زینب کیس۔۔۔۔ ہولنا ک انکشافات Zainab Murdar Case

زینب کیس۔۔۔۔ ہولنا ک انکشافات

لاہور(ویب ڈیسک) زینب قتل کیس کہنے کو اغوا کے بعد زیادتی اور زیادتی کے بعد قتل کی ایک عام سی واردات لگتی ہے۔ لیکن اس قتل کے پیچھے اتنے ہولناک حقائق ہیں جسے قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ معاملہ سیرل کلر کا ہو یا ٹارگٹ ریپ کا لیکن یہ طے ہے کے سیکورٹی ادارو  کا اس قتل اور اس سے دیگر وارداتو سے جڑے حقائق پر پردہ دالنا ہی عافیت ہے۔نامور کالم نگار جمیل فاروقی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہے۔ جو پردہ اٹھائے گا اس کا انجام بھیانک ہو گا۔ کیونکہ یہ مافیا بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ عام جنسی تشدد اور شہوت سے جڑی واردات میں قاتل کاروائی کرتا ہے اور ثبوتوں کو صاف کرنے کے بعد غائب ہو جاتا ہے لیکن جنسی زیادتی  سے جڑے اس  ہولناک قتل کے دوران زینب کی دونوں کلائیوں کو چھری سے کاٹا گیا۔ گلے کو پھندے سے جکڑا گیا۔ جسم پر بے پنا تشدد کیا گیا۔ اعظائے مخصوص کو تیز دار آلے سے نشانات پہنچائے گئے اور زبان کو نوچا گیا۔  اسے عام طور پر جنسی زیادتی اور تشدد کے واردات میں نہیں ہوتا ایسا کسی اور مقصد کے لیے کیا جاتا ہے اور وہ مقصد بے پنا پیسے کا حصول ہے۔ پیسے سے جڑے جن حقائق سے میں پردہ اٹھانے والا ہوں اس کے لیے آپ کو اپنے دلوں کے ڈھڑکنوں کو تامنا ہو گا۔ دُنیا میں انٹرنیٹ کی ایک ایسی کمیونٹی بھی ہے جسے اگار اپ گوگل سے بھی سرچ کریں تو آپ کو کچھ بھی پتا نہیں چلے گا۔ یہ کمیونی دُنیا کے محتلف حصوں سے انسانی اعٖٖضاء سمیت بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد ان کے تشدد زدہ اعضاء کی تشہرسے وابستہ یہیں نہیں بلکہ اس کمیونٹی سے جڑے لوگوں کو اپنے اپنے ٹاسک پورے کرنے کے لاکھوں ڈالر ادا کیے جاتے ہیں اور پیمنٹ دینے کا طریقہ کار اتنا خفیہ ہوتا ہے کے قانون نافز کرنے والے اداروں کو اس کی بھنک تک نہیں پڑتی اس کمیونٹی تک ایک عام آدمی کی رسائی نہیں ہوتی بلکہ مکمل چھان بین کے بعد دنیا بھر سے سب سے زیادہ قابل اعتماد اور بروسہ مند  لوگوں کو اس کمیونٹی کا ممبر بنایا جاتا ہے۔ ولڈ وائیڈ ویب یعنی انٹرنیٹ پر موجود جنسی ہیجان اور انسانی دسمانی اعضاء کی حریدوفروخت کے گورکھ دھندے سے جڑی اس حقیقت کو ڈارک نیٹ یا ڈارک ویب کا نام دیا گیا ہیں بین الاقوامی جریدوں کے 2007 کے اعدادو شمار کے مطابق اس دھندے سے وابستہ لوگوں کی تعداد چار اعشاریہ پانچ ملین ہے جو کہ کروڑوں ڈالر کی تجارت سے جڑی ہے۔ جنوری 2007 سے دسمبر 2017 تک  اس کاروبار کی صارفین اور ناظرین کی تعداد میں خطرناک حد تک پانچ سو گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ قانونی اداروں اور حفیہ ایجنسیوں کی اس دھندے تک واضح رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اعداد شمار کا یہ تخمینہ اس سے بھی بڑھ کر ہو سکتا ہے۔ اس دھندے کا سب سے اہم جزو پیڈوفیلیا یا وائلنٹ پورن انڈسٹری ہے جس میں بڑی عمر کے لوگ بچوں یا بچیوں سے جنسی فعل کرتےہیں یا ان سے  جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دکھاتے ہیں یہ ڈارک ویب کی سب سے زیادہ منافع پہنچانے والی انڈسٹری ہے۔ تیسری دنیا کےممالک کے بچے اور بچیاں ڈارک ویب پر بیچے جانے والے مواد کا آسان ترین ہدف ہیں۔ ان ممالک میں، بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، ایران، افغانستان اور نیپال شامل ہیں۔  ہیاں پر بھارت میں ہونیوالے رادھا قتل کیس کا حوالہ دینا بہت ضروری ہے 2009 میں بھارتی شہر ممبئ کے ایک اپارٹمنٹ سے رادھا نامی چھ سالہ بچی کی تشدد زدہ لاش ملی تھی جسے جنسی درندگی کے دوران شدید جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئی تھی۔ زبان نوچی گئی تھی اور اعضائے مخصوص پر چھرئیوں کے وار کئے گئے تھے contented...... 

Comments

Popular posts from this blog

GUIDANCE NEEDS AND PROBLEMS OF YOUNG PEOPLE

HISTORY OF THE GUIDANCE MOVEMENT

"Aims and Objectives of Education"