اعتراض:
اگر خدا ایک ہے تو
دین (قانون) بھی ایک ہونا چاہیے۔ کسی امت کے لیے ایک چیز حرام اور دوسری امت کے لیے
وہی چیز حلال کیوں ہے؟
الزامی جواب:
تمھارے ملک میں
حکومت ایک ہی ہے لیکن بچوں، بڑوں اور فوجیوں کے قوانین مختلف ہیں۔ کیا اس سے حکومتیں
کئی ہو گئیں؟ اگر حکومت کے بدلتے قوانین پر تمھیں اعتراض نہیں تو خدا کے بدلتے
احکام پر کیوں ہے؟
سائلی جواب:
اگر ڈاکٹر ایک ہے
تو پھر سب مریضوں کو ایک ہی دوا کیوں نہیں دیتا؟ کیا ایک ڈاکٹر کی دوائیوں کا فرق
اس کی واحد شخصیت کو ختم کر دیتا ہے؟ تو پھر ایک خدا کے مختلف احکام اس کی وحدانیت
کے خلاف کیسے ہوئے؟
منطقی جواب:
معترض کا اعتراض ایک
مغالطے پر مبنی ہے۔
مغالطہ:
معترض یہ فرض کر
رہا ہے کہ اللہ کی وحدانیت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں ایک ہی قانون ہو۔
حالانکہ اللہ واحد ہے مگر اس کی شریعتیں مختلف زمانوں اور قوموں کی ضروریات کے
لحاظ سے مختلف رہیں۔
مثال بلا تشبیہ:
جیسے ایک ہی ڈاکٹر
ایک ہی مریض کو مختلف اوقات میں مختلف دوائیں دیتا ہے، اسی طرح ایک ہی خدا مختلف
قوموں کے حالات و ضروریات کے لحاظ سے مختلف احکام دیتا رہا۔ تو اختلاف، وحدانیت کے
خلاف نہیں بلکہ حکمت کی دلیل ہے۔
ترکی بہ ترکی جواب:
ایک ہی حکومت ہوتی
ہے مگر پرائمری، سیکنڈری اور یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے مختلف نصاب ہوتے ہیں۔ کیا
اس سے حکومتیں کئی ہو جاتی ہیں؟ بالکل نہیں، ایک ہی حکومت مختلف درجات کے مطابق
قانون دیتی ہے۔
مثالی جواب:
جیسے ایک استاد
پورے سال میں ایک ہی کلاس کو مختلف اوقات میں مختلف اسباق پڑھاتا ہے۔ کبھی ریاضی،
کبھی سائنس، کبھی فلسفہ۔ استاد ایک ہے مگر نصاب مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ ایک
ہے مگر اس نے مختلف امتوں کو ان کے وقت کے حساب سے مختلف شریعت دی۔
اصولی جواب:
اہلِ سنت کے نزدیک
عقیدہ (توحید و رسالت و آخرت) ہمیشہ سے ایک ہے۔ شریعت (جزوی احکام) حالات و مصالح
کے اعتبار سے بدلتے رہے ہیں۔ قرآن میں صاف ہے: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً
وَمِنْهَاجًا (المائدہ: 48) یعنی ہم نے ہر امت کے لیے ایک شریعت اور طریقہ بنایا۔ پس
دین ایک ہے (اسلام) مگر شریعتیں مختلف ہو سکتی ہیں۔
✍️ھارون الرشید ھاشمی
No comments:
Post a Comment