر کے باہر کھڑے چپڑاسیوں سے بڑ ھ کر اور کون بانصیب ہونے کا حقدار ہو سکتا ہے؟


Comments

Popular posts from this blog

GUIDANCE NEEDS AND PROBLEMS OF YOUNG PEOPLE

HISTORY OF THE GUIDANCE MOVEMENT

"Aims and Objectives of Education"